اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

محرم کے بغیر سفر اور نامحرم کے ساتھ تخلیہ کی مناہی

محرم کے بغیر سفر اور نامحرم کے ساتھ تخلیہ کی مناہی

(٥٨)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ۔ (بخاری، رقم ١٠٨٨)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو عورت اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ بغیر کسی محرم کے ایک دن رات کا سفر کرے۔''

 

(٥٩)۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اکْتُتِبْتُ فِی غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا وَخَرَجَتْ امْرَأَتِی حَاجَّةً قَالَ: اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتك۔ (بخاری، رقم ٣٠٠٦)

''ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد اور عورت ہرگز تنہائی میں اکٹھے نہ ہوں اور محرم کے بغیر ہرگز کوئی عورت سفر نہ کرے، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھوا رکھا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر تم اس کے ساتھ حج پر جاؤ۔''

 

(٦٠)۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِی مَحْرَمٍ۔ (بخاری، رقم ١٠٨٦)

''ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت تین دن سے زیادہ کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے۔''

 

(٦١)۔ عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَکُونُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا أَوْ ابْنُهَا أَوْ زَوْجُهَا أَوْ أَخُوهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا۔ (مسلم، رقم ٣٢٧٠)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن یا اُس سے زیادہ کا سفر کرے مگر یہ کہ اُس کے ساتھ اس کا باپ، اس کا بیٹا، اس کا شوہر، اس کا بھائییا اس کا کوئی اور محرم رشتہ دار ہو۔''

 

توضیح:

ان احادیث میںیہ باتیں بتائی گئی ہیں :

١۔ نامحرم مرد و عورت کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ (کسی خاص مجبوری کے بغیر)۔ تنہائی میں اکٹھے ہوں۔

 

٢۔کسی عورت کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ کوئی (غیر محفوظ)۔ سفر تنہا کرے، بلکہ ضروری ہے کہ ایسے اسفار میں اُس کا کوئی محرم رشتہ دار اُس کے ساتھ موجود ہو۔

 

٣۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں موجود صورتِ حال کے مطابق بعض موقع و محل میں اِس سفر کی حد ایک دن رات یا اس سے زیادہ اور بعض میں تین دن رات یا اس سے زیادہ مقرر کی ہے۔

 

خواتین کے لیے تیز خوشبو کی مناہی

(٦٢)۔ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَا کُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِيبًا۔ (مسلم، رقم، ٩٩٧)

''عبد اللہ بن مسعود کی بیوی زینب رضی اللہ عنھما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مسجد میں آئے تو وہ ہرگز خوشبو نہ لگائے۔''

 

(٦٣)۔ عَنْ أَبِی مُوسَی عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا اسْتَعْطَرَتْ الْمَرْأَةُ فَمَرَّتْ عَلَی الْقَوْمِ لِيَجِدُوا رِيحَهَا فَهِیَ کَذَا وَکَذَا قَالَ قَوْلًا شَدِيدًا۔ (ابوداؤد، رقم ٤١٧٣)

''ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی عورت مردوں میں خوشبو لگا کر جاتی ہے تاکہ وہ اُس کی خوشبو سونگھیں تو وہ اِس اِس طرح سے ہے، آپ نے (اُس کے بارے میں )۔ بہت سخت الفاظ فرمائے۔''

 

(٦٤)۔ عَنْ الْأَشْعَرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَی قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِیَ زَانِيَةٌ۔ (نسائی، رقم ٥١٢٩)

''ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو عورت مردوں میں خوشبو لگا کر جاتی ہے تاکہ وہ اُس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے۔''

 

توضیح:

ان احادیث سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں :

١۔ جنس مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اگر کوئی خاتون تیزیعنی پھیلنے والی خوشبو لگاتی ہے تو یہ صریحاً حرام ہے اور ایسی عورت بدکاری کرنے والوں کے ذیل میں شمار ہو گی۔

 

٢۔ اگر ایسی کسی نیت کے بغیر کوئی عورت خوشبو لگا کر باہر نکلتی ہے تو یہ بھی ممنوع ہے، البتہ یہ عورت بدکاری کرنے والوں کے ذیل میں شمار نہیں ہو گی۔ اس مناہی کی نوعیت ویسی ہے جیسی کہ غیر محرموں کی موجود گی میں گھر کی خواتین کو چلتے ہوئے پازیب کی جھنکار پیدا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے:

 

ارشاد باری ہے:

''اور (عورتیں )۔ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح سے مار کر (جھنکار پیدا کرتی ہوئی)۔ نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔''

 

٣۔ پھیلنے والی خوشبو لگا کر مسجد میں آنے سے بھی منع کیا گیا ہے، کیونکہ ایسی خوشبو خواہی نخواہی لوگوں کی توجہ کھینچ لیتی ہے۔

 

دیور (اور جیٹھ)۔ کے ساتھ تخلیہ کی مناہی

(٦٥)۔ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ۔ (بخاری، رقم ٥٢٣٢)، (مسلم، رقم ٥٦٧٤)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے پاس (تنہائی میں )۔ جانے سے بچو، انصار کے ایک آدمی نے کہا کہ آپ کا دیور (یا جیٹھ)۔ کے بارے میں کیا خیال ہے، آپ نے فرمایا کہ دیور (یا جیٹھ کا تنہائی میں جانا)۔ تو موت (کو دعوت دینا)۔ ہے۔

 

توضیح:

نامحرم خاتون کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا ممنوع ہے۔ اگر تنہائی میں بیٹھنے والا دیور، جیٹھیا اس طرح کا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہو، تو یہ اور بھی خطرناک بات ہے، کیونکہ اسے اپنی رشتہ داری کی وجہ سے خرابی کے زیادہ مواقع میسر آ سکتے ہیں۔

 

غض بصر کا حکم

(٦٦)۔ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظَرِ الْفُجَاء َةِ فَأَمَرَنِی أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِی۔ (مسلم، رقم ٥٦٤٤)

''جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (غیر محرم خاتون پر)اچانک پڑ جانے والی نظر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نگاہ پھیر لیا کروں۔''

 

توضیح:

جنس مخالف کی طرف رغبت اور اُس سے تعلق کی خواہش ایک فطری چیز ہے۔ اسلام کے نزدیک اس رغبت و تعلق کے قیام کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ نکاح ہے۔اس کے سوا دوسری ہر صورت ناجائز ہے۔

 

چنانچہ اس فطری رغبت کی بنا پر کسی غیر محرم کو دیکھنا بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے اور اگر کسی وقت اچانک نظر پڑ جائے، تو یہ حکم دیا گیا کہ فورا اپنی نگاہ پھیر لو۔