۱ سورۂ طٰہٰ مکیہ ہے اس میں آٹھ رکوع ہیں ایک سو پینتیس آیتیں اور ایک ہزار چھ سو اکتالیس ۱۶۴۱کلمے اور پانچ ہزار دو سو بیالیس ۵۲۴۲ حروف ہیں۔
۲ اور تمام شب کے قیام کی تکالیف اٹھاؤ۔ شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم عبادت میں بہت جہد فرماتے تھے اور تمام شب قیام میں گزارتے یہاں تک کہ قدم مبارک ورم کر آتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر بحکمِ الٰہی عرض کیا کہ اپنے نفسِ پاک کو کچھ راحت دیجئے اس کا بھی حق ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم لوگوں کے کُفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ متاسّف و متحسّر رہتے تھے اور خاطرِ مبارک پر اس سبب سے رنج و ملال رہا کرتا تھا اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج و ملال کی کوفت نہ اٹھائیں قرآنِ پاک آپ کی مشقت کے لئے نازِل نہیں کیا گیا ہے۔
۳ وہ اس سے نفع اٹھائے گا اور ہدایت پائے گا۔
۴ جو ساتوں زمینوں کے نیچے ہے۔ مراد یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے عرش و سماوات، زمین و تحت الثریٰ، کچھ ہو،کہیں ہو، سب کا مالک اللہ ہے۔
۵ سِر یعنی بھید وہ ہے جس کو آدمی رکھتا اور چھُپاتا ہے اور اس سے زیادہ پوشیدہ وہ ہے جس کو انسان کرنے والا ہے مگر ابھی جانتا بھی نہیں نہ اس سے اس کا ارادہ متعلق ہوا، نہ اس تک خیال پہنچا۔ ایک قول یہ ہے کہ بھید سے مراد وہ ہے جس کو انسانوں سے چھُپاتا ہے اور اس سے زیادہ چھُپی ہوئی چیز وسوسہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ بھید بندہ کا وہ ہے جسے بندہ خود جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس سے زیادہ پوشیدہ ربّانی اسرار ہیں جن کو اللہ جانتا ہے بندہ نہیں جانتا۔ آیت میں تنبیہ ہے کہ آدمی کو قبائحِ افعال سے پرہیز کرنا چاہیئے وہ ظاہرہ ہوں یا باطنہ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کچھ چھُپا نہیں اور اس میں نیک اعمال پر ترغیب بھی ہے کہ طاعت ظاہر ہو یا باطن اللہ سے چھپی نہیں وہ جزا عطا فرمائے گا۔ تفسیرِ بیضاوی میں قول سے ذکرِ الٰہی اور دعا مراد لی ہے اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ذکر و دعا میں جہر اللہ تعالیٰ کو سنانے کے لئے نہیں ہے بلکہ ذکر کو نفس میں راسخ کرنے اور نفس کو غیر کے ساتھ مشغولی سے روکنے اور باز رکھنے کے لئے ہے۔
۶ وہ واحد بالذات ہے اور اسماء و صفات عبارات ہیں اور ظاہر ہے کہ تعدّدِ عبارات تعدّدِ معنیٰ کو مقتضی نہیں۔
۷ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احوال کا بیان فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ انبیاء علیہم السلام جو درجۂ عُلیا پاتے ہیں وہ ادائے فرائضِ نبوّت و رسالت میں کس قدر مشقّتیں برداشت کرتے اور کیسے کیسے شدائد پر صبر فرماتے ہیں۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس سفر کا واقعہ بیان فرمایا جاتا ہے جس میں آپ مدیَن سے مِصر کی طرف حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت لے کر اپنی والدہ ماجدہ سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے تھے، آپ کے اہلِ بیت ہمراہ تھے اور آپ نے بادشاہانِ شام کے اندیشہ سے سڑک چھوڑ کر جنگل میں قطعِ مسافت اختیار فرمائی، بی بی صاحبہ حاملہ تھیں، چلتے چلتے طور کے غربی جانب پہنچے یہاں رات کے وقت بی بی صاحبہ کو دردِ زہ شروع ہوا، یہ رات اندھیری تھی، برف پڑ رہا تھا، سردی شدت کی تھی، آپ کو دور سے آگ معلوم ہوئی۔
۸ وہاں ایک درخت سرسبز و شاداب دیکھا جو اوپر سے نیچی تک نہایت روشن تھا جتنا اس کے قریب جاتے ہیں دور ہوتا ہے جب ٹھہر جاتے ہیں قریب ہوتا ہے اس وقت آپ کو۔
۹ کہ اس میں تواضع اور بقعۂ معظّمہ کا احترام اور وادیِ مقدّس کی خاک سے حصولِ برکت کا موقع ہے۔
۱۰ طویٰ وادی کا مقدّس کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
۱۱ تیری قوم میں سے نبوّت و رسالت و شرفِ کلام کے ساتھ مشرّف فرمایا۔ یہ ندا حضرت موسیٰ علیہ الصلیوۃ والسلام نے اپنے ہر جزوِ بدن سے سنی اور قوّتِ سامعہ ایسی عام ہوئی کہ تمام جسمِ اقدس کان بن گیا سبحان اللہ۔
۱۲ تاکہ تو اس میں مجھے یاد کرے اور میری یاد میں اخلاص ا ور میری رضا مقصود ہو کوئی دوسری غرض نہ ہو اسی طرح ریا کا دخل نہ ہو یا یہ معنیٰ ہیں کہ تو میری نماز قائم رکھ تاکہ میں تجھے اپنی رحمت سے یاد فرماؤں۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بعد اعظم فرائض نماز ہے۔
۱۳ اور بندوں کو اس کے آنے کے خبر نہ دوں اور اس کے آنے کی خبر نہ دی جاتی اگر اس خبر دینے میں یہ حکمت نہ ہوتی۔
۱۴ اور اس کے خوف سے مَعاصی ترک کرے نیکیاں زیادہ کرے اور ہر وقت توبہ کرتا رہے۔
۱۵ اے اُمّتِ موسیٰ۔ خِطاب بظاہر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہے اور مراد اس سے آپ کی اُمّت ہے۔ (مدارک)۔
۱۶ اگر تو اس کا کہنا مانے اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو۔
۱۷ اس سوال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا کو دیکھ لیں اور یہ بات قلب میں خوب راسخ ہو جائے کہ یہ عصا ہے تاکہ جس وقت وہ سانپ کی شکل میں ہو تو آپ کی خاطرِ مبارک پر کوئی پریشانی نہ ہو یا یہ حکمت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانوس کیا جائے تاکہ ہیبتِ مکالمت کا اثر کم ہو۔ (مدارک وغیرہ )۔
۱۸ اس عصا میں اوپر کی جانب دو شاخیں تھیں اور اس کا نام نبعہ تھا۔
۱۹ مثل توشہ اور پانی اٹھانے اور موذی جانوروں کو دفع کرنے اور اعداء سے محاربہ میں کام لینے وغیرہ کے، ان فوائد کا ذکر کرنا بطریقِ شکرِ نِعَمِ الٰہیہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔
۲۰ اور قدرتِ الٰہی دکھائی گئی کہ جو عصا ہاتھ میں رہتا تھا اور اتنے کاموں میں آتا تھا اب اچانک وہ ایسا ہیبت ناک اژدہا بن گیا یہ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے۔
۲۱ یہ فرماتے ہی خوف جاتا رہا حتی کہ آپ نے اپنا دستِ مبارک اس کے منہ میں ڈال دیا اور وہ آپ کے ہاتھ لگاتے ہی مثلِ سابق عصا بن گیا اب اس کے بعد ایک اور معجِزہ عطا فرمایا جس کی نسبت ارشاد فرمایا۔
۲۲ یعنی کفِ دستِ راست بائیں بازو سے بغل کے نیچے ملا کر نکالئے تو آفتاب کی طرح چمکتا نگاہوں کو خیرہ کرتا اور۔
۲۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک سے رات و دن میں آفتاب کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا اور یہ معجِزہ آپ کے اعظم معجزات میں سے ہے جب آپ دوبارہ اپنا دست مبارک بغل کے نیچے رکھ کر بازو سے ملاتے تو وہ دستِ اقدس حالتِ سابقہ پر آ جاتا۔
۲۴ آپ کے صدقِ نبوّت کی عصا کے بعد اس نشانی کو بھی لیجئے۔
۲۶ اور کُفر میں حد سے گزر گیا اور الوہیّت کا دعویٰ کرنے لگا۔
۲۷ اور اسے تحمّلِ رسالت کے لئے وسیع فرما دے۔
۲۸ جو خورد سالی میں آگ کا انگارہ منہ میں رکھ لینے سے پڑ گئی ہے اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ بچپن میں آپ ایک روز فرعون کی گود میں تھے آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اس پر اسے غصہ آیا اور اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا آسیہ نے کہا کہ اے بادشاہ یہ نادان بچہ ہے کیا سمجھے ؟ تو چاہے تو تجربہ کر لے اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آگ اور ایک طشت میں یاقوت سرخ آپ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتہ نے آپ کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ کے منہ میں دے دیا اس سے زبانِ مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہو گئی اس کے لئے آپ نے یہ دعا کی۔
۲۹ جو میرا معاون اور معتمد ہو۔
۳۰ یعنی امرِ نبوّت و تبلیغِ رسالت میں۔
۳۱ نمازوں میں بھی اور خارجِ نماز بھی۔
۳۲ ہمارے احوال کا عالِم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے۔
۳۴ دل میں ڈال کر یا خواب کے ذریعے سے جبکہ انہیں آپ کی ولادت کے وقت فرعون کی طرف سے آپ کو قتل کر ڈالنے کا اندیشہ ہوا۔
۳۶ یعنی فرعون چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایک صندو ق بنایا اور اس میں روئی بچھائی اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس میں رکھ کر صندوق بند کر دیا اور اس کی درزیں روغنِ قیر سے بند کر دیں آپ اس صندوق کے اندر پانی میں پہنچے پھر اس صندوق کو دریائے نیل میں بہا دیا اس دریا سے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں گرتی تھی فرعون مع اپنی بی بی آسیہ نہر کے کنارہ بیٹھا تھا نہر میں صندوق آتا دیکھ کر اس نے غلاموں اور کنیزوں کو اس کے نکالنے کا حکم دیا وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا کھولا تو اس میں ایک نورانی شکل فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اقبال کے آثار نمودار تھے نظر آیا دیکھتے ہی فرعون کے دل میں ایسی مَحبت پیدا ہوئی کہ وہ وارفتہ ہو گیا اور عقل و حواس بجا نہ رہے اپنے اختیار سے باہر ہو گیا اس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
۳۷ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں محبوب بنایا اور خَلق کا محبوب کر دیا اور جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی محبوبیت سے نوازتا ہے قلوب میں اس کی مَحبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا یہی حال حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا جو آپ کو دیکھتا تھا اسی کے دل میں آپ کی مَحبت پیدا ہو جاتی تھی۔ قتادہ نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں میں ایسی ملاحت تھی جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والے کے دل میں مَحبت جوش مارنے لگتی تھی۔
۳۸ یعنی میری حفاظت و نگہبانی میں پرورش پائے۔
۳۹ جس کا نام مریم تھا تاکہ وہ آپ کے حال کا تجسّس کرے اور معلوم کرے کہ صندوق کہاں پہنچا آپ کس کے ہاتھ آئے جب اس نے دیکھا کہ صندوق فرعون کے پاس پہنچا اور وہاں دودھ پلانے کے لئے دائیاں حاضر کی گئیں اور آپ نے کسی کی چھاتی کو منہ نہ لگایا تو آپ کی بہن نے۔
۴۰ ان لوگوں نے اس کو منظور کیا وہ اپنی والدہ کو لے گئیں آپ نے ان کا دودھ قبول فرمایا۔
۴۲ یعنی غمِ فراق دور ہو اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اور واقعہ کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔
۴۳ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرعون کی قوم کے ایک کافِر کو مارا تھا وہ مرگیا، کہا گیا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر شریف بارہ سال کی تھی اس واقعہ پر آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا۔
۴۴ محنتوں میں ڈال کر اور ان سے خلاصی عطا فرما کر۔
۴۵ مدیَن ایک شہر ہے مِصر سے آٹھ منزل فاصلہ پر یہاں حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام رہتے تھے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام مِصر سے مدیَن آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس اقامت فرمائی اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔
۴۶ یعنی اپنی عمر کے چالیسویں سال اور یہ وہ سن ہے کہ انبیاء کی طرف اس سن میں وحی کی جاتی ہے۔
۴۷ اپنی وحی اور رسالت کے لئے تاکہ تو میرے ارادہ اور میری مَحبت پر تصرُّف کرے اور میری حُجّت پر قائم رہے اور میرے اور میری خَلق کے درمیان خِطاب پہنچانے والا ہو۔
۴۹ یعنی اس کو بہ نرمی نصیحت فرمانا اور نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں آپ کی خدمت کی تھی اور بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا اور مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی اور کھانے پینے اور نکاح کی لذّتیں تا دمِ مرگ باقی رہیں گی ا ور بعدِ موت دخولِ جنتّ میسّر آئے گا جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرعون سے یہ وعدے کئے تو اس کو یہ بات بہت پسند آئی لیکن وہ کسی کام پر بغیر مشورۂ ہامان کے قطعی فیصلہ نہیں کرتا تھا، ہامان موجود نہ تھا جب وہ آیا تو فرعون نے اس کو یہ خبر دی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت پر ایمان قبول کر لوں، ہامان کہنے لگا میں تو تجھ کو عاقل و دانا سمجھتا تھا تو رب ہے بندہ بنا چاہتا ہے، تو معبود ہے عابد بننے کی خواہش کرتا ہے ؟ فرعون نے کہا تو نے ٹھیک کہا اور حضرت ہارون علیہ السلام مِصر میں تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم کیا کہ وہ حضرت ہارون کے پاس آئیں اور حضرت ہارون علیہ السلام کو وحی کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملیں چنانچہ وہ ایک منزل چل کر آپ سے ملے اور جو وحی انہیں ہوئی تھی اس کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی۔
۵۰ یعنی آپ کی تعلیم و نصیحت اس امید کے ساتھ ہونی چاہیئے تاکہ آپ کے لئے اجر اور اس پر الزامِ حُجّت اور قطع عذر ہو جائے اور حقیقت میں ہونا تو وہی ہے جو تقدیرِ الٰہی ہے۔
۵۳ اور انہیں بندگی و اسیری سے رہا کر دے۔
۵۴ محنت و مشقت کے سخت کام لے کر۔
۵۵ یعنی معجزے جو ہمارے صدقِ نبوّت کی دلیل ہیں فرعون نے کہا وہ کیا ہیں ؟ تو آپ نے معجِزۂ یدِ بیضا دکھایا۔
۵۶ یعنی دونوں جہان میں اس کے لئے سلامتی ہے وہ عذاب سے محفوظ رہے گا۔
۵۷ ہماری نبوّت کو اور ان احکام کو جو ہم لائے۔
۵۸ ہماری ہدایت سے حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام نے فرعون کو یہ پیغام پہنچا دیا تو وہ۔
۵۹ ہاتھ کو اس کے لائق ایسی کہ کسی چیز کو پکڑ سکے، پاؤں کو اس کے قابل کہ چل سکے، زبان کو اس کے مناسب کہ بول سکے، آنکھ کو اس کے موافق کہ دیکھ سکے، کان کو ایسی کہ سن سکے۔
۶۰ اور اس کی معرفت دی کہ دنیا کی زندگانی اور آخرت کی سعادت کے لئے اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو کس طرح کام میں لایا جائے۔
۶۲ یعنی جو اُمّتیں گزر چکی ہیں مثل قومِ نوح و عاد و ثمود کے جو بُتوں کو پُوجتے تھے اور بَعث بعد الموت یعنی مرنے کے بعد زندہ کر کے اُٹھائے جانے کے منکِر تھے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔
۶۳ یعنی لوحِ محفوظ میں ان کے تمام احوال مکتوب ہیں روزِ قیامت انہیں ان اعمال پر جزا دی جائے گی۔
۶۴ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کلام تو یہاں تمام ہو گیا اب اللہ تعالیٰ اہلِ مکہ کو خِطاب کر کے اس کو تتمیم فرماتا ہے۔
۶۵ یعنی قِسم قِسم کے سبزے مختلف رنگتوں خوشبوؤں شکلوں کے، بعض آدمیوں کے لئے بعض جانوروں کے لئے۔
۶۶ یہ امر اباحت اور تذکیرِ نعمت کے لئے ہے یعنی ہم نے یہ سبزے نکالے تمہارے لئے ان کا کھانا اور اپنے جانوروں کو چرانا مباح کر کے۔
۶۷ تمہارے جدِ اعلیٰ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس سے پیدا کر کے۔
۷۱ یعنی کل آیات تسع جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں۔
۷۲ اور ان آیات کو سحر بتایا اور قبولِ حق سے انکار کیا اور۔
۷۳ یعنی ہمیں مِصر سے نکال کر خود اس پر قبضہ کرو اور بادشاہ بن جاؤ۔
۷۴ اور جادو میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا۔
۷۵ اس میلہ سے فرعونیوں کا میلہ مراد ہے جو ان کی عید تھی اور اس میں وہ زینتیں کر کر کے جمع ہوتے تھے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ دن عاشوراء یعنی دسویں محرّم کا تھا اور اس سال یہ تاریخ سنیچر کو واقع ہوئی تھی، اس روز کو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس لئے معیّن فرمایا کہ یہ روز ان کی غایتِ شوکت کا دن تھا اس کو مقرر کرنا اپنے کمالِ قوّت کا اظہار ہے نیز اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ حق کا ظہور اور باطل کی رسوائی کے لئے ایسا ہی وقت مناسب ہے جب کہ اطراف و جوانب کے تمام لوگ مجتمع ہوں۔
۷۶ تاکہ خوب روشنی پھیل جائے اور دیکھنے والے باطمینان دیکھ سکیں اور ہر چیز صاف صاف نظر آئے۔
۷۷ کثیر التعداد جادوگروں کو جمع کیا۔
۸۱ یعنی جادوگر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ کلام سُن کر آپس میں مختلف ہو گئے، بعض کہنے لگے کہ یہ بھی ہماری مثل جادوگر ہیں، بعض نے کہا کہ یہ باتیں ہی جادوگروں کی نہیں وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کو منع کرتے ہیں۔
۸۲ یعنی حضرت موسیٰ و حضرت ہارون۔
۸۵ اپنے سامان۔ ابتداء کرنا جادو گروں نے ادباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رائے مبارک پر چھوڑا اور اس کی برکت سے آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں دولتِ ایمان سے مشرف فرمایا۔
۸۶ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس لئے فرمایا کہ جو کچھ جادو کے مَکر ہیں پہلے وہ سب ظاہر کر چکیں اس کے بعد آپ معجِزہ دکھائیں اور حق باطل کو مٹائے اور معجِزہ سحر کو باطل کرے تو دیکھنے والوں کو بصیرت و عبرت حاصل ہو چنانچہ جادوگروں نے رسیاں لاٹھیاں وغیرہ جو سامان لائے تھے سب ڈال دیا اور لوگوں کی نظر بندی کر دی۔
۸۷ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ زمین سانپوں سے بھر گئی اور مِیلوں کے میدان میں سانپ ہی سانپ دوڑ رہے ہیں اور دیکھنے والے اس باطل نظر بندی سے مسحور ہو گئے کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض معجِزہ دیکھنے سے پہلے ہی اس کے گرویدہ ہو جائیں اور معجِزہ نہ دیکھیں۔
۸۹ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے اپنا عصا ڈالا وہ جادوگروں کے تمام اژدہوں اور سانپوں کو نگل گیا اور آدمی اس کے خوف سے گھبرا گئے، حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اپنے دستِ مبارک میں لیا تو مثلِ سابق عصا ہو گیا یہ دیکھ کر جادوگروں کو یقین ہوا کہ یہ معجِزہ ہے جس سے سحر مقابلہ نہیں کر سکتا اور جادو کی فریب کاری اس کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی۔
۹۰ سبحان اللہ کیا عجیب حال تھا جن لوگوں نے ابھی کفر و جحود کے لئے رسیاں اور عصا ڈالے تھے ابھی معجزہ دیکھ کر انہوں نے شکر و سجود کے لئے سر جھکا دیئے اور گردنیں ڈال دیں۔ منقول ہے کہ اس سجدے میں انہیں جنّت اور دوزخ دکھائی گئی اور انہوں نے جنّت میں اپنے منازل دیکھ لئے۔
۹۱ یعنی جادو میں وہ استادِ کامل اور تم سب سے فائق ہیں۔ (معاذ اللہ)۔
۹۲ یعنی داہنے ہاتھ اور بائیں پاؤں۔
۹۳ اس سے فرعون ملعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب سخت تر ہے یا ربُّ العالمین کا، فرعون کا یہ متکبرانہ کلمہ سُن کر وہ جادوگر۔
۹۴ یدِ بیضا اور عصائے موسیٰ۔ بعض مفسِّرین نے کہا ہے کہ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجِزہ کو بھی سحر کہتا ہے تو بتا وہ رسّے اور لاٹھیاں کہاں گئیں۔ بعض مفسِّرین کہتے ہیں کہ بیِّنات سے مراد جنّت اور اس میں اپنے منازل کا دیکھنا ہے۔
۹۶ آگے تو تیری کچھ مجال نہیں اور دنیا زائل اور یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے تو مہربان بھی ہو تو بقائے دوام نہیں دے سکتا پھر زندگانی دینا اور اس کی راحتوں کے زوال کا کیا غم بالخصوص اس کو جو جانتا ہے کہ آخرت میں اعمالِ دنیا کی جزا ملے گی۔
۹۷ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ فرعون نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے بلایا تھا تو جادو گروں نے فرعون سے کہا تھا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ اس کی کوشش کی گئی اور انہیں ایسا موقع بہم پہنچا دیا گیا، انہوں نے دیکھا کہ حضرت خواب میں ہیں اور عصائے شریف پہرہ دے رہا ہے یہ دیکھ کر جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ موسیٰ جادوگر نہیں کیونکہ جادوگر جب سوتا ہے تو اس وقت اس کا جادو کام نہیں کرتا مگر فرعون نے انہیں جادو کرنے پر مجبور کیا۔ اس کی مغفرت کے وہ اللہ تعالیٰ سے طالب اور امیدوار ہیں۔
۹۸ فرمانبرداروں کو ثواب دینے میں۔
۹۹ بلحاظِ عذاب کرنے کے نافرمانوں پر۔
۱۰۱ کہ مر کر ہی اس سے چھوٹ سکے۔
۱۰۲ ایسا جینا جس سے کچھ نفع اٹھا سکے۔
۱۰۳ یعنی جن کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہو اور انہوں نے اپنی زندگی میں نیک عمل کئے ہوں، فرائض اور نوافل بجا لائے ہوں۔
۱۰۴ کُفر کی نجاست اور معاصی کی گندگی سے۔
۱۰۵ جب کہ فرعون معجزات دیکھ کر راہ پر نہ آیا اور پند پذیر نہ ہوا اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم اور زیادہ کرنے لگا۔
۱۰۶ مِصر سے اور جب دریا کے کنارے پہنچیں اور فرعونی لشکر پیچھے سے آئے تو اندیشہ نہ کر۔
۱۰۸ دریا میں غرق ہونے کا۔ موسیٰ علیہ السلام حکمِ الٰہی پا کر شب کے اوّل وقت ستّر ہزار بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر مِصر سے روانہ ہو گئے۔
۱۱۰ وہ غرق ہو گئے اور پانی ان کے سروں سے اونچا ہو گیا۔
۱۱۱ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اور احسان کا ذکر کیا اور فرمایا۔
۱۱۳ کہ ہم موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہاں توریت عطا فرمائیں گے جس پر عمل کیا جائے۔
۱۱۵ ناشکری اور کُفرانِ نعمت کر کے اور ان نعمتوں کی معاصی اور گناہوں میں خرچ کر کے یا ایک دوسرے پرظلم کر کے۔
۱۱۹ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنی قوم میں سے ستّر آدمیوں کو منتخب کر کے توریت لینے طُور پر تشریف لے گئے پھر کلامِ پروردگار کے شوق میں ان سے آگے بڑھ گئے انہیں پیچھے چھوڑ دیا اور فرما دیا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا۔ وَمَآ اَعْجَلَکَ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔
۱۲۰ یعنی تیری رضا اور زیادہ ہو۔
مسئلہ : اس آیت سے اجتہاد کا جواز ثابت ہوا۔ (مدارک)۔
۱۲۱ جنہیں آپ نے حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ چھوڑا ہے۔
۱۲۲ گوسالہ پرستی کی دعوت دے کر۔
مسئلہ : اس آیت میں اِضلال یعنی گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف فرمائی گئی کیونکہ وہ اس کا سبب و باعث ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو سبب کی طرف نسبت کرنا جائز ہے اسی طرح کہہ سکتے ہیں کہ ماں باپ نے پرورش کی، دینی پیشواؤں نے ہدایت کی، اولیاء نے حاجت روائی فرمائی، بزرگوں نے بلا دفع کی۔ مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ امور ظاہر میں منشاء و سبب کی طرف منسوب کر دیئے جاتے ہیں اگرچہ حقیقت میں ان کا موجِد اللہ تعالیٰ ہے اور قرآنِ کریم میں ایسی نسبتیں بکثرت وارد ہیں۔ (خازن)۔
۱۲۳ چالیس دن پورے کر کے توریت لے کر۔
۱۲۵ کہ وہ تمہیں توریت عطا فرمائے گا جس میں ہدایت ہے، نور ہے، ہزار سورتیں ہیں، ہر سورت میں ہزار آیتیں ہیں۔
۱۲۶ اور ایسا ناقص کام کیا کہ گوسالہ کو پُوجنے لگے، تمہارا وعدہ تو مجھ سے یہ تھا کہ میرے حکم کی اطاعت کرو گے اور میرے دین پر قائم رہو گے۔
۱۲۷ یعنی قومِ فرعون کے زیوروں کے جو بنی اسرائیل نے ان لوگوں سے عاریت کے طور پر مانگ لئے تھے۔
۱۲۹ ان زیوروں کو جو اس کے پاس تھے اور اس خاک کو جو حضرت جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اس نے حاصل کی تھی۔
۱۳۰ یہ بچھڑا سامری نے بنایا اور اس میں کچھ سوراخ اس طرح رکھے کہ جب ان میں ہوا داخل ہو تو اس سے بچھڑے کی آواز کی طرح آواز پیدا ہو۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اَسپِ جبریل کی خاک زیرِ قدم ڈالنے سے زندہ ہو کر بچھڑے کی طرح بولتا تھا۔
۱۳۲ یعنی موسیٰ علیہ السلام معبود کو بھول گئے اور اس کو یہاں چھوڑ کر اس کی جستجو میں طور پر چلے گئے (معاذ اللہ)۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ نَسِیَ کا فاعِل سامری ہے اور معنی یہ ہیں کہ سامری نے جو بچھڑے کو معبود بنایا وہ اپنے ربّ کو بھول گیا یا وہ حُدوثِ اجسام سے استدلال کرنا بھول گیا۔
۱۳۴ خِطاب سے بھی عاجز اور نفع و ضرر سے بھی، وہ کس طرح معبود ہو سکتا ہے۔
۱۳۶ گوسالہ پرستی پر قائم رہیں گے اور تمہاری بات نہ مانیں گے۔
۱۳۷ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام ان سے علیٰحدہ ہو گئے اور ان کے ساتھ بارہ ہزار وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہ کی تھی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے تو آپ نے ان کے شور مچانے اور باجے بجانے کی آوازیں سنیں جو بچھڑے کے گرد ناچتے تھے تب آپ نے اپنے ستّر ہمراہیوں سے فرمایا یہ فتنہ کی آواز ہے جب قریب پہنچے اور حضرت ہارون کو دیکھا تو غیرتِ دینی سے جو آپ کی سَرِشت تھی جوش میں آ کر ان کے سر کے بال داہنے ہاتھ اور داڑھی بائیں میں پکڑی اور۔
۱۳۸ اور مجھے خبر دے دیتے یعنی جب انہوں نے تمہاری بات نہ مانی تھی تو تم مجھ سے کیوں نہیں آ ملے کہ تمہارا ان سے جُدا ہونا بھی ان کے حق میں ایک زَجر ہوتا۔
۱۳۹ یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سامری کی طرف متوجہ ہوئے چنانچہ۔
۱۴۰ تو نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ بتا۔
۱۴۱ یعنی میں نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ان کو پہچان لیا وہ اسپِ حیات پر سوار تھے، میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے گھوڑے کے نشانِ قدم کی خاک لے لوں۔
۱۴۲ اس بچھڑے میں جس کو بنایا تھا۔
۱۴۳ اور یہ فعل میں نے اپنے ہی ہوائے نفس سے کیا کوئی دوسرا اس کا باعث و محرِّک نہ تھا اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔
۱۴۵ جب تجھ سے کوئی ملنا چاہے جو تیرے حال سے واقف نہ ہو تو اس سے۔
۱۴۶ یعنی سب سے علیٰحدہ رہنا نہ تجھ سے کوئی چھوئے نہ تو کسی سے چھوئے، لوگوں سے ملنا اس کے لئے کلّی طورپر ممنوع قرار دیا گیا اور ملاقات، مکالمت، خرید و فروخت ہر ایک کے ساتھ حرام کر دی گئی اور اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں شدید بخار میں مبتلا ہوتے، وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ کوئی چھو نہ جانا اور وحشیوں اور درندوں میں زندگی کے دن نہایت تلخی و وحشت میں گزارتا تھا۔
۱۴۷ یعنی عذاب کے وعدے کا آخرت میں بعد اس عذابِ دنیا کے تیرے شرک و فساد انگیزی پر۔
۱۴۸ اور اس کی عبادت پر قائم رہا۔
۱۴۹ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسا کیا اور جب آپ سامری کے اس فساد کو مٹا چکے تو بنی اسرائیل سے مخاطبہ فرما کر دینِ حق کا بیان فرمایا اور ارشاد کیا۔
۱۵۰ یعنی قرآنِ پاک کہ وہ ذکرِ عظیم ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہو اس کے لئے اس کتابِ کریم میں نجات اور برکتیں ہیں اور اس کتابِ مقدّس میں اُمَمِ ماضیہ کے ایسے حالات کا ذکر و بیان ہے جو فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے لائق ہیں۔
۱۵۱ یعنی قرآن سے اور اس پر ایمان نہ لائے اور اس کی ہدایتوں سے فائدہ نہ اٹھائے۔
۱۵۴ لوگوں کو مَحشر میں حاضر کرنے کے لئے۔ مراد اس سے نفخۂ ثانیہ ہے۔
۱۵۵ یعنی کافِروں کوا س حال میں۔
۱۵۷ آخرت کے اہوال اور وہاں کے خوفناک منازل دیکھ کر انہیں زندگانی، دنیا کی مدّت بہت قلیل معلوم ہو گی۔
۱۵۹ بعض مفسِّرین نے کہا کہ وہ اس دن کے شدائد دیکھ کر اپنے دنیا میں رہنے کی مقدار بھول جائیں گے۔
۱۶۰ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ قبیلۂ ثقیف کے ایک آدمی نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن پہاڑوں کا کیا حال ہو گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۱۶۱ جو انہیں روزِ قیامت موقَف کی طرف بلائے گا اور ندا کرے گا چلو رحمٰن کے حضور پیش ہو نے کو اور یہ پُکارنے والے حضرت اسرافیل ہوں گے۔
۱۶۲ اور اس دعوت سے کوئی انحراف نہ کر سکے گا۔
۱۶۴ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایسی کہ اس میں صرف لبوں کی جنبش ہو گی۔
۱۶۶ یعنی تمام ماضیات و مستقبلات اور جملہ امورِ دنیا و آخرت یعنی اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کے ذات و صفات اور جملہ حالات کو مُحیط ہے۔
۱۶۷ یعنی تمام کائنات کا علم ذاتِ الٰہی کا احاطہ نہیں کر سکتا، اس کی ذات کا ادراک علومِ کائنات کی رسائی سے برتر ہے، وہ اپنے اسماء و صفات اور آثارِ قدرت و شیونِ حکمت سے پہچانا جاتا ہے۔ شعر : کجا دریابد اورا عقل چالاک کہ اوبالا تر است از حدِ ادراک نظر کن اندر اسماء وصفاتش کہ واقف نیست کس از کنہ ذاتش۔ بعض مفسِّرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ علومِ خَلق معلوماتِ الٰہیہ کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ بظاہر یہ عبارتیں دو ہیں مگر مآل پر نظر رکھنے والے بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ فرق صرف تعبیر کا ہے۔
۱۶۸ اور ہر ایک شانِ عجز و نیاز کے ساتھ حاضر ہو گا، کسی میں سرکشی نہ رہے گی، اللہ تعالیٰ کے قہر و حکومت کا ظہورِ تام ہو گا۔
۱۶۹ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کی تفسیر میں فرمایا جس نے شرک کیا ٹوٹے میں رہا اور بے شک شرک شدید ترین ظلم ہے اور جو اس ظلم کا زیرِ بار ہو کر موقَفِ قیامت میں آئے اس سے بڑھ کر نامراد کون۔
۱۷۰ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاعت اور نیک اعمال سب کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ ایمان ہو تو سب نیکیاں کار آمد ہیں اور ایمان نہ ہو تو یہ سب عمل بے کار۔
۱۷۱ فرائض کے چھوڑنے اور ممنوعات کا ارتکاب کرنے پر۔
۱۷۲ جس سے انہیں نیکیوں کی رغبت اور بدیوں سے نفرت ہو اور وہ پند و نصیحت حاصل کریں۔
۱۷۳ جو اصل مالک ہے اور تمام بادشاہ اس کے محتاج۔
۱۷۴ شانِ نُزول : جب حضرت جبریل قرآنِ کریم لے کر نازل ہوتے تھے تو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے اور جلدی کرتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی فرمایا گیا کہ آپ مشقت نہ اٹھائیں اور سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لے کر آپ کی اور زیادہ تسلّی فرما دی۔
۱۷۵ کہ شجرِ ممنوعہ کے پاس نہ جائیں۔
۱۷۶ اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ فضل و شرف کی فضیلت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی تعظیم و احترام بجا لانے سے اعراض کرنا دلیلِ حسد و عداوت ہے۔ اس آیت میں شیطان کا حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنا آپ کے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا۔
۱۷۷ اور اپنی غذا اور خوراک کے لئے زمین جوتنے، کھیتی کرنے، دانہ نکالنے، پیسنے، پکانے کی محنت میں مبتلا ہو اور چونکہ عورت کا نفقہ مرد کے ذمہ ہے اس لئے اس تمام محنت کی نسبت صرف حضرت آدم علیہ السلام کی طرف فرمائی گئی۔
۱۷۸ ہر طرح کا عیش و راحت جنّت میں موجود ہے، کسب و محنت سے بالکل امن ہے۔
۱۷۹ جس کو کھا کر کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے۔
۱۸۱ یعنی بہشتی لباس ان کے جسم سے اُتر گئے۔
۱۸۲ ستر چھپانے اور جسم ڈھکنے کے لئے۔
۱۸۳ اور اس درخت کے کھانے سے دائمی حیات نہ ملی پھر حضرت آدم علیہ السلام توبہ و اِستِغفار میں مشغول ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وسیلہ سے دعا کی۔
۱۸۶ آخرت میں کیونکہ آخرت کی بدبختی دنیا میں طریقِ حق سے بہکنے کا نتیجہ ہے تو جو کوئی کتابِ الٰہی اور رسولِ برحق کا اِتّباع کرے اور ان کے حکم کے مطابق چلے وہ دنیا میں بہکنے سے اور آخرت میں اس کے عذاب و وبال سے نجات پائے گا۔
۱۸۷ اور میری ہدایت سے روگردانی کی۔
۱۸۸ دنیا میں یا قبر میں یا آخرت میں یا دین میں یا ان سب میں دنیا کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ ہدایت کا اِتّباع نہ کرنے سے عملِ بد اور حرام میں مبتلا ہو یا قناعت سے محروم ہو کر گرفتارِ حرص ہو جائے اور کثرتِ مال و اسباب سے بھی اس کو فراخِ خاطر اور سکونِ قلب میسّر نہ ہو، دل ہر چیز کی طلب میں آوارہ ہو اور حرص کے غموں سے کہ یہ نہیں وہ نہیں حال تاریک اور وقت خراب رہے اور مومن متوکِّل کی طرح اس کو سکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو جس کو حیاتِ طیبہ کہتے ہیں قَالَ تَعَالیٰ فَلَنُحْیِیَنَّہ، حَیٰوۃً طَیِبَّۃً اور قبر کی تنگ زندگانی یہ ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا کہ کافِر پر ننانوے اژدہے اس کی قبر میں مسلّط کئے جاتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا شانِ نُزول : یہ آیت اسود بن عبد العزی مخزومی کے حق میں نازِل ہوئی اور قبر کی زندگانی سے مراد قبر کا اس سختی سے دبانا ہے جس سے ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف آ جاتی ہیں اور آخرت میں تنگ زندگانی جہنّم کے عذاب میں جہاں زقوم (تھوہڑ) اور کھولتا پانی اور جہنّمیوں کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دی جائے گی اور دین میں تنگ زندگانی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں تنگ ہو جائیں اور آدمی کسبِ حرام میں مبتلا ہو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بندے کو تھوڑا ملے یا بہت اگر خوفِ خدا نہیں تو اس میں کچھ بھلائی نہیں اور یہ تنگ زندگانی ہے۔ (تفسیرِ کبیر و خازن و مدارک وغیرہ)۔
۱۹۰ تو ان پر ایمان نہ لایا اور۔
۱۹۱ جہنّم کی آگ میں جلا کرے گا۔
۱۹۲ جو رسولوں کو نہیں مانتی تھیں۔
۱۹۳ یعنی قریش اپنے سفروں میں ان کے دیار پر گزرتے ہیں اور ان کی ہلاکت کے نشان دیکھتے ہیں۔
۱۹۴ جو عبرت حاصل کریں اور سمجھیں کہ انبیاء کی تکذیب اور ان کی مخالفت کا انجام بُرا ہے۔
۱۹۵ یعنی کہ یہ اُمّتِ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عذاب میں تاخیر کی جائے گی۔
۱۹۹ ا س سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں جو دن کے نصفِ آخر میں آفتاب کے زوال و غروب کے درمیان واقع ہیں۔
۲۰۰ یعنی مغرب و عشا کی نمازیں پڑھو۔
۲۰۱ فجر و مغرب کی نمازیں ان کی تاکیداً تکرار فرمائی گئی اور بعض مفسِّرین قبلِ غروب سے نمازِ عصر اور اطرافِ نہار سے ظہر مراد لیتے ہیں، ان کی توجیہہ یہ ہے کہ نمازِ ظہر زوال کے بعد ہے اور اس وقت دن کے نصفِ اوّل اور نصفِ آخر کے اطراف ملتے ہیں نصف اول کی انتہا ہے اور نصف آخر کی ابتدا۔ (مدارک و خازن)۔
۲۰۲ اللہ کے فضل و عطا اور اس کے انعام و اکرام سے کہ تمہیں اُمّت کے حق میں شفیع بنا کر تمہاری شفاعت قبول فرمائے اور تمہیں راضی کرے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے۔ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ ۔
۲۰۳ یعنی اصناف و اقسامِ کُفّار یہود و نصاریٰ وغیرہ کو جو دنیوی ساز و سامان دیا ہے مؤمن کو چاہیئے کہ اس کو استحسان و اعجاب کی نظر سے نہ دیکھے۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نافرمانوں کے طمطراق نہ دیکھو لیکن یہ دیکھو کہ گناہ اور معصیت کی ذلّت کس طرح ان کی گردنوں سے نمودار ہے۔
۲۰۴ اس طرح کہ جتنی ان پر نعمت زیادہ ہو اتنی ہی ان کی سرکشی اور ان کا طُغیان بڑھے اور وہ سزائے آخرت کی سزاوار ہوں۔
۲۰۵ یعنی جنّت اور اس کی نعمتیں۔
۲۰۶ اور اس کا مکلَّف نہیں کرتے کہ ہماری خَلق کو روزی دے یا اپنے نفس اور اپنے اہل کی روزی کا ذمہ دار ہو بلکہ۔
۲۰۷ اور انہیں بھی، تو روزی کے غم میں نہ پڑ، اپنے دل کو امرِ آخرت کے لئے فارغ رکھ کہ جو اللہ کے کام میں ہوتا ہے اللہ اس کی کارسازی کرتا ہے۔
۲۰۸ یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
۲۰۹ جو ان کی صحتِ نبوّت پر دلالت کرے باوجودیکہ آیاتِ کثیرہ آ چکی تھیں اور معجزات کا متواتر ظہور ہو رہا تھا پھر کُفّار ان سب سے اندھے بنے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے، اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۱۰ یعنی قرآن اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بشارت اور آپ کی نبوّت و بعثت کا ذکر، یہ کیسے اعظم آیات ہیں ان کے ہوتے ہوئے اور کسی نشانی کی طلب کرنے کا کیا موقع ہے۔
۲۱۲ ہم بھی اور تم بھی۔ شانِ نُزول : مشرکین نے کہا تھا کہ ہم زمانے کے حوادِث اور انقلاب کا انتظار کرتے ہیں کہ کب مسلمانوں پر آئیں اور ان کا قصہ تمام ہو۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہو اور مسلمان تمہارے عقوبت و عذاب کا انتظار کر رہے ہیں۔