اخلاقِ حسنہ

تحریر تحقیق و تخریج : ڈاکٹر مقبول احمد مکی

نرم خوئی اور قبولِ عذر

عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّؓ قَالَ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ ، فَقُلْتُ : یَرْحَمُکَ اللّٰہُ۔  فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِاَبْصَارِھِمْ، فَقُلْتُ : وَا ثُکْلَ اُمِّیَاہْ مَا شَاْنُکُمْ تَنْظُرُوْنَ إِلَيَّ، فَجَعَلُوْا یَضْرِبُوْنَ اَیْدِیَھُمْ عَلٰی اَفْخَاذِھِمْ فَعَرَفْتُ اَنَّھُمْ یُصَمِّتُوْنِّيْ۔ فَلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ؛ بِاَبِيْ ھُوَ وَاُمِّيْ مَا ضَرَبَنِيْ وَلَا کَرِھَنِيْ وَلَا سَبَّنِيْ، ثُمَّ قَالَ: (( إِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَحِلُّ فِیْھَا شَيْئٌ مِّنْ کَلاَمِ النَّاسِ؛ إِنَّمَا ھِيَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَاءَ ۃُ الْقُرْآنِ))۔  اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (صحیح، اخرجہ ابوداود في سننہ : ۹۳۰ مسلم : ۵۳۷۔ [السنۃ : ۷۲۶])

سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک) نماز پڑھی تو لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یرحمک اللّٰہ ، اللہ تجھ پر رحم کرے۔ لوگوں نے مجھے آنکھوں سے گھورنا شروع کر دیا۔ پس میں نے کہا: ہائے میری ماں مجھے گم کر دے تم مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے چپ کرانا چاہتے ہیں پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ نے نہ مجھے مارا اور نہ مجھ سے نفرت کی اور نہ برا بھلا کہا۔ پھر فرمایا: یقیناً اس نماز میں لوگوں کی کوئی بات حلال نہیں ہے یہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قراء ت قرآن ہے یا جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا۔

عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : اُتِيَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : اضْرِبُوْہُ۔ فَمِنَّا الضَّارِبُ بِیَدِہٖ، وَمِنَّا الضَّارِبُ بِنَعْلِہٖ، وَمِنَّا الضَّارِبُ بِثَوْبِہٖ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : اَخْزَاکَ اللّٰہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لاَ تَقُوْلُوْا ھٰکَذَا، وَلَا تُعِیْنُوا الشَّیْطَانَ عَلَیْہِ، وَلٰکِنْ قُوْلُوْا : رَحِمَکَ اللّٰہُ ))۔ (بخاري:۶۷۸۱ عن علي بن عبداللہ بن جعفر المدیني بہ۔ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے مارو۔ ہم میں سے کوئی اسے ہاتھ سے مارتا اور کوئی جوتے سے اور کوئی اپنے کپڑے سے مارتا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ایسی باتیں نہ کرو، اس پر شیطان کی مدد نہ کرو بلکہ یہ کہو: اللہ تجھ پر رحم کرے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِامْرَاَۃٍ تَبْکِيْ عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ : (( اتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِيْ )) ، قَالَتْ : إِلَیْکَ عَنِّيْ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیْبَتِيْ  وَلَمْ تَعْرِفْہُ  فَقِیْلَ لَھَا : إِنَّہُ النَّبِيُّ ﷺ ، فَاَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہٗ بَوَّابِیْنَ، فَقَالَتْ : لَمْ اَعْرِفْکَ، فَقَالَ : ((إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی ))۔(بخاري، الجنائز باب زیارۃ القبور : ۱۲۸۳، مسلم : ۹۲۶)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس رو رہی تھی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو‘‘۔ وہ عورت کہنے لگی: ’’آپ مجھ سے دور رہیں ، آپ کو میری جیسی مصیبت نہیں پہنچی ہے‘‘ اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ جب اس سے کہا گیا کہ یہ نبی کریم ﷺ ہیں تو وہ نبی مکرم ﷺ کے (گھر کے) دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ پایا۔ اس نے کہا: میں نے آپ کو نہیں پہچانا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: صبر صدمے کے شروع وقت ہی ہوتا ہے (بعد میں صبر آ ہی جاتا ہے)

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اسْتَحْمَلَ اَبُوْمُوْسٰی رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ، فَوَافَقَ مِنْہُ شُغْلاً، فَقَالَ ((وَاللہِ لَا اَحْمِلُکَ )) فَلَمَّا قَفَا دَعَاہُ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللہِ قَدْ حَلَفْتَ اَنْ لَّا تَحْمِلَنِيْ، قَالَ : ((وَاَنَا اَحْلِفُ لَاَحْمِلَنَّکَ)) فَحَمَلَہٗ۔  (اخرجہ احمد (۳/۱۰۸، ۱۷۹، ۲۳۵، ۲۵۰) من حدیث حمیدالطویل بہ وصرح بالسماع وللحدیث شاھد)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ (ہی)سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہﷺ سے سواری مانگی پھر آپ (کسی کام میں ) مشغول ہو گئے تو فرمایا: اللہ کی قسم میں تجھے سوار نہیں کروں گا۔ جب وہ چلے گئے تو آپ نے انھیں بلایا تو انھوں نے کہا: یارسول اللہ ﷺ آپ نے قسم کھائی ہے کہ مجھے سوار نہیں کریں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: اور (اب) میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور تجھے سوار کروں گا۔ پھر آپ نے اسے سوار کیا (اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا)

عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ رَجُلاً سَھْلًا، إِذَا ھَوِیَتْ  یَعْنِيْ عَائِشَۃَ  الشَّيْئَ تَابَعَھَا عَلَیْھَا، فَاَرْسَلَھَا مَعَ عَبْدِالرَّحْمٰنِ فَاَھَلَّتْ بِعُمْرَۃٍ مِنَ التَّنْعِیْمِ۔  (مسلم، الحج باب بیان وجوہ الإحرام إلخ: ۱۲۱۳ )

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نرم برتاؤ کرنے والے انسان تھے۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوئی چیز چاہتیں تو اسے پورا کرتے۔ آپ نے انھیں (ان کے بھائی) عبدالرحمن (بن ابی بکر) کے ساتھ بھیجا تو انھوں نے تنعیم سے عمرے کا احرام باندھا۔

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( إِنِّيْ لَاَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّيْ رَاضِیَۃً، وَإِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبٰی ))۔  فَقُلْتُ : مِنْ اَیْنَ تَعْرِفُ ذٰلِکَ؟ فَقَالَ لَھَا: (( إِذَا کُنْتِ عَنِّيْ رَاضِیَۃً ؛ فَإِنَّکِ تَقُوْلِیْنَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا کُنْتِ غَضْبٰی؛ قُلْتِ : لَا وَرَبِّ إِبْرَاھِیْمَ ))۔ قُلْتُ : اَجَلْ، وَاللہِ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا اَھْجُرُ إِلاَّ اسْمَکَ۔  (صحیح البخاري، النکاح باب غیرۃ النساء ووجدھن: ۵۲۲۸، مسلم: ۲۴۳۹)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ تو جب مجھ سے راضی ہوتی ہے اور جب ناراض ہوتی ہے میں نے کہا: آپ کیسے جانتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو مجھ سے راضی ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں محمد (ﷺ )کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں ابراہیم کے رب کی قسم، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول! میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑ دیتی ہوں۔