۱۔۔۔ ان حروف کو مقطعات کہتے ہیں ان کے اصلی معنی تک اوروں کی رسائی نہیں۔ بلکہ یہ بھید ہے اللہ اور رسول کے درمیان جو بوجہ مصلحت و حکمت ظاہر نہیں فرمایا۔ اور بعض اکابر سے جو ان کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ و تسہیل مقصود ہے۔ یہ نہیں کہ مراد حق تعالیٰ یہ ہے۔ تو اب اس کو رائے شخصی کہہ کر تغلیط کرنا محض شخصی رائے ہے جو تحقیق علماء کے بالکل خلاف ہے۔
۲۔۔۔ ۱: یعنی اس کے کلام الٰہی ہونے اور اس کے جملہ مضامین کے واقعی ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔ جاننا چاہیے کہ کسی کلام میں اشتباہ ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو خود اس کلام میں کوئی غلطی اور خرابی ہو، یا سننے والے کے فہم میں خلل ہو۔ اول صورت میں محل ریب یہ کلام ہے اور دوسری صورت میں محل ریب حقیقت میں سمجھنے والے کا فہم ہے۔ کلام بالکل حق ہے گو اس کو اپنی نا فہمی سے وہ کلام محل ریب معلوم ہو۔ سو اس آیت میں ریب کی صورت اول کی نفی فرمائی ہے تو اب یہ شبہ کہ کلام اللہ کے کلام الٰہی اور حق ہونے میں تو سب کفار کو ریب و انکار تھا پھر اس نفی کے کیا معنیٰ بالکل جاتا رہا۔ باقی رہی صورت ثانی اس کو آگے چل کر فرما دیا گیا وان کنتم فی ریب الخ۔
۲: یہاں سے اخیر قرآن تک جواب ہے اھدنا الصراط المستقیم کا جو سوال بندوں کی طرف سے ہوا تھا۔
۳: یعنی جو بندے اپنے خدا سے ڈرتے ہیں ان کو یہ کتاب راستہ بتلاتی ہے کیونکہ جو اپنے خدا سے خائف ہو گا اس کو امور مرضیہ اور غیر مرضیہ یعنی طاعت و معصیت کی ضرور تلاش ہو گی اور جس نافرمان کے دل میں خوف ہی نہیں اس کو طاعت کی کیا فکر اور معصیت سے کیا اندیشہ۔
۳۔۔۔ ۱: یعنی جو چیزیں ان کے عقل و حواس سے مخفی ہیں (جیسے دوزخ، جنت، ملائکہ وغیرہ) ان سب کو اللہ اور رسول کے ارشاد کی وجہ سے حق اور یقینی سمجھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان امور غائبہ کا منکر ہدایت سے محروم ہے۔
۲: اقامت صلوٰۃ کا مطلب ہے کہ ہمیشہ رعایت حقوق کے ساتھ وقت پر ادا کرتے ہیں۔
۳: سب طاعتوں کی اصل تین ہیں۔ اول جو باتیں دل سے تعلق رکھتی ہیں، دوسری بدن سے، تیسری مال سے سو اس آیت میں ہر سہ اصول کو ترتیب وار لے لیا۔
۴۔۔۔ اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کا بیان تھا جن مشرکین نے ایمان قبول کیا (یعنی اہل مکہ) اور اس آیت میں ان کا بیان ہے جو اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) مشرف با اسلام ہوئے۔
۵۔۔۔ یعنی اہل ایمان کے دونوں گروہ مذکورہ بالا دنیا میں ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور آخرت میں ان کو ہر طرح کی مراد ملے گی جس سے معلوم ہو گیا کہ جو نعمت ایمان اور اعمال حسنہ سے محروم رہے ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہیں۔ اب ان دونوں فریق مومنین سے فارغ ہو کر اس کے آگے کفار کی حالت بیان کی جاتی ہے۔
۶۔۔۔ ان کفار سے خاص وہ لوگ مراد ہیں جن کے لئے کفر مقرر ہو چکا اور دولتِ ایمان سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیئے گئے (جیسے ابوجہل ابولہب وغیرہ) ورنہ ظاہر ہے کہ بہت سے لوگ جو کافر تھے مشرف با اسلام ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں۔
۷۔۔۔ اُن کے دلوں پر مہر کر دی (یعنی حق بات کو نہیں سمجھتے) اور کانوں پر مہر کر دی (یعنی سچی بات کو متوجہ ہو کر نہیں سنتے) اور آنکھوں پر پردہ ہے (یعنی راہ حق کو نہیں دیکھتے) کفار کا بیان ختم ہو گیا اب منافقوں کا حال اس کے بعد تیرہ آیتوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔
۸۔۔۔ یعنی دل سے ایمان نہیں لائے جو حقیقت میں ایمان ہے صرف زبان سے فریب دینے کے لئے اظہار ایمان کرتے ہیں۔
۹۔۔۔ یعنی ان کی فریب بازی نہ خدائے تعالیٰ کے اوپر چل سکتی ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور نہ مومنین پر کہ حق تعالیٰ مومنین کو بواسطہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر دلائل و قرائن کے منافقین کے فریب سے آگاہ فرما دیتا ہے بلکہ ان کی فریب بازی کا وبال اور اس کی خرابی حقیقت میں ان ہی کو پہنچتی ہے مگر وہ اس کو اپنی غفلت اور جہالت اور شرارت سے نہیں سوچتے اور نہیں سمجھتے اگر غور کریں تو سمجھ لیں کہ اس فریب بازی سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس کا نتیجہ خراب ہم کو پہنچ رہا ہے حضرت شاہ صاحب قدس سرہ (شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ) کے فہم کی نزاکت ہے کہ یہاں یشعرون کا ظاہر ترجمہ چھوڑ کر اس کا ترجمہ بوجھنا یعنی سوچنا فرمایا۔
۱۰۔۔۔ ۱: یعنی اُن کے دلوں میں نفاق اور دین اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حسد اور عناد یہ مرض پہلے سے موجود تھے اب نزول قرآن اور ظہور شوکت اسلام اور ترقی و نصرت اہل اسلام کو دیکھ دیکھ کر ان کی وہ بیماری اور بڑھ گئی۔
۲: اس جھوٹ کہنے سے وہی اسلام کا جھوٹا دعوی اٰمنا باللّٰہ وبالیوم الاٰخر مراد ہے جو اوپر گزر چکا یعنی عذاب الیم حقیقت میں ان کے نفاق کی سزا ہے نہ مطلق جھوٹ بولنے کی۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ کو اسی باریک فرق پر متنبہ فرمانا منظور ہے جو یکذبون کا ترجمہ جھوٹ بولنے کی جگہ جھوٹ کہنا فرماتے ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ ما ادقَّ نظرہ۔
۱۱۔۔۔ خلاصہ یہ ہے کہ منافقین بچند وجوہ فساد پھیلاتے تھے اول تو خواہشات نفسانیہ میں منہمک تھے اور انقیاد احکام شرعیہ سے کاہل اور متنفر تھے، دوسرے مسلمانوں اور کافروں دونوں کے پاس آتے جاتے تھے اور اپنی قدر و منزلت بڑھانے کو ہر ایک کی باتیں دوسروں تک پہنچاتے رہتے تھے، تیسرے کفار سے نہایت مدارات و مخالطت سے پیش آتے تھے۔ اور امور دین کی مخالفت پر کفار سے اصلا مزاحمت نہ کرتے تھے اور کفار کے اعتراضات و شبہات کو جو دین کی باتوں پر ہوتے تھے مسلمانوں کے روبرو نقل کرتے تھے تاکہ ضعیف الاعتقاد اور ضعیف الفہم احکام شرعیہ میں متردد ہو جائیں اور جب کوئی ان فسادات سے ان کو منع کرتا تو جواب دیتے تھے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام قوم اور ملک مثل زمانہ سابق شیر و شکر ہو کر رہیں اور دین جدید کی وجہ سے جو مخالفت بڑھ گئی ہے بالکل جاتی رہے چنانچہ ہر زمانہ میں دنیا طلب ہوا پرست ایسا ہی کہا کرتے ہیں۔
۱۲۔۔۔ یعنی اصلاح تو حقیقت میں یہ ہے کہ دین حق جملہ ادیان پر غالب ہو اور جملہ اغراض و منافع دنیاوی سے احکام شرعیہ کی رعایت زیادہ کی جائے اور دربارہ دین کسی کی موافقت و مخالفت کی پروا نہ ہو ۔ خاک بر دلداری اغیار پاش منافقین بحیلہ مصالحت و مصلحت اندیشی جو کچھ کرتے ہیں وہ حقیقت میں فساد محض ہے مگر ان کو اس کا شعور نہیں ۔
۱۳۔۔۔ ۱: یعنی اپنے دلوں میں یہ کہتے تھے یا آپس میں یا ان ضعفائے مسلمین سے جو کسی وجہ سے ان کے راز دار بن رہے تھے۔
۲: ۱ سفہاء کہا سچے مسلمانوں کو کہ احکام خداوندی پر دل سے ایسے فدا تھے کہ لوگوں کی مخالفت اور اس کے نتائج بد سے اور انقلاب زمانہ کے مضرات گوناگوں سے اپنا بچاؤ نہ کرتے تھے بخلاف منافقین کے کہ مسلمان و کفار سب سے ظاہر بنا رکھا تھا اور اغراض نفسانی کے سبب آخرت کا کچھ فکر نہ تھا مصلحت بینی اس درجہ غالب تھی کہ ایمان و پابندی احکام شرع کی ضرورت نہ سمجھتے تھے فقط دعویٰ زبانی اور ضروری اعمال بمجبوری ادا کر لینے پر قناعت تھی۔
۳: یعنی بیوقوف حقیقت میں منافقین ہی ہیں کہ مصالح و اغراض دنیاوی پا در ہوا کی وجہ سے آخرت کا خیال نہ کیا فانی کو لینا اور باقی کو چھوڑنا کس قدر حماقت ہے اور مخلوقات سے ڈرنا کہ جن سے ہزار طرح اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں اور علام الغیوب سے نہ ڈرنا کہ جہاں کسی طرح کوئی امر پیش ہی نہ کیا جا سکے کتنی جہالت ہے اور صلح کل کیسے کہ جس میں احکم الحاکمین اور ا سکے مقبول بندوں سے مخالفت کی جاتی ہے مگر منافقین اس درجہ بیوقوف ہیں کہ ایسی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے۔
۱۴۔۔۔ ۱: شیاطین (یعنی شریر لوگ) مراد ان سے یا تو وہ کفار ہیں جو اپنے کفر کو سب پر ظاہر کرتے تھے یا وہ منافقین مراد ہیں جو ان میں رئیس سمجھے جاتے تھے۔
۲: یعنی کفر و اعتقاد دین کے معاملہ میں ہم بالکل تمہارے ساتھ ہیں تم سے کسی حالت میں جدا نہیں ہو سکتے۔
۳: یعنی ظاہری موافقت جو ہم مسلمانوں سے کرتے ہیں اس سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم واقعہ میں اُن کے موافق ہیں۔ ہم تو ان سے تمسخر کرتے ہیں اور ان کی بیوقوفی سب پر ظاہر کرتے ہیں کہ باوجودیکہ ہمارے افعال ہمارے اقوال کے مخالف ہیں مگر وہ اپنی بیوقوفی سے صرف ہماری زبانی باتوں پر ہم کو مسلمان سمجھ کر ہمارے مال اور اولاد پر ہاتھ نہیں ڈالتے اور مال غنیمت میں ہم کو شریک کر لیتے ہیں اور اپنی اولاد سے ہمارا نکاح کر دیتے ہیں اور ہم اُن کے راز کی باتیں اڑا لاتے ہیں۔ اور وہ اس پر بھی ہمارے فریب کو نہیں سمجھتے۔
۱۵۔۔۔ ۱: چونکہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو فرما دیا کہ منافقین کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرو ان کے جان و مال سے ہرگز تعرض نہ کرو اس سے منافقین اپنی حماقت سے سمجھ گئے کہ ایمان لانے سے جو فائدہ مسلمانوں کو ہوا وہ سب فوائد ہم کو بھی صرف زبانی اظہار اسلام سے حاصل ہو گئے اس وجہ سے بالکل مطمئن ہو گئے حالانکہ انجام کار یہ امر منافقین کو سخت بلا میں پھنسانے والا ہے اس کا انجام نہایت خراب ہے تو اب انصاف کیجیئے کہ حقیقت میں تمسخر مسلمانوں کا ہوا یا منافقین کا اور یا تمسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تمسخر کا بدلہ اور سزا ان کو دے گا۔
۲: یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو ڈھیل دی گئی حتیٰ کہ انہوں نے سرکشی میں خوب ترقی کی اور ایسے بہکے کہ اس کا انجام کچھ نہ سوچا اور خوش ہوئے کہ ہم مسلمانوں سے ہنسی کرتے ہیں حالانکہ معاملہ بالعکس تھا جاننا چاہیے کہ آیت میں فی طغیانھم فعل یمدھم کے متعلق ہے مگر تراجم دہلویہ جدیدہ میں اس کو یعمھون کے متعلق کر دیا (جس سے معنی بگڑ کر معتزلہ کے موافق اور اہلِ سنت کے خلاف اور استعمال اہل عرب کے مخالف ہو گئے) جو غلط ہے اور جاننے والے اس کو خوب جانتے ہیں۔
۱۶۔۔۔ ۱: تجارت سے مراد وہی گمراہی کا ہدایت کے بدلے مول لینا ہے جو اس سے پہلے مذکور ہے۔
۲: یعنی منافقین نے بظاہر ایمان قبول کیا اور دل میں کر کو رکھا جس کی وجہ سے آخرت میں خراب اور دنیا میں خوار ہوئے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ان کے احوال پر سب کو مطلع فرما دیا۔ ایمان لاتے تو دارین میں سرخرو ہوتے تو اب ان کی تجارت نے کوئی نفع ان کو نہ پہنچایا نہ دنیا کا اور نہ آخرت کا۔ اور وہ کچھ نہ سمجھے کہ مجرد ایمان زبانی کو کافی اور نافع سمجھ کر اس خرابی اور رسوائی میں گرفتار ہوئے۔ اب ان منافقین کے مناسب حال دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
۱۷۔۔۔ یعنی منافقوں کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اندھیری گھنگھور رات میں آگ روشن کرے جنگل میں راستہ دیکھنے کو اور جب آگ روشن ہو گئی اور راستہ نظر آنے کو ہوا تو خدا تعالیٰ نے اس کو بجھا دیا اور اندھیری رات میں جنگل میں کھڑا رہ گیا کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے ہی منافقین نے مسلمانوں کے خوف سے کلمہ شہادت کی روشنی سے کام لینا چاہا مگر سر دست کچھ فائدہ حقیر (مثل حفظ جان و مال) اٹھانے پائے تھے کہ نور کلمہ شہادت اور منافع سب نیست و نابود ہو گئے اور مرتے ہی عذاب الیم میں مبتلا ہو گئے۔
۱۸۔۔۔ یعنی بہرے ہیں جو سچی بات نہیں سنتے گوں گے ہیں جو سچی بات نہیں کہتے۔ اندھے ہیں جو اپنے نفع و نقصان کو نہیں دیکھتے۔ سو جو شخص بہرا بھی ہو اور گوں گا بھی ہو وہ کس طرح راہ پر آئے صرف اندھا ہو تو کسی کو پکارے یا کسی کی بات سنے تو اب ان سے ہرگز توقع نہیں کہ گمراہی سے حق کی طرف لوٹیں۔
۱۹۔۔۔ دوسری مثل ان منافقین کی ان لوگوں کی سی ہے کہ ان پر آسمان سے مینہ شدت کے ساتھ پڑ رہا ہو اور کئی طرح کی تاریکی اس میں ہو۔ مثلاً بادل بھی تو بر تو بہت غلیظ و کثیف ہے اور قطرات ابر کی بھی بہت کثرت اور ہجوم ہے اور رات بھی اندھیری ہے اور تاریکی شدید کے ساتھ بجلی کی کڑک اور چمک بھی ایسی ہولناک ہے کہ وہ لوگ موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں کہ آواز کی شدت سے دم نہ نکل جائے۔ اسی طرح پر منافقین تکالیف و تحدیدات شرعیہ کو سن کر اور اپنی خواری و رسوائی کو دیکھ کر اور اغراض و مصالح دنیاوی کو خیال کر کے عجب کشمکش اور خوف و پریشانی میں مبتلا ہیں اور اپنی بیہودہ تدبیروں سے اپنا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر حق تعالیٰ کی قدرت سب طرف سے کفار کا احاطہ کئے ہوئے ہے ا سکی گرفت و عذاب سے وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔
۲۰۔۔۔ حاصل یہ ہے کہ منافقین اپنی ضلالت اور ظلماتی خیال میں مبتلا ہیں لیکن جب غلبہ نور اسلام اور ظہور معجزات قویہ دیکھتے ہیں اور تاکید و تہدید شرعی سنتے ہیں تو متنبہ ہو کر ظاہر میں صراط مستقیم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور جب کوئی اذیت و مشقت دنیاوی نظر آتی ہے تو کفر پر اڑ جاتے ہیں جیسے شدت باراں اور تاریکی میں بجلی چمکی تو قدم رکھ لیا پھر کھڑے ہو گئے مگر چونکہ اس کو سب کا علم ہے اور اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں تو ایسے حیلوں اور تدبیروں سے کیا کام نکل سکتا ہے۔
فائدہ: سورۃ کے اول سے یہاں تک تین طرح کے لوگوں کا ذکر فرمایا۔ اول مومنوں کا پھر کافروں کا (جن کے دلوں پر مہر ہے کہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے) تیسرے منافقوں کا (جو دیکھنے میں مسلمان ہیں مگر دل ان کا ایک طرف نہیں)۔
۲۲۔۔۔ اب سب بندوں کو مومن ہوں یا کافر یا منافق خطاب فرما کر توحید جناب باری سمجھائی جاتی ہے جو ایمان کے لئے اصل الاصول ہے خلاصہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اور تم سے پہلوں کو سب کو پیدا کیا اور تمہاری ضروریات اور کل منافع کو بنایا۔ پھر اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو معبود بنانا جو تم کو نہ نفع پہنچا سکے نہ مضرت (جیسے بت) کس قدر حماقت اور جہالت ہے حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس جیسا کوئی نہیں۔
۲۳۔۔۔ ۱: یہ بات گزر چکی ہے کہ اس کلام پاک میں شبہ کی وجہ یا یہ ہو سکتی تھی کہ اس کلام میں کوئی بات کھٹکے کی ہو سو اس کے دفعیہ کے لئے لا ریب فیہ فرما چکے ہیں۔ اور یا یہ صورت ہو سکتی ہے کہ کسی کے دل میں اپنی کوتاہی فہم یا زیادت عناد سے شبہ پیدا ہو تو یہ صورت چونکہ ممکن بلکہ موجود تھی تو اس کے رفع کرنے کی عمدہ اور سہل صورت بیان فرما دی کہ اگر تم کو اس کلام کے کلام بشری ہونے کا خیال ہے تو تم بھی تو ایک سورۃ ایسی فصیح و بلیغ تین آیت کی مقدار بنا دیکھو اور جب تم باوجود کمال فصاحت و بلاغت چھوٹی سی سورۃ کے مقابلہ سے بھی عاجز ہو جاؤ تو پھر سمجھ لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بندہ کا نہیں، اس آیت میں آپ کی نبوت کو مدلل فرما دیا۔
۲: یعنی اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بندے کا کلام ہے تو جس قدر قابل اور شاعر اور فصحاء و بلغاء موجود ہیں خدائے تعالیٰ کے سوا سب سے مدد لے کر ہی ایک چھوٹی سی سورۃ ایسی بنا لاؤ یا یہ مطلب ہے کہ خداوند کریم کے سوا تمہارے جتنے معبود ہیں سب سے تضرع اور گریہ و زاری کے ساتھ دعا مانگو کہ اس مشکل بات میں تمہاری کچھ مدد کریں۔
۲۴۔۔۔ پھر اس پر بھی اگر تم ایسی ایک سورۃ نہ بنا سکو اور یہ بات یقینی ہے کہ ہرگز نہ بنا سکو گے تو پھر ڈرو اور بچو نار دوزخ سے جو سب آگوں سے تیز ہے اس کا ایندھن کافر اور پتھر ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو اور بچنے کی صورت یہی ہے کہ کلام الٰہی پر ایمان لاؤ اور وہ آگ کافروں کے واسطے تیار کی ہوئی ہے جو کہ قرآن شریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا بتلاتے ہیں۔
۲۵۔۔۔ ۱: جنت کے میوے دنیا کے میووں سے شکل و صورت میں ملتے جلتے ہوں گے مگر لذت میں زمین و آسمان کا فرق ہو گا یا جنت کے میوے باہم ایک شکل و صورت کے ہوں گے اور مزا جدا جدا تو جب کسی میوے کو دیکھیں گے تو کہیں گے وہی قسم ہے جو پہلے دنیا میں یا جنت میں کھا چکے ہیں۔ اور چکھیں گے تو مزا اور ہی پائیں گئے۔
۲: جنت کی عورتیں نجاسات ظاہرہ و باطنہ (اخلاق رذیلہ) سے سب سے پاک وصاف ہوں گی۔
فائدہ : یہاں تک تین چیزیں جن کا جاننا ضروری تھا بیان فرمائیں اول مبدا (یعنی ہم کہاں سے آئے اور کیا تھے) دوسرے معاش (کہ کیا کھائیں اور کہاں رہیں) تیسرے معاد (کہ ہمارا انجام کیا ہے)۔
۲۶۔۔۔ ۱: اس آیت میں اس معارضہ کا جواب دیا گیا جو کفار کی طرف سے پہلی آیت پر ہوا۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب چھوٹی سی سورت بھی اس کلام جیسی ان سے نہ ہو سکی جس سے اس کا کلام الٰہی ہونا ثابت ہو چکا تو کفار نے کہا ہر چند ہم اس کلام کے مقابلہ سے عاجز ہیں مگر ہم دوسری دلیل سے اس کا کلام الٰہی نہ ہونا اور کلام بشری ہونا ثابت کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ بڑے بزرگ عظیم الشان اپنے کلام میں ذلیل و حقیر چیزوں کے ذکر سے اجتناب کیا کرتے ہیں حق تعالیٰ جو سب بزرگوں سے برتر اور اعظم ہے اس نے کیسے اپنے کلام میں مکھی اور مکڑی کا ذکر فرمایا اس معارضہ کا جواب دیا گیا کہ اس میں کوئی شرم اور عار کی بات نہیں کہ حق تعالیٰ مچھر یا اس سے بڑی چیز مثل مکھی اور مکڑی کی مثال بیان فرمائے کیونکہ مثال سے تو توضیح و تفصیل ممثل لہ کی مطلوب ہوتی ہے۔ حقارت اور عظمت سے کیا بحث اور یہ مطلوب جبھی حاصل ہو گا کہ مثال اور ممثل لہ میں پوری مطابقت ہو ممثل لہ حقیر ہو گا تو اس کی مثال بھی حقیر ہونی چاہیے ورنہ تمثیل ہی بیہودہ سمجھی جائے گی۔ ہاں اگر تمثیل میں یہ ہوتا کہ مثال اور مثال دینے والے میں موافقت ضروری ہوتی تو بے وقوفوں کا یہ اعتراض چل سکتا مگر اس کا تو کوئی بیوقوف بھی قائل نہ ہو گا اور تورات و انجیل و کلام حکماء و سلاطین میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ اس کے خلاف کہنا کفار کی حماقت اور عناد کی بات ہے اور فما فوقھا کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مچھر سے حقارت اور چھوٹائی میں زیادہ ہو جیسے مچھر کے بازو کہ بعض احادیث میں اس کو دنیا کی تمثیل میں ذکر فرمایا ہے۔
۲: یعنی ایمان والے تو ان مثالوں کو حق اور مفید سمجھتے ہیں اور کفار بطور تحقیر کہتے ہیں کہ ایسی حقیر مثالوں سے خدا کی مراد اور غرض کیا ہو گی، جواب دیا گیا کہ اس کلام سراپا ہدایت سے بہتیروں کو گمراہی میں ڈالنا اور بہتیروں کو راہ راست دکھلانا منظور ہے (یعنی اہل حق اور اہل باطل میں تمیز تام منظور ہے جو نہایت مفید اور ضروری ہے۔
۲۷۔۔۔ ۱: جیسے قطع رحم کرنا، انبیاء اور علماء اور واعظین، اور مومنین اور نماز اور دیگر جملہ امور خیر سے اعراض کرنا۔
۲: فساد سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو ایمان سے نفرت دلاتے تھے اور مخالفین اسلام کو ورغلا کر مسلمانوں سے مقاتلہ کراتے تھے اور حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صلحائے امت کے عیب نکال کر تشہیر کرتے تھے تاکہ آپ کی اور دین اسلام کی بے وقعتی لوگوں کے ذہن نشین ہو جائے۔ اور مسلمانوں کا راز مخالفوں تک پہنچاتے تھے اور طرح طرح کی رسوم و بدعات خلاف طریقہ اسلام پھیلانے میں سعی کرتے تھے۔
۳: مطلب یہ ہے کہ ان حرکات ناشائستہ سے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں، توہین اسلام اور تحقیر صلحائے امت کچھ بھی نہ ہو سکے گی۔
۲۸۔۔۔ ۱: یعنی اجسام بے جان کہ حس و حرکت کچھ نہ تھی۔ اول عناصر تھے اس کے بعد والدین کی غذا بنے، پھر نطفہ، پھر خون بستہ پھر گوشت۔
۲: یعنی حالات سابقہ کے بعد نفخ روح کیا گیا جس سے رحم مادر اور اس کے بعد دنیا میں زندہ رہے۔
۳: یعنی جب دنیا میں وقت مرنے کا آئے گا۔
۴: یعنی قیامت کو زندہ کئے جاؤ گے حساب لینے کے واسطے۔
۵: یعنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب و کتاب کے واسطے کھڑے کئے جاؤ گے۔ سو اب انصاف کرو کہ جب تم اول سے آخر تک اللہ تعالیٰ کے احسانات کے مرہون ہو اور ہر حالت اور حاجت میں اس کے محتاج اور اس کے متوقع ہو۔ پھر اس پر بھی کفر کرنا اور اس کی نافرمانی کرنا کس قدر تعجب خیز امر ہے۔
۲۹۔۔۔ اس آیت میں دوسری نعمت بیان فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری بقاء اور انتفاع کے لئے زمین میں ہر طرح کی چیزیں بکثرت پیدا فرمائیں (مطعومات اور مشروبات اور ملبوسات اور ہر چیز کے لئے آلات و سامان) اس کے بعد متعدد آسمان بنائے گئے جس میں تمہارے لئے طرح طرح کے منافع ہیں۔
۳۰۔۔۔ ۱: اب ایک بڑی نعمت کا ذکر کیا جاتا ہے جو جملہ بنی آدم پر کی گئی اور وہ حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش کا قصہ ہے جو تفصیل سے بیان کیا گیا اور ان کو خلیفۃ اللہ بنایا گیا۔ پہلی آیت میں جو خلق لکم ما فی الارض جمیعا فرمایا تھا۔ اس میں کسی کو انکار پیش آئے تو قصہ حضرت آدم سے اس کا جواب بھی بخوبی ہو گیا۔
۲: ملائکہ کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق کہ جس میں مفسد اور خونریز تک ہوں گے ہم ایسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ان کو خلیفہ بنانا اس کی وجہ کیا ہو گی؟ تو بطریق استفادہ یہ سوال کیا۔ اعتراض ہرگز نہ تھا رہا یہ امر کہ ملائکہ کو بنی آدم کا حال کیونکر معلوم ہوا، اس میں بہت سے احتمال ہیں۔ جنات پر قیاس کیا یا حق تعالیٰ نے پہلے بتا دیا تھا یا لوح محفوظ پر لکھا دیکھا۔ یا سمجھ گئے کہ حاکم و خلیفہ کی ضرورت جبھی ہو گی جب ظلم و فساد ہو گا یا حضرت آدم کے قالب کو دیکھ کر بطور قیافہ سمجھ گئے ہوں (جیسا ابلیس نے حضرت آدم کو دیکھ کر کہا کہ بہکول ہوں گے) اور ایسا ہی ہوا۔
۳: فرشتوں کو سر دست بالا جمال یہ جواب دیا گیا کہ ہم خوب جانتے ہیں اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں تم کو ابھی تک وہ حکمتیں معلوم نہیں ورنہ اس کی خلافت اور افضلیت میں شبہ نہ کرتے۔
۳۲۔۔۔ خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم کو ہر ایک چیز کا نام مع اس کی حقیقت اور خاصیت کے اور نفع اور نقصان کے تعلیم فرما دیا اور یہ علم ان کے دل میں بلاواسطہ کلام القاء کر دیا کیونکہ بدون اس کمال علمی کے خلافت اور دنیا پر حکومت کیونکر ممکن ہے اس کے بعد ملائکہ کو اس حکمت پر مطلع کرنے کی وجہ سے ملائکہ سے امور مذکورہ کا سوال کیا گیا اگر تم اپنی اس بات میں کہ تم کار خلافت انجام دے سکتے ہو، سچے ہو تو ان چیزوں کے نام و احوال بتاؤ لیکن انہوں نے اپنے عجز و قصور کا اقرار کیا اور خوب سمجھ سے کہ بدون اس علم عام کے کوئی کار خلافت زمین میں نہیں کر سکتا اور اس علم عام سے قدر قلیل ہم کو اگر حاصل ہوا بھی تو اتنی بات سے ہم قابل خلافت نہیں ہو سکتے۔ یہ سمجھ کر کہہ اٹھے کہ تیرے علم و حکمت کو کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔
۳۳۔۔۔ اس کے بعد حضرت آدم سے جو تمام اشیائے عالم کی نسبت سوال ہوا تو فرفر سب امور ملائکہ کو بتا دیئے کہ وہ بھی سب دنگ رہ گئے، اور حضرت آدم کے احاطہ علمی پر عش عش کر گئے تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ کہو ہم نہ کہتے تھے کہ ہم جملہ مخفی امور آسمان و زمین کے جاننے والے ہیں اور تمہارے دل میں جو باتیں مکنون ہیں وہ بھی سب ہم کو معلوم ہیں۔
فائدہ۔ اس سے علم کی فضیلت عبادت پر ثابت ہوئی دیکھئے عبادت میں ملائکہ اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ معصوم، مگر علم میں چونکہ انسان سے کم ہیں اس لئے مرتبہ خلافت انسان ہی کو عطا ہوا اور ملائکہ نے بھی اس کو تسلیم کر لیا اور ہونا بھی یوں ہی چاہیے کیونکہ عبادت تو خاصہ مخلوقات ہے خدا کی صفت نہیں، البتہ علم خدائے تعالیٰ کی صفتِ اعلیٰ ہے اس لئے قابل خلافت یہی ہوئے کیونکہ ہر خلیفہ میں اپنے مستخلف عنہ کا کمال ہونا ضروری ہے۔
۳۴۔۔۔ ۱: جب حضرت آدم کا خلیفہ ہونا مسلم ہو چکا تو فرشتوں کو اور ان کے ساتھ جنات کو حکم ہوا کہ حضرت آدم کی طرف سجدہ کریں اور ان کو قبلہ سجود بنائیں جیسا سلاطین اپنا اول ولی عہد مقرر کرتے ہیں پھر ارکان دولت کو نذریں پیش کرنے کا حکم کرتے ہیں تاکہ کسی کو سرتابی کی گنجائش نہ رہے چنانچہ سب نے سجدہ مذکور ادا کیا سوائے ابلیس کے کہ اصل سے جنات میں تھا اور ملائکہ کے ساتھ کمال اختلاط رکھتا تھا اور سبب اس سرکشی کا یہ ہوا کہ جنات چند ہزار سال سے زمین میں متصرف تھے اور آسمان پر بھی جاتے تھے۔ جب ان کا فساد اور خونریزی بڑھی تو ملائکہ نے بحکم الٰہی بعض کو قتل کیا اور بعض کو جنگل پہاڑ اور جزائر میں منتشر کر دیا۔ ابلیس ان میں بڑا عالم و عابد تھا اس نے جنات کے فساد سے اپنی بے لوثی ظاہر کی، فرشتوں کی سفارش سے یہ بچ گیا اور ان ہی میں رہنے لگا اور اس طمع میں کہ تمام جنات کی جگہ اب صرف میں زمین میں متصرف بنایا جاؤں عبادت میں بہت کوشش کرتا رہا اور خلافت ارض کا خیال پکاتا رہا۔ جب حکم الٰہی حضرت آدم کی نسبت خلافت کا ظاہر ہوا تو ابلیس مایوس ہوا اور عبادت ریائی کے رائگاں جانے پر جوش حسد میں سب کچھ کیا اور ملعون ہوا۔
۲: یعنی علم الٰہی میں پہلے ہی کافر تھا اوروں کو گو اب ظاہر ہوا یا یوں کہو کہ اب کافر ہو گیا اس وجہ سے کہ حکم الٰہی کا بوجہ تکبر انکار کیا اور حکم الٰہی کو خلاف حکمت و مصلحت اور موجب عار سمجھا یہ نہیں کہ فقط سجدہ ہی نہیں کیا۔
۳۵۔۔۔ مشہور ہے کہ وہ درخت گیہوں کا تھا یا بقول بعض انگور یا انجیر، یا ترنج وغیرہ کا واللہ اعلم ۔
۳۶۔۔۔ ۱:کہتے ہیں کہ حضرت آدم اور حوا بہشت میں رہنے لگے اور شیطان کو اس کی عزت کی جگہ سے نکال دیا، شیطان کو اور حسد بڑھا بالآخر مور اور سانپ سے مل کر بہشت میں گیا اور بی بی حوّا کو طرح طرح سے ایسا پھسلایا اور بہکایا کہ انہوں نے وہ درخت کھا لیا اور حضرت آدم کو بھی کھلایا اور ان کو یقین دلا دیا تھا کہ اس کے کھانے سے اللہ کے ہمیشہ کو مقرب ہو جاؤ گے اور حق تعالیٰ نے جو ممانعت فرمائی تھی اس کی توجیہ گھڑ دی۔ آئندہ یہ قصہ مفصل آئے گا۔
۲: اس خطا کی سزا میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا اور جو اولاد پیدا ہونے والی تھی سب کی نسبت یہ حکم ہوا کہ بہشت سے زمین پر جا کر رہو۔ باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے جس کی وجہ سے تکلیفیں پیش آئیں گی۔ بہشت دارالعصیان اور دارالعداوۃ نہیں۔ ان امور کے مناسب دار دنیا ہے جو تمہارے امتحان کے لئے بنایا گیا ہے۔
۳: یعنی دنیا میں ہمیشہ نہ رہو گے بلکہ ایک وقت معین تک وہاں رہو گے اور وہاں کی چیزوں سے بہرہ مند ہو گے اور پھر ہمارے ہی رو برو آؤ گے اور وہ وقت معین ہر ہر شخص کی نسبت تو اس کی موت کا وقت ہے اور تمام عالم کے حق میں قیامت کا۔
۳۷۔۔۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے حق تعالیٰ کا حکم عتاب آمیز سنا اور جنت سے باہر آ گئے تو بحالت ندامت و انفعال گریہ و زاری میں مصروف تھے اس حالت میں حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چند کلمات ان کو القاء اور الہام کے طور پر بتلائے جن سے ان کی توبہ قبول ہوئی وہ کلمات یہ ہیں ربنا ظلمنا انفسنا آخر آیت تک۔
۳۸۔۔۔ ۱: مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تو قبول فرمائی مگر فی الفور جنت میں جانے کا حکم نہ فرمایا بلکہ دنیا میں رہنے کا جو حکم ہوا تھا اسی کو قائم رکھا کیونکہ مقتضائے حکمت و مصلحت یہی تھا۔ ظاہر ہے کہ زمین کے لئے خلیفہ بنائے گئے تھے نہ کہ جنت کے لئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ جو ہمارے مطیع ہوں گے ان کو دنیا میں رہنا مضر نہ ہو گا بلکہ مفید، ہاں جو نافرمان ہیں ان کے لئے جہنم ہے اور اس تفریق و امتحان کے لئے بھی دنیا ہی مناسب ہے۔
۳۹۔۔۔ جو صدمہ اور اندیشہ کسی مصیبت پر اس کے ہونے سے پہلے ہوتا ہے اس کو خوف کہتے ہیں اور اس کے واقع ہو چکنے کے بعد جو غم ہوتا ہے اس کو حزن کہتے ہیں۔ مثلاً کسی مریض کے مر جانے کے خیال پر جو صدمہ ہے وہ خوف ہے اور مر جانے کے بعد جو صدمہ ہے وہ حزن ہے۔ اس آیت میں جو خوف و حزن کی نفی فرمائی اس سے اگر خوف و حزن دنیاوی مراد لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ جو لوگ ہماری ہدایت کے موافق چلیں گے اس میں اس اندیشہ کی گنجائش نہیں کہ شاید یہ ہدایت حقہ نہ ہو شیطان کی طرف سے دھوکہ اور مغالطہ ہو اور نہ وہ اس وجہ سے کہ ان کے باپ سے بالفعل بہشت چھوٹ گئی محزون ہوں گے کیونکہ ہدایت والوں کو عنقریب جنت ملنے والی ہے اور اگر خوف و حزن آخرت مراد ہو تو یہ مطلب ہو گا کہ قیامت کو اہلِ ہدایت کو نہ خوف ہو گا نہ حزن مگر حزن کا نہ ہونا تو بیشک مسلم لیکن خوف کی نفی فرمانے پر ضرور یہ خلجان ہوتا ہے کہ اس روز خوف تو حضرات انبیاء علیہم السلام تک کو ہو گا کوئی بھی خوف سے خالی نہ ہو گا۔ تو بات یہ ہے کہ خوف دو طرح ہوتا ہے کبھی تو خوف کا باعث اور مرجع خائف (یعنی ڈرنے والے) میں پایا جاتا ہے جیسے مجرم بادشاہی جو بادشاہ سے ڈرتا ہے تو موجب خوف جرم ہے جو مجرم کی طرف رجوع ہوتا ہے اور کبھی مرجع خوف مخوف منہ یعنی جس سے ڈرتے ہیں اس میں کوئی امر ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی بادشاہ صاحب جاہ و جلال کے روبرو یا شیر کے روبرو ہو تو اس کے خائف ہونے کی یہ وجہ نہیں کہ اس نے بادشاہ یا شیر کا جرم کیا ہے بلکہ قہر و جلال سلطانی اور ہیبت اور غضب و درندگی شیر موجب خوف ہے جس کا مرجع ذات سلطانی اور خود شیر ہے۔ آیت سے پہلی قسم کی نفی ہوئی نہ دوسری قسم کی، شبہ تو جب ہو سکتا تھا کہ لاخوف علیھم کی جگہ لاخوف فیھم یا لایخافون فرماتے۔
۴۰۔۔۔ ۱:اول یایھا الناس اعبدوا خطاب عام تھا اور ان نعمتوں کا ذکر فرمایا تھا جو تمام بنی آدم پر عام تھیں مثلاً زمین و آسمان و جملہ اشیاء کا پیدا کرنا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے ان کو خلیفہ بنانا اور بہشت میں داخل کرنا وغیرہ۔ اب ان میں سے خاص بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا، اور خاص نعمتیں جو وقتاً فوقتاً پشت در پشت ان پر ہوتی چلی آئیں اور انہوں نے جو کفران نعمت کیا ان سب باتوں کو مفصل ذکر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل تمام فرقوں سے بنی آدم میں ممتاز اور اہل علم و کتاب و نبوت اور انبیاء کو پہچاننے والے سمجھے جاتے تھے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک چار ہزار نبی ان میں آ چکے تھے تمام عرب کی نظریں ان کی طرف تھیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں اس لئے ان انعامات اور خرابیوں کو بسط کے ساتھ ذکر فرمایا کہ شرما کر ایمان لائیں، ورنہ اور لوگ ان کی حرکات سے واقف ہو کر ان کی بات کا اعتبار نہ کریں اور اسرائیل نام ہے حضرت یعقوب کا، اس کے معنی ہیں عبداللہ۔
۲: ہزاروں انبیاء ان میں بھیجے گئے۔ تورات وغیرہ کتابیں نازل فرمائیں۔ فرعون سے نجات دے کر ملک شام میں تسلط دیا، من و سلوی نازل ہوا، ایک پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے جو نعمتیں اور خوارق عادات کسی فرقہ کو نصیب نہیں ہوئیں۔
۳: توریت میں یہ قرار کیا تھا کہ تم تورات کے حکم پر قائم رہو گے اور جس پیغمبر کو بھیجوں اس پر ایمان لا کر اس کے رفیق رہو گے تو ملک شام تمہارے قبضہ میں رہے گا (بنی اسرائیل نے اس کو قبول کر لیا تھا) مگر پھر قرار پر قائم نہ رہے بدنیتی کی رشوت لے کے مسئلے غلط بتائے حق کو چھپایا اپنی ریاست جمائی، پیغمبر کی اطاعت نہ کی بلکہ بعض پیغمبروں کو قتل کیا، تورات میں جہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت تھی اس کو بدل ڈالا اس لئے گمراہ ہوئے۔
۴: یعنی منافع دنیاوی کے فوت ہونے سے مت ڈرو۔
۴۱۔۔۔ ۱: توریت میں بتا دیا گیا تھا کہ جو نبی آئے اگر تورات کی تصدیق کرے تو اس کو جانو سچا ہے نہیں تو جھوٹا ہے۔ جاننا چاہیے کہ احکام قرآنی دربارہ اعتقادات اور اخبار انبیاء و احوالِ آخرت و اوامر و نواہی تورات وغیرہ کتب سابقہ کے موافق ہیں، ہاں بعض اوامر و نواہی میں نسخ بھی کیا گیا ہے مگر وہ تصدیق کے مخالف نہیں تصدیق کے مخالف تکذیب ہے اور تکذیب کسی کتاب الٰہی کی ہو بالکل کفر ہے۔ منسوخ تو بعض آیات قرآنی بھی ہیں مگر اس کو نعوذ باللہ کون تکذیب کہہ سکتا ہے۔
۲: یعنی قرآن کی دیدہ و دانستہ تکذیب کرنے والوں میں اول مت ہو کہ قیامت تک کے منکرین کا وبال تمہاری گردن پر ہو، اور مشرکین مکہ نے جو انکار کیا ہے وہ جہل اور بے خبری کے سبب کیا ہے دیدہ و دانستہ ہرگز نہ تھا اس میں تو اول تم ہی ہو گے اور یہ کفر پہلے کفر سے سخت تر ہے۔
۴۳۔۔۔ یعنی با جماعت نماز پڑھا کرو پہلے کسی دین میں با جماعت نماز نہیں تھی اور یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ صرف امور مذکورہ بالا نجات کے لئے تم کو کافی نہیں بلکہ تمام اصول میں نبی آخر الزمان کی پیروی کرو۔ نماز بھی ان کے طور پر پڑھو جس میں جماعت بھی ہو اور رکوع بھی۔
۴۴۔۔۔ بعض علمائے یہود یہ کمال کرتے تھے کہ اپنے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ دین اسلام اچھا ہے اور خود مسلمان نہ ہوتے تھے اور نیز علمائے یہود بلکہ اکثر ظاہر بینوں کو اس موقع پر یہ شبہ پڑھ جاتا ہے کہ جب ہم تعلیم احکام شریعت میں قصور نہیں کرتے اور حق پوشی بھی نہیں کرتے تو اس کی ضرورت نہیں کہ ہم خود بھی احکام پر عمل کریں جب ہماری ہدایت کے موافق بہت سے آدمی اعمال شریعت بجا لاتے ہیں تو بحکم قاعدہ الدال علی الخیر کفاعلہ وہ ہمارے ہی اعمال ہیں تو اس آیت میں دونوں کا بطلان فرما دیا گیا اور آیت سے مقصود یہ ہے کہ واعظ کو اپنے وعظ پر ضرور عمل کرنا چاہیے یہ غرض نہیں کہ فاسق کسی کو نصیحت نہ کرے۔
۴۵۔۔۔ علمائے اہل کتاب جو بعد وضوح حق بھی آپ پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب جاہ اور حب مال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتا دیا صبر سے مال کی طلب اور محبت جائے گی اور نماز سے عبودیت و تذلل نہ آئے گا اور حب جاہ کم ہو گی۔
۴۶۔۔۔ یعنی صبر اور نماز حضور دل سے بہت بھاری ہے مگر ان پر آسان ہے جو عاجزی کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں جن کا خیال اور دھیان یہ ہے کہ ہم کو خدا کے روبرو ہونا اور اس کی طرف پھر جانا ہے (یعنی نماز میں خدا کا قرب اور گویا اس سے ملاقات ہے) یا قیامت میں حساب و کتاب کے لئے روبرو جانا ہے۔
۴۷۔۔۔ چونکہ تقوی اور کمال ایمان کا حاصل کرنا، صبر و حضور استغراق عبادات کے ذریعہ سے دشوار تھا۔ اس لئے اس کا سہل طریقہ تعلیم فرماتے ہیں اور وہ شکر ہے۔ اس وجہ سے حق تعالیٰ اپنے احسانات و انعامات جو ان پر وقتاً فوقتاً ہوئے تھے ان کو یاد دلاتا ہے اور ان کی بد کرداریاں بھی ظاہر فرماتا ہے۔ انسان بلکہ حیوانات تک میں یہ مضمون موجود ہے کہ اپنے منعم کی محبت اور اس کی اطاعت دل نشین ہو جاتی ہے اور چند رکوع میں اس مضمون کو شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔
فائدہ: اہل عالم پر فضیلت کا یہ مطلب ہے کہ جس وقت سے بنی اسرائیل کا وجود ہوا تھا اس وقت سے لے کر اس خطاب کے نزول تک تمام فرقوں سے افضل رہے کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا، جب انہوں نے نبی آخر الزمان اور قرآن کا مقابلہ کیا تو وہ فضیلت بالکل جاتی رہی اور مغضوب علیھم اور ضلال کا لقب عنایت ہوا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کو کنتم خیر امۃ کا خلعت ملا۔
۴۸۔۔۔ جب کوئی کسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے رفیق اکثر یہی کیا کرتے ہیں کہ اول تو اس کے ادائے حق لازم میں کوشش کرتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا تو سعی و سفارش سے بچانے کی تدبیر کرتے ہیں یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر تاوان و فدیہ دے کر چھڑاتے ہیں اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو بالآخر اپنے مددگاروں کو جمع کر کے بزور پرخاش اس کی نجات کی فکر کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اسی ترتیب کے موافق ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص گو کیسا ہی مقرب خداوندی ہو مگر کسی نافرمان عدو اللہ کافر کو منجملہ چاروں صورتوں کے کسی صورت سے نفع نہیں پہنچا سکتا۔ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں ہم پر عذاب نہ ہو گا۔ ہمارے باپ دادا جو پیغمبر ہیں ہمیں بخشوا لیں گے سو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے اس سے اس شفاعت کا انکار نہیں نکلتا جس کے اہلِ سنت قائل ہیں اور جو دیگر آیات میں مذکور ہے۔
۴۹۔۔۔ ۱: فرعون نے خواب دیکھا تھا نجومیوں نے اس کی تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو تیرے دین اور سلطنت کو غارت کر دے گا۔ فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بیٹا پیدا ہو اس کو مار ڈالو اور جو بیٹی ہو اس کو خدمت کے لئے زندہ رہنے دو، خدائے تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا اور زندہ رکھا۔
۲: بلاء کے چند معنی آتے ہیں اگر ذٰلکُم کا اشارہ ذبح کی طرف لیا جائے تو اس کے معنی مصیبت کے ہوں گے اور اگر نجات کی طرف اشارہ ہے تو بلاء کے معنی نعمت کے ہوں گے اور مجموعہ کی طرف ہو تو امتحان کے معنی لئے جائیں گے۔
۵۰۔۔۔ یعنی یاد کرو اے بنی اسرائیل اس نعمت عظیم کو کہ جب تمہارے باپ دادا فرعون کے ڈر سے بھاگے اور آگے دریا اور پیچھے فرعون کا لشکر تھا اور ہم نے تم کو بچا لیا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا۔ یہ قصہ آئندہ مفصل آئے گا۔
۵۱۔۔۔ اور یہ قصّہ اور احسان بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ ہم نے تورات عطا فرمانے کا وعدہ موسیٰ سے چالیس دن رات کا کیا اور ان کے طور پر تشریف لے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی اور تم بڑے بے انصاف ہو کہ بچھڑے کو خدا بنا لیا۔ مفصل یہ قصّہ آئندہ آئے گا۔
۵۲۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ باوجود اس شرک جلی کے ہم نے تم سے درگزر فرمائی اور تمہاری توبہ منظور کی اور تم کو فی الفور ہلاک نہ کیا (جیسے آلِ فرعون کو اس سے کم قصور پر ہلاک کر دیا تھا) کہ تم ہمارا شکر ادا کرو اور احسان مانو۔
۵۳۔۔۔ کتاب تو تورات ہے اور فرقان فرمایا ان احکام شرعیہ کو جن سے جائز نا جائز معلوم ہو یا فرقان کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو جن سے جھوٹے سچے اور کافر و مومن کی تمیز ہو یا تورات ہی کو کہا کہ وہ کتاب بھی ہے اور اس سے حق اور ناحق بھی جدا ہوتا ہے۔
۵۴۔۔۔ ۱: قوم سے مراد خاص وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچھڑے کو سجدہ کیا۔
۲: یعنی جنہوں نے بچھڑے کو سجدہ نہ کیا تھا وہ سجدہ کرنے والوں کو قتل کریں اور بعض کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں تین گروہ تھے۔ ایک وہ جنہوں نے گوسالہ پرستی نہ کی اور دوسروں کو بھی روکا۔ دوسرے وہ جنہوں نے گوسالہ کو سجدہ کیا۔ تیسرے وہ جنہوں نے خود تو سجدہ نہ کیا مگر دوسروں کو منع بھی نہ کیا۔ فریق دوئم کو حکم ہوا کہ مقتول ہو جاؤ۔ تیسرے فریق کو حکم ہوا کہ ان کو قتل کرو تاکہ ان کے سکوت کرنے کی توبہ ہو جائے۔ اور فریق اول اس توبہ میں شریک نہیں ہوئے۔ کیونکہ ان کو توبہ کی حاجت نہ تھی۔
۵۵۔۔۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ مقتول ہو جانا ہی توبہ تھی یا توبہ کا تتمہ تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں قتل عمد کی توبہ کے مقبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے آپ کو وارثان مقتول کے حوالے کر دے ان کو اختیار ہے بدلہ لیں یا معاف کریں۔
۵۶۔۔۔ اس وقت کو بھی ضرور یاد کرو کہ باوجود اس قدر احسانات کے جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جب تک آنکھوں سے صریحاً خدائے تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں۔ اس پر بجلی نے تم کو ہلاک کیا اس کے بعد موسیٰ کی دعا سے ہم نے تم کو زندہ کیا اور یہ اس وقت کا حال ہے کہ حضرت موسیٰ ستر آدمیوں کو منتخب فرما کر کوہ طور پر کلام الٰہی سننے کی غرض سے لے گئے تھے۔ پھر جب انہوں نے کلام الٰہی کو سنا تو انہی ستر نے کہا اے موسیٰ پردے میں سننے کا ہم اعتبار نہیں کرتے آنکھوں سے خدا کو دکھاؤ۔ اس پر ان ستر آدمیوں کو بجلی نے ہلاک کر دیا تھا۔
۵۷۔۔۔ ۱: جب فرعون غرق ہو چکا اور بنی اسرائیل بحکم الٰہی مصر سے شام کو چلے جنگل میں ان کے خیمے پھٹ گئے اور گرمی آفتاب کی ہوئی تو تمام دن ابر رہتا اور اناج نہ رہا تو مَن و سلویٰ کھانے کے لیے اترتا من ایک چیز تھی شیریں دھنیے کے سے دانے ترنجبین کے مشابہ رات کو اوس میں برستے لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے صبح کو ہر ایک اپنی حاجت کے موافق اٹھا لیتا۔ اور سلویٰ ایک پرندہ ہے جس کو بٹیر کہتے ہیں۔ شام کو لشکر کے گرد ہزاروں جمع ہو جاتے۔ اندھیرا ہوئے بعد پکڑ لاتے کباب کر کے کھاتے مدتوں تک یہی کھایا کیئے۔
۲: یعنی اس لطیف و لذیذ غذا کو کھاؤ اور اس پر اکتفا کرو نہ آگے کے لیے ذخیرہ جمع کر کے رکھو اور نہ دوسری غذا سے مبادلہ کی خواہش کرو۔
۳: اول ظلم یہ کیا کہ ذخیرہ کر کے رکھا تو گوشت سڑنا شروع ہو گیا دوسرے مبادلہ چاہا کہ مسور، گیہوں، ککڑی، پیاز وغیرہ ملے۔ جس سے طرح طرح کی تکلیف و مشقت میں مبتلا ہوئے۔
۵۸۔۔۔ ۱:جب جنگل مذکورہ بالا میں پھرتے پھرتے تنگ آ گئے اور من و سلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے تو بنی اسرائیل کو ایک شہر میں داخل ہونے کا حکم ہوا اس کا نام اریحا تھا اس میں قوم عمالقہ جو قوم عاد سے تھی مقیم تھی اور بعض نے بیت المقدس فرمایا ہے۔
۲: اس شہر کے دروازہ میں سے سجدہ شکر کرتے ہوئے جاؤ (اور یہ شکر بدنی ہوا) اور بعض فرماتے ہیں کہ براہ تواضع کمر کو جھکا کر جاؤ۔
۳: اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے جاؤ (یہ شکر زبانی ہوا) جو یہ دونوں باتیں کرے گا اس کی خطائیں ہم معاف کر دیں گے اور نیک بندوں کے لیے ثواب بڑھا دیں گے۔
۵۹۔۔۔ تبدیلی یہ کی کہ بجائے حطۃ براہ تمسخر حِنطۃ کہنے لگے (یعنی گیہوں) اور سجدہ کی جگہ اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا جب شہر میں پہنچے تو ان پر طاعون پڑا، دوپہر میں ستر ہزار یہود مر گئے۔
۶۰۔۔۔ ۱: یہ قصّہ بھی اسی جنگل کا ہے پانی نہ ملا تو ایک پتھر پر عصا مارنے سے بارہ چشمے نکلے اور بنی اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ کسی قوم میں آدمی زیادہ کسی میں کم ہر قوم کے موافق ایک چشمہ تھا اور وجہ شناخت بھی یہی موافقت تھی یا یہ مقرر کر رکھا تھا کہ پتھر کی فلاں جہت فلاں جانب سے جو چشمہ نکلے گا وہ فلاں قوم کا ہو گا اور جو کوتاہ نظر ان معجزات کا انکار کرتے ہیں۔ نیستند آدم غلاف آدم اند دیکھو مقناطیس تو لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس پتھر نے پانی کھینچ لیا تو انکار کی کیا وجہ۔
۲: یعنی پھر فرمایا حق تعالیٰ نے کھاؤ من و سلویٰ اور پیو ان چشموں کا پانی اور عالم میں فساد مت پھیلاؤ۔
۶۱۔۔۔ ۱: یہ قصہ بھی اسی جنگل کا ہے بنی اسرائیل طعام آسمانی من و سلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے ایک طرح کے کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا۔ ہم کو تو زمین کا اناج، ترکاری، ساگ، سبزی چاہیے۔
۲: یعنی من و سلویٰ جو ہر طرح بہتر ہے۔ لہسن اور پیاز وغیرہ سے بدلتے ہو۔
۳: اگر یہی جی چاہتا ہے تو کسی شہر میں جاؤ تمہاری مطلوب چیزیں تم کو سب ملیں گی پھر ایسا ہی ہوا۔
۴: ذلت یہ کہ ہمیشہ مسلمان اور نصاریٰ کے محکوم اور رعیت رہتے ہیں۔ کسی کے پاس مال ہوا تو کیا حکومت سے بالکل محروم ہو گئے، جو موجب عزت تھی اور محتاجی یہ کہ اول تو یہود میں مال کی قلت اور جن کے پاس مال ہو بھی تو حکام وغیرہ کے خوف سے اپنے آپ کو مفلس اور حاجتمندی ظاہر کرتے ہیں۔ شدّتِ حرص اور بخل کے باعث محتاجوں سے بدتر نظر آتے ہیں اور یہ بھی درست کہ تو نگری بدل است نہ بمال اس لیے مالدار ہو کر بھی محتاج ہی رہے اور عظمت اور عزت جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی اس سے رجوع کر کے اس کے غضب و قہر میں آ گئے۔
۵: یعنی اس ذلت اور مسکنت و غضب الٰہی کا باعث ان کا کفر اور انبیاء علیہم السلام کا قتل کرنا تھا اور اس کفر و قتل کا باعث احکام کی نافرمانی اور حدود شرع سے خروج تھا۔
۶۲۔۔۔ یعنی کسی فرقہ خاص پر موقوف نہیں یقین لانا شرط ہے اور عمل نیک، سو جس کو یہ نصیب ہوا ثواب پایا۔ یہ اس واسطے فرمایا کہ بنی اسرائیل اس بات پر مغرور تھے کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں ہم ہر طرح اللہ کے نزدیک بہتر ہیں۔
فائدہ: یہود کہتے ہیں حضرت موسیٰ کی امت کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کی امت کو صائبین ایک فرقہ ہے جس نے ہر ایک دین میں سے اچھا سمجھ کر کچھ اختیار کر لیا ہے اور حضرت ابراہیم کو مانتے ہیں اور فرشتوں کی بھی پرستش کرتے ہیں اور زبور پڑھتے ہیں اور کعبہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔
۶۳۔۔۔ کہتے ہیں کہ تورات نازل ہوئی تو بنی اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ توریت کے حکم تو مشکل اور بھاری ہیں ہم سے نہیں ہو سکتے تب خدائے تعالیٰ نے ایک پہاڑ کو حکم کیا جو ان سب کے سروں پر آن کر اترنے لگا اور سامنے آگ پیدا ہوئی۔ گنجائش سرتابی اصلا نہ رہی مجبوراً احکام تورات کو قبول کیا۔ باقی یہ شبہ کہ پہاڑ سروں پر معلق کر کے تسلیم کرانا تورات کا یہ صریح اجبار و اکراہ ہے جو آیۃ لا اکراہ فی الدین اور نیز قاعدہ تکلیف کے بالکل خلاف ہے کیونکہ بنائے تکلیف تو اختیار پر ہے اور اکراہ مناقض اختیار ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکراہ دربارہ قبول دین ہرگز نہیں۔ دین تو بنی اسرائیل پہلے سے قبول کیے ہوئے تھے اور بار بار حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تقاضا کرتے تھے کہ کوئی کتاب متضمن احکام ہم کو لا کر دو کہ اس پر عمل کریں اور اس پر معاہدہ کر چکے تھے۔ جب تورات ان کو دی گئی تو عہد شکنی پر کمر بستہ ہوئے تو اب پہاڑ کا معلق کرنا نقص عہد سے روکنے کے لیے تھا نہ کہ قبول دین کے لیے۔
۶۴۔۔۔ یعنی عہد و میثاق کر کے پھر پھر گئے۔ سو اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو بالکل تباہ ہو جاتے یعنی اسی وقت ہلاک کر دیے جاتے یا یہ کہ توبہ و استغفار بھی کرتے اور نبی آخر الزمان کی متابعت بھی کرتے تو بھی تمہاری تقصیرات معاف نہ کی جاتیں۔
۶۵۔۔۔ بنی اسرائیل کو تورات میں حکم ہوا تھا کہ شنبہ کا دن خالص عبادت کے لیے مقرر ہے اس دن مچھلی کا شکار مت کرو وہ لوگ فریب اور حیلہ سے ہفتہ کے دن شکار کرنے لگے تو اللہ نے ان کو مسخ کر کے ان کی صورت بندر کی سی کر دی۔ فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ ایک دوسرے کو دیکھتا تھا اور روتا تھا۔ مگر کلام نہیں کر سکتا تھا تین دن کے بعد سب مر گئے اور یہ واقعہ حضرت داؤد کے عہد میں ہوا۔ مفصل سورہ اعراف میں آئے گا۔
۶۶۔۔۔ یعنی اس واقعہ اور اس عقوبت کو ہم نے باعث خوف و عبرت بنا دیا اگلے اور پچھلے لوگوں کے واسطے یعنی جنہوں نے اس عذاب کا مشاہدہ کیا اور جو آئندہ پیدا ہوں گے یا جو بستیاں شہر کے آگے اور اس کے پیچھے آباد تھیں۔
۶۷۔۔۔ ۱: یعنی یاد کرو اس وقت کو کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص عامیل نامی مارا گیا تھا اور اس کا قاتل معلوم نہ ہوتا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا یہ حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کر کے اس کا ایک ٹکڑا مردے پر مارو تو وہ جی اٹھے اور آپ اپنے قاتل کو بتا دے اللہ تعالیٰ نے اس طرح اس مردے کو جِلایا اور اس نے قاتل کو بتا دیا کہ اس کے وارثوں نے ہی بطمع مال قتل کیا تھا۔
۲: کیونکہ یہ تو دیکھا نہ سنا کہ گائے کے ٹکڑا مارنے سے مردہ زندہ ہو جائے۔
۳: یعنی ٹھٹھا کرنا احمق جاہل کا کام ہے اور وہ بھی احکام شرعیہ میں پیغمبر سے یہ ہرگز ممکن نہیں۔
۶۸۔۔۔ یعنی اس کی عمر کتنی ہے اور اس کے حالات کیا ہیں نو عمر ہے یا بوڑھی۔
۶۹۔۔۔ یعنی اس گائے کو ذبح کر ڈالو۔
۷۰۔۔۔ یعنی واضح کر کے بتا دے کہ وہ گائے کس قسم اور کس کام کی ہے۔
۷۱۔۔۔ ۱: یعنی اس کے اعضا میں کوئی نقصان نہیں اور اس کے رنگ میں دوسرے رنگ کا داغ و نشان نہیں بلکہ ساری زرد ہے۔
۲: وہ گائے ایک شخص کی تھی جو اپنی ماں کی خدمت بہت کرتا تھا اور نیک بخت تھا۔ اس شخص سے وہ گائے مول لی اتنے مال کو جتنا اس گائے کی کھال میں سونا بھر سکیں پھر اس کو ذبح کیا۔ اور ایسے لگتے نہ تھے کہ اتنی بڑی قیمت کو لے کر ذبح کریں گے۔
۷۲۔۔۔ یعنی تمہارے اگلے بزرگوں نے عامیل کو مار ڈالا تھا۔ پھر ایک دوسرے پر دھرنے لگا اور تم جس چیز کو چھپاتے تھے (یعنی اپنی ضعف ایمانی یا قاتل کے حال کو) اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر فرمانا چاہتا ہے۔
۷۳۔۔۔ ۱: یعنی جب ایک ٹکڑا اس گائے کا اس کو مارا تو وہ بحکم الٰہی زندہ ہو گیا اور لہو زخم سے بہنے لگا اور اپنے قاتل کا نام بتا دیا جو اسی مقتول کے بھتیجے تھے۔ بطمع مال چچا کو جنگل میں لے جا کر مار ڈالا تھا۔ پھر وہ ان کا نام بتا کر گر پڑا اور مر گیا۔
۲: یعنی اسی طرح زندہ کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو اپنی قدرت کاملہ سے اور اپنی قدرت کی نشانیاں تم کو دکھلاتا ہے کہ شاید تم غور کرو اور سمجھ لو کہ خدائے تعالیٰ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔
۷۴۔۔۔ ۱: یعنی عامیل کے جی اٹھنے کے بعد مطلب یہ کہ ایسی نشانی قدرت دیکھ کر بھی تمہارے دل نرم نہ ہوئے۔
۲: یعنی بعض پتھروں سے بڑا نفع پہنچتا ہے کہ انہار اور پانی بکثرت ان سے جاری ہوتا ہے اور بعض پتھروں سے پانی کم نکلتا ہے اور اول قسم کی نسبت نفع کم ہوتا ہے اور بعض پتھروں سے گو کسی کو نفع نہ پہنچے مگر خود ان میں ایک اثر اور تأثر تو موجود ہے مگر ان کے قلوب ان تینوں قسموں کے پتھر سے سخت تر ہیں نہ ان سے کسی کو نفع اور نہ ان میں کوئی مضمون خیر موجود۔ اور اللہ اے یہودیو تمہارے اعمال سے بے خبر ہرگز نہیں۔
۷۵۔۔۔ فریق سے مراد وہ لوگ ہیں جو کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام الٰہی سننے کے لیے گئے تھے انہوں نے وہاں سے آ کر یہ تحریف کی کہ بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ تمام کلام کے آخر میں ہم نے یہ بھی سنا کہ (کر سکو تو ان احکام کو کر لینا ورنہ ان کے ترک کا بھی تم کو اختیار ہے) اور بعض نے فرمایا کہ کلام الٰہی سے مراد تورات ہے اور تحریف سے مراد یہ ہے کہ (اس کی آیات میں تحریف لفظی و معنوی کرتے تھے) کبھی آپ کی نعت کو بدلا، کبھی آیت رجم کو اڑا دیا وغیرہ۔
۷۶۔۔۔ ۲ یہود میں جو لوگ منافق تھے وہ بطور خوشامد اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزمان کی باتیں مسلمانوں سے بیان کرتے دوسرے لوگ ان میں سے ان کو اس بات پر ملامت کرتے کہ اپنی کتاب سند ان کے ہاتھ میں کیوں دیتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان تمہارے پروردگار کے آگے تمہاری خبر دی ہوئی باتوں سے تم پر الزام قائم کریں گے کہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کو سچ جان کر بھی ایمان نہ لائے اور تم کو لاجواب ہونا پڑے گا۔
۷۷۔۔۔ یعنی اللہ کو تو ان کے سب امور ظاہر ہوں یا مخفی بالکل معلوم ہیں ان کی کتاب کی سب حجتوں کی خبر مسلمانوں کو دے سکتا ہے اور جا بجا مطلع فرما بھی دیا۔ آیت رجم کو انہوں نے چھپایا مگر اللہ نے ظاہر فرما کر ان کو فضیحت کیا ، یہ تو ان کے علماء کا حال ہوا جو عقلمندی اور کتاب دانی کے مدعی تھے۔
۷۸۔۔۔ اور جو جاہل ہیں ان کو تو کچھ بھی خبر نہیں کہ تورات میں کیا لکھا ہے مگر چند آرزوئیں جو اپنے عالموں سے جھوٹی باتیں سن رکھی ہیں (مثلاً بہشت میں یہودیوں کے سوا کوئی نہ جائے گا اور ہمارے باپ دادا ہم کو ضرور بخشوا لیں گے) اور یہ ان کے خیالات بے اصل ہیں جن کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں۔
۷۹۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان عوام جاہلوں کے موافق باتیں اپنی طرف سے بنا کر لکھ دیتے تھے اور خدا کی طرف ان باتوں کو منسوب کرتے۔ مثلاً تورات میں لکھا تھا کہ پیغمبر آخرالزماں خوبصورت پیچواں بال، سیاہ آنکھیں، میانہ قد، گندم رنگ پیدا ہوں گے، انہوں نے پھیر کر یوں لکھا لمبا قد، نیلی آنکھیں، سیدھے بال تاکہ عوام آپ کی تصدیق نہ کر لیں اور ہمارے منافع دنیاوی میں خلل نہ آ جائے۔
۸۰۔۔۔ بعض نے کہا سات دن اور بعض نے چالیس دن (جتنے روز بچھڑے کی پوجا کی تھی) اور بعض نے چالیس سال (جتنی مدت تیہ میں سرگرداں رہے تھے) اور بعض نے کہا ہر ایک جتنی مدت دنیا میں زندہ رہا ۔
۸۱۔۔۔ ۱: یعنی یہ بات غلط ہے کہ یہودی ہمیشہ کے لیے دوزخ میں نہ رہیں گے کیونکہ خلود فی النار اور خلود فی الجنۃ کا جو قاعدہ کلیہ آگے بیان فرمایا ہے اسی کے مطابق سب سے معاملہ ہو گا یہودی اس سے نکل نہیں سکتے۔
۲: گناہ کسی کا احاطہ کر لیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کر لیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو حتیٰ کہ دل میں ایمان و تصدیق باقی ہو گی تو بھی احاطہ مذکور محقق نہ ہو گا۔ تو اب کافر ہی پر یہ صورت صادق آ سکتی ہے۔
۸۳۔۔۔ یعنی احکام الٰہی سے اعراض کرنا تو تمہاری عادت بلکہ طبعیت ہو گئی ہے۔
۸۴۔۔۔ یعنی نہ اپنی قوم کو قتل کرو اور نہ ان کو جلا وطن کرو۔
۸۵۔۔۔ ۱: مدینہ میں دو فریق یہودیوں کے تھے ایک بنی قریظہ دوسرے بنی نضیر۔ یہ دونوں آپس میں لڑا کرتے تھے اور مشرکوں کے بھی مدینہ میں دو فرقے تھے ایک اوس دوسرے خزرج یہ دونوں بھی آپس میں دشمن تھے۔ بنی قریظہ تو اوس کے موافق ہوئے اور بنی نضیر نے خزرج سے دوستی کی تھی۔ لڑائی میں ہر کوئی اپنے موافقوں اور دوستوں کی حمایت کرتا جب ایک کو دوسرے پر غلبہ ہوتا تو کمزوروں کو جلا وطن کرتے ان کے گھر ڈھاتے اور اگر کوئی قید ہو کر پکڑا آتا تو سب رل مل کر مال جمع کر کے اس کا بدلہ دے کر قید سے اس کو چھڑاتے جیسا کہ آئندہ آیت میں آتا ہے۔
۲: یعنی اپنی قوم غیر کے ہاتھ میں پھنستی تو چھڑانے کو مستعد اور خود ان کے ستانے اور گلا کاٹنے تک کو موجود۔ اگر خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ چلو۔
۳: ایسا کرے یعنی بعض احکام کا مانے اور بعض کا انکار کرے اس لیے کہ ایمان کا تجزیہ تو ممکن نہیں تو اب بعض احکام کا انکار کرنے والا بھی کافر مطلق ہو گا۔ صرف بعض احکام پر ایمان لانے سے کچھ بھی ایمان نصیب نہ ہو گا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تو متابعت کرے اور جو حکم کہ اس کی طبعیت یا عبادت یا غرض کے خلاف ہو اس کے قبول میں قصور کرے تو بعض احکام کی متابعت اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔
۸۶۔۔۔ یعنی مفاد دنیاوی کو آخرت کے مقابلہ میں قبول کیا اس لیے کہ جن لوگوں سے عہد کیا تھا اس کو دنیا کے خیال سے نبھایا اور اللہ کے جو احکام تھے ان کی پرواہ نہ کی تو پھر اللہ کے ہاں ایسوں کی کون سفارش یا حمایت کر سکتا ہے۔
۸۷۔۔۔ ۱:مردوں کا زندہ کرنا۔ اکمہ و ابرص وغیرہ مریضوں کا صحت یاب ہونا۔ غیب کی خبریں بتانا یہ حضرت عیسیٰ کے کھلے معجزے ہیں اور روح القدس کہتے ہیں حضرت جبرائیل کو جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے یا اسم اعظم کہ جس کی برکت سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
۲: جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا کہا۔
۳: جیسا کہ حضرت زکریا اور یحییٰ علیہما السلام کو قتل کیا۔
۸۸۔۔۔ یہود اپنی تعریف میں کہتے تھے کہ ہمارے دل غلاف کے اندر محفوظ ہیں، بجز اپنے دین کے کسی کی بات ہم کو اثر نہیں کرتی۔ ہم کسی کی چاپلوسی، سحر بیانی یا کرشمے اور دھوکے کی وجہ سے ہرگز اس کی متابعت نہیں کر سکتے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا وہ بالکل جھوٹے ہیں بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان کو ملعون اور اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔ اس لیے کسی طرح دین حق کو نہیں مانتے اور بہت کم دولت ایمان سے مشرف ہوتے ہیں۔
۸۹۔۔۔ ان کے پاس جو کتاب آئی وہ قرآن ہے اور جو کتاب ان کے پاس پہلے سے تھی وہ تورات ہوئی۔ قرآن کے اترنے سے پہلے جب یہودی کافروں سے مغلوب ہوتے تو خدا سے دعا مانگتے کہ ہم کو نبی آخرالزماں اور جو کتاب ان پر نازل ہو گی ان کے طفیل سے کافروں پر غلبہ عطا فرما۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے اور سب نشانیاں بھی دیکھ چکے تو منکر ہو گئے اور ملعون ہوئے۔
۹۰۔۔۔ ۱: یعنی جس چیز کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچا وہ کفر اور انکار ہے قرآن کا اور انکار بھی محض ضد اور حسد کے سبب۔
۲: ایک غضب تو یہ کہ قرآن بلکہ اس کے ساتھ اپنی کتاب کے بھی منکر ہو کر کافر ہوئے، دوسرے محض حسد اور ضد سے پیغمبر وقت سے انحراف اور خلاف کیا۔
۳: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کو جو ان کے معاصی پر عذاب ہو گا گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہو گا نہ بغرض تذلیل، البتہ کافروں کو بغرض تذلیل عذاب دیا جائے گا۔
۹۱۔۔۔ ۱: جو اللہ نے بھیجا یعنی انجیل و قرآن اور جو اترا ہم پر یعنی تورات مطلب یہ ہوا کہ بجز تورات اور کتابوں کا صاف انکار کرتے ہیں اور انجیل و قرآن کو نہیں مانتے حالانکہ وہ کتابیں بھی سچی اور تورات کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
۲: ان سے کہہ دو کہ اگر تم تورات پر ایمان رکھتے ہو تو پھر تم نے انبیاء کو کیوں قتل کیا کیونکہ تورات میں یہ حکم ہے کہ جو نبی تورات کو سچا کہنے والا آئے اس کی نصرت کرنا اور اس پر ضرور ایمان لانا اور قتل بھی ان انبیاء کو کیا جو پہلے گزر چکے ہیں (جیسے حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام) جو احکام تورات پر عمل کرتے تھے اور اسی کی ترویج کے لیے مبعوث ہوئے تھے ان کے مصدق تورات ہونے میں تو بیوقوف کو بھی تامل نہیں ہو سکتا (یہ بات لفظ قبل سے مفہوم ہوئی)۔
۹۲۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ کہ جن کی شریعت پر قائم ہو اور ان کی شریعت کی وجہ سے اور شرائع حقہ کا انکار کرتے ہو خود انہوں نے کھلے کھلے معجزے تم کو دکھائے (جیسے عصا، ید بیضا اور دریا کا پھاڑنا وغیرہ) مگر جب چند دن کے لیے کوہ طور پر گئے تو اتنے ہی میں بچھڑے کو تم نے خدا بنا لیا۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اپنے درجہ نبوت پر قائم زندہ موجود تھے تو اس وقت تمہارا حضرت موسیٰ اور ان کی شریعت پر ایمان کہاں جاتا رہا تھا اور رسول آخر الزماں کے بغض و حسد میں آج شریعت موسوی کو ایسا پکڑ رکھا ہے کہ خدا کا حکم بھی نہیں سنتے، بیشک تم ظالم تمہارے باپ دادا ظالم یہ حال تو بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ کے ساتھ تھا۔
۹۳۔۔۔ یعنی احکام تورات کی جو تکلیف دی گئی اس کو پوری ہمت و استقلال سے مضبوط پکڑو، چونکہ پہاڑ سر پر معلق تھا جان کے اندیشہ سے زبان سے (یا اس وقت) تو کہہ لیا سمعنا یعنی احکام تورات ہم نے سن لیے اور دل سے (یا بعد میں) کہا عصینا یعنی ہم نے قبول نہیں کیا احکام کو اور وجہ اس کی یہ تھی کہ صورت پرستی ان کے دل میں راسخ ہو چکی تھی ان کے کفر کے باعث وہ زنگ بالکل ان کے دل سے زائل نہیں ہوا بلکہ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔
۹۴۔۔۔ یہود کہتے تھے کہ جنت میں ہمارے سوا کوئی نہ جائے گا اور ہم کو عذاب نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یقینی بہشتی ہو تو مرنے سے کیوں ڈرتے ہو۔
۹۶۔۔۔ یعنی یہودیوں نے ایسے برے کام کیے ہیں کہ موت سے نہایت بچتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ مرتے ہی خیر نظر نہیں آتی حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ جینے پر حریص ہیں۔ اس سے ان کے دعووں کی تغلیط خوب ہو گئی۔
۹۸۔۔۔ یہود کہتے تھے کہ جبرائیل فرشتہ اس نبی کے پاس وحی لاتا ہے اور وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہمارے اگلے بڑوں کو اس سے بہت تکلیفیں پہنچیں۔ اگر جبرائیل کے بدلے اور فرشتہ وحی لائے تو ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر ایمان لائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے جو ان کا دشمن ہے اللہ بیشک ان کا دشمن ہے۔
۱۰۰۔۔۔ یعنی ان کی عادت قدیم ہے کہ جب اللہ یا رسول یا کسی شخص سے کوئی عہد مقرر کرتے ہیں تو انہی میں کی ایک جماعت اس عہد کو پس پشت ڈال دیتی ہے بلکہ بہت یہودی ایسے ہیں جو تورات پر ایمان ہی نہیں رکھتے ایسوں کو عہد شکنی میں کیا باک ہو سکتا ہے۔
۱۰۱۔۔۔ رسول سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور مامعھم سے تورات اور کتاب اللہ سے بھی تورات مراد ہے۔ یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے حالانکہ وہ تورات وغیرہ کتب کے مصدق تھے تو یہود کی ایک جماعت نے خود تورات کو پس پشت ایسا ڈال دیا کہ گویا جانتے ہی نہیں کہ یہ کیا کتاب ہے اور اس میں کیا کیا حکم ہیں سو ان کو جب اپنی ہی کتاب پر ایمان نہیں تو ان سے آگے کو کیا امید کی جائے۔
۱۰۲۔۔۔ یعنی ان احمقوں نے کتاب الٰہی تو پس پشت ڈالی اور شیطانوں سے جادو سیکھا اور اس کی متابعت کرنے لگے۔
۱۰۳۔۔۔ خلاصہ یہ کہ یہود اپنے دین اور کتاب کا علم چھوڑ کر علم سحر کے تابع ہو گئے اور سحر لوگوں میں دو طرف سے پھیلا۔ ایک حضرت سلیمان کے عہد میں۔ چونکہ جنات اور آدمی ملے جلے رہتے تھے تو آدمیوں نے شیطانوں سے سحر سیکھا اور نسبت کر دیا حضرت سلیمان کی طرف کہ ہم کو انہی سے پہنچا ہے اور ان کو حکم جن اور انس پر اسی کے زور سے تھا سو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ کام کفر کا ہے سلیمان کا نہیں دوسرے پھیلا ھاروت ماروت کی طرف سے وہ دو فرشتے تھے شہر بابل میں بصورت آدمی رہتے تھے ان کو علم سحر معلوم تھا جو کوئی طالب اس کا جاتا اول اس کو روک دیتے کہ اس میں ایمان جاتا رہے گا اس پر بھی باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو ان کے ذریعہ سے بندوں کی آزمائش منظور تھی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے علموں سے آخرت کا کچھ نفع نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر ہے اور بغیر حکم خدا کے کچھ نہیں کر سکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ کے ہاں ثواب پاتے۔
۱۰۴۔۔۔ یہودی آ کر آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کی باتیں سنتے۔ بعض بات جو اچھی طرح نہ سنتے اس کو مکرر تحقیق کرنا چاہتے تو کہتے راعنا یعنی ہماری طرف متوجہ ہو اور ہماری رعایت کرو۔ یہ کلمہ ان سے سن کر کبھی مسلمان بھی کہہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ یہ لفظ نہ کہو اگر کہنا ہو تو انظرنا کہو اس کے معنی بھی یہی ہیں اور ابتدا ہی سے متوجہ ہو کر سنتے رہو تو مکرر (پوچھنا ہی نہ پڑے۔ یہود اس لفظ کو بدنیتی اور فریب سے کہتے تھے اس لفظ کو زبان دبا کر کہتے تو راعینا ہو جاتا (یعنی ہمارا چرواہا اور یہود کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے ہیں۔
۱۰۵۔۔۔ یعنی کفار یہود ہوں یا مشرکین مکہ قرآن کے نزول کو تم پر ہرگز پسند نہیں کرتے بلکہ یہود تمنا کرتے ہیں کہ نبی آخر الزمان بنی اسرائیل میں پیدا ہو اور مشرکین مکہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم میں سے ہو مگر یہ تو اللہ کے فضل کی بات ہے کہ امیّ لوگوں میں نبی آخرالزماں کو پیدا فرمایا۔
۱۰۶۔۔۔ یہ بھی یہود کا طعن تھا کہ تمہاری کتاب میں بعض آیات منسوخ ہوتی ہیں، اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہوتی تو جس عیب کی وجہ سے اب منسوخ ہوئی اس عیب کی خبر کیا خدا کو پہلے سے نہ تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیب نہ پہلی بات میں تھا نہ پچھلی میں لیکن حاکم مناسب وقت دیکھ کر جو چاہے حکم کرے اس وقت وہی مناسب تھا اور اب دوسرا حکم مناسب ہے۔
۱۰۷۔۔۔ یعنی ادھر تو اللہ کی قدرت و ملکیت سب پر شامل ادھر اس کی اپنے بندوں پر اعلیٰ درجہ کی عنایت، تو اب مصالح اور منافع بندوں کی اطلاع اور ان پر قدرت کس کو ہو سکتی ہے۔ اور اس کے برابر بندوں کی خیر خواہی کون کر سکتا ہے۔
۱۰۸۔۔۔ یعنی یہودیوں کی باتوں پر ہرگز اعتماد نہ کرنا جس کسی کو یہودیوں کے شبہ ڈالنے سے شبہ پڑ گیا وہ کافر ہوا۔ اس کی احتیاط رکھو اور یہود کے کہنے سے تم اپنے نبی کے پاس شبہے نہ لاؤ جیسے وہ اپنے نبی کے پاس لاتے تھے۔
۱۰۹۔۔۔ ۱: یعنی بہت سے یہودیوں کو آرزو ہے کہ اسی طرح تم کو اے مسلمانوں پھیر کر پھر کافر بنا دیں حالانکہ ان کو واضح ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کا دین، ان کی کتاب، ان کا نبی سب سچےّ ہیں۔
۲: یعنی جب تک ہمارا حکم کوئی نہ آوے اس وقت تک یہود کی باتوں پر صبر کرو۔ سو آخر کو حکم آگیا کہ یہود کو مدینہ کے گرد سے نکال دو۔
۳: یعنی اپنے ضعف سے تردد مت کرو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے تم کو عزیز اور یہود کو ذلیل کرے گا یا یہ کہ تاخیر عجز کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔
۱۱۰۔۔۔ یعنی ان کی ایذاء پر صبر کرو اور عبادات میں مشغول رہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے غافل ہرگز نہیں۔ تمہاری کوئی نیک بات ضائع نہیں ہو سکتی۔
۱۱۱۔۔۔ یعنی یہودی تو کہتے ہیں کہ بجز ہمارے کوئی جنت میں نہ جائے گا اور نصاریٰ کہتے تھے کہ بجز ہمارے کوئی بہشت میں نہ جائے گا۔
۱۱۲۔۔۔ یعنی جس نے خدا کے احکام کو مانا اور اس کا اتباع کیا وہ احکام خواہ کسی نبی کے ذریعہ سے معلوم ہوں اور اپنی قومیت اور آئین پر تعصب نہ کیا جیسا کہ یہود کرتے ہیں تو ان کے لئے اجر نیک ہے اور نہ کوئی امر ان میں ایسا ہے جس کی وجہ سے خوف ہو اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۱۱۳۔۔۔ ۱: یہودیوں نے تورات پڑھ کر سمجھ لیا کہ جب نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہا، تو بیشک وہ کافر ہو گئے اور نصرانیوں نے انجیل میں صاف دیکھ لیا کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت کا انکار کر کے کافر ہو گئے۔
۲: ان جاہلوں سے مشرکین عرب اور بت پرست مراد ہیں۔ یعنی جیسے یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کو گمراہ جانتے ہیں۔ اسی طرح بت پرست بھی اپنے سوا سب فرقوں کو گمراہ اور بے دین بتلاتے ہیں، سو دنیا میں کہتے جائیں قیامت کو فیصلہ ہو جائے گا۔
فائدہ: یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کذلک فرما دیا تو پھر مثل قولھم فرمانے کی کیا حاجت۔ بعض مفسّرین نے جواب دیا کہ مثل قولھم توضیح اور تاکید ہے کذلک کے لئے اور بعض کہتے ہیں کہ یہاں (۲) دو تشبیہ جدا جدا ہیں اس لیے دو لفظ لائے ایک تشبیہ سے تو یہ غرض ہے کہ ان کا اور ان کا مقولہ باہم مشابہ ہیں (یعنی جیسے وہ دوسروں کو گمراہ کہتے ہیں ایسا ہی یہ بھی) اور ایک تشبیہ سے یہ غرض ہے کہ جیسا اہل کتاب یہ دعویٰ بے دلیل اپنی ہوائے نفس اور عداوت سے کرتے تھے ایسے ہی بت پرست بھی بے دلیل محض خواہش نفسانی سے ایسا دعویٰ کرتے ہیں۔
۱۱۴۔۔۔ ۱: اس کے شان نزول نصاریٰ ہیں کہ انہوں نے یہود سے مقاتلہ کر کے تورات کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب کیا یا مشرکین مکہ کہ انہوں نے مسلمانوں کو محض تعصّب و عناد سے حدیبیہ میں مسجد حرام (بیت اللہ) میں جانے سے روکا۔ باقی جو شخص کسی مسجد کو ویران یا خراب کرے وہ اسی حکم میں داخل ہے۔
۲: یعنی ان کفار کو لائق یہی تھا کہ مساجد اللہ میں خوف و تواضع اور ادب و تعظیم کے ساتھ داخل ہوتے کفار نے جو وہاں کی بے حرمتی کی یہ صریح ظلم ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس ملک میں حکومت اور عزّت کے ساتھ رہنے کے لائق نہیں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ ملک شام اور مکہّ اللہ نے مسلمانوں کو دلوا دیا۔
۲: یعنی دنیا میں مغلوب ہوئے، قید میں پڑے مسلمانوں کے باج گذار ہوئے۔
۱۱۵۔۔۔ ۱: یہ بھی یہود و نصاریٰ کا جھگڑا تھا کہ ہر کوئی اپنے قبلہ کو بہتر بتاتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ مخصوص کسی طرف نہیں بلکہ تمام مکان اور جہت سے منزہ۔ البتہ اس کے حکم سے جس طرف منہ کرو گے وہ متوجہ ہے۔ تمہاری عبادت قبول کرے گا بعض نے کہا سفر میں سواری پر نوافل پڑھنے کی بابت یہ آیت اتری۔ یا سفر میں قبلہ مشتبہ ہو گیا تھا جب اتری۔
۲: یعنی اس کی رحمت سب جگہ عام ہے ایک مکان کے ساتھ مخصوص نہیں اور بندوں کے مصالح اور ان کی نیتوں کو اور ان کے اعمال کو سب کو خوب جانتا ہے کہ بندوں کے حق میں کون سی شئے مفید ہے اور کون سی مضر، اسی کے موافق حکم دیتا ہے اور جو اس کی موافقت کرے گا اس کو جزا اور مخالف کو سزا دے گا۔
۱۱۱۷۔۔۔ یہود حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ذات سب باتوں سے پاک ہے بلکہ سب کے سب اس کے مملوک اور مطیع اور مخلوق ہیں۔
۱۱۸۔۔۔ ۱: یعنی اہلِ کتاب اور بت پرستوں میں جو جاہل ہیں وہ سب کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے بلا واسطہ بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی کیوں نہیں بھیجتا کہ رسالت کی تصدیق کر لیں۔
۲: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے لوگوں نے بھی ایسی ہی جہالت کی بات کہی تھی یہ نئی بات نہیں اور جو یقین لانے والے ہیں ان کے لئے ہم نے نبی کے برحق ہونے کی نشانیاں بیان کر دی ہیں۔ اور جو ضد اور عداوت پر اڑ رہے ہیں وہ انکار کریں تو یہ محض عناد ہے ان کا۔
۱۱۹۔۔۔ یعنی تجھ پر الزام نہیں کہ ان کو مسلمان کیوں نہیں کیا۔
۱۲۰۔۔۔ ۱: یعنی یہود اور نصاریٰ کو امرِ حق سے سروکار نہیں۔ اپنی ضد پر اڑ رہے ہیں وہ کبھی تمہارا دین قبول نہ کریں گے۔ بالفرض اگر تم ہی ان کے تابع ہو جاؤ تو خوش ہو جاویں گے اور یہ ممکن نہیں تو اب ان سے موافقت کی امید نہ رکھنی چاہیے۔
۲: یعنی ہر زمانہ میں معتبر وہی ہدایت ہے جو اس زمانہ کا نبی لائے سو اب وہ طریقہ اسلام ہے نہ کہ طریقہ یہود و نصاریٰ۔
۳: یہ بات بطریق فرض ہے۔ یعنی بالفرض اگر آپ ایسا کریں تو قہر الٰہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یا منظور تنبیہ ہے امت کو کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر قرآن کو سمجھ کر دین سے پھرے گا تو اس کو عذاب سے کوئی نہ چھڑا سکے گا۔
۱۲۱۔۔۔ یہود میں تھوڑے آدمی منصف بھی تھے کہ اپنی کتاب کو پڑھتے تھے سمجھ کر وہ قرآن پر ایمان لائے (جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی) یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں ہے یعنی انہوں نے تورات کو غور سے پڑھا انہی کو ایمان نصیب ہوا اور جس نے انکار کیا کتاب کا یعنی اس میں تحریف کی وہ خائب و خاسر ہوئے۔
۱۲۳۔۔۔ بنی اسرائیل کو جو باتیں شروع میں یاد دلائی گئیں تھیں اب ان کے سب حالات ذکر کرنے کے بعد پھر وہی امور بغرض تاکید و تنبیہ یاد دلائے گئے کہ خوب دل نشین ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں اور معلوم ہو جائے کہ اصل مقصود اس قصہ سے یہ ہے۔
۱۲۴۔۔۔ ۱: جیسے حج کے افعال اور ختنہ اور حجامت اور مسواک وغیرہ، سو حضرت ابراہیم علیہ السلام ان احکام کو اللہ کے ارشاد کے موافق اخلاص کے ساتھ بجا لائے اور سب کو پوری طرح سے ادا کیا جس پر لوگوں کے پیشوا بنائے گئے۔
۲: یعنی تمام انبیاء تیری متابعت پر چلیں گے۔
۳: بنی اسرائیل اس پر بہت مغرور تھے کہ ہم اولاد ابراہیم علیہ السلام میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ نبوّت و بزرگی تیری اولاد میں رہے گی اور ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں۔ اور ان کے دین کو سب مانتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا وہ ان سے تھا جو نیک راہ پر چلیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، ایک مدت تک حضرت اسحاق کی اولاد میں پیغمبری اور بزرگی رہی اب حضرت اسماعیل کی اولاد میں پہنچی (اور انہوں نے دونوں بیٹوں کے حق میں دعا کی تھی) اور فرماتا ہے کہ دین اسلام ہمیشہ ایک ہے سب پیغمبر اور سب اُمتیں اس پر گزریں (وہ یہ کہ جو حکم اللہ بھیجے پیغمبر کے ہاتھ اس کو قبول کرنا) اب یہ طریقہ مسلمانوں کا ہے اور تم اس سے پھرے ہوئے ہو۔ پہلی آیات میں اپنے انعامات بتلائے تھے اب اُنکے اس شبہ کو دفع کیا کہ بنی اسرائیل اپنے آپ کو سارے عالم کا امام اور متبوع اور سب سے افضل سمجھ کر کسی کا اتباع نہ کرتے تھے۔
فائدہ: بنی اسرائیل کے واقعات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اور ان کی منقبت مذکور ہوئی اب ان کے ذکر کے ذیل میں خانہ کعبہ کی حالت اور فضیلت ان آیات میں ذکر فرمائی اور ان کے ضمن میں یہود و نصاریٰ پر الزامات بھی ہیں جیسا کہ مفسّرین نے ذکر کیا۔
۱۲۵۔۔۔ ۱: یعنی ہر سال بغرض حج وہاں لوگ مجتمع ہوتے ہیں اور جو وہاں جا کر ارکانِ حج بجا لاتے ہیں وہ عذاب دوزخ سے مامون ہو جاتے ہیں یا وہاں کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔
۲: مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے قدموں کا نشان ہے اور اسی پتھر پر کھڑے ہو کر حج کی دعوت دی تھی اور وہ جنّت سے لایا گیا تھا جیسے حجر اسود۔ اب اس پتھر کے پاس نماز پڑھنے کا حکم ہے اور یہ حکم استحبابی ہے۔
۳: یعنی وہاں بُرا کام نہ کرے اور ناپاک اس کا طواف نہ کرے اور تمام آلودگیوں سے صاف رکھا جاوے۔
۱۲۶۔۔۔ ۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بوقت بنائے کعبہ یہ دعا کی کہ یہ میدان ایک شہر آباد اور با امن ہو سو ایسا ہی ہوا۔
۲: یعنی اس کے رہنے والے جو اہلِ ایمان ہوں ان کو روزی دے میووں کی اور کفار کے لئے دعا نہ کی تاکہ وہ مقام لوث کفر سے پاک رہے۔
۳: حق تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں کفار کو بھی رزق دیا جائے گا اور رزق کا حال امامت جیسا نہیں کہ اہلِ ایمان کے سوا کسی کو مل ہی نہ سکے۔
۱۲۷۔۔۔ قبول کر ہم سے اس کام کو (کہ تعمیر خانہ کعبہ ہے) تو سب کی دعا سنتا ہے اور نیت کو جانتا ہے۔
۱۲۹۔۔۔ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام دونوں نے مانگی کہ ہماری جماعت میں ایک جماعت فرمانبردار اپنی پیدا کر اور ایک رسُول ان میں بھیج جو ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ایسا نبی جو ان دونوں کی اولاد میں ہو بجُز سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کوئی نہیں آیا اس کی وجہ سے یہود کے گذشتہ خیال کا پورا رَد ہو گیا۔ علم کتاب سے مراد معانی و مطالب ضرور یہ ہیں جو عبارت سے واضح ہوتے ہیں اور حکمت سے مراد اسرار مخفیہ اور رموز لطیفہ ہیں۔
۱۳۲۔۔۔ جس ملت و مذہب کا شرف مذکور ہو چکا اسی ملت کی وصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت یعقوب نے اپنی اولاد کو فرمائی تو جو اس کو نہ مانے گا وہ ان کا بھی مخالف ہوا۔ اور یہود کہتے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو یہودیت کی وصیت فرمائی سو وہ جھوٹے ہیں جیسا اگلی آیت میں آتا ہے۔
۱۳۳۔۔۔ یعنی تم حضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیت کے وقت تو موجود بھی نہ تھے۔ انہوں نے تو ملت انبیائے موصوفین کا ارشاد فرمایا تھا تم نے یہ کیا کہ یہود اپنے سوا سب کو اور نصاریٰ اپنے سوا سب کو بے دین بتلانے لگے (اور مذہب حق یعنی اسلام کے دونوں مخالف ہو گئے) تمہارا افتراء ہے۔
۱۳۴۔۔۔ یہودیوں کو اور نصرانیوں کو یقین تھا کہ ماں باپ کے گناہوں میں اولاد گرفتار ہو گی اور ان کے ثواب میں بھی اولاد شریک ہو گی۔ سو یہ غلط ہے اپنا کیا اپنے آگے آئے گا بھلا یا بُرا۔
۱۳۵۔۔۔ ۱: مطلب یہ ہے کہ یہودی مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ یہودی ہو جاؤ، اور نصرانی کہتے کہ نصرانی ہو جاؤ تو تم کو ہدایت نصیب ہو۔
۲: یعنی کہہ دو اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہ تمہارا کہنا ہرگز منظور نہیں بلکہ ہم موافق ہیں ملت ابراہیم علیہ السلام کے جو سب بُرے مذہبوں سے علیٰحدہ ہے۔ نہیں تھا وہ شرک کرنے والوں میں اشارہ ہے کہ تم دونوں فریق شرک میں مبتلا ہو۔ بلکہ مشرکین عرب بھی مذہب ابراہیمی کے مدعی تھے مگر وہ بھی مشرک تھے تو اس میں ان پر بھی رَد ہو گیا۔ اب ان فرقوں میں بروئے انصاف کوئی بھی ملت ابراہیمی پر نہ رہا صرف اہل اسلام ملت ابراہیمی میں رہے۔
فائدہ: ہر شریعت میں تین باتیں ہوتی ہیں۔ اوَل عقائد (جیسے توحید و نبوّت وغیرہ) سو اس میں تو سب دین والے شریک اور موافق ہیں اختلاف ممکن ہی نہیں۔ دوسرے قواعد کلیہ شریعت کہ جن سے جزئیات و فروع مسائل حاصل ہوتے ہیں اور تمام جزئیات میں وہ کلیات ملحوظ رہتے ہیں اور ملت فی الحقیقت انہی اصول اور کلیات کا نام ہے اور ملت محمدی اور ملت ابراہیمی کا توافق و اتحاد انہی کلیات میں ہے۔ تیسرے مجموعہ کلیات و جزئیات و جمیع اصول و فروع (جس کو شریعت کہتے ہیں) جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ایک ہے اور شریعت جُدا جُدا۔
۱۳۶۔۔۔ یعنی ہم سب رسُولوں اور سب کتابوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور سب کو حق سمجھتے ہیں اور اپنے اپنے زمانہ میں سب واجب الاتباع ہیں اور ہم خدا کے فرمانبردار ہیں جس وقت جو نبی ہو گا اس کے ذریعہ سے جو احکامِ خداوندی پہنچیں گے اس کا اتباع ضروری ہے۔ بخلاف اہلِ کتاب کے کہ اپنے دین کے سِوا سب کی تکذیب کرتے ہیں، چاہے ان کا دین منسوخ ہی ہو چکا ہو اور انبیاء کے احکام کو جھٹلاتے ہیں جو خدا کے احکام ہیں۔
۱۳۷۔۔۔ یعنی ان کی دشمنی اور ضد سے خوف مت کرو اللہ ان کے شر اور مضرت سے تمہارا حافظ ہے۔ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ خدا سب کی باتوں کو سنتا اور سب کے حال اور نیت کو جانتا ہے۔
۱۳۸۔۔۔ یہودی ان آیتوں سے پھر گئے اور اسلام قبول نہ کیا اور نصرانیوں نے بھی انکار کر دیا اور شیخی میں آ کر کہنے لگے کہ ہمارے یہاں ایک رنگ ہے جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ نصرانیوں نے ایک زرد رنگ بنا رکھا تھا اور یہ دستور تھا کہ جب ان کے بچہ پیدا ہوتا یا کوئی ان کے دین میں آتا تو اس کو اس رنگ میں غوطہ دے کر کہتے کہ خاصہ پاکیزہ نصرانی ہو گیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو کہو ہم نے خدا کا رنگ یعنی (دین حق) قبول کیا کہ اس دین میں آ کر سب طرح کی ناپاکی سے پاک ہوتا ہے۔
۱۳۹۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نسبت تمہارا نزاع کرنا اور تمہارا یہ سمجھنا کہ اس کی عنایت و رحمت کا ہمارے سوا کوئی مستحق نہیں لغو بات ہے وہ جیسا تمہارا رب ہے ہمارا بھی رب ہے اور ہم جو کچھ اعمال کرتے ہیں خالص اسی کے لئے کرتے ہیں۔ تمہاری طرح زعم آبا و اجداد اور تعصّب و نفسانیت سے نہیں کرتے پھر کیا وجہ کہ ہمارے اعمال وہ مقبول نہ فرمائے اور تمہارے اعمال مقبول ہوں۔
۱۴۰۔۔۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی بابت یہود اور نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ وہ یہودی یا نصرانی تھے دروغ صریح ہے علاوہ ازیں حق تعالیٰ تو فرماتا ہے ماکان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا تو اب بتلاؤ تم کو علم زیادہ ہے یا اللہ تعالیٰ کو۔
۱۴۱۔۔۔ یہی آیت عنقریب گزر چکی ہے مگر چونکہ اہلِ کتاب کے دل میں اپنی بزرگ زادگی کی وجہ سے یہ خیال خوب جم رہا تھا کہ ہمارے اعمال کیسے ہی بُرے ہوں بالآخر ہمارے باپ دادا ہم کو ضرور بخشوائیں گے۔ اس لئے اس بیہودہ خیال کے روکنے کے لئے تاکیداً اس آیت کو مکرر بیان فرمایا، یا یوں کہو کہ پہلی آیت میں اہلِ کتاب کو خطاب تھا اور اس آیت میں آپ کی اُمت کو ہے کہ اس بیہودہ خیال میں ان کا اتباع نہ کریں کیونکہ ایسی توقع اپنے بزرگوں سے ہر کسی کے دل میں آ ہی جاتی ہے جو سراسر بیوقوفی ہے۔ اب اس کے بعد یہود وغیرہ کی دوسری بیوقوفی کی اطلاع دی جاتی ہے جو بہ نسبت تحویل قبلہ عنقریب ظاہر ہونے والی ہے۔
۱۴۲۔۔۔ ۱: حضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے مدینہ میں تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے بیت المقدس ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے اس کے بعد کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آگیا تو یہود اور مشرکین اور منافقین اور بعضے کچے مسلمان ان کے بہکانے سے شبہے ڈالنے لگے کہ یہ تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے جو قبلہ تھا پہلے انبیاء کا اب انہیں کیا ہوا جو اس کو چھوڑ کر کعبہ کو منہ کرنے لگے کسی نے کہا کہ یہود کی عداوت و حسد سے ایسا کیا کسی نے کہا کہ یہ اپنے دین میں متردّد اور متحیر ہیں جن سے ان کا نبی اللہ ہونا ظاہر نہیں ہوتا۔ مخالفوں کے اس اعتراض اور ا سکے جواب کی جو آگے ہے اللہ نے اطلاع فرما دی کہ کسی کو اس وقت کوئی تردّد نہ ہو اور جواب میں تامل نہ ہو۔
۲: یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دو کہ نہ ہم نے یہود کے حسد سے اور نہ کسی نفسانی تعصب اور اپنی رائے کے اتباع سے قبلہ کو بدلا بلکہ محض اتباع فرمانِ خداوندی سے جو کہ ہمارا اصل دین ہے ہم نے ایسا کیا پہلے بیت المقدس کو منہ کرنے کا حکم تھا اس کو ہم نے تسلیم کیا اب کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آیا اس کو دل سے قبول کیا ہم سے اس کی وجہ پوچھنا اور ہم پر اعتراض کرنا سخت حماقت ہے۔ غلام تابعدار پر یہ اعتراض کرنا کہ تو پہلے وہ کام کرتا تھا اب یہ کام کیوں کرنے لگا عاقل کا کام نہیں اور اگر ان احکام مختلفہ کے اسرار دریافت کرتے ہو تو اس کے تمام اسرار کون سمجھے اور تم بیوقوفوں کو کون سمجھائے البتہ اتنی بات ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور ہر ایک کو سمجھا سکتا ہے کہ قبلہ کا معین فرمانا تو طریقہ عبادت کو بتلانے کی غرض سے ہے اصل عبادت ہرگز نہیں اور اس بارے میں حق تعالیٰ کا معاملہ جُدا جُدا ہے کسی کو اپنی حکمت و رحمت کے مطابق ایک خاص راستہ بتلایا جاتا ہے کسی کو دوسرا، تمام مواقع اور جُملہ جہات کا وہ مالک ہے جس کو جس وقت چاہتا ہے اس کو ایسا راستہ بتلا دیتا ہے جو نہایت سیدھا اور سب راستوں سے مختصر اور قریب تر ہو۔ چنانچہ ہم کو اس وقت اس قبلہ کی ہدایت فرمائی جو سب قبلوں میں افضل اور بہتر ہے۔
۱۴۳۔۔۔ ۱:یعنی جیسا تمہارا قبلہ کعبہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ اور تمام قبلوں سے افضل ہے ایسا ہی ہم نے تم کو سب اُمتوں سے افضل اور تمہارے پیغمبر کو سب پیغمبروں سے کامل اور برگزیدہ کیا تاکہ اس فضیلت اور کمال کی وجہ سے تم تمام امتوں کے مقابلہ میں گواہ مقبول الشہادۃ قرار دیئے جاؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری عدالت و صداقت کی گواہی دیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ جب پہلی اُمتوں کے کافر اپنے پیغمبروں کے دعوے کی تکذیب کریں گے اور کہیں گے کہ ہم کو تو کسی نے بھی دنیا میں ہدایت نہیں کی اس وقت آپ کی اُمّت انبیاء کے دعوے کی صداقت پر گواہی دے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو اپنے اُمّتیوں کے حالات سے پُورے واقف ہیں ان کی صداقت و عدالت پر گواہ ہوں گے اسوقت وہ اُمتیں کہیں گی کہ انہوں نے تو نہ ہمارا زمانہ پایا نہ ہم کو دیکھا پھر گواہی کیسے مقبول ہو سکتی ہے اس وقت آپ کی اُمت جواب دے گی کہ ہم کو خدا کی کتاب اور اس کے رسُول کے بتلانے سے اس امر کا علم یقینی ہوا اس کی وجہ سے ہم گواہی دیتے ہیں۔
فائدہ: وسط یعنی معتدل کا یہ مطلب ہے کہ یہ اُمت ٹھیک سیدھی راہ پر ہے جس میں کچھ بھی کجی کا شائبہ نہیں اور افراط و تفریط سے بالکل بَری ہے۔
۲: یعنی اصلی قبلہ تمہارا تو کعبہ ہی تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے اور چند روز کے لئے جو بیت المقدس مقرر کر دیا تھا وہ تو صرف امتحان کے لئے تھا کہ کون تابعداری پر قائم رہتا ہے اور کون دین سے پھر جاتا ہے سو اس میں جو لوگ ایمان پر قائم رہے ان کا بڑا درجہ ہے۔
فائدہ: اس آیت میں لنعلم جو صیغہ استقبال ہے اور دیگر آیات میں جو حتی نعلم اور فلیعلمن اور لمایعلم اللّٰہ اور لنبلونکم اور الا لنعلم وغیرہ کلمات موجود ہیں ان سب سے بظاہر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ کو نعوذ باللہ ان اشیاء کا علم بعد کو ہوا ان چیزوں کے وجود سے پہلے علم نہ تھا، حالانکہ اس کا علم ٍہر چیز کے ساتھ قدیم ہے کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَی ءٍ عَلِیمَا علماء نے کئی طرح سے اس کا جواب دیا ہے بعض نے علم سے متمیز اور جُدا جُدا کر دینا مراد لیا ہے بعض نے امتحان کے معنی لئے کسی نے علم کو بمعنی روایت لیا کسی نے مستقبل کو بمعنی ماضی فرمایا بعض نے حدوثِ علم کو نبی اور مومنین کی طرف رجوع کیا یا مخاطبین کی طرف لوٹایا بعض اکابر محققین نے علم حالی جو بعد وجود معلوم متحقق ہوتا ہے جس پر جزا و سزا مدح و ذم مترتب ہوتی ہے مراد لیا اور اسی کو پسند فرمایا بعض راسخین مدققین نے اس کے متعلق دو باتیں نہایت دقیق و انیق بیان فرمائیں۔ اول کا خلاصہ یہ ہے کہ حسب ارشاد ان اللّٰہ قد احاط بکل شیءِ علماء تمام چیزیں اول سے آخر تک حقیر و عظیم قلیل و کثیر خدا کے سامنے ہیں اور سب کا علم اس کو ایک ساتھ ہے اس کے علم میں تقدم و تاخر ہرگز نہیں مگر آپس میں ایک دوسرے کی نسبت بیشک مقدم اور موخر گنی جاتی ہیں سو علم خداوندی کے حساب سے سب کی سب بمنزلہ شئی واحد موجود ہیں اس لئے وہاں ماضی حال استقبال نکالنا بالکل غلط ہو گا البتہ تقدم و تاخر باہمی کی وجہ سے یہ تینوں زمانے بالبداہت جُدا جُدا نکلیں گے سو جناب باری کبھی تو حسب موقع و حکمت اپنے معلوم ہونے کے لحاظ سے کلام فرماتا ہے اور کبھی ان وقائع کے تقدم و تاخر کا لحاظ ہوتا ہے پہلی صورت میں تو ہمیشہ بلحاظ ایک فرق دقیق کے ہمیشہ ماضی کا صیغہ یا حال کا صیغہ مستعمل ہوتا ہے استقبال کا صیغہ مستعمل نہیں ہو سکتا اور دوسری صورت میں ماضی کے موقع میں ماضی اور حال کے موقع میں حال اور استقبال کی جگہ استقبال لایا جاتا ہے سو جہاں کہیں واقعہ آئندہ کو ماضی کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے جیسا ونادیٰ اصحٰب الجنّۃ وغیرہ تو وہاں اس کا لحاظ ہے کہ حق تعالیٰ کو سب مستحضر اور پیش نظر ہے اور جہاں امور گزشتہ کو صیغہ استقبال سے بیان فرمایا ہے جیسا اسی آیت میں الا لنعلم ہے یا اور اس کے سوا تو وہاں یہ مد نظر ہے کہ بہ نسبت اپنے ما قبل کے مستقبل ہے علم الٰہی کے لحاظ سے استقبال نہیں جو اس کے علم میں حدوث کا وہم ہو دوسری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم کو علم اشیاء دو طریق سے حاصل ہوتا ہے ایک تو بلاواسطہ دوسرا بواسطہ مثلاً آگ کو کبھی تو آنکھ سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کبھی آگ تو ہم سے کسی آڑ میں ہوتی ہے مگر دھوئیں کو دیکھ کر آگ کا یقین ہو جاتا ہے اور بسا اوقات یہ دونوں علم ایک جگہ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں مثلاً آگ کو پاس سے دیکھیئے تو دھُواں بھی اس کے ساتھ نظر آئے گا۔ سو اس صورت میں آگ کا علم دونوں طرح حاصل ہو گا ایک تو بلاواسطہ کیونکہ آنکھ سے آگ کو دیکھ رہے ہیں دوسرا بواسطہ یعنی آگ کا علم دھوئیں کے واسطہ سے اور یہ دونوں علم ہر چند ایک ساتھ ہیں آگے پیچھے پیدا نہیں ہوئے مگر علم بواسطہ علم بلاواسطہ میں ایسا محو ہوتا ہے کہ اس کا دھیان بھی نہیں گزرتا۔ علیٰ ہذا القیاس کبھی دو چیزوں کا علم بلاواسطہ بھی ایک ساتھ حاصل ہوتا ہے مثلاً آگ اور دھوئیں کو ایک ساتھ دیکھئے اسی طرح کبھی ایک شئی کا علم بلاواسطہ اور دوسری شئی کا علم پہلی شئی کے واسطہ سے ایک ساتھ حاصل ہوتے ہیں مثلاً دھوئیں کا علم بلاواسطہ اور آگ کا علم دھوئیں کے واسطہ سے، یا آگ کا علم بلاواسطہ اور دھوئیں کا علم آگ کے واسطہ سے دونوں ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں مگر جیسا قلم کو ہاتھ میں لے کر لکھیں تو ہر چند ہاتھ اور قلم ساتھ ہی ہلتے ہیں لیکن پھر یوں کہتے ہیں کہ ہاتھ پہلے ہلا تو قلم ہلا اسی طرح پر عقل سلیم باوجود ایک ساتھ ہونے کے ایک شے کے علم بلاواسطہ کو دوسری شے کے علم بالواسطہ سے جو بواسطہ پہلی شے کے حاصل ہوا ہے ایک طرح پر ضرور مقدم سمجھتی ہے جب یہ باتیں معلوم ہو چکیں تو اب سنیئے کہ خداوندِ علیم کو بھی تمام اشیاء کا علم دونوں طرح پر ہے بلاواسطہ اور بواسطہ دیگر یعنی لوازم کا ملزومات سے اور ملزومات کا لوازم سے اور دونوں علم ازل سے برابر ساتھی ہیں گو علم بواسطہ کسی چیز کا اس کے علم بلاواسطہ میں محو اور مضمحل ہو اور ایسا ہی ایک چیز کا علم بلاواسطہ اور دوسری چیز کا علم بالواسطہ برابر ساتھ ہے اور دونوں قدیم ہیں گو علم بلاواسطہ کو بطریق مذکور مقدم اور علم بالواسطہ کو موخر کہیں سو جہاں کہیں علمِ خداوندی کے ذکر میں صیغہ استقبال کا یا معنی استقبال کے پائے جاتے ہیں وہ علم بالواسطہ کے لحاظ سے ہے زمانہ کے اعتبار سے کچھ تفاوت نہیں اور جہاں کہیں ماضی یا حال مستعمل ہے وہاں علم بلاواسطہ مراد ہے اور علم بالواسطہ کے اعتبار سے کلام فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ کلام الٰہی کے مخاطب آدمی ہیں اور ان کو اکثر اشیاء کا علم بالواسطہ ہوتا ہے اور جہاں کہیں جناب باری نے اپنے علم میں صیغہ استقبال استعمال فرمایا ہے وہ وہی امور ہیں جو بنی آدم کو بلا واسطہ معلوم نہیں ہو سکتے۔ اگر ایسے موقع میں بنی آدم سے باعتبار علم بلاواسطہ کلام کیا جاتا تو ان پر پُورا الزام نہ ہوتا اور جہاں یہ مصلحت نہیں وہاں باعتبار علم بلاواسطہ صیغہ ماضی یا حال کا استعمال کیا جاتا ہے مگر بنی آدم کو چونکہ ان اشیاء کا علم بِلا واسطہ ہو ہی نہیں سکتا اور ان واسطوں کا علم قبل ان کے وجود کے بنی آدم کو ممکن نہیں اور اس وجہ سے ان کے تمام علوم برابر حاصل نہیں ہوتے تو وہ خدا کو اپنے اُوپر قیاس کر کے صیغہ استقبال سے حدوث سمجھ جاتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ علم الٰہی میں حدوث ثابت ہو گیا مگر فہمیدہ اشخاص جو نکتہ مذکورہ سے واقف ہیں سب کو مطابق یک دگر سمجھتے ہیں والحمد للہ۔
۳: اوّل سے آپ کے لئے خانہ کعبہ قبلہ مقرر ہوا تھا بیچ میں چند عرصہ کے لئے امتحاناً بیت المقدس کو قبلہ مقرر فرمایا اور سب جانتے ہیں کہ امتحان اسی چیز میں ہوتا ہے جو نفس پر دشوار ہو سو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک بجائے کعبہ کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا لوگوں کو بھاری معلوم ہوا عوام مسلمین کو تو اس وجہ سے کہ وہ عموماً عرب اور قریش تھے اور کعبہ کی افضلیت کے معتقد تھے ان کو اپنے خیال اور رسم و عادت کے خلاف کرنا پڑا، اور خواص کے گھبرانے کی یہ وجہ تھی کہ ملّت ابراہیمی کے خلاف تھا جس کی موافقت کے مامور تھے اور اخصُّ الخواص جن کو ذوقِ سلیم اور تمیز مراتب کی لیاقت عطا ہوئی تھی وہ کعبہ کے بعد بیت المقدس کی طرف متوجہ ہونے کو ترقی معکوس خیال کرتے تھے مگر جن حضرات کو حکمت واسرار تک رسائی تھی اور حقیقت کعبہ اور حقیقیت بیت المقدس کو بنورِ فراست جُدا جُدا معہ فرق مراتب سمجھتے تھے وہ جانتے تھے کہ جناب رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام انبیاء کے کمالات کے جامع اور آپ کی رسالت جملہ عالم اور تمام امتوں کے لئے شامل ہے اس لئے ضرور ہے کہ استقبال بیت المقدس کی بھی نوبت آئے یہی وجہ ہے کہ شبِ معراج میں تمام انبیاء سابقین سے ملاقات بھی ہوئی اور اس کے بعد استقبال بیت المقدس کا بھی حکم ہوا واللہ اعلم۔
۴: یہود نے کہا کہ کعبہ قبلہ اصلی ہے تو اتنی مُدّت کی نماز جو بیت المقدس کی طرف پڑھی تھی ضائع ہوئی بعض مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ بیت المقدس جب قبلہ اصلی نہ تھا تو جو مسلمان اسی حالت پر مر گئے ان کے ثواب میں نقصان رہا باقی زندہ رہنے والے تو آئندہ کو مکافات اور اس کا تدارک کر لیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم نے بیت المقدس کی طرف نماز محض مقتضائے ایمانی اور اطاعت حکمِ خداوندی کے سبب پڑھی تو تمہارے اجرو ثواب میں کسی طرح کا نقصان نہ ڈالا جائے گا۔
۱۴۴۔۔۔ ۱: چونکہ آپ کا اصلی قبلہ اور آپ کے کمالات کے مناسب خانہ کعبہ تھا اور سب قبلوں سے افضل اور حضرات ابراہیم علیہ السلام کا بھی قبلہ وہی تھا ادھر یہود طعن کرتے تھے کہ یہ نبی شریعت میں ہمارے مخالف اور ملتِ ابراہیمی کے موافق ہو کر ہمارا قبلہ کیوں اختیار کرتے ہیں ان وجوہ سے جس زمانہ میں آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو دل یہی چاہتا تھا کہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آ جائے اور اس شوق میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر ہر طرف کو دیکھتے تھے کہ شاید فرشتہ حکم لاتا ہو اس پر یہ آیت اُتری اور استقبال کعبہ کا حکم آگیا۔
۲: یعنی کعبہ کی طرف اور اس کو مسجد الحرام اس لئے کہتے ہیں کہ وہاں مقاتلہ کرنا اور شکار کرنا جانوروں کا اور درخت اور گھاس کا کاٹنا وغیرہ امور حرام ہیں اور کسی مسجد کی اتنی حُرمت و عزت نہیں جس قدر مسجد الحرام کی حُرمت ہے جب تحویل قبلہ کا یہ حکم نازل ہوا تو آپ باجماعت مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے دو رکعت بیت المقدس کی طرف پڑھ چکے تھے نماز ہی میں آپ نے اور سب مقتدیوں نے کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا اور باقی دو رکعتیں پوری کیں اس مسجد کا نام مسجد القبلتین اور ذوقبلتین ہو گیا یعنی دو قبلہ والی۔
۳: یعنی حضر میں یا سفر میں مدینہ میں یا دوسرے شہر میں جنگل میں یا دریا میں یا خود بیت المقدس میں جہاں کہیں ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔
۴: یعنی اہلِ کتاب جو تحویل قبلہ کی نسبت اعتراض کریں اس کی ہرگز پرواہ نہ کرنا کیونکہ اُن کو کتاب سے معلوم ہے کہ پیغمبر آخرالزماں بیت المقدس کی طرف کچھ دِنوں نماز پڑھیں گے اور آخر کو کعبہ کی طرف پڑھیں گے اور یہ بھی اُن کو معلوم ہے کہ اصلی اور دائمی قبلہ ان کا مِلت ابراہیمی کے موافق ہو گا اس لئے اس تحویل قبلہ کو وہ بھی حق سمجھتے ہیں محض حسد سے جو چاہیں کہیں سو حق تعالیٰ ان کی باتوں کو خوب جانتا ہے جس کا نتیجہ ان کو ایک دن معلوم ہو جائے گا۔
۱۴۵۔۔۔ ۱: یعنی جب یہ بات ہے کہ اہلِ کتاب استقبال کعبہ کو حق جان کر بوجہ حسد و عناد حق پوشی کرتے ہیں تو ان سے اپنے قبلہ کی موافقت کی ہرگز توقع مت رکھو وہ تو ایسے متعصب ہیں کہ اگر ان کو تمام نشانیاں جو ممکن الوقوع ہیں دکھلا دو گے جب بھی تمہارے قبلہ کو نہ مانیں گے وہ تو اس ہوس میں ہیں کہ کسی طرح تم کو اپنا تابع بنا لیویں اسی وجہ سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے قبلہ پر قائم رہتے تو ہم سمجھتے کہ تم نبی موعود ہو کہ شاید پھر ہمارے قبلہ کی طرف رجوع کر لیں سو یہ ان کا خیال باطل اور طمع خام ہے تم کسی وقت میں بھی ان کے قبلہ کا اتباع نہیں کر سکتے اب استقبال کعبہ کا حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتا اور دوسروں کے تابع بنانے کا ارادہ تو بعد میں کریں پہلے اہلِ کتاب تو آپس میں دربارہ امر قبلہ موافق ہو جائیں یہود کا قبلہ صخرہ بیت المقدس ہے اور نصاریٰ کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نفح روح ہوا تھا جب وہ ہی باہم موافق نہیں ہو سکتے تو پھر مسلمانوں سے اس متابعت نقیضین کی توقع کرنی محض حماقت ہے۔
۲: یعنی ان دلائل سے قطع نظر کر کے تھوڑی دیر کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ نعوذ باللہ اہل کتاب کے قبلہ کی متابعت نزول وحی اور علم یقینی کے خلاف کر بھی لیویں تو اس تقدیر محال پر بیشک آپ بھی بے انصافوں میں شمار ہوں اور نبی سے یہ امر شنیع کسی طرح ممکن نہیں تو معلوم ہو گیا کہ قبلہ اہلِ کتاب کی متابعت آپ سے ہرگز ممکن نہیں کہ سراسر علم کے خلاف یعنی جہل اور گمراہی ہے۔
۱۴۷۔۔۔ یعنی اگر تم کو یہ خیال ہو کہ کاش کعبہ کا مسلمانوں کے لئے قبلہ ہونا اہل کتاب بھی کسی طرح تسلیم کر لیں اور دوسرے لوگوں کو شبہ میں ڈالتے نہ پھریں تو میرے نبی موعود ہونے میں خلجان باقی نہ رہے تو جان لو کہ اہلِ کتاب کو تمہارا بہت پورا علم ہے آپ کے نسب و قبیلہ و مولد و مسکن و صورت وشکل و اوصاف و احوال سب کو جانتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو آپ کا علم اور آپ کے نبی موعود ہونے کا ایسا یقین ہے جیسا بہت سے لڑکوں میں اپنے بیٹوں کو بلا تامل و تردّد پہچانتے ہیں مگر اس امر کو بعض تو ظاہر کرتے ہیں اور بعض دیدہ و دانستہ امرحق کو چھپاتے ہیں لیکن ان کے چُھپانے سے کیا ہوتا ہے حق بات تو وہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہو اہلِ کتاب مانیں یا نہ مانیں ان کی مخالفت سے کسی قسم کا تردَد مت کرو۔
۱۴۸۔۔۔ یعنی اللہ نے ہر ایک اُمّت کے لئے ایک ایک قبلہ کا حکم فرمایا جس کی طرف بوقت عبادت اپنا منہ کیا کریں یا ہر ایک قوم مسلمان کعبہ سے جُدا جُدا سمت میں واقع ہے کوئی مشرق میں کوئی مغرب میں سو اس میں جھگڑنا فضول اور اپنے قبلہ یا اپنی سمت پر ضد کرنا عبث ہے جو نیکیاں مقصود و مطلوب ہیں ان کی طرف البتہ پیش قدمی کرو اور اس بحث کو چھوڑو جس جگہ اور جس قبلہ اور جس سمت کعبہ کی طرف تم ہو گے لائے گا تم سب کو اللہ مَیدانِ حشر میں اور تمہاری نمازیں ایسی سمجھی جائیں گی گویا ایک ہی جہت کی طرف ہوئی ہیں پھر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو۔
۱۵۰۔۔۔ ۱:تحویل قبلہ کا حکم مکرر سہ مکرر یا تو اس واسطے بیان فرمایا کہ اس کی علل متعدد تھیں تو ہر علّت کو بتلانے کے لئے اس حکم کا اعادہ فرمایا قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَ جْھکَ الخ سے معلوم ہوا کہ اپنے رسول کی رضا جوئی اور اظہار تکریم کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا اور لِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْہَا سے معلوم ہوا کہ عادت اللہ یہی ہے کہ ہر ملّت اور ہر ایک رُسول صاحب شریعت مستقل کے لئے اس کے مناسب ایک قبلہ مقرر ہونا چاہیے اور لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ سے معلوم ہوا کہ حکم مذکور کی علت یہ ہے کہ مخالف کا الزام عائد نہ ہو سکے یا اس تکرار کی یہ وجہ ہے کہ اول تو قبلہ قابل اہتمام دوسرے احکام الٰہیہ میں نسخ ہونا بیوقوفوں کی سمجھ سے باہر پھر تحویل قبلہ اول نسخ ہے جو شریعت محمدی میں ظاہر ہوا اس لئے ا سکی کی تاکید در تاکید عین حکمت و بلاغت ہے یا یہ وجہ ہے کہ اوّل آیت میں تعمیم احوال اور دوسری آیت میں تعمیم امکنہ اور تیسری میں تعمیم ازمنہ مراد ہے۔
۲: یعنی کعبہ کو منہ کرنے کا حکم اس واسطے ہوا کہ تورات میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور بنی آخر الزماں کو بھی اسی کی طرف منہ پھیرنے کا حکم ہو جائے گا تو آپ کو تحویل الی الکعبہ کا حکم نہ ہوتا تو یہود ضرور الزام لگاتے ادھر مشرکین مکہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کا قبلہ تو کعبہ تھا یہ نبی ملّت ابراہیمی کا دعویٰ کر کے پھر قبلہ میں خلاف کیوں کرتے ہیں تو اب دونوں کو حجۃ کرنے کا حق نہ رہا مگر بے انصاف اب بھی کچھ نہ کچھ الزام لگائے ہی جائیں گے مثلاً قریش کہیں گے کہ ان کو ہمارے قبلہ کا حق ہونا اب معلوم ہوا تو اس کا اختیار کیا اسی طرح پر ہمارے اور احکام بھی رفتہ رفتہ منظور کر لیں گے اور یہود کہیں گے کہ ہمارے قبلہ کی حقانیت ظاہر ہونے اور تسلیم کر لینے کے بعد محض حسد اور نفسانیت کے باعث اپنی رائے اس کو چھوڑ دیا تو ایسے بے انصافوں کے اعتراض کی کچھ پرواہ مت کرو اور ہمارے حکم کے تابع رہو۔
۳: یعنی یہ قبلہ ہم نے تمہارے لئے اس واسطے مقرر فرمایا کہ دشمنوں کے طعن سے بچو اور اس کے سبب سے ہمارے انعام و اکرام و برکات و انوار اور ہدایت کے پورے مستحق ہو۔
۱۵۱۔۔۔ یعنی یہ اتمام نعمت اور تکمیل ہدایت تم پر ایسی ہوئی جیسی ابتداء میں تم پر یہ اتمامِ نعمت و ہدایت ہو چکی ہے کہ تم میں ہی سے ایک رسُول ایسا بھیجا جو تم کو احکام خداوندی سمجھا دے اور تم کو بُری باتوں سے پاک کرے یعنی علما اور عملاً تم کو کامل بنا دے۔
۱۵۲۔۔۔ جب ہماری طرف سے تم پر اتمامِ نعمت مکرر ہو چکا تو اب تم کو لازمی ہے کہ ہم کو زبان سے دل سے فکر سے ہر طرح سے یاد کرو اور اطاعت کرو ہم تم کو یاد کریں گے یعنی نئی نئی رحمتیں اور عنایتیں تم پر ہوتی رہیں گی اور ہماری نعمتوں کا شکر خوب ادا کرتے رہو اور ہماری ناشکری اور معصیت سے بچتے رہو۔
۱۵۳۔۔۔ چونکہ ذکر اور شکر اور ترک کفران جو پہلے مذکور ہوئے تمام طاعات اور منہیات شرعیہ کو محیط ہیں جن کا انجام دینا دشوار امر ہے اس کی سہولت کیلئے یہ طریقہ بتلایا گیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو کہ ان کی مداومت سے تمام امور تم پر سہل کر دیئے جائیں گے اور اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جہاد میں محنت اٹھاؤ جس کا ذکر آگے آتا ہے کہ اس میں صبر اعلیٰ درجہ کا ہے۔
۱۵۴۔۔۔ یعنی جس نے اللہ کے لئے جان دی وہ اُس جہان میں جیتے ہیں مگر تم کو ان کی زندگی کی خبر اور اس کی کیفیت معلوم نہیں اور یہ سب صبر کا نتیجہ ہے۔
۱۵۵۔۔۔ پہلے تو ان کا ذکر تھا جنہوں نے صبر کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا یعنی شہداء اب فرماتے ہیں کہ تمہارا علی العموم تھوڑی تھوڑی تکلیف اور مصیبت میں وقتاً فوقتاً امتحان لیا جائے گا اور تمہارے صبر کو دیکھا جائے گا صابرین میں داخل ہونا کچھ سہل نہیں اسی واسطے پہلے سے متنبہ فرما دیا۔
۱۵۷۔۔۔ یعنی جن لوگوں نے ان مصائب پر صبر کیا اور کفران نعمت نہ کیا بلکہ ان مصائب کو وسیلہ ذکر و شکر بنایا تو ان کو اے پیغمبر ہماری طرف سے بشارت سُنا دو۔
۱۵۸۔۔۔ ۱: پہلے ذکر تھا تحویل الی الکعبہ کا اور کعبہ کے سب قبلوں سے افضل ہونے کا، اب اس کے محل ادائے حج و عمرہ ہونے کو بیان فرماتے ہیں تاکہ (ولاتم نعمتی علیکم) کی تصدیق اور تکمیل خوب ہو جائے یا یوں کہیئے کہ اس سے پہلے صبر کی فضیلت مذکور تھی اب یہ فرمایا کہ دیکھو صفا و مروہ جو شعائر اللہ میں داخل ہوئیں اور ان میں سعی کرنا حج و عمرہ میں ضروری ہوا اس کی وجہ یہی تو ہے کہ یہ فعل صابرین یعنی حضرت ہاجرہ اور ان کے صاحبزادہ حضرت اسماعیل کے آثار میں سے ہے حدیث و تفسیر و تاریخ میں یہ قصّہ مصرح مذکور و مشہور ہے جس کے دیکھنے سے (اِنَّ اللہ مع الصّابرین) کی تصدیق ہوتی ہے۔
۲: صفا اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں مکہ میں اہلِ عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے ہمیشہ حج کرتے رہے اور حج کرتے تو ان دو پہاڑیوں کا بھی طواف کرتے کفر کے زمانہ میں ان دو پہاڑیوں پر کفار نے دو بُت رکھے تھے ان کی تعظیم کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ طواف ان دو بتوں کی تعظیم کے لئے ہے جب لوگ مسلمان ہوئے اور بُت پرستی سے تائب ہوئے تو خیال ہوا کہ صفا اور مروہ کا طواف تو ان بتوں کی تعظیم کے لئے تھا جب بتوں کی تعظیم حرام ہوئی تو صفا اور مروہ کا طواف بھی ممنوع ہونا چاہیے یہ ان کو معلوم نہ تھا کہ صفا اور مروہ کا طواف تو اصل میں حج کے لئے تھا کفار نے اپنی جہالت سے بُت رکھ چھوڑے تھے وہ دُور ہو گئے اور انصار مدینہ چونکہ کفر کے زمانہ میں صفا اور مروہ کے طواف کو بُرا جانتے تھے تو اسلام کے بعد بھی ان کو اس طواف میں خلجان ہوا اور آپ سے عرض کیا کہ ہم پہلے سے اس کو مذموم جانتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فریق اول اور ثانی دونوں کو بتلا دیا گیا کہ صفا اور مروہ کے طواف میں کوئی گناہ اور خرابی نہیں، یہ تو اصل سے اللہ کی نشانیاں ہیں ان کا طواف کرنا چاہیئے۔
۱۵۹۔۔۔ ۱:اس سے مراد ہیں یہود کہ تورات میں جو آپ کی تصدیق تھی اس کو اور تحویل قبلہ وغیرہ اُمور کو چھپاتے تھے اور جس نے غرض دنیا کے واسطے اللہ کے حکم کو چھپایا وہ سب اس میں داخل ہیں۔
۲: لعنت کرنے والے یعنی جنّ و انس و ملائکہ بلکہ اور سب حیوانات کیونکہ ان کی حق پوشی کے وبال میں جب عالم کے اندر قحط، وباء اور طرح طرح کی بلائیں پھیلتی ہیں تو حیوانات بلکہ جمادات تک کو تکلیف ہوتی ہے اور سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔
۱۶۰۔۔۔ یعنی اگرچہ ان کی حق پوشی کے باعث آدمی گمراہی میں پڑ گئے لیکن جب انہوں نے حق پوشی سے توبہ کر کے اظہارِ حق پوری طرح کر دیا تو اب بجائے لعنت ہم ان پر رحمت نازل فرماتے ہیں کیونکہ ہم توّاب و رحیم ہیں۔
۱۶۱۔۔۔ یعنی جس نے خود حق پوشی کی یا کسی دوسرے کی حق پوشی کے باعث گمراہ ہوا اور اخیر تک کافر ہی رہا اور توبہ نصیب نہ ہوئی تو وہ ہمیشہ کو ملعون اور جہنمی ہوا مرنے کے بعد توبہ مقبول نہیں بخلاف اول فریق مذکور سابق کے کہ توبہ نے ان کی لعنت کو منقطع کر دیا کہ زندگی ہی میں تائب ہو گئے۔
۱۶۲۔۔۔ یعنی ان پر عذاب یکساں اور متصل رہے گا یہ نہ ہو گا کہ عذاب میں کسی قسم کی کمی ہو جائے یا کسی وقت ان کو عذاب سے مہلت مل جائے۔
۱۶۳۔۔۔ یعنی معبود حقیقی تم سب کا ایک ہی ہے اس میں تعدّد کا احتمال بھی نہیں سو اب جس نے اس کی نافرمانی کی بالکل مردود اور غارت ہوا دوسرا معبود ہوتا تو ممکن تھا کہ اس سے نفع کی توقع باندھی جاتی یہ آقائی اور پادشاہی اور استادی اور پیری نہیں کہ ایک جگہ موافقت نہ آئی تو دوسری جگہ چلے گئے یہ تو معبودی اور خدائی ہے نہ اس کے سوا کسی کو معبود بنا سکتے ہو اور نہ کسی سے اس کے علاوہ خیر کی توقع کر سکتے ہو۔ جب آیت والٰھکم الٰہ واحد نازل ہوئی تو کفار مکّہ نے تعجب کیا کہ تمام عالم کو معبود اور سب کا کام بنانے والا ایک کیسے ہو سکتا ہے اور اس کی دلیل کیا ہے اس پر آیت اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰت الخ نازل ہوئی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان فرمائیں۔
۱۶۴۔۔۔ یعنی آسمان کے اس قدر وسیع اور اُونچا اور بے ستون پَیدا کرنے میں اور زمین کے اتنی وسیع اور مضبوط پَیدا کرنے اور اس کے پانی پر پھیلانے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے اور آسمان سے پانی برسانے اور اس سے زمین کو سرسبز و ترو تازہ کرنے میں جملہ حیوانات میں اس سے تولد و تناسل نشوونما ہونے میں اور جہاتِ مختلفہ سے ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں معلق کرنے میں دلائل عظیمہ اور کثیرہ ہیں حق تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور حکمت اور رحمت پر ان کے لئے جو صاحبِ عقل اور فکر ہیں۔
فائدہ:لَااِلٰہَ اِلّا ھُوَ میں توحید ذات کا اور اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ میں توحید صفات کا ثبوت تھا اور اِنَّ فِیْ خَلْقِ الخ میں توحید افعال کا ثبوت ہوا جس سے مشرکین کے شبہات بالکلیہ مندفع ہو گئے۔
۱۶۵۔۔۔ ۱: یعنی آدمیوں میں جو کہ شعور و عقل میں جمیع مخلوقات سے افضل ہیں، بعضے ایسے بھی ہیں کہ باوجود دلائل ظاہرہ سابقہ کے پھر غیر اللہ کو حق تعالیٰ کا شریک اور اس کے برابر بناتے ہیں۔
۲: یعنی صرف اقوال و اعمال جزئیہ ہی میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں مانتے بلکہ محبت قلبی جو کہ صدور اعمال کی اصل ہے اس تک شرک اور مساوات کی نوبت پہنچا رکھی ہے جو شرک کا اعلیٰ درجہ ہے اور شرک فی الاعمال اس کا خادم اور تابع ہے۔
۳: یعنی مشرکین کو جو اپنے معبودوں سے محبت ہے مومنین کو اپنے اللہ سے اس سے بھی بہت زیادہ اور مستحکم محبت ہے کیونکہ مصائب دنیا میں مشرکین کی محبت بسا اوقات زائل ہو جاتی ہے اور عذابِ آخرت دیکھ کر تو بالکل تبرّی اور بیزاری ظاہر کریں گے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے بخلاف مومنین کے کہ ان کی محبت اپنے اللہ کے ساتھ ہر ایک رنج و راحت، مرض و صحت دنیا و آخرت میں برابر باقی اور پائیدار رہنے والی ہے اور نیز اہلِ ایمان کو جو اللہ سے محبت ہے وہ اس محبت سے بھی بہت زیادہ ہے جو محبت کہ اہلِ ایمان ماسوی اللہ یعنی انبیاء و اولیاء و ملائکہ و عباد و علماء یا اپنے آباؤ اجداد اور اولاد و مال وغیرہ سے رکھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو اس کی عظمت شان کے موافق بالاصال اور بالاستقلال محبت رکھتے ہیں اور اوروں سے بالواسطہ اور حق تعالیٰ کے حکم کے موافق ہر ایک کے اندازہ کے مطابق محبت رکھتے ہیں گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی خدا اور غیر خدا کو محبت میں برابر کر دینا خواہ وہ کوئی ہو یہ مشرکین کا کام ہے۔
۴: یعنی جن ظالموں نے خدا کے لئے شریک بنائے اگر وہ اس آنے والے وقت کو دیکھ لیں کہ جس وقت ان کو عذاب الٰہی کا مشاہدہ ہو گا کہ زور سارا اللہ ہی کے لئے ہے عذاب خداوندی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اللہ کا عذاب سخت ہے تو ہرگز اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ ان سے امید منفعت رکھیں۔
۱۶۶۔۔۔ یعنی وہ وقت ایسا ہو گا کہ بیزار ہو جائیں گے متبوع اپنے تابعداروں سے اور بُت پرست اور بتوں میں کوئی علاقہ باقی نہ رہے گا ایک دوسرے کا دشمن ہو جائے گا عذاب الٰہی دیکھ کر۔
۱۶۷۔۔۔ ۱: اور مشرکین اس وقت کہیں گے کہ اگر کسی طرح ہم کو پھر دنیا میں لوٹ جانا نصیب ہو تو ہم بھی ان سے اپنا انتقام لیں اور جیسا یہ آج ہم سے جُدا ہو گئے ہم بھی ان کو جواب دے کر جُدا ہو جائیں لیکن اس آرزو محال سے بجز افسوس کچھ نفع نہ ہو گا۔
۲: یعنی جیسے مشرکین کو عذاب الٰہی اور اپنے معبودوں کی بیزاری دیکھ کر سخت حسرت ہو گی اسی طرح پر ان کے جملہ اعمال کو حق تعالیٰ ان کے لئے موجب حسرت بنا دے گا کیونکہ حج و عمرہ اور صدقات و خیرات جو اچھی باتیں کی ہوں گی وہ سب تو بسبب شرک مردود ہو جائیں گی اور شرک و گناہ جس قدر کئے ہوں گے ان کا بدلہ عذاب ملے گا تو اب ان کے بھلے اور بُرے اعمال سب کے سب موجب حسرت ہوں گے کسی عمل سے کچھ نفع نہ ہو گا اور ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے بخلاف موحدین اور اہل ایمان کے کہ اگر بسبب معاصی دوزخ میں جائیں گے تو انجام کار نجات پائیں گے۔
۱۶۸۔۔۔ اہلِ عرب بُت پرستی کرتے تھے اور بُتوں کے نام پر سانڈ بھی چھوڑتے تھے اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے اور یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا منصب اللہ کے سوا کسی کو نہیں اس بارے میں کسی کی بات ماننی گویا اس کو اللہ کا شریک بنانا ہے اس لئے پہلی آیات میں شرک کی خرابی بیان فرما کر اب تحریم حلال سے ممانعت کی جاتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پَیدا ہوتا ہے اس میں سے کھاؤ بشرطیکہ وہ شرعا حلال و طیّب ہو نہ تو فی نفسہٖ حرام ہو جیسے مُردار اور خنزیر اور مَااُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ(جن جانوروں پر اللہ کے سوا کسی کا نام پُکارا جائے اور ا سکی قربت مقصود ان جانوروں کے ذبح سے ہو) اور نہ کسی امر عارضی سے اس میں حرمت آ گئی ہو جیسے غصب، چوری رشوت سود کا مال کہ ان سب سے اجتناب ضروری ہے اور شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرو کہ جس کو چاہا حرام کر لیا جیسے بتوں کے نام کے سانڈ وغیرہ اور جس کو چاہا حلال کر لیا جیسے مَااُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ وغیرہ۔
۱۶۹۔۔۔ یعنی مسئلے اور احکام شرعیہ اپنی طرف سے بنا لو جیسا کہ بہت سے مواقع میں دیکھا جاتا ہے کہ مسائل جزئیہ سے گزر کر امور اعتقادیہ تک نصوصِ شرعیہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے احکام تراشے جاتے ہیں اور نصوص قطعیہ اور اقوال سلف کی تحریف اور تغلیط کرتے ہیں۔
۱۷۰۔۔۔ یعنی حق تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنے باپ دادا کا اتباع کرتے ہیں اور یہ بھی شرک ہے چنانچہ بعض جہال مسلمان بھی ترک نکاح بیوگاں وغیرہ رسوم باطلہ میں ایسی بات کہہ گزرتے ہیں اور بعض زبان سے گو نہ کہیں مگر عمل درآمد سے ان کے ایسا ہی مترشح ہوتا ہے سو یہ بات اسلام کے خلاف ہے۔
۱۷۱۔۔۔ ۱: یعنی ان کافروں کو راہ ہدایت کی طرف بُلانا ایسا ہے جیسا کوئی جنگل کے جانوروں کو بُلائے کہ وہ سوائے آواز کے کچھ نہیں سمجھتے یہی حال ان لوگوں کا ہے جو خود علم نہ رکھیں اور نہ علم والوں کی بات قبول کریں۔
۲: یعنی یہ کفار گویا بہرے ہیں جو حق بات بالکل نہیں سنتے گوں گے ہیں جو حق بات نہیں کہتے اندھے ہیں جو راہِ مستقیم نہیں دیکھتے سو وہ کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ جب ان کے ہر سہ قویٰ مذکورہ فاسد ہو گئے تو تحصیل علم و فہم کی اب کیا صورت ہو سکتی ہے۔
۱۷۲۔۔۔ اکل طیبات کا حکم اُوپر گزر چکا تھا لیکن مشرکین چونکہ شیطان کی پیروی سے باز نہیں آتے اور احکام اپنی طرف سے بنا کر اللہ کے اُوپر لگاتے ہیں اور اپنے رسوم باطلہ آبائی کو نہیں چھوڑتے اور حق بات سمجھنے کی ان میں گنجائش ہی نہیں تو اب ان سے اعراض فرما کر خاص مسلمانوں کو اکل طیبّات کا حکم فرمایا گیا اور اپنا انعام ظاہر کر کے ادائے شکر کا امر کیا گیا اس میں اہلِ ایمان کے مقبول اور مطیع ہونے کی جانب اور مشرکین کے مردود و معتوب و نافرمان ہونے کی طرف اشارہ ہو گیا۔
۱۷۳۔۔۔ ۱: مردار وہ ہے کہ خود بخود مر جائے اور ذبح کی نوبت نہ آئے یا خلاف طریقہ شرعیہ اس کو ذبح یا شکار کیا جائے مثلاً گلا گھونٹا جائے یا زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹ لیا جائے یا لکڑی اور پتھر اور غلیل و بندوق سے مارا جائے یا اُوپر سے گر کر یا کسی جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے یا درندہ پھاڑ ڈالے یا ذبح کے وقت قصداً تکبیر کو ترک کیا جائے کہ یہ سب مردار اور حرام ہیں البتہ دو جانور مردار بحکم حدیث شریف اس حُرمت سے مستثنیٰ اور ہم کو حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی۔
۲: اور خون سے مراد وہ خون ہے جو رگوں سے بہتا ہے اور ذبح کے وقت نکلتا ہے اور جو خون کہ گوشت پر لگا رہتا ہے وہ حلال اور پاک ہے اگر گوشت کو بغیر دھوئے ہوئے پکا لیا جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔ البتہ نظافت کے خلاف ہے اور کلیجی اور تلی کہ خون منجمد ہیں بحکم حدیث شریف حلال ہیں۔
۳: اور خنزیر زندہ ہو یا مردہ یا قاعدہ شریعت کے موافق ذبح کر لیا جائے ہر حال میں حرام ہے اور اس کے تمام اجزاء گوشت پوست چربی ناخن بال ہڈی پٹھا ناپاک اور ان سے نفع اٹھانا اور کسی کام میں لانا حرام ہے۔ اس موقع پر چونکہ کھانے کی چیزوں کا ذکر ہے اس لئے فقط گوشت کا حکم بتلایا گیا مگر اس پر سب کا اجماع ہے کہ خنزیر جو کہ بے غیرتی اور بےحیائی اور حرص اور رغبت الی النجاسات میں سب جانوروں میں بڑھا ہوا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت فاِنَّہ رِجْس فرمایا بلاشک نجس العین ہے نہ اس کا کوئی جزو پاک اور نہ کسی قسم کا انتفاع اس سے جائز جو لوگ کثرت سے اس کو کھاتے ہیں اور اس کے اجزاء سے نفع اٹھاتے ہیں ان تک میں اوصاف مذکورہ واضح طور پر مشاہدہ ہوتے ہیں۔
۴: مَااُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ کا یہ مطلب ہے کہ ان جانوروں پر اللہ کے سوا بت وغیرہ کا نام پکارا جائے یعنی اللہ کے سوا کسی بت یا جن یا کسی روح خبیث یا پیر یا پیغمبر کے نامزد کر کے اور اس جانور کی جان ان کی نذر کر کے ان کے تقرب یا رضا جوئی کی نیت سے ذبح کیا جائے اور محض ان کی خوشنودی کی غرض سے اس کی جان نکالنی مقصود ہو ان سب جانوروں کا کھانا حرام ہے گو بوقت ذبح تکبیر پڑھی ہو اور اللہ کا نام لیا ہو کیونکہ جان کو جان آفریں کے سوا کسی دوسرے کے لئے نذر و نیاز کرنا ہرگز درست نہیں اس لئے جس جانور کی جان غیر اللہ کی نذر کی جائے تو اس کی خباثت مردار کی خباثت سے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ مُردار میں تو یہی خرابی تھی کہ اس کی جان اللہ کے نام پر نہیں نکلی اور اس کی تو جان غیر اللہ کے نامزد کر دی گئی جو عین شرک ہے سو جیسے خنزیر اور کتے پر بوقت ذبح تکبیر کہنے سے حلت نہیں آ سکتی اور مُردار پر اللہ کا نام لینے سے کوئی نفع نہیں ہو سکتا ایسے ہی جس جانور کی جان غیر اللہ کی نذر اور ان کے نامزد کر دی ہو اس پر ذبح کے وقت نام الٰہی لینے سے ہرگز ہرگز کوئی نفع اور حلّت اس میں نہیں آ سکتی البتہ اگر غیر اللہ کے نامزد کرنے کے بعد اپنی نیت سے ہی توبہ اور رجوع کر کے ذبح کرے گا تو اس کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں علماء نے تصریح فرما دی ہے کہ اگر کسی بادشاہ کے آنے پر اس کی تعظیم کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے یا کسی جن کی اذیت سے بچنے کے لئے اس کے نام کا جانور ذبح کیا جائے یا توپ چلنے یا اینٹوں کے پزاوہ کے پکنے کے لئے بطور بھینٹ جانور ذبح کیا جائے تو وہ جانور بالکل مُردار اور حرام اور کرنے والا مشرک ہے اگرچہ ذبح کے وقت خدا کا نام لیا جائے۔ حدیث شریف میں آیا ہے لَعْنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہ یعنی جو غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کی نیت سے جانور کو ذبح کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے ذبح کے وقت اللہ کا نام پاک لے یا نہ لے البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کر کے فقراء کو کھلائے اور اس کا ثواب کسی قریب یا پیر اور بزرگ کو پہنچا دے یا کسی مُردہ کی طرف سے قربانی کر کے اس کا ثواب اس کو دینا چاہے کیونکہ یہ ذبح غیر اللہ کے لئے ہرگز نہیں بعضے اپنی کجروی سے یہ حیلہ ایسے مواقع میں بیان کرتے ہیں کہ پیروں کی نیاز وغیرہ میں ہم کو تو یہی مقصود ہوتا ہے کہ کھانا پکا کر مردہ کے نام سے صدقہ کر دیا جائے تو اول تو خوب سمجھ لیں کہ اللہ کے سامنے جھوٹے حیلوں سے بجز مضرت کوئی نفع حاصل نہیں ہو سکتا، دوسرے ان سے پوچھا جائے کہ جس جانور کی تم نے غیر خدا کے لئے نذر مانی ہے اگر اسی قدر گوشت اس جانور کے عوض خرید کر اور پکا کر فقیروں کو کھلا دو تو تمہارے نزدیک بے کھٹکے وہ نذر ادا ہو جاتی ہے یا نہیں اگر بلاتامل تم اس کو کر سکتے ہو اور اپنی نذر میں کسی قسم کا خلل تمہارے دل میں نہیں رہتا تو تم سچے ورنہ تم جھوٹے اور تمہارا یہ فعل شرک اور وہ جانور مُردار اور حرام۔
فائدہ : یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ آیت میں حکم حرمت کو اشیاء مذکورہ میں منحصر کر کے بیان فرمایا ہے جس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اشیائے مذکورہ کے سوا کوئی جانور حرام نہیں حالانکہ جملہ درندے اور گدھا اور کتّا وغیرہ سب کا کھانا حرام ہے اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ اس حصر سے حکم حرمت کو اشیائے مذکورہ میں منحصر کرنا ہرگز مراد نہیں کہ کسی کو اعتراض کی گنجائش ہو بلکہ حکم حرمت کو صحت و صداقت کے ساتھ مخصوص فرما کر اس حکم کی جانب مخالف کا بطلان منظور ہے یعنی بس بات یہی ہے کہ یہ چیزیں اللہ پاک نے تم پر حرام فرما دیں اس میں دوسرا احتمال ہی نہیں یعنی ان کا حلال سمجھنا بالکل باطل اور غلط ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ حکم حرمت کو اشیائے مذکورہ ہی میں منحصر مانا جائے مگر اس حصر کو اضافی یعنی خاص انہی چیزوں کے لحاظ سے تسلیم کیا جائے جن کو مشرکین نے اپنی طرف سے حرام کر لیا تھا جیسے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ جن کا ذکر آئندہ آئے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم نے تو تم پر فقط میتہ اور خنزیر وغیرہ کو حرام کیا تھا تم جو سانڈ وغیرہ کی تحریم اور تعظیم کے قائل ہو یہ محض تمہارا افتراء ہے باقی رہے درندے اور خبیث جانور ان کے حرام ہونے میں مشرکین بھی نزاع نہ کرتے تھے۔ سو یہ حصر انہی جانوروں کے لحاظ سے ہے جن کو مشرکین نے خلاف حکم الٰہی اپنی طرف سے حرام ٹھہرا لیا تھا تمام جہان کے جانوروں سے اس کو کیا تعلق جو اعتراض مذکور کی نوبت آئے۔
۵: یعنی اشیائے مذکورہ حرام ہیں لیکن جب کوئی بھوک سے مرنے لگے تو اس کو لاچاری کی حالت میں کھا لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ نافرمانی اور زیادتی نہ کرے نافرمانی یہ کہ مثلاً نوبت اضطرار کی نہ پہنچے اور کھانے لگے اور زیادتی یہ کہ قدر ضرورت سے زائد خوب پیٹ بھر کر کھا لے بس اتنا ہی کھائے جس سے مرے نہیں۔
۲:یعنی اللہ پاک تو بڑا بخشنے والا ہے بندوں کے ہر قسم کے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر ایسے لاچار اور مضطر کی بخشش کیسے نہ فرمائے گا اور اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے کہ مجبوری کی حالت میں صاف اجازت دے دی کہ جس طرح بن پڑے اپنی جان بچالو اصلی حکم ممانعت کا لاچاری کی حالت میں تم پر سے اٹھا لیا گیا ورنہ اس مالک الملک کا حق تھا کہ فرما دیتا تمہاری جان جائے یا رہے مگر ہمارے حکم کے خلاف ہرگز نہ کرنا۔ ایک خلجان یہاں یہ بھی ہوتا تھا کہ بھوک سے مرتے ہوئے مضطر بدحواس کو یہ اندازہ کرنا کہ اتنے لقموں سے سدرمق ہو جائے گا اور اس سے زائد ایک لقمہ نہ کھائے محال نہیں تو دشوار تو بہت ہے اس لئے اِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ فرما کر اس میں سہولت کر دی۔
۱۷۴۔۔۔ ۱: یعنی اللہ نے جو کتاب آسمانی میں حلال و حرام کا حکم بھیجا یہود نے اس کو چھپایا اور اپنی طرف سے بڑھایا گھٹایا جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہو چکا ایسے ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات جو اس میں لکھی تھیں ان کو بھی چھپاتے اور بدلتے تھے اور یہ دونوں سخت گناہ ہیں کیونکہ ان کا مطلب اور نتیجہ یہ ہے کہ ہدایت اور طریقہ حق کسی کو نصیب نہ ہو، سب گمراہ رہیں حالانکہ حق تعالیٰ نے تو کتاب اور رسول کو ہدایت خلق کے لئے بھیجا تھا سو انہوں نے خدا کے بھی خلاف کیا اور خلق اللہ کو بھی جاہل اور گمراہ بنانا چاہا۔
۲ : یعنی اللہ کی نافرمانی اور خلق اللہ کی گمراہی پر بس نہیں کی بلکہ اس حق پوشی کے عوض میں جن کو گمراہ کرتے تھے ان سے اُلٹا رشوت میں مال بھی لیتے تھے جس کا نام ہدیہ اور نذرانہ اور شکرانہ رکھ چھوڑا تھا حالانکہ یہ حرام خوری مردار اور خنزیر کے کھانے سے بھی بدتر ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسی حرکاتِ شنیعہ کی سزا بھی سخت ہو گی جس کو آگے بتلایا جاتا ہے۔
۳: یعنی گو ظاہر نظر میں ان کو وہ مال لذیذ اور نفیس معلوم ہو رہا ہے مگر حقیقت میں وہ آگ ہے جس کو خوش ہو کر اپنے پیٹ میں بھر رہے ہیں جیسا طعام لذیذ میں زہر قاتل ملا ہوا ہو کہ کھاتے وقت لذت معلوم ہوتی ہے اور پیٹ میں جا کر آگ لگا دے۔
۴: اس میں یہ شبہہ کسی کو ہو سکتا ہے کہ دیگر آیات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جناب باری قیامت کو ان سے خطاب فرمائے گا سو کلام نہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لطف و رحمت کے ساتھ ان سے کلام نہ کیا جائے اور بطور تخویف و تذلیل و تہدید و وعید جناب باری ان سے کلام کرے گا جس سے ان کو سخت صدمہ اور غم ہو گا یا یوں کہیے کہ بلاواسطہ ان سے کلام نہ کیا جائے گا اور کلام کرنے کا جو ذکر ہے وہ ملائکہ عذاب کی وساطت سے ہو گا۔
فائدہ : لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ کی دھمکی سے یہ امر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر کسی کے دل میں محبت الٰہی خوب راسخ ہے اگر سرِدست محسوس نہ ہو تو اس کو ہمچواخگر بزیر خاکستر سمجھنا چاہیے قیامت کو جب کل موانع دُور ہوں گے تو اس کا ظہور کامل ہو گا کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو پھر کفار کو یہ دھمکی ایسی ہو گی کہ کوئی اپنے دشمن کو ناخوشی اور اعراض سے ڈرانے لگے جو بالکل بےسود ہے محبانِ جاں نثار اعراض محبوب کو درد جانگداز سمجھتے ہیں نہ اعداء بس معلوم ہوا کہ قیامت کو ہر سینہ اللہ کی محبت سے ایسا لبریز ہو گا کہ یہ بے التفاقی عذاب دوزخ سے بھی بدرجہا زیادہ ان کو جانکاہ معلوم ہو گی۔
۵: یعنی اہلِ ایمان گو کتنے ہی گنہگار ہوں مگر دوزخ میں زمانہ معین تک رہ کر اور گناہوں سے پاک ہو کر جنّت میں داخل کر دیے جائیں گے بخلاف کفار کے کہ وہ ہمیشہ نار میں رہیں گے اور کبھی پاک ہو کر جنّت میں جانے کے قابل نہ ہوں گے امور شرکیہ نے ان کو بمنزلہ نجس العین کے بنا دیا ہے کہ نجاست ان کی کسی طرح دُور نہیں ہو سکتی اور مسلمان عاصی کا حال ایسا سمجھیے کہ پاک چیز پر نجاست واقع ہو گئی نجاست زائل ہو کر پھر پاک ہو گیا۔
۶: واقعی اس سے زیادہ اور کیا عذاب الیم ہو گا کہ ظاہر بدن سے بڑھ کر ان کے باطن میں بھی آگ ہو گی اور محبوب حقیقی ان سے ناخوش ہو گا پھر اس مصیبت جانکاہ سے کبھی نجات نہ ملے گی نعوذ باللہ۔
۱۷۵۔۔۔ ۱:یعنی وہ لوگ بیشک اسی قابل ہیں کیونکہ انہوں نے خود سرمایہ نجات کو غارت کیا اور گمراہی کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند اور اختیار کیا اور اسباب مغفرت کو چھوڑ کر اسبابِ عذاب کو منظور کیا۔
۲: یعنی اپنی خوشی سے موجبات دخول نار کو اختیار کرتے ہیں گویا آگ ان کو نہایت مرغوب اور محبوب ہے کہ اپنی جان و مال کے بدلے اس کو خرید رہے ہیں ورنہ سب جانتے ہیں کہ عذابِ نار پر صبر کرنا کیسا ہے۔
۱۷۶۔۔۔ یہ یعنی ضلالت کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خریدنے کی دلیل یا ان پر عذابات مذکورہ سابقہ کے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے جو کتاب سچی نازل فرمائی انہوں نے اس کے خلاف کیا اور طرح طرح کے اختلاف اس میں ڈالے اور خلاف اور دشمنی میں دُور جا پڑے یعنی بڑا خلاف کیا، یا طریقہ حق سے دُور ہو گئے ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان کا صابر عالی النار ہونا چونکہ بدیہی البطلان نظر آتا تھا اس لئے لفظ ذٰلک سے اخیر تک اُسکے جواب کی طرف اشارہ فرما دیا فافہم۔
۱۷۷۔۔۔ ۱: جب آیات سابقہ اپنی برائی میں سنیں تو یہود و نصاریٰ کہنے لگے کہ میں تو بہت سے اسباب وآثار ہدایت و مغفرت موجود ہیں ایک کھلی بات یہی ہے کہ ہم جس قبلہ کی طرف منہ کرنے کے مامور ہیں اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز جو افضل عبادت ہے اس کو اللہ کے حکم کے موافق ادا کرتے ہیں پھر ان خرابیوں اور عذاب کے ہم کیسے مستحق ہو سکتے ہیں اس خیال کی تردید میں فرمایا جاتا ہے کہ بڑی نیکی جو مغفرت و ہدایت کے لئے کافی ہو یہ نہیں کہ تم صرف اپنا منہ نماز میں مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا کرو اور عقائد و اعمال ضروریہ کی پروا بھی نہ کرو۔
۲: یعنی نیکی اور بھلائی جو اثر ہدایت اور سبب مغفرت ہو یہ ہے کہ اللہ اور اور روز قیامت اور جملہ ملائکہ اور کتب آسمانی اور انبیاء پر دل سے ایمان لائے اور ان پر یقین کرے اور باوجود محبت اور رغبت کے اپنے مال کو علاوہ زکاۃ کے قریبوں اور یتیموں اور غریبوں اور مسافروں اور سائلوں کو جو کہ محتاج ہوں دے اور گردنیں چھڑانے میں یعنی مسلمان جس کو کفار نے ظلما قید کر لیا ہو اس کی رہائی میں یا مقروض کو قرض خواہ سے چھڑانے میں یا غلام کو آزاد کرانے میں یا غلام مکاتب کو خلاصی دلانے میں مال دیوے اور نماز کو خوب درستی کے ساتھ پڑھے اور چاندی اور سونے اور جُملہ اموال تجارت میں سے زکاۃ دے اور اپنے عہد و قرار کو پورا کرے اور فقروفاقہ اور بیماری اور تکلیف اور خوف کی حالت میں صبر و استقلال سے رہے اور یہود و نصاریٰ چونکہ ان عقائد اور اعمال و اخلاق میں قاصر اور ناقص تھے اور طرح طرح سے ان میں خلل اندازی کرتے تھے جیسا کہ آیاتِ قرآنی ہیں اس کا ذکر ہے تو اب یہود یا نصاریٰ کا صرف اپنے استقبال قبلہ پر ناز کرنا اور اپنے آپ کو طریق ہدایت پر مستقیم سمجھنا اور مستحق مغفرت کہنا بیہودہ خیال ہے تاوقتیکہ ان اعتقادات اور اخلاق و اعمال پر قائم نہ ہوں گے جو اس آیہ کریمہ میں بالتفصیل مذکور ہیں صرف استقبال قبلہ سے نہ ہدایت نصیب ہو سکتی ہے نہ عذاب الٰہی سے نجات مل سکتی ہے۔
۳: یعنی جو لوگ اعتقادات و اخلاق و اعمال مذکورہ کے ساتھ متصف ہیں وہی لوگ سچے ہیں اعتقادات اور ایمان اور دین میں اپنے قول و قرار میں اور وہی لوگ پرہیزگار اور متقی ہیں اپنے اخلاق اور اعمال میں یا بچنے والے ہیں گناہ اور بُری باتوں سے یا عذاب الٰہی سے اہل کتاب کہ جن کو ان خوبیوں میں ایک بھی میسر نہیں ان کا اپنی نسبت ایسا خیال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
۱۷۸۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں یہود اور اہل عرب نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ شریف النسب لوگوں کے غلام کے بدلے رذیل لوگوں کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک آزاد کے بدلے دو کو قصاص میں قتل کرتے تھے حق تعالیٰ نے اس آیت میں حکم دیا کہ اے ایمان والو ہم نے تم پر مقتولین میں برابری اور مساوات کو فرض کر دیا۔ قصاص کے معنی لغت میں برابر اور مساوات کے ہیں تم نے جو یہ دستور نکالا ہے کہ شریف اور رذیل میں امتیاز کرتے ہو یہ لغو ہے جانیں سب کی برابر ہیں غریب ہو یا امیر، شریف ہو یا رذیل، عالم و فاضل ہو یا جاہل، جوان ہو یا بوڑھا اور بچہ تندرست ہو یا بیمار، قریب المرگ صحیح الاعضا ہو یا اندھا لنگڑا۔
فائدہ :پہلی آیت میں نیکی اور برّ کے اصول مذکور تھے جن پر مدار ہدایت ومغفرت تھا اور اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اہلِ کتاب ان خوبیوں سے بے بہرہ ہیں اور بالتصریح فرمادیا تھا کہ دین میں سچا اور متقی بدون ان خوبیوں کے کوئی نہیں ہو سکتا تو اب اہل اسلام کے سوا نہ اہل کتاب اس کے مصداق بن سکتے ہیں نہ جہالِ عرب، اس لئے اب سب سے اعراض فرما کر خاص اہل ایمان کو مخاطب بنایا جاتا ہے اور نیکی اور برّ کے مختلف فروع عبادات جانی و مالی اور معاملات مختلفہ ان کو بتلاتے ہیں کہ ان فروع کو وہی کر سکتا ہے جو اصول مذکورہ سابقہ پر پختہ ہو گویا اور لوگ اس خطاب کے قابل بھی نہ سمجھے گئے جو ان کو سخت عار کا باعث ہونا چاہیے اب جو احکام فروعی بالتفصیل بیان کئے جاتے ہیں درحقیقت تو ان سے اہل ایمان کی ہدایت اور تعلیم مقصود ہے مگر ضمنا کہیں صاف کہیں تعریضاً دوسروں کی خرابی پر بھی متنبہ کیا جائے گا مثلاً کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہود وغیرہ نے جو قصاص میں دستور کر لیا ہے یہ ان کا ایجاد بے بنیاد خلاف حکم الٰہی ہے جس سے ظاہر ہو گیا کہ اصول فرمودہ سابقہ میں سے نہ ان کو ایمان بالکتاب صحیح طور پر حاصل ہے نہ ایمان بالانبیاء نہ عہدِ خداوندی کو انہوں نے وفا کیا اور نہ سختی اور مصیبت کی حالت میں انہوں نے صبر سے کام لیا ورنہ اپنے کسی عزیز و قریب کے مقتول ہو جانے پر اس قدر بے صبری اور نفسانیت نہ کرتے کہ فرمانِ خداوندی اور ارشاد انبیاء اور حکم کتاب سب کو چھوڑ کر بے گناہوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے۔
۲: یہ توضیح ہے اس برابری کی جس کا حکم ہوا مطلب یہ ہے کہ ہر مرد آزاد کے قصاص میں صرف وہی ایک آزاد مرد قتل کیا جا سکتا ہے جو اس کا قاتل ہے یہ نہیں کہ ایک کے عوض قاتل کے قبیلہ سے کیف ما اتفق دو کو یا زیادہ کو قتل کرنے لگو۔
۳: یعنی ہر غلام کے بدلے میں وہی غلام قتل کیا جائے گا جو قاتل ہے یہ نہ ہو گا کہ کسی شریف کے غلام کے قصاص میں قاتل کو جو کہ غلام ہے اس کو چھوڑ کر ان رذیل لوگوں میں سے کہ جن کے غلام نے قتل کیا ہے کسی آزاد کو قتل کیا جائے۔
۴: یعنی ہر ایک عورت کے قصاص میں صرف وہی عورت قتل کی جا سکتی ہے جس نے اُسکو قتل کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شریف النسب عورت کے قصاص میں رذیل عورت کو چھوڑ کر جو کہ قاتلہ ہے کسی مرد کو ان میں سے قتل کرنے لگیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ہر آزاد دوسرے آزاد کے اور ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے سو حکم قصاص میں مساوات چاہیے اور تعدی جو اہل کتاب اور جہال عرب کرتے تھے ممنوع ہے۔
فائدہ: اب باقی رہا یہ امر کہ آزاد کسی غلام کو یا مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو قصاص لیا جائے گا یا نہیں سو یہ آیت کریمہ اس سے ساکت ہے اور آئمہ کا اس میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ آیہ ِانَّ النَفْسَ بِالنَّفْسِ اور حدیث المسلمون تتکافؤ دماؤھم سے اس کے قائل ہیں۔ کہ ہر دو صورت مذکورہ میں قصاص ہو گا اور جیسے قوی اور ضعیف صحیح اور مریض اور غیر معذور وغیرہ حکم قصاص میں برابر ہیں ایسے ہی آزاد اور غلام مرد اور عورت کو امام ابو حنیفہ قصاص میں برابر فرماتے ہیں بشرطیکہ غلام مقتول قاتل کا غلام نہ ہو کہ وہ حکم قصاص سے ان کے نزدیک مستثنیٰ ہے اور اگر کوئی مسلمان کافر ذمی کو قتل کر ڈالے تو اس پر بھی قصاص ہو گا امام ابو حنیفہ کے نزدیک البتہ مسلمان اور کافر حربی میں کوئی قصاص کا قائل نہیں۔
۵: یعنی مقتول کے وارثوں میں سے اگر بعض بھی خون کو معاف کر دیں تو اب قاتل کو قصاص میں قتل تو نہیں کر سکتے بلکہ دیکھیں گے کہ ان وارثوں نے معاف کس طرح پر کیا ہے بلا معاوضہ مالی محض ثواب کی غرض سے معاف کیا ہے یادیت شرعی اور بطور مصالحت کسی مقدار مال پر راضی ہو کر صرف قصاص سے دستبرداری کی ہے اول صورت میں قاتل ان وارثوں کے مطالبہ سے بالکل سبکدوش ہو جائے گا اور دوسری صورت میں قاتل کو چاہیے کہ وہ معاوضہ اچھی طرح ممنونیت اور خوشدلی کے ساتھ ادا کرے۔
۶: یہ اجازت کہ قتل عمد میں چاہو قصاص لو چاہو دیت لو چاہو معاف کرو اللہ کی طرف سے سہولت اور مہربانی ہے قاتل اور وارثان مقتول دونوں پر جو پہلے لوگوں پر نہ ہوئی تھی کہ یہود پر خاص قصاص اور نصاریٰ پر دیت یا عفو مقرر تھا۔
۷: یعنی اس تخفیف اور رحمت کے بعد بھی اگر کوئی خلاف ورزی کرے گا اور دستورِ جاہلیت پر چلے گا یا معافی اور دیت قبول کر لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا تو اس کے لئے سخت عذاب ہے آخرت میں یا ابھی اس کو قتل کیا جائے گا۔
۱۷۹۔۔۔ یعنی حکم قصاص بظاہر نظر اگرچہ بھاری معلوم ہو لیکن عقلمند سمجھ سکتے ہیں کہ یہ حکم بڑی زندگانی کا سبب ہے کیونکہ قصاص کے خوف سے ہر کوئی کسی کو قتل کرنے سے رُکے گا تو دونوں کی جان محفوظ رہے گی اور قصاص کے سبب قاتل اور مقتول دونوں کی جماعتیں بھی قتل سے محفوظ اور مطمئن رہیںگی عرب میں ایسا ہوتا تھا کہ قاتل اور غیر قاتل کا لحاظ نہیں کرتے تھے جو ہاتھ آ جاتا مقتول کے وارث اس کو قتل کر ڈالتے تھے اور فریقین میں اس کے باعث ایک خون کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے کی نوبت آتی تھی جب خاص قاتل ہی سے قصاص لیا گیا تو یہ تمام جانیں بچ گئیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قصاص قاتل کے حق میں باعثِ حیاتِ اُخروی ہے۔
۲: یعنی بچتے رہو قصاص کے خوف سے کسی کو قتل کرنے سے یا بچو قصاص کے سبب عذابِ آخرت سے یا اس لئے کہ تم کو حکم قصاص کی حکمت معلوم ہو گئی ہے تو اس کی مخا لفت یعنی ترک قصاص سے بچتے رہو۔
۱۸۰۔۔۔ پہلا حکم قصاص یعنی مردہ کی جان کے متعلق تھا یہ دوسرا حکم اس کے مال کے متعلق اور کلیات مذکورہ سابقہ میں جو وَاٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبّہٖ ذَوِی الْقُرْبیٰ ارشاد ہوا تھا اس کی تشریح ہے لوگوں میں دستور تھا کہ مردہ کا تمام مال اس کی بیوی اور اولاد بلکہ خاص بیٹوں کو ملتا تھا ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے تھے اس آیت میں ارشاد ہوا کہ ماں باپ اور جُملہ اقارب کو انصاف کے ساتھ دینا چاہیے مرنے والے پر اسی کے موافق وصیت فرض ہوئی اور یہ وصیت اس وقت فرض تھی جس وقت تک آیت میراث نہیں اتری تھی جب سورہ نساء میں احکام میراث نازل ہوئے سب کا حصّہ خدا تعالیٰ نے آپ معین فرما دیا اب ترکہ میّت میں وصیّت فرض نہ رہی اس کی حاجت ہی جاتی رہی البتہ مستحب ہے مگر وارث کے لئے وصیّت جائز نہیں اور تہائی ترکہ سے زائد نہ ہو ہاں اگر کسی شخص کے متعلق دیون اور ودایع وغیرہ دادوستد کا جھگڑا ہو اس پر وصیّت اب بھی فرض ہے۔
۱۸۱۔۔۔ یعنی مردہ تو وصیّت انصاف کے ساتھ کر مرا تھا مگر دینے والوں نے اس کی تعمیل نہ کی تو مردہ پر کوئی گناہ نہیں وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوا وہی لوگ گنہگار ہوں گے بیشک حق تعالیٰ سب کی باتیں سُنتا ہے اور سب کی نیتوں کو جانتا ہے۔
۱۸۲۔۔۔ ۱: یعنی اگر کسی کو مُردہ کی طرف سے یہ اندیشہ یا علم ہوا کہ اس نے کسی وجہ سے غلطی کھائی اور کسی کی بے جا رعایت کی یادیدہ و دانستہ خلاف حکم الٰہی دے گیا۔ پس اس شخص نے اہل وصیّت اور وارثوں میں حکم شریعت کے موافق صلح کرا دی تو اس کو کچھ گناہ نہ ہو گا وصیت میں یہ تغیر اور تبدّل جائز اور بہتر ہے۔
۲: یعنی حق تعالیٰ توگنہگاروں کی بھی مغفرت فرماتا ہے توجس نے اصلاح کی غرض سے ایک برائی سے سب کو ہٹایا اس کی مغفرت تو ضرور فرمائے گا یوں کہو کہ بخشنے والا ہے وصیت کرنے والے کو جس نے وصیت ناجائز کی تھی مگر پھر سمجھ کر اس وصیت سے اپنی زندگی ہی میں پھر گیا۔
۱۸۳۔۔۔ ۱: یہ حکم روزہ کے متعلق ہے جو ارکان اسلام میں داخل ہے اور نفس کے بندوں ہوا پرستوں کو نہایت ہی شاق ہوتا ہے اس لئے تاکید اور اہتمام کے الفاظ سے بیان کیا گیا اور یہ حکم حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے اب تک برابر جاری رہا ہے گو تعیین ایام میں اختلاف ہو اور اصول مذکورہ سابقہ میں جو صبر کا حکم تھا روزہ اس کا ایک بڑا رکن ہے حدیث میں روزہ کو نصف صبر فرمایا ہے۔
۲: یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑے گی تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعا حرام ہیں روک سکو گے اور روزہ سے نفس کی قوت و شہوت میں ضعف بھی آئے گا تو اب تم متقی ہو جاؤ گے بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہو جائے اور متقی بن جاؤ، جاننا چاہیے کہ یہود و نصاریٰ پر بھی رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنی خواہشات کے موافق ان میں اپنی رائے سے تغیر و تبدل کیا تو لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ میں ان پر تعریض ہے معنی یہ ہوں گے کہ اے مسلمانو تم نافرمانی سے بچو یعنی مثل یہود اور نصاریٰ کے اس حکم میں خلل نہ ڈالو۔
۱۸۴۔۔۔ ۱: یعنی چند روز گنتی کے جو زیادہ نہیں روزہ رکھو اور اس سے رمضان کا مہینہ مراد ہے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے۔
۲: پھر اس مدت قلیل میں بھی اتنی سہولت اور فرما دی گئی کہ جو بیمار ایسا ہو کہ روزہ رکھنا دشوار ہو یا مسافر ہو تو اس کو اختیار ہے کہ روزے نہ رکھے اور جتنے روزے کھائے اتنے ہی رمضان کے سوا اور دنوں میں روزے رکھ لے خواہ ایک ساتھ یا متفرق کر کے۔
۳: مطلب یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھتے ہیں مگر ابتداء میں چونکہ روزہ کی بالکل عادت نہ تھی اس لئے ایک ماہ کامل پے درپے روزے رکھنا ان کو نہایت شاق تھا تو ان کے لئے یہ سہولت فرما دی گئی تھی کہ اگرچہ تم کو کوئی عذر مثل مرض یا سفر کے پیش نہ ہو مگر صرف عادت نہ ہونے کے سبب روزہ تم کو دشوار ہو تو اب تم کو اختیار ہے چاہو روزہ رکھو چاہو روزہ کا بدلا دو ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ کیونکہ جب اس نے ایک دن کا کھانا دوسرے کو دیدیا تو گویا اپنے نفس کو ایک روز کے کھانے سے روک لیا اور فی الجملہ روزہ کی مشابہت ہو گئی پھر جب وہ لوگ روزہ کے عادی ہو گئے تو یہ اجازت باقی نہ رہی جس کا بیان اس سے اگلی آیت میں آتا ہے اور بعض اکابر نے طعام مسکین سے صدقۃ الفطر بھی مراد لیا ہے معنی یہ ہوں گے کہ جو لوگ فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کے کھانے کی مقدار اس کو دے دیں جسکی مقدار شرع میں گہیوں کا آدھا صاع اورجَو کا پورا صاع ہے تو اب یہ آیت منسوخ نہ ہو گی اور جو لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے روزہ رمضان میں رکھ لے اور جس کا جی چاہے فدیہ پر قناعت کرے خاص روزہ ہی ضرور رکھے یہ حکم نہیں وہ یا جاہل ہیں یا بے دین۔
۴: یعنی اگر ایک دن کے کھانے سے زیادہ ایک مسکین کو دے یا کئی مسکینوں کا پیٹ بھر دے تو سبحان اللہ بہت ہی بہتر ہے۔
۵: یعنی اگر تم کو روزہ کی فضیلت اور حکمت اور منافع معلوم ہوں تو جان لو کہ روزہ رکھنا فدیہ مذکورہ کے دینے سے بہتر ہے اور روزہ رکھنے میں کوتاہی نہ کرو۔
۱۸۵۔۔۔ ۱: حدیث میں آیا ہے کہ مصحف ابراہیمی اور تورات اور انجیل سب کا نزول رمضان ہی میں ہوا ہے اور قرآن شریف بھی رمضان کی چوبیسویں رات میں لُوح محفوظ سے اول آسمان پر سب ایک ساتھ بھیجا گیا پھر تھوڑا تھوڑا کر کے مناسب احوال آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتا رہا اور ہر رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن نازل شدہ آپ کو مکرّر سنا جاتے تھے ان سب حالات سے مہینے رمضان کی فضیلت اور قرآن مجید کے ساتھ اس کی مناسبت اور خصوصیّت خوب ظاہر ہو گئی اس لئے اس مہینے میں تراویح مقرر ہوئی پس قرآن کی خدمت اسی مہینے میں خوب اہتمام سے کرنی چاہیے کہ اسی واسطے مقرر اور معین ہوا ہے۔
۲: یعنی جب اس ماہ مبارک کے فضائل مخصوصہ عظیمہ تم کو معلوم ہو چکے تو اب جس کسی کو یہ مہینہ ملے اس کو روزہ ضرور رکھنا چاہیے اور بغرض سہولت ابتدا میں جو فدیہ کی اجازت برائے چندے دی گئی تھی وہ موقوف ہو گئی۔
۳: اس حکم عام سے یہ سمجھ میں آتا تھا کہ شاید مریض اور مسافر کو بھی افطار و قضا کی اجازت باقی نہیں رہی اور جیسے روزہ کی طاقت رکھنے والوں کو اب افطار کی ممانعت کر دی گئی ایسے ہی مسافر اور مریض کو بھی ممانعت ہو گئی ہو اس لئے مریض اور مسافر کی نسبت پھر صاف فرما دیا کہ ان کو رمضان میں افطار کرنے اور اور دنوں میں اس کے قضا کر دینے کی اجازت اسی طرح باقی ہے جیسے تھی۔
۴: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اول رمضان میں روزہ کا حکم فرمایا اور بوجہ عذر پھر مریض اور مسافر کو افطار کرنے کی اجازت دی اور دیگر اوقات میں ان دنوں کی شمار کے برابر روزوں کا قضا کرنا تم پر پھر واجب فرمایا ایک ساتھ ہونے یا متفرق ہونے کی ضرورت نہیں تو اس میں اس کا لحاظ ہے کہ تم پر سہولت رہے دشواری نہ ہو اور یہ بھی منظور ہے کہ تم اپنے روزوں کی شمار پوری کر لیا کرو۔ ثواب میں کمی نہ آ جائے اور یہ بھی مدنظر ہے کہ تم اس طریقہ سراسر خیر کی ہدایت پر اپنے اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کو بزرگی سے یاد کرو اور یہ بھی مطلوب ہے کہ ان نعمتوں پر تم شکر کرو اور شکر کرنے والوں کی جماعت میں داخل ہو جاؤ سبحان اللہ روزہ جیسی مفید عبادت ہم پر واجب فرمائی اور مشقت اور تکلیف کی حالت میں سہولت بھی فرما دی اور فراغت کے وقت میں اس نقصان کے جبر کا طریقہ بھی بتلا دیا۔
۱۸۶۔۔۔ شروع میں یہ حکم تھا کہ رمضان میں اول شب میں کھانے پینے اور عورتوں کے پاس جانے کی اجازت تھی مگر سو رہنے کے بعد ان چیزوں کی ممانعت تھی۔ بعض لوگوں نے ا سکے خلاف کیا اور سونے کے بعد عورتوں سے قربت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے آ کر عرض کیا اور اپنے قصور کا اقرار اور ندامت کا اظہار کیا اور توبہ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تو اس پر یہ آیت اتری کہ تمہاری توبہ قبول کی گئی اور احکامِ خداوندی کی اطاعت کی تاکید فرما دی گئی اور حکم سابق منسوخ فرما کر آیندہ کو اجازت دیدی گئی کہ تمام شب رمضان میں صبح صادق سے پہلے کھانا وغیرہ تم کو حلال ہے جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں آتا ہے اور آیت سابقہ میں جو بندوں پر سہولت اور عنایت کا ذکر تھا اس قرب و اجابت و اباحت سے اس کی بھی خوب تاکید ہو گئی۔ اور ایک تعلق کی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلی آیت میں تکبیر اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بعض نے پوچھا کہ ہمارا رب دُور ہے تو ہم اُسکو پکاریں یا نزدیک ہے، تو آہستہ بات کریں اس پر یہ آیت اتری یعنی وہ قریب ہے ہر ایک بات سنتا ہے آہستہ ہو یا پکار کر اور جن موقعوں میں پکار کر تکبیر کہنے کا حکم ہے وہ دوسری وجہ سے ہے یہ نہیں کہ وہ آہستہ بات کو نہیں سنتا۔
۱۸۷۔۔۔ ۱: رمضان کی رات میں جو نیند کے بعد کھانا پینا عورت کے پاس جانا حرام تھا اس میں بھی سہولت کر دی گئی اب تمام رات میں جب چاہو عورتوں کے ساتھ اختلاط کرو۔
۲: لباس اور پوشاک سے غرض غایت اتصال و اختلاط ہے یعنی جس طرح بدن سے کپڑے لگے اور ملے ہوتے ہیں اسی طرح مرد و عورت آپس میں ملتے ہیں۔
۳: اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سونے کے بعد عورتوں کے پاس جا کر بوجہ مخالفت حکم الٰہی تم اپنے آپ کو گنہگار بناتے ہو جس سے تمہارے نفس مستحق عقاب ہوتے ہیں اور ان کے ثواب میں نقصان پڑتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو معاف فرمایا اور آیندہ کو اجازت فرما دی۔
۴: یعنی لوح محفوظ میں جو اولاد تمہارے لئے اللہ نے مقدر فرما دی ہے عورتوں کی مباشرت سے وہ مطلوب ہونی چاہیے محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور اس میں عزل کی کراہت اور لواطت کی ممانعت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
۵: یعنی جیسے رات بھر میں مجامعت کی اجازت دی گئی اسی طرح رمضان کی رات میں تم کو کھانے اور پینے کی بھی اجازت ہے صبح صادق تک۔
۶: یعنی طلوع صبح صادق سے رات تک روزہ کو پورا کرو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کئی روزے متصل رکھنے اس طرح پر کہ رات کو بھی افطار کی نوبت نہ آئے مکروہ ہے۔
۷: یعنی روزہ میں تو رات کو مباشرت کی اجازت ہے مگر اعتکاف میں رات دن کسی وقت عورت کے پاس نہ جائے۔
۸: روزہ اور اعتکاف کے متعلق جو حکم دوبارہ حلت و حرمت مذکور ہوئے یہ قاعدے اللہ کے مقرر فرمائے ہوئے ہیں ان سے ہرگز باہر نہ ہونا بلکہ ان کے قریب بھی نہ جانا یا یہ مطلب ہے کہ اپنی رائے یا کسی حجت سے ان میں سرِ مُوتفاوت نہ کرنا۔
۱۸۸۔۔۔ ۱: روزہ سے طہارت نفس مقصود تھی اب تطہیر اموال کا ارشاد ہے اور معلوم ہو گیا کہ مال حلال تو صرف روزہ میں اس کا کھانا منع ہے اور مال حرام سے روزہ مدت العمر کے لئے ہے اس کے لئے کوئی حد نہیں جیسے چوری یا خیانت یا دغابازی یا رشوت یا زبردستی یا قَمار یا بیوع ناجائزہ یا سود وغیرہ ان ذریعوں سے مال کمانا بالکل حرام اور ناجائز ہے۔
۲: نہ پہنچاؤ حاکموں تک یعنی کسی کے مال کی خبر نہ دو ظالم حاکموں کو یا اپنا مال بطریق رشوت حاکم تک نہ پہنچاؤ کہ حاکم کو موافق بنا کر کسی کا مال کھا لو یا جھوٹی گواہی دیکر یا جھوٹی قسم کھا کر یا جھوٹا دعویٰ کر کے کسی کا مال نہ کھاؤ اور تم کو اپنے ناحق پر ہونے کا علم بھی ہو۔
۱۸۹۔۔۔ ۱: آفتاب ہمیشہ ایک صورت ایک حالت پر رہتا ہے اور چاند کی صورت بدلتی اور اس کی مقدار بڑھتی رہتی ہے اس لئے لوگوں نے چاند کے کم زیادہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی آیات میں شہر رمضان اور روزہ کا ذکر تھا اس آیت میں ہلال کا ذکر ہے اور روزہ اور رویت ہلال میں تعلق ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر موقوف ہے اور آگے چل کر حج اور ا سکے احکام کا ذکر ہے ذکر ہلال اس کے بھی مناسب ہے۔
۲: یعنی ان سے کہہ دو کہ چاند کا اس طرح پر نکلنا اس سے لوگوں کے معاملات اور عبادات مثل قرض اجارہ عدت مدت حمل و رضاعت روزہ زکوٰۃ وغیرہ کے اوقات ہر ایک کو بے تکلف معلوم ہو جاتے ہیں بالخصوص حج کہ روزہ وغیرہ کی قضا تو ان کے غیر ایام میں ہوتی ہے حج کی تو قضا بھی ایام مقررہ حج کے سوا دوسرے ایام میں نہیں کر سکتے اور حج کے خاص بیان فرمانے کی یہ بھی وجہ ہے کہ ذیقعدہ ذی الحج محرم رجب یہ چار مہینے اشہر حرم تھے ان میں لڑائی کرنا حرام تھا اہلِ عرب کو اگر ان مہینوں میں لڑائی پیش آتی تو مہینوں کو مقدم موخر کر کے لڑائی کرتے مثلاً ذی الحج یا محرم میں لڑائی پیش آتی تو اس کو تو صفر بنا لیتے اور جب صفر آتا تو اس کو ذی الحج یا محرم ٹھہرا لیتے ان کے اس خیال کے ابطال کی غرض سے یہاں حج کی تصریح فرمائی کہ جو ایام حج کے لئے اللہ نے مقرر فرمائے ان میں تقدم تأخر ہرگز جائز نہیں اب یہاں سے حج کے متعلقات اور ا سکے احکام دُور تک ذکر ہوں گے۔
۳: زمانہ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ جب گھر سے نکل کر حج کا احرام باندھتے پھر کوئی ضرورت گھر میں جانے کی پیش آتی تو دروازہ سے نہ جاتے چھت پر چڑھ کر گھر کے اندر اُترتے یا گھر کی پشت کی جانب نقب دیکر گھستے اور اس کو نیکی کی بات سمجھتے اللہ نے اس کو غلط فرما دیا۔
فائدہ : پہلے جملہ میں حج کا ذکر تھا اور یہ حکم بھی حج کے متعلق تھا اس مناسبت سے اس حکم کو یہاں بیان فرمایا اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں اھلہ سے مراد اشہر حج یعنی شوال اور ذیقعدہ اور دس راتیں ذی الحجہ کی ہیں کہ احرام حج ان میں ہونا چاہیے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ حج کے یہی ایام ہیں یا اور ایام میں بھی حج ہو سکتا ہے اللہ نے جواب دیا کہ حج کے لئے اشہر حج مقرر اور معین ہیں اور اسی کی مناسبت سے احرام کے اندر گھر میں جانے کی کیفیت ذکر فرما دی اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اپنی طرف سے کسی جائز اور مباح امر کو نیکی بنا لینا اور دین میں داخل کر لینا مذموم اور ممنوع ہے جس سے بہت سی باتوں کا بدعت اور مذموم ہونا معلوم ہو گیا۔
۱۹۰۔۔۔ ۱: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے مکہ دارالامن تھا، کوئی اپنے دشمن کو بھی مکہ میں پاتا تو کچھ نہ کہتا اور اشہر حرام یعنی ذی القعدہ اور ذی الحجہ اور محرم اور رجب یہ چاروں مہینے بھی امن کے تھے ان میں تمام ملک عرب میں لڑائی موقوف ہو جاتی اور کوئی کسی کو کچھ نہ کہتا۔ ذی القعدہ ۶ ہجری میں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم جماعت صحابہ کے ہمراہ عمرہ کے قصد سے مکہ کی زیارت کو تشریف لائے جب آپ مکہ کے نزدیک پہنچے تو مشرکین جمع ہو کر لڑنے کو تیار ہو گئے اور مسلمانوں کو روک دیا آخر کو اس پر صلح ہوئی کہ اب تو بدون زیارت واپس ہو جائیں اور اگلے برس آ کر عمرہ کریں اور تین روز اطمینان سے مکہ میں رہیں۔ جب دوسرے برس ذی القعدہ ٧ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ کا قصد فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو یہ اندیشہ تھا کہ اہل مکہ اگر اب بھی وعدہ خلافی کر کے لڑنے بھڑنے کو تیار ہو گئے تو پھر ہم کیا کریں گے لڑیں تو شہر حرام اور حرم مکہ میں کیونکر لڑیں اور نہ لڑیں تو عمرہ کیسے کریں اس پر حکم الٰہی آیا کہ اگر وہ اس مہینہ حرام میں خلاف عہد تم سے لڑیں تو تم بھی بے تامل ان سے لڑو ہاں تمہاری طرف سے ابتداء اور زیادتی نہ ہونی چاہیے حج کے ذیل میں عمرہ حدیبیہ کی مناسبت سے قتال کفار کا ذکر آیا اس لئے جہاد کے بعض احکام و آداب مناسب مقام مذکور فرمائے جاتے ہیں ا سکے بعد پھر حج کے احکام بیان ہوں گے۔
۲ : زیادتی مت کرو اس کے معنی یہ کہ لڑائی میں لڑکے اور عورتیں اور بوڑھے قصداً نہ مارے جائیں اور حرم کے اندر اپنی طرف سے لڑائی شروع نہ کی جائے۔
۱۹۱۔۔۔ ۱: جس جگہ پاؤ یعنی حرم میں ہوں خواہ غیر حرم میں جہاں سے تم کو نکالا یعنی مکہ سے۔
۲: یعنی دین سے پھر جانا یا دوسرے کو پھرانا مہینہ حرام کے اندر مار ڈالنے سے بہت بڑا گناہ ہے مطلب یہ کہ حرم مکہ میں کفار کا شرک کرنا اور کرانا زیادہ قبیح ہے حرم میں مقاتلہ کرنے سے تو اب اے مسلمانو تم کچھ اندیشہ نہ کرو اور جواب ترکی بہ ترکی دو۔
۳: یعنی مکہ ضرور جائے امن ہے لیکن جب انہوں نے ابتداء کی اور تم پر ظلم کیا اور ایمان لانے پر دشمنی کرنے لگے کہ یہ بات مار ڈالنے سے بھی سخت ہے تو اب اُن کو امان نہ رہی جہاں پاؤ مارو آخر جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرما دیا کہ جو ہتھیار سامنے کرے اسی کو مارو اور باقی سب کو امن دیا۔
۱۹۲۔۔۔ یعنی باوجود ان سب باتوں کے اگر اب بھی مسلمان ہوں اور شرک سے باز آئیں تو توبہ قبول ہے۔
۱۹۳۔۔۔ یعنی کافروں سے لڑائی اسی واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور کسی کو دین سے گمراہ نہ کر سکیں اور خاص اللہ ہی کا حکم جاری رہے سو وہ جب شرک سے باز آ جائیں تو زیادتی سوائے ظالموں کے اور کسی پر نہیں یعنی جو بدی سے باز آ گئے وہ اب ظالم نہ رہے تو اب ان پر زیادتی بھی مت کرو ہاں جو فتنہ سے باز نہ رہیں ان کو شوق سے قتل کرو۔
۱۹۴۔۔۔ حرمت کا مہینہ یعنی ذیقعدہ کہ جس میں عمرہ کی قضا کرنے جا رہے ہو بدلہ ہے اس حرمت کے مہینہ یعنی ذیقعدہ کا کہ سال گزشتہ میں اسی مہینہ کے اندر کفار مکہ نے تم کو عمرہ سے روک دیا تھا اور مکہ میں جانے نہ دیا تھا یعنی اب تم شوق سے ان سے بدلہ لو کیونکہ ادب اور حرمت رکھنے میں تو برابری ہے یعنی اگر کوئی کافر ماہ حرام کی حرمت کرے اور اس مہینہ میں تم سے نہ لڑے تو تم بھی ایسا ہی کرو مکہ والے جو سال گزشتہ میں تم پر ظلم کر چکے اور نہ ماہ حرام کی حرمت کی نہ حرم مکہ کی نہ تمہارے احرام کا لحاظ کیا اور تم نے اس پر بھی صبر کیا اگر اس دفعہ بھی سب حرمتوں سے قطع نظر کر کے آمادہ جنگ ہوں تو تم بھی کسی حرمت کا خیال مت کرو بلکہ اگلی پچھلی سب کسر مٹا لو مگر جو کرو خدا سے ڈر کر کرو اس کے خلافِ اجازت ہرگز نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا بیشک ناصر و مددگار ہے۔
۱۹۵۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت میں یعنی جہاد وغیرہ میں اپنے مال کو صرف کرو اور اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو یعنی جہاد کو چھوڑ بیٹھو یا اپنے مال کو جہاد میں صرف نہ کرو کہ اس سے تم ضعیف اور دشمن قوی ہو گا۔
۱۹۶۔۔۔ ۱: حج کے ضمن میں جہاد کا ذکر جو مناسب تھا اس کو بیان فرما کر اب احکام حج و عمرہ بتلائے جاتے ہیں۔
۲: مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے حج یا عمرہ شروع کیا یعنی اس کا احرام باندھا تو اس کو پورا کرنا لازم ہو گیا۔ بیچ میں چھوڑ بیٹھے اور احرام سے نکل جائے یہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر کوئی دشمن یا مرض کی وجہ سے بیچ ہی میں رک گیا اور حج و عمرہ نہیں کر سکتا تو اس کے ذمہ پر ہے قربانی جو اس کو میسر آئے جس کا ادنیٰ مرتبہ ایک بکری ہے اس قربانی کو کسی کے ہاتھ مکہ کو بھیجے اور یہ مقرر کر دے کہ فلاں روز اس کو حرم مکہ میں پہنچ کر ذبح کر دینا اور جب اطمینان ہو جائے کہ اب اپنے ٹھکانے یعنی حرم میں پہنچ کر اس کی قربانی ہو چکی ہو گی اس وقت سر کی حجامت کرا دے اس سے پہلے ہرگز نہ کرائے اس کو دم احصار کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔
۳: یعنی اگر حالت احرام میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں درد یا سر میں زخم ہو تو اس کو بضرورت حالت احرام میں حجامت کرنا سر کا جائز ہے مگر بدلا دینا پڑے گا۔ تین روزے یا چھ محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ایک دُنبے یا بکرے کی قربانی کرنا۔ یہ دم جنایت ہے کہ حالت احرام میں بضرورت مرض لاچار ہو کر امور مخالف احرام کرنے پڑے۔
۴: یعنی جو محرم کہ دشمن کی طرف سے اور مرض سے مطمئن ہو خواہ اس کو کسی قسم کا اندیشہ پیش ہی نہ آیا یا دشمن کا خوف یا بیماری کا کھٹکا پیش تو آیا مگر جلد زائل ہو گیا احرام حج و عمرہ میں اس سے خلل نہ آنے پایا تو اس کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے حج اور عمرہ دونوں ادا کئے، یعنی قِران میں تمتع کیا افراد نہیں کیا تو اس پر قربانی ایک بکرا، یا ساتواں حصہ اونٹ کا یا گائے کا لازم ہے اس کو دم قِران اور دم تمتع کہتے ہیں امام ابو حنیفہ اس کو دم شکر کہتے ہیں اور اس کو اس میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں اور امام شافعی اس کو دم جبر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔
۵: یعنی جس نے قِران یا تمتع کیا اور اس کو قربانی میّسر نہ ہوئی تو اس کو چاہیے کہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں جو کہ یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ پر ختم ہوتے ہیں اور سات روزے جب رکھے کہ حج سے بالکل فارغ ہو جائے دونوں کا مجموعہ دس روزے ہو گیا۔
۶: یعنی قِران و تمتع اس کے لئے ہے جو مسجد حرام یعنی حرم مکہ کے اندر یا اس کے قریب نہ رہتا ہو بلکہ حل یعنی خارج از میقات کا رہنے والا ہو اور جو حرم مکّہ کے رہنے والے ہیں وہ صرف افراد کریں۔
۱۹۷۔۔۔ ۱: شوال کے غرہ سے لے کر بقر عید کی صبح یعنی ذی الحجہ کی دسویں رات تک ان کا نام اشہر حج ہے اس لئے کہ احرام حج ان کے اندر ہوتا ہے اگر اس سے پہلے کوئی احرام حج کا باندھے گا تو وہ ناجائز یا مکروہ ہو گا یعنی حج کے لئے چند مہینے مقرر ہیں اور سب کو معلوم ہیں۔ مشرکین عرب جو اپنی ضرورت میں ان میں تغیر تبدّل کرتے تھے جس کو دوسری آیت میں اِنَّمَا النَّسِیْءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ فرمایا گیا ہے۔ یہ بالکل بے اصل اور باطل ہے۔
۲: حج لازم کیا یعنی احرام حج کا باندھا اس طرح پر کہ دل سے نیت کی اور زبان سے تلبیہ پڑھا۔
۳: ایک غلط دستور کفر میں یہ بھی تھا کہ بغیر زادِ راہ خالی ہاتھ حج کو جانا ثواب سمجھتے اور اس کو توکّل کہتے اور وہاں جا کر ہر ایک سے مانگتے پھرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مقدور ہو وہ خرچ ہمراہ لے جائیں تاکہ خود تو سوال سے بچیں اور لوگوں کو حیران نہ کریں۔
۱۹۸۔۔۔ ۱: حج کے سفر میں اگر سوداگری بھی کرو تو گناہ نہیں بلکہ مباح ہے لوگوں کو اس میں شبہ ہوا تھا کہ شاید تجارت کرنے سے حج میں نقصان آئے اب جس کو مقصود اصلی حج ہو اور اس کے ذیل میں تجارت بھی کر لے تو اس کے ثواب میں نقصان نہ آئے گا۔
۲: مشعرالحرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے اس پہاڑ پر قیام کرنا افضل ہے اور تمام مزدلفہ میں جہاں قیام کرے جائز ہے سوائے وادی مُحَسَّر کے۔
۳: یعنی کفار بھی اللہ کا ذکر تو کرتے تھے مگر شرک کے ساتھ وہ ذکر نہ چاہیے بلکہ توحید کے ساتھ جس کی تم کو ہدایت فرمائی۔
۱۹۹۔۔۔ ۱: زمانہ کفر کی ایک غلطی یہ بھی تھی کہ مکہ کے لوگ عرفات تک نہ جاتے کہ عرفات حرم سے باہر ہے بلکہ حرم کی حد یعنی مزدلفہ میں ٹھہر جاتے اور قریش مکہ کے سوا اور سب عرفات تک پہنچتے اور پھر وہاں سے طواف کے لئے مکہ کو واپس آتے اس لئے فرما دیا کہ جہاں سے سب لوگ طواف کو آئیں تم بھی وہیں سے جا کر لَوٹو یعنی عرفات سے اور اگلی تقصیر پر نادم ہو۔
۲: یعنی دسویں ذی الحجہ کو جب افعالِ حج رمی جمرہ اور ذبح قربانی اور سر منڈوانے اور طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فراغت پا چکو تو زمانہ قیام منیٰ میں اللہ کا ذکر کرو جیسے کفر کے زمانہ میں اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس بے بھی زیادہ ذکر کرنا چاہیئے۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں تین روز قیام کرتے اور بازار لگاتے اور اپنے باپ دادا کی بڑائی اور فضائل بیان کیا کرتے سو اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا اور فرما دیا کہ ان دنوں میں خدا تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو۔
۲۰۲۔۔۔ ۱: پہلے یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، اوروں کا مت کرو اب یہ بتلایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور اس سے دعا مانگنے والے بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ کہ جن کو مطلوب صرف دنیا ہے ان کی دعا یہی ہے کہ ہم کو جو کچھ دولت عزّت وغیرہ دی جائے دنیا ہی میں دے دی جائے سو یہ لوگ تو آخرت کی نعمتوں سے بے بہرہ ہیں دوسرے وہ کہ طالب آخرت ہیں جو دنیا کی خوبی یعنی توفیق بندگی وغیرہ اور آخرت کی خوبی یعنی ثواب اور رحمت و جنت دونوں کو طلب کرتے ہیں سو ایسوں کو آخرت میں ان کے حج اور دُعا جُملہ حسنات سے پورا حصہ ملے گا۔
۲: یعنی قیامت کو سب سے ایک دم میں حساب لے گا یا یوں کہو کہ قیامت کو دُور نہ سمجھو بلکہ جلد آنے والی ہے اس سے کسی طرح بچاؤ ممکن نہیں اس کی فکر سے غافل مت ہو۔
۲۰۳۔۔۔ ۱: ایام معدودات سے مراد ذی الحجہ کی گیارھویں، بارھویں، تیرھویں، تاریخیں ہیں جن میں حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کا حکم ہے ان دنوں میں رمی جمار یعنی کنکریوں کے مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے اور دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں چاہیے کہ تکبیر اور ذکر الٰہی کثرت سے کرے۔
۲: یعنی گناہ تو یہ ہے کہ ممنوعاتِ شرعیہ سے پرہیز نہ کرے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اور زمانہء حج میں پرہیزگاری کرے تو پھر اس بات میں کچھ گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کیا یا تین دن کہ اللہ نے دونوں باتیں جائز رکھیں گو افضل یہی ہے کہ تین روز قیام کرے۔
۳: یعنی حج کی خصوصیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہر کام میں اور ہر وقت ڈرتے رہو کہ تم سب کو قبروں سے اُٹھ کر اس کے پاس جمع ہونا ہے حساب دینے کو اب حج کا ذکر تو تمام ہو چکا مگر حج کے ذیل میں جو لوگوں کی دو قسموں کا ذکر آگیا تھا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُولُ اور وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّقُولُ یعنی کافر اور مومن کا تو اب اس کی مناسبت سے تیسری قسم یعنی منافق کا حال بھی بیان کیا جاتا ہے۔
۲۰۶۔۔۔ یہ حال ہے منافق کا ظاہر میں خوشامد کرے اور اللہ کو گواہ کرے کہ میں سچا ہوں اور میرے دل میں اسلام کی محبت ہے اور جھگڑے کے وقت کمی نہ کرے اور قابو پا دے تو لوٹ مار مچا دے اور منع کرنے سے اس کو زیادہ ضد چڑھے اور گناہ میں ترقی کرے، کہتے ہیں ایک شخص اخنس ابن شریق تھا منافق فصیح و بلیغ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آتا تو غایت اخلاص اور محبت اسلام ظاہر کرتا اور جب چلا جاتا تو کسی کی کھیتی جلا دیتا کسی کے جانوروں کے پیر کاٹ ڈالتا اس پر منافقین کی بُرائی میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۲۰۷۔۔۔ ۱: پہلی آیت میں اس منافق کا ذکر تھا جو دین کے بدلے دنیا لیتا تھا اس کے مقابلہ میں اب اس آیت میں اس مخلص کامل الایمان کا ذکر ہے جو دنیا اور جان و مال کو طلب دین میں صرف کرتا ہے۔ کہتے ہیں حضرت صہیب رومی بارادہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آتے تھے راستہ میں مشرکین نے ان کو گھیر لیا صہیب نے کہا کہ میں اپنا گھر اور تمام مال تم کو اس شرط پر دیتا ہوں کہ مجھ کو مدینہ جانے دو اور ہجرت سے نہ روکو اس پر وہ راضی ہو گئے اور صہیب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں چلے گئے اس پر یہ آیت مخلصین کی تعریف میں نازل ہوئی۔
۲: اُس کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کو توفیق دی جو اُسکی خوشی میں اپنی جان اور مال حاضر کر دیتے ہیں اور نیز ہر ایک کی جان و مال تو اللہ کی مِلک ہے پھر جنت کے بدلے اس کو خریدنا یہ محض اس کا احسان ہے۔
۲۰۸۔۔۔ ۱: پہلی آیت میں مومن مخلص کی مدح فرمائی تھی جس سے نفاق کا ابطال منظور تھا، اب فرماتے ہیں کہ اسلام کو پورا پورا قبول کرو یعنی ظاہر اور باطن اور عقیدہ اور عمل میں صرف احکام اسلام کا اتباع کرو یہ نہ ہو کہ اپنی عقل یا کسی دوسرے کے کہنے سے کوئی حکم تسلیم کر لو یا کوئی عمل کرنے لگو سو اس سے بدعت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی عقیدہ یا کسی عمل کو کسی وجہ سے مستحسن سمجھ کر اپنی طرف سے دین میں شمار کر لیا جائے مثلاً نماز اور روزہ جو کہ افضل عبادات ہیں اگر بدون حکم شریعت کوئی اپنی طرف سے مقرر کرنے لگے جیسے عید کے دن عید گاہ میں نوافل کا پڑھنا یا ہزارہ روزہ رکھنا یہ بدعت ہو گا، خلاصہ ان آیات کا یہ ہوا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لاؤ اور بدعات سے بچتے رہو چند حضرات یہود سے مشرف بہ اسلام ہوئے مگر احکام اسلام کے ساتھ احکام تورات کی بھی رعایت کرنی چاہتے تھے مثلاً ہفتہ کے دن کو معظم سمجھنا اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے بدعت کا انسداد کامل فرمایا گیا۔
۲: کہ اپنے وسوسہ سے بے اصل چیزوں کو تمہارے دلنشین کر دیتا ہے اور دین میں بدعات کو شامل کرا کر تمہارے دین کو خراب کرتا ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو۔
۲۰۹۔۔۔ یعنی شریعت محمدی کے صاف صاف احکام معلوم ہونے کے بعد بھی اگر کوئی اس پر قائم نہ ہو بلکہ دوسری طرف بھی نظر رکھے تو خوب سمجھ لو کہ اللہ سب پر غالب ہے جس کو چاہے سزا دے کوئی اس کے عذاب کو روک نہیں سکتا بڑا حکمت والا ہے جو کرتا ہے حق اور مصلحت کے موافق کرتا ہے خواہ عذاب دے یا کچھ ڈھیل دے یعنی نہ جلد باز ہے نہ بھولنے والا نہ خلاف انصاف اور غیر مناسب امر کو کرنے والا۔
۲۱۰۔۔۔ یعنی جو لوگ حق تعالیٰ کے صاف صاف احکام کے بعد بھی اپنی کجروی سے باز نہیں آتے تو ان کو رسول اور قرآن پر تو یقین اور اعتماد نہ ہوا اب صرف اس کی کسر ہے کہ خدائے پاک خود اور اس کے فرشتے ان پر آئیں اور جزا اور سزا کا قصہ جو قیامت کو ہونے والا ہے آج ہی فیصل کیا جائے سو آخرکار سب امور حساب اور عذاب وغیرہ کا مرجع اللہ ہی کی طرف ہے تمام حکم اسی کے حضور سے صادر ہوں گے اس میں کوئی تردّد کی بات نہیں گھبراتے کیوں ہو۔
۲۱۱۔۔۔ ۱: اس سے پہلے فرمایا تھا کہ حق تعالیٰ کے صاف حکم کے بعد اس کی مخالفت کرنا موجب عذاب ہے اب اسی کی تائید میں فرماتے ہیں کہ خود بنی اسرائیل ہی سے پوچھو کہ ہم نے ان پر کتنی آیات واضحات اور صریح احکام بھیجے جب ان سے انحراف کیا تو مبتلائے عذاب ہوئے یہ نہیں کہ ہم نے اول ہی ان کو عذاب دیا ہو۔
۲: یعنی یہ قاعدہ البتہ محقق ہے کہ جو کوئی اللہ کے احکام سراپا ہدایت کو بدلے اور اس کے انعامات اور احسانات کا کفران کرے تو پھر اس کا عذاب سخت ہے آیات کے بدلنے والے پر کہ دنیا میں مارا جائے اور لوٹا جائے یا جزیہ دے اور ذلیل ہو۔ اور قیامت کو دوزخ میں جائے ہمیشہ کے لئے۔
فائدہ : نعمت کے پہنچ چکنے کا یہ مطلب کہ اس کا علم حاصل ہو جائے یا بے تکلف حاصل ہو سکے۔
۲۱۲۔۔۔ ۱: یعنی کافر جو اللہ کے صاف احکام اور اس کے پیغمبروں کی مخالفت کرتے ہیں جو اُوپر مذکور ہو چکا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظروں میں دنیا کی خوبی اور اس کی محبت ایسی سما گئی ہے کہ اس کے مقابلہ میں آخرت کے رنج اور راحت کو خیال ہی میں نہیں لاتے بلکہ مسلمان جو فکر آخرت میں مصروف اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں مشغول ہیں الٹا ان کو ہنستے ہیں اور ذلیل سمجھتے ہیں سو ایسے احمق نفس کے بندوں سے تعمیل احکام الٰہی ہو تو کیونکر ہو۔ روسائے مشرکین حضرت بلال اور عمار اور صہیب اور فقرائے مہاجرین کو دیکھ کر تمسخر کرتے کہ ان نادانوں نے آخرت کے خیال پر دنیا کی تکالیف اور مصائب کو اپنے سر لیا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تو دیکھو کہ ان فقیروں محتاجوں کی امداد سے عرب کے سرداروں پر غالب آنا اور دنیا بھر کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
۲: اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے کہ یہ ان کی جہالت اور خام خیالی ہے کہ دنیا پر ایسے غش ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہی غرباء اور فقراء قیامت کو ان سے اعلیٰ اور برتر ہوں گے اور اللہ دنیا و آخرت میں جس کو چاہے بے شمار روزی عطا فرمائے چنانچہ انہی غریبوں کو جن پر کافر ہنستے تھے اموال بنی قریظہ اور نضیر اور سلطنت فارس اور روم وغیرہ پر اللہ نے مسلط کر دیا۔
۲۱۳۔۔۔ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ایک ہی سچا دین رہا ایک مدت تک اس کے بعد دین میں لوگوں نے اختلاف ڈالا تو خدا تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا جو اہل ایمان و طاعت کو ثواب کی بشارت دیتے تھے اور اہل کفر و معصیت کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ سچی کتاب بھی بھیجی تاکہ لوگوں کا اختلاف اور نزاع دور ہو اور دین حق ان کے اختلافات سے محفوظ اور قائم رہے اور احکام الٰہی میں انہی لوگوں نے اختلاف ڈالا جن کو وہ کتاب ملی تھی جیسے یہود و نصاریٰ تورات و انجیل میں اختلاف و تحریف کرتے تھے اور یہ نزاع بے سمجھی سے نہیں کرتے تھے بلکہ خوب سمجھ کر محض حب دنیا اور ضد اور حسد سے ایسا کرتے تھے سوا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اہل ایمان کو طریقہ حق کی ہدایت فرمائی اور گمراہوں کے اختلافات سے بچا لیا جیسے آپ کی امت کو ہر عقیدہ اور ہر عمل میں امر حق کی تعلیم فرمائی اور یہود و نصاریٰ کے اختلاف اور افراط و تفریط سے ان کو محفوظ رکھا۔
فائدہ: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ اللہ نے جو کتابیں اور نبی متعدد بھیجے تو اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدا طریقہ بتلایا ہو بلکہ سب کے لیے اللہ نے اصل میں ایک ہی راستہ مقرر کیا جس وقت اس راہ سے بچلے تو اللہ نے نبی کو بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں اس کے بعد پھر بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ پاک نے اسی ایک راہ کے قائم کرنے کو بھیجا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بے شمار جب ایک مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا اب آخر میں ایسا طریقہ اور قاعدہ فرما دیا جو سب بیماریوں سے بچائے اور سب کے بدلے کفایت کرے اور وہ طریقہ اسلام ہے جس کے لیے پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن شریف بھیجے گئے۔ دوسری بات یہ معلوم ہو گئی کہ سنت اللہ یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف ہر کتاب الٰہی میں اختلاف کو پسند کرتے رہے اور اس میں ساعی رہے تو اب اہل ایمان کو کفار کی بدسلوکی اور فساد سے تنگدل ہونا نہ چاہیے۔
۲۱۴۔۔۔ پہلے مذکور ہوا کہ دشمنوں کے ہاتھ سے انبیاء اور ان کی امتوں کو ہمیشہ ایذائیں ہوئیں تو اب اہل اسلام کو ارشاد ہے کہ کیا تم کو اس بات کی طمع ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ حالانکہ اگلی امتوں کو جو ایذائیں پیش آئیں وہ تم کو پیش نہیں آئیں کہ ان کو فقر و فاقہ اور مرض اور خوف کفار اس درجہ کو پیش آئے کہ مجبور اور عاجز ہو کر نبی اور ان کی امت بول اٹھی کہ دیکھئے اللہ نے جس مدد اور اعانت کا وعدہ فرمایا تھا وہ کب آئے گی، یعنی بتقضائے بشریت پریشانی کی حالت میں مایوسانہ کلمات سرزد ہونے لگے۔ انبیاء اور مومنین کا یہ کہنا کچھ شک کی وجہ سے نہ تھا حضرت مولانا اسی کی بابت مثنوی میں فرماتے ہیں درگماں افتاد جان انبیاء زاتفاق منکری اشقیاء بلکہ بحالت اضطرار بمقتضائے بشریت اس کی نوبت آئی جس میں کوئی ان پر الزام نہیں جب نوبت یہاں تک پہنچی تو رحمت الٰہی متوجہ ہوئی اور ارشاد ہوا کہ ہوشیار ہو جاؤ اللہ کی مدد آ گئی گھبراؤ نہیں سوائے مسلمانوں تکالیف دنیاوی سے اور دشمنوں کے غلبہ سے گھبراؤ نہیں تحمل کرو اور ثابت قدم رہو۔
۲۱۵۔۔۔ ۱: آیات سابقہ میں کلیۃً یہ مضمون بہت تاکید سے بیان ہوا کہ کفر و نفاق کو چھوڑو اور اسلام میں پوری طرح داخل ہو حکم الٰہی کے مقابل کسی کی مت سنو اللہ کی خوشی میں جان و مال خرچ کرو اور ہر طرح کی شدت اور تکلیف پر تحمل کرو اب یہاں سے اسی کلیہ کے متعلق جزئیات کی تفصیل بیان ہوتی ہے جو کہ مال اور جان اور دیگر معاملات مثل نکاح و طلاق وغیرہ کے متعلق ہیں تاکہ اس کلیہ کی تحقیق و تاکید خوب ذہن نشین ہو جائے۔
۲: بعض اصحاب جو مالدار تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا تھا کہ مال میں سے خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں اس پر یہ حکم ہوا کہ قلیل خواہ کثیر جو کچھ خدا کے لیے خرچ کرو وہ والدین اور اقارب اور یتیم محتاج اور مسافروں کے لیے ہے یعنی حصول ثواب کے لیے خرچ کرنا چاہو تو جتنا چاہو کرو اس کی کوئی تعیین و تحدید نہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ جو مواقع ہم نے بتلائے ان میں صرف کرو۔
۲۱۶۔۔۔ ۱: یعنی دین کے دشمنوں سے لڑنا فرض ہوا۔
فائدہ: جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقاتلہ کی اجازت نہ ہوئی جب مدینہ کو ہجرت فرمائی تو مقابلہ کی اجازت ہوئی مگر صرف ان کفار سے کہ جو خود اہل اسلام سے مقاتلہ کریں اس کے بعد علیٰ العموم کفار سے مقاتلہ کی اجازت ہو گئی اور جہاد فرض ہوا اگر دشمنان دین مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ بشرطیکہ جملہ شرائط جہاد جو کتب فقہ میں مذکور ہیں پائی جائیں البتہ جن لوگوں سے مسلمان مصالحت اور معاہدہ کر لیں یا ان کی امن اور حفاظت میں آ جائیں تو ان سے لڑائی کرنا یا ان کے مقابلہ میں ان کے کسی مخالف کو مدد دینا ہرگز مسلمانوں کو جائز نہیں۔
۲: برے لگنے کا مطلب یہ ہے کہ نفس کو دشوار اور گراں معلوم ہوتا ہے یہ نہیں کہ قابل رد و انکار نظر آئے اور مخالف حکمت و مصلحت سمجھا جائے اور موجب ناخوشی اور تنفر ہو سو اتنی بات میں کوئی الزام نہیں جب انسان کو بالطبع زندگی سے زیادہ کوئی چیز مرغوب نہیں تو ضرور مقاتلہ سے زیادہ دشوار کوئی شے نہ ہونی چاہیے۔
۳: یعنی یہ بات ضروری نہیں کہ جس چیز کو تم اپنے حق میں نافع یا مضر سمجھو وہ واقعہ میں بھی تمہارے حق میں ویسی ہی ہوا کرے بلکہ ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اپنے لیے مضر سمجھو اور وہ مفید ہو اور کسی چیز کو مفید خیال کر لو اور وہ سفر ہو تم نے تو سمجھ لیا کہ جہاد میں جان و مال سب کا نقصان ہے اور ترک جہاد میں دونوں کی حفاظت اور یہ نہ جانا کہ جہاد میں دنیا اور آخرت کے کیا کیا منافع ہیں اور اس کے ترک میں کیا کیا نقصان ہیں تمہارے نفع نقصان کو خدا ہی خوب جانتا ہے تم اسے نہیں جانتے اس لیے وہ جو حکم دے اس کو حق سمجھو اور اپنے اس خیال کو چھوڑو۔
۲۱۷۔۔۔ ۱: حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ایک جماعت کافروں کے مقابلہ کو بھیجی انہوں نے کافروں کو مارا اور مال لوٹ لائے۔ مسلمان تو جانتے تھے کہ وہ اخیر دن جمادی الثانی کا ہے اور وہ رجب کا غرہ تھا، جو کہ اشہر حرم میں داخل ہے کافروں نے اس پر بہت طعن کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام مہینہ کو بھی حلال کر دیا اور اپنے لوگوں کو حرام مہینہ میں لوٹ مار کی اجازت دے دی مسلمانوں نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ ہم سے شبہ میں یہ کام ہوا اس کا کیا حکم ہے تب یہ آیت اتری۔
۲: یعنی شہر حرام میں قتال کرنا بیشک گناہ کی بات ہے لیکن حضرات صحابہ نے تو اپنے علم کے موافق جمادی الثانی میں جہاد کیا تھا شہر حرام یعنی رجب میں نہیں کیا اس لیے مستحق عفو ہیں ان پر الزام لگانا بے انصافی ہے
۳: یعنی لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا اور خود دین اسلام کو تسلیم نہ کرنا اور زیارت بیت اللہ سے لوگوں کو روکنا اور مکہ کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا یہ باتیں شہر حرام میں مقاتلہ کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہیں اور کفار برابر یہ حرکات کرتے تھے خلاصہ یہ کہ شہر حرام میں بلاوجہ اور ناحق لڑنا بیشک اشد گناہ ہے مگر جو لوگ کہ حرم میں بھی کفر پھیلائیں اور بڑے بڑے فساد کریں اور اشہر حرم میں بھی مسلمانوں کے ستانے میں قصور نہ کریں ان سے لڑنا منع نہیں علاوہ ازیں جب مشرکین ایسے امور شنیعہ میں سرگرم ہیں تو ایک تھوڑے قصور پر مسلمانوں کی نسبت طعن کرنا جو ان سے بوجہ لاعلمی صادر ہوا بڑی شرم کی بات ہے۔
۴: یعنی دین میں فتنہ اور فساد ڈالنا تاکہ لوگ دین حق کو قبول نہ کریں اس قتل سے بدرجہا مذموم ہے جو مسلمانوں سے شہر حرام میں واقع ہوا مشرکین کی عادت تھی کہ دین اسلام کی باتوں میں طرح طرح سے خدشات کیا کرتے تھے تاکہ لوگ شبہ میں پڑ جائیں اور اسلام کو قبول نہ کریں چنانچہ اسی قصہ میں کہ مسلمانوں سے شہرحرام میں بوجہ لاعلمی قتل واقع ہوا اس پر مشرکین نے جو زبان درازی کی تو اس سے مقصود یہی تھا کہ لوگ قبول اسلام سے متنفر ہو جائیں تو خلاصہ یہ ہوا کہ مسلمانوں سے جو قتل صادر ہوا اس پر مشرکین کا طعن کرنا اس وجہ سے کہ لوگ دین حق سے بچ جائیں قتل مذکور سے بدرجہا مذموم و شنیع ہے۔
۵: جب تک تم دین حق پر قائم رہو گے یہ مشرکین کسی حالت میں اور کسی موقع پر بھی تمہارے مقاتلہ اور مخالفت میں کمی نہیں کریں گے۔ حرم مکہ اور شہر حرام ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ عمرہ حدیبیہ میں پیش آیا نہ حرم مکہ کی حرمت کی اور نہ شہر حرام کی بلاوجہ محض عناد سے مارنے مرنے کو مستعد ہو گئے اور مسلمانوں کے مکہ میں جانے اور عمرہ کرنے کے روا دار نہ ہوئے پھر ایسے معاندین کے طعن تشنیع کی کیا پروا کی جائے اور ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکا جائے۔
۶: یعنی دین اسلام سے پھر جانا اور اسی حالت پر اخیر تک قائم رہنا ایسی سخت بلا ہے کہ عمر بھر کے نیک کام ان کے ضائع ہو جاتے ہیں کہ کسی بھلائی کے مستحق نہیں رہتے دنیا میں ان کی جان و مال محفوظ رہے نہ نکاح قائم رہے نہ اُن کو میراث ملے نہ آخرت میں ثواب ملے اور نہ کبھی جہنم سے نجات نصیب ہو، ہاں اگر پھر اسلام قبول کر لیا تو صرف اس اسلام کے بعد کے اعمال حسنہ کی جزا پوری ملے گی۔
۲۱۸۔۔۔ آیت سابقہ سے جماعت اصحاب مذکورہ بالا کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہمارے اوپر اس بارے میں کوئی مواخذہ نہیں مگر یہ تردّد ان کو تھا کہ دیکھئے اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں اس پر یہ آیت اتری کہ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کے واسطے اس کے دشمنوں سے لڑے اپنی کوئی غرض اس لڑائی میں نہ تھی وہ بیشک اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے مستحق رہیں، اور اللہ اپنے بندوں کی خطائیں بخشنے والا اور ان پر انعام فرمانے والا ہے وہ ایسے تابعداروں کو محروم نہ کرے گا۔
۲۱۹۔۔۔ ۱: شراب اور جوئے کے حق میں کئی آیتیں اتریں ہر ایک میں ان کی برائی ظاہر کی گئی آخر سورہ مائدہ کی آیت میں صاف ممانعت کر دی گئی اب جو چیزیں نشہ لادیں وہ سب حرام ہیں اور جو شرط باندھی جائے کسی چیز پر جس میں ہار اور جیت ہو وہ محض حرام ہے اور ایک طرف کی شرط حرام نہیں۔
۲: شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے جو تمام امور شنیعہ سے بچاتی ہے اور لڑائی اور قتل وغیرہ طرح طرح کی خرابیوں کی نوبت آتی ہے اور مختلف قسم کے امراض روحانی اور جسمانی پیدا ہوتے ہیں جو بسا اوقات باعث ہلاکت ہوتے ہیں اور جوا کھیلنے میں حرام مال کا کھانا اور سرقہ اور تضییع مال اور عیال باہم دشمنی وغیرہ طرح طرح کے مفاسد ظاہری و باطنی پیش آتے ہیں، ہاں ان میں سرسری نفع بھی ہے مثلاً شراب پی کر لذت و سرور ہو گیا اور جوا کھیل کر بلامشقت مال ہاتھ آگیا۔
۳: لوگوں نے پوچھا تھا کہ مال اللہ کے واسطے کس قدر خرچ کریں۔ حکم ہوا کہ جو اپنے اخراجات ضروری سے افزود ( زائد ) ہو کیونکہ جیسا آخرت کا فکر ضرور ہے دنیا کا فکر بھی ضرور ہے اگر سارا مال اٹھا ڈالو تو اپنی ضروریات کیونکر پوری کرو اور جو حقوق تم پر لازم ہیں ان کو کیونکر ادا کرو معلوم نہیں کس کس خرابی دینی اور دنیاوی میں پھنسو۔
۴: یعنی دنیا فانی مگر محل حوائج ہے اور آخرت باقی اور دار ثواب ہے اس لیے سوچ سمجھ کر ہر ایک امر میں اس کے مناسب حال خرچ کرنا چاہیے اور مصلحت دنیا اور آخرت دونوں کو پیش نظر رکھنا مناسب ہے اور احکام کو واضح طور پر بیان فرمانے سے یہی مطلوب ہے کہ تم کو فکر کرنے کا موقع ملے۔
۲۲۰۔۔۔ ۱: بعض لوگ یتیم کے مال میں احتیاط نہ کرتے تھے تو اس پر حکم ہوا تھا ( وَلَاتَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اَحْسَنُ اور اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ اَمْوَالَ الْیَتٰمیٰ ظُلْماً الخ) اس پر جو لوگ یتیموں کی پرورش کرتے تھے وہ ڈر گئے اور یتیموں کے کھانے اور خرچ کو بالکل جدا کر دیا کیونکہ شرکت کی حالت میں یتیم کا مال کھانا پڑتا تھا اس میں یہ دشواری ہوئی کہ ایک چیز یتیم کے واسطے تیار کی اب جو کچھ بچتی وہ خراب جاتی اور پھینکنی پڑتی اس احتیاط میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا تو آپ سے عرض کیا تو اس پر اب یہ آیت نازل ہوئی۔
۲: یعنی مقصود تو صرف یہ بات ہے کہ یتیم کے مال کی درستی اور اصلاح ہو سو جس موقع میں علیحدگی میں یتیم کا نفع ہو تو اس کو اختیار کرنا چاہیے اور جہاں شرکت میں بہتری نظر آئے تو ان کا خرچ شامل کر لو تو کچھ مضائقہ نہیں کہ ایک وقت ان کی چیز کھا لی تو دوسرے وقت اپنی چیز ان کو کھلا دی کیونکہ وہ یتیم بچے تمہارے دینی یا نسبی بھائی ہیں اور بھائیوں میں شرکت اور کھانا کھلانا بیجا نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ یتیموں کی اصلاح کی رعایت پوری رہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس شرکت سے کس کو خیانت اور افساد مال یتیم مقصود ہے اور کس کو یتیموں کی اصلاح اور ان کی نفع رسانی منظور ہے۔
۳: مشقت ڈالتا یعنی کھانا پینے میں یتیموں کی شرکت علیٰ وجہ الاصلاح بھی مباح نہ فرماتا یا یہ کہ بلا علم و بلا قصد مجبوراً بھی اگر کچھ کمی یا بیشی ہو جاتی تو اس پر بھی مواخذہ کرتا۔
۴: یعنی بھاری سے بھاری حکم دے سکتا ہے اس لیے کہ وہ زبردست ہے لیکن ایسا نہ کیا بلکہ سہولت کا حکم دیا اس لیے کہ وہ حکمت اور مصلحت کے موافق کرنے والا ہے۔
۲۲۱۔۔۔ ۱: پہلے مسلمان مرد اور کافر عورت اور اس کے برعکس دونوں صورتوں میں نکاح کی اجازت تھی اس آیت سے اس کو منسوخ کر دیا گیا اگر مرد یا عورت مشرک ہو تو اس کا نکاح مسلمان سے درست نہیں یا نکاح کے بعد ایک مشرک ہو گیا تو نکاح سابق ٹوٹ جائے گا اور شرک یہ کہ علم یا قدرت یا کسی اور صفت خداوندی میں کسی کو خدا کا مماثل سمجھے یا خدا کے مثل کسی کی تعظیم کرنے لگے مثلاً کسی کو سجدہ کرے یا کسی کو مختار سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے۔ باقی اتنی بات دیگر آیات سے معلوم ہوئی کہ یہود و نصاری کی عورتوں سے مسلمان مرد کا نکاح درست ہے وہ ان مشرکین میں داخل نہیں بشرطیکہ وہ اپنے دین پر قائم ہوں دہریہ اور ملحد نہ ہوں جیسے اکثر نصاری آجکل کے نظر آتے ہیں۔ خلاصہ تمام آیت کا یہ ہے کہ مسلمان مرد کو مشرک عورت سے نکاح کرنا درست نہیں تاوقتیکہ مسلمان نہ ہو جائے بیشک لونڈی مسلمان کافر عورت سے بہتر ہے گو وہ آزاد بی بی ہی کیوں نہ ہو اگرچہ مشرک بی بی بسبب مال اور جمال اور شرافت کے تم کو پسند آئے اور ایسے ہی مسلمان عورت کا نکاح مشرک مرد سے نہ کرو مسلمان غلام بھی مشرک سے بہت بہتر ہے گو وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو اگرچہ مشرک مرد بسبب صورت اور دولت کے تم کو پسند ہوں یعنی مسلمان ادنی سے ادنی بھی مشرک سے بہت افضل ہے گو وہ اعلی سے اعلی ہی کیوں نہ ہو۔
۲: یعنی مشرکین اور مشرکات جن کا ذکر ہوا ان کے اقوال ان کے افعال ان کی محبت کے ساتھ اختلاط کرنا شرک کی نفرت اور اس کی برائی کو دل سے کم کرتا ہے اور شرک کی طرف رغبت کا باعث ہوتا ہے جس کا انجام دوزخ ہے اس لیے ایسوں کے ساتھ نکاح کرنے سے اجتناب کلی لازم ہے۔
۲۲۲۔۔۔ ۱: حیض کہتے ہیں اس خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اس حالت میں مجامعت کرنا نماز روزہ سب حرام ہیں اور خلاف عادت جو خون آئے وہ بیماری ہے اس میں مجامعت، نماز، روزہ سب درست ہیں اس کا حال ایسا ہے جیسا زخم یا فصد سے خون نکلنے کا یہود اور مجوس حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے اور ایک گھر میں رہنے کو بھی جائز نہ سمجھتے تھے اور نصاری مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر صاف فرما دیا کہ مجامعت اس حالت میں حرام ہے اور ان کے ساتھ کھانا پینا رہنا سہنا سب درست ہیں یہود کا افراط اور نصاریٰ کی تفریط دونوں مردود ہو گئیں۔
۲: پاک ہونے میں تفصیل ہے کہ اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن پر موقوف ہو تو اسی وقت سے مجامعت درست ہے اور اگر دس دن سے پہلے ختم ہو گیا مثلاً چھ روز کے بعد اور عورت کی عادت بھی چھ روز کی تھی تو مجامعت خون کے موقوف ہوتے ہی درست نہیں، بلکہ جب عورت غسل کر لے یا نماز کا وقت ختم ہو جائے اس کے بعد مجامعت درست ہو گی اور اگر عورت کی عادت سات یا آٹھ دن کی تھی تو ان دنوں کے پورا کرنے کے بعد مجامعت درست ہو گی۔
۳: جس موقع سے مجامعت کی اجازت دی ہے یعنی آگے کی راہ سے کہ جہاں سے بچہ پیدا ہوتا ہے دوسرا موقع یعنی لواطت حرام ہے۔۔// یعنی جو توبہ کرتے ہیں گناہ سے جو ان سے اتفاقیہ صادر ہوا مثلاًحالت حیض میں وطی کا مرتکب ہوا اور ناپاکی یعنی گناہوں اور وطی حالت حیض اور وطی موقع نجس سے احتراز کرتے ہیں۔
۲۲۳۔۔۔ یہود عورت کی پشت کی طرف ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لیے بمنزلہ کھیتی کے ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہے یعنی اس سے مقصود اصلی صرف نسل کا باقی رکھنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پس پشت سے پڑ کر یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اسی خاص موقع میں ہو جہاں پیداواری کی امید ہو یعنی مجامعت خاص فرج ہی میں ہی ہو لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے۔
۴: یعنی اعمال صالحہ اپنے لیے کرتے رہو یا کہ وطی سے اولاد صالحہ مطلوب ہونی چاہیے محض حظ نفس مقصود نہ ہو۔
۲۲۴۔۔۔ ۱: یعنی کسی اچھے کام نہ کرنے پر خدا کی قسم کھا بیٹھے مثلاً ماں باپ سے نہ بولوں گا یا فقیر کو کچھ نہ دوں گا یا باہم کسی میں مصالحت نہ کراؤں گا۔ ایسی قسموں میں خدا کے نام کو برے کاموں کے لیے ذریعہ بنانا ہوا سو ایسا ہرگز مت کرو اور اگر کسی نے ایسی قسم کھائی تو اس کا توڑنا اور کفارہ دینا واجب ہے۔
۲: یعنی اگر کوئی قسم کھاتا ہے تو اللہ اس کو سنتا ہے اور اگر کوئی عظمت و جلال خداوندی کی وجہ سے قسم کھانے سے رکتا ہے تو اللہ اس کی نیت کو خوب جانتا ہے تمہاری کوئی بات ظاہری اور باطنی اس سے مخفی نہیں اس لیے نیت قلبی اور قول لسانی دونوں میں احتیاط لازم ہے۔
۲۲۵۔۔۔ ۱: لغو اور بیہودہ قسم وہ ہے کہ منہ سے عادت اور حرف کے موافق بے ساختہ اور ناخواستہ نکل جائے اور دل کو خبر تک نہ ہو ایسی قسم کا نہ کفارہ ہے نہ اس میں گناہ ہے البتہ اگر کوئی بالقصد الفاظ قسم مثل واللہ اور باللہ کہے اور اس سے محض تاکید مقصود ہو قسم کا قصد نہ ہو تو اس پر ضرور کفارہ لازم ہو گا اور کفارہ کا بیان آگے آ جائے گا۔
۲: یعنی جو قسم جان بوجھ کر کھائے کہ جس میں دل بھی زبان کے موافق ہو اس قسم کے توڑنے پر کفارہ لازم ہو گا۔
۳: غفور ہے کہ لغو اور بیہودہ قسموں پر مواخذہ نہ فرمایا۔ حلیم ہے کہ مواخذہ میں جلدی نہیں فرماتا۔ شاید بندہ توبہ کر لے۔
۲۲۷۔۔۔ یعنی اگر کوئی قسم کھائے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اگر چار مہینے کے اندر عورت کے پاس گیا تو قسم کا کفارہ دے گا اور عورت اس کے نکاح میں رہے گی اور اگر چار مہینے گزر گئے اور اس کے پاس نہ گیا تو عورت پر طلاق بائن ہو جائے گی۔
فائدہ ایلاء شرع میں اس کو کہتے ہیں کہ عورت کے پاس جانے سے چار مہینے زائد کے لیے یا بلا قید مدت قسم کھا لے اور چار مہینے سے کم ایلاء نہ ہو گا، ایلاء کی تینوں صورتوں میں چار مہینے کے اندر عورت کے پاس جائے گا تو کفارہ قسم کا دینا پڑے گا ورنہ چار ماہ کے ختم پر بلا طلاق دئیے عورت مطلقہ بائنہ ہو جائے گی اور اگر چار مہینے سے کم پر قسم کھائے مثلاً قسم کھائی کہ تین مہینے عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو یہ ایلاء شرعی نہیں، اس کا یہ حکم ہے کہ اگر قسم کو توڑا مثلاً صورت مذکورہ میں تین مہینے کے اندر عورت کے پاس گیا تو قسم کا کفارہ لازم ہو گا اور اگر قسم کو پورا کیا یعنی تین مہینے تک مثلاً اس کے پاس نہ گیا تو نہ عورت پر طلاق پڑے گی نہ کفارہ لازم ہو گا۔
۲۲۸۔۔۔ ۱: جب مرد نے عورت کو طلاق دی تو ابھی اس عورت کو کسی دوسرے سے نکاح روا نہیں جب تک تین حیض پورے نہ ہو جائیں تاکہ حمل ہو تو معلوم ہو جائے اور کسی کی اولاد کسی کو نہ مل جائے اس لیے عورت پر فرض ہے کہ جو ان کے پیٹ میں ہو اس کو ظاہر کر دیں خواہ حمل ہو یا حیض آتا ہو اور اس مدت کو عدت کہتے ہیں۔
فائدہ معلوم کرنا چاہیے کہ یہاں مطلقات سے خاص وہ عورتیں مراد ہیں کہ ان سے نکاح کے بعد صحبت یا خلوت شرعیہ کی نوبت خاوند کو آ چکی ہو اور ان عورتوں کو حیض بھی آتا ہو اور آزاد بھی ہوں کسی کی لونڈی نہ ہوں کیونکہ جس عورت سے صحبت یا خلوت کی نوبت نہ آئے اس کے اوپر طلاق کے بعد عدت بالکل نہیں اور جس عورت کو حیض نہ آئے مثلاً صغیر سن ہے یا بہت بوڑھی ہو گئی یا اس کو حمل ہے تو پہلی دونوں صورتوں میں اس کی عدت تین مہینے ہیں اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور جو عورت آزاد نہ ہو بلکہ کسی کی شرعی قاعدہ کے موافق لونڈی ہو اگر اس کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت دو حیض اور حیض نہ آئے تو اگر وہ صغیرہ یا بڑھیا ہے تو اس کی عدت ڈیڑھ مہینہ ہے اور حاملہ ہے تو وہی وضع حمل ہے دوسری آیتوں اور حدیثوں سے یہ تفصیل ثابت ہے۔
۲: یعنی عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر رکھ لے اگرچہ عورت کی خوشی نہ ہو مگر اس لوٹانے سے مقصود سلوک اور اصلاح ہو۔ عورت کو ستانا یا اس دباؤ میں اس سے مہر کا معاف کرانا منظور نہ ہو یہ ظلم ہے اگر ایسا کرے گا گنہگار ہو گا گو رجعت بھی صحیح ہو جائے گی۔
۳: یعنی یہ امر تو حق ہے کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں ایسے ہی عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں جن کا قاعدہ کے موافق ادا کرنا ہر ایک پر ضروری ہے تو اب مرد کو عورت کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی ہر قسم کی حق تلفی ممنوع ہو گی مگر یہ بھی ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت اور فوقیت ہے تو اس لیے رجعت میں اختیار مرد کو ہی دیا گیا۔
۲۲۹۔۔۔ ۱: اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے زوجہ کو طلاق دیتے مگر عدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کر لیتے پھر جب چاہتے طلاق دیتے اور رجعت کر لیتے اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے اس واسطے یہ آیت اتری کہ طلاق جس میں رجعت ہو سکے کل دوبار ہے ایک یا دو طلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے پھر بعد عدت کے رجعت باقی نہیں رہتی ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہو گا جب تک دوسرا خاوند اس سے نکاح کر کے صحبت نہ کر لیوے۔
فائدہ امساک بمعروف اور تسریح باحسان سے غرض یہ ہے کہ رجعت کرے تو موافقت اور حسن معاشرت کے ساتھ رہے عورت کو قید میں رکھنا اور ستانا مقصود نہ ہو جیسا کہ ان میں دستور تھا ورنہ سہولت اور عمدگی کے ساتھ اس کو رخصت کرے۔// یعنی مردوں کو یہ روا نہیں کہ عورتوں کو جو مہر دیا ہے اس کو طلاق کے بدلہ میں واپس لینے لگیں البتہ یہ جب روا ہے کہ ناچاری ہو اور کسی طرح دونوں میں موافقت نہ آئے اور ان کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ بوجہ شدت مخالفت ہم احکام خداوندی کی پابندی معاشرت باہمی میں نہ کر سکیں گے اور مرد کی طرف سے ادائے حقوق زوجہ میں قصور بھی نہ ہو ورنہ مال لینا زوج کو حرام ہے۔
۲: یعنی اے مسلمانو اگر تم کو یہ ڈر ہو کہ خاوند اور بیوی میں ایسی بیزاری ہے کہ ان کی گزران موافقت سے نہ ہو گی تو پھر ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت مال دے کر اپنے آپ کو نکاح سے چھڑا لے اور مرد وہ مال لے لے اس کو خلع کہتے ہیں اور جب اس ضرورت کی حالت میں زوجین کو خلع کرنا درست ہوا تو سب مسلمانوں کو اس میں سعی کرنی ضرور درست ہو گی۔
فائدہ: ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ میں اپنے خاوند سے ناخوش ہوں اس کے یہاں رہنا نہیں چاہتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تحقیق کیا تو عورت نے کہا کہ وہ میرے حقوق میں کوتاہی نہیں کرتا اور نہ اس کے اخلاق و تدین پر مجھ کو اعتراض ہے لیکن مجھ کو اس سے منافرت طبعی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت سے مہر واپس کرا دیا اور زوج سے طلاق دلوا دی اس پر یہ آیت اتری۔
۳: یہ سب احکام مذکورہ یعنی طلاق اور رجعت اور خلع حدود اور قواعد مقرر فرمودہ حق تعالیٰ ہیں ان کی پوری پابندی لازم ہے کسی قسم کا خلاف اور تغیر اور کوتاہی ان میں نہ کرنی چاہیئے۔
۲۳۰۔۔۔ یعنی اگر زوج اپنی عورت کو تیسری بار طلاق دے گا تو پھر عورت اس کے لئے حلال نہ ہو گی تاوقتیکہ وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اور دوسرا خاوند اس سے صحبت کر کے اپنی خوشی سے طلاق نہ دیوے اس کی عدّت پوری کر کے پھر زوج اوّل سے نکاح جدید ہو سکتا ہے اس کو حلالہ کہتے ہیں اور حلالہ کے بعد زوج اول کے ساتھ نکاح ہونا جب ہی ہے کہ ان کو حکم خداوندی کے قائم رکھنے یعنی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا خیال اور اس پر اعتماد ہو ورنہ ضرور نزاع باہمی اور اتلافِ حقوق کی نوبت آئے گی اور گناہ میں مبتلا ہوں گے۔
۲۳۱۔۔۔ ۱: یعنی عدّت ختم ہونے کو آئی۔
۲: یعنی عدت کے ختم ہونے تک خاوند کو اختیار ہے کہ اس عورت کو موافقت اور اتحاد کے ساتھ پھر ملا لے یا خوبی اور رضامندی کے ساتھ بالکل چھوڑ دے یہ ہرگز نہیں کہ قید میں رکھ کر اس کو ستانے کے قصد سے رجعت کرے جیسا کہ بعض اشخاص کیا کرتے تھے۔
فائدہ : آیت سابقہ یعنی الطلاق مرّتان الخ میں یہ بتلایا تھا کہ دو طلاق تک زوج کو اختیار ہے کہ عورت کو عمدگی سے پھر ملا لے یا بالکل چھوڑ دے اب اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ یہ اختیار صرف عدت تک ہے عدّت کے بعد زوج کو اختیار مذکور حاصل نہ ہو گا اس لئے کوئی تکرار کا شبہ نہ کرے۔
۳: نکاح طلاق ایلاء خلع رجعت حلالہ وغیرہ میں بڑی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ان میں حیلے کرنے اور بیہودہ اغراض کو دخل دینا مثلاً کوئی رجعت کرلے اور اس سے مقصود عورت کو تنگ کرنا ہے تو گویا اللہ کے احکام کے ساتھ ٹھٹھے بازی ٹھہری نعوذ باللّٰہ من ذٰلک اللہ کو سب کچھ روشن ہے ایسے حیلوں سے بجز مضرت اور کیا حاصل ہو سکتا ہے۔
۲۳۲۔۔۔ ۱: ایک عورت کو اس کے خاوند نے ایک یا دو طلاق دی اور پھر عدت میں رجعت بھی نہ کی جب عدت ختم ہو چکی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ زوج اول نے بھی نکاح کا پیغام دیا عورت بھی اس پر راضی تھی مگر عورت کے بھائی کو غصہ آیا اور نکاح کو روک دیا اس پر یہ حکم اترا کہ عورت کی خوشنودی اور بہبودی کو ملحوظ رکھو اسی کے موافق نکاح ہونا چاہیے اپنے کسی خیال اور ناخوشی کو دخل مت دو اور یہ خطاب عام ہے نکاح سے روکنے والوں کو سب کو خواہ زوج اول جس نے کہ طلاق دی ہے وہ دوسری جگہ عورت کو نکاح کرنے سے روکے یا عورت کے ولی اور وارث عورت کو پہلے خاوند سے یا کسی دوسری جگہ نکاح کرنے سے مانع ہوں سب کو روکنے سے ممانعت آ گئی، ہاں اگر خلاف قاعدہ کوئی بات ہو مثلاً غیر کفو میں عورت نکاح کرنے لگے یا پہلے خاوند کی عدت کے اندر کسی دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو بیشک ایسے نکاح سے روکنے کا حق ہے بالمعروف فرمانے کا یہی مطلب ہے۔
۲: یعنی حکم جو مذکور ہوئے ان سے اہل ایمان کو نصیحت دی جاتی ہے کیونکہ اس نصیحت سے وہی منتفع ہوتے ہیں اور یوں تو نصیحت سبھی کے لئے ہے کسی کی خصوصیت نہیں اور مومنین کے خاص کرنے سے دوسروں پر تہدید اور ان کی تحقیر بھی مفہوم ہوتی ہے یعنی جو لوگ ان حکموں پر عمل نہیں کرتے گو یا ان کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہی نہیں۔
۳: یعنی عورت کو نکاح سے نہ روکنے اور اس کے نکاح ہو جانے میں وہ پاکیزگی ہے جو نکاح سے روکنے میں ہرگز نہیں اور عورت جب کہ پہلے خاوند کی طرف راغب ہو تو اسی کے ساتھ نکاح ہو جانے میں وہ پاکیزگی ہے کہ دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے میں ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو اور نفع نقصان آئندہ کو خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
۲۳۳۔۔۔ ۱: یعنی ماں کو حکم ہے کہ اپنے بچہ کو دو برس تک دُودھ پلائے اور یہ مُدت اس کے لئے ہے جو ماں باپ بچہ کے دُودھ پینے کی مُدت کو پُورا کرنا چاہیں ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے جیسا آیت کے اخیر میں آتا ہے اور اس حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کا نکاح باقی ہے اور وہ بھی جن کو طلاق مل چکی ہو یا ان کی عدّت بھی گزر چکی ہو ہاں اتنا فرق ہو گا کہ کھانا کپڑا منکوحہ اور معتدہ کو تو دینا زوج کو ہر حال میں لازم ہے دُودھ پلائے یا نہ پلائے اور عدت ختم ہو چکے گی تو پھر صرف دُودھ پلانے کی وجہ سے دینا ہو گا اور اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ دودھ کی مدت کو جس ماں سے پورا کرانا چاہیں یا جس صورت میں باپ سے دودھ پلانے کی اُجرت ماں کو دلوانا چاہیں تو اس کی انتہاء ۲دو برس کامل ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوا کہ علی العموم دُودھ پلانے کی مُدت دو برس سے زیادہ نہیں۔
۲: یعنی باپ کو بچہ کی ماں کو کھانا کپڑا ہر حال میں دینا پڑے گا۔ اوّل صورت میں تو اس لئے کہ وہ اس کے نکاح میں ہے، دوسری صورت میں عدّت میں ہے اور تیسری صورت میں دُودھ پلانے کی اُجرت دینی ہو گی اور بچہ کے ماں باپ بچہ کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں مثلاً ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کرے یا باپ بلا سبب ماں سے بچہ جُدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے یا کھانے کپڑے میں تنگی کرے۔
۳: یعنی اگر باپ مر جاوے تو بچہ کے وارثوں پر بھی یہی لازم ہے کہ دُودھ پلانے کی مُدت میں اس کی ماں کے کھانے کپڑے کا خرچ اُٹھائیں اور تکلیف نہ پہنچائیں اور وارث سے مراد وہ وارث ہے جو محرم بھی ہو۔
۴: یعنی اگر ماں باپ کسی مصلحت کی وجہ سے دو سال کے اندر ہی بچہ کی مصلحت کا لحاظ کر کے باہمی مشورہ اور رضامندی سے دُودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں گناہ نہیں، مثلاً ماں کا دُودھ اچھّا نہ ہو۔
۵: یعنی اے مردو اگر تم کسی ضرورت و مصلحت سے ماں کے سوا کِسی دوسری عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی گناہ نہیں مگر اس کی وجہ سے ماں کا کچھ حق نہ کاٹ رکھے بلکہ دستور کے موافق جو ماں کو دینا ٹھہرایا تھا وہ دے دے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دُودھ پلانے والی کا حق نہ کاٹے۔
۲۳۴۔۔۔ ۱: پہلے گزر چکا ہے کہ طلاق کی عدّت میں تین حیض انتظار کرے اب فرمایا کہ موت کی عدّت میں چار مہینے دس دن انتظار کرے سو اس مُدّت میں اگر معلوم ہو گیا کہ عورت کو حمل نہیں تو عورت کو نکاح کی اجازت ہو گی ورنہ وضع حمل کے بعد اجازت ہو گی اس کی تشریح سورہ طلاق میں آئے گی حقیقت میں تین حیض یا چار مہینے دس دن حمل کے انتظار اور اس کے دریافت کرنے کے لئے مقرر فرمائے۔
۲: جب بیوہ عورتیں اپنی عدّت پوری کر لیں یعنی غیر حاملہ چار ماہ دس روز اور حاملہ مدت حمل تو ان کو دستور شریعت کے موافق نکاح کر لینے میں کچھ گناہ نہیں اور زینت اور خوشبو سب حلال ہیں۔
۲۳۵۔۔۔ ۱: خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ عورت خاوند کے نکاح سے جُدا ہوئی تو جب تک عدّت میں ہے تو کسی دوسری کو جائز نہیں کہ اس سے نکاح کر لے یا صاف وعدہ کرالے یا صاف پیغام بھیجے لیکن اگر دل میں نیت رکھے کہ بعد عدّت میں اس سے نکاح کروں گا یا اشارۃً اپنے مطلب کو اُسے سُنا دے تاکہ کوئی دوسرا اس سے پہلے پیام نہ دے بیٹھے مثلاً عورت کو سنا دے کہ تجھ کو ہر کوئی عزیز رکھے گا یا کہے کہ میرا ارادہ کہیں نکاح کرنے کا ہے تو کچھ گناہ نہیں مگر صاف پیغام ہرگز نہ دے۔
۲: یعنی حق تعالیٰ تمہارے جی کی باتیں جانتا ہے سو ناجائز ارادہ سے بچتے رہو اور ناجائز ارادہ ہو گیا تو اس سے توبہ کرو، اللہ بخشنے والا ہے اور گنہگار پر عذاب نہ ہوا تو اس سے مطمئن نہ ہو جائے کیونکہ وہ حلیم ہے عقوبت میں جلدی نہیں فرماتا۔
۲۳۶۔۔۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا ذکر نہ آیا اور بلا مہر ہی نکاح کر لیا تو بھی نکاح درست ہے مہر بعد میں مقرر ہو رہے گا لیکن اس صورت میں اگر ہاتھ لگانے سے پہلے یعنی مجامعت اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دے دی تو مہر کچھ لازم نہ ہو گا لیکن زوج کو لازم ہے کہ اپنے پاس سے عورت کو کچھ دے دے کم سے کم یہی کہ تین کپڑے کرتہ، سربند، چادر اپنی حالت کے موافق اور خوشی سے دے دے۔
۲۳۷۔۔۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر ہو چکا تھا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی تو آدھا مہر دینا لازم ہے مگر عورت یا مرد کہ جس کے اختیار میں ہے نکاح کا قائم رکھنا اور توڑنا اپنے حق سے درگزر کریں تو بہتر ہے عورت کی تو درگزر یہ کہ آدھا بھی معاف کر دے اور مرد کی درگزر یہ کہ جو مہر مقرر ہوا تھا حوالہ کر دے یا تمام مہر ادا کر چکا تھا تو آدھا نہ لوٹاوے بلکہ سب مہر چھوڑ دے پھر فرمایا کہ مرد درگزر کرے تو تقوی کے زیادہ مناسب ہے کیونکہ اللہ نے اس کو بڑائی دی اور مختار کیا نکاح باقی رکھنے کا اور طلاق دینے کا اور نفس نکاح سے تمام مہر لازم ہو جاتا ہے اور بدون ہاتھ لگائے طلاق دے کر زوج نصف مہر کو اپنے ذمہ سے ٹلاتا ہے یہ تقویٰ کے مناسب نہیں اور زوجہ کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی جو کچھ کیا زوج نے کیا ان وجوہ سے زوج کو زیادہ مناسب ہے کہ درگزر کرے۔
فائدہ: طلاق کی مہر اور وطی کے لحاظ سے چار صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ نہ مہر ہو نہ وطی۔ دوسری یہ کہ مہر تو مقرر ہو مگر وطی کی نوبت نہ آئے ان دونوں صورتوں کا حکم دونوں آیتوں میں معلوم ہوچکا ہے۔ تیسری یہ مہر مقرر ہو اور وطی کی نوبت آوے اس میں جو مہر مقرر کیا ہے پورا دینا ہو گا یہ صورت کلام اللہ میں دوسرے موقع پر مذکور ہے۔ چوتھی یہ کہ مہر نہ ٹھہرایا تھا اور ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی اس میں مہر مثل پورا دینا پڑے گا۔ یعنی جو اس عورت کی قوم میں رواج ہے اور یہی چاروں صورتیں موت زوج میں نکلیں گی مگر موت کا حکم طلاق کے حکم سے جُدا ہے اگر مہر مقرر نہ کیا تھا اور ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا کہ زوج مر گیا یا ہاتھ لگانے کے بعد مرا ان دونوں صورتوں میں مہر مثل پورا لازم ہو گا، اگر مہر مقرر کیا اور ہاتھ لگایا یا ہاتھ نہ لگایا تو ان دونوں صورتوں میں جو مہر مقرر ہوا تھا وہ پورا دینا ہو گا۔
۲۳۸۔۔۔ بیچ والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے کہ دن اور رات کے بیچ میں ہے اس کی تاکید زیادہ فرمائی کہ اس وقت دنیا کا مشغلہ زیادہ ہوتا ہے اور فرمایا کھڑے رہو ادب سے یعنی نماز میں ایسی حرکت نہ کرو کہ جس سے معلوم ہو جائے کہ نماز نہیں پڑھتے ایسی باتوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جیسے کھانا پینا یا کسی سے بات کرنا یا ہنسنا۔
فائدہ: طلاق کے حکموں میں نماز کے حکم کو بیان فرمانے کی یا یہ وجہ ہے کہ دنیا کے معاملات اور باہمی نزاعات میں پڑ کر کہیں خدا کی عبادت کو نہ بُھلا دو اور یا یہ وجہ ہے کہ ہوا وہوس کے بندوں کو بوجہ غلبہ حرص و بخل عدل کو پورا کرنا اور انصاف سے کام لینا اور وہ بھی رنج اور طلاق کی حالت میں بہت دشوار ہے پھر وَاَنْ تَعْفُوْا اور لَاتَنْسَوُا الْفَضْلَ پر اور اس حالت میں ان سے عمل کرنے کی توقع بیشک مستبعد نظر آتی تھی سو اس کا علاج فرما دیا گیا کہ نماز کی مخالفت اور اس کی پابندی اور اس کے حقوق کی رعایت عمدہ علاج ہے کہ نماز کو ازالہ رذائل اور تحصیل فواضل میں بڑا اثر ہے۔
۲۳۹۔۔۔ یعنی لڑائی اور دشمن سے خوف کا وقت ہو تو ناچاری کو سواری پر اور پیادہ بھی اشارہ سے نماز درست ہے گو قبلہ کی طرف بھی مُنہ نہ ہوا۔
۲۴۰۔۔۔ ۱: یہ حکم اول تھا اس کے بعد جب آیت میراث نازل ہوئی اور عورتوں کا حصہ بھی مقرر ہو چکا ادھر عورت کی عدّت چار مہینے دس دن کی ٹھہرا دی گئی تب سے اس آیت کا حکم موقوف ہوا۔
۲: یعنی اگر وہ عورتیں اپنی خوشی سے سال کے ختم ہونے سے پہلے گھر سے نکلیں تو کچھ گناہ نہیں تم پر اے وارثو اس کام میں کہ کریں وہ عورتیں اپنے حق میں شریعت کے موافق یعنی چاہیں خاوند کریں یا اچھی پوشاک اور خوشبو کا استعمال کریں کچھ حرج نہیں۔
۲۴۱۔۔۔ پہلے خرچ یعنی جوڑا دینے کا حکم اس طلاق پر آ چکا ہے کہ نہ مہر ٹھہرا ہو نہ زوج نے ہاتھ لگایا ہو اب اس آیت میں وہ حکم سب کے لئے آگیا مگر اتنا فرق ہے کہ سب طلاق والیوں کو جوڑا دینا مستحب ہے ضروری نہیں اور پہلی صورت میں ضروری ہے۔
۲۴۲۔۔۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہاں نکاح طلاق عدت کے احکام بیان فرمائے ایسے ہی اپنے احکام و آیات کو واضح فرماتا ہے کہ تم سمجھ لو اور عمل کر سکو۔ یہاں نکاح و طلاق کے احکام ختم ہو چکے۔
۲۴۳۔۔۔ یہ پہلی اُمّت کا قصہ ہے کہ کئی ہزار شخص گھر بار کو ساتھ لیکر وطن سے بھاگے۔ ان کو ڈر ہوا تھا غنیمت کا اور لڑنے سے جی چھپایا یا ڈر ہوا تھا وباء کا اور تقدیر پر توکل اور یقین نہ کیا پھر ایک منزل پر پہنچ کر بحکمِ الٰہی سب مر گئے پھر سات دن کے بعد پیغمبر کی دُعا سے زندہ ہوئے کہ آگے کو توبہ کریں۔ اس حال کو یہاں اس واسطے ذکر فرمایا کہ کافروں سے لڑنے یا فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے میں جان اور مال کی محبت کے باعث دریغ نہ کریں اور جان لیویں کہ اللہ موت بھیجے تو چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں اور زندگی چاہے تو مُردہ کو دم کے دم میں زندہ کر دے زندہ کو موت سے بچا لینا تو کوئی چیز ہی نہیں پھر اس کی تعمیل حکم میں موت سے ڈر کر جہاد سے بچنا یا افلاس سے بچ کر صدقہ اور دوسروں پر احسان یا عفو اور فضل سے رُکنا بددینی کے ساتھ حماقت بھی پوری ہے۔
۲۴۵۔۔۔ یعنی جب معلوم ہو چکا کہ اللہ کے حکم میں تمہاری جان اور مال ہے تو اب تم کو چاہیے کہ لڑو کافروں سے اللہ کے واسطے دین کے لئے جان لو کہ خدا تعالیٰ سنتا ہے بہانہ کرنے والوں کی باتیں اور جانتا ہے ان کے منصوبوں کو اور چاہیے کہ خرچ کرو اللہ کے راستہ میں مال اور تنگی سے مت ڈرو کہ کشایش اور تنگی سب اس کے اختیار میں ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر سب کو جانا ہے۔ قرض حسنہ اُسے کہتے ہیں جو قرض دیکر تقاضا نہ کرے اور اپنا احسان نہ رکھے اور بدلہ نہ چاہے اور اُسے حقیر نہ سمجھے۔ اور خدا کو دینے سے جہاد میں خرچ کرنا مراد ہے یا محتاجوں کو دینا۔
۲۴۶۔۔۔ ۱: اس قصہ سے حق تعالیٰ کا بسط و قبض جو ابھی مذکور ہوا خوب ثابت ہوتا ہے یعنی فقیر کو بادشاہ بنانا اور بادشاہ سے بادشاہت چھین لینا اور ضعیف کو قوی اور قوی کو ضعیف کر دینا۔
۲: حضرت موسیٰ کے بعد کچھ عرصہ تک بنی اسرائیل کا کام درست رہا پھر جب ان کی نیت بگڑی تب ان پر ایک غنیم کافر بادشاہ جالوت نام مسلّط ہوا ان کو شہر سے نکال دیا اور لوٹا اور ان کو پکڑ کر بندہ بنایا بنی اسرائیل بھاگ کر بیت المقدس میں جمع ہوئے اس وقت حضرت شموئیل علیہ السلام پیغمبر تھے ان سے درخواست کی کہ کوئی بادشاہ ہم پر مقرر کرو کہ اس کے ساتھ ہو کر ہم جہاد کریں فی سبیل اللہ۔
۲۴۷۔۔۔ طالوت کی قوم میں آگے سے سلطنت نہ تھی غریب محنتی آدمی تھے ان (بنی اسرائیل) کی نظر میں سلطنت کے قابل نظر نہ آئے، اور بوجہ مال و دولت اپنے آپ کو سلطنت کے لائق خیال کیا، نبی نے فرمایا کہ سلطنت کسی کا حق نہیں اور سلطنت کی بڑی لیاقت ہے عقل اور بدن میں زیادتی اور وسعت ہونی جس میں طالوت تم سے افضل ہے۔
فائدہ: بنی اسرائل نے جب یہ سُنا تو پھر کہا پیغمبر سے کہ اس کے سِوا کوئی اور دلیل بھی ان کی بادشاہت پر دکھلا دو تاکہ ہمارے دل میں کوئی اشتباہ نہ رہے نبی نے دُعا کی جناب الٰہی میں اور طالوت کی سلطنت کی دوسری نشانی بیان فرما دی گئی۔
۲۴۸۔۔۔ بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا اس میں تبرکات تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ انبیائے بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ اس کی برکت سے فتح دیتا جب جالوت غالب آیا ان پر تو یہ صندوق بھی وہ لے گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کہا کہ وہ کافر جہاں صندوق رکھتے وہیں وبا اور بلا آتی پانچ شہر ویران ہو گئے ناچار ہو کر دو بَیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالُوت نے جالوت پر فوج کشی کی اور موسم نہایت گرم تھا۔
۲۴۹۔۔۔ ہوس سے طالُوت کے ساتھ چلنے کو سب تیار ہو گئے طالوت نے کہہ دیا کہ جو کوئی جوان زور آور اور بے فکر ہو وہ چلے ایسے بھی اسّی (۸) ہزار نکلے پھر طالوت نے ان کو آزمانا چاہا ایک منزل میں پانی نہ ملا دوسری منزل میں ایک نہر ملی طالوت نے حکم کر دیا جو ایک چلو سے زیادہ پانی پیوے وہ میرے ساتھ نہ چلے صرف تین سو تیرہ ان کے ساتھ رہ گئے اور سب جُدا ہو گئے جنہوں نے ایک چلّو سے زیادہ نہ پیا ان کی پیاس بجھی اور جنہوں نے زیادہ پیا ان کو اور پیاس زیادہ لگی اور آگے نہ چل سکے۔
۲۵۱۔۔۔ جب سامنے ہوئے جالوت کے یعنی وہی تین سو تیرہ آدمی اور انہی تین سو تیرہ میں حضرت داؤد کے والد اور ان کے چھ بھائی اور خود حضرت داؤد بھی تھے حضرت داؤد کو راہ میں تین پتھر ملے اور بولے کہ اٹھا لے ہم کو ہم جالوت کو قتل کریں گے جب مقابلہ ہوا جالوت خود باہر نکلا اور کہا میں اکیلا تم سب کو کافی ہوں میرے سامنے آتے جاؤ حضرت شموئیل نے حضرت داؤد کے باپ کو بُلایا کہ اپنے بیٹے مجھکو دکھلا اس نے چھ بیٹے دکھائے جو قد آور تھے حضرت داؤد کو نہیں دکھایا ان کا قد چھوٹا تھا اور بکریاں چراتے تھے پیغمبر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تو جالوت کو مارے گا انہوں نے کہا ماروں گا پھر جالوت کے سامنے گئے اور انہی تینوں پتھروں کو فلاخن میں رکھ کر مارا جالوت کا صرف ماتھا کھلا تھا اور تمام بدن لوہے میں غرق تھا تینوں پتھر اس کے ماتھے پر لگے اور پیچھے کو نکل گئے۔ جالوت کا لشکر بھاگا اور مسلمانوں کو فتح ہوئی پھر طالوت نے حضرت داؤد سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور طالوت کے بعد یہ بادشاہ ہوئے اس سے معلوم ہو گیا کہ حکم جہاد ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور اس میں اللہ کی بڑی رحمت اور احسان ہے۔ نادان کہتے ہیں کہ لڑائی نبیوں کا کام نہیں۔
۲۵۲۔۔۔ یہ قصہ جو بنی اسرائیل کا گزرا یعنی ہزاروں کا نکلنا اور ان کا دفعۃً مرنا اور جینا اور طالوت کا بادشاہ ہونا یہ سب اللہ کی آیتیں ہیں جو تجھ کو سنائی جاتی ہیں اور تم بیشک اللہ کے رسولوں میں ہو یعنی جیسے پہلے پیغمبر ہو چکے ہیں ویسے ہی تم بھی یقیناً رسول ہو کہ ان قصص قرون ماضیہ کو ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہو حالانکہ نہ کسی کتاب میں آپ نے دیکھا اور نہ کسی آدمی سے سُنا۔
۲۵۳۔۔۔ ۱: یہ پیغمبر جن کا ذکر ہوا ان میں فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر بعضے ان میں ایسے ہیں کہ ان سے بات کی خدا تعالیٰ نے جیسے آدم اور موسیٰ علیہما السلام اور بلند کیا بعضوں کا درجہ جیسے کوئی ایک قوم کا نبی کوئی ایک گاؤں کا کوئی ایک شہر کا کوئی تمام جہان کا جیسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور عنایت ہوئے حضرت عیسیٰ کو کھلے معجزے جیسے احیائے موتیٰ اور ابراء اکمہ اور ابرص وغیرہ اور قوت دی ان کو روح پاک یعنی حضرت جبرائیل کو ان کی مدد کو بھیج کر۔
۲: جو لوگ ان انبیاء پر ایمان لے آئے اور صاف حکم اور روشن نشانیاں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے کی دیکھ سن چکے اگر خدا چاہتا تو یہ باہم نہ لڑتے اور مخالفت نہ کرتے اور کوئی ان میں مومن اور کوئی کافر نہ ہوتا لیکن حق تعالیٰ مختار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی فعل اس کا حکمت سے خالی نہیں۔
۲۵۴۔۔۔ ۱: اس سورت میں عبادات و معاملات کے متعلق احکام کثیرہ بیان فرمائے جن سب کی تعمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے اور تمام اعمال میں زیادہ دشوار انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا ہوتا ہے اور احکام الٰہی اکثر جو دیکھے جاتے ہیں یا جان کے متعلق ہیں یا مال کے اور گناہ میں بندہ کو جان یا مال کی محبت اور رعایت ہی اکثر مبتلا کرتی ہے گویا ان دونوں کی محبت گناہوں کی جڑ اور اس سے نجات جملہ طاعات کی سہولت کا منشاء ہے اس لئے ان احکامات کو بیان فرما کر قتال اور انفاق کو بیان فرمانا مناسب ہوا وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الخ اول کا بیان تھا تو مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُاﷲَ دوسرے کا ذکر ہے ا سکے بعد قصہ طالوت سے اول کی تاکید ہوئی تو اب اَنْفِقُوا مِمَّارَزَقْنٰکُمْ الخ سے دوسرے کی تاکید منظور ہے اور چونکہ انفاق مال پر بہت سے امور عبادات و معاملات کے موقوف ہیں تو اس کے بیان میں زیادہ تفصیل اور تاکید سے کام لیا چنانچہ اب جو رکوع آتے ہیں ان میں اکثروں میں امرثانی یعنی انفاق مال کا ذکر ہے۔ خلاصہ معنیٰ یہ ہوا کہ عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں تو نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی آشنائی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔
۲: یعنی کفار نے آپ اپنے اوپر ظلم کیا جس کی شامت سے ایسے ہو گئے کہ آخرت میں نہ کسی کی دوستی سے ان کو نفع ہو سکے اور نہ سفارش سے۔
۲۵۵۔۔۔ ۱: پہلی آیت سے حق سبحانہ، کی عظمت شان بھی مفہوم ہوتی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیاتِ کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشا اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور ا سکی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے۔ اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کی پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جانا ایسا ہو جاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اسی جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔
۲: اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفاتِ حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجہ کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر ا سکے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلاچون و چرا واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبر نہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر ا سکے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ، نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہو گئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کا عوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔
۲۵۶۔۔۔ ۱: جب دلائل توحید بخوبی بیان فرما دیے گئے جس سے کافر کا کوئی عذر باقی نہ رہا تو اب زور سے کسی کو مسلمان کرنے کی کیا حاجت ہو سکتی ہے عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیے اور نہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ زبردستی کسی کو مسلمان بناؤ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّیٰ یَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ خود نص موجود ہے اور جو جزیہ کو قبول کرے گا اس کا جان و مال محفوظ ہو جائے گا۔
۲: یعنی جب ہدایت و گمراہی میں تمیز ہو گئی تو اب جو کوئی گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت کو منظور کرے گا تو اس نے ایسی مضبوط چیز کو پکڑ لیا جس میں ٹوٹنے چھوٹنے کا ڈر نہیں اور حق تعالیٰ اقوال ظاہرہ کو خوب سنتا ہے اور نیت و حالت قلبی کو خوب جانتا ہے اُس سے کسی کی خیانت اور فسادنیت چھپا نہیں رہ سکتا۔
۲۵۸۔۔۔ پہلی آیت میں اہلِ ایمان و اہلِ کفر اور ان کے نور ہدایت اور ظلمت کفر کا ذکر تھا اب اس کی تائید میں چند نظائر بیان فرماتے ہیں۔ نظیر اول میں نمرود بادشاہ کا ذکر ہے وہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور سے سجدہ کرواتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے سامنے آئے تو سجدہ نہ کیا نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا اس نے کہا رب تو میں ہوں، انہوں نے جواب دیا کہ میں حاکم کو رب نہیں کہتا رب وہ ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے۔ نمرود نے دو قیدی منگا کر بے قصور کو مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھا مَیں جس کو چاہوں مارتا ہوں جس کو چاہوں نہیں مارتا، اِس پر حضرت ابراہیم نے آفتاب کی دلیل پیش فرما کر اس مغرور احمق کو لاجواب کیا اور اس کو ہدایت نہ ہوئی یعنی لاجواب ہو کر بھی ارشادِ ابراہیم علیہ السلام پر ایمان نہ لایا۔ یا یوں کہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بات کا کچھ جواب نہ دے سکا حالانکہ جیسا جواب پہلے ارشاد کا دیا تھا ویسا جواب دینے کی یہاں بھی گنجائش تھی۔
۲۵۹۔۔۔ ۱: وہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام پیغمبر تھے اور تمام تورات ان کو یاد تھی۔ بُخت نصر کافر بادشاہ تھا اس نے بیت المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل سے بہت لوگوں کو قید کر کے لے گیا ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے جب قید سے چھوٹ آئے تب حضرت عُزیر نے راہ میں ایک شہر دیکھا ویران اس کی عمارت گری ہوئی دیکھ کر اپنے جی میں کہا کہ یہاں کے ساکن سب مر گئے کیونکر حق تعالیٰ ان کو جلاوے اور یہ شہر پھر آباد ہوا۔ اسی جگہ ان کی روح قبض ہوئی اور ان کی سواری کا گدھا بھی مر گیا سو برس تک اسی حال میں رہے اور کسی نے نہ ان کو وہاں آ کر دیکھا نہ ان کی خبر ہوئی اس مدت میں بُخت نصر بھی مر گیا اور کسی بادشاہ نے اس مدت میں بیت المقدس کو آباد کیا اور اس شہر کو بھی خوب آباد کیا۔ پھر سو برس کے بعد حضرت عزیر زندہ کئے گئے ان کا کھانا اور پینا اسی طرح پاس دھرا ہوا تھا ان کا گدھا جو مر چکا تھا اور اس کی بوسیدہ ہڈیاں اپنی حالت پر دھری تھیں وہ اُن کے روبرو زندہ کیا گیا اور اس سو برس میں بنی اسرائیل قید سے خلاص ہو کر شہر میں آباد بھی ہو چکے تھے حضرت عزیر نے زندہ ہو کر آباد ہی دیکھا۔
۲: جب حضرت عزیر مرے تھے اس وقت کچھ دن چڑھا تھا اور جب زندہ ہوئے تو ابھی شام نہ ہوئی تھی تو یہ سمجھے کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن ہوا اور اگر آج ہی آیا تھا تو دن سے بھی کم رہا۔
۳: حضرت عزیر علیہ السلام کے سامنے وہ سب ہڈیاں موافق ترکیب بدن کے جمع کی گئیں پھر ان پر گوشت پھیلایا گیا اور چمڑا درست ہوا پھر خدا کی قدرت سے ایکبارگی اس میں جان آئی اور اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بولی بولا۔ // حضرت عزیر علیہ السلام نے اس تمام کیفیت کو ملاحظہ کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھ کو خوب یقین ہوا کہ اللہ ٍہر چیز پر قادر ہے یعنی میں جو جانتا تھا کہ مردہ کو جِلانا خدا تعالیٰ کو آسان ہے سو اب اپنی آنکھ سے دیکھ لیا یہ مطلب نہیں کہ پہلے یقین میں کچھ کمی تھی ہاں مشاہدہ نہ ہوا تھا پھر حضرت عزیر یہاں سے اٹھ کر بیت المقدس میں پہنچے کسی نے ان کو نہ پہچانا کیونکہ یہ تو جوان رہے اور اُن کے آگے کے بچے بوڑھے ہو گئے جب انہوں نے تورات حفظ سنائی تب لوگوں کو ان کا یقین آیا بُخت نصر بنی اسرائیل کی تمام کتابیں جلا گیا تھا جن میں تورات بھی تھی۔
۲۶۰۔۔۔ ۱: خلاصہ یہ ہوا کہ یقین پورا تھا صرف عین الیقین کے خواستگار تھے جو مشاہدہ پر موقوف ہے۔
۲: حضرت ابراہیم علیہ السلام حسب ارشاد الٰہی چار جانور لائے ایک مور ایک مرغ ایک کوّا ایک کبوتر اور چاروں کو اپنے ساتھ ہلایا تاکہ پہچان رہے اور بلانے سے آنے لگیں پھر چاروں کو ذبح کیا پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر رکھے ایک پر پَر رکھے ایک پر سب کے دھڑ رکھے ایک پر پاؤں رکھے پہلے بیچ میں کھڑے ہو کر ایک کو پکارا اس کا سر اٹھ کر ہوا میں کھڑا ہوا پھر دھڑ ملا پھر پَر لگے پھر پاؤں وہ دوڑتا چلا آیا پھر اسی طرح چاروں آ گئے۔
۳: یہاں دو خلجان گزرنے کا قوی احتمال ہے اول تو جسم بے جان متفرق الاجزاء کا زندہ ہونا قابل انکار دوسرے ان خصوصیات کو کہ وہ پرندے ہوں اور چار بھی ہوں اور چار بھی فلاں فلاں ہوں اور اس طرح اُن کے اجزاء کو متفرق کر کے بلایا جائے تو زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اس کا کوئی دخل اور ان قیود کا کوئی نفع معلوم نہیں ہوتا اس لئے اول خلجان کے جواب میں عزیز اور دوسرے کے جواب میں حکیم فرما کر دونوں شبہوں کا قلع قمع فرما دیا یعنی اس کو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ زبردست قدرت والا ہے جو چاہے کر سکتا ہے اور اس کے ہر حکم میں اس قدر حکمتیں ہوتی ہیں کہ جن کا ادراک اور احاطہ اگر ہم کو نہ ہو تو یہ ہمارے نقصان علم کی بات ہے ا سکی حکمت کا انکار ایسے امور سے ہرگز ممکن نہیں واللہ اعلم آیۃ الکرسی میں علم و قدرت وغیرہ صفات الٰہی کو ذکر فرمایا اس کے بعد یہ تین قصے بیان فرمائے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ہدایت کر سکتا ہے اور جس کو چاہے گمراہ کر سکتا ہے اور مارنا جِلانا سب اس کے اختیار میں ہے اب جہاد اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور ا سکے متعلق قیود و شرائط بیان فرماتے ہیں جس کا ذکر کسی قدر گزر بھی چکا ہے کیونکہ جہاد و انفاق مال میں جو موانع نظر آتے ہیں حق تعالیٰ کے علم و قدرت کے یقین کر لینے کے بعد اور اس کی عجائب قدرت کے حالات معلوم ہونے کے بعد ان کا ازالہ ہو گا ورنہ نقصان تو ان میں ضرور آنا چاہیے۔
۲۶۱۔۔۔ یعنی اللہ کی راہ میں تھوڑے مال کا بھی ثواب بہت ہے جیسا ایک دانہ سے سات سو دانے پیدا ہوں اور اللہ تعالیٰ بڑھائے جس کے واسطے چاہے اور سات سو سے سات ہزار اور اس سے بھی زیادہ کر دے اور اللہ بہت بخشش کرنے والا اور ہر ایک خرچ کرنے والے کی نیت اور اس کے خرچ کی مقدار اور مال کی کیفیت کو خوب جانتا ہے یعنی ہر ایک سے ا سکے مناسب معاملہ فرماتا ہے۔
۲۶۲۔۔۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کئے پر نہ زبان سے احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں طعن سے اور نہ خدمت لینے سے اور نہ تحقیر کرنے سے انہی کے لئے ہے ثواب کامل اور نہ ڈر ہے ان کو ثواب کم ہونے کا اور نہ غمگین ہوں گے ثواب کے نقصان سے۔
۲۶۳۔۔۔ یعنی مانگنے والے کو نرمی سے جواب دینا اور اس کے اصرار اور بدخوئی پر درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے کہ بار بار اس کو شرمائے یا احسان رکھے یا طعنہ دے اور اللہ غنی ہے کسی کے مال کی اس کو حاجت نہیں جو صدقہ اس کی راہ میں کرتا ہے اپنے واسطے کرتا ہے اور حلیم ہے کہ ستانے پر عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں فرماتا۔
۲۶۴۔۔۔ ۱: یعنی صدقہ دے کر محتاج کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے سے صدقہ کا ثواب جاتا رہتا ہے یا اوروں کو دکھا کر اس لئے صدقہ دیتا ہے کہ لوگ سخی جانیں اس طرح کی بھی خیرات کا ثواب کچھ نہیں ہوتا باقی یہ فرمانا کہ وہ یقین نہیں رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ ابطال صدقہ کے لئے قید و شرط نہیں ہیں کیونکہ صدقہ تو صرف ریا سے ہی باطل ہو سکتا ہے اگرچہ خرچ کرنے والا مومن ہی کیوں نہ ہو مگر اس قید کو صرف اس نفع کی غرض سے بڑھایا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ریاکاری مومن کی شان سے بعید ہے بلکہ یہ امر منافقین کے مناسب حال ہے۔
۲: اوپر مثال بیان فرمائی تھی خیرات کی کہ ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا اور اس سے سات سو دانے پیدا ہو گئے اب فرماتے ہیں کہ نیت شرط ہے اگر کسی نے ریا اور دکھاوے کی نیت سے صدقہ کیا تو اس کی مثال ایسی سمجھو کہ کسی نے دانہ بویا ایسے پتھر پر کہ جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی جب مینہ برسا تو بالکل صاف رہ گیا اب اس پر دانہ کیا اُگے گا ایسے ہی صدقات میں ریا کاروں کو کیا ثواب ملے گا۔
۲۶۵۔۔۔ زور کے مینہ سے مراد بہت مال خرچ کرنا اور پھوار سے مراد تھوڑا مال خرچ کرنا اور دلوں کو ثابت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ثابت کریں دلوں کو ثواب پانے میں یعنی ان کو یقین ہے کہ خیرات کا ثواب ضرور ملے گا سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنے میں بہت ثواب ملے گا اور تھوڑی خیرات میں بھی فائدہ ہو گا جیسے خالص زمین پر باغ ہے تو جتنا مینہ برسے گا اتنا ہی باغ کو فائدہ پہنچے گا اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے اتنا ہی مال ضائع ہو گا اور نقصان پہنچے گا کیونکہ زیادہ مال دینے میں ریا اور دکھاوا بھی زیادہ ہو گا جیسا پتھر پر دانہ اگے گا تو جتنا زور کا مینہ برسے گا اتنا ہی ضرر زیادہ ہو گا۔
۲۶۶۔۔۔ یہ مثال ان کی ہے جو لوگوں کو دکھانے کو صدقہ خیرات کرتے ہیں یا خیرات کر کے احسان رکھتے ہیں اور ایذاء پہنچاتے ہیں یعنی جیسے کسی شخص نے جوانی اور قوت کے وقت باغ تیار کیا تاکہ ضعیفی اور بڑھاپے میں اس سے میوہ کھائے اور ضرورت کے وقت کام آئے۔ پھر جب بڑھاپا آیا اور میوے کی پوری حاجت ہوئی تب وہ باغ عین حالت احتیاج میں جل گیا یعنی صدقہ مثل باغ میوہ دار کے ہے کہ اس کا میوہ آخرت میں کام آئے۔ جب کسی کی نیت بری ہے تو وہ باغ جل گیا پھر اس کا میوہ جو ثواب ہے کیونکر نصیب ہو حق سبحانہ، اسی طرح کھول کر سمجھاتا ہے تم کو آیتیں تاکہ غور کرو اور سمجھو۔
۲۶۷۔۔۔ یعنی عند اللہ صدقہ کے مقبول ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ مال حلال کمائی کا ہو، حرام کا مال اور شبہ کا مال نہ ہو اور اچھی سے اچھی چیز اللہ کی راہ میں دے بُری چیز خیرات میں نہ لگائے کہ اگر کوئی ایسی ویسی چیز دے تو جی نہ چاہے لینے کو مگر شرما شرمائی۔ پر خوشی سے ہرگز نہ لے اور جان لو کہ اللہ بے پرواہ ہے تمہارا محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے اگر بہتر سے بہتر چیز دل کے شوق اور محبت سے دے تو پسند فرماتا ہے۔
۲۶۸۔۔۔ جب کسی کے دل میں خیال آئے کہ اگر خیرات کروں گا تو مفلس رہ جاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی یہی ہمت ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الٰہی سے اعراض کر کے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو اس کو یقین کر لینا چاہیے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے یہ نہ کہے کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہو گی تو جان لیوے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانہ میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن نیت عمل کو خوب جانتا ہے۔
۲۶۹۔۔۔ یعنی جس کو چاہتا ہے دین کی باتوں میں دانائی اور خیرات کرنے میں سمجھ عنایت کرتا ہے کہ کس نیت سے اور کس مال سے اور کس کو اور کس طرح محتاج کو دینا چاہیے اور جس کو سمجھ عنایت ہوئی اس کو بڑی نعمت اور بڑی خوبی ملی۔
۲۷۰۔۔۔ یعنی جو کچھ خیرات کی جائے تھوڑی یا بہت بھلی نیت سے یا بری نیت سے چھپا کر یا لوگوں کو دکھا کر یا منت مانی جائے کسی طرح کی تو بیشک خدا تعالیٰ کو پورا علم ہے سب کا اور جو لوگ انفاق مال اور نذر میں حکم الٰہی کے خلاف کرتے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں اللہ جو چاہے ان پر عذاب کرے منت قبول کرنے سے واجب ہو جاتی ہے اب اگر ادا نہ کی تو گنہگار ہو گا اور نذر اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں مگر یہ کہے کہ اللہ کے واسطے فلانے شخص کو دوں گا یا اس نذر کا ثواب فلاں کو پہنچے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
۲۷۱۔۔۔ اگر لوگوں کے دکھانے کی نیت نہ ہو تو خیرات کرنا لوگوں کے روبرو بھی بہتر ہے تاکہ اوروں کو بھی شوق اور رغبت ہو اور چھپا کر خیرات کرنا بھی بہتر ہے تاکہ لینے والا نہ شرمائے۔ خلاصہ یہ کہ اظہار و اخفاء دونوں بہتر ہیں مگر ہر موقع اور مصلحت کا لحاظ ضروری بات ہے۔
۲۷۲۔۔۔ جب آپ نے صحابہ کو مسلمانوں کے سوا اوروں پر صدقہ کرنے سے روکا اور اس میں یہ مصلحت تھی کہ مال ہی کی غرض سے دین حق کی طرف راغب ہوں آگے یہ فرما دیا کہ یہ ثواب جب ہی تک ملے گا کہ اللہ کی خوشی مطلوب ہو گی تو یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عام حکم آگیا کہ اللہ کی راہ میں جس کو مال دو گے تم کو اس کا ثواب دیا جائے گا مسلم غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں یعنی جس پر صدقہ کرو اس میں مسلم کی تخصیص نہیں البتہ صدقہ میں یہ ضرور ہے کہ محض بوجہ اللہ ہو۔
۲۷۳۔۔۔ ۱: یعنی ایسوں کا دینا بڑا ثواب ہے جو اللہ کی راہ اور اس کے دین کے کام میں مقید ہو کر چلنے پھرنے کھانے کمانے سے رک رہے ہیں اور کسی پر اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے جیسے حضرت کے اصحاب تھے۔ اہل صفہ نے گھر بار چھوڑ کر حضرت کی صحبت اختیار کی تھی علم دین سیکھنے کو اور مفسدین فتنہ پردازوں پر جہاد کرنے کو اسی طرح اب بھی جو کوئی قرآن کو حفظ کرے یا علم دین میں مشغول ہو تو لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی مدد کریں۔ اور چہرہ سے ان کو پہچاننا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنکے چہرے زرد اور بدن دبلے ہو رہے ہیں اور آثار جدوجہد ان کی صورت سے نمودار ہیں۔
۲: علی العموم اور خاص کر ایسے لوگوں پر جن کا ذکر ہوا۔
۲۷۴۔۔۔ یہاں تک خیرات کا بیان اور اس کی فضیلت اور ا سکی قیود و شرائط کا مذکور تھا اور چونکہ خیرات کرنے سے ادھر تو معاملات میں سہولت و تسہیل کی عادت ہوتی ہے اور بے مروتی و سخت گیری کی برائی دلنشین ہوتی ہے اور اُدھر یہ ہوتا ہے کہ معاملات و اعمال میں جو گناہ ہو جاتا ہے خیرات سے اس کا کفارہ کر دیا جاتا ہے اور نیز خیرات کرنے سے اخلاق و مروت و خیر اندیشی و نفع رسانی خلق اللہ میں ترقی ہوتی ہے تو ان وجوہ سے ان آیات متعددہ میں اس کا ذکر فرمایا گیا تھا اب سود لینا چونکہ خیرات کی ضد ہے وہاں مروت و نفع رسانی تھی تو سود میں محض بے مروتی اور ضرر رسانی اور ظلم ہے۔ اس لئے خیرات کی فضیلت کے بعد سود کی مذمت اور ا سکی ممانعت کا ذکر بہت مناسب ہے، اور جس قدر خیرات میں بھلائی ہے اتنی ہی سود میں بُرائی ہونی ضروری بات ہے۔
۲۷۵۔۔۔ ۱: یعنی رِبوا کھانے والے قیامت کو قبروں سے ایسے اٹھیں گے جیسے آسیب زدہ اور مجنون اور یہ حالت اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے حلال و حرام کو یکساں کر دیا اور صرف اس وجہ سے کہ دونوں میں نفع مقصود ہوتا ہے دونوں کو حلال کہا حالانکہ بیع اور ربوا میں بڑا فرق ہے کہ بیع کو حق تعالیٰ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ فائدہ بیع میں جو نفع ہوتا ہے وہ مال کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسا کسی نے ایک درہم کی قیمت کا کپڑا دو درہم کا فروخت کیا اور سود وہ ہوتا ہے جس میں نفع بلا عوض ہو جیسے ایک درہم سے دو درہم خرید لیوے اول صورت میں چونکہ کپڑا اور درہم دو جدی جدی قسم کی چیزیں ہیں اور نفع اور غرض ہر ایک کی دوسرے سے علیحدہ ہے اس لئے ان میں فی نفسہٖ موازنہ اور مساوات غیر ممکن ہے بضرورت خرید و فروخت موازنہ کرنے کو کوئی صورت اپنی اپنی ضرورت اور حاجت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی اور ضرورت اور رغبت ہر ایک کی از حد مختلف ہوتی ہے کسی کو ایک درہم کی اتنی حاجت ہوتی ہے کہ دس روپیہ کی قیمت کے کپڑے کی بھی اس قدر نہیں ہوتی اور کسی کو ایک کپڑے کی جو بازار میں ایک درہم کا شمار ہوتا ہے اتنی حاجت ہو سکتی ہے کہ دس درہم کی بھی اتنی احتیاج اور رغبت نہیں ہوتی تو اب ایک کپڑے کو ایک درہم میں کوئی خریدے گا تو اس میں سود یعنی نفع خالی عن العوض نہیں اور اگر بالفرض اسی کپڑے کو ایک ہزار درہم کا خریدے گا تو سود نہیں ہو سکتا کیونکہ فی حد ذاتہٖ تو ان میں موازنہ اور مساوات ہو ہی نہیں سکتی اس کے لئے اگر پیمانہ ہے تو اپنی اپنی رغبت اور ضرورت اور اس میں اتنا تفاوت ہے کہ خدا کی پناہ تو سود متعین ہو تو کیونکر ہو اور ایک درہم کو دو درہم کے عوض فروخت کرے گا تو یہاں فی نفسہٖ مساوات ہو سکتی ہے جس کے باعث ایک درہم ایک درہم کے مقابلہ میں معین ہو گا اور دوسرا درہم خالی عن العوض ہو کر سود ہو گا اور شرعا یہ معاملہ حرام ہو گا۔
۲: یعنی سود کی حرمت سے پہلے جو تم نے سود لیا دنیا میں اس کو مالک کی طرف واپس کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا یعنی تم کو اس سے مطالبہ کا حق نہیں اور آخرت میں حق تعالیٰ کو اختیار ہے چاہے اپنی رحمت سے اس کو بخش دے لیکن حرمت کے بعد بھی اگر کوئی باز نہ آیا بلکہ برابر سود لے گیا تو وہ دوزخی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی عقلی دلیلوں کو پیش کرنے کی سزا وہی سزا ہے جو فرمائی۔
۲۷۶۔۔۔ ۱:اللہ سود کے مال کو مٹاتا ہے یعنی اس میں برکت نہیں ہوتی بلکہ اصل مال بھی ضائع ہو جاتا ہے چنانچہ حدیث میں ارشاد ہے کہ سود کا مال کتنا ہی بڑھ جائے انجام اس کا افلاس ہے اور خیرات کے مال کو بڑھانے سے یہ مطلب ہے کہ اس مال میں زیادتی ہوتی ہے اور اللہ برکت دیتا ہے اور اس کا ثواب بڑھایا جاتا ہے چنانچہ احادیث میں وارد ہے۔
۲: مطلب یہ کہ سود لینے والے نے مالدار ہو کر اتنا بھی نہ کیا کہ محتاج کو قرض ہی بلا سود دے دیتا چاہیے تو یہ تھا کہ بطریق خیرات حاجت مند کو دیتا تو اب اس سے زیادہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کیا ہو گی۔
۲۷۷۔۔۔ اس آیت میں سود لینے والے کے مقابلہ میں اہل ایمان کے اوصاف اور ان کا انعام ذکر کر دیا جو سود خور کے اوصاف و حالات اور اس کے حکم کے خلاف اور ضد ہیں جس سے سود خور کی پوری تہدید و تشنیع بھی ظاہر ہو گئی۔
۲۷۸۔۔۔ یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا اس کو ہرگز نہ مانگو۔
۲۷۹۔۔۔ یعنی پہلے سود جو تم لے چکے ہو اس کو اگر تمہارے اصل مال میں محسوب کریں اور اس میں سے کاٹ لیویں تو تم پر ظلم ہے اور ممانعت کے بعد کا سود چڑھا ہوا اگر تم مانگو تو یہ تمہارا ظلم ہے۔
۲۸۰۔۔۔ یعنی جب سود کی ممانعت آ گئی اور اس کا لینا دینا موقوف ہو گیا تو اب تم مدیون مفلس سے تقاضا کرنے لگو یہ ہرگز نہ چاہیے بلکہ مفلس کو مہلت دو اور توفیق ہو تو بخش دو۔
۲۸۱۔۔۔ یعنی قیامت کو تمام اعمال کی جزاء اور سزا ملے گی تو اب ہر کوئی اپنا فکر کر لے اچھے کام کرے یا بُرے سود لے یا خیرات کرے۔
۲۸۲۔۔۔ ۱: پہلے صدقہ خیرات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان فرمائے اس کے بعد ربا اور ا سکی حرمت اور برائی مذکور ہوئی اب اس معاملہ کا ذکر ہے جس میں قرض ہو اور آیندہ کسی مدت کا وعدہ ہو ا سکی نسبت یہ معلوم ہوا کہ ایسا معاملہ جائز ہے مگر چونکہ یہ معاملہ آئندہ مدت کے لئے ہوا ہے بھول چوک خلاف ونزاع کا احتمال ہے اس لئے یہ ضرور ہے کہ اس کا تعین اور اہتمام ایسا کیا جائے کہ آئندہ کوئی قضیہ اور خلاف نہ ہو۔ اس کی صورت یہی ہے کہ ایک کاغذ لکھو جس میں مدت کا تقرر ہو اور دونوں معاملہ والوں کا نام اور معاملہ کی تفصیل سب باتیں صاف صاف کھول کر لکھی جاویں کاتب کو چاہیے بلا انکار جس طرح شرع کا حکم ہے ا سکے موافق انصاف میں کوتاہی نہ کرے اور چاہیے کہ مدیون اپنے ہاتھ سے لکھے یا کاتب کو اپنی زبان سے بتلائے اور دوسرے کے حق میں ذرا نقصان نہ ڈالے۔
۲: یعنی دیندار اور مدیون ہے وہ اگر بے عقل بھولا یا سست اور ضعیف ہے مثلاً بچہ ہے یا بہت بوڑھا ہے کہ معاملہ کے سمجھنے کی سمجھ ہی نہیں ہے یا معاملہ کو کاتب کو بتلا نہیں سکتا تو ایسی صورتوں میں مدیون کے مختار اور وارث اور کارگذار کو چاہیے کہ معاملہ کو انصاف سے بلا کم وکاست لکھوا دے۔
۳: اور تم کو چاہیے کہ اس معاملہ پر کم سے کم دو گواہ مردوں میں سے یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں اور گواہ قابل پسند یعنی لائق اعتبار اور اعتماد ہوں۔
۴: یعنی گواہ کو جس وقت گواہ بنانے کے لئے یا ادائے شہادت کے لئے بلائیں تو اس کو کنارہ یا انکار نہ چاہیے اور کاہلی اور سستی نہ کرو اس کے لکھنے لکھانے میں معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا کہ انصاف پورا اس میں ہے اور گواہی پر بھی کامل اعتماد اسے لکھ لینے میں ہے اور بھول چوک اور کسی کے حق ضائع ہونے سے اطمینان بھی اس میں ہے۔
۵: یعنی اگر سوداگری کا معاملہ دست بدست ہو جنس کے بدلے جنس یا نقد کی طرح معاملہ ہو مگر ادھار کا قصہ نہ ہو تو اب نہ لکھنے میں گناہ نہیں مگر گواہ بنا لینا اس وقت بھی چاہیے کہ اس معاملہ کے متعلق کوئی نزاع آئندہ پیش آئے تو کام آئے اور لکھنے والا اور گواہ نقصان نہ کرے یعنی مدعی اور مدعیٰ علیہ میں سے کسی کا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جو حق واجبی ہو وہی ادا کریں۔
۲۸۳۔۔۔ ۱:یعنی اگر سفر میں قرض اور ادھار کا معاملہ کرو اور دستاویز کے لئے کوئی کاتب نہ ملے تو قرض کے عوض کوئی چیز مدیون کو رہن رکھ دینی چاہیئے۔ فائدہ سفر میں رہن کی حاجت بہ نسبت حضر زیادہ ہو گی کیونکہ حضر میں کتابت و شہادت سے بھی بسہولت صاحب دَین کا اطمینان ممکن ہے اس لئے سفر میں رہن کا حکم ہوا اور نہ حَضر میں اور کاتب کی موجودگی میں بھی رہن درست ہے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے اور اگر صاحبِ دَین کو مدیون پر اعتماد اور اس کا اعتبار ہو اور اس لئے رہن کا طالب نہ ہو تو مدیون کو لازم ہے کہ صاحبِ دَین کا حق تمام و کامل ادا کر دے اور خدا سے ڈرتا رہے صاحبِ حق کے حق میں امانت سے معاملہ کرے۔
۲۸۴۔۔۔ اس سورت میں اصول و فروع عبادات و معاملات جانی و مالی ہر قسم کے احکامات بہت کثرت سے مذکور فرمائے اور شاید اس سورت کے سنام القرآن فرمانے کی یہی وجہ ہو اس لئے مناسب ہے، کہ بندوں کو پوری تاکید و تہدید بھی ہر طرح سے فرما دی جائے تاکہ تعمیل احکام مذکورہ میں کوتاہی سے اجتناب کریں سو اسی غرض کے لئے آخر سورت میں احکام کو بیان فرما کر اس آیت کو بطور تہدید و تنبیہ ارشاد فرما کر تمام احکام مذکورہ سابقہ کی پابندی پر سب کو مجبور کر دیا اور طلاق و نکاح قصاص و زکاۃ بیع و ربوا وغیرہ میں جو اکثر صاحب حیلوں اور اپنی ایجاد کردہ تدبیروں سے کام لیتے ہیں اور ناجائز امور کو جائز بنانے میں خود رائی اور سینہ زوری سے کام لیتے ہیں اُن کو بھی اس میں پوری تنبیہ ہو گئی دیکھئے جس کو ہم پر استحقاق عبادت حاصل ہو گا اس کو مالک ہونا چاہیے اور جو ہماری ظاہری اور مخفی تمام اشیاء کا محاسبہ کر سکے اس کو تمام امور کا علم ہونا ضروری ہے اور جو ہماری تمام چیزوں کا حساب لے سکے اور ہر ایک کے مقابلہ میں جزاء و سزا دے سکے اس کو تمام چیزوں پر قدرت ہونی ضروری ہے سو انہی تین کمالات یعنی ملک اور علم اور قدرت کو یہاں بیان فرمایا اور انہی کا آیۃ الکرسی میں ارشاد ہو چکا ہے مطلب یہی ہے کہ ذات پاک سبحانہ، تمام چیزوں کی مالک اور خالق اس کا علم سب کو محیط ا سکی قدرت سب پر شامل ہے تو پھر ا سکی نافرمانی کسی امر ظاہریا مخفی میں کر کے بندہ کیونکر نجات پا سکتا ہے۔
۲۸۵۔۔۔ پہلی آیت سے جب یہ معلوم ہوا کہ دل کے خیالات پر بھی حساب اور گرفت ہے تو اس پر حضرات صحابہ گھبرائے اور ڈرے اور ان کو اتنا صدمہ ہوا کہ کسی آیت پر نہ ہوا تھا آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا قُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا یعنی اشکال نظر آئے یا دقت مگر حق تعالیٰ کے ارشاد کی تسلیم میں ادنیٰ توقف بھی مت کرو اور سینہ ٹھوک کر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا عرض کر دو آپ کے ارشاد کی تعمیل کی تو انشراح کے ساتھ یہ کلمات زبان پر بے ساختہ جاری ہو گئے مطلب ان کا یہ ہے کہ ہم ایمان لائے اور اللہ کے حکم کی اطاعت کی یعنی اپنی دِقت اور خلجان سب کو چھوڑ کر ارشاد کی تعمیل میں مستعدی اور آمادگی ظاہر کی حق تعالیٰ کو یہ بات پسند ہوئی تب یہ دونوں آیتیں اتریں اول یعنی اٰمَنَ الرَّسُوْلُ الخ اس میں رسول کریم اور اُن کے بعد صحابہ کہ جن کو اشکال مذکور پیش آیا تھا اُن کے ایمان کی حق سبحانہ، نے تفصیل کے ساتھ مدح فرمائی جس سے اُن کے دلوں میں اطمینان ترقی پاوے اور خلجان سابق زائل ہو ا سکے بعد دوسری آیت لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً الخ میں فرما دیا کہ مقدور سے باہر کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی اب اگر کوئی دل میں گناہ کا خیال اور خطرہ پائے اور اس پر عمل نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں اور بھول چوک بھی معاف ہے غرض صاف فرما دیا کہ جن باتوں سے بچنا طاقت سے باہر ہے جیسے برے کام کا خیال و خطرہ یا بھول چوک ان پر مواخذہ نہیں ہاں جو باتیں بندہ کے ارادے اور اختیار میں ہیں ان پر مواخذہ ہو گا اب آیت سابقہ کو سن کر جو صدمہ ہوا تھا اس کے معنی بھی اسی پچھلے قاعدہ کے موافق لینے چاہئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خلجان مذکور کا اب ایسا قلع قمع ہو گیا کہ سبحان اللہ۔ فائدہ جدا نہیں کرتے کسی کو ا سکے پیغمبروں میں سے یعنی یہود اور نصاریٰ کی طرح نہیں کہ کسی پیغمبر کو مانا اور کسی پیغمبر کو نہ مانا۔
۲۸۶۔۔۔ اول آیت پر حضرات صحابہ کو بڑی پریشانی ہوئی تھی اُن کی تسلی کے لئے یہ دو آیتیں اٰمن الرسول الخ اور لا یکلف اللہ نفسا الخ نازل ہوئیں اب اس کے بعد ربنا لا تؤاخذنا آخر سورت تک نازل فرما کر ایسا اطمینان دیا گیا کہ کسی صعوبت اور دشواری کا اندیشہ بھی باقی نہ چھوڑا کیونکہ جن دعاؤں کا ہم کو حکم ہوا ہے ان کا مقصود یہ ہے کہ بیشک ہر طرح کا حق حکومت اور استحقاق عبادت تجھ کو ہم پر ثابت ہے مگر اے ہمارے رب اپنی رحمت و کرم سے ہمارے لئے ایسے حکم بھیجے جائیں جن کے بجا لانے میں ہم پر صعوبت اور بھاری مشقت نہ ہو نہ بھول چوک میں ہم پکڑے جائیں نہ مثل پہلی امتوں کے ہم پر شدید حکم اتارے جائیں نہ ہماری طاقت سے باہر کوئی حکم ہم پر مقرر ہو اس سہولت پر بھی ہم سے جو قصور ہو جائے اس سے درگزر اور معافی اور ہم پر رحم فرمایا جائے۔ حدیث میں ہے کہ یہ سب دعائیں مقبول ہوئیں۔ اور جب اس دشواری کے بعد جو حضرات صحابہ کو پیش آ چکی تھی اللہ کی رحمت سے اب ہر ایک دشواری سے ہم کو امن مل گیا تو اب اتنا اور بھی ہونا چاہیے کہ کفار پر ہم کو غلبہ عنایت ہو ورنہ ان کی طرف سے مختلف دقتیں دینی اور دنیاوی ہر طرح کی مزاحمتیں پیش آ کر جس صعوبت سے اللہ اللہ کر کے اللہ کے فضل سے جان بچی تھی کفار کے غلبہ کی حالت میں پھر وہی کھٹکا موجب بے اطمینانی ہو گا۔