خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الرّعد

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ رعد مکیّہ ہے اور ایک روایت میں حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے یہ ہے کہ دو آیتوں  لَایَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبھُمْ  اور  یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا کے سوا سب مکّی ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے۔ اس میں چھ رکوع تینتالیس یا پینتالیس آیتیں اور آٹھ سو پچپن کلمے اور تین ہزار پانچ سو چھ حرف ہیں۔

(۱) یہ کتاب کی آیتیں ہیں (ف ۲) اور وہ  جو تمہاری طرف تمہارے  رب کے  پاس سے  اترا  (ف ۳) حق ہے  (ف ۴) مگر اکثر آدمی ایمان نہیں لاتے  (ف ۵)

۲                 یعنی قرآن شریف کی۔

۳                 یعنی قرآن شریف۔

۴                 کہ اس میں کچھ شبہ نہیں۔

۵                 یعنی مشرکینِ مکّہ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کلام محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا ہے انہوں نے خود بنایا، اس آیت میں ان کا رد فرمایا اور اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے دلائل اور اپنے عجائبِ قدرت بیان فرمائے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔

(۲) اللہ ہے  جس نے  آسمانوں کو بلند کیا بے  ستونوں کے  کہ تم دیکھو (ف ۶) پھر عرش پر استوا فرمایا جیسا اس کی شان کے  لائق ہے  اور سورج اور چاند کو مسخر کیا (ف ۷) ہر ایک، ایک ٹھہرائے  ہوئے  وعدہ تک چلتا ہے  (ف ۸) اللہ کام کی تدبیر فرماتا اور مفصل نشانیاں بتاتا ہے  (ف ۹) کہیں تم اپنے  رب رب کا ملنا یقین کرو (ف ۱۰)

۶                 اس کے دو معنیٰ ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا جیسا کہ تم ان کو دیکھتے ہو یعنی حقیقت میں کوئی ستون ہی نہیں ہے اور یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ تمھارے دیکھنے میں آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا، اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ ستون تو ہیں مگر تمہارے دیکھنے میں نہیں آتے اور قولِ اول صحیح تر ہے اسی پر جمہور ہیں۔ (خازن و جمل)۔

۷                 اپنے بندوں کے منافع اور اپنے بلاد کے مصالح کے لئے وہ حسبِ حکم گردش میں ہیں۔

۸                 یعنی فنائے دنیا کے وقت تک۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ اجلِ مسمّیٰ سے ان کے درجات و منازل مراد ہیں یعنی وہ اپنے منازل و درجات میں ایک غایت تک گردش کرتے ہیں جس سے تجاوز نہیں کر سکتے، شمس و قمر میں سے ہر ایک کے لئے سیرِ خاص جہتِ خاص کی طرف سُرعت و بطؤ و حرکت کی مقدارِ خاص سے مقرر فرمائی ہے۔

۹                 اپنے وحدانیت و کمالِ قدرت کی۔

۱۰               اور جانو کہ جو انسان کو نیستی کے بعد ہست کرنے پر قادر ہے وہ اس کو موت کے بعد بھی زندہ کرنے پر قادر ہے۔

(۳) اور وہی ہے  جس نے  زمین کو پھیلا اور اس میں لنگر (ف ۱۱) اور نہریں بنائیں، اور زمین ہر قسم کے  پھل دو دو طرح کے  بنائے  (ف ۱۲) رات سے   دن کو چھپا لیتا ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے  والوں کو (ف ۱۳)

۱۱               یعنی مضبوط پہاڑ۔

۱۲               سیاہ و سفید، تُرش و شیریں، صغیر و کبیر، بَری و بُستانی، گرم و سرد، تر و خشک وغیرہ۔

۱۳               جو سمجھیں گے کہ یہ تمام آثار صانع حکیم کے وجود پر دلالت کرتے ہیں۔

(۴) اور زمین کے  مختلف قطعے  ہیں اور ہیں پاس پاس (ف ۱۴) اور باغ ہیں انگوروں کے  اور کھیتی اور کھجور کے  پیڑ ایک تھالے  (تھال) سے  اُگے  اور الگ الگ سب کو ایک ہی پانی دیا جا تا ہے  اور پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے  سے  بہتر کرتے  ہیں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے  لیے  (ف ۱۵)

۱۴               ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان میں سے کوئی قابلِ زراعت ہے کوئی ناقابل زراعت۔ کوئی پتھریلا کوئی ریتلا۔

۱۵               حسن بصری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس میں بنی آدم کے قلوب کی ایک تمثیل ہے کہ جس طرح زمین ایک تھی اس کے مختلف قطعات ہوئے، ان پر آسمان سے ایک ہی پانی برسا، اس سے مختلف قسم کے پھل پھُول بیل بُوٹے اچھے بُرے پیدا ہوئے۔ اسی طرح آدمی حضرت آدم سے پیدا کئے گئے ان پر آسمان سے ہدایت اتری، اس سے بعض دل نرم ہوئے ان میں خشوع خضوع پیدا ہوا، بعض سخت ہو گئے اور لہو و لغو میں مبتلا ہوئے تو جس طرح زمین کے قطعات اپنے پھول پھل میں مختلف ہیں اس طرح انسانی قلوب اپنے آثار و انوار و اسرار میں مختلف ہیں۔

(۵)  اور اگر تم تعجب کرو (ف ۱۶) تو اچنبھا تو ان کے  اس کہنے  کا ہے  کہ کیا ہم مٹی ہو کر پھر نئے  بنیں گے  (ف ۱۷) وہ ہیں جو اپنے  رب سے  منکر ہوئے  اور وہ ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے  (ف ۱۸) اور وہ  دوزخ والے  ہیں انھیں اسی میں رہنا۔

۱۶               اے محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کُفّار کی تکذیب کرنے سے باوجود یکہ آپ ان میں صادق و امین معروف تھے۔

۱۷               اور انہوں نے کچھ نہ سمجھا کہ جس نے ابتداءً بغیر مثال کے پیدا کر دیا اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

۱۸               روزِ قیامت۔

(۶) اور تم سے  عذاب کی جلدی کرتے  ہیں رحمت سے  پہلے  (ف ۱۹) اور ان اگلوں کی سزائیں ہو چکیں (ف ۲۰) اور بیشک تمہارا  رب تو لوگوں کے  ظلم پر بھی انہیں ایک طرح کی معافی  دیتا ہے  (ف ۲۱) اور بیشک تمہارے  رب کا عذاب سخت ہے  (ف ۲۲)

۱۹               مشرکینِ مکّہ اور یہ جلدی کرنا بطریقِ تمسخُر تھا اور رحمت سے سلامت و عافیت مراد ہے۔

۲۰               وہ بھی رسولوں کی تکذیب اور عذاب کا تمسخُر کیا کرتے تھے، ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کرنا چاہیئے۔

۲۱               کہ ان کے عذاب میں جلدی نہیں فرماتا اور انہیں مہلت دیتا ہے۔

۲۲               جب عذاب فرمائے۔

(۷) اور کا فر کہتے  ہیں ان پر ان کی طرف سے  کوئی نشانی کیو ں نہیں اتری (ف ۲۳) تم تو ڈر سنانے  والے  ہو اور ہر قوم کے  ہادی (ف ۲۴)

۲۳               کافِروں کا یہ قول نہایت بے ایمانی کا قول تھا جتنی آیات نازِل ہو چکی تھیں اور معجزات دکھائے جا چکے تھے سب کو انہوں نے کالعدم قرار دے دیا یہ انتہا درجہ کی نا انصافی اور حق دشمنی ہے جب حجّت قائم ہو چکے اور ناقابلِ انکار براہین پیش کر دیئے جائیں اور ایسے دلائل سے مدعا ثابت کر دیا جائے جس کے جواب سے مخالفین کے تمام اہلِ علم و ہنر عاجز و متحیر رہیں اور انہیں لب ہلانا اور زبان کھولنا محال ہو جائے۔ ایسے آیاتِ بیّنہ اور براہینِ واضحہ و معجزاتِ ظاہرہ دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی ! روزِ روشن میں دن کا انکار کر دینے سے بھی زیادہ بدتر اور باطل تر ہے اور حقیقت میں یہ حق کو پہچان کر اس سے عناد و فرار ہے۔ کسی مدعا پر جب برہان قوی قائم ہو جائے پھر اس پر دوبارہ دلیل قائم کرنی ضروری نہیں رہتی اور ایسی حالت میں طلبِ دلیل عناد و مکابَرہ ہوتا ہے جب تک کہ دلیل کو مجروح نہ کر دیا جائے کوئی شخص دوسری دلیل کے طلب کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر یہ سلسلہ قائم کر دیا جائے کہ ہر شخص کے لئے نئی برہان قائم کی جائے جس کو وہ طلب کرے اور وہی نشانی لائی جائے جو وہ مانگے تو نشانیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ اس لئے حکمتِ الٰہیہ یہ ہے کہ انبیاء کو ایسے معجزات دیئے جاتے ہیں جن سے ہر شخص ان کے صدق و نبوّت کا یقین کر سکے اور بیشتر وہ اس قبیل سے ہوتے ہیں جس میں ان کی امّت اور ان کے عہد کے لوگ زیادہ مشق و مہارت رکھتے ہیں جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں علمِ سحر اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا اور اس زمانہ کے لوگ سحر کے بڑے ماہرِ کامل تھے تو حضر ت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ معجِزہ عطا ہوا جس نے سحر کو باطل کر دیا اور ساحروں کو یقین دلا دیا کہ جو کمال حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھایا وہ ربّانی نشان ہے، سحر سے اس کا مقابلہ ممکن نہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں طب انتہائی عروج پر تھی، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کو شفائے امراض و احیائے اموات کا وہ معجِزہ عطا فرمایا گیا جس سے طب کے ماہر عاجز ہو گئے اور وہ اس یقین پر مجبور تھے کہ یہ کام طب سے ناممکن ہے ضرور یہ قدرت الٰہی کا زبردست نشان ہے اسی طرح سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانۂ مبارک میں عرب کی فصاحت و بلاغت اوجِ کمال پر پہنچی ہوئی تھی اور وہ لوگ خوش بیانی میں عالَم پر فائق تھے۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ معجِزہ عطا فرمایا جس نے انہیں عاجز و حیران کر دیا اور ان کے بڑے سے بڑے لوگ اور ان کے اہلِ کمال کی جماعتیں قرآنِ کریم کے مقابل ایک چھوٹی سی عبارت پیش کرنے سے بھی عاجز و قاصر رہیں اور قرآن کے اس کمال نے یہ ثابت کر دیا کہ بیشک یہ ربّانی عظیم نشان ہے اور اس کا مثل بنا لانا بشری قوت کے امکان میں نہیں۔ اس کے علاوہ اور صدہا معجزات سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے پیش فرمائے جنہوں نے ہر طبقہ کے انسانوں کو آپ کے صدقِ رسالت کا یقین دلا دیا۔ ان معجزات کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اتری کس قدر عناد اور حق سے مُکرنا ہے۔

۲۴               اپنی نبوّت کے دلائل پیش کرنے اور اطمینان بخش معجزات دکھا کر اپنی رسالت ثابت کر دینے کے بعد احکامِ الٰہیہ پہنچانے اور خدا کا خو ف دلانے کے سوا آپ پر کچھ لازم نہیں اور ہر ہر شخص کے لئے اس کی طلبیدہ جدا جدا نشانیاں پیش کرنا آپ پر ضروری نہیں جیسا کہ آپ سے پہلے ہادیوں ( انبیاء علیہم السلام کا ) طریقہ رہا ہے۔

(۸) اللہ جانتا ہے  جو کچھ کسی مادہ کے  پیٹ میں ہے  (ف ۲۵) اور پیٹ جو کچھ گھٹتے  بڑھتے  ہیں (ف ۲۶) اور ہر چیز اس کے  پاس ایک اندازے  سے  ہے  (ف ۲۷)

۲۵               نر مادہ ایک یا زیادہ و غیر ذالک۔

۲۶               یعنی مدّ ت میں کس کا حمل جلد وضع ہو گا کس کا دیر میں۔ حمل کی کم سے کم مدّت جس میں بچہ پیدا ہو کر زندہ رہ سکے چھ ماہ ہے اور زیادہ سے زیادہ دو سال۔ یہی حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اور اسی کے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ قائل ہیں۔ بعض مفسِّرین نے یہ بھی کہا ہے پیٹ کے گھٹنے بڑھنے سے بچہ کا قوی، تام الخِلقت اور ناقص الخِلقت ہونا مراد ہے۔

۲۷               کہ اس سے گھٹ بڑھ نہیں سکتی۔

(۹) ہر چھپے  اور کھلے  کا جاننے  والا سب سے  بڑا بلندی  والا (ف ۲۸)

۲۸               ہر نقص سے منزّہ۔

(۱۰)  برابر ہیں جو تم میں بات آہستہ کہے  اور جو آواز سے  اور جو  رات میں چھپا ہے  اور جو دن میں راہ چلتا ہے  (ف ۲۹)

۲۹               یعنی دل کی چھپی باتیں اور زبان سے بَاعلان کہی ہوئی اور رات کو چھپ کر کئے ہوئے عمل اور دن کو ظاہر طور پر کئے ہوئے کام سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کوئی اس کے علم سے باہر نہیں۔

(۱۱) آدمی کے  لیے   بدلی والے  فرشتے  ہیں اس کے  آگے  پیچھے  (ف ۳۰) کہ بحکم خدا  اس کی حفاظت کرتے  ہیں (ف ۳۱)  بیشک اللہ کسی قوم سے  اپنی نعمت نہیں بدلتا جب  تک وہ خود (ف ۳۲) اپنی  حالت نہ بدلیں، اور جب کسی قوم سے  برائی چاہے  (ف ۳۳) تو وہ پھر نہیں سکتی، اور اس کے  سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں (ف ۳۴)

۳۰               بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ تم میں فرشتے نوبت بہ نوبت آتے ہیں، رات اور دن میں اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں جمع ہوتے ہیں، نئے فرشتے رہ جاتے ہیں اور جو فرشتے رہ چکے ہیں وہ چلے جاتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ نماز پڑھتے پایا اور نماز پڑھتے چھوڑا۔

۳۱               مجاہد نے کہا ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ حفاظت پر مامور ہے جو سوتے جاگتے جن و انس اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر ستانے والی چیز کو اس سے روک دیتا ہے بجز اس کے جس کا پہنچنا مشیت میں ہو۔

۳۲               مَعاصی میں مبتلا ہو کر۔

۳۳               اس کے عذاب و ہلاک کا ارادہ فرمائے۔

۳۴               جو اس کے عذاب کو روک سکے۔

(۱۲) وہی ہے  تمہیں بجلی دکھاتا ہے  ڈر کو اور امید کو (ف ۳۵) اور بھاری بدلیاں اٹھاتا ہے۔

۳۵               کہ اس سے گر کر نقصان پہنچانے کا خوف ہوتا ہے اور بارش سے نفع اٹھانے کی امید یا بعضوں کو خوف ہوتا ہے جیسے مسافروں کو جو سفر میں ہوں اور بعضوں کو فائدہ کی امید جیسے کہ کاشتکار وغیرہ۔

(۱۳)  اور گر ج اسے  سراہتی ہوئی اس کی پاکی بولتی ہے  (ف ۳۶) اور فرشتے  اس کے  ڈر سے  (ف ۳۷)  اور کڑک بھیجتا ہے  (ف ۳۸)  تو اسے  ڈالتا ہے  جس پر چاہے   اور وہ اللہ میں جھگڑتے  ہوتے  ہیں (ف ۳۹) اور اس کی پکڑ سخت ہے۔

۳۶               گرج یعنی بادل سے جو آواز ہوتی ہے اس کے تسبیح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس آواز کا پیدا ہونا خالِق، قادر، ہر نقص سے منزّہ کے وجود کی دلیل ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ تسبیحِ رعد سے وہ مراد ہے کہ اس آواز کو سن کر اللّٰہ کے بندے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض مفسِّرین کا قو ل ہے کہ رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو بادل پر مامور ہے اس کو چلاتا ہے۔

۳۷               یعنی اس کی ہیبت و جلال سے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔

۳۸               صاعقہ وہ شدید آواز ہے جو جَوّ ( آسمان و زمین کے درمیان ) سے اترتی ہے پھر اس میں آگ پیدا ہو جاتی ہے یا عذاب یا موت اور وہ اپنی ذات میں ایک ہی چیز ہے اور یہ تینوں چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ (خازن)۔

۳۹               شانِ نُزول : حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے عرب کے ایک نہایت سرکش کافِر کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اپنے اصحاب کی ایک جماعت بھیجی، انہوں نے اس کو دعوت دی کہنے لگا محمّد (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) کا ربّ کون ہے جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو، کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا یا لوہے کا یا تانبے کا ؟ مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزری اور انہوں نے واپس ہو کر سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ ایسا اکفر، سیاہ دل، سرکش دیکھنے میں نہیں آیا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے پاس پھر جاؤ، اس نے پھر وہی گفتگو کی اور اتنا اور کہا کہ محمّد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت قبول کر کے ایسے ربّ کو مان لوں جسے نہ میں نے دیکھا نہ پہچانا۔ یہ حضرات پھر واپس ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور اس کا خُبث تو اور ترقی پر ہے، فرمایا پھر جاؤ، بہ تعمیل ارشاد پھر گئے جس وقت اس سے گفتگو کر رہے تھے اور وہ ایسی ہی سیاہ دلی کی باتیں بک رہا تھا، ایک ابر آیا اس سے بجلی چمکی اور کڑک ہوئی اور بجلی گری اور اس کافِر کو جلا دیا۔ یہ حضرات اس کے پاس بیٹھے رہے اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو راہ میں انہیں اصحابِ کرام کی ایک اور جماعت ملی وہ کہنے لگے کہیے وہ شخص جل گیا، ان حضرات نے کہا آپ صاحبوں کو کیسے معلوم ہو گیا ؟ انہوں نے فرمایا سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وحی آئی ہے۔ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِھَآ مَنْ یَّشَآءُ وَھُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰہ ِ  (خازن) بعض مفسِّرین نے ذکر کیا ہے کہ عامر بن طفیل نے اربد بن ربیعہ سے کہا محمّدِ مصطفیٰ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس چلو میں انہیں باتوں میں لگاؤں گا تو پیچھے سے تلوار سے حملہ کرنا، یہ مشورہ کر کے وہ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور عامر نے حضور سے گفتگو شروع کی بہت طویل گفتگو کے بعد کہنے لگا کہ اب ہم جاتے ہیں اور ایک بڑا جرّار لشکر آپ پر لائیں گے یہ کہہ کر چلا آیا، باہر آ کر اربد سے کہنے لگا کہ تو نے تلوار کیوں نہیں ماری ؟ اس نے کہا جب میں تلوار مارنے کا ارادہ کرتا تھا تو تُو درمیان میں آ جاتا تھا۔ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کے نکلتے وقت یہ دعا فرمائی۔ اَللّٰھُمَّ اکْفِہِمَا بِمَا شِئْتَ  جب یہ دونوں مدینہ شریف سے باہر آئے تو ان پر بجلی گری اربد جل گیا اور عامر بھی اسی راہ میں بہت بدتر حالت میں مرا۔ (حسینی)۔

(۱۴) اسی کا پکارنا سچا ہے  (ف ۴۰) اور اُس کے  سوا جن کو پکارتے  ہیں (ف ۴۱)  وہ ان کی کچھ بھی  نہیں سنتے  مگر اس کی طرح جو پانی کے  سامنے  اپنی ہتھیلیاں پھیلائے  بیٹھا ہے  کہ اس کے  منہ میں پہنچ جائے  (ف ۴۲) اور وہ  ہرگز نہ پہنچے  گا، اور کافروں کی ہر دعا بھٹکتی پھرتی ہے۔

۴۰               یعنی اس کی توحید کی شہادت دینا اور لا اِلٰہ الا اللہ کہنا یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ دعا قبول کرتا ہے اور اسی سے دعا کرنا سزا وار ہے۔

۴۱           معبود جان کر یعنی کُفّار جو بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔

۴۲               تو ہتھیلیاں پھیلانے اور بلانے سے پانی کنوئیں سے نکل کر اس کے منہ میں نہ آئے گا کیونکہ پانی کو نہ علم ہے نہ شعور جو اس کی حاجت اور پیاس کو جانے اور اس کے بلانے کو سمجھے اور پہچانے، نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کرے اور اپنے مقتضائے طبیعت کے خلاف اوپر چڑھ کر بلانے والے کے منہ میں پہنچ جائے۔ یہی حال بتوں کا ہے کہ نہ انہیں بُت پرستوں کے پکارنے کی خبر ہے نہ ان کی حاجت کا شعور نہ وہ ان کے نفع پر کچھ قدرت رکھتے ہیں۔

(۱۵) اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے  ہیں جتنے  آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے  (ف ۴۳) خواہ مجبوری سے  (ف ۴۴) اور ان کی پرچھائیاں ہر صبح و شام (ف ۴۵) السجدۃ۔۲

۴۳               جیسے کہ مومن۔

۴۴               جیسے کہ منافق و کافِر۔

۴۵               ان کی تبعیت میں اللّٰہ کو سجدہ کرتی ہیں۔ زُجاج نے کہا کہ کافِر غیر اللّٰہ کو سجدہ کرتا ہے اور اس کا سایہ اللّٰہ کو۔ ابنِ انباری نے کہا کہ کچھ بعید نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ پرچھائیوں میں ایسی فہم پیدا کرے کہ وہ اس کو سجدہ کریں۔ بعض کا قول ہے سجدے سے سایہ کا ایک طرف سے دوسری طرف مائل ہونا اور آفتاب کے ارتفاع و نُزول کے ساتھ دراز و کوتاہ ہونا مراد ہے۔ (خازن)۔

(۱۶)  تم فرماؤ کون رب ہے  آسمانوں اور زمین کا، تم خود ہی فرما ؤ اللہ (ف ۴۶) تم فرما ؤ تو کیا  اس کے  سوا تم نے   وہ حمایتی بنائے  ہیں جو اپنا بھلا برا نہیں کر سکتے  ہیں (ف ۴۷) تم فرما ؤ کیا برابر ہو جائیں گے  اندھا اور انکھیارا  (بینا) (ف ۴۸)  یا کیا برابر ہو جائیں گی اندھیریاں اور اجالا (ف ۴۹) کیا اللہ کے  لیے  ایسے  شریک ٹھہراتے  ہیں جنہوں نے  اللہ کی طرح کچھ بنایا تو انہیں ان کا اور اس کا بنانا ایک سا معلوم ہوا  (ف ۵۰) تم فرما ؤ اللہ ہر چیز کا بنانے  والا ہے   (ف ۵۱) اور وہ اکیلا سب پر غالب ہے  (ف ۵۲)

۴۶               کیونکہ اس سوال کا اس کے سوا اور کوئی جواب ہی نہیں اور مشرکین باوجود غیر اللّٰہ کی عبادت کرنے کے اس کے مقِر ہیں کہ آسمان و زمین کا خالِق اللّٰہ ہے۔ جب یہ امر مسلّم ہے تو۔

۴۷               یعنی بُت جب ان کی یہ بے قدرتی و بیچارگی ہے تو وہ دوسرے کو کیا نفع و ضَرر پہنچا سکتے ہیں۔ ایسوں کو معبود بنانا اور خالِق رازق قوی و قادر کو چھوڑنا انتہا درجے کی گمراہی ہے۔

۴۸               یعنی کافِر و مومن۔

۴۹               یعنی کُفر و ایمان۔

۵۰               اور اس وجہ سے کہ حق ان پر مشتبہ ہو گیا اور وہ بُت پرستی کرنے لگے، ایسا تو نہیں ہے بلکہ جن بتوں کو وہ پوجتے ہیں اللّٰہ کی مخلوق کی طرح کچھ بنانا تو کجا وہ بندوں کے مصنوعات کے مثل بھی نہیں بنا سکتے، عاجزِ مَحض ہیں ایسے پتھروں کا پوجنا عقل و دانش کے بالکل خلاف ہے۔

۵۱           جو مخلوق ہونے کی صلاحیت رکھے اس سب کا خالِق اللّٰہ ہی ہے اور کوئی نہیں تو دوسرے کو شریکِ عبادت کرنا عاقل کس طرح گوارا کر سکتا ہے۔

۵۲               سب اس کے تحتِ قدرت و اختیار ہیں۔

(۱۷) اس نے  آسمان سے  پانی اتارا  تو نالے  اپنے  اپنے  لائق بہہ نکلے  تو پانی کی رو اس پر ابھرے  ہوئے   جھاگ اٹھا لائی، اور جس پر آگ دہکاتے  ہیں (ف ۵۳) گہنا یا  اور اسباب (ف ۵۴) بنانے  کو اس سے  بھی ویسے  ہی جھاگ اٹھتے  ہیں اللہ بتاتا ہے  کہ حق و باطل کی یہی مثال ہے، تو جھاگ تو پھک (جل) کر دور ہو جاتا ہے، اور وہ جو لوگوں کے  کام آئے  زمین میں رہتا ہے  (ف ۵۵) اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے۔

۵۳               جیسے کہ سونا چاندی تانبہ وغیرہ۔

۵۴               برتن وغیرہ۔

۵۵               ایسے ہی باطل اگرچہ کتنا ہی ابھر جائے اور بعض اوقات و احوال میں جھاگ کی طرح حد سے اونچا ہو جائے مگر انجامِ کار مٹ جاتا ہے اور حق اصل شے اور جوہرِ صاف کی طرح باقی و ثابت رہتا ہے۔

(۱۸) جن لوگوں نے  اپنے  رب کا حکم مانا انہیں کے  لیے  بھلائی ہے  (ف ۵۶)  اور جنہوں نے  اس کا حکم نہ مانا  (ف ۵۷) اگر زمین میں جو کچھ ہے  وہ سب اور اس جیسا اور ان کی ملِک میں ہوتا تو اپنی جان چھڑانے  کو دے   دیتے  یہی ہیں جن کا بُرا حساب ہو گا (ف ۵۸) اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور کیا ہی  بُرا بچھونا۔

۵۶               یعنی جنّت۔

۵۷               اور کُفر کیا۔

۵۸               کہ ہر امر پر مواخذہ کیا جائے گا اور اس میں سے کچھ نہ بخشا جائے گا۔ (جلالین و خازن)۔

(۱۹)  تو کیا وہ جانتا ہے  جو کچھ تمہاری طرف تمہارے  رب کے  پاس سے  اترا حق ہے  (ف ۵۹) وہ اس جیسا  ہو گا جو اندھا ہے  (ف ۶۰) نصیحت وہی مانتے  ہیں جنہیں عقل ہے۔

۵۹               اور اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔

۶۰               حق کو نہیں جانتا، قرآن پر ایمان نہیں لاتا، اس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ یہ آیت حضرت حمزہ ابنِ عبدالمطلب اور ابوجہل کے حق میں نازِل ہوئی۔

(۲۰) وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے  ہیں (ف ۶۱) اور قول باندھ کر پھرتے  نہیں

۶۱               اس کی ربوبیت کی شہادت دیتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں۔

(۲۱)  اور وہ کہ جوڑتے  ہیں اسے  جس کے  جوڑنے  کا اللہ نے  حکم  دیا (ف ۶۲) اور اپنے  رب سے  ڈرتے  ہیں اور حساب کی بُرائی سے  اندیشہ رکھتے  ہیں (ف ۶۳)

۶۲               یعنی اللّٰہ کی تمام کتابوں اور اس کے کل رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کو مان کر بعض سے منکِر ہو کر ان میں تفریق نہیں کرتے یا یہ معنی ہیں کہ حقوقِ قرابت کی رعایت رکھتے ہیں اور رشتہ قطع نہیں کرتے۔ اسی میں رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی قرابتیں اور ایمانی قرابتیں بھی داخل ہیں، سادات کرام کا احترام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت و احسان اور ان کی مدد اور ان کی طرف سے مدافعت اور ان کے ساتھ شفقت اور سلام دُعا اور مسلمان مریضوں کی عیادت اور اپنے دوستوں، خادموں، ہمسایوں، سفر کے ساتھیوں کے حقوق کی رعایت بھی اس میں داخل ہے اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھنے کی بہت تاکیدیں آئی ہیں، بہ کثرت احادیثِ صحیحہ اس باب میں وارد ہیں۔

۶۳               اور وقتِ حساب سے پہلے خود اپنے نفسوں سے محاسبہ کرتے ہیں۔

(۲۲)  اور وہ جنہوں نے  صبر کیا (ف ۶۴) اپنے  رب کی رضا چاہنے  کو  اور نماز قائم رکھی اور ہمارے  دیئے  سے   ہماری راہ میں چھپے  اور ظاہر کچھ خرچ کیا (ف ۶۵) اور برائی کے  بدلے  بھلائی کر کے   ٹالتے  ہیں (ف ۶۶) انہیں کے  لیے  پچھلے  گھر کا نفع ہے۔

۶۴               طاعتوں اور مصیبتوں پر اور معصیت سے باز رہے۔

۶۵               نوافل کا چھپانا اور فرائض کا ظاہر کرنا افضل ہے۔

۶۶               بدکلامی کا جواب شیریں سخنی سے دیتے ہیں اور جو انہیں محروم کرتا ہے اس پر عطا کرتے ہیں، جب ان پر ظلم کیا جاتا ہے معاف کرتے ہیں، جب ان سے پیوند قطع کیا جاتا ہے ملاتے ہیں اور جب گناہ کرتے ہیں توبہ کرتے ہیں، جب ناجائز کام دیکھتے ہیں اسے بدلتے ہیں، جہل کے بدلے حلم اور ایذا کے بدلے صبر کرتے ہیں۔

(۲۳) بسنے  کے  باغ جن میں وہ داخل ہوں گے  اور جو لائق ہوں (ف ۶۷) ان کے  باپ  دادا اور بیبیوں اور  اولاد میں (ف ۶۸)  اور فرشتے  (ف ۶۹)  ہر دروازے  سے  ان پر (ف ۷۰) یہ کہتے  آئیں گے۔

۶۷               یعنی مؤمن ہوں۔

۶۸               اگرچہ لوگوں نے ان کے سے عمل نہ کئے ہوں جب بھی اللّٰہ تعالیٰ ان کے اکرام کے لئے ان کو ان کے درجہ میں داخل فرمائے گا۔

۶۹               ہر ایک روز و شب میں ہدایات اور رضا کی بشارتیں لے کر جنّت کے۔

۷۰               بہ طریقِ تحیّت و تکریم۔

(۲۴)  سلامتی ہو تم  پر تمہارے  صبر کا بدلہ تو پچھلا  گھر کیا ہی خوب ملا۔

(۲۵)  اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے  پکے  ہونے  (ف ۷۱) کے  بعد توڑتے  اور جس کے  جوڑنے  کو اللہ نے  فرمایا اسے  قطع کرتے  اور زمین میں فساد پھیلاتے  ہیں (ف ۷۲) ان کا حصہ لعنت ہی ہے  اور اُن کا نصیبہ بُرا  گھر (ف ۷۳)

۷۱               اور اس کو قبول کر لینے۔

۷۲               کُفر و مَعاصی کا ارتکاب کر کے۔

۷۳               یعنی جہنّم۔

(۲۶) اللہ جس کے  لیے  چاہے   رزق کشادہ اور (ف ۷۴) تنگ کرتا ہے، اور کا فر دنیا کی زندگی پر اترا گئے   (نازاں ہوئے )  (ف ۷۵)  اور دنیا کی زندگی آخرت کے  مقابل نہیں مگر کچھ دن برت لینا۔

۷۴               جس کے لئے چاہے۔

۷۵               اور شکر گزار نہ ہوئے۔

مسئلہ : دولتِ دنیا پر اترانا اور مغرور ہونا حرام ہے۔

(۲۷)  اور کافر کہتے   ان پر کوئی نشانی ان کے  رب کی طرف سے  کیوں نہ اتری، تم فرماؤ بیشک اللہ جسے  چاہے  گمراہ کرتا ہے  (ف ۷۶) اور اپنی راہ اسے  دیتا ہے  جو اس کی طرف رجوع لائے۔

۷۶               کہ وہ آیات و معجزات نازِل ہونے کے بعد بھی یہ کہتا رہتا ہے کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اتری، کوئی معجزہ کیوں نہیں آیا ! معجزاتِ کثیرہ کے باوجود گمراہ رہتا ہے۔

(۲۸) وہ جو ایمان لائے   اور ان کے  دل اللہ کی یاد سے  چین پاتے  ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے  (ف ۷۷)

۷۷               اس کے رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کر کے بے قرار دلوں کو قرار و اطمینان حاصل ہوتا ہے اگرچہ اس کے عدل و عتاب کی یاد دلوں کو خائف کر دیتی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہ ُ وَجِلَتْ قُلُوْبھُمْ  حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مسلمان جب اللّٰہ تعالیٰ کا نام لے کر قسم کھا تا ہے دوسرے مسلمان اس کا اعتبار کر لیتے ہیں اور ان کے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔

(۲۹)  وہ جو ایمان  لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کو خوشی ہے  اور اچھا  انجام (ف ۷۸)

۷۸               طوبیٰ بشارت ہے راحت و نعمت اور خرمی و خوش حالی کی۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ طوبیٰ زبانِ حبشی میں جنّت کا نام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ اور دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ طوبیٰ جنّت کے ایک درخت کا نام ہے جس کا سایہ ہر جنّت میں پہنچے گا، یہ درخت جنّتِ عدن میں ہے اور اس کی اصل (بیخ) سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ایوانِ معلیٰ میں اور اس کی شاخیں جنّت کے ہر غرفہ اور قصر میں، اس میں سوا سیاہی کے ہر قسم کے رنگ اور خوش نمائیاں ہیں ہر طرح کے پھل اور میوہ اس میں پھلے ہیں، اس کی بیخ سے کافور سلسبیل کی نہریں رواں ہیں۔

(۳۰)  اسی طرح ہم نے  تم کو اس امت میں بھیجا جس سے  پہلے  امتیں ہو گزریں (ف ۷۹) کہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ (ف ۸۰) جو ہم نے  تمہاری طرف وحی کی اور وہ رحمن کے  منکر ہو رہے  ہیں (ف ۸۱) تم فرماؤ وہ میرا رب ہے  اس کے  سوا کسی کی بندگی  نہیں میں نے  اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میری رجوع ہے۔

۷۹               تو تمہاری امّت سب سے پچھلی امّت ہے اور تم خاتَم الانبیاء ہو، تمہیں بڑے شان و شکوہ سے رسالت عطا کی۔

۸۰               وہ کتابِ عظیم۔

۸۱               شانِ نُزول : قتادہ و مقاتل وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ میں نازِل ہوئی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ سہیل بن عمرو جب صلح کے لئے آیا اور صلح نامہ لکھنے پر اتفاق ہو گیا تو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا لکھو بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم کُفّار نے اس میں جھگڑا کیا اور کہا کہ آپ ہمارے دستور کے مطابق بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ لکھوائیے۔ اس کے متعلق آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ رحمٰن کے منکِر ہو رہے ہیں۔

(۳۱)  اور اگر کوئی ایسا قرآن آتا جس سے  پہاڑ ٹل جاتے  (ف ۸۲)  یا زمین پھٹ جاتی یا  مردے  باتیں کرتے  جب بھی  یہ کافر نہ مانتے  (ف ۸۳) بلکہ سب کام اللہ ہی کے  اختیار میں ہیں (ف ۸۴) تو کیا مسلمان اس سے  نا  امید نہ ہوئے  (ف ۸۵) کہ اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کر دیتا  (ف ۸۶)  اور کافروں کو ہمیشہ کے  لیے  یہ سخت دھمک  (ہلا دینے  وا لی مصیبت) پہنچتی رہے  گی (ف ۸۷) یا ان کے  گھروں کے  نزدیک اترے  گی (ف ۸۸) یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آئے  (ف ۸۹)  بیشک اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا  (ف ۹۰)

۸۲               اپنی جگہ سے۔

۸۳               شانِ نُزول : کُفّارِ قریش نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ ہم آپ کی نبوّت مانیں اور آپ کا اِتِّباع کریں تو آپ قرآن شریف پڑھ کراس کی تاثیر سے مکّۂ مکّرمہ کے پہاڑ ہٹا دیجئے تاکہ ہمیں کھیتیاں کرنے کے لئے وسیع میدان مل جائیں اور زمین پھاڑ کر چشمہ جاری کیجئے تاکہ ہم کھیتوں اور باغوں کو ان سے سیراب کریں اور قصی بن کلاب وغیرہ ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر دیجئے وہ ہم سے کہہ جائیں کہ آپ نبی ہیں۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتا دیا گیا کہ یہ حیلے حوالے کرنے والے کسی حال میں بھی ایمان لانے والے نہیں۔

۸۴               تو ایمان وہی لائے گا جس کو اللّٰہ چاہے اور توفیق دے اس کے سوا اور کوئی ایمان لانے والا نہیں اگرچہ انہیں وہی نشان دکھا دیئے جائیں جو وہ طلب کریں۔

۸۵               یعنی کُفّار کے ایمان لانے سے خواہ انہیں کتنی ہی نشانیاں دکھلا دی جائیں اور کیا مسلمانوں کو اس کا یقینی علم نہیں۔

۸۶               بغیر کسی نشانی کے لیکن وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہی حکمت ہے۔ یہ جواب ہے ان مسلمانوں کا جنہوں نے کُفّار کے نئی نئی نشانیاں طلب کرنے پر یہ چاہا تھا کہ جو کافِر بھی کوئی نشانی طلب کرے وہی اس کو دکھا دی جائے، اس میں انہیں بتا دیا گیا کہ جب زبردست نشان آ چکے اور شُکوک و اوہام کی تمام راہیں بند کر دی گئیں، دین کی حقانیت روزِ روشن سے زیادہ واضح ہو چکی، ان جلی برہانوں کے باوجود جو لوگ مُکر گئے، حق کے معترف نہ ہوئے، ظاہر ہو گیا کہ وہ معانِد ہیں اور معانِد کسی دلیل سے بھی مانا نہیں کرتا تو مسلمانوں کو اب ان سے قبولِ حق کی کیا امید، کیا اب تک ان کا عناد دیکھ کر اور آیات و بیّناتِ واضحہ سے اعراضِ مشاہدہ کر کے بھی ان سے قبولِ حق کی امید رکھی جا سکتی ہے البتہ اب ان کے ایمان لانے اور مان جانے کی یہی صورت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں مجبور کرے اور ان کا اختیار سلب فرما لے اس طرح کی ہدایت چاہتا تو تمام آدمیوں کو ہدایت فرما دیتا اور کوئی کافِر نہ رہتا مگر دارالابتلا و الامتحان کی حکمت اس کی مقتضیٰ نہیں۔

۸۷               یعنی وہ اس تکذیب و عناد کی وجہ سے طرح طرح کے حوادث و مصائب اور آفتوں اور بلاؤں میں مبتلا رہیں گے، کبھی قحط میں، کبھی لٹنے میں، کبھی مارے جانے میں، کبھی قید میں۔

۸۸               اور ان کے اضطراب و پریشانی کا باعث ہو گی اور ان تک ان مصائب کے ضَرر پہنچیں گے۔

۸۹               اللّٰہ کی طرف سے فتح و نصرت آئی اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کا دین غالب ہو اور مکّۂ مکّرمہ فتح کیا جائے۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ اس وعدہ سے روزِ قیامت مراد ہے جس میں اعمال کی جزا دی جائے گی۔

۹۰               اس کے بعد اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تسکینِ خاطر فرماتا ہے کہ اس قسم کے بیہودہ سوال اور ایسے تمسخُر و استہزاء سے آپ رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ہادیوں کو ایسے واقعات پیش آیا ہی کرتے ہیں چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔

(۳۲) اور بیشک تم سے  اگلے  رسولوں سے  بھی ہنسی کی گئی تو میں نے  کافروں کو کچھ دنوں ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا  (ف ۹۱) تو میرا عذاب کیسا تھا۔

۹۱               اور دنیا میں انہیں قحط و قتل و قید میں مبتلا کیا اور آخرت میں ان کے لئے عذابِ جہنّم ہے۔

(۳۳)  تو کیا وہ ہر جان پر اس کے  اعمال کی نگہداشت رکھتا ہے  (ف ۹۲) اور وہ اللہ کے  شریک ٹھہراتے  ہیں، تم فرماؤ ان کا نام تو لو (ف ۹۳)  یا  اسے  وہ بتاتے  ہو جو اس کے  علم میں ساری زمین میں نہیں (ف ۹۴) یا یوں ہی  اوپری بات (ف ۹۵)  بلکہ کافروں کی نگاہ میں ان کا فریب اچھا ٹھہرا ہے   اور راہ سے  روکے  گئے  (ف ۹۶) اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اسے  کوئی ہدایت کرنے  والا نہیں۔

۹۲               نیک کی بھی بد کی بھی یعنی اللّٰہ تعالیٰ کیا وہ ان بتوں کی مثل ہو سکتا ہے جو ایسے نہیں نہ انہیں علم ہے نہ قدرت، عاجز بے شعور ہیں۔

۹۳               وہ ہیں کون ؟۔

۹۴               اور جو اس کے علم میں نہ ہو وہ باطلِ مَحض ہے، ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے لہذا اسکے لئے شریک ہونا باطل و غلط۔

۹۵               کے درپے ہوتے ہو جس کی کچھ اصل و حقیقت نہیں۔

۹۶               یعنی رُشد و ہدایت اور دین کی راہ سے۔

(۳۴)  انہیں دنیا کے  جیتے  عذاب ہو گا (ف ۹۷) اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے  سخت اور انہیں اللہ سے  بچانے  والا کوئی نہیں۔

۹۷               قتل و قید کا۔

(۳۵) احوال اس جنت کا کہ ڈر والوں کے  لیے  جس کا وعدہ  ہے، اس کے  نیچے  نہریں بہتی ہیں، اس کے  میوے  ہمیشہ اور اس کا سایہ (ف ۹۸)  ڈر  والوں کا تو یہ انجام ہے  (ف ۹۹) اور کافروں کا انجام آ گ۔

۹۸               یعنی اس کے میوے اور اس کا سایہ دائمی ہے، ان میں سے کوئی منقطع اور زائل ہونے والا نہیں۔ جنّت کا حال عجیب ہے اس میں نہ سورج ہے نہ چاند نہ تاریکی باوجود اس کے غیر منقطع دائمی سایہ ہے۔

۹۹               یعنی تقویٰ والوں کے لئے جنّت ہے۔

(۳۶)  اور جن کو ہم نے  کتاب دی (ف ۱۰۰)  وہ اس پر خوش ہوتے  جو تمہاری طرف اترا اور ان گروہوں میں (ف ۱۰۱) کچھ وہ ہیں کہ اس کے  بعض سے  منکر ہیں، تم فرماؤ مجھے  تو یہی حکم ہے  کہ اللہ کی بندگی کروں اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں، میں اسی کی طرف بلاتا  ہوں اور اسی کی طرف مجھے  پھرنا (ف ۱۰۲)

۱۰۰             یعنی وہ یہود و نصاریٰ جو اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ عبداللّٰہ بن سلام وغیرہ اور حبشہ و نجران کے نصرانی۔

۱۰۱             یہود و نصاریٰ و مشرکین کے جو آپ کی عداوت میں سرشار ہیں اور آپ پر انہوں نے چڑھائیاں کیں ہیں۔

۱۰۲             اس میں کیا بات قابلِ انکار ہے کیوں نہیں مانتے !۔

(۳۷) اور اسی طرح ہم نے  اسے  عربی فیصلہ  اتارا  (ف ۱۰۳) اور اے  سننے  والے ! اگر تو ان کی خواہشوں پر چلے  گا (ف ۱۰۴) بعد اس کے  کہ تجھے  علم آ چکا تو اللہ کے  آگے  نہ تیرا کوئی حمایتی ہو گا نہ بچانے  والا۔

۱۰۳             یعنی جس طرح پہلے انبیاء کو ان کی زبانوں میں احکام دیئے تھے اسی طرح ہم نے یہ قرآن اے سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم آپ کی زبان عربی میں نازِل فرمایا۔ قرآنِ کریم کو حکم اس لئے فرمایا کہ اس میں اللّٰہ کی عبادت اور اس کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت اور تمام تکالیف و احکام اور حلال و حرام کا بیان ہے۔ بعض عُلَماء نے فرمایا چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام خَلق پر قرآن شریف کے قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا حکم فرمایا اس لئے اس کا نام حکم رکھا۔

۱۰۴             یعنی کافِروں کو جو اپنے دین کی طرف بلاتے ہیں۔

(۳۸) اور بیشک ہم نے  تم سے  پہلے  رسول بھیجے  اور ان کے  لیے   بیبیاں (ف ۱۰۵) اور بچے  کیے  اور کسی رسول کا  کام نہیں کہ کوئی نشانی لے  آئے  مگر اللہ کے  حکم سے،  ہر وعدہ کی ایک لکھت ہے  (ف ۱۰۶)

۱۰۵             شانِ نُزول : کافِروں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ عیب لگایا تھا کہ وہ نکاح کرتے ہیں اگر نبی ہوتے تو دنیا ترک کر دیتے، بی بی بچّے سے کچھ واسطہ نہ رکھتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ بی بی بچّے ہونا نبوّت کے مُنافی نہیں لہذا یہ اعتراض مَحض بے جا ہے اور پہلے جو رسول آ چکے ہیں وہ بھی نکاح کرتے تھے، ان کے بھی بیبیاں اور بچے تھے۔

۱۰۶             اس سے مقدّم و موخّر نہیں ہو سکتا خواہ وہ وعدہ عذاب کا ہو یا کوئی اور۔

(۳۹) اللہ جو چاہے  مٹاتا اور ثابت کرتا ہے  (ف ۱۰۷) اور اصل لکھا ہوا اسی کے  پاس (ف ۱۰۸)

۱۰۷             سعید بن جبیر اور قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اللّٰہ جن احکام کو چاہتا ہے منسوخ فرماتا ہے جنہیں چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ انہیں ابن جبیر کا ایک قول یہ ہے کہ بندوں کے گناہوں میں سے اللّٰہ جو چاہتا ہے مغفرت فرما کر مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے۔ عِکرمہ کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ توبہ سے جس گناہ کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور اس کی جگہ نیکیاں قائم فرماتا ہے اور اس کی تفسیر میں اور بھی بہت اقوال ہیں۔

۱۰۸             جس کو ا س نے ازَل میں لکھا یہ علمِ الٰہی ہے یا اُم الکتاب سے لوحِ محفوظ مراد ہے جس میں تمام کائنات اور عالَم میں ہونے والے جملہ حوادث و واقعات اور تمام اشیاء مکتوب ہیں اور اس میں تغیُّر و تبدُّل نہیں ہوتا۔

(۴۰) اور اگر ہمیں تمہیں دکھا دیں کوئی وعدہ  (ف ۱۰۹) جو انہیں دیا جاتا ہے  یا پہلے  ہی (ف ۱۱۰) اپنے  پاس بلائیں تو بہرحال تم پر تو ضرور پہنچانا ہے  اور حساب لینا (ف ۱۱۱) ہمارا ذمہ (ف ۱۱۲)

۱۰۹             عذاب کا۔

۱۱۰             ہم تمہیں۔

۱۱۱             اور اعمال کی جزا دینا۔

۱۱۲             تو آپ کافِروں کے اعراض کرنے سے رنجیدہ نہ ہوں اور عذاب کی جلدی نہ کریں۔

(۴۱)  کیا انہیں نہیں سوجھتا کہ ہر طرف سے  ان کی آبادی گھٹاتے  آرہے  ہیں (ف ۱۱۳) اور اللہ حکم فرماتا ہے  اس کا حکم پیچھے  ڈالنے  والا کوئی نہیں (ف ۱۱۴) اور اسے  حساب لیتے  دیر نہیں لگتی۔

۱۱۳             اور زمینِ شرک کی وسعت دم بدم کم کر رہے ہیں اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے کُفّار کے گرد و پیش کی اراضی یکے بعد دیگرے فتح ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ صریح دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب کی مدد فرماتا ہے اور ان کے لشکر کو فتح مند کرتا ہے اور انکے دین کو غلبہ دیتا ہے۔

۱۱۴             اس کا حکم نافذ ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس میں چوں چرا یا تغییر و تبدیل کر سکے جب وہ اسلام کو غلبہ دینا چاہے اور کُفر کو پست کرنا تو کس کی تاب و مجال کہ اس کے حکم میں دخل دے سکے۔

(۴۲) اور ان سے  اگلے  (ف ۱۱۵) فریب کر چکے  ہیں تو ساری خفیہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہی ہے   (ف ۱۱۶) جانتا ہے  جو کچھ کوئی جان کمائے  (ف ۱۱۷) اور اب جاننا چاہتے  ہیں کافر،  کسے  ملتا ہے  پچھلا گھر (ف ۱۱۸)

۱۱۵             یعنی گزری ہوئی اُمّتوں کے کُفّار اپنے انبیاء کے ساتھ۔

۱۱۶             پھر بغیر اس کی مشیت کے کسی کی کیا چل سکتی ہے اور جب حقیقت یہ ہے تو مخلوق کا کیا اندیشہ۔

۱۱۷             ہر ایک کا کسب اللّٰہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس کے نزدیک ان کی جزا مقرر ہے۔

۱۱۸             یعنی کافِر عنقریب جان لیں گے کہ راحتِ آخرت مومنین کے لئے ہے اور وہاں کی ذلّت و خواری کُفّار کے لئے ہے۔

(۴۳) اور کافر کہتے  ہی تم رسول نہیں، تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے  مجھ میں اور تم میں (ف ۱۱۹) اور وہ جسے  کتاب کا علم ہے  (ف ۱۲۰)

۱۱۹             جس نے میرے ہاتھوں میں معجزاتِ باہرہ و آیاتِ قاہرہ ظاہر فرما کر میرے نبیِ مُرسَل ہونے کی شہادت دی۔

۱۲۰             خواہ وہ عُلَمائے یہود میں سے توریت کا جاننے والا ہو یا نصاریٰ میں سے انجیل کا عالم، وہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو اپنی کتابوں میں دیکھ کر جانتا ہے ان عُلَماء میں سے اکثر آپ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔