اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

شرکیہ اعمال

مشرکانہ تصاویر پر وعید

(١٤)۔ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هَذِهِ الصُّوَرَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ۔ (بخاری، رقم٥٩٥١)

''نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ (مشرکانہ)۔ تصویریں جو لوگ بناتے ہیں، اُنھیں قیامت میں عذاب دیا جائے گا، اُن سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے، اُسے اب زندہ کرو۔''

 

توضیح:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت تمام دنیا میں اور خاص کر عرب میں بت پرستی عام تھی۔ لوگ اپنے معبودوں کے بت تراشتے، ان کی تصاویر اور مجسمے بناتے اور انھیں اپنی عبادت گاہوں اور گھروں میں رکھتے تا کہ وہ ان کی پوجا کریں۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کی دعوت تھی۔ چنانچہ آپ نے ان مشرکانہ علامات اور مظاہر پر سخت تنقید کی اور مشرکین کو یہ وعید سنائی کہ جو لوگ یہ مشرکانہ تصویریں بناتے ہیں، اُنھیں قیامت میں سخت عذاب دیا جائے گا اور اُن سے یہکہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے، اُسے اب زندہ کرو اور اُن سے مدد حاصل کرو، جیسا کہ تم سمجھتے تھے کہ یہ زندہ ہستیاں ہیں جو تمھیں نفع و نقصان دے سکتی ہیں۔

 

تعویذ گنڈوں کی مناہی اور شفا کی دعا

(١٥)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ، قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ هَذَا وَاللَّهِ لَقَدْ کَانَتْ عَيْنِی تَقْذِفُ وَکُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَی فُلَانٍ الْيَهُودِیِّ يَرْقِينِی فَإِذَا رَقَانِی سَکَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ کَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا کَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا کَانَ يَکْفِيكِ أَنْ تَقُولِی کَمَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاء َ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا۔ (ابوداؤد، رقم ٣٨٨٣)

''عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: جھاڑ پھونک، گنڈے اور میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کے تعویذسب شرک ہیں۔(عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب نے)۔ کہا تم یہ کیوں کہہ رہے ہو، خدا کی قسم میری آنکھ شدت درد سے نکلی جاتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے جاتی تھی، وہ مجھے دم کر دیتا تھا تو میری آنکھ کو سکون پہنچتا۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا یہ سکون تو شیطان کے عمل سے ہوتاتھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ کو چھوتا (تو اس میں درد ہوتا)، پھر جب دم کیا جاتا تو وہ آنکھ کو چھونے سے باز آ جاتا، (چنانچہ درد ختم ہو جاتا)۔ تیرے لیےیہ کافی تھا کہ تو وہی کلمات کہتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے۔اے انسانوں کے پروردگار بیماری کو دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے جو بیماری کو بالکل ختم کر دے۔''

 

توضیح:

عموماً جھاڑ، پھونک، گنڈوں اور تعویذوں وغیرہ کے ساتھ مشرکانہ عقائد و اعمال وابستہ ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب چیزوں کے بارے میں اہل عرب کے عقائد و اعمال کی بنا پر انھیں شرک قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو بیماری سے شفا پانے کے لیے درج بالا عظیم دعا سکھائی ہے۔

 

غیر اللہ کی قسم کھانے کی نفی

(١٦)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ۔ (ابوداؤد، رقم ٣٢٥١)

''ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی، اُس نے شرک کا ارتکاب کیا۔''

 

توضیح:

انسان جس کی قسم کھاتا ہے اسے اپنی بات، اپنے احوال یا اپنے معاملے پر گواہ بناتا اور اس پر اپنے توکل و اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی انسان اپنے ارادے یا اپنے کسی مؤقف میں جھوٹا ہے یا سچا ہے، اس بات کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، چنانچہ ہم اپنی نیت اور اپنے دل کے ارادے پر جب غیراللہ کو گواہ بناتے ہیں تو ہمارا یہ عمل اس میں بعض خدائی صفات ماننے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہذا، غیراللہ کی قسم کھانے کو مشرکانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔

 

شرکت سے اللہ کی بے نیازی

(١٧)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی: أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاء ِ عَنْ الشِّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِی غَيْرِی تَرَکْتُهُ وَشِرْکَهُ۔ (مسلم، رقم ٧٤٧٥)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے: میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرکت سے بے نیاز ہوں، لہٰذا جس نے اپنے کسی کام میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا، میں اُس سے الگ ہو ں اوروہ اُسی کا ہے جس کو اُس نے میرا شریک بنایا ہے۔

 

توضیح:

وہ عمل جس میں خدا کے ساتھ اس کے غیر کو شریک بنایا گیا ہو، وہ غیر اللہ کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ صفتِ توحید سے متصف نہیں ہوتا اور اُس کے لیے غیر کی شرکت ناگوار نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارا خالق و مالک ہمارا پروردگار جو شرکت سے یکسر بے نیاز ہے، جو 'الواحد' اور 'الاحد' ہے، وہ کسی ایسے عمل کو کیسے قبول کر سکتا ہے جو محض اُسی کی خاطر نہ کیا گیا ہو اور جس سے صرف اُسی کی رضا مقصود نہ ہو۔

 

مشرکانہ اوہام کی نفی

(١٨)۔ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَّهُمْ بَيْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَيْلَةً مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُمِیَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا کُنْتُمْ تَقُولُونَ فِی الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِیَ بِمِثْلِ هَذَا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ کُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ عَظِيمٌ وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِيمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّهَا لَا يُرْمَی بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَکِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَی اسْمُهُ إِذَا قَضَی أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاء ِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّی يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاء ِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ قَالَ فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا حَتَّی يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاء َ الدُّنْيَا فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَيَقْذِفُونَ إِلَی أَوْلِيَائِهِمْ وَيُرْمَوْنَ بِهِ فَمَا جَاء ُوا بِهِ عَلَی وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَکِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيه وَيَزِيدُونَ۔ (مسلم، رقم ٥٨١٩)

''عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ مجھے ایک انصاری صحابی نے بتایا ہے کہ ایک رات جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک تارا ٹوٹا اور خوب روشن ہوا۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا: زمانہ جاہلیت میں جب اس طرح کوئی تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے عرض کیا: (حقیقت تو)۔ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں، ہم سمجھتے تھے کہ آج کی رات میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا مرا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تارے کسی کی موت و حیات سے نہیں ٹوٹتے۔ البتہ (اس کی حقیقتیہ ہے کہ )۔ ہمارا رب جو بہت بابرکت ہے اور جس کا نام بہت بلند ہے، وہ جب کوئی حکم کرتا ہے تو حاملینِ عرش فرشتے (اسے سن کر)۔ اس کی تسبیح کرتے ہیں، پھر ان کی تسبیح سن کر عرش کے قریبی آسمان والے فرشتے اس کی تسبیح کرتے ہیں،یہاں تک کہ یہ تسبیح اس سمائے دنیا کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر عرش سے قریبی آسمان والے فرشتے حاملین عرش فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے، تو وہ انھیں بتاتے ہیں کہ یہ حکم ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اسی طرح سے ہر آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو خبر دیتے ہیں،یہاں تک کہ وہ خبر سمائے دنیا تک پہنچ جاتی ہے، تو پھر یہاں سے وہ خبر جنات اچک لیتے اور اپنے دوستوں (کاہنوں وغیرہ)۔ کو سناتے ہیں، (اس موقع)۔ پر اُنھیں ان (شہابوں )۔ کے ذریعے سے مارا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ (جنات)۔ جو اصل خبر لائے ہوتے ہیں اگر اتنی ہی بیان کی جائے تو وہ سچ ہوتی ہے، مگر یہ (کاہن وغیرہ)۔ اس میں جھوٹ ملاتے اور اضافہ کرتے ہیں۔''

 

توضیح:

تاروں کے ٹوٹنے کے بارے میں عربوں میں جو بے بنیاد تصور پایا جاتا تھا، اس کی تردید کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ ان کے اس طرح ٹوٹنے کے اسباب میں سے ایک خاص سبب کیا ہے۔

 

اشیا کے مؤثر بالذات ہونے کی نفی

(١٩)۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِیِّ أَنَّهُ قَالَ صَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَی إِثْرِ سَمَاء ٍ کَانَتْ مِنْ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِی مُؤْمِنٌ بِی وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِی وَکَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْء ِ کَذَا وَکَذَا فَذَلِكَ کَافِرٌ بِی وَمُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ۔ (بخاری،رقم٨٤٦)، (مسلم،رقم ٢٣١)

''زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔آپ نے بتایا کہ اللہ فرماتا ہے:میرے بندوں میں کچھ نے مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں۔ پس جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تویہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان رکھتے اور ستاروں (کے مؤثر بالذات ہونے)۔ کا کفر کرتے ہیں اور جنہوں نے یہ کہا کہ یہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے، وہ ستاروں پر ایمان رکھنے والے اور میرا کفر کرنے والے ہیں۔''

 

توضیح:

عربوں کے ہاں مختلف ستاروں کے بارے میںیہ تصور پایا جاتا تھا کہ یہ تارے جب آسمان میں فلاں فلاں جگہ پر ظاہر ہوتے ہیں تو اِن کے اثر سے بارش ہوتی ہے، وہ اُس بارش کو خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں، بلکہ اُس کے اذن کے بغیر براہِ راست ان تاروں کا اثر سمجھتے تھے، کیونکہ وہ ان تاروں کو مؤثر بالذات جانتے تھے۔ ان احادیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ چیز کفر ہے اور خدا پر ایمان کے خلاف ہے۔

 

باطل تصورات کی نفی

(٢٠)۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ کَانَ يُخْبِرُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا۔ (بخاری،رقم١٠٤٢)، (مسلم، رقم ٢١٢١)

''ابن عمر رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کرتے تھے: یہ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں گہناتے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، چنانچہ جب تم اِنھیں (گہنایا ہوا)۔ دیکھو تو نماز پڑھو۔''

 

توضیح:

عربوں کے ہاں سورج اور چاند کے گہنانے کے بارے میںیہ تصور پایا جاتا تھا کہ یہ کسی بڑے آدمی کے پیدا ہونے یا اس کے مرنے پر گہناتے ہیں۔ آپ نے اس بے بنیاد خیال کی نفی کی اور فرمایا کہ ان کا گہنا جانا اللہ کی دو نشانیوں کا ظاہر ہونا ہے، چنانچہ جب تم یہ آیاتِ الہی دیکھو تو نماز پڑھو، یعنی خدا کی طرف بڑھو، اُس کے لیے رکوع اور سجدہ کرو۔

 

علم غیب کی نفی

(٢١)۔ عَنْ صَفِيَّةَ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَیْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔ (مسلم، رقم٥٨٢١)

''صفیہ (تابعیہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اپنی کسی چیز کا پتا پوچھنے عراف کے پاس جائے گا، اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی۔''

 

(٢٢)۔ عَنْ صَفِيَّةَ عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ لَمْ يُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ يَوْمًا۔ (أحمد، رقم ١٦٢٠٢)

''صفیہ (تابعیہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص (کسی چیز کا پتا پوچھنے کے لیے)۔ عراف کے پاس جائے گا اور پھر جو وہ کہے اسے سچ سمجھے گا، تو اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی''۔

 

توضیح:

عراف ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو چوری کا پتا بتانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ کوئی شخص اگر ان کے پاس اپنی گم شدہ چیز کا پتا پوچھنے جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اِسی خیال اور اعتماد سے جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی درجے میں غیب کی بات جان سکتے ہیں۔ قرآن کا واضح بیان ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص قرآن کی اِس واضح بات کے خلاف عمل کرتے ہوئے عراف کے پاس جائے گا تو اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

 

کہانت کی حقیقت

(٢٣)۔ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سَأَلَ أُنَاسٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْکُهَّانِ فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِشَيْئٍ، فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ بِالشَّیْء ِ يَکُونُ حَقًّا قَالَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ الْکَلِمَةُ مِنْ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّیُّ فَيُقَرْقِرُهَا فِی أُذُنِ وَلِيّهِ کَقَرْقَرَةِ الدَّجَاجَةِ فَيَخْلِطُونَ فِيهِ أَکْثَرَ مِنْ مِائَةِ کَذْبَةٍ۔ (بخاری، رقم ٧٥٦١)

''عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول وہ (بعض اوقات)۔ ایسی باتیں بیان کر دیتے ہیں جو سچ ہو جاتی ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بات سچی ہوتی ہے، جسے کسی جن نے (فرشتے سے)۔ اچکا ہوتا ہے اور پھر وہ اُس بات کو مرغی کی طرح کٹ کٹ کر کے اپنے (کاہن)۔ دوستوں کے کان میں ڈال دیتا ہے اور یہ لوگ اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں۔''

 

(٢٤)۔ قَالَتْ عَائِشَةُ سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْکُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ لَيْسُوا بِشَیْء ٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّهمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا الشَّیْء َ يَکُونُ حَقًّا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْکَلِمَةُ مِنْ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّیُّ فَيَقُرُّهَا فِی أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَکْثَرَ مِنْ مِائَةِ کَذْبَةٍ۔ (مسلم، رقم ٥٨١٧)

''عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: یہ کاہن کچھ بھی نہیں ہوتے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بعض اوقات ایسی بات بیان کر دیتے ہیں جو سچی ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (دراصل)۔ جنات کی (اڑائی ہوئی باتوں میں سے ایک)۔ بات ہوتی ہے جسے کسی جن نے اڑایا ہوتا ہے اور پھر وہ اسے اپنے (کاہن)۔ دوستوں کے کان میں مرغی کی طرح کٹ کٹ کرتے ہوئے ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ (لوگوں سے بیان کرتے ہوئے)۔ اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔''

 

توضیح:

ان احادیث میں کہانت کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جب کاہنوں کے پاس علم غیب نہیں ہوتا تو پھر ان کی بتائی ہوئی کوئی ایک آدھ خبر سچی کیسے ہو جاتی ہے۔

 

مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی

(٢٥)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (بخاری، رقم ٥٧٥٧)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے اور نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے۔''

 

(٢٦)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ حِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ، فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ الْإِبِلِ تَکُونُ فِی الرَّمْلِ کَأَنَّهَا الظِّبَاء ُ فَيَجِیء ُ الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ فِيهَا فَيُجْرِبُهَا کُلَّهَا قَالَ: فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔ - إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ۔ (مسلم، رقم ٥٧٨٨، ٥٧٨٩)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ چھوت ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، تو ایک دیہاتی شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہوتا ہے جو ریگستان میں ہوتے ہیں تو ایسے (صاف اور چکنے)۔ ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن، پھر ایک خارشی اونٹ آتا اور ان میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ سب کو خارشی کر دیتا ہے۔آپ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔ --- (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہوتا ہے اور نہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔''

 

(٢٧)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا غُولَ۔ (مسلم، رقم ٥٧٩٥)

''جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ چھوت ہے، نہ بد فالی ہے اور نہ غول بیابانی ہی کوئی چیز ہے۔''

 

توضیح:

متعدی بیماریاں کیسے پھیلتی ہیں ؟ اس سوال کا وہ علمی جواب جو آج ہمارے پاس موجود ہے، ظاہر ہے کہ وہ عربوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے ہاں بعض توہمات کی بنا پر متعدی بیماری والے جانور کے بارے میںیہ عقیدہ پیدا ہو گیا کہ اس میں کوئی ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر وہ دوسروں کو بیمار کرسکتا ہے، یعنی وہ جانور موثر بالذات ہو جاتا ہے۔

 

بدفالی کے حوالے سے ان کا تصور یہ تھا کہ بعض جانوروں کے افعال انسانوں کو نفع و نقصان دیتے اور ان کی قسمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

 

ان کا ایک خیالیہ بھی تھا کہ انسانوں اور جانوروں کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے ایک سانپ نما کیڑا پیدا ہو جاتا ہے، جو انھیں مار دیتا ہے۔ وہ اس مرض کو بھی متعدی بیماریوں کی طرح مؤثر بالذات سمجھتے تھے۔

 

ان کا ایک باطل تصور یہ بھی تھا کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی روح کھوپڑی سے پرندہ بن کر نکلتی ہے اور 'مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ' کے الفاظ کے ساتھ چلاتی رہتی ہے، پھر جب اس کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے تو پھر وہ پرندہ کہیں اڑ جاتا ہے۔

 

اسی طرح اہل عرب یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ بیابانوں میں ایسے جنات اور شیاطین ہوتے ہیں جو اپنی شکلیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ مسافروں کو دکھائی دیتے ہیں اور انھیں راستے سے بھٹکا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ وہ انھیں غولِ بیابانی کہتے تھے۔

 

درجِ بالا احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے ان سب باطل اور مشرکانہ عقائد و تصورات کی نفی فرمائی اور یہ بتایا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور (اللہ کے سوا )کوئی چیز بھی مؤثربالذات نہیں ہوتی۔

 

انبیا کی محبت میں غلو کی نفی

(٢٨)۔ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تُطْرُونِی کَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ۔ (بخاری،رقم٣٤٤٥)

''عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: مجھے میرے مرتبے سے نہ بڑھاؤ جیسے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو ان کے مرتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو بس اللہ کا بندہ ہوں، چنانچہ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔''

 

توضیح:

انبیا اور صالحین کے ساتھ اُن کے متبعین کی محبت بڑی فطری چیز ہے، لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے تو یہی محبت انھیں شرک کی وادی میں دھکیل دیتی ہے۔محبت کے حد سے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کو اس کے حقیقی مقام سے ہٹا کر کسی غیر حقیقی جگہ پر کھڑا کر دیا جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص خود انھیں اُن کے حقیقی مقام و مرتبہ سے ہٹا دے اور اُنھیں اُس سے بلند خیال کرنے لگے۔

 

مشرکانہ کلمات کی نفی

(٢٩)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ مَا شَاء َ اللَّهُ وَشِئْتَ فَقَالَ: بَلْ مَا شَاء َ اللَّهُ وَحْدَهُ۔ (احمد،رقم١٩٦٥)

''ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو 'ما شاء الله و شئت'(جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں )۔ کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا:بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔''

 

توضیح:

وہ باتیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، آپ نے ان کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کیا کہ ان میں کسی اور کو شریک کرنا جائز نہیں۔ اس کائنات میں چونکہ صرف ایک ہی مشیت جاری و ساری ہے، لہذاآپ نے اس میں کسی بھی دوسرے کو شریک کرنے سے منع فرمایا۔

 

مشرکانہ عمل کی ممانعت

(٣٠)۔ عَائِشَهُ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ قَالَا لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَی وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا کَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ کَذَلِكَ: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَی الْيَهُودِ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا۔ (بخاری، رقم ٤٣٦)

''عائشہ اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے پھر جب کچھ افاقہ ہوتا تو اسے اپنے چہرے سے ہٹا دیتے، آپ نے اضطراب کی اسی حالت میں فرمایا: یہود و نصاریٰ پر خدا کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ آپ (یہ فرما کر اپنی امت کو)۔ ان کاموں سے بچنے کو کہہ رہے تھے جو انھوں نے کیے تھے''۔

 

(٣١)۔ عَنْ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا۔ (مسلم، رقم ٢٢٥٠)

''ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قبروں پر بیٹھا کرو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرو۔''

 

توضیح:

قبروں پر بیٹھنا اس لیے منع فرمایا کہ یہ صاحب قبر کی توقیر کے خلاف ہے اور ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے اس لیے منع فرمایا کہ اس میں اُن کی عبادت کرنے سے مشابہت پائی جاتی ہے اور اس لیے بھی کہ پھر کہیں رفتہ رفتہ انھیں عبادت گاہیں نہ بنا لیا جائے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ آپ نے اُن کے اسی کام کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور اپنی امت کو متنبہ کیا کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں۔