۱ سورۂ ابی لہب مکّیہ ہے، اس میں ایک رکوع، پانچ ۵ آیتیں، بیس ۲۰کلمے، ستتّر۷۷ حرف ہیں۔ شانِ نزول : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کوہِ صفا پر عرب کے لوگوں کو دعوت دی ہر طرف سے لوگ آئے اور حضور نے ان سے اپنے صدق و امانت کی شہادتیں لینے کے بعد فرمایا اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْر بِیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِید اس پر ابولہب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ تم تباہ ہو جاؤ کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت شریف نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف سے جواب دیا۔
۲ ابولہب کا نام عبد العزیٰ ہے یہ عبدالمطلب کا بیٹا اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا چچا تھا بہت ہی گورا خوبصورت آدمی تھا اسی لئے اس کی کنّیت ابولہب ہے اور اسی کنّیت سے وہ مشہور تھا۔ دونوں ہاتھوں سے مراد اس کی ذات ہے۔
۳ یعنی اس کی اولاد۔ مروی ہے کہ ابولہب نے جب پہلی آیت سنی تو کہنے لگا کہ جو کچھ میرے بھتیجے کہتے ہیں اگر سچ ہے تو میں اپنی جان کے لئے اپنے مال و اولاد کو فدیہ کر دوں گا، اس آیت میں اس کا رد فرمایا گیا کہ یہ خیال غلط ہے اس وقت کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔
۴ اُمِّ جمیل بنتِ حرب بن اُمیّہ ابوسفیان کی بہن جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے نہایت عناد و عداوت رکھتی تھی اور باوجود یہ کہ بہت دولتمند اور بڑے گھرانے کی تھی لیکن سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عداوت میں انتہا کو پہنچی تھی کہ خود اپنی سر پر کانٹوں کا گٹھا لا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے راستہ میں ڈالتی تاکہ حضور کو اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب کو ایذا و تکلیف ہو اور حضور کی ایذا رسانی اس کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کام میں کسی دوسرے سے مدد لینا بھی گوارا نہ کرتی تھی۔
۵ جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی تھی، ایک روز یہ بوجھ اٹھا کر لا رہی تھی کہ تھک کر آرام لینے کے لئے ایک پتّھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکمِ الٰہی اس کے پیچھے سے اس گٹھے کو کھینچا وہ گرا اور رسی سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور وہ مر گئی۔