خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الجنّ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ جِنّ مکّیہ ہے، اس میں دو۲رکوع، اٹھائیس ۲۸ آیتیں، دو سو پچاس۲۵۰ کلمے، آٹھ سو ستّر ۸۷۰ حرف ہیں۔

(۱) تم فرماؤ (ف ۲) مجھے  وحی ہوئی کہ کچھ جنوں نے  (ف ۳) میرا  پڑھنا کان  لگا کر سنا (ف ۴) تو بولے  (ف ۵) ہم نے  ایک عجیب قرآن  سنا (ف ۶)

۲                 اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳                 نصیبین کے۔ جن کی تعداد مفسّرین نے نو۹ بیان کی۔

۴                 نمازِ فجر میں بمقامِ نخلہ مکّہ مکرّمہ و طائف کے درمیان۔

۵                 وہ جنّ اپنی قوم میں جا کر۔

۶                 جو اپنی فصاحت و بلاغت و خوبیِ مضامین و علوِّ معنیٰ میں ایسا نادر ہے کہ مخلوق کا کوئی کلام اس سے کوئی نسبت نہیں رکھتا اور اس کی یہ شان ہے۔

(۲) کہ بھلائی کی راہ بتا تا ہے  (ف ۷) تو ہم اس پر ایمان لائے،  اور ہم ہرگز کسی کو اپنے  رب کا شریک نہ کریں گے۔

۷                 یعنی توحید و ایمان کی۔

(۳) اور یہ کہ ہمارے  رب کی شان بہت بلند ہے  نہ اس نے  عورت اختیار کی اور نہ بچہ (ف ۸)

۸                 جیسا کہ کفّار جنّ و انس کہتے ہیں۔

(۴) اور یہ کہ ہم میں کا بے  وقوف اللہ پر بڑھ کر بات کہتا تھا  (ف ۹) 

۹                 جھوٹ بولتا تھا، بے ادبی کرتا تھا کہ اس کے لئے شریک و اولاد اور بی بی بتاتا تھا۔

(۵) اور یہ کہ ہمیں خیال تھا کہ ہرگز آدمی اور جِن اللہ پر جھوٹ نہ باندھیں گے  (ف ۱۰)

۱۰               اور اس پر افتراء نہ کریں گے اس لئے ہم ان کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے جو کچھ وہ شانِ الٰہی میں کہتے تھے اور خداوندِ عالَم کی طرف بی بی اور بچّے کی نسبت کرتے تھے یہاں تک کہ قرآنِ کریم کی ہدایت سے ہمیں ان کا کذب و بہتان ظاہر ہو گیا۔

(۶) اور یہ کہ آدمیوں میں کچھ مرد جنوں کے  کچھ مردوں کے  پناہ لیتے  تھے  (ف ۱۱) تو اس سے  اور بھی ان کا تکبر  بڑھا۔

۱۱               جب سفر میں کسی خوفناک مقام پر اترتے تو کہتے ہم اس جگہ کے سردار کی پناہ چاہتے ہیں یہاں کے شریروں سے۔

(۷) اور یہ کہ انہوں نے   (ف ۱۲) گمان کیا جیسا تمہیں گمان ہے  (ف ۱۳) کہ اللہ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے  گا ۔

۱۲               یعنی کفّارِ قریش نے۔

۱۳               اے جنّات۔

(۸) اور یہ کہ ہم نے  آسمان کو چھوا (ف ۱۴) تو اسے  پایا کہ (ف ۱۵) سخت پہرے  اور آگ کی چن گاریوں سے  بھر دیا گیا ہے  (ف ۱۶)

۱۴               یعنی اہلِ آسمان کا کلام سننے کے لئے آسمانِ دنیا پر جانا چاہا۔

۱۵               فرشتوں کے۔

(۹) اور یہ کہ ہم (ف ۱۷) پہلے  آسمان میں سننے  کے  لیے  کچھ موقعوں پر بیٹھا کرتے  تھے، پھر اب  (ف ۱۸) جو کوئی سنے  وہ اپنی تاک میں آگ کا  لُوکا (لپٹ) پائے  (ف ۱۹)

۱۶               تاکہ جنّات کو اہلِ آسمان کی باتیں سننے کے لئے آسمان تک پہنچنے سے روکا جائے۔

۱۷               نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت سے۔

۱۸               نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت کے بعد۔

۱۹               جس سے اس کو مارا جائے۔

(۱۰) اور یہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ (ف ۲۰)  زمین والوں سے  کوئی برائی کا ارادہ فرمایا گیا ہے  یا ان کے  نے  کوئی بھلائی چاہی ہے۔

۲۰               ہماری اس بندش اور روک سے۔

(۱۱)  اور یہ کہ ہم میں (ف ۲۱) کچھ نیک ہیں (ف ۲۲) اور کچھ دوسری طرح کے  ہیں، ہم کئی راہیں پھٹے  ہوئے  ہیں (ف ۲۳)

۲۱               قرآنِ کریم سننے کے بعد۔

۲۲               مومنِ مخلص، متّقی و ابرار۔

۲۳               فرقے فرقے، مختلف۔

(۱۲) اور یہ کہ ہم کو یقین ہوا کہ ہر گز زمین اللہ کے  قابو سے  نہ نکل سکیں گے  اور نہ بھاگ کر اس کے  قبضہ سے  باہر ہوں۔

(۱۳)  اور یہ کہ ہم نے  جب ہدایت سنی (ف ۲۴) اس پر ایمان لائے، تو جو اپنے  رب پر ایمان لائے  اسے  نہ کسی کمی کا خوف (ف ۲۵) اور نہ زیادتی کا (ف ۲۶)

۲۴               یعنی قرآنِ پاک۔

۲۵               یعنی نیکیوں یا ثواب کی کمی کا۔

۲۶               بدیوں کی۔

(۱۴) اور یہ کہ ہم میں کچھ مسلمان ہیں اور کچھ ظالم (ف ۲۷) تو جو اسلام لائے  انہوں نے  بھلائی سوچی (ف ۲۸)

۲۷               حق سے پھرے ہوئے کافر۔

۲۸               اور ہدایت و راہِ حق کو اپنا مقصود ٹھہرایا۔

(۱۵) اور رہے  ظالم (ف ۲۹)  وہ جہنم کے  ایندھن ہوئے  (ف ۳۰)

۲۹               کافر راہِ حق سے پھرنے والے۔

۳۰               اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر جنّ آتشِ جہنّم کے عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے۔

(۱۶) اور فرماؤ کہ مجھے  یہ وحی ہوئی ہے  کہ اگر وہ (ف ۳۱)  راہ پر سیدھے   رہتے  (ف ۳۲) تو ضرور ہم انہیں  وافر پانی دیتے  (ف ۳۳)

۳۱               یعنی انسان۔

۳۲               یعنی دِینِ حق و طریقۂ اسلام پر۔

۳۳               کثیر۔ مراد وسعتِ رزق ہے اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ سات برس تک وہ بارش سے محروم کر دیئے گئے تھے، معنیٰ یہ ہیں کہ اگر وہ لوگ ایمان لاتے تو ہم دنیا میں ان پر رزق وسیع کرتے اور انہیں کثیر پانی اور فراخیِ عیش عنایت فرماتے۔

 (۱۷)  کہ اس پر انہیں جانچیں (ف ۳۴) اور جو اپنے  رب کی یاد سے  منہ پھیرے  (ف ۳۵) وہ اسے   چڑھتے  عذاب میں ڈالے  گا (ف ۳۶)

۳۴               کہ وہ کیسی شکر گذاری کرتے ہیں۔

۳۵               قرآن سے یا توحید یا عبادت سے۔

۳۶               جس کی شدّت دم بدم بڑھے گی۔

(۱۸) اور یہ کہ مسجدیں (ف ۳۷) اللہ ہی کی ہیں  تو اللہ کے  ساتھ کسی کی بندگی نہ کرو (ف ۳۸)

۳۷               یعنی وہ مکان جو نماز کے لئے بنائے گئے۔

۳۸               جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے گرجاؤں اور عبادت خانوں میں شرک کرتے تھے۔

(۱۹)  اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ  (ف ۳۹) اس کی بندگی کرنے  کھڑا ہوا (ف ۴۰) تو قریب تھا کہ وہ جن اس پر ٹھٹھ  کے  ٹھٹھ ہو جائیں (ف ۴۱)

۳۹               یعنی سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم بطنِ نخلہ میں وقتِ فجر۔

۴۰               یعنی نماز پڑھنے۔

۴۱               کیونکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عبادت و تلاوت اور آپ کے اصحاب کی اقتداء نہایت عجیب اور پسندیدہ معلو م ہوئی، اس سے پہلے انہوں نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا اور ایسا بے مثل کلام نہ سنا تھا۔

(۲۰)  تم فرماؤ میں تو اپنے  رب ہی کی بندگی کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں  ٹھہراتا۔

(۲۱) تم فرماؤ میں تمہارے  کسی برے   بھلے  کا مالک نہیں۔

(۲۲) تم فرماؤ ہرگز مجھے  اللہ سے  کوئی نہ بچائے  گا  (ف ۴۲) اور ہرگز اس کے  سوا کوئی پناہ نہ پاؤں گا۔

۴۲               جیسا کہ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا تھا فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ عَصَیْتُہ۔

(۲۳)  مگر اللہ کے  پیام پہنچاتا اور اس کی رسالتیں (ف ۴۳) اور جو اللہ اور اس کے  رسول کا حکم نہ مانے  (ف ۴۴) تو بیشک ان کے  لیے  جہنم کی آگ ہے  جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں۔

۴۳               یہ میرا فرض ہے جس کو انجام دیتا ہوں۔

۴۴               اور ان پر ایمان نہ لائے۔

(۲۴) یہاں تک کہ جب دیکھیں گے  (ف ۴۵) جو وعدہ دیا جاتا ہے  تو اب جان جائیں گے  کہ کس ک  مددگار کمزور اور کس کی گنتی کم (ف ۴۶)

۴۵               وہ عذاب۔

۴۶               کافر کی یا مومن کی، یعنی اس روز کافر کا کوئی مددگار نہ ہو گا اور مومن کی مدد اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور ملائکہ سب فرمائیں گے۔ شانِ نزول : نضر بن حارث نے کہا تھا کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا اس کے جواب میں اگلی آیت نازل ہوئی۔

(۲۵) تم فرماؤ میں نہیں جانتا  آیا  نزدیک ہے   وہ جس کا تمہیں  وعدہ دیا جاتا ہے  یا میرا  رب اسے  کچھ وقفہ دے  گا (ف ۴۷)

۴۷               یعنی وقتِ عذاب کا علم غیب ہے جسے اللہ تعالی ہی جانے۔

(۲۶) غیب کا جاننے   والا تو اپنے  غیب پر (ف ۴۸) کسی کو مسلط نہیں کرتا (ف ۴۹)

۴۸               یعنی اپنے غیبِ خاص پر جس کے ساتھ وہ منفرد ہے۔ (خازن و بیضاوی وغیرہ)

۴۹               یعنی اطلاعِ کامل نہیں دیتا جس سے حقائق کا کشفِ تام اعلیٰ درجۂ یقین کے ساتھ حاصل ہو۔

(۲۷)  سوائے   اپنے  پسندیدہ رسولوں کے   (ف ۵۰) کہ ان کے  آگے  پیچھے  پہرا مقرر کر دیتا ہے  (ف ۵۱)

۵۰               تو انہیں غیوب پر مسلط کرتا ہے اور اطلاعِ کامل اور کشفِ تام عطا فرماتا ہے اور یہ علمِ غیب ان کے لئے معجزہ ہوتا ہے، اولیاء کو بھی اگرچہ غیوب پر اطلاع دی جاتی ہے مگر انبیاء کا علم باعتبارِ کشف و انجلاء اولیاء کے علم سے بہت بلند و بالا  و ارفع و اعلیٰ ہے اور اولیاء کے علوم انبیاء ہی کے وساطت اور انہیں کے فیض سے ہوتے ہیں۔ معتزلہ ایک گمراہ فرقہ ہے وہ اولیاء کے لئے علمِ غیب کا قائل نہیں اس کا خیال باطل اور احادیثِ کثیرہ کے خلاف ہے اور اس آیت سے ان کا تمسّک صحیح نہیں۔ بیانِ مذکورہ بالا میں اس کا اشارہ کر دیا گیا ہے سیّد الرُّسُل خاتمُ الانبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مرتضیٰ رسولوں میں سب سے اعلیٰ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام اشیاء کے علوم عطا فرمائے جیسا کہ صحاح کی معتبر احادیث سے ثابت ہے اور یہ آیت حضور کے اور تمام مرتضیٰ رسولوں کے لئے غیب کا علم ثابت کرتی ہے۔

۵۱               فرشتوں کو جو ان کی حفاظت کرتے ہیں۔

(۲۸) تا کہ دیکھ لے  کہ انہوں نے  اپنے   رب کے  پیام پہنچا  دیے   اور جو کچھ ان کے  پاس سب اس کے  علم میں ہے  اور اس نے  ہر چیز کی گنتی شمار کر  رکھی ہے  (ف ۵۲)

۵۲               اس سے ثابت ہوا کہ جمیع اشیاء محدود و محصور و متناہی ہیں۔