اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

حقیقتِ ایمان

حقیقتِ ایمان

(٨٣)۔ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا۔ (مسلم، رقم ١٥١)

''عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اُس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو خدا کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔''

 

توضیح:

حق فطری اور طبعی طور پر انسان کو محبوب ہے، وہ ہمیشہ اسے رغبت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ جو حقائق ہمیں آنکھوں سے دکھائی اور کانوں سے سنائی دیتے ہیں، انھیں ماننے اور قبول کرنے میں کوئی بھی دوسرے سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔

 

ایمان کیا ہے؟ بن دیکھے حقائق کو وجدان اور عقل و فطرت کی گواہی پر ماننا۔ اگر انسان مفاد یا عناد کی کسی دلدل میں نہ پھنسا ہو تو پھر وہ ان بن دیکھے حقائق کو بھی دیکھے ہوئے حقائق کی طرح قبول کرتا اور مانتا ہے۔ یہی چیز اُس کا ایمان لانا ہے۔

 

اس ایمان کا ذائقہ یقیناً وہی شخص چکھ سکتا ہے جو دل کی پوری رضامندی سے ان حقائق کو قبول کرے اور مانے گا۔ خدا کا رب ہونا، اسلام کا دین ہونا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا، یہ سب بن دیکھے حقائق ہیں، چنانچہ جو شخص انھیں دل کی پوری رضا مندی سے مانے گا، اسی کو حقیقت ایمان میسر آئے گی اور وہی ایمان کا ذائقہ چکھے گا۔

 

حلاوت ایمان

(٨٤)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَکُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّهِ وَأَنْ يَکْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِی الْکُفْرِ کَمَا يَکْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِی النَّارِ۔ (بخاری، رقم ١٦)

''انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میںیہ تین خوبیاں موجود ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پا لے گا، پہلییہ کہ اُسے اللہ اور اُس کا رسول اپنے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرییہ کہ وہ لوگوں سے صرف اللہ ہی کے لیے محبت رکھے اور تیسرییہ کہ وہ کفر کی طرف لوٹ جانے کو ایسا برا جانے کہ جیسا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔''

 

توضیح:

ایمان بن دیکھے حقائق کو صدق دل سے ماننے کا نام ہے۔ انسان کی عقل اور دل دونوں حق کو محبوب رکھتے ہیں۔ چنانچہ قبولیتِ حق اپنے اندر ایک زبردست حلاوت اور مٹھاس رکھتی ہے۔ فرمایا کہ یہ حلاوت ایمان اس شخص کو میسر آ سکتی ہے :

١۔ جسے خدا اور اُس کا رسول اپنے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں، یعنی وہ ہر چیز کو خدا اور رسول کی خاطر چھوڑ سکتا اور قربان کرسکتا ہو۔

 

٢۔جو اگر کسی سے محبت بھی کرے تو اللہ ہی کی خاطر کرے۔ یعنی اس کے بہترین جذبات پر خدا کی پسند و نا پسند ہی کا راج ہو۔

 

٣۔ جو اپنے کفر کی طرف لوٹنے کو اتنا برا سمجھے جتنا وہ اپنے وجود کے آگ میں ڈالے جانے کو ناگوار جانتا ہے۔یعنی اسے اپنا ایمان انتہائی درجے میں عزیز ہو۔

 

معیارِ ایمان

(٨٥)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِليْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين۔ (بخاری، رقم ١٥)، (مسلم، رقم ١٦٩)

''انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اُس وقت تک (حقیقی)۔ مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور (اس سے متعلق)۔ سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔''

 

توضیح:

انبیا انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اللہ کی ناراضی سے بچانے اور اس کی خوشنودی کی راہ پر لے جانے کے لیے بلاتے ہیں، تاکہ وہ خدا کے ہاں ابدی کامیابی حاصل کریں۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی ذات میں انسانوں کے انتہائی خیرخواہ ہوتے ہیں۔

 

قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ارشاد باری ہے:

لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْکُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ۔ (التوبة ٩:١٢٨)

''تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آ چکا ہے، جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق ہے، وہ تمھارے ایمان کا حریص ہے اور اہل ایمان کے لیے وہ سراپا شفقت و رحمت ہے۔''

 

اورپھر مومنوں پر اس رسول کا حق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ۔(الاحزاب٣٣: ٦)

''مؤمنوں پر نبی کا حق ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔''

 

چنانچہ مؤمنوں پر اس حق کی ادائیگی لازم ہے۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ کوئی شخص اُس وقت تک حقیقی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُسے اُس کی اولاد، اُس کے والدین اور اس سے متعلق سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

 

ایمان و اسلام کی حقیقت

(٨٦)۔ عَنْ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوء َكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَی شِقِّكَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِی إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِی إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِكَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيّكَ الَّذِی أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَی الْفِطْرةِ وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَکَلَّمُ بِهِ۔ (بخاری، رقم ٢٤٧)

''براء ابن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے آؤ تو اسی طرح وضو کرو جیسے نماز کے لیے کرتے ہو، پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ کہو کہ اے اللہ، میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کر دیا ہے، اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے اور تجھ سے ٹیک لگا لی ہے، تیری عظمت سے لرز تے ہوئے اور تیرے اشتیاق میں بڑھتے ہوئے۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور کہیں ٹھکانا نہیں، اور اگر ہے تو تیرے ہی پاس ہے۔ پروردگار، میں تیری کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تو نے نازل کی ہے، اور تیرے نبی پر ایمان لایا ہوں جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (آپ نے فرمایا)۔ پھر اگر تم اسی رات وفات پا گئے تو تمھاری موت فطرت (اسلام)۔ پر ہو گی، (چنانچہ)۔ تم کوشش کرو کہ سونے سے پہلے تمھارے آخری کلمات یہی ہوں۔''

 

توضیح:

اسلام اور ایمان کیا ہے؟ ایک مسلمان اور مؤمن کی شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ خدا کے ساتھ اُس کا کیا تعلق ہوتا ہے اور وہ اُس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟ یہ حدیث ان سب سوالوں کا جواب دیتی ہے۔

 

مسلمان اور مؤمن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے سب معاملات کو خدا کے حوالے کر دے، وہ ہر معاملے میں اسی کا سہارا لے اور اسی پر اعتماد کرے اس حال میں کہ اس کا دل خدا کی محبت سے لبریز اور اسی کی عظمت سے ترساں ہو۔ وہ جانتا ہو کہ خدا سے بھاگ کر کہیں کوئی جائے پناہ نہیں مگر اسی کے پاس اور وہ اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول پر دل کی گہرائی سے ایمان رکھتا ہو۔

 

اگر کسی شخص کے ہاں یہ سب کچھ موجود ہے تو پھر وہ واقعی اسلام اور ایمان کی دولت سے بہرہ یاب ہے۔

٭٭٭