اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

اخلاقِ مرتضیٰ ﷺ

قَالَ الْبَرَاءُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِص اَحْسَنَ النَّاسِ وَجْھًا، وَاَحْسَنَھُمْ خُلُقًا، لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِیْرِ (صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي ﷺ :۳۵۴۹ مسلم، الفضائل باب في صفۃ النبيﷺ : ۲۳۳۷۔  [السنۃ : ۳۶۶۳])

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا چہرہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ ﷺ سب سے زیادہ بہترین اخلاق والے تھے۔ نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ چھوٹے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : خَدَمْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ عَشْرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِيْ : اُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْئٍ صَنَعْتُہٗ : لِمَ صَنَعْتَہٗ؟ وَلَا لِشَيْئٍ تَرَکْتُہٗ لِمَ تَرَکْتَہٗ؟ وَکَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا۔  وَلَامَسِسْتُ خَزًّا قَطُّ وَلَا حَرِیْرًا وَلَا شَیْئًا کَانَ اَلْیَنَ مِنْ کَفِّ رَسُوْلِ اللہِﷺ ، وَلَا شَمَمْتُ مِسْکًا وَلَا عِطْرًا کَانَ اَطْیَبَ مِنْ عَرَقِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ۔  (صحیح،اخرجہ الترمذي: ۲۰۱۵ والشمائل:۳۴۴ ومسلم :۲۳۳۰ عن قتیبۃ بہ۔  [السنۃ : ۳۶۶۴])

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کی دس سال خدمت کی ہے۔ آپ ﷺ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا اور نہ کسی کام پر جو میں نے کیا تھا، کہا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ اور نہ کسی چیز پر جسے میں نے چھوڑا یہ کہا کہ تو نے اسے کیوں نہیں کیا؟ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے۔ میں نے رسول اللہﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ریشم، حریر یا اس جیسی کوئی چیز نہیں چھوئی۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار کوئی کستوری یا عطر نہیں سونگھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ اَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا۔  فَاَرْسَلَنِيْ یَوْمًا لِحَاجَۃٍ۔  فَقُلْتُ : وَاللہِ لَا اَذْھَبُ وَفِيْ نَفْسِيْ اَنْ اَذْھَبَ فَخَرَجْتُ حَتّٰی اَمُرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ فِی السُّوْقِ، فَإِذَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ قَدْ قَبَضَ بِقَفَائِيْ مِنْ وَّرَائِيْ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ وَھُوَ یَضْحَکُ، فَقَالَ : یَااُنَیْسُ ذَھَبْتَ حَیْثُ اَمَرْتُکَ؟ قُلْتُ : نَعَمْ اَنَا اَذْھَبُ یَا رَسُوْلَ اللہِ (صحیح مسلم، الفضائل باب کان رسول اللہا احسن الناس خلقًا :۲۳۱۰)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ ایک دن آپﷺ نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تو میں نے کہا: ’’واللہ، میں نہیں جاؤں گا‘‘ اور دل میں یہ تھا کہ (ضرور) جاؤں گا۔ پھر میں نکلا اور بازار میں کھیلنے والے بچوں کے پاس سے گزرا (تو ان کے ساتھ کھیلنے لگا) کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے میری گدی کے پیچھے سے پکڑ لیا ہے جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔  آپ نے (پیار سے) فرمایا: اے انیس! تو اس کام کے لیے گیا ہے جس کا میں نے تجھے حکم دیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ، اب جاتا ہوں یارسول اللہﷺ !

عَنْ یَزِیْدَ بْنِ بَابْنُوْسَ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ : یَااُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! مَا کَانَ خُلُقَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ؟ قَالَتْ : کَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ الْقُرْآنَ۔ ثُمَّ قَالَتْ : اَتَقْرَئُ وْنَ سُوْرَۃَالْمُؤْمِنِیْنَ؟ قُلْنَا : نَعَمْ۔ قَالَتْ : اقْرَاْہ فَقَرَاْتُ : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِھِمْ خٰشِعُوْنَ o ، حَتّٰی بَلَغَ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَo}، فَقَالَتْ: ھٰکَذَا کَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ))۔

(ورواہ النسائي فی الکبریٰ: ۱۱۳۵۰ عن قتیبۃ بن سعید: عن جعفر (بن سلیمان بہ ) و للحدیث شواھد۔ )

سیدنا یزید بن بابنوس (تابعی) سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المومنین! رسول اللہ ﷺ کا اخلاق کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ پھر کہا: کیا تم سورۃ المؤمنون (زبانی) پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، تو انھوں نے کہا: پڑھو ، تو میں نے پڑھی۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَoالَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِہِمْ خٰشِعُوْنَ o}

’’مومن کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع (اور عاجزی) کرتے ہیں ‘‘۔ حتیٰ کہ میں (آیت نمبر9)

وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ o }

’’اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘

تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا: اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا اخلاق تھا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ :مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِیَدِہٖ شَیْئًا قَطُّ إِلاَّ اَنْ یُّجَاھِدَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلَا ضَرَبَ خَادِمًا وَلَا امْرَاَۃً۔( اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۴۷ مسلم، الفضائل باب مباعدتہ ا للآثام۔ ح ۲۳۲۸ حدیث عبدۃ بن سلیمان بہ۔ [السنۃ : ۳۶۶۷])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے اللہ کے راستے میں جہاد کے علاوہ کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ نہ کسی خادم کو مارا اور نہ کسی عورت کو مارا۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ لَمْ یَکُنْ فَاحِشًا وَّلاَ مُتَفَحِّشًا،وَکَانَ یَقُوْلُ ((خِیَارُکُمْ اَحَاسِنُکُمْ اَخْلَاقًا ))۔

(صحیح البخاري:۳۵۵۹، ۳۷۵۹، ۶۰۲۹، ۶۰۳۵ ومسلم: ۲۳۲۱ من حدیث الاعمش بہ۔ [السنۃ : ۳۶۶۶])

سیدنا عبداللہ بن عمرو (بن العاص رضی اللہ عنہا )نے فرمایا کہ یقیناً رسو ل اللہ ﷺ فاحش اور بے ہودہ گو نہیں تھے اور آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہتر وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّہَا قَالَتْ : لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَاحِشًا وَّلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا سَخَّابًا فِی الْاَسْوَاقِ وَلَا یَجْزِي بِالسَّیِّئَۃِ السَّیِّئَۃَ: وَلٰکِنْ یَّعْفُوْ وَیَصْفَحُ (إسنادہ صحیح، الترمذي فی الشمائل :۳۴۶ والسنن: ۲۰۱۶۔  [السنۃ :۳۶۶۸])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ فحش گو اور بے حیائی کی گفتگو کرنے والے نہیں تھے۔ نہ آپ بازاروں میں شور مچاتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے بلکہ آپ معاف فرما دیتے اور درگزر فرماتے تھے۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ : لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ سَبَّابًا وَلَا فَحَّاشًا وَلَا لَعَّانًا، کَانَ یَقُوْلُ لِاَحَدِنَا عِنْدَ الْمَعْتِبَۃِ : مَالَہٗ تَرِبَ جَبِیْنُہٗ۔

(صحیح البخاري، الادب باب ۳۸ ح ۶۰۳۱ و ۶۰۴۶ من حدیث فلیح بہ۔  [السنۃ: ۳۶۶۹])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ گالیاں دینے والے، فحش گو اور لعن طعن کرنے والے نہیں تھے۔ آپ جس پر عتاب فرماتے تو کہتے: اسے کیا ہو گیا اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔