اخلاقِ حسنہ

امان اللہ فیصل/ مشتاق احمد شاکر

بیت اللہ کی تعمیر اور حجراسود کی تنصیب میں جھگڑے کا فیصلہ

فرمان الٰہی ہے :

(ترجمہ)’’بے شک اللہ (تعالیٰ) کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے (بطور قبلہ) مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے جو پوری کائنات کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ جس میں واضح نشانیاں ہیں اور مقام ابراہیم ہے۔ اس میں داخل ہونے والا امن میں ہو جاتا ہے۔ اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اس گھر (بیت اللہ) کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر (انکار) کرے تو بے شک اللہ (اس سے بلکہ)تمام دنیا والوں سے بے پرواہ ہے۔‘‘ ( اٰلِ عمران 96 تا 97)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 35 سال ہوئی تو ایک زوردار سیلاب آیاجس سے بیت اللہ کی دیواریں پھٹ گئیں اس لئے قریش مجبور ہو گئے کہ بیت اللہ کا مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لئے اسے ازسرنو تعمیرکریں ۔ اس موقع پر انہوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال مال ہی استعمال کریں گے۔ زانیہ کی اجرت، سود کی آمدنی اور کسی سے ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں کریں گے۔ جب حلال مال اکٹھا کیا گیاتو وہ مال اتنا نہیں تھا کہ جس سے بیت اللہ کو اس کی اصل بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جا سکے لہٰذا انہوں نے مال کی کمی کی و جہ سے شمال کی طرف سے کچھ حصّہ کو تعمیر میں شامل نہیں کیا بلکہ اس پر ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر چھوڑ دی۔ یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا ہے۔ جب خانہ کعبہ کی عمارت حجر اسود تک بلند ہوچکی تو حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے بارے میں قریش کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ کے سردار نے چاہا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو۔یہ جھگڑا پانچ دن تک چلتا رہا اور اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ قریب تھا کہ حرم میں خون خرابہ ہو جاتا۔ اتنے میں ایک عمر رسیدہ شخص ابوامیہ مخزومی نے یہ تجویز پیش کی کہ صبح مسجد حرام کے دروازہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اسے منصف (فیصلہ کرنے والا) مان لیں ۔ سب لوگوں نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی پکار اُٹھے۔

ھٰذَا الْاَمِیْنُ رَضِیْنَاہُ ھٰذَا مُحَمَّدٌ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

’’یہ امین محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں ، ہم ان سے راضی ہیں ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاملہ کی تفصیل بتائی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی جس میں اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں سے کہا: تم لوگ اس چادرکو کناروں سے پکڑکر اسے حجر اسود کے مقام تک لے چلو۔ جب وہ وہاں لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔یہ اتنا عمدہ فیصلہ تھا کہ جس پر تمام لوگ راضی ہو گئے۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت قریش نے اس کا دروازہ تقریباً دو میٹر اونچا رکھا تاکہ کوئی بھی شخص ان کی اجازت کے بغیر بیت اللہ میں داخل نہ ہو سکے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بچپن ہی سے عمدہ صفات کے حامل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام برائیوں سے پاک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے اور مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کرتے اور کبھی وعدہ خلافی نہ کیا کرتے تھے۔ (بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے صحیح سوچ، دوربینی اور حق پسندی کے بلند معیار پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمدہ عقل اور روشن فطرت سے لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور وہ جن بیہودہ باتوں میں مشغول تھے ان سے بیزاری کا اظہار کیا۔ جب قوم میں برائیاں عام تھیں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان عملی زندگی کا وقت گزارا۔ جو کام اچھا ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں شرکت فرماتے اور ہر برے کام سے دور رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کبھی آستانوں کا ذبیحہ کھایا اور نہ ہی غیر اللہ کے لئے منعقد کئے گئے تہواروں میں شرکت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن ہی سے خود ساختہ معبودوں سے نفرت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ معبودوں کی قسم کھانا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غیراللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ (بخاری۔عن ابن عمر رضی اللہ عنہما )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں بہترین کردار، فاضلانہ اخلاق اور بہترین عادات کی و جہ سے ممتاز تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے، مہمان کی میزبانی فرماتے اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں ۔‘‘ (بیہقی)