اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

پیکر حیا اور سکوت و کلام

عَنْ اَبِيْ سَعِیْدِ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ (عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ) قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اَشَدَّ حَیَائً مِنْ عَذْرَائَ فِيْ خِدْرِھَا۔  وَکَانَ إِذَا کَرِہَ شَیْئًا رَاَیْنَاہُ فِيْ وَجْھِہٖ۔ (البخاري:۶۱۱۹ عن علي بن الجعد، ومسلم:۲۳۲۰ بہ۔ [السنۃ : ۳۶۹۳])

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پردہ نشین کنواری سے بھی زیادہ حیا کرنے والے تھے۔ جب آپ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو اس ناپسندیدگی کا اثر ہم آپ کے چہرے سے دیکھ لیتے تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ : اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیْثًا لَوْ عَدَّہُ الْعَادُّ لَاَحْصَاہُ۔ (صحیح البخاري، المناقب باب صفۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۳۵۶۷ مسلم، الزھد، باب التثبت فی الحدیث: ۲۴۹۳ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک بات (کو ٹھہر ٹھہر کر) بیان کرتے تھے۔ اگر کوئی (آپﷺ کی باتوں کو) گننے والا ہوتا تو اسے گن لیتا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَسْرُدُ سَرْدَکُمْ ھٰذَا، وَلٰکِنَّہٗ کَانَ یَتَکَلَّمُ بِکَلاَمٍ بَیِّنَۃٍ فَصْلٍ، یَحْفَظُہٗ مَنْ جَلَسَ إِلَیْہِ۔  (اخرجہ الترمذي:۳۶۳۹ والشمائل:۲۲۲، مسلم: ۲۴۹۳ من حدیث الزھري وعلقہ البخاري:۳۵۶۸۔ [السنۃ : ۳۶۹۶])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (ہی) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ٹھہر ٹھہر کر صاف وواضح کلام فرماتے تھے جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا اسے یاد کر لیتا تھا۔

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ اَنَّہٗ کَانَ إِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَۃٍ اَعَادَھَا ثَلاَثًا حَتّٰی تُفْھَمَ عَنْہُ، وَإِذَا اَتٰی عَلٰی قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، سَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثَلاَثًا۔ (صحیح البخاري، العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثًا لیفہم عنہ: ۹۴ [السنۃ : ۱۴۱])

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کلام فرماتے تو اپنی بات کا تین دفعہ اعادہ فرماتے تاکہ لوگ اسے (اچھی طرح)سمجھ لیں اور جب کسی قوم کے پاس جاتے تو (اجازت لینے کے لیے) انھیں تین مرتبہ سلام کہتے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: جَالَسْتُ النَّبِيَّ ﷺ اَکْثَرَ مِنْ مِائَۃِ مَرَّۃٍ، وَکَانَ اَصْحَابُہٗ یَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ، وَیَتَذَاکَرُوْنَ اَشْیَائَ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ، وَھُوَ سَاکِتٌ، وَرُبَمَا یَتَبَسَّمُ مَعَھُمْ (اخرجہ الترمذي: ۲۸۵ والشمائل: ۲۴۶ مسلم: ۲۳۲۲۔ [السنۃ : ۳۴۱۱])

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس سو دفعہ سے زیادہ بیٹھا ہوں۔  آپ کے صحابہ اشعار پڑھتے اور جاہلیت کی چیزوں کا ذکر کرتے تھے۔ آپ خاموش رہتے تھے اور کبھی کبھار ان کے ساتھ مسکرادیتے تھے۔

عَنْ اَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا حَدَّثَ بِحَدِیْثٍ تَبَسَّمَ فِيْ حَدِیْثِہٖ۔ (احمد ۵/۱۹۸، ۱۹۹ من حدیث ام الدرداء بہ، عبد الرحمٰن بن میسرۃ الحضرمي حسن الحدیث۔)

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ جب (ہنسی مذاق) کی کوئی بات کرتے تو مسکرا دیتے تھے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الْاَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ۔ (بخاري، العلم باب ما کان النبي ﷺ یتخولھم بالموعظۃ : ۶۸ )

سیدنا(عبداللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ ہمیں (روزانہ کی بجائے) بعض دنوں میں درس دیتے تھے تاکہ ہم تنگی محسوس نہ کریں۔