اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

ناپسندیدہ چیزوں سے اعراض

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَجُلًا اسْتَاْذَنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ:ائْذَنُوْا لَہٗ فَبِئْسَ رَجُلُ الْعَشِیْرِ، اَوْ بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِیْرَۃِ، فَلَمَّا دَخَلَ اَلاَنَ لَہُ الْقَوْلَ۔ قَالَتْ عَائِشَۃُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قُلْتَ لَہُ الَّذِيْ قُلْتَ، فَلَمَّا دَخَلَ اَلَنْتَ لَہُ الْقَوْلَ؟ قَالَ: (( یَا عَائِشَۃُ! إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؛ مَنْ وَدَعَہٗ اَوْتَرَکَہُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِہٖ ))۔(صحیح البخاري، الادب باب ما یجوز من اغتیاب اھل الفساد والریب: ۶۰۵۴ مسلم، البروالصلۃ باب مداراۃ من یتقیٰ فحشہ : ۲۵۹۱ کلاھما من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ۔ [السنۃ : ۳۵۶۳])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا: اسے اجازت دے دو، یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے جب وہ اندر داخل ہوا تو آپﷺ نے اس سے نرمی سے بات کی (جب وہ چلا گیا تو) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ نے (پہلے) وہ بات فرمائی۔ (لیکن) جب وہ اندر آیا تو آپ نے اس سے نرمی سے بات کی؟ آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے برے ٹھکانے والا وہ شخص ہو گا جسے لوگ اس کی فحش گوئی سے ڈرتے ہوئے چھوڑ دیں۔ وہ فحش گو آدمی تھا۔ آپﷺ نے اس لیے نرمی سے بات کی کہ کہیں فحش گوئی کر کے وہ آپ کی گستاخی نہ کر دے پھر جہنمی بن جائے۔ سبحان اللہ آپﷺ کتنے مہربان تھے۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا بَلَغَہٗ عَنْ رَّجُلٍ شَيْئٌ لَمْ یَقُلْ لَہٗ قُلْتَ :کَذَا وَکَذَا، قَالَ: ((مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَقُوْلُوْنَ کَذَا وَکَذَا؟))۔

(بخاري:۶۱۰۱ ومسلم : ۲۳۵۶ من حدیث الاعمش بہ )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (ہی)سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کو جب کسی آدمی سے کوئی (غلط) چیز معلوم ہوتی تو اس سے یہ نہ کہتے کہ تو نے یہ کام کیا ہے؟ یا یہ بات کہی ہے بلکہ فرماتے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں ؟