اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

فضائلِ اخلاق

اتمام اخلاق --- مقصدِ بعثت

 

(١) عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ۔ (احمد، رقم ٨٩٥٢)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں  اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیاہوں ۔''

 

توضیح:

ہر مسلمان سے دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیہ اخلاق ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیےیہ لازم ہے کہ انسان خالق اور مخلوق دونوں  کے ساتھ اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ پاکیزہ عمل ہی کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔تمام شریعت اسی کی فرع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصدیہی تھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کر دیں ۔

 

اخلاقِ نبوی اور آپ کا معیارِ فضیلت

(٢) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ يَکُنْ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ يَقُولُ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا۔ (صحيح بخاری، رقم ٣٥٥٩)

''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔''

 

(٣) عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حِينَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ إِلَی الْکُوفَةِ فَذَکَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا۔ (صحيح مسلم، رقم ٦٠٣٣)

''مسروق سے روایت ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ہم (ان کے ساتھ آنے والے صحابی) عبداللہ بن عمرو سے ملنے گئے۔ انھوں  نے دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھیڑا اور یہ بتایا کہ آپ نہ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی اور یہ بھی بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔''

 

(٤) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ:إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَیَّ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا۔ (بخاری، رقم ٣٧٥٩)

''عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ کا ارشادہے: مجھے تم میں  سے وہی لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں  جو دوسروں  سے بہتر اخلاق والے ہیں ۔''

 

توضیح:

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  فرماتا ہے،(انك لعلی خلق عظيم)''بے شک آپ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں ''۔

 

یہ احادیث آپ کے انھی اخلاق عالیہ کے اس پہلو کو بیان کرتی ہیں  کہ آپ تلخ و شیریں ، غصہ و محبت، اچھے اور برے کسی حال میں  بھی بد گوئی اور بد زبانی کرنے والے نہ تھے۔ آپ خود بھی اعلی اخلاق کے حامل تھے اور آپ کے نزدیک وہی لوگ زیادہ پسندیدہ تھے جو اخلاق میں  دوسروں  سے بہتر ہوتے تھے۔

 

اخلاقِ حسنہ کی حیثیت

(٥) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ شَیْء ٍ أَثْقَلُ فِی الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ۔ (ابوداؤد، رقم٤٧٩٩)

''ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میزان میں  کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی''۔

 

(٦) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا شَیْء ٌ أَثْقَلُ فِی مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيئَ۔ (ترمذی، رقم ٢٠٠٢)

''ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں  کوئی چیز بھی اُس کے اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی اور بے شک اللہ تعالیٰ بے حیا بد گو شخص کودشمن رکھتا ہے۔''

 

توضیح:

وہ بہترین عمل جس کا انسان تصور کر سکتا ہے، وہ اس کا اچھا اخلاق ہی ہے، چنانچہ یہی عمل اس کی میزان میں  سب سے زیادہ وزنی ہو گا۔ بے حیائی اور بد گوئی، ان دونوں  صفات کو وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلاًعاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں  مبغوض ہے۔

 

اخلاق حسنہ کا درجہ

(٧) عَنْ عَائِشَةَ رَحِمَهَا اللَّهُ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِم۔ (ابو داؤد، رقم ٤٧٩٨)

''عائشہ رحمھا اللہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ مومن حسن اخلاق سے وہی درجہ حاصل کرلیتا ہے جو دن کے روزوں  اور رات کی نمازوں  سے حاصل ہوتا ہے ۔''

 

(٨) عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ شَیْء ٍ يُوضَعُ فِی الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ۔ (ترمذی، رقم٢٠٠٣)

''ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں  کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔''

 

توضیح:

اللہ کی رضا کے لیے دن بھر روزے رکھنا اور رات بھر نماز پڑھنا یقینایہ دونوں  بہت بڑے اعمال ہیں  اور انسان ان سے بہت بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ نے اخلاق عالیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی درجہ انسان اچھے اخلاق سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔

 

نیکی اور بدی--- اچھا اور برا اخلاق

(٩) عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ:الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِی صَدْرِكَ وَکَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ۔ (مسلم، رقم ٦٥١٦)

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں  پوچھا تو آپ نے فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں  کھٹک پیدا کردے اورتم یہ پسند نہ کرو کہ دوسرے لوگ اُسے جانیں ۔''

 

توضیح:

دوسروں  کے ساتھ نیکی اور اچھے برتاؤ ہی کا نام حسن اخلاق ہے۔ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان دوسرے کی جانب سے اپنے لیے حسن اخلاق کا طالب ہوتا اور بدییعنی برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے اور اگر وہ خود کسی برائی میں  مبتلا ہو تو دوسروں  کے سامنے اس کا افشا پسند نہیں  کرتا۔

 

صراط مستقیم کی مثال

(١٠)۔ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَه (وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِی مَنْ يَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ) وَالْأَبْوَابُ الَّتِی عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِی حُدُودِ اللّهِ حَتَّی يُکْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِی يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ۔ (ترمذی، رقم٢٨٥٩)

''نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ وہ ایسا راستہ ہے جس کے دونوں  طرف دو دیواریں  ہیں ، جن میں  جابجا دروازے کھلے ہوئے ہیں  اور اُن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ ایک بلانے والا اس راستے کے سرے پر بلا رہا ہے اور دوسرا اس کے اوپر سے بلا رہا ہے۔ (اللہ دارالسلام (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے)۔ یہ دروازے جو صراط مستقیم کی دونوں  اطراف پر ہیں ، یہ اللہ کی حدود ہیں ، کوئی شخص بھیان حدود میں  داخل نہیں  ہو سکتا جب تک کہ پردہ نہ اٹھایا جائے اور وہ جو اس راستے کے اوپر سے بلا رہا ہے وہ اس کے رب کا ایک واعظ ہے۔''

 

(١١) عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَلَی جَنْبَتَیْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ وَعَلَی بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا وَلَا تَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَا أَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ تَعَالَی وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ تَعَالَی وَذَلِكَ الدَّاعِی عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ کِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِی فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِی قَلْبِ کُلِّ مُسْلِمٍ۔ (مسند احمد، رقم ١٧١٨٢)

''نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ اس (راستے) کے دونوں  طرف دو دیواریں  کھنچی ہوئی ہیں ، ان میں  جابجا کھلے ہوئے دروازے ہیں ، جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اے لوگو سب اس راستے پر آجاؤ اور اس سے نہ ہٹو اور ایک پکارنے والا اس کے اندر سے پکار رہا ہے، چنانچہ جب کوئی شخص ان دروازوں  میں  سے کسی کا پردہ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ پکار کرکہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ (آپ نے فرمایا:) یہ راستہ اسلام ہے ، دیواریں  اللہ کے حدود ہیں ، دروازے اُس کی قائم کردہ حرمتیں  ہیں ، راستے کے سرے پر پکارنے والا منادی قرآن مجید ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندہ مومن کے دل میںموجود ہے''۔

 

توضیح:

ان احادیث میں  صراط مستقیم، اس کے ارد گرد موجود دنیوی ترغیبات، اِن ترغیبات کا انسان کیسے شکار ہوتا ہے، قرآن مجید کی دعوت کیا ہے اور ضمیر انسان کی زندگی میں  کیا کردار ادا کرتا ہے، اس سب کچھ کو بہت عمدہ اور بڑی واضح تمثیل میں  بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو بڑی متوازن صورت میں  آزمائش بنایا ہے۔ اس میں  اگر ایک طرف نافرمانی کی ترغیبات موجود ہیں  تو اُس کے مقابل میں  اس سے روکنے کے لیے تنبیہات بھی موجود ہیں ، چنانچہ یہاں  اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فیصلے اور اپنے ارادے ہی سے کرتا ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنی بد عملی کا ذمہ دار نہیں  ٹھہرا سکتا۔

 

اعمالِ صالحہ کا دارو مدار

(١٢) عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِیَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَی الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَی دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَی امْرَأَةٍ يَنْکِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَی مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔ (بخاری، رقم١)، (مسلم، رقم ٤٩٢٧)

''علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں  کہ میں  نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال کا دارو مدار تو بس نیتوں  پر ہے۔ ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہو گا جس کی اُس نے نیت کی ہو گی۔ چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کی کسی چیز کے لیے ہوئی جسے وہ پانا چاہتا تھا یا کسی عورت کی خاطر ہوئی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتا تھا تو اُس کی ہجرت (خدا اور اُس کے رسول کے لیے نہیں  بلکہ) اسی چیز کے لیے شمار ہو گی جس کی خاطر اُس نے ہجرت کی ہو گی۔''

 

(١٣) عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ - سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّی اسْتُشْهِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِیء ٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهِ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ (مسلم، رقم ٤٩٢٣)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن سب سے پہلے اُس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں  شہید ہوا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیںیاد دلائے گا، وہ ان سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں  تیری راہ میں لڑا، یہاں  تک کہ میں  شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ بولتا ہے تو میری راہ میں  نہیں ، بلکہ اِس لیے لڑا تھا کہ تُو بہادر کہلائے اور وہ تُو کہلا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

دوسرا وہ شخص ہو گا جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیںیاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں  نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری خوشنودی کے لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا)۔ پروردگار کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، تو نے میری خوشنودی کے لیے نہیں ، بلکہ اس لیے علم سیکھا اور سکھایا تھا تا کہ لوگ تجھے عالم کہیں  اور اس لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں  شخص قاری (قرآن کا معلم) ہے، اور یہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

تیسرا وہ شخص ہو گا جسے اللہ نے کشادگی عطا فرمائی اور ہر طرح کا مال دیا تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیںیاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔ وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں نے تیری رضا کی خاطر ہر اُس موقع پر انفاق کیا ہے، جہاں  انفاق کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے تو نے میری رضا کے لیے نہیں ، بلکہ اِس لیے مال خرچاتھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں  اور وہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے بھی جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا''۔

 

توضیح:

کسی عمل کے بارے میں  جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کیا وہ عمل اپنی حقیقت میں  بھی ویسا ہی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اگر 'ہاں ' میں  ہو تو اس عمل کو ہم خالص عمل قرار دیتے ہیں  اور اگر اس کا جواب 'نہ' میں  ہو تو پھر اس عمل کو ناخالص عمل قرار دیا جاتا ہے۔ ان احادیث میںیہ بتایا گیا ہے کہ جن اعمال کے بارے میںیہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خدا کی رضا کے لیے کیے گئے ہیں ، اگر وہ حقیقت میں  کسی اور غرض سے کیے گئے تھے تو وہ انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیں  گے، کیونکہ خدا کسی ناخالص عمل کو ہرگز قبول نہیں  کرے گا۔