تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ العَادیَات

۲ ۔۔۔     یعنی جو پتھر یا پتھریلی زمین پر ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں ۔

۳  ۔۔۔   عرب میں اکثر عادت صبح کے وقت تاخت کرنے کی تھی تاکہ رات کے وقت جانے میں دشمن کو خبر نہ ہو صبح کو دفعتاً جا پڑیں اور رات کو حملہ نہ کرنے میں اظہارِ شجاعت سمجھتے تھے۔

 ۴ ۔۔۔     یعنی ایسی تیزی اور قوت سے دوڑنے والے کہ صبح کے وقت جبکہ رات کی سردی اور شبنم کی رطوبت سے عموماً غبار دبا رہتا ہے۔ ان کے ٹاپوں سے اس وقت بھی بہت گرد و غبار اٹھتا ہے۔

۵ ۔۔۔    یعنی اس وقت بے خوف و خطر دشمن کی فوج میں جا گھستے ہیں ۔ (تنبیہ) ممکن ہے کہ قسم کھانا گھوڑوں کی مقصود ہو جیسا کہ ظاہر ہے، اور ممکن ہے مجاہدین کے رسالہ کی قسم ہو۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں ۔ "یہ جہاد والے سواروں کی قسم ہے۔ اس سے بڑا کون عمل ہو گا کہ اللہ کے کام پر اپنی جان دینے کو حاضر ہے۔"

۶ ۔۔۔      یعنی جہاد کرنے والے سواروں کی اللہ کی راہ میں سرفروشی و جانبازی بتلاتی ہے کہ وفادار و شکر گذار بندے ایسے ہوتے ہیں ۔ جو آدمی اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کے راستہ میں خرچ نہیں کرتا وہ پرلے درجہ کا ناشکرا اور نالائق ہے بلکہ غور کرو تو خود گھوڑا زبان حال سے شہادت دے رہا ہے کہ جو لوگ مالک حقیقی کی دی ہوئی روزی کھاتے اور اس کی بے شمار نعمتوں سے شب و روز تمتع کرتے ہیں ، پھر اس کے باوجود اس کی فرمانبرداری نہیں کرتے، وہ جانوروں سے زیادہ ذلیل و حقیر ہیں ۔ ایک شائستہ گھوڑے کو مالک گھاس کے تنکے اور تھوڑا سا دانہ کھلاتا ہے وہ اتنی سی تربیت پر اپنے مالک کی وفاداری میں جان لڑا دیتا ہے۔ جدھر سوار اشارہ کرتا ہے ادھر چلتا ہے، دوڑتا اور ہانپتا ہوا ٹاپیں مارتا اور غبار اٹھاتا ہوا گھمسان کے معرکوں میں بے تکلف گھس جاتا ہے۔ گولیوں کی بارش میں ، تلواروں اور سنگینوں کے سامنے پڑ کہ سینہ نہیں پھیرتا۔ بلکہ بسا اوقات وفادار گھوڑا سوار کو بچانے کے لئے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیتا ہے۔ کیا انسان نے ایسے گھوڑوں سے کچھ سبق سیکھا کہ اس کا بھی کوئی پالنے والا مالک ہے جس کی وفاداری میں اسے جان و مال خرچ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ بیشک انسان بڑا ناشکرا اور نالائق ہے کہ ایک گھوڑے بلکہ کتے کے برابر بھی وفاداری نہیں دکھلا سکتا۔

۷ ۔۔۔      یعنی سرفروش مجاہدین کی اور ان کے گھوڑوں کی و فا شعاری اور شکر گذاری اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ پھر بھی بے حیا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ (تنبیہ) ترجمہ کی رعایت سے ہم نے یہ مطلب لکھا ہے۔ ورنہ اکثر مفسرین اس جملہ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ انسان خود اپنی ناشکری پر زبانِ حال سے گواہ ہے۔ ذرا اپنے ضمیر کی آواز کی طرف متوجہ ہو تو سن لے کہ اندر سے خود اس کا دل کہہ رہا ہے کہ تو بڑا ناشکرا ہے بعض سلف نے "انہ" کی ضمیر رب کی طرف لوٹائی ہے۔ یعنی اس کا رب اس کی نا سپاسی اور کفرانِ نعمت کو دیکھ رہا ہے۔

۸ ۔۔۔      یعنی حرص و طمع اور بخل و امساک نے اس کو اندھا بنا رکھا ہے۔ دنیا کے زر و مال کی محبت میں اس قدر غرق ہے کہ منعم حقیقی کو بھی فراموش کر بیٹھا، نہیں سمجھتا کہ آگے چل کر اس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔

۱۰  ۔۔۔    یعنی وہ وقت بھی آنے والا ہے جب مردہ جسم قبروں سے نکال کر زندہ کئے جائیں گے اور دلوں میں جو چیزیں چھپی ہوئی ہیں سب کھول کر رکھ دی جائیں گی اس وقت دیکھیں یہ مال کہاں تک کام دے گا اور نالائق ناشکرے لوگ کہاں چھوٹ کر جائیں گے۔ اگر یہ بے حیا اس بات کو بھی سمجھ لیتے تو ہرگز مال کی محبت میں غرق ہو کر ایسی حرکتیں نہ کرتے۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی ہر چند کہ اللہ کا علم ہر وقت بندے کے ظاہر و باطن پر محیط ہے۔ لیکن اس روز اس کا علم ہر شخص پر ظاہر ہو جائے گا۔ اور کسی کو گنجائش انکار کی نہ رہے گی۔