اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

جرأت و شجاعت نبی ﷺ

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ، وَاَجْوَدَ النَّاسِ، وَاَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَھُمُ النَّبِيُّ اقَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَی الصَّوْتِ وَھُوَ یَقُوْلُ: (( لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا )) وَھُوَ عَلٰی فَرَسٍ لِاَبِيْ طَلْحَۃَ عُرْيٍ مَا عَلَیْہِ سَرْجٌ ، فِيْ عُنُقِہٖ سَیْفٌ۔  فَقَالَ: ((لَقَدْ وَجَدْتُّہٗ بَحْرًا )) ، اَوْ إِنَّہٗ لَبَحْرٌ۔(البخاري، الادب باب حسن الخلق والسخاء:۶۰۳۳مسلم، الفضائل باب شجاعتہ : ۲۳۰۷)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ایک رات (کسی وجہ سے) مدینہ والے ڈر گئے۔ پھر لوگ اس (ڈراؤنی) آواز کی طرف چلے تو ان کے سامنے نبی کریم ﷺ آ گئے۔ آپ لوگوں سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ فرما رہے تھے: ڈرو نہیں ، ڈرو نہیں۔  آپﷺ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی (بغیر زین والی) ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس گھوڑے کو سمندر جیسا (تیز) پایا ہے۔

سَاَلَ رَجُلٌ الْبَرَائَ فَقَالَ: یَا اَبَاعُمَارَۃَ، اَوَلَّیْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ؟ قَالَ الْبَرَائُ وَاَنَا اَسْمَعُ : اَمَّا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لَمْ یُوَلِّ یَوْمَئِذٍ، کَانَ اَبُوْسُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ اَخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِہٖ، فَلَمَّا غَشِیَہُ الْمُشْرِکُوْنَ نَزَلَ فَجَعَلَ یَقُوْلُ :اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ، اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ : فَمَا رَاَی النَّاسُ یَوْمَئِذٍ اَشَدَّ مِنْہُ۔

(صحیح البخاري، الجھاد باب من قال خذھا وانا فلان: ۳۰۴۲، مسلم:۱۷۷۶ من حدیث ابي إسحاق السبیعي بہ )

ایک آدمی نے براء رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابو عمارہ! کیا آپ (جنگ) حنین والے دن بھاگ گئے تھے۔ براء نے کہا: رسول اللہﷺ نہیں بھاگے تھے۔ ابوسفیان آپ کی خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے جب آپ کے ارد گرد مشرکین چھا گئے تو آپ یہ کہتے ہوئے نیچے اتر آئے۔

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ

’’میں نبی ہوں۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں میں عبد المطلب (کے بیٹے) کا بیٹا ہوں ‘‘۔

لوگوں میں آپﷺ سے زیادہ کوئی دلیر نہیں دیکھا گیا۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کُنَّا إِذَا حَمِيَ الْبَاْسُ، وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ؛ اتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، فَمَا یَکُوْنُ اَحَدٌ اَقْرَبَ إِلَی الْعَدُوِّ مِنْہُ۔ (النسائي فی السنن الکبریٰ: ۸۶۳۹ واحمد ۱/ ۱۵۶ من حدیث زھیر بن معاویۃ ابي خیثمۃ بہ وانظر الحدیث الآتي۔  [السنۃ : ۳۶۹۸])

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوتا اور جنگ تیز ہو جاتی تو ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے پناہ لیتے تھے۔ آپ ﷺ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہیں ہوتا تھا۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَقَدْ رَاَیْتُنِيْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَنَحْنُ نَلُوْذُ بِالنَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ اَقْرَبُنَا إِلَی الْعَدُوِّ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَاْسًا۔ (احمد ۱/۸۶ عن وکیع بہ وصححہ الحاکم ۲/۱۴۳ ووافقہ الذھبي، [السنۃ : ۳۶۹۹])

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بدر کے دن دیکھا کہ نبی ﷺ دشمن کے زیادہ قریب تھے اور ہم آپﷺ کے پیچھے پناہ پکڑے ہوئے تھے۔ آپﷺ اس دن سب سے زیادہ شدید جنگ لڑ رہے تھے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ رضی اللہ عنہ فَقَالَ : إِنَّا یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ؛ فَعَرَضَتْ کُدْیَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، فَجَائُ وا النَّبِيَّ ﷺ ، فَقَالُوْا: ھٰذِہٖ کُدْیَۃٌ عَرَضَتْ فِی الْخَنْدَقِ، فَقَالَ :(( اَنَا نَازِلٌ )) ، ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُہٗ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ وَلَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ اَیَّامٍ لَا یَذُوْقُ ذَوَاقًا، فَاَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فَعَادَ کَثِیْبًا اَھْیَلَ اَوْ اَھْیَمَ۔

(البخاري، المغازي باب غزوۃ الخندق : ۴۱۰۱ )

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم خندق کے دن (زمین) کھود رہے تھے۔ اتنے میں ایک بہت بڑا پتھر آ گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا: یہ بہت بڑا پتھر خندق میں آ گیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: میں اتر کر آ رہا ہوں۔  پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہم نے تین دن کچھ بھی نہیں چکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے کدال لی اور اس پتھر پر ماری تو وہ ریت کے ٹیلے کی طرح ریزہ ریزہ ہو گیا۔