۱ سورۂ نحل مکیّہ ہے مگر آیت فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَاعُوْقِبْتُمْ بِہٖ سے آخرِ سورت تک جو آیات ہیں وہ مدینہ طیّبہ میں نازِل ہوئیں اور اس میں اور اقوال بھی ہیں۔ اس سورت میں سولہ ۱۶ رکوع اور ایک سو اٹھائیس ۱۲۸ آیتیں اور دو ہزار آٹھ سو چالیس ۲۸۴۰ کلمے اور سات ہزار سات سو سات ۷۷۰۷ حرف ہیں۔
۲ شانِ نُزول : جب کُفّار نے عذابِ موعود کے نُزول اور قیامت کے قائم ہونے کی بطریقِ تکذیب و استہزاء جلدی کی اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتا دیا گیا کہ جس کی تم جلدی کرتے ہو وہ کچھ دور نہیں بہت ہی قریب ہے اور اپنے وقت پر بالیقین واقع ہو گا اور جب واقع ہو گا تو تمہیں اس سے خلاص کی کوئی راہ نہ ملے گی اور وہ بُت جنہیں تم پوجتے ہو تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے۔
۳ وہ واحد لاشریک لہٗ ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔
۴ اور انہیں نبوّت و رسالت کے ساتھ برگزیدہ کرتا ہے۔
۵ اور میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو نہ پوجو کیونکہ میں وہ ہوں کہ۔
۶ جن میں اس کی توحید کے بے شمار دلائل ہیں۔
۷ یعنی مَنی سے جس میں نہ حِس ہے نہ حرکت پھر اس کو اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان بنایا، قوت و طاقت عطا کی۔ شانِ نُزول : یہ آیت اُبی بن خلف کے حق میں نازِل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کسی مردے کی گلی ہوئی ہڈی اٹھا لایا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہنے لگا کہ آپ کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو زندگی دے گا ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور نہایت نفیس جواب دیا گیا کہ ہڈی تو کچھ نہ کچھ عضوی شکل رکھتی بھی ہے اللہ تعالیٰ تو مَنی کے ایک چھوٹے سے بے حِس و حرکت قطرے سے تجھ جیسا جھگڑالو انسان پیدا کر دیتا ہے، یہ دیکھ کر بھی تو اس کی قدرت پر ایمان نہیں لاتا۔
۸ کہ ان کی نسل سے دولت بڑھاتے ہو، ان کے دودھ پیتے ہو اور ان پر سواری کرتے ہو۔
۹ کہ اس نے تمہارے نفع اور آرام کے لئے یہ چیزیں پیدا کیں۔
۱۱ اس میں وہ تمام چیزیں آ گئیں جو آدمی کے نفع و راحت و آرام و آسائش کے کام آتی ہیں اور اس وقت تک موجود نہیں ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ کو ان کا آئندہ پیدا کرنا منظور تھا جیسے کہ دخانی جہاز، ریلیں، موٹر، ہوائی جہاز، برقی قوتوں سے کام کرنے والے آلات، دخانی اور برقی مشینیں، خبر رسانی و نشرِ صوت کے سامان اور خدا جانے اس کے علاوہ اس کو کیا کیا پیدا کرنا منظور ہے۔
۱۲ یعنی صراطِ مستقیم اور دینِ اسلام کیونکہ دو مقاموں کے درمیان جتنی راہیں نکالی جائیں ان میں سے جو بیچ کی راہ ہو گی وہی سیدھی ہو گی۔
۱۳ جس پر چلنے والا منزلِ مقصود کو نہیں پہنچ سکتا کُفر کی تمام راہیں ایسی ہی ہیں۔
۱۵ اپنے جانوروں کو اور اللہ تعالیٰ۔
۱۶ مختلف صورت و رنگ، مزے، بو، خاصیت والے کہ سب ایک ہی پانی سے پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک کے اوصاف دوسرے سے جدا ہیں یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں۔
۱۷ اس کی قدرت و حکمت اور وحدانیت کی۔
۱۸ جو ان چیزوں کو غور کر کے سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ فاعلِ مختار ہے اور عُلویات و سفلیات سب اس کے تحتِ قدرت و اختیار۔
۱۹ خواہ حیوانوں کی قسم سے ہو یا درختوں کی یا پھلوں کی۔
۲۰ کہ اس میں کشتیوں پر سوار ہو کر سفر کرو یا غوطے لگا کر اس کی تہ تک پہنچو یا اس سے شکار کرو۔
۲۵ بنائیں جن سے تمہیں رستے کا پتہ چلے۔
۲۶ خشکی اور تری میں اور اس سے انہیں رستے اور قبلہ کی پہچان ہوتی ہے۔
۲۷ ان تمام چیزوں کو اپنی قدرت و حکمت سے یعنی اللہ تعالیٰ۔
۲۸ کسی چیز کو اور عاجز و بے قدرت ہو جیسے کہ بُت تو عاقل کو کب سزاوار ہے کہ ایسے خالِق و مالک کی عبادت چھوڑ کر عاجز و بے اختیار بتوں کی پرستش کرے یا انہیں عبادت میں اس کا شریک ٹھہرائے۔
۲۹ چہ جائیکہ ان کے شکر سے عہدہ برآ ہو سکو۔
۳۰ کہ تمہارے ادائے شکر سے قاصر ہونے کے باوجود اپنی نعمتوں سے تمہیں محروم نہیں فرماتا۔
۳۴ اور اپنے وجود میں بنانے والے کے محتاج اور وہ۔
۳۶ تو ایسے مجبور، بے جان، بے علم معبود کیسے ہو سکتے ہیں، ان دلائلِ قاطعہ سے ثابت ہو گیا کہ۔
۳۷ اللہ عزوجل جو اپنی ذات و صفات میں نظیر و شریک سے پاک ہے۔
۳۹ کہ حق ظاہر ہو جانے کے باوجود اس کا اِتّباع نہیں کرتے۔
۴۰ یعنی لوگ ان سے دریافت کریں کہ۔
۴۱ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تو۔
۴۲ یعنی جھوٹے افسانے کوئی ماننے کی بات نہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کی شان میں نازِل ہوئی اس نے بہت سی کہانیاں یاد کر لی تھیں اس سے جب کوئی قرآنِ کریم کی نسبت دریافت کرتا تو وہ یہ جاننے کے باوجود کہ قرآن شریف کتابِ مُعجِز اور حق و ہدایت سے مملو ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ کہہ دیتا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، ایسی کہانیاں مجھے بھی بہت یاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں کو اس طرح گمراہ کرنے کا انجام یہ ہے۔
۴۳ گناہوں اور گمراہی و گمراہ گری کے۔
۴۴ یعنی پہلی اُمّتوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ۔
۴۵ یہ ایک تمثیل ہے کہ پچھلی اُمّتوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ مکر کرنے کے لئے کچھ منصوبے بنائے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں خود انہیں کے منصوبوں میں ہلاک کیا اور ان کا حال ایسا ہوا جیسے کسی قوم نے کوئی بلند عمارت بنائی پھر وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ ہلاک ہو گئے، اسی طرح کُفّار اپنی مکاریوں سے خود برباد ہوئے۔ مفسِّرین نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں اگلے مکر کرنے والوں سے نمرود بن کنعان مراد ہے جو زمانۂ ابراہیم علیہ السلام میں روئے زمین کا سب سے بڑا بادشاہ تھا، اس نے بابل میں بہت اونچی ایک عمارت بنائی تھی جس کی بلندی پانچ ہزار گز تھی اور اس کا مکر یہ تھا کہ اس نے یہ بلند عمارت اپنے خیال میں آسمان پر پہنچنے اور آسمان والوں سے لڑنے کے لئے بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے ہوا چلائی اور وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ لوگ ہلاک ہو گئے۔
۴۸ یعنی ان اُمّتوں کے انبیاء و عُلَماء جو انہیں دنیا میں ایمان کی دعوت دیتے اور نصیحت کرتے تھے اور یہ لوگ ان کی بات نہ مانتے تھے۔
۵۱ اور وقتِ موت اپنے کُفر سے مُکر جائیں گے اور کہیں گے۔
۵۳ لہذا یہ انکار تمہیں مفید نہیں۔
۵۵ یعنی قرآن شریف جو تمام خوبیوں کا جامع اور حسنات و برکات کا منبع اور دینی و دنیوی اور ظاہری و باطنی کمالات کا سر چشمہ ہے۔ شانِ نُزول : قبائلِ عرب ایّامِ حج میں حضرت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تحقیقِ حال کے لئے مکّۂ مکرّمہ کو قاصد بھیجتے تھے یہ قاصد جب مکّۂ مکرّمہ پہنچتے اور شہر کے کنارے راستوں پر انہیں کُفّار کے کارندے ملتے (جیسا کہ سابق میں ذکر ہو چکا ہے) ان سے یہ قاصد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حال دریافت کرتے تو وہ بہکانے پر مامور ہی ہوتے تھے، ان میں سے کوئی حضرت کو ساحر کہتا، کوئی کاہن، کوئی شاعر، کوئی کذّاب، کوئی مجنون اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ تم ان سے نہ ملنا یہی تمہارے حق میں بہتر ہے، اس پر قاصد کہتے کہ اگر ہم مکّۂ مکرّمہ پہنچ کر بغیر ان سے ملے اپنی قوم کی طرف واپس ہوں تو ہم برے قاصد ہوں گے اور ایسا کرنا قاصد کے منصبی فرائض کا ترک اور قوم کی خیانت ہو گی، ہمیں تحقیق کے لئے بھیجا گیا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اپنے اور بیگانوں سب سے ان کے حال کی تحقیق کریں اور جو کچھ معلوم ہو اس سے بے کم و کاست قوم کو مطّلع کریں۔ اس خیال سے وہ لوگ مکّۂ مکرّمہ میں داخل ہو کر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی ملتے تھے اور ان سے آپ کے حال کی تحقیق کرتے تھے، اصحابِ کرام انہیں تمام حال بتاتے تھے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حالات و کمالات اور قرآنِ کریم کے مضامین سے مطّلع کرتے تھے، ان کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا۔
۵۶ یعنی ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔
۵۷ یعنی حیات طیبہ ہے اور فتح و ظَفر و رزقِ وسیع وغیرہ نعمتیں۔
۵۹ اور یہ بات جنّت کے سوا کسی کو کہیں بھی حاصل نہیں۔
۶۰ کہ وہ شرک و کُفر سے پاک ہوتے ہیں اور ان کے اقوال و افعال اور اخلاق و خصال پاکیزہ ہوتے ہیں، طاعتیں ساتھ ہوتی ہیں، محرمات و ممنوعات کے داغوں سے ان کا دامنِ عمل میلا نہیں ہوتا، قبضِ روح کے وقت ان کو جنّت و رضوان و رحمت و کرامت کی بشارتیں دی جاتی ہیں، اس حالت میں موت انہیں خوشگوار معلوم ہوتی ہے اور جان فرحت و سرور کے ساتھ جسم سے نکلتی ہے اور ملائکہ عزت کے ساتھ اس کو قبض کرتے ہیں۔ (خازن)۔
۶۱ مروی ہے کہ قریبِ موت بندۂ مومن کے پاس فرشتہ آ کر کہتا ہے اے اللہ کے دوست تجھ پر سلام اور اللہ تعالیٰ تجھے سلام فرماتا ہے اور آخرت میں ان سے کہا جائے گا۔
۶۲ کُفّار کیوں ایمان نہیں لاتے کس چیز کے انتظار میں ہیں۔
۶۵ یعنی پہلی اُمّتوں کے کُفّار نے بھی کہ کُفر و تکذیب پر قائم رہے۔
۶۷ اور انہوں نے اپنے اعمالِ خبیثہ کی سزا پائی۔
۶۹ مثل بحیرہ و سائبہ وغیرہ کے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کا شرک کرنا اور ان چیزوں کو حرام قرار دے لینا اللہ کی مشیت و مرضی سے ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
۷۰ کہ رسولوں کی تکذیب کی اور حلال کو حرام کیا اور ایسے ہی تمسخُر کی باتیں کہیں۔
۷۱ حق کا ظاہر کر دینا اور شرک کے باطل و قبیح ہونے پر مطّلع کر دینا۔
۷۲ اور ہر رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم سے فرمائیں۔
۷۵ وہ اپنی ازلی شقاوت سے کُفر پر مرے اور ایمان سے محروم رہے۔
۷۶ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا اور ان کے شہر ویران کئے، اجڑی ہوئی بستیاں ان کے ہلاک کی خبر دیتی ہیں۔ اس کو دیکھ کر سمجھو کہ اگر تم بھی ان کی طرح کُفر و تکذیب پر مُصِر رہے تو تمہارا بھی ایسا ہی انجام ہونا ہے۔
۷۷ اے محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالیکہ یہ لوگ ان میں سے ہیں جن کی گمراہی ثابت ہو چکی اور ان کی شقاوت ازلی ہے۔
۷۸ شانِ نُزول : ایک مشرک ایک مسلمان کا مقروض تھا، مسلمان نے مشرک پر تقاضا کیا دورانِ گفتگو میں اس نے اس طرح اللہ کی قسم کھائی کہ اس کی قسم جس سے میں مرنے کے بعد ملنے کی تمنّا رکھتا ہوں، اس پر مشرک نے کہا کہ کیا تیرا یہ خیال ہے کہ تو مرنے کے بعد اٹھے گا اور مشرک نے قسم کھا کر کہا کہ اللہ مردے نہ اٹھائے گا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور فرمایا گیا۔
۸۰ اس اٹھانے کی حکمت اور اس کی قدرت بے شک وہ مُردوں کو اٹھائے گا۔
۸۱ یعنی مُردوں کو اٹھانے میں کہ وہ حق ہے۔
۸۲ اور مُردوں کے زندہ کئے جانے کا انکار غلط۔
۸۳ تو ہمیں مُردوں کا زندہ کر دینا کیا دشوار۔
۸۴ اس کے دین کی خاطر ہجرت کی۔ شانِ نُزول : قتادہ نے کہا کہ یہ آیت اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں نازِل ہوئی، جن پر اہلِ مکّہ نے بہت ظلم کئے اور انہیں دین کی خاطر وطن چھوڑنا ہی پڑا، بعض ان میں سے حبشہ چلے گئے پھر وہاں سے مدینۂ طیبہ آئے اور بعض مدینہ شریف ہی کو ہجرت کر گئے۔ انہوں نے۔
۸۵ وہ مدینۂ طیّبہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دار الہجرت بنایا۔
۸۶ یعنی کُفّار یا وہ لوگ جو ہجرت کرنے سے رہ گئے کہ اس کا اجر کتنا عظیم ہے۔
۸۷ وطن کی مفارقت اور کُفّار کی ایذا اور جان و مال کے خرچ کرنے پر۔
۸۸ اور اس کے دین کی وجہ سے جو پیش آئے اس پر راضی ہیں اور خَلق سے انقطاع کر کے بالکل حق کی طرف متوجہ ہیں اور سالک کے لئے یہ انتہائے سلوک کا مقام ہے۔
۸۹ شانِ نُزول : یہ آیت مشرکینِ مکّہ کے جواب میں نازِل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کا اس طرح انکار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے برتر ہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے۔ انہیں بتایا گیا کہ سنّتِ الٰہی اسی طرح جاری ہے ہمیشہ اس نے انسانوں میں سے مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا۔
۹۰ حدیث شریف میں ہے بیماریِ جہل کی شفاء عُلَماء سے دریافت کرنا ہے لہذا عُلَماء سے دریافت کرو وہ تمہیں بتا دیں گے کہ سنّتِ الٰہیہ یونہی جاری رہی کہ اس نے مَردوں کو رسول بنا کر بھیجا۔
۹۱ مفسِّرین کا ایک قول یہ ہے کہ معنی یہ ہیں کہ روشن دلیلوں اور کتابوں کے جاننے والوں سے پوچھو اگر تم کو دلیل و کتاب کا علم نہ ہو۔
مسئلہ : اس آیت سے تقلیدِ ائمہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔
۹۴ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ اور ان کی ایذا کے درپے رہتے ہیں اور چھُپ چھُپ کر فساد انگیزی کی تدبیریں کیا کرتے ہیں جیسے کہ کُفّارِ مکّہ۔
۹۵ جیسے قارون کو دھنسا دیا تھا۔
۹۶ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بدر میں ہلاک کئے گئے باوجود یکہ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے۔
۹۷ سفر و حضر میں ہر ایک حال میں۔
۹۹ کہ حلم کرتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا۔
۱۰۲ خوار و عاجز و مطیع و مُسخّر۔
۱۰۳ سجدہ دو طرح پر ہے، ایک سجدۂ طاعت و عبادت جیسا کہ مسلمانوں کا سجدہ اللہ کے لئے، دوسرا سجدہ انقیاد و خضوع جیسا کہ سایہ وغیرہ کا سجدہ۔ ہر چیز کا سجدہ اس کے حسبِ حیثیت ہے مسلمانوں اور فرشتوں کا سجدہ سجدۂ طاعت و عبادت ہے اور ان کے ماسوا کا سجدہ سجدۂ انقیاد و خضوع۔
۱۰۴ اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے مکلَّف ہیں اور جب ثابت کر دیا گیا کہ تمام آسمان و زمین کی کائنات اللہ کے حضور خاضع و متواضع اور عابد و مطیع ہے اور سب اس کے مملوک اور اسی کے تحتِ قدرت و تصرُّف ہیں تو شرک سے ممانعت فرمائی۔
۱۰۵ کیونکہ دو تو خدا ہو ہی نہیں سکتے۔
۱۰۶ میں ہی وہ معبودِ برحق ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
۱۰۷ باوجود یکہ معبودِ برحق صرف وہی ہے۔
۱۰۸ خواہ فقر کی یا مرض کی یا اور کوئی۔
۱۰۹ اسی سے دعا مانگتے ہو، اسی سے فریاد کرتے ہو۔
۱۱۰ اور ان لوگوں کا انجام یہ ہوتا ہے۔
۱۱۱ اور چند روز اس حالت میں زندگی گزار لو۔
۱۱۳ یعنی بُتوں کے لئے جن کا اِلٰہ اور مستحق اور نافع و ضار ہونا انہیں معلوم نہیں۔
۱۱۴ یعنی کھیتیوں اور چوپایوں وغیرہ میں سے۔
۱۱۵ بُتوں کو معبود اور اہلِ تقرب اوربُت پرستی کو خدا کا حکم بتا کر۔
۱۱۶ جیسے کہ خزاعہ و کنانہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ (معاذ اللہ)۔
۱۱۷ وہ برتر ہے اولاد سے اور اس کی شان میں ایسا کہنا نہایت بے ادبی و کُفر ہے۔
۱۱۸ یعنی کُفر کے ساتھ۔ یہ کمال بد تمیزی بھی ہے کہ اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہیں بیٹیاں ناپسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے جو مطلقاً اولاد سے منزّہ اور پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ہی کا ثابت کرنا عیب لگانا ہے، اس کے لئے اولاد میں بھی وہ ثابت کرتے ہیں جس کو اپنے لئے حقیر اور سببِ عار جانتے ہیں۔
۱۲۱ جیسا کہ کُفّارِ مُضَر و خزاعہ و تمیم لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔
۱۲۲ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ثابت کرتے ہیں جو اپنے لئے انہیں اس قدر ناگوار ہیں۔
۱۲۳ کہ وہ والد و ولد سب سے پاک اور منزّہ، کوئی اس کا شریک نہیں، تمام صفاتِ جلال و کمال سے متّصف۔
۱۲۴ یعنی معاصی پر پکڑتا اور عذاب میں جلدی فرماتا۔
۱۲۵ سب کو ہلاک کر دیتا۔ زمین پر چلنے والے سے یا کافر مراد ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہے اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اﷲِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْایا یہ معنی ہیں کہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو باقی نہیں چھوڑتا جیسا کہ نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جو کوئی زمین پر تھا ان سب کو ہلاک کر دیا صرف وہی باقی رہے جو زمین پر نہ تھے حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ کشتی میں تھے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ معنی یہ ہیں کہ ظالموں کو ہلاک کر دیتا اور ان کی نسلیں منقطع ہو جاتیں پھر زمین میں کوئی باقی نہ رہتا۔
۱۲۶ اپنے فضل و کرم اور حلم سے ٹھہرائے وعدے سے یا اختتامِ عمر مراد ہے یا قیامت۔
۱۲۸ یعنی جنّت۔ کُفّار باوجود اپنے کُفر و بہتان کے اور خدا کے لئے بیٹیاں بتانے کے بھی اپنے آپ کو حق پر گمان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سچے ہوں اور خَلقت مرنے کے بعد پھر اٹھائی جائے تو جنّت ہمیں کو ملے گی کیونکہ ہم حق پر ہیں۔ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۲۹ جہنّم ہی میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔
۱۳۰ اور انہوں نے اپنی بدیوں کو نیکیاں سمجھا۔
۱۳۱ دنیا میں اسی کے کہے پر چلتے ہیں اور جو شیطان کو اپنا رفیق اور مختار کار بنائے وہ ضرور ذلیل و خوار ہو یا یہ معنی ہیں کہ روزِ آخرت شیطان کے سوا انہیں کوئی رفیق نہ ملے گا اور شیطان خود ہی گرفتارِ عذاب ہو گا، ان کی کیا مدد کر سکے گا۔
۱۳۵ روئیدگی سے سرسبزی و شادابی بخش کر۔
۱۳۶ یعنی خشک اور بے سبزہ و بے گیاہ ہونے کے بعد۔
۱۳۷ اور سن کر سمجھتے اور غور کرتے ہیں، وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں جو قادرِ برحق زمین کو اس کی موت یعنی قوتِ نامیہ فنا ہو جانے کے بعد پھر زندگی دیتا ہے، وہ انسان کو اس کے مرنے کے بعد بے شک زندہ کرنے پر قادر ہے۔
۱۳۸ اگر تم اس میں غور کرو تو بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہو اور حکمتِ الٰہیہ کے عجائب پر تمہیں آگاہی حاصل ہو سکتی ہے۔
۱۳۹ جس میں کوئی شائبہ کسی چیز کی آمیزش کا نہیں باوجود یکہ حیوان کے جسم میں غذا کا ایک ہی مقام ہے جہاں چارا، گھاس، بھوسہ وغیرہ پہنچتا ہے اور دودھ، خون، گوبر سب اسی غذا سے پیدا ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دوسرے سے ملنے نہیں پاتا، دودھ میں نہ خون کی رنگت کا شائبہ ہوتا ہے نہ گوبر کی بو کا، نہایت صاف لطیف برآمد ہوتا ہے۔ اس سے حکمتِ الٰہیہ کی عجیب کاری ظاہر ہے اوپر مسئلۂ بعث کا بیان ہو چکا ہے یعنی مُردوں کو زندہ کئے جانے کا، کُفّار اس کے منکِر تھے اور انہیں اس میں دو شبہے درپیش تھے ایک تو یہ کہ جو چیز فاسد ہو گئی اور اس کی حیات جاتی رہی اس میں دوبارہ پھر زندگی کس طرح لوٹے گی، اس شبہ کا ازالہ تو اس سے پہلی آیت میں فرما دیا گیا کہ تم دیکھتے رہتے ہو کہ ہم مردہ زمین کو خشک ہونے کے بعد آسمان سے پانی برسا کر حیات عطا فرما دیا کرتے ہیں تو قدرت کا یہ فیض دیکھنے کے بعد کسی مخلوق کا مرنے کے بعد زندہ ہونا ایسے قادرِ مطلق کی قدرت سے بعید نہیں، دوسرا شبہ کُفّار کا یہ تھا کہ جب آدمی مرگیا اور اس کے جسم کے اجزا منتشر ہو گئے اور خاک میں مِل گئے وہ اجزاء کس طرح جمع کئے جائیں گے اور خاک کے ذروں سے ان کو کس طرح ممتاز کیا جائے گا، اس آیتِ کریمہ میں جو صاف دودھ کا بیان فرمایا اس میں غور کرنے سے وہ شبہ بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے کہ قدرتِ الٰہی کی یہ شان تو روزانہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ غذا کے مخلوط اجزاء میں سے خالص دودھ نکالتا ہے اور اس کی قرب و جوار کی چیزوں کی آمیزش کا شائبہ بھی اس میں نہیں آتا، اس حکیمِ برحق کی قدرت سے کیا بعید کہ انسانی جسم کے اجزاء کو منتشر ہونے کے بعد پھر مجتمع فرما دے۔ شقیق بلخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نعمت کا اتمام یہی ہے کہ دودھ صاف خالص آئے اور اس میں خون اور گوبر کے رنگ و بُو کا نام و نشان نہ ہو ورنہ نعمت تام نہ ہو گی اور طبعِ سلیم اس کو قبول نہ کرے گی جیسی صاف نعمت پروردگار کی طرف سے پہنچتی ہے۔ بندے کو لازم ہے کہ وہ بھی پروردگار کے ساتھ اخلاص سے معاملہ کرے اور اس کے عمل ریا اور ہوائے نفس کی آمیزشوں سے پاک و صاف ہوں تاکہ شرف قبول سے مشرف ہوں۔
۱۴۱ یعنی سرکہ اور رُب اور خرمہ اور مویز۔ مسئلہ : مویز اور انگور وغیرہ کا رس جب اس قدر پکا لیا جائے کہ دو تہائی جل جائے اور ایک تہائی باقی رہے اور تیز ہو جائے اس کو نبیذ کہتے ہیں یہ حدِ سُکر تک نہ پہنچے اور نشہ نہ لائے تو شیخین کے نزدیک حلال ہے اور یہی آیت اور بہت سی احادیث ان کی دلیل ہے۔
۱۴۳ فضلِ الٰہی سے جس کا تجھے الہام کیا گیا ہے حتی کہ تجھے چلنا پھرنا دشوار نہیں اور تو کتنی ہی دور نکل جائے راہ نہیں بہکتی اور اپنے مقام پر واپس آ جاتی ہے۔
۱۴۶ اور نافع ترین دواؤں میں سے ہے اور بکثرت معالجین میں شامل کیا جاتا ہے۔
۱۴۷ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت پر۔
۱۴۸ کہ اس نے ایک کمزور ناتوان مکھی کو ایسی زیرکی و دانائی عطا فرمائی اور ایسی دقیق صنعتیں مرحمت کیں۔ پاک ہے وہ اور اپنی ذات و صفات میں شریک سے منزّہ۔ اس سے فکر کرنے والوں کو اس پر بھی تنبیہ ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک ادنیٰ ضعیف سی مکھی کو یہ صفت عطا فرماتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں سے ایسے لطیف اجزاء حاصل کرے جن سے نفیس شہد بنے، جو نہایت خوشگوار ہو، طاہر و پاکیزہ ہو، فاسد ہونے اور سڑنے کی اس میں قابلیت نہ ہو تو جو قادر حکیم ایک مکھی کو اس مادے کے جمع کرنے کی قدرت دیتا ہے وہ اگر مرے ہوئے انسان کے منتشر اجزاء کو جمع کر دے تو اس کی قدرت سے کیا بعید ہے، مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو محال سمجھنے والے کس قدر احمق ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی قدرت کے وہ آثار ظاہر فرماتا ہے جو خود ان میں اور ان کے احوال میں نمایاں ہیں۔
۱۴۹ عدم سے اور نیستی کے بعد ہستی عطا فرمائی کیسی عجیب قدرت ہے۔
۱۵۰ اور تمہیں زندگی کے بعد موت دے گا جب تمہاری اجل پوری ہو جو اس نے مقرر فرمائی ہے خواہ بچپن میں یا جوانی میں یا بڑھاپے میں۔
۱۵۱ جس کا زمانہ عمرِ انسانی کے مراتب میں ساٹھ سال کے بعد آتا ہے کہ قُویٰ اور حواس سب ناکارہ ہو جاتے ہیں اور انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔
۱۵۲ اور نادانی میں بچوں سے زیادہ بدتر ہو جائے۔ ان تغیُّرات میں قدرتِ الٰہی کے کیسے عجائب مشاہدے میں آتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان بفضلِ الٰہی اس سے محفوظ ہیں، طولِ عمر و بقا سے انہیں اللہ کے حضور میں کرامت اور عقل و معرفت کی زیادتی حاصل ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ توجہ الی اللہ کا ایسا غلبہ ہو کہ اس عالَم سے انقطاع ہو جائے، بندۂ مقبول دنیا کی طرف التفات سے مجتنب ہو۔ عِکرمہ کا قول ہے کہ جس نے قرآنِ پاک پڑھا وہ اس ارذل عمر کی حالت کو نہ پہنچے گا کہ علم کے بعد مَحض بے علم ہو جائے۔
۱۵۳ تو کسی کو غنی کیا، کسی کو فقیر، کسی کو مالدار، کسی کو نادار، کسی کو مالک، کسی کو مملوک۔
۱۵۴ اور باندی غلام آقاؤں کے شریک ہو جائیں، جب تم اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو اللہ کے بندوں اور اس کے مملوکوں کو اس کا شریک ٹھہرانا کس طرح گوارا کرتے ہو، سبحان اللہ یہ بُت پرستی کا کیسا نفیس دل نشین اور خاطر گُزیں رد ہے۔
۱۵۵ کہ اس کو چھوڑ کر مخلوق کو پوجتے ہیں۔
۱۵۶ قسم قسم کے غلوں، پھلوں، میووں، کھانے پینے کی چیزوں سے۔
۱۵۸ اللہ کے فضل و نعمت سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی یا اسلام مراد ہے۔ ( مدارک)۔
۱۶۲ جیسے چاہتا ہے تصرّف کرتا ہے تو وہ عاجز مملوک غلام اور یہ آزاد، مالک صاحبِ مال جو بفضلِ الٰہی قدرت و اختیار رکھتا ہے۔
۱۶۳ ہر گز نہیں تو جب غلام و آزاد برابر نہیں ہو سکتے باوجود یکہ دونوں اللہ کے بندے ہیں تو اللہ خالِق مالک قادر کے ساتھ بے قدرت و اختیار بُت کیسے شریک ہو سکتے ہیں اور ان کو اس کے مثل قرار دینا کیسا بڑا ظلم و جہل ہے۔
۱۶۴ کہ ایسے براہینِ بیّنہ اور حجّتِ واضحہ کے ہوتے ہوئے شرک کرنا کتنے بڑے وبال و عذاب کا سبب ہے۔
۱۶۵ نہ اپنی کسی سے کہہ سکے نہ دوسرے کی سمجھ سکے۔
۱۶۶ اور کسی کام نہ آئے۔ یہ مثال کافِر کی ہے۔
۱۶۷ یہ مثال مومن کی ہے۔ معنی یہ ہیں کہ کافِر ناکارہ گونگے غلام کی طرح ہے وہ کسی طرح مسلمان کی مثل نہیں ہو سکتا جو عدل کا حکم کرتا ہے اور صراطِ مستقیم پر قائم ہے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ گونگے ناکارہ غلام سے بُتوں کو تمثیل دی گئی اور انصاف کا حکم دینا شانِ الٰہی کا بیان ہوا، اس صورت میں معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بُتوں کو شریک کرنا باطل ہے کیونکہ انصاف قائم کرنے والے بادشاہ کے ساتھ گونگے اور ناکارہ غلام کو کیا نسبت۔
۱۶۸ اس میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا بیان ہے کہ وہ جمیع غیوب کا جاننے والا ہے اس پر کوئی چھپنے والی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اس سے مراد علمِ قیامت ہے۔
۱۶۹ کیونکہ پلک مارنا بھی زمانہ چاہتا ہے جس میں پلک کی حرکت حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ جس چیز کا ہونا چاہے وہ کُنْ فرماتے ہی ہو جاتی ہے۔
۱۷۰ اور اپنی پیدائش کی ابتداء اور اول فطرت میں علم و معرفت سے خالی تھے۔
۱۷۱ کہ ان سے اپنا پیدائشی جہل دور کرو۔
۱۷۲ اور علم و عمل سے فیض یاب ہو کر مُنعِم کا شکر بجا لاؤ اور اس کی عبادت میں مشغول ہو اور اس کے حقوقِ نعمت ادا کرو۔
۱۷۳ گرنے سے، باوجود یکہ جسم ثقیل بالطبع گرنا چاہتا ہے۔
۱۷۴ کہ اس نے انہیں ایسا پیدا کیا کہ وہ ہوا میں پرواز کر سکتے ہیں اور اپنے جسمِ ثقیل کی طبیعت کے خلاف ہوا میں ٹھہرے رہتے ہیں، گرتے نہیں اور ہوا کو ایسا پیدا کیا کہ اس میں ان کی پرواز ممکن ہے۔ ایماندار اس میں غور کر کے قدرتِ الٰہی کا اعتراف کرتے ہیں۔
مسئلہ : یہ آیت اللہ کی نعمتوں کے بیان میں ہے مگر اس سے اشارۃً اُون اور پشمینے اور بالوں کی طہارت اور ان سے نفع اٹھانے کی حِلّت ثابت ہوتی ہے۔
۱۷۸ مکانوں، دیواروں، چھتوں، درختوں اور ابر وغیرہ۔
۱۸۰ غار وغیرہ کہ امیر و غریب سب آرام کر سکیں۔
۱۸۲ کہ تیر تلوار نیزے وغیرہ سے بچاؤ کا سامان ہو۔
۱۸۳ دنیا میں تمہارے حوائج و ضروریات کا سامان پیدا فرما کر۔
۱۸۴ اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کر کے اسلام لاؤ اور دینِ برحق قبول کرو۔
۱۸۵ اور اے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے اعراض کریں اور اپنے کُفر پر جمے رہیں۔
۱۸۶ اور جب آپ نے پیامِ الٰہی پہنچا دیا تو آپ کا کام پورا ہو چکا اور نہ ماننے کا وبال ان کی گردن پر رہا۔
۱۸۷ یعنی جو نعمتیں کہ ذکر کی گئیں ان سب کو پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں پھر بھی اس کا شکر بجا نہیں لاتے۔ سدی کا قول ہے کہ اللہ کی نعمت سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مراد ہیں، اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہیں کہ وہ حضور کو پہچانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور باوجود اس کے۔
۱۸۸ اور دینِ اسلام قبول نہیں کرتے۔
۱۸۹ معانِد کو حسد و عناد سے کُفر پر قائم رہتے ہیں۔
۱۹۱ جو ان کی تصدیق و تکذیب اور ایمان و کُفر کی گواہی دے اور یہ گواہ انبیاء ہیں علیہم السلام۔
۱۹۲ معذرت کی یا کسی کلام کی یا دنیا کی طرف لوٹنے کی۔
۱۹۳ یعنی نہ ان سے عتاب و ملامت دور کی جائے۔
۱۹۵ بُتوں وغیرہ کو جنہیں پوجتے تھے۔
۱۹۶ جو ہمیں معبود بتاتے ہو ہم نے تمہیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی۔
۱۹۸ اور اس کے فرمانبردار ہونا چاہیں گے۔
۱۹۹ دنیا میں بُتوں کو خدا کا شریک بتا کر۔
۲۰۰ ان کے کُفر کا عذاب اور دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے اور گمراہ کرنے کا عذاب۔
۲۰۱ یہ گواہ انبیاء ہوں گے جو اپنی اپنی اُمّتوں پر گواہی دیں گے۔
۲۰۲ اُمّتوں اور ان کے شاہدوں پر جو انبیاء ہوں گے جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہوا فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُلَۤا ئے شَھِیْداً۔ (ابو السعود وغیرہ)۔
۲۰۳ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْئٍ اور ترمذی کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیش آنے والے فتنوں کی خبر دی، صحابہ نے ان سے خلاص کا طریقہ دریافت کیا، فرمایا کتاب اللہ میں تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے، تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے مابین کا علم بھی۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرمایا جو علم چاہے وہ قرآن کو لازم کر لے، اس میں اولین و آخرین کی خبریں ہیں۔ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اُمّت کے سارے علوم حدیث کی شرح ہیں اور حدیث قرآن کی اور یہ بھی فرمایا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کوئی حکم بھی فرمایا وہ وہی تھا جو آپ کو قرآنِ پاک سے مفہوم ہوا۔ ابوبکر بن مجاہد سے منقول ہے انہوں نے ایک روز فرمایا کہ عالَم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کتاب اللہ یعنی قرآن شریف میں مذکور نہ ہو اس پر کسی نے ان سے کہا سراؤں کا ذکر کہاں ہے ؟ فرمایا اس آیت لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَۃٍ فِیْھَا مَتَاعٌ لَّکُمْ الخ ابنِ ابو الفضل مرسی نے کہا کہ اولین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں ہیں۔ غرض یہ کتاب جامع ہے جمیع علوم کی جس کسی کو اس کا جتنا علم ملا ہے اتنا ہی جانتا ہے۔
۲۰۴ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ انصاف تو یہ ہے کہ آدمی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دے اور نیکی اور فرائض کا ادا کرنا اور آپ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ انصاف شرک کا ترک کرنا اور نیکی اللہ کی اس طرح عبادت کرنا گویا وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو، اگر وہ مومن ہو تو اس کے برکاتِ ایمان کی ترقی تمہیں پسند ہو اور اگر کافِر ہو تو تمہیں یہ پسند آئے کہ وہ تمہارا اسلامی بھائی ہو جائے۔ انہیں سے ایک اور روایت ہے اس میں ہے کہ انصاف توحید ہے اور نیکی اخلاص اور ان تمام روایتوں کا طرزِ بیان اگرچہ جُدا جُدا ہے لیکن مآل و مدعا ایک ہی ہے۔
۲۰۵ اور ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا۔
۲۰۶ یعنی ہر شرمناک مذموم قول و فعل۔
۲۰۷ یعنی شرک و کُفر و معاصی تمام ممنوعاتِ شرعیہ۔
۲۰۸ یعنی ظلم و تکبر سے۔ ابنِ عینیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ عدل ظاہر و باطن دونوں میں برابر حق و طاعت بجا لانے کو کہتے ہیں اور احسان یہ ہے کہ باطن کا حال ظاہر سے بہتر ہو اور فَحشاء و منکَر و بغی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن ایسا نہ ہو۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیا اور تین سے منع فرمایا عدل کا حکم دیا اور وہ انصاف و مساوات ہے، اقوال و افعال میں اس کے مقابل فَحشا یعنی بے حیائی ہے، وہ قبیح اقوال و افعال ہیں اور احسان کا حکم فرمایا وہ یہ ہے کہ جس نے ظلم کیا اس کو معاف کرو اور جس نے برائی کی اس کے ساتھ بھلائی کرو، اس کے مقابل منکَر ہے یعنی محسن کے احسان کا انکار کرنا اور تیسرا حکم اس آیت میں رشتہ داروں کو دینے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی اور شفقت و مَحبت کا فرمایا، اس کے مقابل بغی ہے اور وہ اپنے آپ کو اونچا کھینچنا اور اپنے علاقہ داروں کے حقوق تلف کرنا ہے۔ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے، یہی آیت حضرت عثمان بن مظعون کے اسلام کا سبب ہوئی جو فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نُزول سے ایمان میرے دل میں جگہ پکڑ گیا، اس آیت کا اثر اتنا زبردست ہوا کہ ولید بن مغیرہ اور ابو جہل جیسے سخت دل کُفّار کی زبانوں پر بھی اس کی تعریف آ ہی گئی۔ اس لئے یہ آیت ہر خطبہ کے آخر میں پڑھی جاتی ہے۔
۲۰۹ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں اپنے عہد کے وفا کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ حکم انسان کے ہر عہدِ نیک اور وعدہ کو شامل ہے۔
۲۱۲ مکّۂ مکرّمہ میں ریطہ بنت عمرو ایک عورت تھی جس کی طبیعت میں بہت وہم تھا اور عقل میں فتور، وہ دوپہر تک محنت کر کے سُوت کاتا کرتی اور اپنی باندیوں سے بھی کتواتی اور دوپہر کے وقت اس کاتے ہوئے کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالتی اور باندیوں سے بھی تڑواتی، یہی اس کا معمول تھا۔ معنی یہ ہیں کہ اپنے عہد کو توڑ کر اس عورت کی طرح بے وقوف نہ بنو۔
۲۱۳ مجاہد کا قول ہے کہ لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم سے حلف کرتے اور جب دوسری قوم اس سے زیادہ تعداد یا مال یا قوت میں پاتے تو پہلوں سے جو حلف کئے تھے توڑ دیتے اور اب دوسرے سے حلف کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو منع فرمایا اور عہد کے وفا کرنے کا حکم دیا۔
۲۱۴ کہ مطیع اور عاصی ظاہر ہو جائے۔
۲۲۵ اس طرح کہ دنیائے نا پائیدار کے قلیل نفع پر اس کو توڑ دو۔
۲۲۷ سامانِ دنیا یہ سب فنا ہو جائے گا اور ختم۔
۲۲۸ اس کا خزانۂ رحمت و ثوابِ آخرت۔
۲۲۹ یعنی ان کی ادنیٰ سی ادنیٰ نیکی پر بھی وہ اجر و ثواب دیا جائے گا جو وہ اپنی اعلیٰ نیکی پر پاتے۔ (ابوالسعود)۔
۲۳۰ یہ ضرور شرط ہے کیونکہ کُفّار کے اعمال بیکار ہیں۔ عملِ صالح کے موجبِ ثواب ہونے کے لئے ایمان شرط ہے۔
۲۳۱ دنیا میں رزقِ حلال اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں جنّت کی نعمتیں دے کر۔ بعض عُلَماء نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے لذّتِ عبادت مراد ہے۔
حکمت : مومن اگرچہ فقیر بھی ہو اس کی زندگانی دولتمند کافِر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مومن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللہ کی طرف سے ہے جو اس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مومن کا دل حرص کی پریشانیوں سے محفوظ اور آرام میں رہتا ہے اور کافِر جو اللہ پر نظر نہیں رکھتا وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج و تعب اور تحصیلِ مال کی فکر میں پریشان رہتا ہے۔
۲۳۲ یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو یہ مستحب ہے۔ اعوذ الخ کے مسائل سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں مذکور ہو چکے۔
۲۳۳ وہ شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے۔
۲۳۴ اور اپنی حکمت سے ایک حکم کو منسوخ کر کے دوسرا حکم دیں۔ شانِ نُزول : مشرکینِ مکّہ اپنی جہالت سے نسخ پر اعتراض کرتے تھے اور اس کی حکمتوں سے نا واقف ہونے کے باعث اس کو تمسخُر بناتے تھے اور کہتے تھے کہ محمّد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک روز ایک حکم دیتے ہیں دوسرے روز اور دوسرا ہی حکم دیتے ہیں، وہ اپنے دل سے باتیں بناتے ہیں، اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔
۲۳۵ کہ اس میں کیا حکمت اور اس کے بندوں کے لئے اس میں کیا مصلحت ہے۔
۲۳۶ اللہ تعالیٰ نے اس پر کُفّار کی تجہیل فرمائی اور ارشاد کیا۔
۲۳۷ اور وہ نسخ و تبدیل کی حکمت و فوائد سے خبردار نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآنِ کریم کی طرف افتراء کی نسبت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ جس کلام کے مثل بنانا قدرتِ بشری سے باہر ہے وہ کسی انسان کا بنایا ہوا کیسے ہو سکتا ہے لہذا سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خِطاب ہوا۔
۲۳۸ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام۔
۲۳۹ قرآنِ کریم کی حلاوت اور اس کے علوم کی نورانیت جب قلوب کی تسخیر کرنے لگی اور کُفّار نے دیکھا کہ دنیا اس کی گرویدہ ہوتی چلی جاتی ہے اور کوئی تدبیر اسلام کی مخالفت میں کامیاب نہیں ہوتی تو انہوں نے طرح طرح کے افتراء اٹھانے شروع کئے، کبھی اس کو سحر بتایا، کبھی پہلوں کے قصّے اور کہانیاں کہا، کبھی یہ کہا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ خود بنا لیا ہے اور ہر طرح کوشش کی کہ کسی طرح لوگ اس کتابِ مقدس کی طرف سے بدگمان ہوں، انہیں مکاریوں میں سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایک عجمی غلام کی نسبت یہ کہا کہ وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سکھاتا ہے۔ اس کے رد میں یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی باطل باتیں دنیا میں کون قبول کر سکتا ہے جس غلام کی طرف کُفّار نسبت کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے، ایسا کلام بنانا اس کے تو کیا امکان میں ہوتا تمہارے فُصَحاء و بُلَغاء جن کی زبان دانی پر اہلِ عرب کو فخر و ناز ہے وہ سب کے سب حیران ہیں اور چند جملے قرآن کی مثل بنانا انہیں محال اور ان کی قدرت سے باہر ہے تو ایک عجمی کی طرف ایسی نسبت کس قدر باطل اور بے شرمی کا فعل ہے۔ خدا کی شان جس غلام کی طرف کُفّار یہ نسبت کرتے تھے اس کو بھی اس کلام کے اعجاز نے تسخیر کیا اور وہ بھی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حلقہ بگوشِ طاعت ہوا اور صدق و اخلاص کے ساتھ اسلام لایا۔
۲۴۰ اور اس کی تصدیق نہیں کرتے۔
۲۴۱ بسبب انکارِ قرآن و تکذیبِ رسول علیہ السلام کے۔
۲۴۲ یعنی جھوٹ بولنا اور افتراء کرنا بے ایمانوں ہی کا کام ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بد ترین گناہ ہے۔
۲۴۴ وہ مغضوب نہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت عمار بن یاسر کے حق میں نازِل ہوئی انہیں اور ان کے والد یاسر اور ان کی والدہ سمیہ اور صہیب اوربلال اور خبّاب اور سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو پکڑ کر کُفّار نے سخت سخت ایذائیں دیں تاکہ وہ اسلام سے پھِر جائیں لیکن یہ حضرات نہ پھرے تو کُفّار نے حضرت عمار کے والدین کو بہت بے رحمیوں سے قتل کیا اور عمار ضعیف تھے، بھاگ نہیں سکتے تھے، انہوں نے مجبور ہو کر جب دیکھا کہ جان پر بن گئی تو بادل نخواستہ کلمۂ کُفر کا تلفُّظ کر دیا، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی کہ عمار کافِر ہو گئے، فرمایا ہر گز نہیں عمار سر سے پاؤں تک ایمان سے پر ہیں اور اس کے گوشت اور خون میں ذوقِ ایمانی سرایت کر گیا ہے پھر حضرت عمار روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، حضور نے فرمایا کیا ہوا ؟ عمار نے عرض کیا اے خدا کے رسول بہت ہی برا ہوا اور بہت ہی برے کلمے میری زبان پر جاری ہوئے، ارشاد فرمایا اس وقت تیرے دل کا کیا حال تھا ؟ عرض کیا دل ایمان پر خوب جما ہوا تھا، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شفقت و رحمت فرمائی اور فرمایا کہ اگر پھر ایسا اتفاق ہو تو یہی کرنا چاہیئے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔ ( خازن)
مسئلہ : آیت سے معلوم ہوا کہ حالاتِ اکراہ میں اگر دل ایمان پر جما ہوا ہو تو کلمۂ کُفر کا اجرا جائز ہے جب کہ آدمی کو اپنے جان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا خوف ہو۔
مسئلہ : اگر اس حالت میں بھی صبر کرے اور قتل کر ڈالا جائے تو وہ ماجور اور شہید ہو گا جیسا کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کیا اور وہ سولی پر چڑھا کر شہید کر ڈالے گئے، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سید الشُہداء فرمایا۔
مسئلہ : جس شخص کو مجبور کیا جائے اگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا نہ ہو وہ کلمۂ کُفر زبان پر لانے سے کافِر ہو جائے گا۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص بغیر مجبوری کے تمسخُر یا جہل سے کلمۂ کُفر زبان پر جاری کرے کافِر ہو جائے گا۔ (تفسیری احمدی)۔
۲۴۵ رضا مندی اور اعتقاد کے ساتھ۔
۲۴۶ اور جب یہ دنیا ارتداد پر اقدام کرنے کا سبب ہے۔
۲۴۷ نہ وہ تدبُّر کرتے ہیں نہ مواعظ و نصائح پر کان رکھتے ہیں، نہ طریقِ رشد و صواب کو دیکھتے ہیں۔
۲۴۸ کہ اپنی عاقبت و انجامِ کار کو نہیں سوچتے۔
۲۴۹ کہ ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔
۲۵۰ اور مکّۂ مکرّمہ سے مدینۂ طیّبہ کو ہجرت کی۔
۲۵۱ کُفّار نے ان پر سختیاں کیں اور انہیں کُفر پر مجبور کیا۔
۲۵۴ وہ روزِ قیامت ہے جب ہر ایک نَفسِی نَفسِی کہتا ہو گا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔
۲۵۶ ایسے لوگوں کے لئے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا اور وہ اس نعمت پر مغرور ہو کر ناشکری کرنے لگے کافِر ہو گئے۔ یہ سبب اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ہوا، ان کی مثال ایسی سمجھو جیسے کہ۔
۲۵۸ نہ اس پر غنیم چڑھتا نہ وہاں کے لوگ قتل و قید کی مصیبت میں گرفتار کئے جاتے۔
۲۵۹ اور اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب کی۔
۲۶۰ کہ سات برس نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بددعا سے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں گرفتار رہے یہاں تک کہ مردار کھاتے تھے پھر امن و اطمینان کے بجائے خوف و ہراس ان پر مسلّط ہوا اور ہر وقت مسلمانوں کے حملے اور لشکر کشی کا اندیشہ رہنے لگا۔
۲۶۱ یعنی سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
۲۶۳ جو اس نے سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دستِ مبارک سے عطا فرمائی۔
۲۶۴ بجائے ان حرام اور خبیث اموال کے جو کھایا کرتے تھے لوٹ غصب اور خبیث مکاسب سے حاصل کئے ہوئے۔ جمہور مفسِّرین کے نزدیک اس آیت میں مخاطَب مسلمان ہیں اور ایک قول مفسِّرین کا یہ بھی ہے کہ مخاطَب مشرکینِ مکّہ ہیں۔ کلبی نے کہا کہ جب اہلِ مکّہ قحط کے سبب بھوک سے پریشان ہوئے اور تکلیف کی برداشت نہ رہی تو ان کے سرداروں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ سے دشمنی تو مرد کرتے ہیں، عورتوں اور بچوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے اس کا خیال فرمایئے، اس پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دی کہ ان کے لئے طعام لے جایا جائے۔ اس آیت میں اس کا بیان ہوا، ان دونوں قولوں میں اوّل صحیح تر ہے۔ (خازن)۔
۲۶۵ یعنی اس کو بُتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
۲۶۶ اور ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھانے پر مجبور ہو۔
۲۶۷ یعنی قدرِ ضرورت پر صبر کر کے۔
۲۶۸ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال، بعض چیزوں کو حرام کر لیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دیا کرتے تھے، اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللہ پر افتراء فرمایا گیا۔ آج کل بھی جو لوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتا دیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شیرینی، فاتحہ، گیارہویں، عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی۔ انہیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہیئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنا ہے۔
۲۶۹ اور دنیا کی چند روزہ آسائش ہے جو باقی رہنے والی نہیں۔
۲۷۱ سورۂ انعام میں آیت وَعَلیَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ الآیہ میں۔
۲۷۲ بغاوت و معصیت کا ارتکاب کر کے جس کی سزا میں وہ چیزیں ان پر حرام ہوئیں جیسا کہ آیت فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَھُمْ میں ارشاد فرمایا گیا۔
۲۷۵ نیک خصائل اور پسندیدہ اخلاق اور حمیدہ صفات کا جامع۔
۲۷۷ اس میں کُفّارِ قریش کی تکذیب ہے جو اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے۔
۲۷۹ رسالت و اموال و اولاد و ثنائے حسن و قبولِ عام کے تمام ادیان والے مسلمان اور یہود اور نصاریٰ اور عرب کے مشرکین سب ان کی عظمت کرتے اور ان سے مَحبت رکھتے ہیں۔
۲۸۰ اِتّباع سے مراد یہاں عقائد و اصولِ دین میں موافقت کرنا ہے۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس اِتّباع کا حکم کیا گیا، اس میں آپ کی عظمت و منزلت اور رفعتِ درجت کا اظہار ہے کہ آپ کا دینِ ابراہیمی کی موافقت فرمانا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لئے ان کے تمام فضائل و کمالات میں سب سے اعلیٰ فضل و شرف ہے کیونکہ آپ اکرم الاولین و الٰآخرین ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا اور تمام انبیاء اور کل خَلق سے آپ کا مرتبہ افضل و اعلیٰ ہے۔ شعر تو اصلی و باقی طوفیل تو اند۔ تو شاہی و مجموع خیل تواند۔
۲۸۱ یعنی شنبہ کی تعظیم اور اس روز شکار ترک کرنا اور وقت کو عبادت کے لئے فارغ کرنا یہود پر فرض کیا گیا تھا اور اس کا واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے انہیں روزِ جمعہ کی تعظیم کا حکم فرمایا تھا اور ارشاد کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خاص کرو، اس دن میں کچھ کام نہ کرو، اس میں انہوں نے اختلاف کیا اور کہا وہ دن جمعہ نہیں بلکہ سنیچر ہونا چاہیے بجز ایک چھوٹی سی جماعت کے جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حکم کی تعمیل میں جمعہ پر ہی راضی ہو گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے یہود کو سنیچر کی اجازت دے دی اور شکار حرام فرما کر ابتلا میں ڈال دیا تو جو لوگ جمعہ پر راضی ہو گئے تھے وہ تو مطیع رہے اور انہوں نے اس حکم کی فرمانبرداری کی، باقی لوگ صبر نہ کر سکے، انہوں نے شکار کئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسخ کئے گئے۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ اعراف میں بیان ہو چکا ہے۔
۲۸۲ اس طرح کہ مطیع کو ثواب دے گا اور عاصی کو عقاب فرمائے گا۔ اس کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب فرمایا جاتا ہے۔
۲۸۳ یعنی خَلق کو دینِ اسلام کی دعوت دو۔
۲۸۵ بہتر طریق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں۔ مسئلہ : اس سے ہوا کہ دعوتِ حق اور اظہارِ حقانیتِ دین کے لئے مناظرہ جائز ہے۔
۲۸۶ یعنی سزا بقدرِ جنایت ہو اس سے زائد نہ ہو۔ شانِ نُزول : جنگِ اُحد میں کُفّار نے مسلمانوں کے شُہداء کے چہروں کو زخمی کر کے ان کی شکلوں کو تبدیل کیا تھا اور ان کے پیٹ چاک کئے تھے، ان کے اعضاء کاٹے تھے ان شُہداء میں حضرت حمزہ بھی تھے، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب انہیں دیکھا تو حضور کو بہت صدمہ ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھائی کہ ایک حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ ستّر کافِروں سے لیا جائے گا اور ستّر کا یہی حال کیا جائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ ارادہ ترک فرمایا اور اپنی قسم کا کَفّارہ دیا۔ مسئلہ : مُثلہ یعنی ناک کان وغیرہ کاٹ کر کسی کی ہیئت کو تبدیل کرنا شرع میں حرام ہے۔ (مدارک)۔