تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ القُرَیش

۴ ۔۔۔      مکہ میں غلہ وغیرہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے قریش کی عادت تھی کہ سال بھر میں تجارت کی قرض سے دو سفر کرتے تھے۔ جاڑوں میں یمن کی طرف کہ وہ ملک گرم ہے اور گرمیوں میں شام کی طرف جو سرد اور شاداب ملک ہے۔ لوگ ان کو اہل حرم اور خادم بیت اللہ سمجھ کر نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کی خدمت کرتے اور ان کے جان و مال سے کچھ تعرض نہ کرتے۔ اس طرح ان کو خاطر خواہ نفع ہوتا۔ پھر امن و چین سے گھر بیٹھ کر کھاتے اور کھلاتے تھے۔ حرم کے چاروں طرف لوٹ کھسوٹ اور چوری ڈکیتی کا بازار گرم رہتا تھا۔ لیکن کعبہ کے ادب سے کوئی چور، ڈاکو قریش پر ہاتھ صاف نہ کرتا تھا۔ اسی انعام کو یہاں یاد دلایا ہے کہ اس گھر کے طفیل تم کو روزی دی، اور امن چین دیا۔ "اصحاب فیل" کی زد سے محفوظ رکھا، پھر اس گھر والے کی بندگی کیوں نہیں کرتے اور اس کے رسول کو کیوں ستاتے ہو۔ کیا یہ انتہائی ناشکری اور احسان فراموشی نہیں ۔ اگر دوسری باتیں نہیں سمجھ سکتے تو ایسی کھلی ہوئی حقیقت کا سمجھنا کیا مشکل ہے۔