خزائن العرفان

سُوۡرَةُ القُرَیش

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۃ القریش بقولِ اصح مکّیہ ہے، اس میں ایک رکوع، چار۴ آیتیں، ستّرہ۷کلمے، تہتّر۷۳ حرف ہیں۔

(۱)  اس لیے  کہ قریش کو میل دلایا (ف ۲)

۲                 یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں ان میں سے ایک نعمتِ ظاہرہ یہ ہے کہ اس نے قریش کو ہر سال میں دو سفروں کی طرف رغبت دلائی ان کی محبّت ان میں ڈالی جاڑے کے موسم میں یمن کا سفر اور گرمی کے موسم میں شام کا، کہ قریش تجارت کے لئے ان موسموں میں یہ سفر کرتے تھے اور ہر جگہ کے لوگ انہیں اہلِ حرم کہتے تھے اور ان کی عزّت و حرمت کرتے تھے یہ امن کے ساتھ تجارتیں کرتے اور فائدے اٹھاتے اور مکّہ مکرّمہ میں اقامت کرنے کے لئے سرمایہ بہم پہنچاتے۔ جہاں نہ کھیتی ہے، نہ اور اسبابِ معاش، اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت ظاہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

(۲) ان کے  جاڑے  اور گرمی دونوں کے  کوچ میں میل دلایا (رغبت دلائی)

(۳) تو انہیں چاہیے  اس  گھر کے  (ف ۳) رب کی بندگی کریں۔

۳                 یعنی کعبہ شریفہ کے۔

(۴) جس نے  انہیں بھوک میں (ف ۴) کھانا دیا، اور انہیں ایک بڑے   خوف سے  امان بخشا (ف ۵)

۴                 جس میں ان سفروں سے پہلے اپنے وطن میں کھیتی نہ ہونے کے باعث مبتلا تھے ان سفروں کے ذریعہ سے۔

۵                 بسببِ حرم شریف کے اور بسببِ اہلِ مکّہ ہونے کے کہ کوئی ان سے تعرّض نہیں کرتا باوجود یہ کہ اطراف و حوالی میں قتل و غارت ہوتے رہتے ہیں، قافلے لٹتے ہیں، مسافر مارے جاتے ہیں۔ یا یہ معنیٰ ہیں کہ انہیں جذام سے امن دی کہ ان کے شہر میں انہیں کچھ جذام نہ ہو گا یا یہ مراد کہ سیّدِ عالَم محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی برکت سے انہیں خوفِ عظیم سے امان عطا فرمائی۔