اِس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، جابر، حسن بصری، عِکْرِمہ اور عطاء کہتے ہیں کہ یہ مکّی ہے۔ حضرت اَنَس بن مالک اور قتادہ کہتے ہیں کہ مدنی ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سورۃ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن سورۃ کا مضمون اور اندازِ بیان صاف بتا رہا ہے کہ یہ نہ صرف مکّی ہے، بلکہ مکّہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔
اِس کا مقصود لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ انسان آخرت کا منکر یا اُس سے غافل ہو کر کیسی اخلاقی پستی میں گر جاتا ہے، اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بات سے خبردار بھی کرنا ہے کہ آخرت میں صرف اُن کے ظاہری افعال ہی کی نہیں بلکہ ان کے دلوں میں چھُپے ہوئے اَسرار تک کی جانچ پڑتا ہو گی۔
اِس مقصد کے لیے عرب میں پھیلی ہوئی اُس عام بد امنی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے سارا ملک تنگ آیا ہوا تھا۔ ہر طرف کشت و خون برپا تھا۔ لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور کوئی شخص بھی رات چین سے نہیں گزار سکتا تھا کیونکہ ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کب کوئی دشمن صبح سویرے اس کی بستی پر ٹوٹ پڑے۔ یہ ایک ایسی حالت تھی جسے عرب کے سارے ہی لوگ جانتے تھے اور اس کی قباحت کو محسوس کرتے تھے۔ اگرچہ لُٹنے والا اس پر ماتم کرتا تھا اور لوٹنے والا اس پر خوش ہوتا تھا، لیکن جب کسی وقت لوٹنے والے کی اپنی شامت آ جاتی تھی تو وہ بھی محسوس کر لیتا تھا کہ یہ کیسی بُری حالت ہے جس میں ہم لوگ مبتلا ہیں۔ اِس صورت حال کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی اور اپس میں خدا کے حضور جواب دہی سے ناواقف ہو کر انسان اپنے ربّ کا ناشکرا ہو گیا ہے، وہ خدا کی دی ہوئی قوتوں کو ظلم و ستم اور غارت گری کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہ مال و دولت کی محبت میں اندھا ہو کر ہر طریقے سے اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواہ وہ کیسا ہی ناپاک اور گھِناؤنا طریقہ ہو، اور اُس کی حالت خود اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ وہ اپنے ربّ کی عطا کی ہوئی قوتوں کا غلط استعمال کر کے اس کی ناشکری کر رہا ہے۔ اُس کی یہ روش ہر گز نہ ہوتی اگر وہ اُس وقت کو جانتا ہوتا جب قبروں سے زندہ ہو کر اُٹھنا ہو گا، اور جب وہ ارادے اور وہ اغراض و مقاصد تک دلوں سے نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے جن کی تحریک سے اُس نے دنیا میں طرح طرح کے کام کیے تھے۔ اُس وقت انسانوں کے ربّ کو خوب معلوم ہو گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور کس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔
1: آیت کے الفاظ میں یہ تصریح نہیں ہے کہ دَوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، بلکہ صرف وَالْعٰدِیٰت (قسم ہے دوڑنے والوں کی) فرمایا گیا ہے۔ اسی لیے مفسّرین کے درمیان اس باب میں اختلاف ہوا ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد کیا ہے۔ صحابہ و تابعین کا ایک گروہ اِس طرف گیا ہے کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں ، اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ا س سے مراد اونٹ ہیں ۔ لیکن چونکہ دوڑتے ہوئے وہ خاص قسم کی آواز جسے ضَبْح کہتے ہیں، گھوڑوں ہی کی شدّتِ تنفُّس سے نکلتی ہے، اور بعد کی آیات بھی جن میں چنگاریاں جھاڑنے اور صبح سویرے کسی بستی پر چھاپہ مارنے اور وہاں گرد اُڑانے کا ذکر آیا ہے، گھوڑوں ہی پر راست آتی ہیں، اس لیے اکثر محققین نے اس سے مراد گھوڑے ہی لیے ہیں۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ ’’دونوں اقوال میں سے یہ قول ہی قابل ترجیح ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ اونٹ ضَبح نہیں کرتا، گھوڑا ہی ضَبْح کیا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُن دوڑنے والوں کی قسم جو دوڑتے ہوئے ضَبْح کرتے ہیں۔ ‘‘ امام رازی کہتے ہیں کہ ’’اِن آیا ت کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ ضَبْح کی آواز گھوڑے کے سوا کسی سے نہیں نکلتی، اور آگ جھاڑنے کا فعل بھی پتھروں پر سُموں کی ٹاپ پڑنے کے سوا کسی اور طرح کے دوڑنے سے نہیں ہوتا، اور اسی طرح سویرے چھاپہ مارنا بھی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت گھوڑوں ہی کے ذریعہ سے سہل ہوتا ہے۔ ‘‘
2: چنگاریاں جھاڑنے کے الفاظ اس پات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ گھوڑے رات کے وقت دوڑتے ہیں، کیونکہ رات ہی کو ان کی ٹاپوں سے جھَڑنے والے شرارے نظر آتے ہیں۔
3: اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ جب کسی بستی پر اُنہیں چھاپہ مارنا ہوتا تو رات کے اندھیرے میں چل کر جاتے تا کہ دشمن خبردار نہ ہو سکتے، اور صبح سویرے اچانک اُس پر ٹوٹ پڑتے تھے تا کہ صبح کی روشنی میں ہر چیز نظر آ سکے، اور دن اتنا زیادہ روشن بھی نہ ہو کہ دشمن دور سے ان کو آتا دیکھ لے اور مقابلہ کے لیے تیار ہو جائے۔
4: یہ ہے وہ بات جس پر اُن گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے جو رات کو پھُنکارے مارتے اور چنگاریاں جھاڑتے ہوئے دوڑتے ہیں، پھر صبح سویرے غبار اُڑاتے ہوئے کسی بستی پر جا پڑتے ہیں اور مدافعت کرنے والوں کی جماعت میں گھُس جاتے ہیں۔ تعجب اِس پر ہوتا ہے کہ اکثر مفسرین نے ان گھوڑوں سے مراد غازیوں کے گھوڑے لیے ہیں اور جس مجمع میں ان کے جا گھسنے کا ذکر کیا گیا ہے اُس سے مراد اُن کے نزدیک کفار کا مجمع ہے۔ حالانکہ یہ قَسَم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ ’’ انسان اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے۔ ‘‘ اب یہ ظاہر ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں غازیوں کے گھوڑوں کی دوڑ دھوپ اور کفار کے کسی مجمع پر اُن کا ٹوٹ پڑنا اِس امر پر کوئی دلالت نہیں کرتا کہ انسان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے، اور نہ بعد کے یہ فقرے کہ انسان اپنی ناشکری پر خود گواہ ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے، اُن لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں کہ جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس سورہ کی ابتدائی پانچ آیات میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اُن کا اشارہ دراصل اُس عام کشت و خون اور غارت گری کی طرف ہے جو عرب میں اُس وقت برپا تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں رات ایک بہت خوفناک چیز ہوتی تھی جس میں ہر قبیلے اور بستی کے لوگ یہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ نہ معلوم کون سا دشمن اُن پر چڑھائی کرنے کے لیے آ رہا ہو، اور دن کی روشنی نمودار ہونے پر وہ اطمینان کا سانس لیتے تھے کہ رات خیریت سے گزر گئی۔ وہاں قبیلوں کے درمیان محض انتقامی لڑائیاں ہی نہیں ہوتی تھیں ، بلکہ مختلف قبیلے ایک دوسرے پر اِس غرض کے لیے بھی چھاپے مارتے رہتے تھے کہ ان کی دولت لوٹ لیں، ان کے مال مویشی ہانک لے جائیں ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیں۔ اس ظلم و ستم اور غارت گری کو، جو زیادہ تر گھوڑوں پر سوار ہو کر ہی کی جاتی تھی، اللہ تعالیٰ اِس امر کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے کہ انسان اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے۔ یعنی جس طاقت کو وہ جنگ و جدل اور غارت گری میں استعمال کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس لیے تو نہیں دی تھی کہ اس سے یہ کام لیا جائے۔ پس درحقیقت یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے اِن وسائل اور اس کی بخشی ہوئی اِن طاقتوں کو اُس فساد فی الارض میں استعمال کیا جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے
5: یعنی اُس کا ضمیر اِس پر گواہ ہے، اُس کے اعمال اِس پر گواہ ہیں، اور بہت سے کافر انسان خود اپنی زبان سے عَلانیہ نا شکری کا اظہار کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک خدا ہی سرے سے موجود نہیں کجا کہ وہ اپنے اوپر اس کی کسی نعمت کا اعتراف کریں اور اس کا شکر اپنے ذمّے لازم سمجھیں۔
6: اصل الفاظ ہیں وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ۔ اس فقرے کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ وہ خیر کی محبت میں بہت سخت ہے۔ ‘‘ لیکن عربی زبان میں خیر کا لفظ نیکی اور بھلائی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ مال و دولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ آیت ۱۸۰ میں خیر بمعنی مال و دولت ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات کلام کے موقع و محل سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں خیر کا لفظ نیکی کے معنی میں ہے اور کہاں مال و دولت کے معنی میں۔ اِس آیت کے سِیاق و سَباق سے خود ہی یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اِس میں خیر مال و دولت کے معنی میں ہے نہ کہ بھلائی اور نیکی کے معنی میں، کیونکہ جو انسان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے اور اپنے طرزِ عمل سے خود اپنی ناشکری پر شہادت دے رہا ہے، اُس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نیکی اور بھلائی کی محبت میں بہت سخت ہے۔
7: یعنی مرے ہوئے انسان جہاں جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے وہاں سے اُن کو نکال کر زندہ انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔
8: یعنی دلوں میں جو ارادے اور نیّتیں ، جو اغراض و مقاصد، جو خیالات و افکار، اور ظاہری افعال کے پیچھے جو باطنی محرّکات (Motives ) چھُپے ہوئے ہیں وہ سب کھول کر رکھ دیے جائیں گے اور ان کی جانچ پڑتا ل کر کے اچھائی کو الگ اور بُرائی کو الگ چھانٹ دیا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر فیصلہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا کہ انسان نے عملاً کیا کچھ کیا، بلکہ دلوں میں چھُپے ہوئے رازوں کو بھی نکال کر یہ دیکھا جائے گا کہ جو جو کام انسان نے کیے وہ کس نیت سے اور کس غرض سے کیے۔ اس بات پر اگر انسان غور کرے تو وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اصلی اور مکمّل انصاف خدا کی عدالت کے سوا اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے لادینی قوانین بھی اصولی حیثیت سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے محض ظاہری فعل کی بنا پر اُسے سز ا نہ دی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اُس نے کس نیت سے وہ فعل کیا ہے۔ لیکن دنیا کی کسی عدالت کے پاس بھی وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ نیت کی ٹھیک ٹھیک تحقیق کر سکے۔ یہ صرف اور صرف خدا ہی کر سکتا ہے کہ انسان کے ہر ظاہری فعل کے پیچھے جو باطنی محرِّکات کار فرما رہے ہیں ان کی بھی جانچ پڑتا کر ے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس جزا یا سزا کا مستحق ہے۔ پھر آیت کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ محض اللہ کے اُس علم کی بنا پر نہیں ہو گا جو وہ دلوں کے ارادوں اور نیّتوں کے بارے میں پہلے ہی سے رکھتا ہے، بلکہ قیامت کے روز اِن رازوں کو کھول کر علانیہ سامنے رکھ دیا جائے گا اور کھلی عدالت میں جانچ پڑتال کر کے یہ دکھا دیا جائے گا کہ ان میں خیر کیا تھی اور شر کیا تھا۔ اِسی لیے حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تحصیل کے معنی کسی چیز کو نکال کر باہر لانے کے بھی ہیں، مثلاً چھلکا اتار کر مغز نکالنا، اور مختلف قسم کی چیزوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا دلوں میں چھُپے ہوئے اسرار کی تحصیل میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ اُن کو کھول کر ظاہر کر دینا بھی، اور ان کو چھانٹ کر بُرائی اور بھلائی کو الگ کر دینا بھی۔ یہی مضمون سُورۂ طارق میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآ ئِرُ۔’’ جس روز پوشیدہ اَسرار کی جانچ پڑتا ہو گی۔‘‘(آیت۹)۔
9: یعنی اُس کو خوب معلوم ہو گا کہ کون کیا ہے اور کس سزا یا جزا کا مستحق ہے۔