اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

خوف و خشیتِ مجتبیٰﷺ

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : (( صَنَعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ شَیْئًا فَرَخَّصَ فِیْہِ، فَتَنَزَّہَ عَنْہُ قَوْمٌ ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ ﷺ ، فَخَطَبَ فَحَمِدَاللّٰہَ ثُمَّ قَالَ : ((مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَتَنَزَّھُوْنَ عَنِ الشَّيْئِ اَصْنَعُہٗ، فَوَ اللہِ إِنِّيْ لَاَعْلَمُھُمْ بِاللہِ وَاَشَدُّھُمْ لَہٗ خَشْیَۃً )) (بخاري، الادب باب من لم یواجہ الناس بعتاب :۶۱۰۱ مسلم، الفضائل باب علمہ باللّٰہ تعالٰی وشدۃ خشیتہ : ۶۳۵۶ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کوئی کام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو (بھی) اس کی اجازت دے دی تو ایک گروہ نے اس کام سے اجتناب کیا۔ جب یہ بات نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی۔ تو آپ ﷺ نے خطبہ دیا۔ اللہ کی حمد بیان کی پھر فرمایا: کیا بات ہے کہ بعض لوگ اس کام سے اجتناب کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں۔  اللہ کی قسم! میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔

عَن ابِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا، وَلَضَحِکْتُمْ قَلِیلْاً ))۔

( اخرجہ ھمام بن منبہ في صحیفتہ : ۱۵، احمد ۲/۳۱۲، ۳۱۳ عن عبدالرزاق بہ وسندہ صحیح وللحدیث طرق عند البخاريومسلم وغیرھا۔ [السنۃ : ۴۱۷۰])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ شِبْتَ قَالَ : شَیَّبَتْنِيْ ھُوْدٌ۔  وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَعَمَّ یَتَسَآءَ لُوْنَ وَإِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ. (اخرجہ الترمذي:۳۶۹۷ وصححہ الحاکم علٰی شرط البخاري۲/۳۴۳ ووافقہ الذھبي )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ ﷺ ! آپ تو بوڑھے ہو گئے ہیں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے (سورۂ) ہود، واقعہ، المرسلات، عم یتساء لون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا بنا دیا ہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : (( مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُسْتَجْمِعًاضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ، وَکَانَ إِذَا رَاٰی غَیْمًا اَوْ رِیْحًا عُرِفَ ذٰلِکَ فِيْ وَجْھِہٖ، فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَاَوُا الْغَیْمَ فَرِحُوْا رَجَائَ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ الْمَطَرُ، وَإِذَا رَاَیْتَہٗ عُرِفَ فِيْ وَجْھِکَ الْکَرَاھِیَۃُ۔  فَقَالَ : یَا عَائِشَۃُ ! (( مَا یُؤْمِنُنِيْ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْہِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّیْحِ وَقَدْ رَاٰی قَوْمُ الْعَذَابَ فَقَالُوْا :عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ))۔

(متفق علیہ، اخرجہ ابوعوانۃ في مسندہ ( الجزء المفقود ۶/۲۶) البخاري:۴۸۲۹، ۶۰۹۲ مسلم : ۱۶/۸۹۹ من حدیث ابن وھب بہ مختصرًا ومطولاً)۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اس طرح پوری قوت سے ہنستے نہیں دیکھا کہ اس سے آپ کا حلق نظر آنے لگے۔ جب آپ بادل یا (تیز) ہوا کو محسوس کرتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر ظاہر ہو جاتا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ جب بادل (دیکھتے) ہیں تو خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ اس سے بارش ہو گی اور جب میں آپ کو دیکھتی ہوں تو آپ کے چہرۂ مبارک ناگواری کا اثر پاتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! مجھے اس (بات) کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم کو ہوا (اور بادل) کے ساتھ عذاب دیا گیا ہے۔ ایک قوم نے عذاب دیکھ کر کہا تھا کہ یہ بادل ہے جس سے ہمارے لیے بارش ہو گی۔

عَنْ عَائِشَۃَ :((کَانَ النَّبِيُّ ﷺ ، إِذَا رَاٰی مَخِیْلَۃً تَغَیَّرَ وَجْھُہٗ وَتَلَوَّنَ، وَدَخَلَ وَخَرَجَ، وَاَقْبَلَ وَاَدْبَرَ، فَإِذَا اَمْطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ عَنْہُ، قَالَتْ : وَذَکَرْتُ لَہُ الَّذِيْ رَاَیْتُ، قَالَ : (( وَمَا یُدْرِیْہِ لَعَلَّہٗ، قَالَ قَوْمٌ (( فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا : ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا )) الْآیَۃَ ))۔

(اخرجہ ابوعوانۃ (الجزء المفقود ۶/۲۵) ومسلم: ۱۵/۸۹۹ من حدیث ابن جریج بہ)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا  کہ نبی کریم ﷺ جب بادل دیکھتے تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ آپ گھر میں داخل ہوتے اور باہر نکل جاتے۔ آگے آتے اور پیچھے مڑ جاتے اور جب آسمان سے بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہو جاتے تھے۔ میں نے جب آپ سے آپ کے اس عمل کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: کیا پتا ہے کہ کیا ہو گا؟ ایک قوم نے کہا:

فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا۔  ( الاحقاف :۲۴ )

’’جب انھوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا جو اُن کے میدانوں کا رُخ کئے ہوئے تھا تو کہا: یہ بادل ہے اس سے ہمارے لیے بارش ہو گی۔

عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتِ: ((اسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لَیْلَۃً فَزِعًا، یَقُوْلُ ((سُبْحَانَ اللہِ مَاذَا اُنْزِلَ اللَّیْلَۃَ مِنَ الْخَزَائِنِ، وَمَاذَا اُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ، مَنْ یُّوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ؟)) یُرِیْدُ اَزْوَاجَہٗ ((لِکَيْ یُصَلِّیْنَ رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِی الْآخِرَۃِ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب التکبیر والتسبیح عند التعجب:۶۲۱۸)

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک رات رسول اللہ ﷺ ڈرے ہوئے ،نیند سے بیدار ہوئے۔ آپ فرما رہے تھے سبحان اللہ! آج رات کتنے ہی خزانے اور کتنے ہی فتنے اتارے گئے ہیں۔  کون ان حجرے والوں کو جگائے گا؟ یعنی آپ کی بیویاں تاکہ وہ نماز پڑھیں۔  دنیا میں کتنی ہی کپڑا پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔