خزائن العرفان

سُوۡرَةُ النُّور

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا  (ف ۱)

۱                 سورۂ نور مدنیّہ ہے اس میں نور کوع چونسٹھ آیتیں ہیں۔

(۱) یہ ایک سورۃ  ہے  کہ ہم نے  اتاری اور ہم نے  اس کے  احکام فرض کیے  (ف ۲) اور ہم نے  اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو۔

۲                 اور ان پر عمل کرنا بندوں پر لازم کیا۔

(۲ )  جو عورت بدکار  ہو اور  جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے  لگاؤ (ف ۳) اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے  اللہ کے  دین میں (ف ۴) اگر تم ایمان لاتے  ہو اللہ اور پچھلے  دن پر اور چاہیے  کہ ان کی سزا کے  وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو (ف ۵)

۳                 یہ خِطاب حُکام کو ہے کہ جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو اس کی حد یہ ہے کہ اس کے سو کوڑے لگاؤ، یہ حد حُر غیر محصِن کی ہے کیونکہ حُر محصِن کا حکم یہ ہے کہ اس کو رَجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ماعِز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحکمِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رَجم کیا گیا اور محصِن وہ آزاد مسلمان ہے جو مکلَّف ہو اور نکاحِ صحیح کے ساتھ صحبت کر چکا ہو خواہ ایک ہی مرتبہ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو رجم کیا جائے گا اور اگر ان میں سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً حُر نہ ہو یا مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو یا اس نے کبھی اپنی بی بی کے ساتھ صحبت نہ کی ہو یا جس کے ساتھ کی ہو اس کے ساتھ نکاحِ فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیر محصِن میں داخل ہیں اور ان سب کا حکم کوڑے مارنا ہے۔ مسائل : مرد کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا کیا جائے اور اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوا تہبند کے اور اس کے تمام بدن پر کوڑے لگائے جائیں سوائے سر چہرے اور شرم گاہ کے، کوڑے اس طرح لگائے جائیں کہ اَلم گوشت تک نہ پہنچے اور کوڑا متوسط درجہ کا ہو اور عورت کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا نہ کیا جائے نہ اس کے کپڑے اتارے جائیں البتہ اگر پوستین یا روئی دار کپڑے پہنے ہوئے ہو تو اتار دیئے جائیں، یہ حکم حُر اور حُرہ کا ہے یعنی آزاد مرد اور عورت کا اور باندی غلام کی حد اس سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہیں جیسا کہ سورۂ نساء میں مذکور ہو چکا۔ ثبوتِ زنا یا تو چار مردوں کی گواہیوں سے ہوتا ہے یا زنا کرنے والے کے چار مرتبہ اقرار کر لینے سے پھر بھی امام بار بار سوال کرے گا اور دریافت کرے گا کہ زنا سے کیا مراد ہے کہاں کیا، کس سے کیا، کب کیا ؟ اگر ان سب کو بیان کر دیا تو زنا ثابت ہو گا ورنہ نہیں اور گواہوں کو صراحتہً اپنا معائنہ بیان کرنا ہو گا بغیر اس کے ثبوت نہ ہو گا۔ لواطت زنا میں داخل نہیں لہذا اس فعل سے حد واجب نہیں ہوتی لیکن تعزیر واجب ہوتی ہے اور اس تعزیر میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے چند قول مروی ہیں (۱) آگ میں جلا دینا (۲) غرق کر دینا (۳) بلندی سے گرانا اور اوپر سے پتھر برسانا، فاعل و مفعول دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔

۴                 یعنی حدود کے پورا کرنے میں کمی نہ کرو اور دین میں مضبوط اور متصلب رہو۔

۵                 تاکہ عبرت حاصل ہو۔

(۳ )  بدکار مرد نکاح نہ کرے  مگر بدکار عورت یا شرک وا لی سے، اور بدکار عورت سے  نکاح نہ کرے  مگر بدکار مرد یا مشرک (ف ۶) اور یہ کام (ف ۷) ایمان والوں پر حرام ہے  (ف ۸)

۶                 کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے، نیکوں کو خبیثوں کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ شانِ نُزول : مہاجرین میں بعضے بالکل نادار تھے نہ ان کے پاس کچھ مال تھا نہ ان کا کوئی عزیز قریب تھا اور بدکار مشرکہ عورتیں دولت مند اور مالدار تھیں یہ دیکھ کر کسی مہاجر کو خیال آیا کہ اگر ان سے نکاح کر لیا جائے تو ان کی دولت کام میں آئے گی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انہوں نے اس کی اجازت چاہی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور انہیں اس سے روک دیا گیا۔

۷                 یعنی بدکاروں سے نکاح کرنا۔

۸                 ابتدائے اسلام میں زانیہ سے نکاح کرنا حرام تھا بعد میں آیت  وَانْکِحُواالّاَ یَامیٰ مِنْکُمْ سے منسوخ ہو گیا۔

(۴ )  اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے  نہ لائیں تو انہیں اسی کوڑے  لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو (ف ۹) اور وہی فاسق ہیں۔

۹                 اس آیت سے چند مسائل ثابت ہوئے۔

مسئلہ ۱ : جو شخص کسی پارسا مرد یا عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور اس پر چار معائنہ کے گواہ پیش نہ کر سکے تو اس پر حد واجب ہو جاتی ہے اسی۸۰ کوڑے۔ آیت میں محصَنات کا لفظ خصوصِ واقعہ کے سبب سے وارد ہوا یا اس لئے کہ عورتوں کو تہمت لگانا کثیر الوقوع ہے۔

مسئلہ ۲ : اور ایسے لوگ جو زنا کی تہمت میں سزا یاب ہوں اور ان پر حد جاری ہو چکی ہو مردود الشہادۃ ہو جاتے ہیں کبھی ان کی گواہی مقبول نہیں ہوتی۔ پارسا سے مراد وہ ہیں جو مسلمان مکلَّف آزاد اور زنا سے پاک ہوں۔

مسئلہ۳ : زنا کی شہادت کا نصاب چار گواہ ہیں۔

مسئلہ۴ : حدِ قذف مطالبہ پر مشروط ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ مطالبہ نہ کرے تو قاضی پر حد قائم کرنا لازم نہیں۔

مسئلہ ۵ : مطالبہ کا حق اسی کو ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے اگر وہ زندہ ہو اور اگر مر گیا ہو تو اس کے بیٹے پوتے کو بھی ہے۔

مسئلہ ۶ : غلام اپنے مولیٰ پر اور بیٹا باپ پر قذف یعنی اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

مسئلہ ۷ : قذف کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ صراحتہً کسی کو یا زانی کہے یا یہ کہے کہ تو اپنے باپ سے نہیں ہے یا اس کے باپ کا نام لے کر کہے کہ تو فلاں کا بیٹا نہیں ہے یا اس کو زانیہ کا بیٹا کہہ کر پکارے اور ہو اس کی ماں پارسا تو ایسا شخص قاذِف ہو جائے گا اور اس پر تہمت کی حد آئے گی۔

مسئلہ ۸ : اگر غیر محصن کو زنا کی تہمت لگائی مثلاً کسی غلام کو یا کافِر کو یا ایسے شخص کو جس کا کبھی زنا کرنا ثابت ہو تو اس پر حدِ قذف قائم نہ ہو گی بلکہ اس پر تعزیر واجب ہو گی اور یہ تعزیر تین سے انتالیس تک حسبِ تجویزِ حاکمِ شرع کوڑے لگانا ہے اسی طرح اگر کسی شخص نے زنا کے سوا اور کسی فجور کی تہمت لگائی اور پارسا مسلمان کو اے فاسق، اے کافِر، اے خبیث، اے چور، اے بدکار، اے مخنّث، اے بد دیانت، اے لوطی، اے زندیق، اے دیّوث، اے شرابی، اے سود خوار، اے بدکار عورت کے بچے، اے حرام زادے، اس قسم کے الفاظ کہے تو بھی اس پر تعزیر واجب ہو گی۔

مسئلہ ۹ : امام یعنی حاکمِ شرع کو اور اس شخص کو جسے تہمت لگائی گئی ہو ثبوت سے قبل معاف کرنے کا حق ہے۔

مسئلہ ۱۰ : اگر تہمت لگانے والا آزاد نہ ہو بلکہ غلام ہو تو اس کے چالیس کوڑے لگائے جائیں گے۔

مسئلہ ۱۱ : تہمت لگانے کے جرم میں جس کو حد لگائی گئی ہو اس کی گواہی کسی معاملہ میں معتبر نہیں چاہے وہ توبہ کرے لیکن رمضان کا چاند دیکھنے کے باب میں توبہ کرنے اور عادل ہونے کی صورت میں اس کا قول قبول کر لیا جائے گا کیونکہ یہ درحقیقت شہادت نہیں ہے اسی لئے اس میں لفظِ شہادت اور نصابِ شہادت بھی شرط نہیں۔

(۵ )  مگر جو اس کے  بعد توبہ کر لیں اور سنور جائیں (ف ۱۰) تو بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۱۰               اپنے احوال و افعال کو درست کر لیں۔

(۶ )  اور وہ جو اپنی عورتوں کو عیب لگائیں (ف ۱۱) اور ان کے  پاس اپنے  بیان کے  سوا گواہ نہ ہوں تو  ایسے  کسی کی گواہی یہ ہے  کہ چار بار گواہی دے  اللہ کے  نام سے  کہ وہ سچا  ہے  (ف ۱۲)

۱۱               زنا کا۔

۱۲               عورت پر زنا کا الزام لگانے میں۔

(۷ )  اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر جھوٹا ہو۔

(۸ )  اور عورت سے  یوں سزا  ٹل جائے  گی کہ وہ اللہ کا نام لے  کر چار بار گواہی دے  کہ مرد جھوٹا ہے  (ف ۱۳)

۱۳               اس پر زنا کی تہمت لگانے میں۔

(۹ )  اور پانچویں یوں کہ عورت پر غضب اللہ کا اگر مرد جھوٹا ہے  اور پانچویں یوں کہ عورت پر غضب اللہ کا اگر مرد سچا ہو (ف ۱۴)

۱۴               اس کو لِعان کہتے ہیں۔

مسئلہ : جب مرد اپنی بی بی پر زنا کی تہمت لگائے تو اگر مرد و عورت دونوں شہادت کے اہل ہوں اور عورت اس پر مطالبہ کرے تو مرد پر لعان واجب ہو جاتا ہے اگر وہ لِعان سے انکار کرے تو اس کو اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک وہ لعان کرے یا اپنے جھوٹ کا مُقِر ہو اگر جھوٹ کا اقرار کرے تو اس کو حدِ قذف لگائی جائے گی جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے اور اگر لِعان کرنا چاہے تو اس کو چار مرتبہ اللہ کی قسم کے ساتھ کہنا ہو گا کہ وہ اس عورت پر زنا کا الزام لگانے میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہنا ہو گا کہ اللہ کی لعنت مجھ پر اگر میں یہ الزام لگانے میں جھوٹا ہوں اتنا کرنے کے بعد مرد پر سے حدِ قذف ساقط ہو جائے گی اور عورت پر لِعان واجب ہو گا انکار کرے گی تو قید کی جائے گی یہاں تک کہ لِعان منظور کرے یا شوہر کے الزام لگانے کی تصدیق کرے اگر تصدیق کی تو عورت پر زنا کی حد لگائی جائے گی اور اگر لِعان کرنا چاہے تو اس کو چار مرتبہ اللہ کی قسم کے ساتھ کہنا ہو گا کہ مرد اس پر زنا کی تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہنا ہو گا کہ اگر مرد اس الزام لگانے میں سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب ہو اتنا کہنے کے بعد عورت سے زنا کی حد ساقط ہو جائے گی اور لعان کے بعد قاضی کے تفریق کرنے سے فرقت واقع ہو گی بغیر اس کے نہیں اور یہ تفریق طلاقِ بائنہ ہو گی اور اگر مرد اہلِ شہادت میں سے نہ ہو مثلاً غلام ہو یا کافِر ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو تو لِعان نہ ہو گا اور تہمت لگانے سے مرد پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور اگر مرد اہلِ شہادت میں سے ہو اور عورت میں یہ اہلیت نہ ہو اس طرح کہ وہ باندی ہو یا کافِرہ ہو یا اس پر قذف کی حد لگ چکی ہو یا بچی ہو یا مجنونہ ہو یا زانیہ ہو اس صورت میں نہ مرد پر حد ہو گی اور نہ لِعان۔ شانِ نُزول : یہ آیت ایک صحابی کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تھا کہ اگر آدمی اپنی عورت کو زنا میں مبتلا دیکھے تو کیا کرے نہ اس وقت گواہوں کے تلاش کرنے کی فرصت ہے اور نہ بغیر گواہی کے وہ یہ بات کہہ سکتا ہے کیونکہ اسے حدِ قذف کا اندیشہ ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور لِعان کا حکم دیا گیا۔

(۱۰ ) اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ توبہ قبول فرماتا حکمت والا ہے۔

(۱۱ )  تو تمہارا پردہ کھول دیتا بیشک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے  ہیں تمہیں میں کی ایک جماعت ہے  (ف ۱۵) اسے  اپنے  لیے  برا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے  لیے  بہتر ہے  (ف ۱۶) ان میں ہر شخص کے  لیے  وہ گناہ ہے  جو اس نے  کمایا (ف ۱۷) اور ان میں وہ جس نے  سب سے  بڑا حصہ لیا (ف ۱۸) اس کے  لیے  بڑا عذاب ہے  (ف ۱۹)

۱۵               بڑے بہتان سے مراد حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانا ہے۔  ۵ ہجری میں غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ قریبِ مدینہ ایک پڑاؤ پر ٹھہرا تو اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ضرورت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں وہاں ہار آپ کا ٹوٹ گیا اس کی تلاش میں مصروف ہو گئیں، اُدھر قافلہ نے کوچ کیا اور آپ کا محمل شریف اُونٹ پر کَس دیا اور انہیں یہی خیال رہا کہ اُم المؤمنین اس میں ہیں، قافلہ چل دیا آپ آ  کر قافلہ کی جگہ بیٹھ گئیں اور آپ نے خیال کیا کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس ہو گا، قافلہ کے پیچھے پڑی گر ی چیز اٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے اس موقع پر حضرت صفوان اس کام پر تھے جب وہ آئے اور انہوں نے آپ کو دیکھا تو بلند آواز سے  اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ  پکارا آپ نے کپڑے سے پردہ کر لیا، انہوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی آپ اس پر سوار ہو کر لشکر میں پہنچیں۔ منافقینِ سیاہ باطن نے اوہامِ فاسدہ پھیلائے اور آپ کی شان میں بد گوئی شروع کی بعض مسلمان بھی ان کے فریب میں آ گئے اور ان کی زبان سے بھی کوئی کلمۂ بیجا سرزد ہوا، اُم المومنین بیمار ہو گئیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں اس زمانہ میں انہیں اطلاع نہ ہوئی کہ ان کی نسبت منافقین کیا بَک رہے ہیں ایک روز اُمِ مسطح سے انہیں یہ خبر معلوم ہوئی اور اس سے آپ کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمہ میں اس طرح روئیں کہ آپ کا آنسو نہ تھمتا تھا اور نہ ایک لمحہ کے لئے نیند آتی تھی اس حال میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازِل ہوئی اور حضرت اُم المؤمنین کی طہارت میں یہ آیتیں اتریں اور آپ کا شرف و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی گئی اس دوران میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برسرِ منبر بقسم فرما دیا تھا مجھے اپنے اہل کی پاکی و خوبی بالیقین معلوم ہے تو جس شخص نے ان کے حق میں بد گوئی کی ہے اس کی طرف سے میرے پاس کون معذرت پیش کر سکتا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ منافقین بالیقین جھوٹے ہیں اُم المؤمنین بالیقین پاک ہیں، اللہ تعالیٰ نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسمِ پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ رکھا کہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو بد عورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے۔ حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس طرح آپ کی طہارت بیان کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ اس سایہ پر کسی کا قدم نہ پڑے تو جو پروردگار آپ کے سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک جوں کا خون لگنے سے پروردگارِ عالم نے آپ کو نعلین اتار دینے کا حکم دیا جو پروردگار آپ کی نعلین شریف کی اتنی سی آلودگی کو گوارا نہ فرمائے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے اہل کی آلودگی گوارا کرے۔ اس طرح بہت سے صحابہ اور بہت سے صحابیات نے قسمیں کھائیں، آیت نازِل ہونے سے قبل ہی حضرت اُم المومنین کی طرف سے قلوب مطمئن تھے آیت کے نُزول نے ان کا عز و شرف اور زیادہ کر دیا تو بد گویوں کی بد گوئی اللہ اور اس کے رسول اور صحابۂ کِبار کے نزدیک باطل ہے اور بد گوئی کرنے والوں کے لئے سخت ترین مصیبت ہے۔

۱۶               کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں اس پر جزا دے گا اور حضرت اُم المؤمنین کی شان اور ان کی براءت ظاہر فرمائے گا چنانچہ اس براءت میں اس نے اٹھارہ آیتیں نازِل فرمائیں۔

۱۷               یعنی بقدر اس کے عمل کے کہ کسی نے طوفان اٹھایا، کسی نے بہتان اٹھانے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی ہنس دیا، کسی نے خاموشی کے ساتھ سن ہی لیا جس نے جو کیا اس کا بدلہ پائے گا۔

۱۸               کہ اپنے دل سے یہ طوفان گڑھا اور اس کو مشہور کرتا پھرا اور وہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق ہے۔

۱۹               آخرت میں۔ مروی ہے کہ ان بہتان لگانے والوں پر بحکمِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حد قائم کی گئی اور اسی۸۰ اسی۸۰ کوڑے لگائے گئے۔

(۱۲ )  کیوں نہ ہوا ہوا جب تم نے  اسے  سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے  اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا (ف ۲۰) اور کہتے  یہ کھلا بہتان ہے  (ف ۲۱)

۲۰               کیونکہ مسلمان کو یہی حکم ہے کہ مسلمان کے ساتھ نیک گمان کرے اور بدگمانی ممنوع ہے۔ بعضے گمراہ بے باک یہ کہہ کر گزرتے ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معاذ اللہ اس معاملہ میں بدگمانی ہو گئی تھی، وہ مفتری کذّاب ہیں اور شانِ رسالت میں ایسا کلمہ کہتے ہیں جو مؤمنین کے حق میں بھی لائق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرماتا ہے کہ تم نے نیک گمان کیوں نہ کیا تو کیسے ممکن تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدگمانی کرتے اور حضور کی نسبت بدگمانی کا لفظ کہنا بڑی سیاہ باطنی ہے خاص کر ایسی حالت میں جب کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقسم فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میرے اہل پاک ہیں جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر بدگمانی کرنا ناجائز ہے اور جب کسی نیک شخص پر تہمت لگائی جائے تو بغیر ثبوت مسلمان کو اس کی موافقت اور تصدیق کرنا روا نہیں۔

۲۱               بالکل جھوٹ ہے بے حقیقت ہے۔

(۱۳ )  اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب گواہ نہ لائے  تو وہی اللہ کے  نزدیک جھوٹے  ہیں۔

(۱۴ )  اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا  اور آخرت میں نہ ہو تی (ف ۲۲) تو جس چرچے  میں تم پڑے  اس پر تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔

۲۲               اور تم پر فضل و کرم منظور نہ ہوتا جس میں سے توبہ کے لئے مہلت دینا بھی ہے اور آخرت میں عفو و مغفرت فرمانا بھی۔

(۱۵ )  جب تم ایسی بات اپنی زبانوں پر ایک دوسرے  سے  سن کر لاتے  تھے  اور اپنے  منہ سے  وہ نکالتے  تھے  جس کا تمہیں علم نہیں اور اسے  سہل سمجھتے  تھے  (ف ۲۳) اور وہ اللہ کے  نزدیک بڑی بات ہے  (ف ۲۴)

۲۳               اور خیال کرتے تھے کہ اس میں بڑا گناہ نہیں۔

۲۴               جرمِ عظیم ہے۔

(۱۶ )  اور کیوں نہ ہوا جب تم نے  سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں (ف ۲۵)  الٰہی پاکی ہے  تجھے  (ف ۲۶) یہ بڑا بہتان  ہے۔

۲۵               یہ ہمارے لئے روا نہیں کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

۲۶               اس سے کہ تیرے نبی کی حرم کو فُجور کی آلودگی پہنچے۔

مسئلہ : یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نبی کی بی بی بدکار ہو سکے اگرچہ اس کا مبتلائے کُفر ہونا ممکن ہے کیونکہ انبیاء کُفّار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کُفّار کے نزدیک بھی قابلِ نفرت ہو اس سے وہ پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک قابلِ نفرت ہے۔ (کبیر وغیرہ)۔

(۱۷ )  اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے  کہ اب کبھی ایسا نہ کہنا اگر ایمان رکھتے  ہو۔

(۱۸ )  اور اللہ تمہارے  لیے  آیتیں صاف بیان فرماتا ہے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

(۱۹ )  وہ لوگ جو چاہتے  ہیں کہ مسلمانوں میں  برا چرچا پھیلے  ان کے  لیے  دردناک عذاب ہے  دنیا  (ف ۲۷) اور آخرت میں (ف ۲۸) اور اللہ جانتا ہے  (ف ۲۹) اور تم نہیں جانتے۔

۲۷               یعنی اس جہان میں اور وہ حد قائم کرنا ہے چنانچہ ابنِ اُبی اور حَسّان اور مِسْطَحْ کے حد لگائی گئی۔ (مدارک)۔

۲۸               دوزخ اگر بے توبہ مر جائیں۔

۲۹               دلوں کے راز اور باطن کے احوال۔

(۲۰ )  اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہربان مہر والا ہے۔

(۲۱ )  تو تم اس کا مزہ چکھتے  (ف ۳۰) اے  ایمان والو! شیطان کے  قدموں پر نہ چلو، اور جو شیطان کے  قدموں پر چلے  تو وہ تو بے  حیائی اور بری ہی بات بتائے  گا (ف ۳۱) اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں کوئی بھی کبھی ستھرا  نہ ہو سکتا (ف ۳۲) ہاں اللہ ستھرا کر دیتا ہے  جسے  چاہے  (ف ۳۳) اور اللہ سنتا جانتا ہے۔

۳۰               اور عذابِ الٰہی تمہیں مہلت نہ دیتا۔

۳۱               اس کے وسوسوں میں نہ پڑو اور بہتان اٹھانے والوں کی باتوں پر کان نہ لگاؤ۔

۳۲               اور اللہ تعالیٰ اس کو توبہ و حُسنِ عمل کی توفیق نہ دیتا اور عفو و مغفرت نہ فرماتا۔

۳۳               توبہ قبول فرما کر۔

(۲۲ )  اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے  (ف ۳۴) اور گنجائش والے  ہیں (ف ۳۵) قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے  والوں کو دینے  کی، اور چاہیے  کہ معاف کریں اور درگزریں، کیا تم اسے  دوست نہیں رکھتے   کہ اللہ تمہاری بخشش کرے، اور اللہ بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۳۶)

۳۴               اور منزلت والے ہیں دین میں۔

۳۵               ثروت و مال میں۔ شانِ نُزول : یہ آیت حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازِل ہوئی، آپ نے قسم کھائی تھی کہ مِسطح کے ساتھ سلوک نہ کریں گے اور وہ آپ کی خالہ کے بیٹے تھے نادار تھے، مہاجر تھے، بدری تھے، آپ ہی ان کا خرچ اٹھاتے تھے مگر چونکہ اُم المؤمنین پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ انہوں نے موافقت کی تھی اس لئے آپ نے یہ قسم کھائی۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

۳۶               جب یہ آیت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بے شک میری آرزو ہے کہ اللہ میری مغفرت کرے اور میں مِسطَح کے ساتھ جو سلوک کرتا تھا اس کو کبھی موقوف نہ کروں گا چنانچہ آپ نے اس کو جاری فرما دیا۔

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کام پر قَسم کھائے پھر معلوم ہو کہ اس کا کرنا ہی بہتر ہے تو چاہیئے کہ اس کام کو کرے اور قسم کا کَفّارہ دے، حدیثِ صحیح میں یہی وارد ہے۔

مسئلہ : اس آیت سے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی اس سے آپ کی علوئے شان و مرتبت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُولوالفضل فرمایا اور۔

(۲۳ )  بیشک وہ جو عیب لگاتے  ہیں انجان (ف ۳۷) پارسا ایمان وا لیوں کو (ف ۳۸) ان پر لعنت ہے  دنیا اور آخرت میں اور ان کے  لیے  بڑا عذاب ہے  (ف ۳۹)

۳۷               عورتوں کو جو بدکاری اور فجور کو جانتی بھی نہیں اور برا خیال ان کے دل میں بھی نہیں گزرتا اور۔

۳۸               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواجِ مطہرات کے اوصاف ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ا س سے تمام ایماندار پارسا عورتیں مراد ہیں، ان کے عیب لگانے والوں پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتا ہے۔

۳۹               یہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق کے حق میں ہے۔ (خازن)۔

(۲۴ ) جس دن (ف ۴۰) ان پر گواہی دیں گے  ان کی زبانیں (ف ۴۱) اور ان کے  ہاتھ اور ان کے  پاؤں جو کچھ کرتے  تھے۔

۴۰               یعنی روزِ قیامت۔

۴۱               زبانوں کا گواہی دینا تو ان کے مونہوں پر مُہریں لگائے جانے سے قبل ہو گا اور اس کے بعد مونہوں پر مُہریں لگا دی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہو جائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گی اور دنیا میں جو عمل کئے تھے ان کی خبر دیں گے جیسے کہ آگے ارشاد ہے۔

(۲۵ )  اس دن اللہ انہیں ان کی سچی سزا پوری دے  گا (ف ۴۲) اور جان لیں گے  کہ اللہ ہی صریح حق ہے۔

۴۲               جس کے وہ مستحق ہیں۔

(۲۶ )  (ف ۴۳) گندیاں گندوں کے  لیے  اور گندے  گندیوں کے  لیے   (ف ۴۴) اور ستھریاں ستھروں کے  لیے  اور ستھرے  ستھریوں کے  لیے  وہ (ف ۴۵) پاک ہیں ان باتوں سے  جو یہ (ف ۴۶) کہہ رہے  ہیں، ان کے  لیے  بخشش اور عزت کی روزی ہے  (ف ۴۷)

۴۳               یعنی موجود ظاہر ہے اسی کی قدرت سے ہر چیز کا وجود ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ معنیٰ یہ ہیں کہ کُفّار دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں شک کرتے تھے، اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں ان کے اعمال کی جزا دے کر ان وعدوں کا حق ہونا ظاہر فرما دے گا۔ فائدہ : قرآنِ کریم میں کسی گناہ پر ایسی تغلیظ و تشدید اور تکرار و تاکید نہیں فرمائی گئی جیسی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اوپر بہتان باندھنے پر فرمائی گئی، اس سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رِفعتِ منزلت ظاہر ہوتی ہے۔

۴۴               یعنی خبیث کے لئے خبیث لائق ہے، خبیثہ عورت خبیث مرد کے لئے اور خبیث مرد خبیثہ عورت کے لئے اور خبیث آدمی خبیث باتوں کے درپے ہوتا ہے اور خبیث باتیں خبیث آدمی کا وطیرہ ہوتی ہیں۔

۴۵               یعنی پاک مرد اور عورتیں جن میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور صفوان ہیں۔

۴۶               تہمت لگانے والے خبیث۔

۴۷               یعنی ستھروں اور ستھریوں کے لئے جنّت میں۔ اس آیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کمال فضل و شرف ثابت ہوا کہ وہ طیِّبہ اور پاک پیدا کی گئیں اور قرآنِ کریم میں ان کی پاکی کا بیان فرمایا گیا اور انہیں مغفرت اور رزقِ کریم کا وعدہ دیا گیا۔ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے بہت خصائص عطا فرمائے جو آپ کے لئے قابلِ فخر ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں کہ جبریلِ امین سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں ایک حریرپر آپ کی تصویر لائے اور عرض کیا کہ یہ آپ کی زوجہ ہیں اور یہ کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کے سوا کسی کنواری (باکرہ) سے نکاح نہ فرمایا اور یہ کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات آپ کی گود میں اور آپ کی نوبت کے دن ہوئی اور آپ ہی کا حجرہ شریفہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آرام گاہ اور آپ کا روضۂ طاہرہ ہوا اور یہ کہ بعض اوقات ایسی حالت میں حضور پر وحی نازِل ہوئی کہ حضرت صدیقہ آپ کے ساتھ آپ کے لحاف میں ہوتیں اور یہ کہ آپ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دختر ہیں اور یہ کہ آپ پاک پیدا کی گئیں اور آپ سے مغفرت و رزقِ کریم کا وعدہ فرمایا گیا۔

(۲۷ ) اے  ایمان والو! اپنے  گھروں کے  سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے  لو (ف ۴۸) اور  ان کے  ساکنوں پر سلام نہ کر لو (ف ۴۹) یہ تمہارے  لیے  بہتر ہے  کہ تم دھیان کرو۔

۴۸               مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ غیر کے گھر میں بے اجازت داخل نہ ہو اور اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سبحان اللہ یا الحمد لِلّٰہ یا اللہ اکبر کہے یا کھنکارے جس سے مکان والوں کو معلوم ہو کہ کوئی آنا چاہتا ہے یا یہ کہے کہ کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے ؟ غیر کے گھر سے وہ گھر مراد ہے جس میں غیر سکونت رکھتا ہو خواہ اس کا مالک ہو یا نہ ہو۔

۴۹               مسئلہ : غیر کے گھر جانے والے کی اگر صاحبِ مکان سے پہلے ہی ملاقات ہو جائے تو اوّل سلام کرے پھر اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت چاہے اس طرح کہ کہے السلام علیکم کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے ؟ حدیث شریف میں ہے کہ سلام کو کلام پر مقدم کرو۔ حضرت عبداللہ کی قراءت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ان کی قراء ت یوں ہے حَتّیٰ تُسَلِّمُوْا عَلیٰ اَھْلِہَا وَتَسْتَاذِنُوْا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے اجازت چاہے پھر سلام کرے۔ (مدارک، کشاف، احمدی)

مسئلہ : اگر دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں بے پردگی کا اندیشہ ہو تو دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کرے۔

مسئلہ :حدیث شریف میں ہے اگر گھر میں ماں ہو جب بھی اجازت طلب کرے۔ (مؤطا امام مالک)۔

(۲۸ )  پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ (ف ۵۰) جب بھی بے  ما لکوں کی اجازت  کے  ان میں نہ جاؤ (ف ۵۱) اور اگر تم سے  کہا جائے  واپس جاؤ تو واپس ہو (ف ۵۲) یہ تمہارے  لیے  بہت ستھرا ہے، اللہ تمہارے  کاموں کو  جانتا ہے۔

۵۰               یعنی مکان میں اجازت دینے والا موجود نہ ہو۔

۵۱               کیونکہ مِلکِ غیر میں تصرُّف کرنے کے لئے اس کی رضا ضروری ہے۔

۵۲               اور اجازت طلب کرنے میں اصرار و الحاح نہ کرو۔

مسئلہ : کسی کا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹانا اور شدید آواز سے چیخنا خاص کر عُلَماء اور بزرگوں کے دروازوں پر ایسا کرنا، ان کو زور سے پکارنا مکروہ و خلافِ ادب ہے۔

(۲۹ )  اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان گھروں میں جاؤ جو خاص کسی کی سکونت کے  نہیں (ف ۵۳) اور ان کے  برتنے  کا تمہیں اختیار ہے، اور اللہ جانتا ہے  جوتم ظاہر کرتے  ہو، اور جو تم چھپاتے  ہو۔

۵۳               مثل سرائے اور مسافر خانے وغیرہ کے کہ اس میں جانے کے لئے اجازت حاصل کرنے کی حاجت نہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت ان اصحاب کے جواب میں نازِل ہوئی جنہوں نے آیتِ استیذان یعنی اوپر والی آیت نازِل ہونے کے بعد دریافت کیا تھا کہ مکّۂ مکرّمہ اور مدینۂ طیّبہ کے درمیان اور شام کی راہ میں جو مسافر خانے بنے ہوئے ہیں کیا ان میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت لینا ضروری ہے ؟۔

(۳۰ )  مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں (ف ۵۴) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (ف ۵۵) یہ  ان کے  لیے  بہت ستھرا ہے، بیشک اللہ کو ان کے  کاموں کی خبر ہے۔

۵۴               اور جس چیز کا دیکھنا جائز نہیں اس پر نظر نہ ڈالیں۔ مسائل : مرد کا بدن زیرِ ناف سے گھٹنے کے نیچے تک عورت ہے، اس کا دیکھنا جائز نہیں اور عورتوں میں سے اپنے محارم اور غیر کی باندی کا بھی یہی حکم ہے مگر اتنا اور ہے کہ ان کے پیٹ اور پیٹھ کا دیکھنا بھی جائز نہیں اور حُرۂ اجنبیہ کے تمام بدن کا دیکھنا ممنوع ہے۔ اِنْ لَّمْ یَاْمَنْ مِّنَ الشَّھۡوَہ وَ اِنْ اَمِنَ مِنھَا فَالْمَمْنُوعُ النَّظرُ اِلیٰ مَاسِویٰ الْوَجْہِ وَالْکَفِّ وَ القَدَمِ وَ مَنْ یَّامَنُ فَاِنَّ الزَّمَانَ زَمَانُ الْفَسَادِ فَلَا یَحِلُّ النَّظَرُ اِلیَ الحُرَّۃِ الاَجنَبِیَّۃِ مُطْلَقًا مِّن غَیرضُرُورۃٍ مگر بحالتِ ضرورت قاضی و گواہ کو اور اس عورت سے نکاح کی خواہش رکھنے والے کو چہرہ دیکھنا جائز ہے اور اگر کسی عورت کے ذریعہ سے حال معلوم کر سکتا ہو تو نہ دیکھے اور طبیب کو موضعِ مرض کا بقدرِ ضرورت دیکھنا جائز ہے۔

مسئلہ : اَمْرد لڑکے کی طرف بھی شہوت سے دیکھنا حرام ہے۔ (مدارک و احمدی)۔

۵۵               اور زنا و حرام سے بچیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ اپنی شرم گاہوں اور ان کے لواحق یعنی تمام بدنِ عورت کو چھپائیں اور پردہ کا اہتمام رکھیں۔

(۳۱ )  اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں (ف ۵۶) اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں (ف ۵۷) مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے  اور وہ دوپٹے  اپنے  گریبانوں پر ڈالے  رہیں، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے  شوہروں پر یا اپنے  باپ (ف ۵۸) یا شوہروں کے  باپ (ف ۵۹) یا اپنے  بیٹوں (ف ۶۰) یا شوہروں کے  بیٹے  (ف ۶۱) یا اپنے  بھائی یا اپنے  بھتیجے  یا اپنے  بھانجے  (ف ۶۲) یا اپنے  دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے  ہاتھ کی ملک ہوں (ف ۶۳) یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے  مرد نہ ہوں (ف ۶۴) یا وہ بچے  جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں (ف ۶۵) اور زمین پر پاؤں  زور سے  نہ رکھیں کہ جانا جائے  ان کا چھپا ہوا سنگھار (ف ۶۶) اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے  مسلمانو! سب کے  سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔

۵۶               اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سے بعض اُمہات المؤمنین سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھیں، اسی وقت ابنِ اُم مکتوم آئے حضور نے ازواج کو پردہ کا حکم فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں فرمایا تو تم تو نابینا نہیں ہو۔ (ترمذی و ابوداؤد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی نامَحرم کا دیکھنا اور اس کے سامنے ہونا جائز نہیں۔

۵۷               اظہر یہ ہے کہ یہ حکم نماز کا ہے نہ نظر کا کیونکہ حُرّہ کا تمام بدن عورت ہے، شوہر اور مَحرم کے سوا اور کسی کے لئے اس کے کسی حصّہ کا دیکھنا بے ضرورت جائز نہیں اور معالجہ وغیرہ کی ضرورت سے قدرِ ضرورت جائز ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔

۵۸               اور انہیں کے حکم میں دادا پردادا وغیرہ تمام اصول۔

۵۹               کہ وہ بھی مَحرم ہو جاتے ہیں۔

۶۰               اور انہیں کے حکم میں ہے ان کی اولاد۔

۶۱               کہ وہ بھی مَحرم ہو گئے۔

۶۲               اور انہیں کے حکم میں ہیں چچا ماموں وغیرہ تمام محارم۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو عبیدہ بن جراح کو لکھا تھا کہ کُفّار اہلِ کتاب کی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمّام میں داخل ہونے سے منع کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمہ عورت کو کافِرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں۔

مسئلہ : عورت اپنے غلام سے بھی مِثل اجنبی کے پردہ کرے۔ (مدارک وغیرہ)۔

۶۳               ان پر اپنا سنگار ظاہر کرنا ممنوع نہیں اور غلام ان کے حکم میں نہیں، اس کو اپنی مالکہ کے مواضعِ زینت کو دیکھنا جائز نہیں۔

۶۴               مثلاً ایسے بوڑھے ہوں جنہیں اصلا شہوت باقی نہیں رہی ہو اور ہوں صالح۔

مسئلہ : ائمۂ حنفیہ کے نزدیک خصی اور عِنِّین حرمتِ نظر میں اجنبی کا حکم رکھتے ہیں۔

مسئلہ : اس طرح قبیح الافعال مُخنّث سے بھی پردہ کیا جائے جیسا کہ حدیثِ مسلم سے ثابت ہے۔

۶۵               وہ ابھی نادان نابالغ ہیں۔

۶۶               یعنی عورتیں گھر کے اندر چلنے پھرنے میں بھی پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ ان کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔ مسئلہ : اسی لئے چاہیئے کہ عورتیں باجے دار جھانجھن نہ پہنیں حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔ اس سے سمجھنا چاہیئے کہ جب زیور کی آواز عدمِ قبولِ دعا کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کیسی موجبِ غضبِ الٰہی ہو گی، پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے۔ (اللہ کی پناہ) ( تفسیرِ احمدی وغیرہ )۔

(۳۲ )  اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے  نکاح ہوں (ف ۶۷) اور اپنے  لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں  تو اللہ انہیں غنی کر دے  گا اپنے  فضل کے  سبب (ف ۶۸) اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔

۶۷               خواہ مرد یا عورت کنوارے یا غیر کنوارے۔

۶۸               اس غناء سے مراد یا قناعت ہے کہ وہ بہترین غنا ہے جو قانع کو تردُّد سے بے نیاز کر دیتا ہے یا کفایت کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہو جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے یا زوج و زوجہ کے دو رزقوں کا جمع ہو جانا یا فراخی بہ برکتِ نکاح جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

(۳۳ )  اور چاہیے  کہ بچے  رہیں (ف ۶۹) وہ جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے  (ف ۷۰) یہاں تک کہ اللہ مقدور والا کر دے  اپنے  فضل سے  (ف ۷۱)  اور تمہارے  ہاتھ کی مِلک باندی غلاموں میں سے  جو یہ چاہیں کہ کچھ مال کمانے  کی شرط پر انہیں آزادی لکھ دو تو لکھ دو (ف ۷۲) اگر ان میں کچھ بھلائی جانو (ف ۷۳) اور اس پر ان کی مدد کرو اللہ کے  مال سے  جو تم کو دیا (ف ۷۴) اور  مجبور نہ کرو اپنی کنیزوں کو بدکاری پر جب کہ وہ بچنا چاہیں تاکہ تم دنیوی زندگی کا کچھ مال  چاہو (ف ۷۵) اور جو انہیں مجبور کرے  گا تو بیشک اللہ بعد اس کے  کہ وہ مجبوری ہی کی حالت  پر رہیں بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۷۶)

۶۹               حرام کاری سے۔

۷۰               جنہیں مَہر و نفقہ میسّر نہیں۔

۷۱               اور مَہر و نفقہ ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نکاح کی قدرت رکھے وہ نکاح کرے کہ نکاح پارسائی و پاک بازی کا مُعِین ہے اور جسے نکاح کی قدرت نہ ہو وہ روزے رکھے کہ یہ شہوتوں کو توڑنے والے ہیں۔

۷۲               کہ وہ اس قدر مال ادا کر کے آزاد ہو جائیں اور اس طرح کی آزادی کو کتابت کہتے ہیں اور آیت میں اس کا امر استحباب کے لئے ہے اور یہ استحباب اس شرط کے ساتھ مشروط ہے جو اس کے بعد ہی آیت میں مذکور ہے۔

شانِ نُزول : حویطب بن عبدالعزیٰ کے غلام صبیح نے اپنے مولیٰ سے کتابت کی درخواست کی، مولیٰ نے انکار کیا۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی تو حویطب نے اس کو سو دینار پر مکاتَب کر دیا اور ان میں سے بیس اس کو بخش دئے باقی اس نے ادا کر دیئے۔

۷۳               بھلائی سے مراد امانت و دیانت اور کمائی پر قدرت رکھنا ہے کہ وہ حلال روزی سے مال حاصل کر کے آزاد ہو سکے اور مولیٰ کو مال دے کر آزادی حاصل کرنے کے لئے بھیک نہ مانگتا پھرے اسی لئے حضرتِ سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو مکاتَب کرنے سے انکار فرما دیا جو سوائے بھیک کے کوئی ذریعہ کسب کا نہ رکھتا تھا۔

۷۴               مسلمانوں کو ارشاد ہے کہ وہ مکاتَب غلاموں کو زکوٰۃ وغیرہ دے کر مدد کریں جس سے وہ بدلِ کتابت دے کر اپنی گردن چھڑا سکیں اور آزاد ہو سکیں۔

۷۵               یعنی طمعِ مال میں اندھے ہو کر کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کریں۔ شانِ نُزول : یہ آیت عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق کے حق میں نازِل ہوئی جو مال حاصل کرنے کے لئے اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، ان کنیزوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی شکایت کی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

۷۶               اور وبالِ گناہ مجبور کرنے والے پر۔

(۳۴ )  اور بیشک ہم نے  اتاریں تمہاری طرف روشن آیتیں (ف ۷۷) اور کچھ ان لوگوں کا بیان جو تم سے  پہلے  ہو گزرے  اور ڈر والوں کے  لیے  نصیحت۔

۷۷               جنہوں نے حلال و حرام حدود و احکام سب کو واضح کر دیا۔

۷۸               نور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت ا بنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ آسمان و زمین کا ہادی ہے تو اہلِ سمٰوٰت و ارض اس کے نور سے حق کی راہ پاتے ہیں اور اس کی ہدایت سے گمراہی کی حیرت سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا منوّر فرمانے والا ہے، اس نے آسمانوں کو ملائکہ سے اور زمین کو انبیاء سے منوّر کیا۔

(۳۵ ) اللہ نور ہے  (ف ۷۸)  آسمانوں اور زمینوں کا، اس کے  نور کی (ف ۷۹) مثال ایسی جیسے  ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے  وہ چراغ ایک فانوس میں ہے   وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے  موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے  برکت والے  پیڑ زیتون سے  (ف ۸۰) جو نہ پورب کا نہ پچھم کا (ف ۸۱) قریب ہے  کہ اس کا تیل (ف ۸۲) بھڑک اٹھے  اگرچہ اسے  آگ نہ چھوئے   نور پر نور ہے  (ف ۸۳) اللہ اپنے  نور کی راہ بتاتا ہے  جسے  چاہتا ہے، اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے  لوگوں کے  لیے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

۷۹               اللہ کے نور سے یا تو قلبِ مؤمن کی وہ نورانیت مراد ہے جس سے وہ ہدایت پاتا اور راہ یاب ہوتا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ کے اس نور کی مثال جو اس نے مؤمن کو عطا فرمایا۔ بعض مفسِّرین نے اس نور سے قرآن مراد لیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ اس نور سے مراد سیدِ کائنات افضلِ موجودات حضرت رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔

۸۰               یہ درخت نہایت کثیر البرکت ہے کیونکہ اس کا روغن جس کو زیت کہتے ہیں نہایت صاف و پاکیزہ روشنی دیتا ہے سر میں بھی لگایا جاتا ہے، سالن اور نانخورش کی جگہ روٹی سے بھی کھایا جاتا ہے، دنیا کے اور کسی تیل میں یہ وصف نہیں اور درختِ زیتون کے پتے نہیں گرتے۔ (خازن)۔

۸۱               بلکہ وسط کا ہے کہ نہ اسے گرمی سے ضَرر پہنچے نہ سردی سے اور وہ نہایت اجود و اعلیٰ ہے اور اس کے پھل غایتِ اعتدال میں۔

۸۲               اپنی صفا و لطافت کے باعث خود۔

۸۳               اس تمثیل کے معنیٰ میں اہلِ علم کے کئی قول ہیں ایک یہ کہ نور سے مراد ہدایت ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت غایتِ ظہور میں ہے کہ عالَمِ محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس ہو، اس فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی بہتر اور مصفّیٰ زیتون سے روشن ہو کہ اس کی روشنی نہایت اعلیٰ اور صاف ہو اور ایک قول یہ ہے کہ یہ تمثیل نورِ سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کعب احبار سے فرمایا کہ اس آیت کے معنیٰ بیان کرو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مثال بیان فرمائی روشندان ( طاق) تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سینہ شریف ہے اور فانوس قلبِ مبارک اور چراغِ نبوّت کے شجرِ نبوّت سے روشن ہے اور اس نورِ مُحمّدی کی روشنی و اضائت اس مرتبۂ کمالِ ظہور پر ہے کہ اگر آپ اپنے نبی ہونے کا بیان بھی نہ فرمائیں جب بھی خَلق پر ظاہر ہو جائے اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ روشندان تو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سینہ مبارک ہے اور فانوس قلبِ اطہر اور چراغ وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا کہ شرقی ہے نہ غربی، نہ یہودی و نصرانی، ایک شجرۂ مبارکہ سے روشن ہے وہ شجر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ نورِ قلبِ ابراہیم پر نورِ مُحمّدی نور پر نور ہے اور محمد بن کعب قرظی نے کہا کہ روشن دان و فانوس تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں اور چراغ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شجرۂ مبارکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ اکثر انبیاء آپ کی نسل سے ہیں اور شرقی و غربی نہ ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی کیونکہ یہود مغرب کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور نصاریٰ مشرق کی طرف، قریب ہے کہ محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے محاسن و کمالات نُزولِ وحی سے قبل ہی خَلق پر ظاہر ہو جائیں۔ نور پر نور یہ کہ نبی ہیں نسلِ نبی سے، نورِ محمّدی ہے نور ابراہیمی پر، اس کے علاوہ اور بھی بہت اقوال ہیں۔ (خازن)۔

(۳۶ )  ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے  کا اللہ نے  حکم دیا ہے  (ف ۸۴) اور ان میں اس کا نام لیا جاتا ہے، اللہ کی تسبیح کرتے  ہیں ان میں صبح اور شام (ف ۸۵)

۸۴               اور ان کی تعظیم و تطہیر لازم کی، مراد ان گھروں سے مسجدیں ہیں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا مسجدیں بیت اللہ ہیں زمین میں۔

۸۵               تسبیح سے مراد نمازیں ہیں صبح کی تسبیح سے فجر اور شام سے ظہر و عصر و مغرب و عشاء مراد ہیں۔

(۳۷ ) وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت اللہ کی یاد (ف ۸۶) اور نماز برپا رکھنے  (ف ۸۷) اور زکوٰۃ دینے  سے  (ف ۸۸) ڈرتے  ہیں اس دن سے  جس میں الٹ جائیں گے  دل اور آنکھیں (ف ۸۹)

۸۶               اور اس کے ذکرِ قلبی و لسانی اور اوقاتِ نماز پر مسجدوں کی حاضر ی سے۔

۸۷               اور انہیں وقت پر ادا کرنے سے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بازار میں تھے مسجد میں نماز کے لئے اقامت کہی گئی آپ نے دیکھا کہ بازار والے اٹھے اور دوکانیں بند کر کے مسجد میں داخل ہو گئے تو فرمایا کہ آیت  رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ  ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہے۔

۸۸               اس کے وقت پر۔

۸۹               دلوں کا اُلٹ جانا یہ ہے کہ شدتِ خوف و اضطراب سے اُلٹ کر گلے تک چڑھ جائیں گے نہ باہر نکلیں نہ نیچے اتریں اور آنکھیں اوپر چڑھ جائیں گی یا یہ معنیٰ ہیں کُفّار کے دل کُفر و شک سے ایمان و یقین کی طرف پلٹ جائیں گے اور آنکھوں سے پردے اُٹھ جائیں گے یہ تو اس دن کا بیان ہے، آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ فرمانبردار بندے جو ذکر و طاعت میں نہایت مستعِد رہتے ہیں اور عبادت کی ادا میں سرگرم رہتے ہیں باوجود اس حُسنِ عمل کے اس روز سے خائف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ ہو سکا۔

(۳۸ )  تاکہ اللہ انہیں بدلہ دے  ان کے  سب سے  بہتر کام کام اور اپنے  فضل سے  انہیں انعام زیادہ دے، اور اللہ روزی دیتا ہے  جسے  چاہے  بے  گنتی۔

(۳۹ )  اور جو کافر ہوئے  ان کے  کام ایسے  ہیں جیسے  دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے  پانی سمجھے، یہاں تک جب اس کے  پاس آیا تو اسے  کچھ نہ پایا (ف ۹۰) اور اللہ کو اپنے  قریب پایا تو اس نے  اس کا حساب پورا بھر دیا، اور اللہ جلد حساب  کر لیتا ہے  (ف ۹۱)

۹۰               یعنی پانی سمجھ کر اس کی تلاش میں چلا جب وہاں پہنچا تو پانی کا نام و نشان نہ تھا ایسے ہی کافِر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا ثواب پائے گا جب عرصاتِ قیامت میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ عذابِ عظیم میں گرفتار ہو گا اور اس وقت اس کی حسرت اور اس کا اندوہ و غم اس پیاس سے بدرجہا زیادہ ہو گا۔

۹۱               اعمالِ کُفّار کی مثال ایسی ہے۔

(۴۰ )  یا جیسے  اندھیریاں کسی کنڈے  کے  (گہرائی والے ) دریا میں (ف ۹۲) اس کے  اوپر موج مو ج کے   اوپر  اور موج اس کے  اوپر بادل، اندھیرے  ہیں ایک پر ایک (ف ۹۳) جب  اپنا ہاتھ نکالے  تو سوجھائی دیتا معلوم نہ ہو (ف ۹۴) اور جسے  اللہ نور نہ دے  اس کے  لیے  کہیں نور نہیں (ف ۹۵)

۹۲               سمندروں کی گہرائی میں۔

۹۳               ایک اندھیرا دریا کی گہرائی کا، اس پر ایک اور اندھیرا موجوں کے تراکم کا، اس پر اور اندھیرا بادلوں کی گھری ہوئی گھٹا کا، ان اندھیریوں میں شدت کا یہ عالم کہ جو اس میں ہو وہ۔

۹۴               باوجود یکہ اپنا ہاتھ نہایت ہی قریب اور اپنے جسم کا جزو ہے جب وہ بھی نظر نہ آئے تو اور دوسری چیز کیا نظر آئے گی، ایسا ہی حال ہے کافِر کا کہ وہ اعتقادِ باطل اور قولِ ناحق اور عملِ قبیح کی تاریکیوں میں گرفتار ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ دریا کے کنڈے اور اس کی گہرائی سے کافِر کے دل کو اور موجوں سے جہل و شک و حیرت کو جو کافِر کے دل پر چھائے ہوئے ہیں اور بادلوں سے مُہر کو جو ان کے دلوں پر ہے تشبیہ دی گئی۔

۹۵               راہ یاب وہی ہوتا ہے جس کو وہ راہ دے۔

(۴۱ ) کیا تم نے  نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتے  ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے  (ف ۹۶) پر پھیلائے  سب نے  جان رکھی ہے  اپنی نماز اور اپنی تسبیح، اور اللہ ان کے  کاموں کو جانتا ہے۔

۹۶               جو آسمان و زمین کے درمیان میں ہیں۔

(۴۲ )  اور اللہ ہی کے  لیے  ہے  سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف پھر جانا۔

(۴۳ )  کیا تو نے  نہ دیکھا کہ اللہ نرم نرم چلاتا ہے  بادل کو (ف ۹۷) پھر انہیں آپس میں مِلاتا ہے  (ف ۹۸) پھر انہیں تہہ پر تہہ کر دیتا ہے  تو تُو دیکھے  کہ اس کے  بیچ میں سے  مینہ نکلتا ہے  اور اتارتا ہے  آسمان سے  اس میں جو برف کے  پہاڑ ہیں ان میں سے  کچھ اولے  (ف ۹۹) پھر ڈالنا ہے  انہیں جس پر چاہے  (ف ۱۰۰) اور  پھیر دیتا ہے  انہیں جس سے  چاہے  (ف ۱۰۱) قریب ہے  کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھ لے  جائے  (ف ۱۰۲)

۹۷               جس سر زمین اور جن بلاد کی طرف چاہے۔

۹۸               اور ان کے متفرق ٹکڑوں کو یک جا کر دیتا ہے۔

۹۹               اس کے معنیٰ یا تو یہ ہیں کہ جس طرح زمین میں پتھر کے پہاڑ ہیں ایسے ہی آسمان میں برف کے پہاڑ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور یہ اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ان پہاڑوں سے اولے برساتا ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ آسمان سے اولوں کے پہاڑ برساتا ہے یعنی بکثرت اولے برساتا ہے۔ (مدارک وغیرہ)۔

۱۰۰             اور جس کے جان و مال کو چاہتا ہے ان سے ہلاک و تباہ کرتا ہے۔

۱۰۱             اس کے جان و مال کو محفوظ رکھتا ہے۔

۱۰۲             اور روشنی کی تیزی سے آنکھوں کو بے کار کر دے۔

(۴۴ )  اللہ بدلی کرتا ہے  رات اور دن کی (ف ۱۰۳) بیشک اس میں سمجھنے  کا مقام ہے  نگاہ والوں کو۔

۱۰۳             کہ رات کے بعد دن لاتا ہے اور دن کے بعد رات۔

(۴۵ )  اور اللہ نے  زمین پر ہر چلنے  والا پانی سے  بنایا (ف ۱۰۴) تو ان میں کوئی اپنے  پیٹ پر چلتا ہے  (ف ۱۰۵) اور ان میں کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے  (ف ۱۰۶) اور ان میں کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے  (ف ۱۰۷) اللہ بناتا ہے  جو چاہے، بیشک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۱۰۴             یعنی تمام اجناسِ حیوان کو پانی کی جنس سے پیدا کیا اور پانی ان سب کی اصل ہے اور یہ سب باوجود متحد الاصل ہونے کے باہم کس قدر مختلف الحال ہیں، یہ خالِقِ عالَم کے علم و حکمت اور اس کے کمالِ قدرت کی دلیلِ روشن ہے۔

۱۰۵             جیسے کہ سانپ اور مچھلی اور بہت سے کیڑے۔

۱۰۶             جیسے کہ آدمی اور پرند۔

۱۰۷             مثل بہائم اور درندوں کے۔

(۴۶ )  بیشک ہم نے  اتاریں صاف بیان  کرنے  وا لی آیتیں (ف ۱۰۸) اور اللہ جسے  چاہے  سیدھی راہ دکھائے  (ف ۱۰۹)

۱۰۸             یعنی قرآنِ کریم جس میں ہدایت و احکام اور حلال و حرام کا واضح بیان ہے۔

۱۰۹             اور سیدھی راہ جس پر چلنے سے رضائے الٰہی و نعمتِ آخرت میسّر ہوویں اسلام ہے۔ آیات کا ذکر فرمانے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان تین فرقوں میں منقسم ہو گئے ایک وہ جنہوں نے ظاہر میں تصدیقِ حق کی اور باطن میں تکذیب کرتے رہے وہ منافق ہیں، دوسری وہ جنہوں نے ظاہر میں بھی تصدیق کی اور باطن میں بھی معتقد رہے یہ مخلصین ہیں، تیسرے وہ جنہوں نے ظاہر میں بھی تکذیب کی اور باطن میں بھی وہ کُفّار ہیں ان کا ذکر بالترتیب فرمایا جاتا ہے۔

(۴۷ ) اور کہتے  ہیں ہم ایمان لائے  اللہ اور رسول پر اور حکم مانا پھر کچھ ان میں کے  اس کے  بعد پھر جاتے  ہیں (ف ۱۱۰) اور وہ مسلمان نہیں (ف ۱۱۱)

۱۱۰             اور اپنے قول کی پابندی نہیں کرتے۔

۱۱۱             منافق ہیں کیونکہ ان کے دل ان کی زبانوں کے موافق نہیں۔

(۴۸ )  اور جب بلائے  جائیں اللہ اور اس کے  رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے  تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے۔

(۴۹ )  اور اگر ان میں ڈگری ہو ( ان کے  حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے  ہوئے  (ف ۱۱۲) 

۱۱۲             کُفّار و منافقین بارہا تجرُبہ کر چکے تھے اور انہیں کامل یقین تھا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فیصلہ سرا سر حق و عدل ہوتا ہے اس لئے ان میں جو سچا ہوتا وہ تو خواہش کرتا تھا کہ حضور اس کا فیصلہ فرمائیں اور جو ناحق پر ہوتا وہ جانتا تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سچی عدالت سے وہ اپنی ناجائز مراد نہیں پا سکتا اس لئے وہ حضور کے فیصلہ سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ شانِ نُزول : بِشر نامی ایک منافق تھا ایک زمین کے معاملہ میں اس کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا یہودی جانتا تھا کہ اس معاملہ میں وہ سچا ہے اور اس کو یقین تھا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حق و عدل کا فیصلہ فرماتے ہیں اس لئے اس نے خواہش کی کہ یہ مقدمہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیصل کرایا جائے لیکن منافق بھی جانتا تھا کہ وہ باطل پر ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عدل و انصاف میں کسی کی رو رعایت نہیں فرماتے اس لئے وہ حضور کے فیصلہ پر تو راضی نہ ہوا اور کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کرانے پر مُصِر ہوا اور حضور کی نسبت کہنے لگا کہ وہ ہم پر ظلم کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

(۵۰ ) کیا ان کے  دلوں میں بیماری ہے  (ف ۱۱۳) یا شک رکھتے  ہیں (ف ۱۱۴) کیا یہ ڈرتے  ہیں کہ اللہ و رسول ان پر ظلم کریں گے  (ف ۱۱۵) بلکہ خود ہی ظالم ہیں۔

۱۱۳             کُفر یا نفاق کی۔

۱۱۴             سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت میں۔

۱۱۵             ایسا تو ہے نہیں کیونکہ یہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فیصلہ حق سے متجاوز ہو ہی نہیں سکتا اور کوئی بد دیانت آپ کی عدالت سے پرایا حق مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے وہ آپ کے فیصلہ سے اعراض کرتے ہیں۔

(۵۱ )  مسلمانوں کی بات تو یہی ہے  (ف ۱۱۶) جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے  جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے  کہ عرض کریں ہم نے  سنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔

۱۱۶             اور ان کو یہ طریقِ ادب لازم ہے کہ۔

(۵۲ )  اور جو حکم مانے  اللہ اور اس کے  رسول کا اور اللہ سے  ڈرے  اور پرہیز گاری کرے  تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔

(۵۳ )  اور انہوں نے  (ف ۱۱۷) اللہ  کی قسم کھائی اپنے  حلف میں حد کی کوشش سے  کہ اگر تم انہیں حکم دو گے  تو وہ ضرور جہاد کو نکلیں گے  تم فرماؤ قسمیں نہ کھاؤ (ف ۱۱۸) موافق شرع حکم برداری چاہیے، اللہ جانتا ہے  جو تم کرتے  ہو (ف ۱۱۹)

۱۱۷             یعنی منافقین نے۔ ( مدارک)۔

۱۱۸             کہ جھوٹی قَسم گناہ ہے۔

۱۱۹             زبانی اطاعت اور عملی مخالفت اس سے کچھ چھپا نہیں۔

(۵۴ )  تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا (ف ۱۲۰) پھر اگر تم منہ پھیرو (ف ۱۲۱) تو رسول کے  ذمہ وہی ہے  جس اس پر لازم کیا گیا (ف ۱۲۲) اور تم پر وہ ہے  جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا (ف ۱۲۳) اور اگر رسول کی فرمانبرداری کرو گے  راہ پاؤ گے، اور رسول کے  ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا (ف ۱۲۴)

۱۲۰             سچے دل اور سچی نیت سے۔

۱۲۱             رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فرمانبرداری سے تو اس میں ان کا کچھ ضَرر نہیں۔

۱۲۲             یعنی دین کی تبلیغ اور احکامِ الہی کا پہنچا دینا اس کو رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اچھی طرح ادا کر دیا اور وہ اپنے فرض سے عہد ہ برآ ہو چکے۔

۱۲۳             یعنی رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری۔

۱۲۴             چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت واضح طور پر پہنچا دیا۔

(۵۵ )  اللہ نے  وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے  ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  (ف ۱۲۵)  کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے  گا (ف ۱۲۶) جیسی ان سے  پہلوں کو دی (ف ۱۲۷) اور ضرور ان کے  لیے  جما دے  گا ان کا وہ دین جو ان کے  لیے  پسند فرمایا ہے  (ف ۱۲۸) اور ضرور ان کے  اگلے  خوف کو امن سے  بدل دے  گا (ف ۱۲۹) میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں، اور جو اس کے  بعد ناشکری کرے  تو وہی لوگ بے  حکم ہیں۔

۱۲۵             شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی نازِل ہونے سے دس سال تک مکّہ مکرّمہ میں مع اصحاب کے قیام فرمایا اور کُفّار کی ایذاؤں پر جو شب و روز ہوتی رہتی تھیں صبر کیا پھر بحکمِ الٰہی مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کے منازل کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا مگر قریش اس پر بھی باز نہ آئے روز مرّہ ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر وقت خطرہ میں رہتے اور ہتھیار ساتھ رکھتے ایک روز ایک صحابی نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں امن میسّر ہو اور ہتھیاروں کے بار سے ہم سبکدوش ہوں۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

۱۲۶             اور بجائے کُفّار کے تمہاری فرمانروائی ہو گی۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس جس چیز پر شب و روز گزرے ہیں ان سب پر دینِ اسلام داخل ہو گا۔

۱۲۷             حضرت داؤد و سلیمان وغیرہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اور جیسی کہ جبابرۂ مِصر و شام کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو خلافت دی اور ان ممالک پر ان کو مسلّط کیا۔

۱۲۸             یعنی دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرمائے گا۔

۱۲۹             چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور سرزمینِ عرب سے کُفّار مٹا دیئے گئے، مسلمانوں کا تسلُّط ہوا، مشرق و مغرب کے ممالک اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتح فرمائے، اکاسرہ کے ممالک و خزائن ان کے قبضہ میں آئے، دنیا پر ان کا رعب چھا گیا۔ فائدہ : اس آیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفائے راشدین کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں فتوحاتِ عظیمہ ہوئے اور کسریٰ وغیرہ مُلوک کے خزائن مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور امن و تمکین اور دین کا غلبہ حاصل ہوا۔ ترمذی و ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہو گا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت دو برس تین ماہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت دس سال چھ ماہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت بارہ سال اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت چار سال نو ماہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔ (خازن)۔

(۵۶ ) اور نماز برپا رکھو اور زکوٰۃ  دو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اس امید پر کہ تم پر رحم ہو۔

(۵۷ )  ہرگز کافروں کو خیال نہ کرنا کہ وہ کہیں ہمارے  قابو سے  نکل جائیں زمین میں اور ان کا ٹھکانا  آگ ہے، اور ضرور کیا ہی برا  انجام۔

(۵۸ )  اے  ایمان والو! چاہیے  کہ تم سے  اذن لیں تمہارے  ہاتھ کے  مال  غلام (ف ۱۳۰) اور جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے  (ف ۱۳۱) تین وقت (ف ۱۳۲) نمازِ صبح سے  پہلے  (ف ۱۳۳) اور جب تم اپنے  کپڑے  اتار رکھتے  ہو  دوپہر کو (ف ۱۳۴) اور نماز عشاء کے  بعد (ف ۱۳۵) یہ تین وقت تمہاری شرم کے  ہیں (ف ۱۳۶)  ان تین کے  بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ ان پر (ف ۱۳۷)  آمدورفت رکھتے  ہیں تمہارے  یہاں ایک دوسرے  کے  پاس (ف ۱۳۸) اللہ یونہی بیان کرتا ہے  تمہارے  لیے  آیتیں، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

۱۳۰             اور باندیاں۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انصاری غلام مدلج بن عمرو کو دوپہر کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بلانے کے لئے بھیجا وہ غلام ویسے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں چلا گیا جب کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بے تکلّف اپنے دولت سرائے میں تشریف رکھتے تھے غلام کے اچانک چلے آنے سے آپ کے دل میں خیال ہوا کہ کاش غلاموں کو اجازت لے کر مکانوں میں داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازِل ہوئی۔

۱۳۱             بلکہ ابھی قریبِ بلوغ ہیں۔ سنِ بلوغ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سَترہ سال، عامہ عُلَماء کے نزدیک لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے پندرہ سال ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔

۱۳۲             یعنی ان تین وقتوں میں اجازت حاصل کریں جن کا بیان اسی آیت میں فرمایا جاتا ہے۔

۱۳۳             کہ وہ وقت ہے خواب گاہوں سے اٹھنے اور شب خوابی کا لباس اتار کر بیداری کے کپڑے پہننے کا۔

۱۳۴             قیلولہ کرنے کے لئے اور تہ بند باندھ لیتے ہو۔

۱۳۵             کہ وہ وقت ہے بیداری کا لباس اتارنے اور خواب کا لباس پہننے کا۔

۱۳۶             کہ ان اوقات میں خلوت و تنہائی ہوتی ہے، بدن چھپانے کا بہت اہتمام نہیں ہوتا ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصّہ کھل جائے جس کے ظاہر ہونے سے شرم آتی ہے لہذا ان اوقات میں غلام اور بچے بھی بے اجازت داخل نہ ہوں اور ان کے علاوہ جوان لوگ تمام اوقات میں اجازت حاصل کریں کسی وقت بھی بے اجازت داخل نہ ہوں۔ (خازن وغیرہ)۔

۱۳۷             مسئلہ : یعنی ان تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں غلام اور بچے بے اجازت داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ۔

۱۳۸             کام و خدمت کے لئے تو ان پر ہر وقت استیذان کا لازم ہونا سببِ حرج ہو گا اور شرع میں حرج مدفوع ہے۔ (مدارک)۔

(۵۹ )  اور جب تم میں لڑکے  (ف ۱۳۹) جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اذن مانگیں (ف ۱۴۰) جیسے  ان کے  اگلوں (ف ۱۴۱) نے  اذن مانگا، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے  تم سے  اپنی آیتیں، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

۱۳۹             یعنی آزاد۔

۱۴۰             تمام اوقات میں۔

۱۴۱             ان سے بڑے مَردوں۔

(۶۰ )  اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں (ف ۱۴۲) جنہیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے  بالائی کپڑے   اتار رکھیں جب کہ سنگھار نہ چمکائیں (ف ۱۴۳) اور ان سے  بھی بچنا (ف ۱۴۴) ان کے  لیے  اور بہتر ہے،اور  اللہ  سنتا جانتا  ہے ۔

۱۴۲             جن کا سن زیادہ ہو چکا اور اولاد ہونے کی عمر نہ رہی اور پیرانہ سالی کے باعث۔

۱۴۳             اور بال، سینہ، پنڈلی وغیرہ نہ کھولیں۔

۱۴۴             بالائی کپڑوں کو پہنے رہنا۔

(۶۱ )  نہ  اندھے   پر  تنگی اور نہ لنگڑے  پر مضائقہ اور نہ بیمار پر  روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے   گھر (ف ۱۴۶) یا اپنے  باپ کے  گھر یا اپنی ماں کے  گھر یا اپنے  بھائیوں کے  یہاں یا اپنی  بہنوں  کے   گھر  ے   یا اپنے  چچاؤں  کے  یہاں یا  اپنی پھپیوں  کے   گھر  یا اپنے  ماموؤں کے  یہاں یا اپنی خالاؤں کے  گھر یا جہاں کی کنجیاں تمہارے  قبضہ میں ہیں (ف ۱۴۷) یا اپنے  دوست کے  یہاں تم پر کوئی الزام نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ (ف ۱۴۰) پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو (ف ۱۵۰) ملتے  وقت کی اچھی دعا اللہ کے  پاس سے  مبارک پاکیزہ،  اللہ یونہی بیان فرماتا ہے  تم سے  آیتیں کہ تمہیں سمجھ ہو۔

۱۴۵             شانِ نُزول : سعید بن مسیّب رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں کی چابیاں نابینا اور بیماروں اور اپاہجوں کو دے جاتے جو ان اعذار کے باعث جہاد میں نہ جا سکتے اور انھیں اجازت دیتے کہ ان کے مکانوں سے کھانے کی چیزیں لے کر کھائیں مگر وہ لوگ اس کو گوارا نہ کرتے بایں خیال کہ شاید یہ ان کو دل سے پسند نہ ہو اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور انہیں اس کی اجازت د ی گئی اور ایک قول یہ ہے کہ اندھے اپاہج اور بیمار لوگ تندرستوں کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں کسی کو نفرت نہ ہو اس آیت میں انہیں اجازت دی گئی اور ایک قول یہ ہے کہ جب جب اندھے، نابینا، اپاہج کسی مسلمان کے پاس جاتے اور اس کے پاس ان کے کھلانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو وہ انہیں کسی رشتہ دار کے یہاں کھلانے کے لئے لے جاتا یہ بات ان لوگوں کو گوارا نہ ہوتی۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۱۴۶             کہ اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے، اسی طرح شوہر کے لئے بیوی کا اور بیوی کے لئے شوہر کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہے۔

۱۴۷             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس سے مراد آدمی کا وکیل اور اس کا کار پرداز ہے۔

۱۴۸             معنیٰ یہ ہیں کہ ان سب لوگوں کے گھر کھانا جائز ہے خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں جب کہ معلوم ہو کہ وہ اس سے راضی ہیں، سلف کا تو یہ حال تھا کہ آدمی اپنے دوست کے گھر اس کی غَیبت میں پہنچتا تو اس کی باندی سے اس کا کیسہ طلب کرتا اور جو چاہتا اس میں سے لے لیتا جب وہ دوست گھر آتا اور باندی اس کو خبر دیتی تو اس خوشی میں وہ باندی کو آزاد کر دیتا مگر اس زمانہ میں یہ فیاضی کہاں لہذا بے اجازت کھانا نہ چاہئیے۔ (مدارک و جلالین)۔

۱۴۹             شانِ نُزول : قبیلۂ بنی لیث بن عمرو کے لوگ تنہا بغیر مہمان کے کھانا نہ کھاتے تھے کبھی کبھی مہمان نہ ملتا تو صبح سے شام تک کھانا لئے بیٹھے رہتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی۔

۱۵۰             مسئلہ : جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے اہل کو سلام کرے اور ان لوگوں کو جو مکان میں ہوں بشرطیکہ ان کے دین میں خلل نہ ہو۔ (خازن) مسئلہ : اگر خالی مکان میں داخل ہو جہاں کوئی نہیں ہے تو کہے  اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَ رَحْمَۃُ اﷲِ تعالیٰ وَبَرَکَاتُہ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلیٰ اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اﷲِ تعالیٰ وَ بَرَکَاتُہٗ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مکان سے یہاں مسجدیں مراد ہیں۔ نخعی نے کہا کہ جب مسجد میں کوئی نہ ہو تو کہے  اَلسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللّٰہُ تعالیٰ عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ (شفا شریف) ملَّا علی قاری نے شرح شفا میں لکھا کہ خالی مکان میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کے گھروں میں روحِ اقدس جلوہ فرما ہوتی ہے۔

(۶۲ )  ایمان والے  تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے  رسول پر یقین لائے  اور جب رسول کے  پاس کسی ایسے  کام میں حاضر ہوئے  ہوں جس کے  لیے  جمع کیے  گئے  ہوں (ف ۱۵۱) تو نہ جائیں جب تک ان سے  اجازت  نہ لے  لیں وہ جو تم سے  اجازت مانگتے  ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے  رسول پر ایمان لاتے  ہیں (ف ۱۵۲) پھر جب وہ تم سے  اجازت مانگیں اپنے  کسی کام کے  لیے  تو ان میں جسے  تم چاہو اجازت دے  دو اور ان کے  لیے  اللہ سے  معافی مانگو (ف ۱۵۳) بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۱۵۱             جیسے کہ جہاد اور تدبیرِ جنگ اور جمعہ و عیدین اور مشورہ اور ہر اجتماع جو اللہ کے لئے ہو۔

۱۵۲             ان کا اجازت چاہنا نشانِ فرمانبرداری اور دلیلِ صحتِ ایمان ہے۔

۱۵۳             اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ حاضر رہیں اور اجازت طلب نہ کریں۔ مسئلہ : اماموں اور دینی پیشواؤں کی مجلس سے بھی بے اجازت نہ جانا چاہیئے۔ (مدارک)۔

(۶۳ )  رسول کے  پکارنے  کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں  ایک دوسرے  کو پکارتا ہے  (ف ۱۵۴) بیشک اللہ جانتا ہے  جو تم میں چپکے  نکل جاتے  ہیں کسی چیز کی آڑ لے  کر (ف ۱۵۵) تو ڈریں وہ جو رسول کے  حکم کے  خلاف کرتے  ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے  (ف ۱۵۶) یا ان پر دردناک عذاب پڑے  (ف ۱۵۷)

۱۵۴             کیونکہ جس کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پکاریں اس پر اجابت و تعمیل واجب ہو جاتی ہے اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو اور ایک معنیٰ مفسِّرین نے یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ندا کرے تو ادب و تکریم اور توقیر و تعظیم کے ساتھ آپ کے معظّم القاب سے نرم آواز کے ساتھ متواضعانہ و منکسرانہ لہجہ میں  یَانَبِیَّ اﷲِ یا رسولَ اﷲِ یَاحَبِیْبَ اﷲِ  کہہ کر۔

۱۵۵             شانِ نُزول : منافقین پر روزِ جمعہ مسجد میں ٹھہر کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطبے کا سننا گراں ہوتا تھا تو وہ چپکے چپکے آہستہ آہستہ صحابہ کی آڑ لے کر سرکتے سرکتے مسجد سے نکل جاتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی۔

۱۵۶             دنیا میں تکلیف یا قتل یا زلزلے یا اور ہولناک حوادث یا ظالم بادشاہ کا مسلّط ہونا یا دل کا سخت ہو کر معرفتِ الٰہی سے محروم رہنا۔

۱۵۷             آخرت میں۔

(۶۴ ) سن لو ! بیشک اللہ ہی کا ہے  جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بیشک وہ جانتا ہے  جس حال پر تم ہو (ف ۱۵۸) اور اس دن کو جس میں اس کی طرف پھیرے  جائیں گے  (ف ۱۵۹) تو وہ انہیں بتا دے  گا جو کچھ انہوں نے  کیا، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے، (ف ۱۶۰)

۱۵۸             ایمان پر یا نفاق پر۔

۱۵۹             جزا کے لئے اور وہ دن روزِ قیامت ہے۔

۱۶۰             اس سے کچھ چھپا نہیں۔