اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

بے مثال صبر و تحمل و درگزر

عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ ا قَالَتْ : مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فِيْ اَمْرَیْنِ إِلاَّ اَخَذَ اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا، فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ۔  وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لِنَفْسِہٖ، إِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِہَا(اخرجہ مالک فی الموطا(۲/۹۰۲، ۹۰۳ روایۃ ابي مصعب ۱۸۸۲) البخاري: ۳۵۶۰ مسلم: ۷۷/۲۳۲۷ من حدیث مالک بہ۔  [السنۃ: ۳۷۰۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب بھی رسول اللہﷺ کو دو کاموں میں سے (ایک کا) اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کام ہی اختیار کیا جب تک کہ اس میں (کوئی) گناہ نہیں تھا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ الا یہ کہ اگر اللہ کی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ : مَارَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مُنْتَصِرًا مِنْ مَظْلِمَۃٍ ظُلِمَھَا قَطُّ، مَالَمْ یُنْتَھَکْ مِنْ مَحَارِمِ اللہِ شَيْئٌ فَإِذَا انْتُھِکَ مِنْ مَّحَارِمِ اللہِ شَيْئٌ کَانَ مِنْ اَشَدِّھِمْ فِيْ ذٰلِکَ غَضَبًا، وَمَا خُیِّرَ بَیْنَ اَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ مَاْثَمًا۔ (اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۴۸ و مسلم: ۲۳۲۷ عن احمد بن عبدۃ بہ مختصرًا۔ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک کہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا نہ جائے اور اگر اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اس پر سب سے زیادہ غصہ فرماتے تھے اور جب بھی دو کاموں کے درمیان آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَسَمَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ قَسْمًا فَقَالَ رَجُلٌ : مَا اُرِیْدَ بِہٰذَا وَجْہَ اللہِ فَاَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ فَتَمَعَّرَ وَجْھُہٗ ثُمَّ قَالَ : (( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ اُوْذِيَ بِمَا ھُوَ اَشَدُّ مِنْ ھٰذَا فَصَبَرَ ))

(بخاري، الادب باب من اخبر صاحبہ بما یقال فیہ:۶۰۵۹ من حدیث سفیان الثوري بہ مسلم : ۱۰۶۲ من حدیث الاعمش بہ۔  [السنۃ : ۳۶۷۱])

سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے (ایک دفعہ غنیمت) کا مال تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا: اس تقسیم کے ساتھ اللہ کی رضا مندی مطلوب نہیں۔  تو میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور یہ بات آپ کو بتائی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا پھر آپ نے فرمایا: اللہ موسیٰ علیہ ا لسلام پر رحم کرے۔ انھیں اس سے زیادہ تکلیف دی گئی ہے پھر انھوں نے صبر کیا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کُسِرَتْ رَبَاعِیَّۃُ النَّبِيِّ ﷺ یَوْمَ اُحُدٍ وَشُجَّ فَجَعَلَ الدَّمُ یَسِیْلُ عَلٰی وَجْھِہٖ وَھُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ وَیَقُوْلُ:(( کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ )) فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ۔  ( الترمذي: ۳۰۰۲، ۳۰۰۳ وابن ماجہ:۴۰۲۷ وغیرھما من حدیث حمید الطویل بہ ولہ شواھد عند البخاري ومسلم (۱۷۹۱) وغیرہما)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: احد والے دن، نبی کریم ﷺ کے اگلے دونوں دانت شہید ہو گئے اور آپ کا سر مبارک زخمی ہوا۔ آپ ﷺ کے چہرے پر خون بہہ رہا تھا اور آپ اسے پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: وہ قوم کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون سے رنگا ہے حالانکہ وہ انھیں ان کے رب کی طرف دعوت دے رہا ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ (سورۃ اٰل عمران : ۱۲۸)

’’آپ ﷺ کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں ہے‘‘۔

عَنْ جُنْدُبٍ یَقُوْل: بَیْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ یَمْشِيْ إِذْ اَصَابَہٗ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِیَتْ اَصْبَعُہٗ، فَقَالَ : ((ھَلْ اَنْتِ إِلَّااَصْبَعٌ دَمِیْتِ، وَفِيْ سَبِیْلِ اللہِ مَا لَقِیْتِ ))۔  (صحیح البخاري، الادب باب ما یجوز من الشعر: ۶۱۴۶ مسلم: ۱۷۹۶۔ [السنۃ: ۳۰۴۱])

سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ چل رہے تھے آپ کو ایک پتھر آ لگا۔ پس آپ گر گئے اور آپ کی انگلی زخمی ہو گئی تو آپ نے فرمایا: تو ایک انگلی ہے جو زخمی ہوئی ہے تجھے جو پہنچا وہ اللہ کے راستے میں (جہاد) سے پہنچا ہے۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : جَائَ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَاَبَتْ فَادْعُ اللّٰہَ عَلَیْھَا، فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ الْقِبْلَۃَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّاسُ : ھَلَکَتْ دَوْسٌ، فَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَاْتِ بِہِمْ)) (اخرجہ الإمام الشافعي فی الام ۱/۱۶۲ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا: یارسول اللہ! بے شک دوس (قبیلے) نے نافرمانی اور انکار کیا ہے پس آپ ان کے لئے بددعا فرمائیں تو رسول اللہﷺ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لیے۔ لوگوں نے کہا: (دوس والے) ہلاک ہو گئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ دوس کو ہدایت دے اور انھیں (میرے پاس) لے آ۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ الْیَھُوْدَ اَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوْا: اَلسَّامُ عَلَیْکَ ، قَالَ : ((وَعَلَیْکُمْ))۔ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: السَّامُ عَلَیْکُمْ، وَلَعَنَکمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((مَھْلًا یَا عَائِشَۃُ! عَلَیْکِ بِالرِّفْقِ وَإِیَّاکَ وَالْعُنْفَ اَوِ الْفُحْشَ))، قَالَتْ : لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا؟ قَالَ: (( اَوَلَمْ تَسْمَعِيْ مَا قُلْتُ؟ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِيْ فِیْھِمْ، وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِيَّ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب ۳۸ ح ۶۰۳۰ مسلم : ۲۱۶۵۔ [السنۃ : ۳۳۱۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس یہودی آئے تو کہا: السام علیک ( آپ پر موت ہو) آپ ﷺ نے فرمایا: وعلیکم یعنی اور تم پر بھی ہو، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے (یہودیوں سے) کہا: السام علیکم اور تم پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ اے عائشہ! تمھیں نرمی کرنی چاہیے سختی اور فُحش سے بچنا چاہئے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ نے نہیں سنا کہ انھوں نے کیا کہا: فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا جو میں نے جواب دیا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی۔ میری دعا ان کے بارے میں قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا میرے بارے میں قبول نہیں ہوتی۔