آیت ۶۸ کے فقرے "و اوحیٰ ربک الی النحل" سے ماخوذ ہے۔ النحل کے معنی شہد کی مکھی ہے . یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوعِ بحث کا عنوان۔
متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانۂ نزول پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً، آیت ۴۱ کے فقرے "والذین ھاجرو فی اللہ من بعد ما ظلموا" سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرتِ حبشہ واقع ہو چکی تھی۔
آیت ۱۰۶ "من کفر باللہ من بعد ایمانہ" سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہو کر کلمۂ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔
آیات ۱۱۲ تا ۱۱۴ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورت کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا۔
اس سورت میں آیت ۱۱۵ ایسی ہے جس کا حوالہ سورۂ انعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے اور دوسری طرف آیت نمبر ۱۱۸ ایسی ہے جس میں سورۂ انعام کی آیت ۱۴۶ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے۔
ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورت کا زمانۂ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے اور اسی کی تائید سورت کے عام اندازِ بیاں سے بھی ہوتی ہے۔
شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوتِ پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجر و توبیخ۔
سورت کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ "جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہوں "۔ اس بات کو وہ بالکل تکیۂ کلام کی طرف اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے، اب اس کے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فوراً تفہیم کی تقریر شروع ہو جاتی ہے اور حسبِ ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں :
۱. دل لگتے دلائل اور آفاق و انفُس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔
۲. منکرین کے اعتراضات، شکوک، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے۔
۳. باطل پر اصرار اور حق کے مقابلے میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔
۴. ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشیں انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا، جس کا انہیں دعویٰ تھا، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہییں۔
۵. نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفا کاریوں کے مقابلے میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔
۱- یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اُس کے ظہور و نفاذ کا وقت قریب آ لگا ہے۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغۂ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بد عملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کُن قدم اُٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا اور کس شکل میں آیا؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے اُن کے حجُود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اُسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم اُن کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اُن پر تباہ کُن عذاب آ جاتا ہے، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفارِ مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکّے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔
۲- پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آ جاتا خدا کا وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ اُن کا مشرکانہ مذہب ہی بر حق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمدؐ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اُس پر ہماری شامت نہ آ جاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فوراً یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہر گز وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔
۳- یعنی روحِ نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس (Holy Spirit) کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا۔
۴- فیصلہ طلب کر نے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معاً بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہو کر یہ شخص نبوت کر رہا ہے۔
پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، تو یہ کفار اُن اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمدؐ بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا، مکّے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔
۵- اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ رُوحِ نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اِس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے۔ کوئی دوسرا ا س لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔
۶- دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین و آسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی بر حقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔
۷- اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث و استدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پر اُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے (جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کے آخر میں کریں گے )۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ً پرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آ رہا ہے۔
۸- یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خُدّام اُس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔
۹- توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃً نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے :
دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملاً موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریۂ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اُس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریۂ حیات پر مبنی ہو۔
اس صحیح نظریے اور صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔
اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سرو سامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اِتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اِتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اِس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہو گا؟
یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے ؟ اِس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہِ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اِس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشو نما کا اِتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن، حاشیہ نمبر ۲ – ۳)۔
۱۰- یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے ) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند بر سر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اُس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا۔ اور ترقی کے اُن بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا تا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہِ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے۔
۱۱- یعنی حلال طریقوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
۱۲- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکتِ زمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط (Regulate) کرنا ہے۔
۱۳- یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں۔
۱۴- یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات (Landmarks) سے ممتاز کیا۔ اِس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے راستے ا ور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریباً مفقود ہوتے ہیں اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ وہاں نشاناتِ راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کی رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے۔
یہاں پھر توحید اور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیلِ رسالت کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادّی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے ؟ ظاہر ہے کہ مادّی زندگی میں بھٹک جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا کم ہے۔ پھر جس ربِّ رحیم کو ہماری مادّی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے، میدانوں میں نشاناتِ راہ کھڑے کرتا ہے، صحراؤں اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمتِ سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کرتا ہے، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلا ح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہو، اس راستے کو نمایاں کر نے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہو گا، اور اُسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہو گا؟
۱۵- یہاں تک آفاق اور اَنفُس کی بہت سی نشانیاں جو پے در پے بیان کی گئی ہیں ان سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین اور آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے اور کہیں سے بھی شرک کی۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ دہریت کی بھی۔۔۔۔۔۔ تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی۔ یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چلتا اور حجّت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا۔ یہ اُس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال، خون اور دودھ، گوشت اور پیٹھ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا، حتیٰ کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام، اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلّوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتے ہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمدو رفت، اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات، جن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے اِتنا گہرا ربط ہے۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود اور یہ اُن کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کا سینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلاتا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر اور تجارت کرتا پھرتا ہے۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے اُبھار اور یہ انسان کی ہستی کے لیے اُن کے فائدے۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لے کر آسمان کی بلند فضاؤں تک بے شمار علامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلاؤ اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے، اُسی نے اپنی منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے، اُسی نے اِ س ڈیزائن کو پیدا کیا ہے، وہی ہر آن اس دنیا میں نِت نئی چیزیں بنا بنا کر اس طرح لا رہا ہے کہ مجموعی اسکیم اور اس نظم میں ذرا فرق نہیں آتا، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلا رہا ہے۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے ؟ یا یہ کہ اس کمال درجۂ منظم، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزا مختلف خداؤں کے آفریدہ اور مختلف خداؤں کے زیرِ انتظام ہیں؟
۱۶- یعنی اگر تم یہ مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع کفارِ مکہ بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات کے اندر تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ خالق کے خلق کیے ہوئے نظام میں غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر یا کسی طرح بھی اُس کے مانند ہو؟ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی خلق کی ہوئی کائنات میں جو اختیارات خالق کے ہیں وہی ان غیر خالقوں کے بھی ہوں، اور اپنی مخلوق پر جو حقوق خالق کو حاصل ہیں وہی حقوق غیر خالقوں کو بھی حاصل ہوں؟ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہو گا؟
۱۷- پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے، اس لیے کہ وہ اس قدر عیاں ہے اور اس کے بیا ن کے حاجت نہیں۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معاً بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں، بے وفائیوں، غداریوں اور سرکشیوں سے دے رہا ہے، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صدہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات، صفات، اختیارات، حقوق، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رُکتا۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سرکشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں، پھر مدت العمر اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ اُن پر جاری رہتا ہے۔
۱۸- یعنی کوئی احمق یہ نہ سمجھے کہ انکارِ خدا اور شرک اور معصیت کے باوجود نعمتوں کا سلسلہ کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کو لوگوں کے کرتوتوں کی خبر نہیں ہے۔ یہ کوئی اندھی بانٹ اور غلط بخشی نہیں ہے کہ جو بے خبری کی وجہ سے ہو رہی ہو۔ یہ تو وہ علم اور درگزر ہے جو مجرموں کے پوشیدہ اسرار بلکہ دل کی چھپی ہوئی نیتوں سے واقف ہونے کے باوجود کیا جا رہا ہے، اور یہ وہ فیاضی و عالی ظرفی ہے جو صرف ربّ العالمین ہی کو زیب دیتی ہے۔
۱۹- یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے، یا جنّ، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ ا س لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآ ءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذینَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل، ربیعہ، کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بُری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا ء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بُت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔
۲۰- یعنی آخرت کے انکار نے اُن کو اس قدر غیر ذمہ دار، بے فکر، اور دنیا کی زندگی میں مست بنا دیا ہے کہ اب انہیں کسی حقیقت کا انکار کر دینے میں باک نہیں رہا، کسی صداقت کی ان کے دل میں قدر باقی نہیں رہی، کسی اخلاقی بندش کو اپنے نفس پر برداشت کرنے کے لیے وہ تیار نہیں رہے، اور انہیں یہ تحقیق کرنے کے پروا ہی نہیں رہی کہ جس طریقے پر وہ چل رہے ہیں وہ حق ہے بھی یا نہیں۔
۲۱- یہاں سے تقریر کا رُخ دوسری طرف پھرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں جو شرارتیں کفارِ مکہ کی طرف سے ہو رہی تھیں، جو حُجتیں آپ کے خلاف پیش کی جا رہی تھیں، جو حیلے اور بہانے ایمان نہ لانے کے لیے گھڑے جا رہے تھے، جو اعتراضات آپ پر وارد کیے جا رہے تھے ان کو ایک ایک کر کے لیا جاتا ہے اور ان پر فہمائش، زجر اور نصیحت کی جاتی ہے۔
۲۲- نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے اُن سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اُٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب کفارِ مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے، یا کم از کم اُس کو آپؐ سے آپؐ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے۔
۲۳- پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑے غور و فکر سے خود بھر سکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ سوال کرے گا تو سارے میدانِ حشر میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ کفار و مشرکین کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔ اُن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو گا۔ اس لیے وہ دم بخود رہ جائیں گے اور اہلِ علم کے درمیان آپس میں یہ باتیں ہوں گی۔
۲۴- یعنی جب موت کے وقت ملائکہ ان کی روحیں ان کے جسم سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔
۲۵- یہ فقرہ اہلِ علم کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خود بطور تشریح فرما رہا ہے۔ جن لوگوں نے اسے بھی اہلِ علم ہی کا قول سمجھا ہے انہیں بڑی تاویلوں سے بات بنانی پڑی ہے اور پھر بھی بات پوری نہیں بن سکی ہے۔
۲۶- یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت، جس میں قبضِ روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے، قرآن اُن متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثوابِ قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ’’قبر‘‘ کا لفظ مجازاً عالمِ برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرینِ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہو گا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہو گا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں۔ اور فوراً سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹ پلاتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ اُن کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے ؟ اسی سے ملتا جُلتا مضمون سورۂ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے۔ جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانو ں سے قبضِ روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۂ مومن آیت نمبر ۴۵ – ۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ ’’ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کے شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا، سب کچھ اُس کیفیت سے مشابہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہو گی۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال، اور پھر اُس کا جنت کی بشارت سننا، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا، یہ سب بھی اُس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہو گا جو حسنِ کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدۂ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ خواب ایک لختِ نفخ صورِ دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدانِ حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْ قَدِنَا (ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا؟) مگر اہلِ ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ھِذَا مَا وَعَدَ الرَّ حْمٰنُ وَصَدَ قَ الْمُرْسَلُوْنَ (یہ وہی چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچّا تھا)۔ مجرمین کا فوری احساس اُس وقت یہ ہو گا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں (جہاں بستر موت پر اُنہوں نے دنیا میں جان دی تھی) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مگر اہلِ ایمان پورے ثباتِ قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فی کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اِ س چیز کو جانتے نہ تھے )۔
۲۷- یعنی مکے سے باہر کے لوگ جب خدا سے ڈرنے والے اور راستباز لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان کا جواب جھوٹے اور بد دیانت کافروں کے جواب سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتے۔ وہ عوام کو بہکانے اور غلط فہمیوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ حضور کی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی تعریفیں کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں۔
۲۸- یہ ہے جنت کی اصل تعریف۔ وہاں انسان جو کچھ چاہے گا وہی اسے ملے گا اور کوئی چیز اس کی مرضی اور پسند کے خلا ف واقع نہ ہو گی۔ دنیا میں کسی رئیس، کسی امیر کبیر، کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی یہ نعمت کبھی میسر نہیں آئی ہے، نہ یہاں اس کے حصول کا کوئی امکان ہے۔ مگر جنت کے ہر مکین کو راحت و مسرت کا یہ درجۂ کمال کہ اُس کی زندگی میں ہر وقت ہر طرف سب کچھ اس کی خواہش اور پسند کے عین مطابق ہو گا۔ اس کا ہر ارمان نکلے گا۔ اس کی ہر آرزو پوری ہو گی۔ اس کی ہر چاہت عمل میں آ کر رہے گی۔
۲۹- یہ چند کلمے بطورِ نصیحت اور تنبیہ کے فرمائے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک سمجھانے کا تعلق تھا، تم نے ایک ایک حقیقت پوری طرح کھول کر سمجھا دی۔ دلائل سے اس کا ثبوت دے دیا۔ کائنات کے پورے نظام سے اس کی شہادتیں پیش کر دیں۔ کسی ذی فہم آدمی کے لیے شرک پر جمے رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ اب یہ لوگ ایک صاف سیدھی بات کو مان لینے میں کیوں تامُل کر رہے ہیں؟ کیا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہو تو زندگی کے آخری لمحے میں مانیں گے ؟ یا خدا کا عذاب سر پر آ جائے تو اس کی پہلی چوٹ کھا لینے کے بعد مانیں گے ؟
۳۰- مشرکین کی اس حجت کو سورۂ انعام آیات نمبر ۱۴۸ – ۱۴۹ میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ وہ مقام اور اس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔ (ملاحظہ وہ سورۂ انعام، حواشی نمبر ۱۲۴ تا نمبر ۱۲۶ )۔
۳۱- یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا پورا لطف اُٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر کر چکا ہے جو وہ قرآن کے خلا ف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ ’’اجی! وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں‘‘۔ گویا ان کو نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفانِ نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے دلیل ( جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے ) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں، یہ مایۂ ناز دلیل جو آپ لائے ہیں ا س میں قطعی کو ئی اُپچ موجود نہیں ہے، وہی دقیا نوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں، آپ نے بھی اُسی کو دہرا دیا ہے۔
۳۲- یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو، جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبر دستی تمہیں راست رو بناتے۔ ( مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۸۰۔ سورۂ زمر حاشیہ نمبر ۲۰)۔
۳۳- یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اُس کی قوم دو حصّوں میں تقسیم ہوئی۔ بعض نے اس کی بات مانی (اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۸)۔
۳۴- یعنی تجربے سے بڑھ کر تخلیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں۔ عذابِ الٰہی فرعون و آلِ فرعون پر آیا یا موسیٰؑ اور بنی اسرائیل پر؟ صالحؑ کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر ؟ ہودؑ اور نوحؑ اور دوسرے انبیاء کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی اِن تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا اُن کو ہماری رضا حاصل تھی؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحاً یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ اِن گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکابِ جرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھر ان کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتا ہے۔
۳۵- یہ حیات بعد الموت اور قیامِ حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے، حقیقت کے بارے میں بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب، الگ معاشرے، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان، مال، آبرو، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطۂ نظر نہیں چھوڑا ہے۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی تو صحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا، راستی پر کون تھا، اور نا راستی پر کون۔ اِس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اُٹھنے کا نظر نہیں آتا۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اُٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے۔
اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصّہ لیا ہے۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں بُرے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ آخر کوئی وقت تو ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صِلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں۔
۳۶- یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جِلا اُٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سر و سامان، کسی سبب اور وسیلے، اور کسی سازگاریِ احوال کی محتاج نہیں ہے۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہی سر و سامان وجود میں لاتا ہے۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے۔ اِس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آ سکتی ہے۔
۳۷- یہ اشارہ ہے اُس مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابلِ برداشت مظالم سے تنگ آ کر مکّے سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ منکرینِ آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرینِ حبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ اِس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو! یہ جفا کاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہو کہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا۔
۳۸- یہاں مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کو نقل کیے بغیر اسکا جواب دیا جا رہا ہے۔ اعتراض وہی ہے جو پہلے بھی تمام انبیاء پر ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معاصرین نے بھی آپ پر بارہا کیا تھا کہ تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو، پھر ہم کیسے مان لیں کہ خدا نے تم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔
۳۹- یعنی علماء اہلِ کتاب، اور وہ دوسرے لوگ جو چاہے سکّہ بند علما ء نہ ہوں مگر بہر حال کتبِ آسمانی کی تعلیمات سے واقف اور انبیائے سابقین کی سرگزشت سے آگاہ ہوں۔
۴۰- تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ’’ذکرِ الٰہی‘‘ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ’’ذکر‘‘ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچا یا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ’’ذکر‘‘ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ ا س کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس ’’ذکر‘‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ’’ذکر‘‘ کے منشا کی شرح ہو۔
یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ’’ذِکر‘‘ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ’’ذکر‘‘ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے، غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔
اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔
اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا ’’ذکر‘‘ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔
اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختمِ نبوت پر اصرار کر سکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہر گز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔
۴۱- یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادّی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادّی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔
۴۲- یعنی زمین ہی کی نہیں، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابعدار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔
ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیّاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورۂ شوریٰ آیت ۳۰ میں بھی ارشاد ہوئی ہے۔
۴۳- دو خداؤں کی نفی میں دو سے زیادہ خداؤں کی نفی آپ سے آپ شامل ہے۔
۴۴- دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اِس پورے کارخانۂ ہستی کا نظام قائم ہے۔
۴۵- بالفاظِ دیگر کیا اللہ کے بجائے کسی اور کا خوف اور کسی اور کی ناراضی سے بچنے کا جذبہ تمہارے نظامِ زندگی کی بنیاد بنے گا؟
۴۶- یعنی یہ توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب تمام مَن گھڑت تصورات کا زنگ ہٹ جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت اُبھر آتی ہے جو اللہ کے سوا کسی الٰہ، کسی رب، اور کسی مالِک ذی اختیار کو نہیں جانتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حواشی نمبر ۲۹ و نمبر ۴۱۔ یونس، حاشیہ نمبر ۳۱)۔
۴۷- یعنی اللہ کے شکریہ کے ساتھ ساتھ کسی بزرگ یا کسی دیوی یا دیوتا کے شکریے کی بھی نیازیں اور نذریں چڑھانی شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی بات بات سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اللہ کی اس مہربانی میں اُن حضرت کی مہربانی کا بھی دخل تھا، بلکہ اللہ ہرگز مہربانی نہ کرتا اگر وہ حضرت مہربان ہو کر اللہ کو مہربانی پر آمادہ نہ کرتے۔
۴۸- یعنی جن کے متعلق کسی مستند ذریعۂ علم سے اِنہیں یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے اُن کو واقعی شریکِ خدا نامزد کر رکھا ہے، اور اپنی خدائی کے کاموں میں سے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے علاقوں میں سے کچھ علاقے ان کو سونپ رکھے ہیں۔
۴۹- یعنی اُن کی نذر، نیاز اور بھینٹ کے لیے اپنی آمدنیوں اور اپنی اراضی کی پیداوار میں سے ایک مقرر حصہ الگ نکال رکھتے ہیں۔
۵۰- مشرکینِ عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے، دیویاں زیادہ تھیں، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔۔ اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔
۵۲- یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ و عار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامُل تجویز کر دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اِس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق اُن کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں اب جو جس قدر جری اور گستاخ بنا دیا ہے اور وہ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔
۵۳- دوسرے الفاظ میں، اس کتاب کے نزول سے اِن لوگوں کو اس بات کا بہترین موقع ملا ہے کہ اوہام اور تقلیدی تخیلات کی بنا پر جن بے شمار مختلف مسلکوں اور مذہبوں میں یہ بٹ گئے ہیں اُن کے بجائے صداقت کی ایک بڑی پائیدار بنیاد پالیں جس پر یہ سب متفق ہو سکیں۔ اب جو لوگ اِتنے بے وقوف ہیں کہ اِس نعمت کے آ جانے پر بھی اپنی پچھلی حالت ہی کو ترجیح دے رہے ہیں وہ تباہی اور ذلت کے سوا اور کوئی انجام دیکھنے والے نہیں ہیں۔ اب تو سیدھا راستہ وہی پائے گا اور وہی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہو گا جو اس کتاب کو مان لے گا۔
۵۳ الف - یعنی یہ منظر ہر سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے کہ زمین بالکل چٹیل میدان پڑی ہوئی ہے، زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں، نہ گھاس پھونس ہے، نہ بیل بوٹے، نہ پھُول پتّی، اور نہ کسی قسم کے حشرات الارض۔ اتنے میں بارش کا موسم آگیا اور ایک دو چھینٹے پڑتے ہی اُسی زمین سے زندگی کے چشمے اُبلنے شروع ہو گئے۔ زمین کی تہوں میں دبی ہوئی بے شمار جڑیں یکایک جی اٹھیں اور ہر ایک کے اندر سے وہی نباتات پھر برآمد ہو گئی جو پچھلی برسات میں پیدا ہونے کے بعد مر چکی تھی۔ بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا، یکایک پھر اُسی شان سے نمودار ہو گئے جیسے پچھلی برسات میں دیکھے گئے تھے۔ یہ سب کچھ اپنی زندگی میں بار بار تم دیکھتے رہتے ہو، اور پھر بھی تمہیں نبی کی زبان سے یہ سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حیرت کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمہارا مشاہدہ بے عقل حیوانوں کا سا مشاہدہ ہے۔ تم کائنات کے کرشموں کو تو دیکھتے ہو، مگر اُن کے پیچھے خالق کی قدرت اور حکمت کے نشانات نہیں دیکھتے۔ ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ نبی کا بیان سُن کر تمہارا دل نہ پکار اُٹھتا کہ فی الواقع یہ نشانیاں اُس کے بیان کی تائید کر رہی ہیں۔
۵۴- ’’ گوبر اور خون کے درمیان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اُس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے، اور دوسری طرف فضلہ، مگر انہی جانوروں کی صنفِ اُناث میں اُسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت، رنگ و بو، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں۔
۵۵- اس میں ایک ضمنی اشارہ اس مضمون کی طرف بھی ہے کہ پھلوں کے اِس عرق میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے، اور وہ مادّہ بھی موجود ہے جو سڑ کر الکوہل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی قوتِ انتخاب پر منحصر ہے کہ وہ اس سرچشمے سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل و خرد زائل کر دینے والی شراب۔ ایک اور ضمنی اشارہ شراب کی حرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔
۵۶- وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء (دل میں بات ڈال دینے ) اور الہام (مخفی تعلیم و تلقین) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظر نہیں آتا، اس لیے اس کو قرآن میں وحی، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ الہام کو اولیاء اور بندگانِ خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔ اور القاء نسبتًہ عام ہے۔
لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے ( وَاَوْ حٰی فی کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا۔ حٰمِ السجدہ)۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے۔ (یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo۔ الزلزال)۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔ (اِذْ یُوْحی رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنی مَعَکُمْ۔ الانفال) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی (فطری تعلیم) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے۔ مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اُڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسُس کے بغیر جو صحیح تدبیر، یا صائب رائے، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سُجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے (وَاَوْحینَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعیہِ۔ القصص)۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں، بڑے بڑے مدبرین، فاتحین، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں، اُن سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی۔ ان بہت سے اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آ رہی ہے۔ اُسے اس کے مِن جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے۔
۵۷- ’’رب کی ہموار کی ہوئی راہوں‘‘ کا اشارہ اُس پورے نظام اور طریق کار کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے۔ ان کے چھتوں کی ساخت، ان کے گروہ کی تنظیم، ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار، ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدو رفت، ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غور فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شَکَر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزار ہا برس سے کام کیے چلے جا رہے ہیں۔
۵۸- شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبتًہ ایک مخفی بات ہے اِس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ پھر شہد کا یہ خاصّہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فنِّ دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اُس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اُس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے، اور مختلف نباتی دواؤں کے جو ہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیٰحدہ علیٰحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہو ں گے۔
۵۹- اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوت کے دوسرے جُز کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظامِ زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو۔ دعوت محمدی ؐ کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثارِ کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، یہ آثار جو ہر طرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے۔ تم اسے ایک اَن ہونی بات قرار دیتے ہو۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادۂ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعویٰ قرار دیتے ہیں۔ مگر مویشیوں کی ساخت، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مِل جُل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نے تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟
۶۰- یعنی حقیقت صر ف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا۔
۶۱- یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔
۶۲- زمانۂ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفۂ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفعہ ٹھیرایا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانونِ معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کا آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیا ن ہو رہا ہے۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟
ٹھیک یہی استدلال، اسی مضمون سے سورۂ روم، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآ ءَ فی مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فیہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخیفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے۔ کیا تمہارے اُس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارے غلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘۔
دونوں آیتوں کا تقابل کر نے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے۔
شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلًا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اپنے زیردستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیراللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دُہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبُّر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آ سکتا، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔
نعمتِ الٰہی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اُس کے بندوں کو اس کا شریک و وہیم ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اُس سے پائی ہیں اُن کا شکریہ اُس کے بندوں کو ادا کریں؟
۶۳- ’’باطل کو مانتے ہیں‘‘، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا، ان کی مرادیں برلانا اور دُعائیں سُننا، انہیں اولاد دینا، ان کو روزگار دلوانا، ان کے مقدمے جِتوانا، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جِنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے۔
۶۴- اگرچہ مشرکینِ مکّہ اس بات سے انکار نہیں کرتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں، اور اِن نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی اُنہیں انکار نہ تھا، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر یہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اُن بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اِس نعمت بخشی میں دخیل اور حصّہ دار ٹھیرا رکھا تھا۔ اِسی چیز کو قرآن ’’اللہ کے احسان کا انکار‘‘ قرار دیتا ہے۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل، یا فلاں کی رعایت سے، یا فلاں کی سفارش سے، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے۔
یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقلِ عام کے مطابق ہیں۔ ہر شخص خود بادنیٰ تأمّل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں، اور وہ اسی وقت اُٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اُس کی اِس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے۔ پھر اگر دریافت کرنے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اُس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے، درآنحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا، تو آپ لامحالہ اِسے اپنی توہین سمجھیں گے۔ اُس کی اِس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہو گا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یار باش آدمی ہیں، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد اُن دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا۔
۶۵- ’’اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو‘‘، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مُقرب بارگاہ ملازموں کے توسّط کے بغیر اُن تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کا کوئی کام اِن واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا۔
۶۶- یعنی اگر مثالوں ہی سے بات سمجھنی ہے تو اللہ صحیح مثالوں سے تم کو حقیقت سمجھاتا ہے۔ تم جو مثالیں دے رہے ہو وہ غلط ہیں، ا س لیے تم ان سے غلط نتیجے نکال بیٹھتے ہو۔
۶۷- سوال اور الحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نبیؐ کی زبان سے یہ سوال سُن کر مشرکین کے لیے اس کا یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں۔ لا محالہ اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہو گا کہ واقعی دونوں برابر نہیں ہیں، اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہو گی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اُس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اور اس سے خود بخود اُن کے شرک کا ابطال ہو جائے گا۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ۔ اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ۔ پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’خدا کا شکر ہے، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی‘‘۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خاموش ہو گئے ؟ الحمد للہ۔ اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے ‘‘۔
۶۸- یعنی باوجودیکہ انسانوں کے درمیان وہ صریح طور پر با اختیار اور بے اختیار کے فرق کو محسوس کرتے ہیں، اور اس فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی دونوں کے ساتھ الگ الگ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، پھر بھی وہ ایسے جاہل و نادان بنے ہوئے ہیں کہ خالق اور مخلوق کا فرق ان کو سمجھ میں نہیں آتا۔ خالق کی ذات اور صفات اور حقوق اور اختیارات، سب میں وہ مخلوق کو اس کا شریک سمجھ رہے ہیں اور مخلوق کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کر رہے ہیں جو صرف خالق کے ساتھ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ عالمِ اسباب میں کوئی چیز مانگنی ہو تو گھر کے مالک سے مانگیں گے نہ کہ گھر کے غلام سے۔ مگر مبدأ فیض سے حاجات طلب کرنی ہوں تو کائنات کے مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیں گے۔
۶۹- پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا۔ اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اِن بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے، نہ کوئی کام با ختیارِ خود کر سکتا ہے۔ اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اُس کے آقا کی ذات پر ہے۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف فاعلِ مختار ہی نہیں، فاعلِ برحق ہے، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور ایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟
۷۰- بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفارِ مکّہ کے اُس سوال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی۔ یہاں اُن کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔
۷۱- یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مُدّت میں واقع نہ ہو گی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دُور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو۔ وہ تو کسی روز اچانک چشمِ زدن میں، بلکہ اس سے بھی کم مدّت میں آ جائے گی۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کر لیں گے۔۔۔۔۔۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں۔ اُنہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آ جانے والی ہے اور اُس وقت اِسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلۂ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا۔
۷۲- یعنی وہ ذرائع جن سے تمہیں دنیا میں ہر طرح کی واقفیت حاصل ہوئی اور تم اس لائق ہوئے کہ دنیا کے کام چلا سکو۔ انسان کا بچہ پیدائش کے وقت جتنا بے بس اور بے خبر ہوتا ہے اتنا کسی جانور کا نہیں ہوتا۔ مگر یہ صرف اللہ کے دیے ہوئے ذرائع علم (سماعت، بینائی، اور تعقل و تفکر) ہی میں ہیں جن کی بدولت وہ ترقی کر کے تمام موجوداتِ ارضی پر حکمرانی کر نے کے لائق بن جاتا ہے۔
۷۳- یعنی اُس خدا کے شکر گزار جس نے یہ بے بہا نعمتیں تم کو عطا کیں۔ اِن نعمتوں کی اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اِن کانوں سے آدمی سب کچھ سنے مگر ایک خدا ہی کی بات نہ سنے، اِن آنکھوں سے سب کچھ دیکھے مگر ایک خدا ہی کی آیات نہ دیکھے اور اس دماغ سے سب کچھ سوچے مگر ایک یہی بات نہ سوچے کہ میرا وہ محسن کون ہے جس نے یہ انعامات مجھے دیے ہیں۔
۷۴- یعنی چمڑے کے خیمے جن کا رواج عرب میں بہت ہے۔
۷۵- یعنی آپ کوچ کرنا چاہتے ہو تو انہیں آسانی سے تہ کر کے اُٹھا لے جاتے ہو اور جب قیام کرنا چاہتے ہو تو آسانی سے اُن کو کھول کر ڈیرا جما لیتے ہو۔
۷۶- سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجۂ کمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی، یا پھر اسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی بادِ سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ممالک میں اگر آدمی سر، گردن، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اُسے جھُلس کر رکھ دے، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے۔
۷۸- تمامِ حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جُز رسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے۔ مثلاً اِسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سر و سامان پیدا کیا، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یا مثلاً تغذیے کے معاملہ کو لیجیے۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزوی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے، اُن کا اگر کوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسامِ غذا اور اشیائے غذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلّد بن جائے۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اِتمام کر رکھا ہے۔
۷۹- انکار سے مراد وہی طرزِ عمل ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ کفارِ مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ یہ سارے احسانات اللہ نے اُن پر کیے ہیں، مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ نے یہ احسانات اُن کے بزرگوں اور دیوتاؤں کی مداخلت سے کیے ہیں، اور اسی بنا پر وہ ان احسانات کا شکریہ اللہ کے ساتھ، بلکہ کچھ اللہ سے بڑھ کر اُن متوسط ہستیوں کو ادا کرتے تھے۔ اِسی حرکت کو اللہ تعالیٰ انکارِ نعمت اور احسان فراموشی اور کفران سے تعبیر کرتا ہے۔
۸۰- یعنی اُس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس اُمت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روزِ قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق اِن لوگوں کو پہنچا دیا تھا، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔
۸۱- یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔
۸۲- یعنی اُس وقت اُن سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثارِ موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اُس وقت کی توبہ ناقابلِ قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا استحقاق باقی رہ جاتا ہے۔
۸۳- اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بجائے خود اِس واقعہ کا انکار کریں گے کہ مشرکین انہیں حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا کرتے تھے، بلکہ دراصل وہ اس واقعہ کے متعلق اپنے علم و اطلاع اور اس پر اپنی رضامندی و ذمہ داری کا انکار کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو، نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکار رہے ہو۔ تم نے اگر ہمیں سمیع الدُّعا ء اور مجیب الدعوات، اور دستگیر و فریاد رس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑ لی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے۔ اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کر تے ہو۔
۸۴- یعنی وہ سب غلط ثابت ہوں گی۔ جن جن سہاروں پر وہ دنیا میں بھروسا کیے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے گم ہو جائیں گے۔ کسی فریاد رس کو وہاں فریاد رسی کے لیے موجود نہ پائیں گے۔ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لیے نہیں ملے گا۔ کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ہو گا کہ یہ میرے متوسل تھے، انہیں کچھ نہ کہا جائے۔
۸۵- یعنی ایک عذاب خود کفر کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو راہِ خدا سے روکنے کا۔
۸۶- یعنی ہر ایسی چیز کی وضاحت جس پر ہدایت و ضلالت اور فلاح و خسران کا مدار ہے، جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے، جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ غلطی سے لوگ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ اور اس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نباہنے کے لیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
۸۷- یعنی جو لوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اور اطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پر اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبر دست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔
۸۸- اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جس پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔ : پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسُب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اُردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’’انصاف‘‘ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصوّر پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیا د پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات، اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔
دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویّہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جانا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھُرّے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہو گی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشو نما دینے والی قدریں ہیں۔
تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے، صلۂ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعتِ الٰہی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اِس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کا خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں، پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں، اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا۔۔۔۔۔۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ (Unit) اِس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔
۸۹- اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں:
پہلی چیز فَحْشَآ ع ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عُریانی، عملِ قومِ لوط، محرّمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان بُرے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔
دوسری چیز مُنکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں، اور عام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز بَغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔
۹۰- یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ دوسرا وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے۔ تیسرا وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو۔ اس کی اہمیت اوپر کی دو قسموں کے بعد ہے۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے۔
۹۱- ’’یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اُس بد ترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجبِ فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کارِ ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ تک کر گزرتے ہیں جو اپنی ذاتی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اُٹھتی، بلکہ ہر طرف سے اُن کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے۔
۹۲- یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہو گا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ان میں برسرِ حق کون ہے اور برسر باطل کون۔ لیکن بہر حال، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہو گا، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی، طریقِ کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ اُن مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار ہیں اور ہمارا فریقِ مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقہ سے بھی ممکن ہو زک پہنچائیں۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت، امانت اور وفائے عہد کا لحاظ رکھیں۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فی الْاُمّیینَ سَبیلٌ۔ یعنی مشرکینِ عرب کے معاملہ میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے، اُن سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا۔
۹۳- یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے نام نہاد ’’طرف داروں‘‘ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کر سکتا؟
۹۴- یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کر دیتا ہے، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔
۹۵- یعنی کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہو جانے کے بعد محض تمہاری بد اخلاقی دیکھ کر اِس دین سے برگشتہ ہو جائے اور اس وجہ سے وہ اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہو نے سے رُک جائے کہ اس گروہ کے جن لوگوں سے اس کو سابقہ پیش آیا ہو ان کو اخلاق اور معاملات میں اُس نے کفار سے کچھ بھی مختلف نہ پایا ہو۔
۹۶- یعنی اُس عہد کو جو تم نے اللہ کے نام پر کیا ہو، یا دینِ الٰہی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہو۔
۹۷- یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے بڑے فائدے کے بدلے بیچ سکتے ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا جو فائدہ بھی ہے وہ اللہ کے عہد کی قیمت میں تھوڑا ہے۔ اس لیے اس بیش بہا چیز کو اس چھوٹی چیز کے عوض بیچنا بہر حال خسارے کا سودا ہے۔
۹۸- ’’صبر سے کام لینے والوں کو‘‘، یعنی ان لوگوں کو جو رہ طمع اور خواہش اور جذبۂ نفسانی کے مقابلہ میں حق اور راستی پر قائم رہیں، ہر اُس نقصان کو برداشت کر لیں جو اِس دنیا میں راستباز ی اختیار کرنے سے پہنچتا ہو، ہر اُس فائدے کو ٹھکرا دیں جو دنیا میں ناجائز طریقے اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہو، اور حسنِ عمل کے مفید نتائج کے لیے اُس وقت تک انتظار کر نے کے لیے تیار ہوں جو موجودہ دنیوی زندگی ختم ہو جانے کے بعد دوسری دنیا میں آنے والا ہے۔
۹۹- اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے اُن تمام کم نظر اور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیز گاری کی روش اختیار کر نے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ اِ س صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی، دنیا بھی بنتی ہے۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بدع مل لوگوں کے مقابلہ میں صریحاً بہتر رہتی ہے۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے عاغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنیٰ سا حصّہ بھی محلوں میں رہنے والے فسّاق و فجار نہیں پا سکتے۔
۱۰۰- یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ اُن کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہو گا۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اُسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔
۱۰۱- اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجیمِ کہہ دیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش اور عملاً یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے گمراہ کُن وسوسوں سے محفوظ رہے، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے، اور اپنے خود ساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہوں۔ ا س کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہو نا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابنِ آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اُسے بہکانے اور اخذِ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنّا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی در اندازیاں اُسے اِس سر چشمۂ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کر دیں۔ کیونکہ جس نے یہاں سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی۔
اس سلسلۂ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر اُن اعتراضات کا جواب دیا جا رہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید پر کیا کرتے تھے۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کی گمراہ کُن وسوسہ اندازیوں سے چوکنّا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے۔
۱۰۲- ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو، تین تین حکم بھیجے گئَ ہیں۔ مثلاً شراب کا معاملہ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورۂ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دَور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی۔ اس لیے ہم یہاں ’’ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے ‘‘ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اُسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، معاذ اللہ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علمِ الٰہی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی۔ اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آ رہی ہیں۔
۱۰۳- ’’روح القدس‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’پاک رُوح‘‘ یا ’’پاکیزگی‘‘۔ اور اصطلاحاً یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آ رہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنا دے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔
۱۰۴- یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سے ذہن نشین کر نے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔
۱۰۵- یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔ یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کی دعوتِ اسلامی کے کام میں اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں جس موقع پر جس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بر وقت دے دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ نہ انہیں قبل از وقت بھیجنا مناسب ہو سکتا ہے، اور نہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔
۱۰۶- یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے۔ یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اور مخالفتوں سے سابقہ پیش آ رہا ہے اور جس جس طرح انہیں ستایا اور تنگ کیا جا رہا ہے، اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کے جو پہاڑ سدِّ راہ ہو رہے ہیں، ان کی وجہ سے وہ بار بار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کو آخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلا یا جاتا رہے تاکہ وہ پُر امید رہیں اور دل شکستہ نہ ہونے پائیں۔
۱۰۷- روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفارِ مکہ اُن میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحَضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یَعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یَسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابُو فکَیہَہ تھی اور جو مکّے کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص توراۃ و انجیل پڑھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے ملاقات ہے، بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ؐ کے مخالفین آپ کے خلاف افترا پردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اُس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اُس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ توراۃ و انجیل پڑھ لیتا تھا، قابل تر نظر آ رہا تھا اور وہ گمان کر رہے تھے کہ یہ گوہرِ نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کر رہا ہے۔
۱۰۸- دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جھوٹ تو وہ لوگ گھڑا کرتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔
۱۰۹- اس آیت میں اُن مسلمانوں کے معاملے سے بحث کی گئی ہے جن پر اُس وقت سخت مظالم توڑے جا رہے تھے اور ناقابلِ برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر زبان سے ادا کر دو، اور دل تمہارا عقیدۂ کفر سے محفوظ ہو، تو معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا چاہیے۔ بلکہ یہ صرف رخصت ہے۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہو گا۔ ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے بہرحال وہ کلمۂ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔ دونوں قسم کی نظیریں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہدِ مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خَبَّاب ؓ بن اَرت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لُٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی، مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے۔ بلالؓ حبشی ہیں جن کو لوہے کی زِرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔ حبیب بن زیدؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مُسیلمہ کذاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں، مگر ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دے دی۔ دوسری طرف عَمّار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا، پھر ان کو اتنی ناقابلِ برداشت اذیّت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار اُن سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے روتے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رَسُول َ اللہ مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْ تُ اٰ لھَِتَھُمْ بِخَیْرٍ۔ ’’یا رسول اللہ، مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ کو بُرا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا‘‘۔ حضور نے پوچھا کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ۔ ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو‘‘ ؟ عرض کیا مُطْمَئِنًا بِالْایمَانِ۔ ’’ایمان پر پوری طرح مطمئن‘‘۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا ان عَادُوْ افَعُدْ۔ ’’اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا‘‘۔
۱۱۰- یہ فقرے اُن لوگوں کے بارے میں فرمائے گئے ہیں جنہوں نے راہِ حق کو کٹھن پا کر ایمان سے توبہ کر لی تھی اور پھر اپنی کافر و مشرک قوم میں جا ملے تھے۔
۱۱۱- اشارہ ہے مہاجرینِ حبشہ کی طرف۔
۱۱۲- یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی۔ نہ مفسرین یہ تعین کر سکے ہیں کہ یہ کونسی بستی ہے۔ بظاہر ابن عباسؓ ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خود مکّے کو نام لیے بغیر مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ قحط ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد ایک مدّت تک اہلِ مکّہ پر مسلّط رہا۔
۱۱۳- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے۔
۱۱۴- یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔
۱۱۵- یہ حکم سورۂ بقرہ آیت نمبر ۳، سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورۂ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔
۱۱۶- یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں، یا بالفاظِ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا، اِلّا یہ کہ وہ قانون الٰہی کو سند مان کر اُس کے فرامین سے استنباط کرتے ہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔
اِس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اِس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جسے وہ کتابِ الٰہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔ یا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے جو دعویٰ بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔
۱۱۷- یہ پورا پیراگراف اُن اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورۂ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے۔ کفارِ مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے ؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا اس کو بھی تم نے اڑا دیا ہے۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟
۱۱۸- اشارہ ہے سورۂ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذینَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذی ظُفُرِ، الاٰ یَۃ (آیت نمبر ۱۴۶) کی طرف، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیّت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں۔
اس جگہ ایک اِشکال پیش آتا ہے۔ سورۂ نحل کی اس آیت میں سورۂ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ لیکن ایک مقام پر سورۂ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْا مِمَّا ذَکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہٖ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ ( آیت نمبر ۱۱۹)۔ اس میں سورۂ نحل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مکّی سورتوں میں سورۂ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعد میں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورۂ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورۂ انعام کی مذکورۂ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورۂ نحل کی اِن آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت سورۂ انعام نازل ہو چکی تھی۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے، یعنی سورۂ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورۂ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورۂ نحل ہی میں جملۂ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا۔
۱۱۹- یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک اُمت تھا۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی۔ اُس اکیلے بندۂ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امّت کے کرنے کا تھا۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا۔
۱۲۰- یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدیؐ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملتِ ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلاً یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملّتِ ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفارِ مکّہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیمؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی ﷺ اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔
۱۲۱- یہ کفارِ مکّہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سَبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور مِلّتِ ابراہیمی میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے اُن مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں (مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب ۲۰، آیت ۸ تا ۱۱۔ باب ۲۳، آیت ۱۲ و ۱۳۔ باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۷۔ باب ۳۵، آیت ۲ و ۳۔ گنتی باب ۱۵، آیت ۳۲ تا ۳۶)، اور دوسری طرف اُن جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے (مثلاً ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷، آیت ۲۱ تا ۲۷۔ حِزقی ایل، باب ۲۰، آیت ۱۲ تا ۲۴)۔
۱۲۲- یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں۔ ایک حکمت۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔
حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھار ا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔
۱۲۳- یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔
۱۲۴- یعنی جو خدا سے ڈر کر ہر قسم کے بُرے طریقوں سے پرہیز کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں۔ دوسرے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی بُرائی کریں، وہ ان کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی ہی سے دیے جاتے ہیں۔