تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الجنّ

(سورۃ الجن ۔ سورہ نمبر ۷۲ ۔ تعداد آیات ۲۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     کہو (اے پیغمبر !) کہ وحی کی گئی ہے میری طرف اس بات کی کہ جنوں کے ایک گروہ نے (مجھے قرآن پڑھتے ہوئے ) غور سے سنا پھر انہوں نے (جا کر اپنی قوم سے ) کہا کہ ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے

۲۔۔۔     جو راہنمائی کرتا ہے سیدھی (اور صحیح) راہ کی سو ہم (صدق دل سے ) اس پر ایمان لے آئے اور اب ہم کسی کو بھی اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے

۳۔۔۔     اور یہ کہ بڑی بلند ہے شان ہمارے رب کی (سبحانہ و تعالیٰ) اس نے نہ تو کسی کو بیوی بنایا ہے اور نہ ہی کسی کو اولاد ٹھہرایا ہے

۴۔۔۔     اور یہ کہ ہم میں سے جو احمق ہیں وہ اللہ کے بارے میں حد سے بڑھی ہوئی بات کہتے تھے

۵۔۔۔     اور یہ کہ (اس سے پہلے ) ہم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ انسان اور جن کبھی اللہ کے بارے میں کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے

۶۔۔۔     اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے جس سے ان کی سرکشی (اور بد دماغی) اور زیادہ بڑھ گئی تھی

۷۔۔۔     اور یہ کہ انہوں نے بھی یہی سمجھ رکھا تھا جیسا کہ تم نے سمجھ رکھا ہے کہ اللہ کبھی کسی کو بھی نہیں اٹھائے گا (رسول بنا کر)

۸۔۔۔     اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو تو اس کو بھرا ہوا پایا سخت پہرہ داروں اور شہابوں (کی بارش) سے

۹۔۔۔     اور یہ کہ (اس سے پہلے ) ہم آسمان کے بعض ٹھکانوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے (وہاں کی خبروں کے بارے میں ) کچھ سن گن لینے کے لئے مگر اب (یہ حال ہے کہ) جو بھی کوئی سننے کے لئے کان دھرتا ہے تو وہ پاتا ہے اپنے لئے ایک شعلہ گھات میں لگا ہوا

۱۰۔۔۔     اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے

۱۱۔۔۔     اور یہ کہ ہم سے کچھ لوگ نیک تھے اور کچھ اور طرح کے (غرض) ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے تھے

۱۔۔۔     اور یہ کہ اب ہم نے یقین کر لیا ہے کہ ہم کسی بھی طرح عاجز نہیں کر سکتے اللہ کو نہ زمین میں (کہیں چھپ کر) اور نہ ہی (اور کہیں ) بھاگ کر

۱۳۔۔۔     اور یہ کہ جب ہم نے سنا اس (کلام) ہدایت کو تو ہم (بلا چون و چرا فوراً اور سچے دل سے ) اس پر ایمان لے آئے پس جو کوئی (صدق دل سے ) ایمان لائے گا اپنے رب پر تو نہ تو اس کو کوئی (اندیشہ و) خوف ہو گا کسی حق تلفی کا اور نہ کسی طرح کی زیادتی کا

۱۴۔۔۔     اور یہ کہ ہم میں سے کچھ فرمانبردار ہیں اور کچھ (حسب سابق منحرف اور) بے راہ بھی پس جو کوئی فرمانبردار ہو گیا اپنے رب کا تو ایسے لوگوں نے ڈھونڈ لیا راستہ ہدایت (و نجات) کا

۱۵۔۔۔     اور جو ظالم (و نافرمان) ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے

۱۶۔۔۔     اور یہ (کہو کہ میری طرف یہ وحی بھی کی گئی ہے ) کہ اگر یہ لوگ سیدھے راستے پر قائم رہتے تو ہم ان کو ضرور سیراب کرتے با فراغت پانی سے

۱۷۔۔۔     تاکہ اس (ارزانی و فراوانی) میں ہم ان کی آزمائش کریں اور جو کوئی منہ موڑے گا اپنے رب کے ذکر (اور اس کی یاد دلشاد) سے تو وہ ڈال دے گا اس کو ایک (بڑھتے ) چڑھتے ہولناک عذاب میں

۱۸۔۔۔     اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں پس تم لوگ مت پکارو اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے ساتھ کسی کو بھی

۱۹۔۔۔     اور یہ کہ جب کھڑا ہوتا ہے اللہ کا بندہ خاص اسی (وحدہٗ لاشریک) کو پکارنے کے لئے تو یہ لوگ تیار ہو جاتے ہیں اس پر ٹوٹ پڑنے کو

۲۰۔۔۔     کہو (ان سے اے پیغمبر!) کہ میں تو بہر حال اپنے رب ہی کو پکارتا رہوں گا اور اس کے ساتھ کسی کو بھی (کسی بھی درجے میں ) شریک نہیں ٹھہراؤں گا

۲۱۔۔۔     (نیز ان سے یہ بھی) کہہ دو کہ میں نہ تو تمہارے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا

۲۲۔۔۔     کہو (میرا تو خود یہ حال ہے ) کہ نہ تو مجھے کوئی اللہ سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی میں اس کے سوا کوئی پناہ گاہ پا سکتا ہوں

۲۳۔۔۔     میرا کام تو بس اتنا (اور صرف اتنا) ہے کہ میں پہنچا دوں (بغیر کسی کمی و بیشی کے ) اللہ کی بات اور اس کے پیغاموں کو اور جو کوئی نافرمانی کرے گا اللہ کی تو (وہ یقیناً اپنا ہی نقصان کرے گا کہ) بے شک اس کے لئے جہنم کی (دہکتی) آگ ہے جس میں ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیش رہنا ہو گا

۲۴۔۔۔     (یہ لوگ اپنی اس ہٹ دھرمی ہی پر اڑے رہیں گے ) یہاں تک کہ جب یہ خود دیکھ لیں گے اس چیز کو جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں

۲۵۔۔۔     اور کس (کے جتھے ) کی تعداد کم ہے (ان سے صاف صاف) کہہ دو کہ میں نہیں جانتا کہ قریب ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے یا اس کے لئے مقرر فرما رکھی ہے میرے رب نے کوئی لمبی مدت

۲۶۔۔۔     و ہی ہے جاننے والا غیب کا پس وہ مطلع نہیں کرتا اپنے غیب پر کسی کو بجز اپنے

۲۷۔۔۔     کسی ایسے رسول کے جس کو اس نے پسند فرما لیا ہو (غیب کی کوئی خبر دینے کے لئے ) تو بے شک وہ (اس کو اس اہتمام کے ساتھ اس سے نوازتا ہے کہ) خاص پہرے دار مقرر فرما دیتا ہے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی

۲۸۔۔۔     تاکہ وہ جان لے وہ کہ ان فرشتوں نے (پوری حفاظت سے اور بتمام و کمال) پہنچا دیئے پیغامات اپنے رب کے اور اس نے محفوظ کر رکھا ہے ہر چیز کو گن کر

تفسیر

 

۱۔۔۔   عجب مصدر ہے جس کے اندر عجیب کے مقابلے میں مبالغے کا مفہوم پایا جاتا ہے، سو یہ کلام حکمت نظام ایسا عظیم الشان اور بے مثال کلام ہے جو دلوں میں اترنے والا، اور ان کے اندر اثر کرنے والا ہے یہاں پر اس سورہ کریمہ کا آغاز قُلْ اُوْحِیْ اِلَیَّ کے الفاظ سے کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جنوں کے یہ تاثرات جو انہوں نے قرآن حکیم کے بارے میں بیان کئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے براہ راست جنوں سے نہیں سنے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا علم بعد میں وحی سماوی کے ذریعے ہوا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے اس واقعے کے بارے میں آگہی بخشی گئی کہ جنوں نے کہیں چلتے چلتے اس کلام حق نظام کو سنا تو وہ اس سے اس قدر متاثر ہوئے اور اس نے ان کے دلوں کے اندر ایسا اثر کیا کہ وہ اس کو سننے سمجھنے کے لئے ہمہ تن گوش بن کر اس کے سننے میں محو ہو گئے اور اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس پر خود ایمان لے آئے بلکہ وہ اس کے داعی بن گئے۔ اور واپس لوٹ کر اپنی قوم کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دینے لگے۔ سو اس میں مشرکین مکہ اور منکرین قریش پر بڑی تعریض ہے کہ جس کلام حق کو یہ لوگ دن رات سننے کے باوجود ماننے اور قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کی تکذیب ہی پر کمربستہ ہیں اس کی صداقت و حقانیت اور اس کی عظمت شان اور اس کی اثر انگیزی اور دل پذیری کا عالم یہ ہے کہ جنوں جیسی سخت مخلوق بھی اس کو ایک ہی مرتبہ سننے سے اس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکی۔ سو حیف ہے تم لوگوں پر اے بدبختو۔ اگر تم اس کو پیغمبر کی زبان سے دن رات سننے کے باوجود متاثر نہ ہوؤ تمہارے دل اس سے نہ پسیجیں، اور تم اس سے کوئی اثر قبول نہ کرو۔ حیف ہے تمہاری اس سنگدلی اور ناشکری و بے حسی پر، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۔۔۔   شَطَط اس بات کو کہا جاتا ہے جو حق و عدل سے دور ہٹی ہوئی ہو۔ اور سفیہ کے معنی بیوقوف کے ہوتے ہیں یہاں پر ان جنوں نے اس لفظ کو اپنے ان سرداروں کے بارے میں استعمال کیا جنہوں نے اپنی حماقت اور مت ماری کی بناء پر طرح طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت معبود بنا رکھے تھے جن کو وہ اپنا حاجت روا و مشکل مانتے تھے۔ اور اپنے پیرو کاروں کو بھی وہ اسی شرک کی پٹی پڑھاتے اور ان کو طرح طرح سے بتاتے کہ یہی ہم تم سب کے کرتا دھرتا اور حاجت روا و مشکل کشا ہیں، ہماری تمہاری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے۔ وہ تمہاری سنتا نہیں، اور ان کی رد نہیں کرتا وغیرہ سو ان مشرک سرداروں نے اپنے ان بدھو پیروکاروں کو ہمیشہ اسی طرح کے مشرکانہ گورکھ دھندے میں الجھائے اور پھنسائے رکھا، اور وہ ان پر اعتماد کر کے اور اندھے بن کر ان کے پیچھے چلتے رہے۔ لیکن جب قرآن حکیم کے نور مبین سے ان کی آنکھیں کھلیں، ان کے دل روشن ہو گئے اور ان کو توحید کی حقیقت سے آگہی نصیب ہوئی، تو انہوں نے جا کر اپنی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ہمارا یہ احمق اور بدھو سردار اللہ تعالیٰ پر حق سے نہایت دور ہٹی ہوئی باتیں کہتا۔ اور تہمتیں جڑتا رہا، کہ اس کی بھی بیوی اور اولاد ہے اور یہ کہ فلاں فلاں اس کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ اور فلاں فلاں اس کی بیٹیاں اور اس کی چہیتیاں ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اب قرآن سننے سے ہمارے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ہمارے احمق سردار کی یہ تمام باتیں جھوٹی اور بالکل بے بنیاد ہیں، اس لئے ہم نے ایسی تمام خرافات سے توبہ کر لی۔ اور ہم اپنی قوم کو یہی دعوت دیتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اس طرح کی تمام باتوں سے توبہ کر لیں۔ اور ایسے گمراہ کن سفیہ لوگوں کے چکمے میں نہ آئیں۔ بلکہ توحید کی اس راہ حق کو اپنائیں جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔

۱۱۔۔۔   یعنی اس سے پہلے تو چونکہ ہمارے نزدیک نیکی اور بدی کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ بھلے اور برے ہماری نگاہوں میں ایک ہی برابر تھے۔ اس لئے ہمارے یہاں دونوں ہی قسم کے لوگ باہم ملے جلے رہتے تھے۔ ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب اس کلام حکیم نے ہمارے اس مغالطے کو دور کر دیا۔ اور ہمارے سامنے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ ہم سب ایک ہی راہ کے راہی نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ہمارے راستے باہم جدا، اور ہمارے طریقے الگ الگ ہیں پس ضروری ہے کہ ہم اپنے درمیان کے اس فرق کو ملحوظ رکھیں۔ اور ہمارے معاملات اور باہمی تعلقات کی اساس و بنیاد ایمان و کفر کے لحاظ سے ہونی چاہیے نہ کہ محض قوم قبیلے اور خاندان وغیرہ کی بناء پر پس جو ایمان والا ہے وہ ہمارا اپنا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے سے ہو، اور جو کہ کفر و شرک والا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ وہ ہمارا کچھ نہیں لگتا خواہ وہ ہمارے اپنے خاندان اور قبیلے ہی سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو پس ہمارے یہاں آپس میں فصل و وصل کی بنیاد ایمان و کفر اور ان کے تقاضوں پر ہی ہونی چاہیئے، سو اس طرح انہوں نے گویا اپنی قوم کے ان لوگوں سے برأت و بیزاری کا اعلان کر دیا جو ان کی دعوت ایمان کے بعد بھی اپنے کفر و شرک پر اڑے رہنے کے لئے بضد رہیں جس طرح کہ حضرات انبیاء ورسل نے اپنی اپنی قوموں سے اعلان برأت کیا۔ اور ان کے طریقے پر ان کے بعد کے ہر دور کے مصلحین نے کیا جس کی ایک واضح مثال اصحاب کہف کا وہ اعلان برأت و مقاطعت ہے جس کا ذکر سورہ کہف میں ہوا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۱۷۔۔۔   عام طور پر حضرات مترجمین و مفسرین نے صَعَدًا کے معنی عذاب شدید کے لئے ہیں۔ لیکن جب یہاں پر عذاب شدید کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے حالانکہ یہ دونوں عربی زبان ہی کے لفظ ہیں اور یہاں پر صَعَدًا کا لفظ اختیار فرمایا گیا ہے تو اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ کہ عَذَابًا صَعَدًا اور عذاب شدید درمیان فرق موجود ہے۔ اسی لئے یہاں پر ان مشہور لفظوں کے بجائے اس لفظ کو استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کا اندازہ مادہ اشتقاق سے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ص ع د کے مادے میں پڑھنے چڑھنے کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر بھی اس مفہوم کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، و الحمد للہ جل و علا، سو جو لوگ اللہ پاک سبجانہ و تعالیٰ کی یاد دلشاد سے منہ موڑتے۔ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی اتاری ہوئی کتاب کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے اس اعراض اور تکذیب کا یہ جرم اتنا ہولناک اور اس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسوں کو جب اللہ تعالیٰ پکڑتا ہے تو اس کی وہ پکڑ اور ایسے بدبختوں کو ملنے والی وہ سزا بھی کوئی ہنگامی اور وقتی نوعیت کی نہیں ہوتی کہ چندے بعد ختم ہو جائے۔ بلکہ وہ بڑھتی چڑھتی اور ترقی ہی کرتی جاتی ہے ایسے لوگ اس دنیا میں جس عذاب سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس سے بھی کہیں بڑے عذاب سے ان کو سابقہ آخرت میں پیش آتا ہے۔ اور آئے گا۔ اور پھر آگے ان کے اس عذاب میں بھی شدت اور سختی آتی جائے گی۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ بالکل ختم ہو جائے، یا اس میں بالتدریج کمی آتی جائے۔ سو ایسی کسی بھی بات کا کوئی امکان نہیں ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی یاد دلشاد سے سرشار و سرفراز رکھے۔ ہر حال میں اور ہر صورت میں اپنے رسول کی اطاعت و اتباع نصیب فرمائے۔ اور زندگی کا ہر لمحہ اپنی کتاب سے تعلق اور اس کی خدمت میں بسر کرنے کی توفیق بخشے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۲۱۔۔۔   ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت میں پیغمبر کو اعلان توحید کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے، سو اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی کہ یہ لوگ خواہ توحید سے کتنے ہی بدکیں بگڑیں اور کان کھڑے کریں اور کتنا ہی برا منائیں، آپ ان سے صاف کہہ دیں کہ میں تو بہر حال اپنے رب ہی کو پکاروں گا، اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہراؤں گا کہ اس کا نہ کوئی شریک ہے نہ ہو سکتا ہے تم لوگوں نے خواہ سکے لئے کوئی کتنا ہی بڑا شریک کیوں نہ سمجھ رکھا ہو، اس کی کوئی حقیقت اور بنیاد نہیں، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں پیغمبر سے نفع و نقصان کے اختیار کی نفی کا اعلان کرایا گیا ہے۔ جس سے اہل بدعت کے اختیار کلی کے شرکیہ عقیدے کی جڑ نکل جاتی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ میں نہ تو تم لوگوں کے لئے کسی نفع و نقصان کا کوئی اختیار رکھتا ہوں، اور نہ کسی طرح کی ہدایت و گمراہی کا۔ یہاں پر فصیح و بلیغ عربی کے معروف اسلوب کے مطابق متقابلات میں سے ایک ایک کو حذف فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے دو متقابلوں میں ضَرًّا کے بعد نَفْعًا کو حذف کر دیا گیا۔ اور دوسرے میں رَشَدًا کے بعد غَیًّا کو۔ اس لئے کہ تقابل خود اس مخذوف پر دلیل ہے اور یہ بلاغت کا ایک مشہور و معروف اسلوب ہے۔

۲۷۔۔۔   سو عالم غیب وہی وحدہٗ لاشریک ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ اس کی اس صفت میں دوسرا کوئی نہ اس کا شریک ہے نہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو وہ غیب کے کچھ علوم سے آگہی بخشتا ہے وہ وہی اور اسی قدر ہوتے ہیں جو ان کے منصب رسالت کے لائق اور اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں جن کو وہ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ (غیب کی کچھ خبروں) کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کے اندر مختلف مقامات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور پیغمبروں کو غیب کی اتنی اور ایسی خبروں سے آگہی بخشنا تقاضا ہے اس کی اس ہدایت و راہنمائی کا جس کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ الایۃ (النحل۔٩) یعنی اللہ کے ذمے ہے سیدھا راستہ بتانا کہ بہت سے راستے ٹیڑھے بھی ہیں۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدیٰ (اللیل۔۱۱۲) یعنی یقیناً ہمارے ذمے ہے سیدھا راستہ بتانا۔ سو اس بناء پر وہ اپنے رسول کو غیب کے ان علوم سے آگہی بخشتا ہے جو ان کے منصب رسالت کے اعتبار سے ضروری ہوتے ہیں۔ سب کے سب علوم غیب نہ ان کو بتائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کا بتایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ پس عالم غیب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ جو نہاں و عیاں سب کو ایک برابر جانتا ہے اور جس کی شان لَا تَخْفیٰ عَلَیْہِ خَافِیَۃٌ کی شان ہے۔ یعنی اس سے کوئی بھی چیز نہ مخفی ہے، نہ مخفی ہو سکتی ہے، پس اس کی اس صفت میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ کہ وہ ہر قسم کے شرک اور اس کے ہر شائبے سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، البتہ اپنے فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لئے وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چنتا ہے وہ ان کے آگے اور پیچھے خاص پہرے دار مقرر فرما دیتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ انہوں نے اپنے کے احکام اور اس کے پیغامات کو جوں کا توں بلا کم و کاست پہنچا دیا ہے، اور اس طرح پیغام الٰہی کی تبلیغ و حفاظت کا پورا انتظام کیا جاتا ہے۔ و الحمد للہ جل و علا، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ مِّن المواطن فی لاحیاۃ، ونعوذُ بہ من حال اہل النار،

۲۸۔۔۔   سو اپنے رسول کو منصب رسالت کی ادائیگی کے لئے جن علوم سے وہ نوازتا ہے ان کی حفاظت کا بھی وہ خاص انتظام فرماتا ہے ان کے آگے اور پیچھے وہ خاص پہرے دار مقرر فرما دیتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ انہوں نے اپنے رب کے احکام و پیغام کو بلا کم و کاست پہنچا دیا۔ اور وہ اپنے رسول کی تحویل میں اپنے دین اور وحی کی جو امانت دیتا ہے اس کو وہ پوری طرح اپنی نگرانی میں رکھتا ہے، اس کی ایک ایک چیز کو اس نے گن گن کر رکھا ہوتا ہے مجال نہیں کہ کوئی چھوٹی سے چھٹی چیز بھی اس کے شمار سے رہ جائے سبحانہ و تعالیٰ وبہٰذا نکتفی من التفسیر المختصر لسورۃ الجن و الحمد للہ جل و علا،