یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے (جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ دوسرے اور تیسرے رکوع میں آیا ہے ) اور وہ تمام معتبر روایات کی رو سے غزوہ بنی المطلق کے سفر میں پیش آیا تھا۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا یہ غزوہ ۵ ہجری میں غزوہ اَحزاب سے پہلے ہوا تھا یا ۶ میں غزوہ احزاب کے بعد۔ اصل واقعہ کیا ہے، اس کی تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ پردے کے احکام قرآن مجید کی دو ہی سورتوں میں آئے ہیں، ایک یہ سورت، دوسری سورہ احزاب جس کا نزول بالاتفاق غزوہ احزاب کے موقع پر ہوا ہے۔ اب اگر غزوہ احزاب پہلے ہو تو اس کے معنی یہ ہی کہ پردے کے احکام کی ابتدا ان ہدایات سے ہوئی جو سورہ احزاب میں وارد ہوئی ہیں، اور تکمیل ان احکام سے ہوئی جو اس سورت میں آئے ہیں۔ اور اگر غزوہ بنی المصطلق پہلے ہو تو احکام کی ترتیب الٹ جاتی ہے اور آغاز سورہ نور سے مان کر تکمیل سورہ احزاب والے احکام پر ماننی پڑتی ہے۔ اس طرح اس حکمت تشریع کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو احکام حجاب میں پائی جاتی ہے۔ اسی غرض کے لیے ہم آگے بڑھنے سے پہلے زمانہ نزول کی تحقیق کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔
ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان ۵ ہجری میں پیش آیا اور پھر ذی القعدہ ۵ ھ میں غزوہ احزاب (یا غزوہ خندق ) واقع ہوا۔ اس کی تائید میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ واقعہ افک کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کے جھگڑے کا ذکر آتا ہے، اور تمام معتبر روایات کی رو سے حضرت سعد بن معاذ کا انتقال غزوہ بن قریظہ میں ہوا تھا جس کا زمانہ واقع غزوہ احزاب کے متصلاً بعد ہے، لہٰذا ۶ ھ میں ان کے موجود ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری طرف محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ غزوہ احزاب شوال ۵ ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ بنی المصطلق شعبان ۶ ھ کا۔ اس کی تائید وہ کثیر التعداد معتبر روایات کرتی ہیں جواس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ اور دوسرے لوگوں سے مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ افک سے پہلے احکام حجاب نازل ہو چکے تھے، اور وہ سورہ احزاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ہو چکا تھا، اور وہ غزوہ احزاب کے بعد ذی القعدہ ۵ ھ کا واقعہ ہے اور سورہ احزاب میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ علاوہ بریں ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینب کی بہن حمْنَہ بنت جحش نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے میں محض اس وجہ سے حصہ لیا تھا کہ حضرت عائشہؓ ان کی بہن کی سوکن تھیں، اور ظاہر ہے کہ بہن کی سوکن کے خلاف اس طرح کے جذبات پیدا ہونے کے لیے سوکناپے کا رشتہ شروع ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ مدت درکار ہوتی ہے۔ یہ سب شہادتیں ابن اسحاق کی روایت کو مضبوط کر دیتی ہیں۔
اس روایت کو قبول کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ واقعہ افک کے زمانے میں حضرت سعد بن معاذ کی موجودگی کا ذکر آیا ہے۔ مگر اس مشکل کو جو چیز رفع کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق حضرت عائشہؓ سے جو روایات مروی ہیں ان میں سے بعض میں حضرت سعد بن معاذ کا ذکر ہے اور بعض میں ان کے بجائے حضرت اُسَید بن حُضَیر کا۔ اور یہ دوسری روایت ان دوسرے واقعات کے ساتھ پوری طرح مطابق ہو جاتی ہے جو اس سلسلے میں خود حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہیں۔ ورنہ محض سعد بن معاذ کے زمانہ حیات سے مطابق کرنے کی خاطر اگر غزوہ بنی المصطلق اور قصہ افک کو غزوہ احزاب و قریظہ سے پہلے کے واقعات مان لیا جائے تو اس پیچیدگی کا کوئی حل نہیں ملتا کہ پھر آیت حجاب کا نزول اور نکاح زینبؓ کا واقعہ اس سے بھی پہلے پیش آنا چاہیے، حالانکہ قرآن اور کثیر التعداد روایات صحیحہ، دونوں اس پر شاہد ہیں کہ نکاح زینبؓ اور حکم حجاب احزاب و قریْظَہ کے بعد کے واقعات ہیں۔ اسی بنا پر ابن حزم اور ابن قیم اور بعض دوسرے محققین نے محمد بن اسحٰق کی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے، اور ہم بھی اس کی صحیح سمجھتے ہیں۔
اب یہ تحقیق ہو جانے کے بعد کہ سورہ نور ۶ ہجری کے نصف آخر میں سورہ احزاب کے کئی مہینے بعد نازل ہوئی ہے، ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں اس کا نزول ہوا۔
جنگ بدر کی فتح سے عرب میں تحریک اسلامی کا جو عروج شروع ہوا تھا وہ غزوہ خندق تک پہنچتے پہنچتے اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ مشرکین، یہود، منافقین اور متربصین، سب ہی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اس نو خیز طاقت کو محض ہتھیاروں اور فوجوں کے بل پر شکست نہیں دی جا سکتی۔ جنگ خندق میں ہ لوگ متحد ہو کر ۱۰ ہزار فوج کے ساتھ مدینے پر چڑھ آئے تھے، مگر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخر کار ناکام ہو کر چلے گئے اور ان کے جاتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی الاعلان فرما دیا، لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھٰزا، ولکنکم تغزو نَھم (ابن ہشام، جلد ۳، ۲۶۶)، ’’ اس سال بعد اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔
یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ مخالف اسلام طاقتوں کی قوت اقدام ختم ہو چکی ہے، اب اسلام بچاؤ کی نہیں بلکہ اقدام کی لڑائی لٹے گا اور کفر کو اقدام کے بجائے بچاؤ کی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ یہ حالات کا بالکل صحیح جائزہ تھا جسے دوسرا فریق بھی اچھی طرح محسوس کر رہا تھا۔
اسلام کے اس روز افزوں عروج کی اصل وجہ مسلمانوں کی تعداد نہ تھی۔ بدر سے خندق تک ہر لڑائی میں کفار ان سے کئی گئی زیادہ قوت لے کر آئے تھے، اور مردم شماری کے لحاظ ے بھی مسلمان اس وقت تک عرب میں بمشکل ۱/۱۰ فی صدی تھے۔ اس عروج کی وجہ مسلمانوں کے اسلحہ کی بر تری بھی نہ تھی۔ ہر طرح کے سازو سامان میں کفار ہی کا پلہ بھاری تھا۔ معاشی طاقت اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کا ان سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ان کے پاس تمام عرب کے معاشی وسائل تھے، اور مسلمان بھوکوں مر رہے تھے۔ ان کی پشت پر تمام عرب کے مشرک اور اہل کتاب قبائل تھے، اور مسلمان ایک نئے دین کی دعوت دے کر قدیم نظام کے سارے حامیوں کی ہمدردیاں کھو چکے تھے۔ ان حالات میں جو چیز مسلمانوں کو برابر آگے بڑھائے لیے جا رہی تھی، وہ در اصل مسلمانوں کی اخلاقی بر تری تھی جسے تمام دشمنان اسلام خود بھی محسوس کر رہے تھے۔ ایک طرف وہ دیکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کیسے داغ سیرتیں ہیں جن کی طہارت و پاکیزگی اور مضبوطی دلوں کو مسخر کرتی چلی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انفرادی و اجتماعی اخلاق کی طہارت نے مسلمانوں کے اندر کمال درجے کا اتحاد اور نظم و ضبط بھی پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے مشرکین اور یہود کا ڈھیلا نظام جماعت امن اور جنگ دونوں حالتوں میں شکست کھاتا چلا جاتا ہے۔
کمینہ خصلت لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں، اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اسے بڑھا رہی ہیں اور ان کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں، تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں اور اس کی خوبیاں اخذ کریں، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے اس کے اندر بھی اپنے ہی جیسی برائیاں پیدا کر دیں، اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس کے اوپر خوب گندگی اچھالیں تاکہ دنیا کو اس کی خوبیاں بے داغ نظر نہ آئیں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے اس مرحلے پر دشمانان اسلام کی سرگرمیوں کا رخ جنگی کار روائیوں سے ہٹا کر رذیلانہ حملوں اور داخلہ فتنہ انگیزیوں کی طرف پھیر دیا۔ اور چونکہ یہ خدمت باہر کے دشمنوں کی بہ نسبت خود مسلمانوں کے اندر کے منافقین زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتے تھے، اس لیے بلارادہ یا بلا ارادہ طریق کار یہ قرار پایا کہ مدینہ کے منافقین اندر سے فتنے اٹھائیں اور یہود و مشرکین باہر سے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
اس نئی تدبیر کا پہلا ظہور ذی القعدہ ۵ ھ میں ہوا جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب سے تَبْنِیَت ( دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا اور خاندان میں اسے بالکل صُلبی بیٹے کی حیثیت دے دینا۔ ) کی جاہلانہ رسم کا خاتمہ کرنے کے لیے خود اپنے متبنیٰ(زیدؓ بن حارثہ) کی مطَلَّقہ بیوی (زینبؓ بنت حجش) سے نکاح کیا۔ اس موقع پر مدینے کے منافقین پروپیگنڈا کا ایک طوفان عظیم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر سے یہود و مشرکین نے بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر افترا پردازیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے عجیب عجیب قصے گھڑ گھڑ کر پھیلا دیے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم) کس طرح اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے، اور کس طرح بیٹے کو ان کی عشق کا علم ہوا اور وہ طالق دے کر بیوی سے دست بردار ہو گیا، اور پھر کس طرح انہوں نے خود اپنی بہو سے بیاہ کر لیا۔ یہ قصے اس کثرت سے پھیلائے گئے کہ مسلمان تک ان کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ چنانچہ محدثین اور مفسرین کے ایک گروہ نے حضرت زینبؓ اور زید کے متعلق جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں آج تک ان من گھڑت قصوں کے اجزا پائے جاتے ہیں اور مستشرقین مغرب ان کو خوب نمک مرچ لگا کر اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت زینبؓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقی پھوپھی (اُمَیمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں بچپن سے جوانی تک ان کی ساری عمر حضورؐ کی آنکھوں کے سامنے گزری تھی، ان کو اتفاقاً ایک روز دیکھ لینے اور معاذ اللہ ان پر عاشق ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اس واقعہ سے ایک ہی سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ان کو مجبور کر کے حضرت زید سے ان کی شادی ی تھی۔ ان کے بھائی عبداللہ بن حجش اس شادی سے ناراض تھے۔ خود حضرت زینبؓ اس پر راضی نہ تھیں، کیونکہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی بننا قریش کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی طبعاً قبول نہ کر سکتی تھی۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں معاشرتی مساوات قائم کرنے کی ابتدا خود اپنے خاندان سے کریں، نہیں حکماً اس پر راضی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں دوست اور دشمن سب کو معلوم تھیں، اور یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہ تھا کہ حضرت زینب کا احساس فخر نسبی ہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بنا پر ان کا اور زید بن حارثہ کا نباہ نہ ہو سکا اور آخر کار طلاق تک نوبت پہنچی۔ مگر اس کے باوجود بے شرم افترا پروازوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بد ترین اخلاقی الزامات لگائے اور ان کو اس کثرت سے رواج دیا کہ آج تک انکا یہ پروپیگنڈا اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔
اس کے بعد دوسرا حملہ غزوہ بنی الصطَلِق کے موقع پر کیا گیا، اور یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔
بنی المصطلق قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک شاخ تھی جو ساحل بحر احمر پر جدے اور رابع کے درمیان قدید کے علاقے میں رہتی تھی۔ اس کے چشمے کا نام مریسیع تھا جس کے آس پاس اس قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اس مناسبت سے احادیثمیں اس مہم کا نام غزوہ رُرَیسیع بھی آیا ہے۔ نقشے سے اس کی صحیح جائے وقوع معلوم ہو سکتی ہے۔
شعبان ۶ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسرے قبائل کو بھی جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ ایک لشکر لے کر ان کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ فتنے کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسے کچل دیا جائے۔ اس مہم میں عبد اللہ بن ابی بھی منافقوں کی ایک بڑی تعداد لے کر آپ کے ساتھ ہو گیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں منافقین اس کثرت سے شامل نہ ہوئے تھے۔ مریسیع کے مقام پر آنحضرت نے اچانک دشمن کو جالیا۔ اور تھوڑی سی رد و خورد کے بعد پورے قبیلے کو مال اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر بھی مریسیع ہی پر لشکر اسلام پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم (جَہْجَاہ بن مسعود غفاری) اور قبیلہ خزرج کے ایک حلیف (سِنَان بن دَبر جُہنِی) کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا۔ دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ لوگ دونوں طرف سے جمع ہو گئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ لیکن عبداللہ بن اُبی نے جو انصار قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ اس نے انصار کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ ’’ یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے۔ یہ سب کچھ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم لوگوں نے خود ہی انہیں لا کر اپنے ہاں بسایا ہے اور ان کو اپنے مال و جائداد میں حصہ دار بنایا ہے۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں ‘‘۔ پھر اس نے قسم کھا کر کہا کہ ’’ مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کر دے (سورہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے خود اس کا یہ قول نقل فرمایا ہے ) گا ‘‘۔ اس کی ان باتوں کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو قتل کرا دینا چاہیے۔ مگر حضور نے فرمایا: فکیف یا عمر اذا تحدث الناس ان محمد ایقتل اصحابہ (عمر، دنیا کیا کہے گی کہ محمدؐ خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہا ہے )۔ پھر آپ نے فوراً ہی اس مقام سے کوچ کر حکم دے دیا اور دوسرے دن دوپہر تک کسی جگہ پڑاؤ نہ کیا، تاکہ لوگ خوب تھک جائیں اور کسی کو بیٹھ کر چہ میگوئیاں کرنے اور سننے کی مہلت نہ ملے۔ راستے میں سید بن حضَیر نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ، آج آپ نے اپنے معمول کے خلاف نا وقت کوچ کا حکم دے دیا؟‘‘ آپ نے جواب دیا۔ ’’تم نے سنا نہیں کہ تمہارے صاحب نے کیا باتیں کی ہیں ’’۔ انہوں نے پوچھا ’’ کون صاحب؟‘‘ آپ نے فرمایا’’ عبد اللہ بن اُبی ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، اس شخص سے رعایت فرمائیے، آپ جب مدینے تشریف لائے ہیں تو ہم لوگ اس اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ اسی کی جلن وہ نکال رہا ہے ‘‘۔
یہ شوشہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اسی سفر میں اس نے ایک اور خطرناک فتنہ اٹھا دیا، اور فتنہ بھی ایسا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کمال درجہ ضبط و تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے و مدینے کی نو خیز مسلم سوسائٹی میں سخت خانہ جنگی بر پا ہو جاتی۔ یہ حضرت عائشہؓ پر تہمت کا فتنہ تھا۔ اس کا واقعہ خود ان ہی کی زبان سے سنیے جس سے پوری صورت حال سامنے آ جائے گی۔ بیچ بیچ میں جو امور تشریح طلب ہوں گے انہیں ہم دوسری معتبر روایات کی مدد سے قوسین میں بڑھاتے جائیں گے تاکہ جناب صدیقہؓ کے تسلسل بیان میں خلل نہ واقعہ وہ۔ فرماتی ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ سفر پر جانے لگتے تو قرعہ ڈال کر فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے (اس قرعہ اندازی کی نوعیت لاٹری کی سی نہ تھی۔ در اصل تمام بیویوں کے حقوق برابر کے تھے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود کسی کو انتخاب کرتے تو دوسری بیویوں کی دل شکنی ہوتی، اور ان میں باہم رشک و رقابت پیدا ہونے کے لیے بھی یہ ایک محرک بن جاتا۔ اس لیے آپ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ فرماتے تھے۔ شریعت میں قرعہ اندازی ایسی ہی سورتوں کے لیے ہے جب کہ چند آدمیوں کا جائز حق بالکل برابر ہو، اور کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو، مگر حق کسی ایک ہی کو دیا جا سکتا ہو۔ )غزوہ نبی المصطلق کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا اور میں آپ کے ساتھ گئی۔ واپسی پر جب ہم مدینے کے قریب تھے، ایک منزل پر رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑاؤ کیا، اور بھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں اٹھ کر رفع حاجت کے لیے گئی، اور جب پلٹنے لگی تو قیام گاہ کے قریب پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے میں لگ گئی، اور اتنے میں قافلہ روانہ ہو گیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ میں کوچ کے وقت اپنے ہودے میں بیٹھ جاتی تھی اور چار آدمی اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے۔ ہم عورتیں اس زمانے میں غذا کی کمی کے سبب سے بہت ہلکی پھلکی تھیں۔ میرا ہودہ اٹھاتے وقت لوگوں کو یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں۔ وہ بے خبری میں خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ میں جن ہار لے کر پلٹی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھ نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آ جائیں گے۔ اسی حالت میں مجھ کو نیند آ گئی۔ صبح کے وقت سفوان بن معطل سُلَمِی اس جگہ سے گزرے جہاں میں سو رہی تھی اور مجھے دیکھتے ہیں پہچان گئے، کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے بارہا دیکھ چکے تھے۔ (یہ صاحب بدری صحابیوں میں سے تھے۔ ان کو صبح دیر تک سونے کی عادت [ابوداؤد اور دوسری کتب سنن میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کی بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی شکایت کی تھی کہ یہ کبھی صبح کی نماز وقت پر نہیں پڑھتے۔ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ یہ میرا خاندانی عیب ہے، دیر تک سوتے رہنے کی اس کمزوری کو میں کسی طرح دور نہیں کر سکتا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا جب آنکھ کھلے نماز ادا کر لیا کرو۔ بعض محدثین نے ان کے قافلے سے پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی ہے۔ مگر بعض دوسرے محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں ] تھی، اس لیے یہ بھی لشکر گاہ میں کہیں پڑے سوتے رہ گئے تھے اور اب اٹھ کر مدینے جا رہے تھے ) مجھے دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا ’’اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی یہیں رہ گئیں ‘‘۔ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی، لا کر اپنا اونٹ میرے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہو گئے۔ دوپہر کے قریب ہم نے لشکر کو جالیا جب کہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھیرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ میں پیچھے چھوٹ گئی ہوں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگر میں اس سے بے خبر تھی کہ مجھ پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔
( دوسری روایات میں آیا ہے کہ جس وقت صفوان کے اونٹ پر حضرت عائشہؓ لشکر گاہ میں پہنچیں اور معلوم ہوا کہ آپ اس طرح پیچھے چھوٹ گئی تھیں اسی وقت عبداللہ بن ابی پکارا اٹھا کہ ’’ خدا کی قسم یہ بچ کر نہیں آئی ہے، لو دیکھو، تمہارے نبی کی بیوی نے رات ایک اور شخص کے ساتھ گزاری اور اب وہ اسے علانیہ لیے چلا آ رہا ہے ‘‘)
’’مدینے پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اُڑ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی، مگر مجھے کچھ پتہ نہ تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ علیہ و سلم کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے :کیف تیکم(کیسی ہیں یہ؟)۔ خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح کر سکیں۔
ایک روز رات کے وقت حجت کے لیے میں مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت تک ہمارے گھروں میں یہ بیت الخلا نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مِسْطَح بن اُثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھیں۔ (دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہؓ کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے )۔ راستے میں ان کو ٹھوکر لگی اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا غارت ہو مسطح۔ میں نے کہ اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو، اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا’’ بٹیا، کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں ؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افتا پرواز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔ (منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسَّان بن ثابت مشہور شاعر السلام، اور حمنہ بنت حجش، حضرت زینبؓ کی بہن کا حصہ سب سے نمایاں تھا)۔ یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا، وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کاٹی‘‘۔
آگے چل کر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، ’’میرے پیچھے رسول اللہ لی اللہ علیہ و سلم نے علیؓ اور اسامہؓ بن زید کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ اسامہ نے میرے حق میں کلمہ خیر کہا اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، بھلائی کے سوا آپ کی بیوی میں کوئی چیز ہم نے نہیں پائی۔ یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جو اڑایا جا رہا ہے ‘‘۔ رہے علیؓ تو انہوں نے کہا ’’ یا رسول اللہ عورتوں کی کمی نہیں ہے، آپ اس کی جگہ دوسری بیوی کر سکتے ہیں، اور حقیق کرنا چاہیں تو خدمت کار لونڈی کو بلا کر حالات دریافت فرمائیں ‘‘۔ چنانچہ خدمت گار کو بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے ہا ’’ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ستھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی جس پر حرف رکھا جا سکے۔ بس اتنا عیب ہے کہ میں آٹا گوندھ کر کسی کام کو جاتی ہوں اور کہہ جاتی ہوں کہ بیوی ذرا آٹے کا خیال رکھنا، مگر وہ سو جاتی ہیں اور بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے ‘‘۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا’’ مسلمانو ! کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے جس نے میرے گھر والوں پر الزامات لگا کر مجھے اذیت پہنچانے کی حد کر دی ہے۔ بخدا میں نے نہ تو اپنی بیوی ہی میں کوئی برائی دیکھی ہے، اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق تہمت لگائی جاتی ہے۔ وہ تو کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر آیا بھی نہیں‘‘ اس پر اسید بن حُضیر (بعض روایات میں سعد بن مُعاذ)(غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے نام لینے کے بجائے سید اوس کے الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے کسی راوی نے اس سے مراد حضرت معاذ کو سمجھ لیا، کیونکہ اپنی زندگی میں وہی قبیلہ اوس کے سردار تھے اور تاریخ میں وہی اس حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ حالانکہ در اصل اس واقعہ کے وقت ان کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر اوس کے سردار تھے ) نے اٹھ کر کہا ’’یا رسول اللہ، اگر وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں، اور اگر ہمارے بھائی خزرجیوں میں سے ہے تو آپ حکم دیں، ہم تعمیل کے لیے حاضر ہیں ‘‘۔ یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ، رئیس خَزْرَج اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’جھوٹ کہتے ہو، تم ہر گز اسے نہیں مار سکتے۔ تم اس کی گردن کانے کا نام صرف اس لیے لے رہے ہو کہ وہ خزرج میں سے ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلے کا آدمی ہوتا تو تم کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم اس کی گردن مار دیں (حضرت سعد بن عبادہ اگرچہ نہایت صالح اور مخلص مسلمانوں میں سے تھے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے، اور مدینے میں جن لوگوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا تھا ان میں ایک نمایاں شخص وہ بھی تھے، لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود ان کے اندر قومی حمیت [اور عرب میں اس وقت قوم کے معنی قبیلے کے تھے ] بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے عبداللہ بن ابی کی پشت پناہی کی، کیونکہ وہ ان کے قبیلے کا آدمی تھا۔ اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’ الیوم یوم الملحمہ، الیوم تستحل الحرمہ ’’آج کشت و خون کا دن ہے۔ آج یہاں کی حرمت حلال کی جائے گی‘‘، اور اس پر عتاب فرما کر حضورؐ نے ان سے لشکر کا جھنڈا واپس لے لیا۔ پھر آخر کار یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے انہوں نے حضورؐ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں یہ دعویٰ کیا کہ خلافت انصار کا حق ہے، اور جب ان کی بات نہ چلی اور انصار و مہاجرین سب نے حضرت بوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو تنہا وہی ایک تھے جنہوں نے بیعت سے انکار کر دیا اور مرتے دم تک قریشی خلیفہ کی خلافت تسلیم نہ کی [ملاحظہ ہو الاصابہ لابن حجر، اور الاستیعاب لا بن بعدالبر، ذکر سعد بن عبادہ۔ صفحہ۱۰۔ ۱۱]) گے ‘‘۔ اسید بن حضیر نے جواب میں کہا ’’ تم منافق ہو اسی لیے منافقوں کی حمایت کرتے ہو‘‘۔ اس پر مسجد نبوی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ قریب تھا کہ اَوس اور خزرج مسجد ہی میں لڑ پڑتے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کیا اور پھر منبر سے اتر آئے ‘‘۔
حضرت عائشہؓ کے قصے کی باقی تفصیلات ہم اثنائے تفسیر میں اس جگہ نقل کریں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی برأت نازل ہوئی ہے۔ یہاں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی نے یہ شوشہ چھوڑ کر بیک وقت کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق کی عزت پر حملہ کیا۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند ترین اخلاقی وقار کو گرانے کی کو شش کی۔ تیسری طرف اس نے یہ ایک ایسی چنگاری پھینکی تھی کہ اگر اسلام اپنے پیروؤں کی کایا نہ پلٹ چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار، اور خود انصار کے بھی دونوں قبیلے آپس میں لڑ مرتے۔
یہ تھے وہ حالات جن میں پہلے حملے کے موقع پر سورہ احزاب کے آخری ۶ رکوع نازل ہوئے اور دوسرے حملے کے موقع پر یہ سورہ نور اتری۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان دونوں سورتوں کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے تو وہ حکمت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو ان کے احکام میں مضمر ہے۔
منافقین مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے، بجائے اس کے کہ وہاں کے اخلاقی حملوں پر ایک غضبناک تقریر فرماتا، یا مسلمانوں کو جوابی حملے کرنے پر اکساتا، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کر لو۔ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ نکاح زینبؓ کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا۔ اب ذرا سورہ احزاب نکال کر پڑھیے، وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جب کہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں :
۱۔ ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو، اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرے (آیات ۳۲۔ ۳۳ )
۲۔ حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا، اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ (آیت ۵۳ )۔
۳۔ غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ (آیت ۵۵)۔
۴۔ مسلمانوں کو بتایا گیاکہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے۔ (آیت ۵۳۔ ۵۴ )۔
۵۔ مسلمانوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ نبیؐ کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے، اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے (آیت ۵۷۔ ۵۸)
۶۔ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں (آیت ۵۹)۔
پھر جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورہ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھ کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیدا وار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے، اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی، اور معاشرتی تدبیر بیک وقت تجویز کرتا ہے :
۱)۔ زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا (سورہ نساء، آیات ۱۵۔ ۱۶ )، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو ۱۰۰ کوڑے مقرر کر دی گئی۔
۲ )۔ بد کار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا۔
۳ )۔ جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے، اس کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔
۴)۔ شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لِعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
۵)۔ حضرت عائشہ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کر کے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو، اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں ا گر اڑ رہی ہوں تو انہیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہیے، نہ یہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت سے ہی لگ سکتا ہے، خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسولؐ کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب، بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقہ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسولؐ جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے، اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔
۶)۔ جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔
۷)۔ یہ قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہیے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہگار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہکہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے۔
۸)۔ لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں۔
۹) عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا۔
۱۰)۔ عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔
۱۱ ) عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔
۱۲)۔ ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں، بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔
۱۳ ) معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیا ہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں، حتّیٰٰ کہ لونڈیوں ور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔
۱۴ )۔ لونڈیوں ور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتَبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مُکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔
۱۵)۔ لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا،اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔
۱۶) گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح، دوپہر اور رات کے وقت ) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔
۱۷)۔ بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھنی اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں، مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج (جن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے ) سے بچیں۔ نیز انہیں نصیحت کی گئی ہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔
۱۸) اندھے، لنگڑے، لولے، اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھا لے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہو گا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔
۱۹)۔ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا ور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کر دیں جن سے کوئی فتنہ پرواز پھوٹ ڈال سکتا ہوَ
ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین اور مومنین کی وہ کھُلی کھُلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کھا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔
اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورہ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے، مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں، حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں، اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پربھی کس طرح ٹھنڈے تدبّر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے، بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے، کسی ایسی ہستی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب اد کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرتؐ کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے۔
۱: ان سب فقروں میں ’’ہم نے‘‘ پر زور ہے۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ’’ہم‘‘ ہیں۔ اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں، اور جس کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ ’’سفارشات‘‘ نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو۔ تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے۔ بس یہ اس فرمان ِ مبارک کی تمہید (preamble) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تمہید کا اندازِ بیان خود بتا رہا ہے کہ سورۂ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فر ما رہا ہے۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے۔
۲: اس مسئلے کے بہت سے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریعِ الہٰی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے: (۱) زنا کا عام مفہوم، جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے ’’ایک مرد اور ایک عورت، بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتۂ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں‘‘۔ اس فعل کا اخلاقاً برا ہونا، یا مذہباً گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابلِ اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں، اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کر دیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپج کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاقِ رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدّن کا قیام، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد ِ وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔ اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے انسانی نشو نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے، اور تنہا عورت اس بار کو اُٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدّن بھی برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ تمدّن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدّن کی یہ عمارت اُٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلّم عہد و فا پر مبنی نہ ہو، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہی وجوہ سے انسان اِس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب، ایک بڑی بد اخلاقی، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدِّ باب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ (۲) زنا کی حُرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم، یعنی قانوناً مستلزمِ سزا ہونے کا مسئلہ ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کے بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدّن خراب کرتا گیا ہے، رویّہ نرم ہو تا چلا گیا ہے۔ اس معاملے میں اوّلین تساہُل، جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا، یہ تھا کہ ’’محض زنا‘‘ (Fornication ) اور ’’زنا بزنِ غیر‘‘ (Adultery ) میں فرق کر کے، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی، اور صرف مؤخر الذکر کو جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا۔ محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’کوئی مرد، خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو‘‘۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ ہو۔ قدیم مصر، بابِل، آشور(اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہو گئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے۔ کتاب ’’خروج‘‘ میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو پھُسلا کر اس سے مباشرت کر لے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کر لے، لیکن اگر اس کا باپ ہر گز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اُسے دے، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے‘‘۔ (باب ۲۲۔ آیت ۱۶ – ۱۷)۔ کتاب ’’استثناء‘‘ میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کے پچاس مثقال چاندی (تقریباً ۵۵ روپے) تاوان دلوایا جائے(باب ۲۲۔ آیت ۲۸ – ۲۹) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت،Priest ) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی (Everyman’s Talmud, ۳۱۹-۲۰ P.)۔ ’’جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضامندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کر لے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے‘‘ (ادھیائے ۸ اشلوک ۳۶۵، ۳۶۶) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک ۳۷۷)۔ دراصل ان سب قوانین میں زنا بزنِ غیر ہی اصلی اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ یہ تھی کہ اُن دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاطِ نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خر چ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی ناک کاٹ دی جائے۔ قریب قریب ایسی ہی سزائیں بابل، اشور، اور قدیم ایران میں بھی رائج تھیں۔ ہندوؤں کے ہاں عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کو یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے۔ یونان اور روم میں ابتداءً ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کر دے، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان حاصل کر لے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کر دیا جائے، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی ۱/۳ جائداد ضبط کر کے اُسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصّے میں بھیج دیا جائے۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی۔ لیو () اور مارسِیَن () کے دَور میں اِس سزا کو حبسِ دوام میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر قیصر جَسٹینِیَن نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے نکلوا لے، ورنہ ساری عم وہیں پڑا رہنے دے۔ یہودی قانون میں زنا بزنِ غیر کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں: ’’اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کر ے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی‘‘۔ (احبار ۱۹ – ۲۰)۔ ’’جو شخص دوسرے کی بیوی سے، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں‘‘۔ (احبار ۲۰ – ۱۰)۔ ’’اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں‘‘۔ (استثناء ۲۲ – ۲۲)۔ ’’اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسُوب ہو گئی ہو۔ (یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم اُن دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چکی ہو، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبراً اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا‘‘۔ (استثناء ۲۲ – ۲۳ تا ۲۶)۔ لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء، فقہاء، امراء اور عوام، سب اس قانون کو عملاً منسُوخ کر چکے تھے۔ یہ اگرچہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا کہ خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا، مگر اسے عملاً نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا، حتیٰ کہ یہودیوں کی تاریخ میں ا س کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ جب دعوتِ حق لے کر اُٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب ۸، آیت ۱ – ۱۱)۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو کنویں یا کھائی، دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کر دیں۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحتوں کی خاطر خدائی قانون کو بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانو ان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر اُلٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے۔ یہ سُنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی، ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہو گیا ور ’’حاملانِ شرعِ متین ‘‘ کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی ہو گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کرا کے رخصت کر دیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کر تے، نہ اُس پر کوئی شہادت قائم ہو ئی تھی، اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانونِ الہٰی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے، عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور تصور قائم کر لیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ عورت سے کرتے تو یہ گناہ توہے، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو، یا دونوں شادی شدہ ہوں، تو یہ جرم ہے، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل ’’عہد شکنی‘‘ ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اُس نے اُس عہدِ وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طر ف اپنی بیوی پر دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اُس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی د و دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف ’’بے وفائی‘‘ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کر سکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اُس مرد کا بھی ہو گا جو بیوی پر ’’بے وفائی‘‘ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاحِ ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریکِ زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے۔ موجودہ زمانے کے مغربی قوانین، جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں، انہی مختلف تصوّرات پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک زنا، عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہر حال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے، جبکہ فریقِ ثانی کی مرضی کے خلاف زبر دستی اس سے مباشرت کی جائے۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکابِ زنا، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیےہے، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کر لے۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہو تی ہے، اور دونوں پر دعویٰ کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کر سکتا ہے۔ (۳) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جُرم مستلزم ِ سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے ’’عہد شکنی‘‘ کی، یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کی اگر آزادی ہو جائے تو ایک طرف نوعِ انسانی کی اور دوسری طرف تمدّنِ انسانی کی جڑ کٹ جائے۔ نوع کی بقا ء اور تمدّن کے قیام، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابلِ اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی کھلی گنجائش موجود رہے۔ کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں، وہاں ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ اِنہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اِتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے مؤثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بے ٹکٹ سفر کرے تو کم درجے کا مجرم ہے، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ (۴) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کر تا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے، اور یہ قانونی تعزیر اس نے محض ایک آخری چارۂ کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے، اُسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی پیچھا نہیں چھوٹ سکتا، اُس میں قانونِ الہٰی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی اُن بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور نا موافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تا کہ یا تو مصالحت ہو جائے، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کر لیں۔ یہ سب کچھ سورۂ بقرہ، سورۂ نساء، اور سورۂ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسی سورۂ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کر دیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے۔ پھر وہ معاشرے سے اُن اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے، اس کی تحریک کرنے والے، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورۂ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں، اور مسلمان عورتوں کے لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے اُن تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانۂ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبیؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند کیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کر دیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورۂ نور میں اشاعتِ فحش کو بھی روکا جا رہا ہے، قحبہ گری (Prostitution ) کی قانونی بندش بھی کی جا رہی ہے، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جا رہی ہے، غضِّ بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے جا رہے ہیں تا کہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اُس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جُز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیرِ اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کرنا جائز طریقے سے ہی اپنی خواہشِ نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال اُدھیڑ دی جائے، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے اُن بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذوّاقین اور ذوّاقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطۂ نظر سے کوئی شخص اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کر لے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جُز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ کم و بیش کیاجا سکتا ہے۔ اس میں ردّو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کر سکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مُصلح بن بیٹھا ہو، یا پھر وہ مفسد ایسا کر سکتا ہے جس کی اصل نیت اُس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیمِ مطلق نے تجویز کی ہے۔ (۵) زنا کو قابلِ سزا فعل تو سن ۳ ہجری میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت یہ ایک ’’قانونی‘‘ جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ’’معاشرتی‘‘ یا ’’خاندانی‘‘ جرم کی سی تھی جس پر اہلِ خاندان ہی کو بطورِ خود سزا دے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اِس امر کی شہادت دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے، اور عورت کو گھر میں قید کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ ’’تا حکمِ ثانی‘‘ ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، صفحہ ۳۳۱)۔ اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکمِ سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابلِ دست اندازیِ سرکار (Cognizable Offence ) قرار دے دیا۔ (۶) اس آیت میں زنا کی جو سا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل ’’محض زنا‘‘ کی سزا ہے، زنا بعدِ احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہو تی ہے کہ وہ یہاں اُس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورۂ نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ: وَالّٰتِیْ یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآ ئیکُمْ۔۔۔۔۔۔ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا o (آیت ۱۵) تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا: وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْ مِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْ مِنٰتِ۔۔۔۔۔۔ فَاِ ذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَا حِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَ ابِ (آیت ۲۵) اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے مُحصَنٰت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔۔۔۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) مُحْصَنَہ ہو جانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصَنٰت کو (ایسے جرم پر ) دی جائے۔ ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سر دست قید کر نے کا حکم دیا جا رہا ہے، اُن کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورۂ نساء کی مذکورۂ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلۂ بیان میں دو جگہ محصَنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ مانن پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ ’’محصَنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اُس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصَنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق و عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورۂ نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کر دیتی ہیں کہ سورۂ نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کرتا ہے (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۶)۔ (۷) یہ امر کہ زنا بعدِ احصان کی سزا کیا ہے، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے، بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دَور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابۂ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ قرنِ اوّل میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنتِ ثابتہ ہے، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب ِ علم اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کر سکے ہوں، بلکہ وہ اسے ’’قرآن کے خلاف‘‘ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کا قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن الزّانی والزّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی مُحْصِن کو الگ کر کے اس کی کوئی اور سزا تجویز کرنا قانونِ خداوند کی خلاف ورزی ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اُس تشریح کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ ؐ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں السّارق و السّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک سوئی یا ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری والا بھی اگر گرفتار ہو تے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت ۳۹)۔اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے، رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کے خلا ف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو جو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اُ س حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جبکہ اُ س نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اُس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہو نا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے وَاَشْھَدُوْآ اِذَا تَبَا یَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خرید و فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خرید و فروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلافِ قرآن کہتے ہیں۔ نظامِ شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابلِ انکار ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اُس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہو گا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصولِ دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ (۸) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ’’ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کے شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یہ مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے‘‘۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عملِ قومِ لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیتِ زنا سے خارج ہو جاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ’’شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جا سکتی ہو‘‘۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ ’’شرعی یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا‘‘۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم ِ لوط بھی زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو اُن کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے، الّا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاحِ خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاحِ خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم ِ خاص کو ظاہر کر دیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عملِ قوم ِ لوط کی سزا کے بارے میں صحابۂ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلافِ رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ (۹)قانوناً ایک فعلِ زنا کو مستلزمِ سزا قرار دینے کے لیے صرف اِدخالِ حشفہ کافی ہے۔ پورا ا دخال یا تکمیلِ فعل اس کے لیے ضرور ی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حدِّ زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بے حیائی میں مبتلا پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکمِ عدالت خود کرے گا، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو د س کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جا سکتے، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں‘‘ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو عرض کیا کہ ’’شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہا ’’جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تُو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپؐ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ’’نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘ (ہُود، آیت ۱۱۴)۔ ایک شخص نے پوچھا ’’کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے ‘‘ ؟ حضورؐ نے فرمایا ’’نہیں، سب کے لیے ہے۔‘‘ (مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تُو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا ’’یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہو گیا ہوں، مجھ پر حد جاری فرمائیے‘‘۔ مگر آپؐ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تُو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اُٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تُو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی‘‘ ؟ اس نے عرض کیا ’’جیہاں‘‘۔ فرمایا ’’بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد)۔ (۱۰) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے کے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنائے محض کے معاملے میں اور ہیں، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اَور۔ زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل وہ بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حدِ زنا کا مستحق نہیں ہے۔ اور زنا بعد اِحصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہو گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کر چکا ہو، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا یعنی اُس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ بھی ہو چکی ہو۔ صرف عقدِ نکاح کسی مرد کو مُحصِن، یا عورت کو مُحصنَہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کر دیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہُوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہو گا۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہو گی۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف اور اما م احمد اس کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد اِحصان کا مرتکب ہو گا تو رجم کیا جائے گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگسار جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ’’احصان‘‘ کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے ’’اخلاقی قلعہ بندی‘‘، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اوّلیں حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں، اور لاچاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور اسے تسکینِ نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب ’’قلعہ بندی‘‘ مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانونِ خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اُس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اسی دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہَوَیہ نے اپنی مُسنَد میں اور دار قُطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ من اشرک باللہ فلیس بمحصن ’’ جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے‘‘۔ اگر چہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول نقل کیا ہے یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اُس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اُن پر اسلام کا ملکی قانون(Law of the Land ) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal Law ) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی ’’ تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے‘‘ ؟ پھر جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور ؐ نے فرمایا فانی احکم بما فی التوراۃ ’’میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے‘‘۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ما توہ، ’’خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کر دیا تھا‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد، احمد) (۱۱) فعلِ زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و اکراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ’’آدمی جبراً کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے‘‘، بلکہ آگے چل کر اِسی سُورے میں خود قرآن اُن عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی ٔ جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کر دی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو رجم کر ا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑ ے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف ؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام حسنؒ بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر ؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشارِ عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اور انتشارِ عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اُسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبُور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکابِ زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر سکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشارِ عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ؤ رغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبر دستی پکڑ کر قید کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہو جائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کر دیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں؟ اس طرح کے حالات عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی رضا و رغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ حالات تو واقعی اُس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبر دستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو جائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہو تا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔ (۱۲) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کارروائی کرے اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت ِ زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کر سکتا ہے۔ (۱۳) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانونِ مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہو گا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانونِ مملکت نہیں ہے، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کو شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصِن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان ہیں نہ کے کافر، اس لیے وہ حدِّ زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اُس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ (۱۴) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من اتی شیئا من ھٰذہ القاذو رات فلیستتربستر اللہ فان بدیٰ لنا صفحتہ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن، للجصاص)۔ ’’ تم میں سے جو شخص اِن گندے کاموں میں سے کسی کر مرتکب ہو جائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھُپا رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے‘‘۔ ابوداؤد میں ہے کہ ماعزِ بن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہو گیا تو ہزّال بن نُعَیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چنانچہ انہوں نے جا کر حضورؐ سے اپنا جرم بیان کر دیا۔ اس پر حضورؐ نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا لو ستر تہ بثوبک کان خیرًا لک ’’کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا‘‘۔ ابوداؤد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا تعافو االحدود فی مابینکم فما بلغنی من حد فقد وجب ’’حدود کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزمِ حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب ہو جائے گی‘‘۔ (۱۵) اسلامی قانون میں یہ جرم قابلِ راضی نامہ نہیں ہے۔ قریب قریب تمام کتبِ حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہو گیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک ’’تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس‘‘، اور پھر آپؐ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی۔ اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جا سکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصوّر مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔ (۱۶) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت نہ مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بدکاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہر حال اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کانت تظھر فی الاسلام السوء۔ دوسری روایت میں ہے کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ کی روایت ہے فقد ظھر منھا الرّبیۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا و من یدخل علیھا۔ لیکن چونکہ اس کے خلاف بدکاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی، حالانکہ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ لو کنت راجمًا احدًا بغیر بینۃ لرجمتھا، ’’ اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا‘‘۔ (۱۷) جرمِ زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہے کہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں: الف۔قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورۂ نساء آیت ۱۵ میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورۂ نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کر سکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔ ب۔گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں۔ مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہو چکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو، وغیرہ۔ بہر حال ناقابلِ اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جا سکتے ہیں۔ ج۔گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالتِ مباشرت میں دیکھا ہے، یعنی کالمیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی)۔ د۔ گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو، کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کر دیتا ہے۔ شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے کہ جبکہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بے حیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔ (۱۸) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا، جبکہ عورت کو کوئی شوہر، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثابت زنا کے لیے کافی شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کر دیا جائے یا کسی کی پیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ادفعوا الحدود ما وجدتم لھا مدفعا، ’’سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ‘‘ (ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ادرؤ ا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہٗ مخرجٌ اسبیلہ، فان الامام ان یخطیٔ فی العفو خیر من ان یخطیٔ فی العقوبۃ، ’’مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے‘‘ (ترمذی)۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہر حال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔ (۱۹) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہو جائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا اُلٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں ۸۰ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں نہ کہ مدّعی کی حیثیت سے۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچانے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ آخر کس ی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جبکہ اس امر کا یقین کسی کو بھی نہیں ہو سکتا کہ چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹُوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دُوسری رائے معقول ہے، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا بر سا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجبِ سزا قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے، اور شاہد محض اس پنا پر قاذف قرار نہیں پا سکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوتِ جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کے مقدمے میں حضرت عمرؓ نے ابوبَکرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اُس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں ناکافی پائی جائیں۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مُغیرَہ بن شُعبہ سے ابوبکرہ کے تعلقات پہلے سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابوبکرہ اپنی کھڑکی بند کر نے کے لیے اُٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابوبکرہ کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ، زیاد، اور شِبل بن مَعبَد ) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابوبکرہ نے کہا اُمِّ جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمرؓ کی پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فوراً حضرت مغیرہ کو معطّل کر کے حضرت ابوموسیٰ اَشعَری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کر لیا۔ پیشی پر ابوبکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو اُمِّ جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ امِّ جمیل تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کر دیا کہ جس رُخ سے یہ لوگ اُنہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور اُمِّ جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن خود بتا رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی حکومت میں ایک صوبے کا گورنر، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی تھی، ایک غیر عورت کو بُلا کر زنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ابوبکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے بجائے امِ جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں، ایک نہایت بے جا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابوبکرہ، نافع اور شِبل پر حدِّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرمِ زنا ثابت نہ ہو تو گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی، جلد ۲، صفحہ ۸۸ – ۸۹)۔ (۲۰) شہادت کے سوا دوسری چیز جس سے جرمِ زنا ثابت ہو سکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعلِ زنا کے ارتکاب کا ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت کو پوری طرح یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دباؤ کے بغیر بطورِ خود بحالتِ ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے(یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ، اسحاق بن راہَوَیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے)۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے( امام مالک، امام شافعی، عثمان البتّی اور حسن بصری وغیرہ اس کے قائل ہیں)۔ پھر ایسی صورت میں جب کہ کسی دوسرے تائید ی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دَوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اِس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ عِز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدّد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلۂ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہزال بن نُعیَم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کر دہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزّال نے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے اس گناہ کی خبر دے، شاید کہ آپ تیری لیے دعائے مغفرت فرما دیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضورؐ سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کر دیجیے، میں نے زنا کی ہے۔ آپؐ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ۔ ’’ارے، چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر‘‘۔ مگر اس نے پھر سامنے آ کر وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تُو نے اقرار کیا تو رسول اللہ تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دُہرائی۔ اب حضورؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فرمایا لعلک قبلت او غمزت او نظرت، ’’شاید تُو نے بوس و کنار کیا ہو گا یا چھیڑ چھاڑ کی ہو گی یا نظرِ بد ڈالی ہو گی‘‘ (اور تُو سمجھ بیٹھا ہو گا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے)۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے پوچھا ’’کیا تُو اُس سے ہم بستر ہُوا؟ ‘‘ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ’’کیا تُو نے اس سے مباشرت کی؟‘‘ اُس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ’’کیا تُو نے اس سے مجامعت کی؟‘‘ اس نے کہا ہاں۔ پھر آپؐ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعلِ مباشرت ہی کے لیے بولا جاتا ہے، اور یہ فحش لفظ حضورؐ کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سُنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا۔ مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپؐ نے پوچھا حتیٰ غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اُس چیز میں غائب ہو گئی؟)۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر، پوچھا کما یغیب المیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہو گئی جیسے سُرمہ دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی؟) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا ’’کیا تُو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’ جی ہاں، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔ آپؐ نے پوچھا ’’ کیا تیری شادی ہو چکی ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے پوچھا ’’تُو نے شراب تو نہیں پی لی ہے؟‘‘ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اُٹھ کر اس کا منہ سُونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپؐ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپؐ نے ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیر الک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپؐ نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کر دیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعِز بھاگا اور اس نے کہا ’’لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے‘‘۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضورؐ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا، میرے پاس لے آئے ہوتے، شاید وہ توبہ کر تا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا‘‘۔ دوسرا واقعہ غامِدِیّہ کا ہے جو قبیلہ غامِد (قبیلۂ جُہَینَہ کی ایک شاخ ) کی عورت تھی۔ اُس نے بھی آ کر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے۔ آپؐ نے اُس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ ( ’’اری چلی جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر‘‘ )۔ مگر اس نے کہا ’’یا رسول اللہ کیا آپ نے مجھے ماعز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں‘‘۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا، اس لیے آپؐ نے اُس قدر مفصّل جرح نہ فرمائی جو ماعز کے ساتھ کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا ’’اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضعِ حمل کے بعد آئیو‘‘۔ وضعِ حمل کے بعد وہ بچے کے لے کر آئی اور کہا اب مجھے پاک کر دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ’’جا اور اس کو دودھ پلا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آئیو‘‘۔ پھر وہ دودھ چھٹانے کے بعد آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی۔ بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے۔ تب آپؐ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابوداؤد میں حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ صحابۂ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر ۱۵ میں کر چکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ’’ جا کر اس کی بیوی سے پوچھ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے‘‘۔ اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔ (۲۱) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بے چین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریقِ ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ انکار کر دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہو گا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اِس دوسری صورت میں(یعنی جبکہ فریقِ ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اُس پر آیا حدِّ زنا جاری کی جائے گی یا حدِّ قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حدِّ زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریقِ ثانی کے انکار نے اس کے جرم ِ زنا کو مشکوک کر دیا ہے، البتہ اس کا جرمِ قذف بہرحال ثابت ہے۔ اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے ( امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) کہ اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرمِ زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریقِ ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کر سکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مُسنَد احمد اور ابوداؤد میں سَہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’ ایک شخص نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپؐ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا‘‘۔ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابوداؤد اور نَسَائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپؐ نے حدِّ زنا جاری کی، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حدِّ قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھیرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپؐ نے اسے کوڑے لگوا نے کے بعد عورت سے پوچھا ہو گا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا، جسے حضُورؐ نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔ (۲۲) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں : *** شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا : *** -----امام احمد، داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔ -----باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ *** غیر شادی شدہ کی سزا : *** ------امام شافعی، امام احمد، اسحاق، داؤد ظاہری، سفیان ثوری، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، مرد عورت ہر دو کے لیے۔ ------امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک مرد کے لئے ١۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی۔ اور عورت کے لئے صرف سو کوڑے۔ (جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کر دینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے ) ----- امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مر اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے، یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کر سکتا ہے اور قید بھی کر سکتا ہے۔ (حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کر دی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کم بیشی کر سکتی ہو) ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : حضرت عبادہ بن صامت کی روایت، جسے مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : خذو ا عنی خذو اعنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم(اور می بالحجارۃ۔ او رجم با لحجارۃ) ’’ مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کر دیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سل کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری‘‘ (یہ حدیث اگر چہ سنداً صحیح ہے، مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا، نہ عہد خلفائے راشدین میں، اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن)، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت، جسے بخاری، مسل ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہو گیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر ہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضورؐ نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اورت ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اسے انیس، تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چنانچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کر دی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے )۔ ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔ حضرت عمرؓ کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور سے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے، بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں، مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔ خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علیؓ نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عمر شعبی سے یہ واقعہ نقل کر تے ہیں کہ ایک عورت شراحَہ نامی نے نا جائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علیؓ نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔ جابر بن عبداللہ کی ایک روایت، جسے ابو داؤد اور ندائی نے نقل کیا ہے، یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو صرف سزائے تازیانہ دی، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔ حضرت عمرؓ نے زبیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علیؓ نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کنے سے نکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن، جصاص، جلد۳، صفحہ ۳۱۵ )۔ ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؓ اور ان کی اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے، یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے، اور محض زنا کی حد صرف ۱۰۰ کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا، تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت ہو جاتی ہے۔ ۲۳) :ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ : فَاجْلِوُ وْ ا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جِلد(یعنی کھال ) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جِلد تک رہے، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے، قرآن کے خلاف ہے۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالکؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا : فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ)۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا، جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہو چکا تھا / اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان الجہدی نے حضرت عمرؓ کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج ۳۔ ص ۳۲۲ )۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دو شاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔ مار بھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمرؓ مار نے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ : لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ ’’ اسطرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے ‘‘۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار(احکام القرآن ابن عربی۔ ج ۲ ص ۸۴۔ احکام القرآن جصاص، ج ۳۔ ص ۳۲۲)۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہی بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا ’’ ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘۔ دوسری روایت میں ہے ’’ صرف سر اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘ (احکام القرآن جصاص، ج ۳۔ ص ۳۲۱)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اذا ضرب احد کم فلیتق لوجہ۔ ’’جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے ‘‘ (ابو داؤد)۔ مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھیرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے )۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی، بلکہ اس کے پکڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اُتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا ’’ اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے ‘‘، اور یہ کہہ گر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا ’’ اسے قمیص نہ اتارنے دو‘‘۔ (احکام القرآن جصاص، ج ۳۔ ص ۳۲۲)۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔ باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے، الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمانے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الا مۃ تضرید ولا مدّ۔ ‘‘ اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے۔ فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔ مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا منا سب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر، مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاء و معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی(ج ۱۔ ص ۴۴۔ ۴۵)۔ اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی، یا سوتیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ کار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک بوڑھا مرض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)۔ حاملہ عورت کو سزائے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے، سزا نہیں دی جا سکتی۔ اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے، اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علیؓ نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا ’’ اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کا مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی، مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے اس اس لیے میں خود ابتدا کروں گا‘‘۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے، مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔ ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں، جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں ۳۰ ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سُرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس ’’مہذب‘‘ سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو ’’وحشیانہ‘‘ سزا کے نام سے یاد فرمائیں، پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں )جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ۲۴) : رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہو گا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز بن مالک کی موت واقع ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی‘‘۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسْتغفرو ا لما عزبن مالک۔۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لو سعتھم، ’’ ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضورؐ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا : مھلا یا خالد، فوالزی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس الغفرلہ ’’ خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا‘‘۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضورؐ راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضورؐ ٹھیر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا ’’ آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے ‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ اپنے بھائی ی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بدر تر چیز تھی‘‘۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ آپ نے فرمایا : لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لو سعتھم، ’’ اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا ’’ خدا تجھے رسوا کرے ‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ اس طرح نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو‘‘۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے حضورؐ نے فرمایا ’’ بلکہ یوں کہ : اللہمَّ اغفرلہ، اللہمَّ ارحمہ۔ ’’ خدایا اسے معاف کر دے، خدایا اس پر رحم کر‘‘۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے، اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے، اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھیرا دے، اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کیس کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پور اخلاقی جرأت ( یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے ) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔ ۲۵) : محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۳۳۶ پر، اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ ۵۱۔ ۵۴ پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھیراتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑ ا گیا ہے، یا مملکت کی مجلد شوریٰ ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کر سکتی ہے۔
۳: اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ’’ دین اللہ‘‘ فر مایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں کود دین اللہ رد کر دیا گیا۔ دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنبیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سو طافیقال لہ لِمَ فعلت ذٰلک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہٖ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سو طافیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومربہٖ الی النار۔ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘ (تفسیر کبیر۔ ج ۶۔ ص ۲۲۵) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا ’’ لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ‘‘ (نسائی و ابن ماجہ)۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔
۴: یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءًمبِمَا کَسَبَا نَکَا لًامِّنَ اللہِ۔ ’’ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا‘‘ (آیت ۳۸) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جواس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں۔
۵: یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے، یا پھر مشرکہ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں۔ اسی طرح زانیہ (غیر تائبہ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد ’’ زانی‘‘ ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی۔ زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے، نہ یہ کہ اس کم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال، ’’ حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا‘‘ (طبرانی، دارقطنی) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے، وہ بھی بد کار قرار پائے۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون (Out law) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔ اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے۔ آیت کا منشا در اصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔ آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی۔ ترمذی اور ابو داؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کر لیں اور حضور سے اجازت مانگی۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد، الزانی لا ینکح الازانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ جو شخص دیوث ہو( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (احمد، نسائی، ابو داؤد اور طیالِسی)۔ شیخین، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا : قبحک اللہ، الا سترت علی ابنتک، ’’ تیرا برا ہو، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا‘‘ ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکرؓ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں (جلد ۲۔ ص ۸۶)۔
۶: اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرط لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کر دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کر دینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جوق کسی جرم پر نہیں دی جاتی۔ اورع دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر اسّی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔ اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں : ۱: آیت میں الفاظ ’’ سَالَّذِیْنَ یَرْمُوْ نَ ‘‘ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں ’’ وہ لوگ جو الزام لگائیں ‘‘۔ لیکن سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم اک الزام نہیں، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں ’’الزام‘‘ سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے، جس کے لیے علماء نے ’قَذْف‘‘ کی مستقل اصطلاح مقرر کر دی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار، یا کافر کہہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ ’’ قذف‘‘ کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کر سکتا ہے، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسبِ ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔ ۲ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ) استعمال ہوئے ہیں، لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذِف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہو گی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں )۔ ۳ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہو گا جب کہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر ’’ الزام‘‘ لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کر سکتا ہے، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔ ۴ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے ) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے ) میں، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جاری ضروری ہیں۔ قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہو تو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جا سکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہو گا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کر دینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو ۸۰ کوٹوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔ مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہو جائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امم لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہر حال وہ ایک بے ثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا، یا جواب پر اس امر کا الزام لگان کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تبتو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہو جاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پریہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے، کیونکہ غلام کی بے بسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کر سکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو اِحصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے، چنانچہ سورہ نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہو چکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کر چکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہو سکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہو چکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہو جاتی ہے، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا ۸۰ کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہو جائے، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔ مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے، یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔ اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو مقذوف پر حد واجب ہو جائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر، بد کار، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی، کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ’’ہاں، مگر میں تو زانی نہیں ہوں ‘‘، یا ’’میری مان نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے ‘‘ امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آ جائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے، قذف ہے جس پر حد واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب، اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمَہ، اور حسن بن صالح اس بات کی قائل ہیں کہ تعریض میں بہر حال شک کی گنجائش ہے، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’’ نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی ‘‘۔ معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمرؓ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کر دی (جصاص ج۳، ص ۳۳۰)۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوطؑ کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔ ۵: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار ) (Cognizable Offence ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حقُ اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہر حال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے تو حد جاری کرنا واجب ہے، لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اَوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے، ورنہ اس پر کار روائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔ ۶ : جرمِ قذف قابل راضی نامہ (Compoundable Offence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آ جانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گ۔ نہ عدالت اس کو معاف کر سکتی ہے اور نہ خود مقذوف، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحد ود فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ ’’ حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہو گئی ‘‘۔ ۷ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کر سکتا ہے، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں، اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دورے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم بے عزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ ۸: یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر، یا اندھے، یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہو جائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہو جائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف، اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب، ساری ہی چیزیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جا سکے گا۔ ۹ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کر سکے جو اسے جرم قذف سے بری کر سکتی ہو،اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ ۸۰ کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہکی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ چَابُوْ ا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَقَسْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ گَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے )۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہو گی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہو جانے کے بعد فاسق ہوتا ہے، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے )۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ ’’ قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے ‘‘۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کر لے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شُریح، سَعید بن مُسَّٰب، سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول، عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ، ابو یوسف، زُفَر، محمد، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہو گا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس، مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد، سالم، زُہری، عِکْرِمَہ، عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح، سلیمان بن یَسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس، عثمان البتّی، لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کر لو (یا ’’اپنے جھوٹ کا اقرار کر لو‘‘ ) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کر لیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کر چکے ہیں اس پر گور کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہ بن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کر چکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بے جا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہو جائے وہ بھی حضرت عمرؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہو سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتا رہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اُولٰٓئیکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو‘‘، ’’اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو‘‘۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : ’’ وہ خود ہی فاسق ہیں ‘‘۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ ’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کر لیں ‘‘، خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے، تو پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’شہادت قبول نہ کرو‘‘ کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا، ’’ اسّی کوڑے مارو‘‘ کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔ ۱۰ : سوال کیا جا سکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوا کا استثنا ء آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کر لے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُ رَّحِیْمُ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہو گی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ در اصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو تم انہیں چھوڑ دو، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کر لیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا؟ ۱۱ : یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی بنا پر فاسق ٹھیرایا جائے، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہ گار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کر دیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہو گا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کر سکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہر حال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔ ۱۲ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو ۸۰ ہی ہوں، مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہر حال یقینی نہیں ہے۔ ۱۳ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہو گی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پر ایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ ’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علیؓ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جا سکتا، اور حضرت عمرؓ نے ان کی رائے قبول کر لی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہو گیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جا سکتا ہے، سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔ ۱۴ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پربھی الزام لگائے، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ’’ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہو سکتا جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول،جس میں شعبی اور اَوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔
۷: یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کر سکتا ہے، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھیرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کر سکتا ہے، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دکھوں تو گواہوں کی تلاش میں ہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم)۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آ گئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمرؓ کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمیر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کر دیں گے، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کر دیں گے، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضورؐ نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم، بخاری، ابو داؤد، احمد، نسائی)۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ بالا بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی‘‘۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، احمد، ابو داؤد)۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’’لِعان‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حکم آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی لِعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کار روائی کا ماخذ ہیں۔ بلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بہو، دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضورؐ نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا ’’خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے ‘‘۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ اچھا، تو ان دونوں میں ملاعَنَت کرائی جائے ‘‘۔ چنانچہ پہلے بلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھائی ............ نبی صلی اللہ الیہ و سلم اس دوران میں بار بار فرماتے رہے ‘‘ اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا؟ ‘‘ پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے بلال سے کہا ’’خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی‘‘۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھا لی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قومیں کھانی شروع کیاں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ ’’ خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کر لینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی‘‘۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی ’’ میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی‘‘ اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہو گا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا، کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہو گا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہو گا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے، اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضورؐ نے فرمایا لولاالاُیمان (یا بہ روایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان، یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کر چکی ہوتی)تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔ عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن عد ساعِدی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضورؐ نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا‘‘ ؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا ’’ یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضورؐ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضورؐ نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ ’’ یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے ‘‘۔ اور سنت یہ قائم ہو گئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کر دیا جائے، پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔ ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص کے مقدموں کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں، مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔ ابن عمر ایک مقدمے کی رو داد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کر چکے تو بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی (بخاری، مسلم، نسائی، احمد، ابن جریر)۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صف ماں کا ہو گا (صحاح ستّہ اور احمد)۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضورؐ نے فرمایا ’’ تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے، تم میں سے ایک بہر حال جھوٹا ہے ‘‘۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا: لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہتو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے، نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے )۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا )۔ فرمایا : لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فوجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے، اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے ) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے : ’’ سنت یہ مقرر ہو چکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے ‘‘ (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا)۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو نا جائز قرار دیا، پھر اعتراف کر لیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے، پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ ؤُ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا (دار قطنی، بیہقی)۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا طلاق دے دے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا)۔ نسائی۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ہو میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تا ورنہ بیوی پر زان کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی)۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں، بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہو گا اور اسی کا اثر ان میں آگیا)۔ فرمایا ’’شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی ‘‘ اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار ) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم، احمد، ابو داؤد)۔ ابو ہریرہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا ’’جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھُسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے ) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں، اللہ اس کو جنت میں ہر گز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی)۔ آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامّہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنا یا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں : ۱): جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہو جائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو طور حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہو گا بہ شرط یہ کہ اس کی صداقت ثابت ہو جائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا)۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جب کہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے، یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کر چکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار، ج ۶، ص ۲۲۸)۔ ۲) : لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔ ۳) : لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کر سکتی ہے جب کہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ ۴): کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہو سکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں، اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہو سکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں، یا غلام ہوں، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پرکسی مرد سے ملوث ہو چکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہو گا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قومیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے، اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کر لے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کر دینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو جس پہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر، اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی، یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے یے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے، یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بے جا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہو جائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھا لے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کر دیا جائے، کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگا تے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔ ۵): لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا، بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جب کہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے نکار کر دے۔ امام مالک اور لَیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید نے بنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔ ۶) : اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے قید کر دیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے، اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لَیث بن سعد کی رائے یہ ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آ جاتی ہے۔ ۷): اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے، یا پھر زنا کا اقرار نہ کر لے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کر دیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہو گا جب کہ وہ بھی قسم کھا لے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں ’’ عذاب‘‘ کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جانے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں، مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہو جائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کر دیتا ہے، لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے، جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار یعنی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔ ۸) : اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہو جائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں، اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔ ۹) : امام مالک، امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کر دینا چاہیے، کیونکہ نس اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کر دیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔ ۱۰) : اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کر لینے کے بعد (خواہ یہ قبول کر لینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال، مثلاً پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں ) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا،اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہو جاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جب کہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے، اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کر سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہو گا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے، اس کے بعد یہ حق ساقط ہو جائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بے معنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا جا سکتا ہے، الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جا سکے۔ ۱۱) : اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہو گا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جب کہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔ ۱۲): لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں، اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ متفق علیہ نتائج یہ ہیں : عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہو گا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہو گی اور وہ ماں کا وارث ہو گا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہو گا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہو گا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہو گا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہو گی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہو جائے گی۔ اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہو گی؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہو جانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہو جائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہو جاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک، لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہو جاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک، ابو یوسف، زمر، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں، دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کر سکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عند اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر، ابو حنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہو جائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں، حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہو گیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔
۸: اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے۔ اِفک کے معنی ہیں بات کو الٹ دینا، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں۔ ' یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضورؐ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے۔ حضور نے فرمایا عائشہ،مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں، کیا کہوں۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوبؑ کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چاہ ر ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسفؑ کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل (اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کہ حضرت یعقوبؑ کے سامنے ان کے بیٹھے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا۔ سور یوسف، رکوع ۱۰ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکایک حضورؐ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئے۔ میں تو بالکل نے خوف تھی۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضورؐ بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ، اللہ نے تمہاری براءت نازل فرما دی۔ اور اس کے بعد حضورؐ نے دس آیتیں سنائیں (یعنی آیت نمبر ۱۱ سے نمبر ۲۱ تک)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے )۔ اس موقع پر یہ نکتۂ لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے در اصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے جسے نُقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو ہو گواہی لائے۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر ۸۰ کوڑے برسا دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں۔
۹: روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے۔ عبد اللہ بن ابی۔ زید بن رفاعہ(جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹھا تھا)۔ مِسْطَح بن اُثاثہ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑ گئے تھے۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا۔
۱۰: مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے فید ثابت ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں، منافقین نے یہ شو شہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دین جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے، دوسری طرف حضرت ابو بکر اور ان کے خاندان والوں نے، اورع تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابطہ و متحمل، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو، جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔ حضرت ابو بکر کا اپنا رشتہ دار، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ، خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ’’ ایوب کی ماں ‘‘ اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ‘‘ ؟ وہ بولیں ‘‘ خدا کی قسم میں یہ حرکت ہر گز نہ کرتی‘‘۔ حضرت ابو ایوب نے کہا ’’ تو عائشہ تم سے بدر جہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ‘‘۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا۔ پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا۔ اس کی بدولت مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اور پیدا ہو جائیں تو ان کا بر وقت تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیب داں نہیں ہیں، جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں، اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے، ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہؓ کے معاملے میں سخت پریشان رہے۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے، کبھی ازواج مطہرات سے، کبھی حضرت علیؓ سے اور کبھی حضرت اسامہؓ سے۔ آخر کار حضرت عائشہؓ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ کچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو وہ علم حاصل ہو گیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچا نے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو۔ اول روز ہی وحی آ جاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔
۱۱: یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول، منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔
۱۲: یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول، منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔
۱۳: یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اگر چہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پر جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں، اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کرین گے۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔
۱۴: ’’اللہ کے نزدیک ‘‘ یعنی اللہ کے قانون میں، اللہ کے قانون کے مطابق۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا، اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں۔ اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے، یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے، بلکہ صرف اس بنیاد پر انتا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بتھا کر دن دہاڑے، ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو۔ ورنہ قرائن، جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے۔
۱۵: ان آیات سے، اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے کہ ’’ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے گ وہ کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا‘‘ یہ قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں تمام معاملات کی بنا حسنِ ظن پر ہونی چاہیے، اور سوءِ ظن صرف اس حالت میں کیا جانا چاہیے جب کہ اس کے لیے کوئ ثبوتی و ایجابی بنیاد ہو۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص نے گناہ ہے جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو۔ اور ہر شخص اپنی بات میں سچا ہے جب تک کہ اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو۔
۱۶: موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پربھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔
۱۷: یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے۔ در اصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔
۱۸: یعنی شیطان تو تمہیں برائی کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لیے اس طرح تُلا بیٹھا ہے کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھائے اور تم کو اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے بل بوتے پر پاک نہ ہو سکے۔
۱۹: یعنی اللہ کی یہ مشیت کہ وہ کسے پاکیزگی بخشے، اندھا دھند نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کس میں بھلائی کی طلب موجود اور کون برائی کی رغبت رکھتا ہے۔ ہر شخص اپنی خلوتوں میں جو باتیں کرتا ہے انہیں اللہ سن رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے دل میں بھیجو کچھ سوچا کرتا ہے، اللہ اس سے بے خبر نہیں رہتا۔ اسی براہ راست علم کی بنا پر اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے پاکیزگی بخشے اور کسے نہ بخشے۔
۲۰: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابو بکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے، کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابو بکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انانحب ان تغفرلنا یا ربنا، ’’واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ‘‘۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابو بکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے، پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے، اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فوأی غیر ھا خیر ا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہٗ۔ (جو شخص کسی بات کی قسم کھا لے، پھر اے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے )۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم فرما چکا ہے (البقرہ، آیت ۲۲۵ المائدہ، آیت ۸۹) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکرؓ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نا مناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے، چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہہ کر دیتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فرّی غیرھا خیر منھافلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہٖ (جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے، اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز۔ ایک چیز کا کفارہ بھائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ ص، حاشیہ ۴۶)
۲۱: اصل میں لفظ ’’غافلات ‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے جس سے مراد ہیں وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں، جن کے دل پاک ہیں، جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے، جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر ابھی الزام لگا بیٹھے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’ موبقات‘‘ (تباہ کن) ہیں۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ، ’’ ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔
۲۱a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۵۵۔ حٰم السجدہ، حاشیہ ۲۵ )۔
۲۲: اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو۔ اس کے تو اطوار، عادات، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار، گفتار، انداز، اطوار، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت وے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے، کیا الزام لگایا جا رہا ہے، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کی ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرواز لوگ کر رہے ہیں۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے۔ لین ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے۔
۲۳: سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اب وہ احکام دیے جا رہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کر دیا جائے جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں : اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا در اصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنا جانا بند کیا جائے، اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے، عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ دروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کر دیا جائے، قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے، مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے، اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بے پر دگی، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں، ان کے دل، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے (Scandal) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی، ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا۔ دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کر دینے، یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں، یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پا بندیا ں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔ وہ صرف محتسب (Prosecutor) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد، مصلح اور مدد گار بھی ہے، اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔
۲۴: اصل میں لفظ : حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے، جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے، لیکن در حقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو ‘‘اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا مطلب کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا، یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو‘‘، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجائے ’’ رضا لینے ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔
۲۵: جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حّیِّیتم صَبَا حاً، حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام بخیر) کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نا دیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں : ۱ : حضورؐ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبان (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کر دہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن، ’’ جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا موقع رہا‘‘ (ابو داؤد)۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک، فانما الا ستیذان من النظر‘‘، پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ‘‘ (ابو داؤد)۔ حضورؐ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پر دے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد )۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضورؐ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حجورؐ نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما یجظر فی لنار، ’’ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ‘‘ (ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح، ’’ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ‘‘۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذانھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ، ’’ جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤاخذہ نہیں ‘‘۔ امام شافعیؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پردہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا (احکام القرآن جصاص۔ ج۳۔ ص ۳۸۵)۔ ۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے۔ ۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہتوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ، ’’ کیا تو پسند کرتا ہے کہاپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟‘‘(ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً )۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)۔ ۴ : اجازت طلب کرنے کے حکم ے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جائے، مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں۔ ۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا : أألج (کیا میں گھر میں گھس آؤں؟) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أأدخل (ابن جریر۔ ابو داؤد )۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرتؐ کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ’’ میں ہوں ‘‘۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا: ’’میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ ‘‘ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو(ابو داؤد )۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام ے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے ’’السلام علیہ یا رسول اللہ، اید خل عمر (ابو داؤد )۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پربھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ (بخاری، مسلم، ابو داؤد )۔ یہی حضورؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعیہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے مرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو داؤد۔ احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے، بلکہ ذرا ٹھیر ٹھیر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔ ۶ : اجازت یا تو خود صاب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے۔ ۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھٹے ہو جانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ نہ ملے، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔
۲۶: یعنی کسی کے خالی گھر میں داخل ہو جانا جاؑز نہیں ہے، الا یہ کہ صاحب خانہ نے آدمی کو خود اس بات کی اجازت دی ہو۔ مثلاً اس نے آپ سے کہہ دیا ہو کہ اگر میں موجود نہ ہوں تو آپ میرے کمرے میں بیٹھ جائیے گا، یا وہ کسی اور جگہ پر ہو اور آپ کی اطلاع ملنے پر وہ کہلا بھیجے کہ آپ تشریف رکھیے، میں ابھی آتا ہوں۔ ورنہ محض یہ بات کہ مکان میں کوئی نہیں ہے، یا اندر سے کوئی نہیں بولتا، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کر دیتی کہ وہ بلا اجازت داخل ہو جائے۔
۲۷: یعنی اس پر برا نہ ماننا چاہیے۔ ایک آدمی کو حق ہے کہ وہ کسی سے نہ ملنا چاہے تو انکار کر دے، یا کوئی مشغولیت ملاقات میں مانع ہو تو معذرت کر دے۔ اَرْجِعُوْا (واپس ہو جاؤ) کے حکم کا فقہاء نے یہ مطلب لیا ہے کہ اس صورت میں دروازے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ آدمی کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے کو ملاقات پر مجبور کرے، یا اس کے دروازے پر ٹھیر کر اسے تنگ کرنے کی کوشش کرے۔
۲۸: اس سے مراد ہیں ہوٹل، سرائے، مہمان خانے، دوکانیں، مسافر خانے وغیرہ جہاں لوگوں کے لیے داخلہ کی اجازت ہو۔
۲۹: اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِنْ اَبْسَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : ۱ : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ نان لک الاولی ولیست لک ا لاٰخرۃ، ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف ہیں ‘‘(احمد، ترمذی، ابو داؤد، دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو، یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموہِ، من تکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہٖ ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں سے کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : مامن مسلم ینظر ا الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باق سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راست میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑی کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد، ترمذی)۔ ۲: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعر فنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عر فنی فخمرت وجھی بجلبابی، ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر، سیرت ابن ہشام)ابو داؤد، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی، ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی رویت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ‘‘۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتیں غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔ ۳ : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کیس عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بیجکما، ’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصر شیئاً، ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابرؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا :اذا خطب احد کم المرأۃ فَقَدَرَاَن یریٰ منھا بعض ما ید عوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، ’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔ ۴ : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المأۃ الیٰ عورۃ مرأۃ، ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذحی ولا میت، ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ )۔
۳۰: شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ناف سے کھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّ تہ الیٰ رکبتہٖ، ’’ مرد کا ستر اس کی ناف سے کھٹنے تک ہے ’’ (دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرھَدِاَسْلمی، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ، ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے قابل چیز ہے ‘‘؟ (ترمذی، ابو داؤد، مؤطا )۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تُبرِز (یا لا تکشف) فخذک، ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولاتعری فان معکم من لا یفار قکم الا عندالغائط وحین یفضی الرجلالیٰ اھلہٖ فا ستحیوھم وا کرمو ھم، ’’ خبر دار، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سوائے اس وقت کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : احفظ عورت کالا من زوجتک او ما ملکت یمینک، ‘‘ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستھیامنہ، ’’ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے ہ اس سے شرم کی جائے، ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔
۳۱: عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں، یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے، نگاہ پڑ جائے تو ہٹا لینی چاہیے، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا حتجبا منہ، ’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ الیس اعمیٰ لا یبصرناو لایعرفنا، ’’ یا رسول اللہ، کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہٖ، ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ : ذٰالک بعد ان اُمِرا بالحجاب، ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا ‘‘۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا: لٰکنی نظرالیہ، ’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ ۷ ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری، مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں، )لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں۔ رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔ تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکوگی ‘‘ (مسلم، ابو داؤد)۔ ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے۔ راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے۔ اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آ جائے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ شو لکا نی نیل لاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں، بازاروں میں، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں، مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ‘‘ (جلد۶۔ صفحہ ۱۰۱)۔ تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتوں اطمینان سے مردوں کو چھوڑیں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔
۳۲: یعنی ناجائز شہوت رانی سے بھی پرہیز کریں، اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھولنے سے بھی۔ اس معاملے میں عورتوں کے لیے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لیے ہیں۔ لیکن عورت کے ستر کے حدود مردوں سے مختلف ہیں۔ نیز عورت کا ستر مردوں کے لیے الگ ہے اور عورتوں کے لیے الگ۔ مردوں کے لیے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد، حتیٰ کہ باپ بھائی کے سامنے بھی نہ کھلنا چاہیے، اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضورؐ نے فوراً منہ پھیر لیا اور فرمایا : یا اسماء ان الرءۃ اذابلغت المحیض لم یصلح لھا ان یریٰ منھا الا ھٰذا و ھٰذا و زاشارا لیٰ وجہ ہٖ وکفیہ، ’’ اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ’’(ابو داؤد)۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں ان کے اَخیانی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ نے فرمایا : اذا عرکت المأۃ لم یحل لھا ان تظہر الا وجھہا والا مادون ھٰذا و قبض علیٰ ذرا نفسہ و ترک بین الکف مظل قبضۃ اخریٰ۔ ’’ جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی‘‘۔ اس معاملے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلاً باپ بھائی وغیرہ) کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جیسے آٹا گوندھتے ہوئے آستینیں اوپر چڑھا لینا، یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پائنچے کچھ اوپر کر لینا۔ اور عورت کے لیے عورت کے ستر کے حدود وہی ہیں جو مرد کے لیے مرد کے ستر کے ہیں، یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے۔ بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے۔
۳۳: یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الٰہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے، یعنی نظر بچانا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، بلکہ وہ ان سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیں۔
۳۴: ’’ بناؤ سنگھار‘‘ ہم نے ’’ زینت‘‘ کا ترجمہ کیا ہے، جس کے لیے دوسرا لفظ آرائش بھی ہے۔ اس کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے : خوشنما کپڑے، زیور، اور سر، منہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کی مختلف آرائشیں جو بالعموم عورتوں دنیا مین کرتی ہیں، جن کے لیے موجودہ زمانے میں (Make up) کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہ بناؤ سنگھار کس کو نہ دکھایا جائے، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
۳۵: اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے، ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے کہ : لایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ، ’’ وہ اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں ‘‘۔ اور دوسرے فقرے میں اِلَّا بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے ما ظَھَرَ مَنْھَا، ’’ جو کچھ اس آرائش و زیبائش میں سے ظاہر ہو، یا ظاہر ہو جائے ‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا ) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے، کیونکہ بہر حال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے، اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے ) اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین نے ما ظھر منھا کا مطلب لیا ہے : مایظھرہ الانسان علی العادۃ الجادیۃ (جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے )، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسِّی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے، اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھرے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن جصاص، جلد ۳، صفحہ ۳۸۸۔ ۳۸۹)۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ : مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے ‘‘ اور ظاہر کرنے ‘‘ میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہر کرنے ‘‘ سے روک کر ’’ ظاہر ہونے ‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ’’ظاہر کرنے ‘‘ کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں، اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا، اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جو بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی نا جائز ہے۔ رہا حجاب، تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے، اور یہاں بحث سنٹر کی نہیں بلکہ احکام حجاب کی ہے۔
۳۶: زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں (تفسیر کشاف جلد ۲، صفحہ ۹۰۔ ابن کثیر جلد ۳، صفحہ ۲۸۳۔ ۲۸۴)۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہیں فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمر ھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتوں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے (ابن کثیر، ج ۳، ص ۲۸۴۔ ابو داؤد، کتاب اللباس)۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے، چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہیں سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ (قَبَاطِی) آئی۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دو پٹہ بنانے کے لیے دے دو، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا، ’’ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے۔ (ابو داؤد، کتاب اللباس)۔
۳۷: یعنی جس حلقے میں ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہیں، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی، بہر حال ایک عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر مھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جائے، یا جس کا چھپانا مکین نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے۔
۳۸: اصل میں لفظ آباء استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا پر دادا اور نانا پر نانا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ایک عورت اپنی ددھیال اور ننہیال، اور اپنے شوہر کی ددھیال اور ننہیال کے ان سب بزرگوں کے سامنے اسی طرح آ سکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آ سکتی ہے۔
۳۹: بیٹیوں میں پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب شامل ہیں۔ اور اس معاملے میں سگے سوتیلے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزادی کے ساتھ اظہار زینت کر سکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کے سامنے کر سکتی ہے۔
۴۰: ’’بھائیوں ‘‘ میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں۔
۴۱: بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے، یعنی ان کے پوتے پر پوتے اور نواسے پر نواسے سب اس میں شامل ہیں۔
۴۲: یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں : پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے، باقی سب لوگوں کو، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ؛۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو۔ اور باقی سب سے ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں، مثلاً چچا، ماموں، داماد اور رضاعی رشتہ دار۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے، اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے (ج۔ ۳، ص۔ ۳۹۰)۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو (یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیں، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے، ان کی عمر، عورت کی عمر، خاندانی تعلقات و روابط، اور فریقین کے حالات (مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سالی تھیں، آپ کے سامنے ہوتی تھیں، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الحج، باب المحرم یؤ دِّب غلامہ)۔ اسی طرح حضرت ام ہانی، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چچا زاد بہن تھیں، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الصوم، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ)۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا زاد بھائی) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گئے ہو، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں، لہٰذا تم رسولؐ اللہ کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حجور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جائے وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا (یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا، کیونکہ وہ در اصل میرے نطفے سے ہے۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ’’ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر‘‘۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا(احتجبی منہ)، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے۔
۴۳: اصل میں لفظ نِسَآئِھِنَّ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ‘‘ ان کی عورتیں ‘‘۔ اس سے کون عورتیں مراد ہیں، یہ بحث تو بعد کی ہے۔ سب سے پہلے جو بات قابل غور اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ محض ’’عورتوں ‘‘ (النسآء ) کا لفظ استعمال نہیں کیا جس سے مسلمان عورت کے لیے تمام عورتوں اور ہر قسم کی عورتوں کے سامنے بے پردہ ہونا اور اظہارِ زینت کرنا جائز ہو جاتا، بلکہ نِسَآئِھِنَّ کہہ کر عورتوں کے ساتھ اس کی آزادی کو بہر حال ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ دائرہ کوئی سا ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کونسا دائرہ ہے، اور وہ کون عورتیں ہیں جن پر لفظ نِسَآ ءِ ھِنَّ کا الطلاق ہوتا ہے، اس میں فقہاء اور مفسرین کے اقوال مختلف ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں۔ غیر مسلم عورتوں خواہ وہ ذمّی ہوں یا کسی اور قسم کی، ان سے مسلمان عورتوں کو اسی طرح پردہ کرنا چاہیے جس طرح مردوں سے کیا جاتا ہے۔ ابن عباس، مجاہد اور ابن جریج کی یہی رائے ہے، اور یہ لوگ اپنی تائید میں یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عُبیدہ کو لکھا ’’ میں نے سنا ہے مسلمانوں کی بعض عورتیں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے لگی ہیں۔ حالانکہ جو عورت اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کے جسم پر اس کے اہل ملت کے سوا کسی اور کی نظر پڑے ‘‘۔ یہ خط جب حضرت ابو عبیدہ کو ملا تو وہ ایک دم گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ‘‘ خدایا جو مسلمان عورت محض گوری ہونے کے لیے ان حماموں میں جائے اس کا منہ آخرت میں کالا ہو جائے ‘‘۔ (ابن جریر، بیہقی، ابن کثیر)۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں ہیں۔ امام رازی کے نزدیک یہی صحیح مطلب ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی تھا تو پھر نِسَآءِ ھِنَّ کہنے کا کیا مطلب ؟ اس صورت میں تو النساء کہنا چاہیے تھا۔ تیسری رائے یہ ہے اور یہی معقول بھی ہے اور قرآن کے الفاظ سے قریب تر بھی کہ اس سے در اصل ان کے میل جول کی عورتیں، ان کی جانی بوجھی عورتیں، ان سے تعلقات رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ ہو، یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیا جا سکتے۔ اس رائے کی تائید ان صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکر آتا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیا جائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے۔ شریف، با حیا اور نیک اطوار عورتیں جو معروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ہوں، ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہو سکتی ہیں، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بے حیا، آبرو باختہ اور بد اطوار عورتیں، خواہ ’’ مسلمان‘‘ ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرنا چاہیے، کیونکہ اخلاق کے لیے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے۔ رہیں اَن جانی عورتیں، جن کی حالت معلوم نہیں ہے، تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہو سکتی ہے، یعنی یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے، باقی اپنا سارا جسم اور آرائش چھپا کر رکھے۔
۴۴: اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ یہ عبد اللہ بن مسعود، مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن مُسَیَّب، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ اگر وہ آزاد ہو جائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے۔ پہلے نِسَآءِ ھِنَّ فرمایا، پھر ما ملکت ایما نھن ارشاد ہوا۔ نِسَآءِ ھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں۔ اس لیے ماملکت ایمانھن کہہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس اجازت میں لونڈی اور غلام دونوں شامل ہیں۔ یہ حضرت عائشہ اور ام سَلَمہ اور بعض ائمۂ اہل بیت کا مذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے۔ ان کا استدلال صرف لفظ ما ملکت ایمانھن کے عموم ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ سنت سے بھی اپنی تائید میں شواہد پیش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ واقعہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک غلام عبد اللہ بن مسعدۃ الفَزاری کو لیے ہوئے حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سر ڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا : لیس علیک باسٌ، انماھوا بوک و غلامک۔ ’’ کوئی حرج نہیں، یہاں بس تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ‘‘(ابو داؤد، احمد، بیہقی بروایت انس بن مالک۔ ابن عسا کرنے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ کو دے دیا تھا، انہوں نے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کر دیا، مگر اس احسان کا جو بدلہ اس دیا وہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی کا بد ترین دشمن اور امری معاویہ کا پر جوش حامی تھا)۔ اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ : اذا کان لاحد اکن مکاتب و کان لہ مایؤ دی فلتحتجب منہ، ’’ جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتبت کر لے اور وہ مال کتابت ادا کرنے کی مقدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے غلام سے پردہ کرے ‘‘(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، بروایت ام سلمہ)
۴۵: اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جب کہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت، یا عقلی کمزوری، یا فقر و مسکنت، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے، نہ کہ نا فرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے بیرے خانسامے، شوفر اور دوسرے جواب جواب نوکر تو بہر حال اس تعریف میں نہیں آتے۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں : ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بُدھو(مُغَفَّل) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے۔ مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے۔ شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تبع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ ڈال سکے۔ ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی گھر میں پلا بڑہا ہو۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو۔ وہ ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے۔ طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت۔ (ابن جریر، ج ۱۸۔ ص ۹۵۔ ۹۶۔ ابن کثیر، ج۳ ص ۲۸۵ ) ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور احمد عغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ام المومنین ام سلمہؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا۔ پھر س نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا ’’ خدا کے دشمن، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ‘‘۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولیا الا ربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہر حال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے۔
۴۶: یعنی جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں۔ یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ برس کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگر چہ نابالغ ہوں، مگر ان میں صنفی احساسات پیدار ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔
۴۷: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سو دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَا جد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات، ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ‘‘۔ (ابو داؤد، احمد)۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا’’ اے خدائے جبار کی بندی، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے‘‘؟ اس نے کہا ہاں۔ بولے ’’میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ‘‘(ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، نسائی )۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجد وار یحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدید ا، ’’ جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ‘‘(ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو (ابو داؤد)۔ اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی نا پسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں۔ التسبیح للرجال والتصفیق اللنساء (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)۔
۴۸: یعنی ان لغزشوں اور غلطیوں سے توبہ کرو جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہو، اور آئندہ کے لیے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کر لو جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں۔
۴۹: اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں : ۱: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو (خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجو ا علی المغیبات جان الشیطان یجریمن احدکم مجری الدم، ’’ جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ‘‘ (ترمذی)۔ ان ہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ ولیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان، ’’ جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ‘‘ (احمد)۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ، یا رسول اللہ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے (ابو داؤد، کتاب الصوم)۔ ۲ : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جن وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے، جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی‘‘ (ابو داؤد، کتاب الخراج )۔ ۳ : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا زو محرم، ولا تسافرالمرأۃ لا مع ذی محرم، ’ کوئی مرد کیسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو‘‘۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک، ’’ اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ ‘‘۔ اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر،ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے معتبر کت حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفت کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے، مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ان میں سے کیس حدیث میں ۱۲ میل یا اس سے زیادہ کے سفر پر پابندی کا ذکر ہے، کسی میں ایک دن، کسی میں ایک شب و روز، کسی میں دو دن اور کسی میں تین دن کی حد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ اختلاف ان احادیث کونہ تو ساقط الاعتبار بنا دیتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے یہی ضروری ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دے کر اس حد کو قانونی مقدار قرار دینے کی کوشش کریں جو اس روایت میں بیان ہوئی ہو۔ اس لیے کہ اس اختلاف کی یہ معقول وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مختلف مواقع پر جیسی صورت معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوئی ہو اسی کے لحاظ سے آپ نے حکم بیان فرمایا ہو۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے محرم کے بغیر جانے سے منع فرمایا ہو، اور کوئی ایک دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے بھی روک دیا ہو۔ اس میں مختلف سائلوں کے الگ الگ حالات اور ہر ایک کو آپ کے مختلف جوابات اصل چیز نہیں ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قاعدہ ہے جو اوپر ابن عباس والی روایت میں ارشاد ہوا ہے، یعنی سفر، جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے، محرم کے بغیر کسی عورت کو نہ کرنا چاہیے۔ ۴ : آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کوشش فرمائی اور قولاً بھی اس سے منع فرمایا اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے، کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔ جمع کہ اللہ نے خود فرض کیا ہے، اور نماز با جماعت کی اہمیت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلا عذر مسجد میں حاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی (ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قطنی، حاکم، بروایت ابن عباس )۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا (ابو داؤد بروایت ام عطیہ، دارقطنی و بیہقی بروایت جابر، ابو داؤد دو حاکم بروایت طارق بن شہاب)۔ اور نماز با جماعت میں عورتوں کی شرکت نہ صرف یہ کہ لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں رد کو نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ تصریح بھی فرما دی کہ ان کے لیے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایات ابن عمر سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہیں : ائذنو اللنساء الی المساجد باللیل، ’’ عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد)۔ اور ایک روایت ان الفاظ میں ہے : لا منعو انساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن، اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں، اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں ‘‘ (احمد، ابو داؤد )۔ ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ فرمایا’’ تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے پڑھنے سے بہتر ہے، اور تمہارا اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے، اور تمہارا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘(احمد، طبرانی)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت ابو داؤد میں عبد اللہؓ بن مسعود سے مروی ہے، اور حضرت ام سلمہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ یہ ہیں : خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، ’’ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں ‘‘۔ (احمد، طبرانی)۔ لیکن حضرت عائشہ دور بنی امیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں ’’ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا آنا بند کیا گیا تھا‘‘ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ مسجد نبوی میں حضورؐ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور اباب ماجاء فی خروج النساء الیالمساجد)۔ جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تاکہ مردوں کے اٹھنے سے پہلے عورتیں اٹھ کر چلی جائیں (احمد، بخاری، بروایت ام سلمہ)۔ آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوں سے قریب) کی صف۔ اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے آگے کی (یعنی مردوں سے قریب کی) صف ہے (مسلم۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی، احمد )۔ عیدین کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبے کے بعد عورتوں کی طرف جا کر ان کو الگ خطاب فرماتے تھے (ابو داؤد بروایت جابر بن عبد اللہ۔ بخاری و مسلم بروایت بن عباس)۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ اس پر آپ نے عورتوں سے فرمایا : استاخرن فانہ لیس لکن ان تھتضن الطریق، علیکن بحانات الطریق، ’’ پھر جاؤ، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے، کنارے پر چلو ‘‘۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیوروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو داؤد)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلد اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائرت رکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا اس کے متعلق کون تصور کر سکتا ہے کہ وہ کالجوں میں، دفتروں میں، کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا۔ ۵ : عورتوں کو اعتدال کے ساتھ بناؤ سنگھار کرنے کی آپ نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ بسا اوقات خود اس کی ہدایت فرمائی ہے، مگر اس میں حد سے گزر جانے کو بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس زمانے میں جس قسم کے بناؤ سنگھار عرب کی عورتوں میں رائج تھے ان میں سے حسب ذیل چیزوں کو آپ نے قابل لعنت اور سبب ہلا کت اقوام قرار دیا : اپنے بالوں میں دوسرے بال ملا کر ان کو زیادہ لمبا اور گھنا دکھانے کی کوشش کرنا۔ جسم کے مختلف حصوں کو گود نا اور مصنوعی تِل بنانا۔ بال اکھاڑ اکھاڑ کر بھویں خاص وضع میں بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا۔ دانتوں کو گھس گھس کر باریک بنانا، یا دانتوں کے درمیان مصنوعی چھینیاں پیدا کرنا۔ زعفران یا درس وغیرہ کے مصنوعی ابٹنے مل کر چہرے پر مصنوعی رنگ پیدا کرنا۔ یہ احکام صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، اور امیر معاویہ سے معتبر سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔ اللہ اور رسول کی ان صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کر دے جن کے سد باب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اسکے رسول نے سنت میں اس قدر تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث ان کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ان دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف مغربی معاشرت کے طور طریقے اختیار کر لینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھر ان ہی کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں سرے سے پردے کا حکم موجود ہی نہیں ہے، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کر لیتے ہیں جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کر سکتا ہے نہ آخرت میں خدا سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدا اور رسول کے ان احکام کو غلط اور ان طریقوں کو صحیح و بر حق سمجھتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت مسلمان نہیں ہین، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی، کوئی فریب، کوئی دغا بازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے۔
۵۰: اصل میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جسے عام طور پر لوگ محض بیوہ عورتوں کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ حالانکہ در اصل اس کا اطلاق ایسے تمام مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو بے زوج ہوں۔ ایامیٰ جمع ہے اَیِّم کی، اور اَیِّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو، اور ہر اس عورت کو کہتے جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ مجرد کیا ہے۔
۵۱: یعنی جن کا رویہ تمہارے ساتھ بھی اچھا ہو، اور جن میں تم یہ صلاحیت بھی پاؤ کہ وہ ازدواجی زندگی نباہ لیں گے۔ مالک کے ساتھ جس غلام یا لونڈی کا رویہ ٹھیک نہ ہو اور جس کے مزاج کو دیکھتے ہوے یہ توقع بھی نہ ہو کہ شادی ہونے کے بعد اپنے شریک زندگی کے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے گا، اس کا نکاح کر دینے کی ذمہ داری مالک پر نہیں ڈالی گئی ہے، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے فرد کی زندگی کو خراب کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ یہ شرط آزاد آدمیوں کے معاملے میں نہیں لگائی گئی، کیونکہ آزاد آدمی کے نکاح میں حصہ لینے والے کی ذمہ داری در حقیقت ایک مشیر، ایک معاون اور ایک ذریعہ تعارف سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل رشتہ ناکح اور منکوح کی اپنی ہی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ لیکن غلام یا لونڈی کا رشتہ کرنے کی پوری ذمہ داری اس کے مالک پر ہوتی ہے۔ وہ اگر جان بوجھ کر کسی غریب کو ایک بد مزاج اور بد سرشت آدمی کے ساتھ بندھوا دے تو اس کا سارا وبال اسی کے سر ہو گا۔
۵۲: بظاہر یہاں صیغۂ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کر لیا کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتا رہی ہے کہ یہ حکم و جوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کر لینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے، یعنی اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پریہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیاہے ہ بیٹھے رہیں۔ خاندان والے، دوست، ہمسائے سب اس معاملے میں دلچسپی لیں، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے۔
۵۳: اس کا مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات بُرے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور بُرے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۵۴: ان آیات کی بہترین تفسیر وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : یا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ احض للبصر وا حصن اللفرج و من لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء، ’’ نوجوانو، تم میں سے جو شخص شادی کر سکتا ہو اسے کر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بد نظری سے بچانے اور آدمی کی عفت قائم رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : ثلٰثۃ حق علی اللہ عو نہم، الناکح یرید العفاف، والمکاتب یرید الاداء، والغازی فی سبیل اللہ، ’’ تین آدمی ہیں جن کی مدد اللہ کے ذمے ہے، ایک وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرے، دوسرے وہ مُکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کی نیت رکھے، تیسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ‘‘ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، احمد۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، آیت ۲۵)۔
۵۵: مُکاتَبت کے لفظی معنی تو ہیں ’’ لکھا پڑھی،‘‘ مگر اصطلاح میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے کہ کوئی غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیش کش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان شرائط کی لکھا پڑھی ہو جائے۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو۔ آقا کے لیے کوئی خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے۔ وہ اس کو مال کتابت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام نے اپنی مالکہ سے مکاتبت کی اور مدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نے کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر سے شکایت کی۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے۔ پر مالکہ کو کہا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے، اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے (دار قطنی بروایت ابو سعید مقبری)۔
۵۶: اس آیت کا مطلب فقہاء کے ایک گروہ نے یہ لیا ہے کہ جب کوئی لونڈی یا غلام مکا تبت کی درخواست کوے تو آقا پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔ یہ عطاء، عمر و بن دینار، ابن سیرین، مسروق، ضحاک، عکرمہ، ظاہر یہ، اور ابن جریر طبری کا مسلک ہے اور امام شافعی بھی پہلے اسی کے قائل تھے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مُستحب اور مندوب ہے۔ اس گروہ میں شعبی، مقاتل بن حیان، حسن نصری، عبد الرحمٰن بن زید، سفیان ثوری، ابو حنیفہ اور مالک بن انس جیسے بزرگ شامل ہیں، اور آخر میں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہو گئے تھے۔ پہلے گروہ کے مسلک کی تائید دو چیزیں کرتی ہیں۔ یک یہ کہ آیت کے الفاظ ہیں کَاتِبُوْھُمْ، ’’ ان سے مکاتبت کر لو‘‘۔ یہ الفاظ صاف طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ دوسرے یہ کہ معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مشہور فقیہ (محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس سے جب مکاتبت کی در خواست کی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیرین حضرت عمرؓ کے پاس شکایت لے گئے۔ انہوں نے واقعہ سنا تو درہ لے کر حضرت انس پر پل پڑے اور فرمایا ’’اللہ کا حکم ہے کہ مکاتبت کر لو‘‘(بخاری )۔ اس واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا ذاتی فعل نہیں بلکہ صحابہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور کسی نے اس پر اظہار اختلاف نہیں کیا، لہٰذا یہ اس آیت کی مستند تفسیر ہے۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ ت عالیٰ نے صرف فکاتبوھم نہیں فرمایا ہے بلکہ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا ارشاد فرمایا ہے، یعنی‘‘ ان سے مکاتبت کر لو اگر ان کے اندر بھلائی پاؤ‘‘ یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے، اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جانچ سکے۔ قانونی احکام کی یہ شان نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں۔ اور سیرین کی نظیر کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ایک غلام تو ن ہ تھا جس نے مکاتبت کی درخواست کی ہو۔ ہزارہا غلام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں موجود تھے، اور بکثرت غلاموں نے مکاتبت کی ہے۔ سیرین والے واقعہ کے سوا کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ کسی آقا کو عدالتی حکم کے ذریعہ سے مکاتبت پر مجبور کیا گیا ہو۔ لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو ایک عدالتی فعل سمجھنے کے بجائے ہم اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق باپ اور اولاد کا سا تھا۔ بسا اوقات وہ بہت سے ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں ایک باپ تو دخل دے سکتا ہے مگر ایک حاکم عدالت دخل نہیں دے سکتا۔
۵۷: بھلائی سے مراد تین چیزیں ہیں : ایک یہ کہ غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو، یعنی وہ کما کر یا محنت کر کے اپنی آزادی کا فدیہ ادا کر سکتا ہو، جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : ان علمتم فیھم حرفۃ ولا ترسلوھم کلَّا علی الناس، ’’ اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ کما سکتا ہے تو مکاتبت کرو۔ یہ نہ ہو کہ اسے لوگوں سے بھیک مانگتے پھرنے کے لیے چھوڑ دو‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد) دوسرے یہ کہ اس میں اتنی دیانت اور راست بازی موجود ہو کہ اس کے قول پر اعتماد کر کے معاہدہ کیا جا سکے۔ ایسا نہ ہو مکاتبت کر کے وہ مالک کی خدمت سے چھٹی بھی پالے ور جو کچھ اس دوران میں کمائے اسے کھا پی کر برابر بھی کر دے۔ تیسرے یہ کہ مالک اس میں ایسے بُرے اخلاقی رجحانات، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے ایسے تلخ جذبات نہ پاتا ہو جن کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ اس کی آزادی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہو گی۔ بالفاظ دیگر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ مسلم معاشرے کا ایک اچھا آزاد شہری بن سکے گا نہ کہ آستین کا سانپ بن کر رہے گا۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ معاملہ جنگی قیدیوں کا بھی تھا جن کے بارے میں یہ احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت تھی۔
۵۸: یہ عام حکم ہے جس کے مخاطب آقا بھی ہیں، عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی۔ آقاؤں کی ہدایت ہے کہ مال کتابت میں سے کچھ نہ کچھ معاف کر دو، چنانچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتدبہ حصہ معاف کر دیا کرتے تھے، حتیٰ کہ حضرت علی نے تو ہمیشہ ¼ حصہ معاف کیا ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے (ابن جریر)۔ عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ جو مکاتب بھی اپنا مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرے، وہ دل کھول کر اس کی امداد کریں۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک فی الرقاب بھی ہے، یعنی ’’ گردنوں کو بندِ غلامی سے رہا کرانا‘‘ (سورہ توبہ، آیت
۶۰) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک فک رقبہ ‘‘ گردن کا بند کھولنا’ ’ایک بڑی نیکی کا کام ہے (سورہ بلد آیت ۱۳ )۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی۔ غلام آزاد کر، غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دے، کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے، اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا، پیاسے کو پانی پلا، بھلائی کی تلقین کر، برائی سے منع کر۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ۔ کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے ‘‘(بیہقی فی شعب الایمان عن البراء بن عازب)۔ اسلامی حکومت کو بھی ہدایت ہے کہ بیت المال میں جو زکوٰۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کریں۔ اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی۔ دوسرے، آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب، دنیا بھر کا معاشرہ ن تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا کیا حل ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر اسے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا، بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدر جہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہو سکا اور سیاہ فام لوگوں (Negroes) کی ذات کا مسئلہ بہر حال باقی رہ گیا۔ اس احمقانہ طریق اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاق تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں، اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود
۶۳ غلام آزاد کیے۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ۶۷ تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں ۷۰ غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن جزام نے ۱۰۰، عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار، ذولکلاع حمیری نے آٹھ ہزار، اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے۔ اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے۔ البتہ جنگی قیدیوں کو صر ف اس صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت(حکم نہیں بلکہ اجازت) دی جب کہ ان کی حکومت ہمارے جنگی قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے پر راضی نہ ہو، اور وہ خود بھی اپنا فدیہ ادا نہ کریں۔ پھر ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت کر کے رہائی حاصل کر لیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے حق میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے، یا کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہیں وہ آزاد ہو جائے گا (جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں )، یا کوئی شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے، اس صورت میں مالک کے مرتے ہیں وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے۔ جاہل معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں، اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر کار اس امر واقعہ ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلام کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا۔
۵۹: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو قحبہ کری پر مجبور کیا جا سکات ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لونڈی خود اپنی مرضی سے بد کاری کی مرتکب ہو تو وہ اپنے جرم کی آپ ذمہ در ہے، قانون اس کے جرم پر اسی کو پکڑے گا، لیکن اگر اس کا مالک جبر کر کے اس سے یہ پیشہ کرائے تو ذمہ داری مالک کیہے اور وہی پکڑا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کیا جائے۔ رہا ‘‘دنیوی فائدوں کی خاطر‘‘ کا فقرہ، تو دراصل یہ ثبوت حکم کے لیے شرط اور قید کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے کہ اگر مالک اس کی کمائی نہ کھا رہا ہو تو لونڈی کو قحبہ گری پر مجبور کرنے میں وہ مجرم نہ ہو، بلکہ اس سے مقصود اس کمائی کو بھی حرمت کے حکم میں شامل کرنا ہے جو اس ناجائز جبر کے ذریعہ حاصل کی گئی ہو۔ لیکن اس حکم کا پورا مقصد محض اس کے الفاظ اور سیاق و سباق سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں یہ نازل ہوا ہے۔ اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں۔ ایک خانگی کا پیشہ۔ دوسرے باقاعدہ چکلہ۔ ’’ خانگی‘‘ کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈی ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے ولا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہو جاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلَّم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا ’’نکاح‘‘ سمجھتے تھے۔ اسلام نے آ کر نکاح کے صرف اس معروف طریقے کو قانونی نکاح قرار دیا جس میں ایک عورت کا صرف ایک شوہر ہوتا ہے اور اس طرح باقی تمام صورتیں زنا میں شمار ہو کر آپ سے آپ جرم ہو گئیں (ابو داؤد، باب فی وجوہ النکاح التی کان یتنا کح اہل الجاہلیہ)۔ دوسری صورت، یعنی کھلی قحبہ گری، تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ اس کے دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جواب لونڈیوں پر ایک بھری رقم عائد کر دیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو، اور وہ بے چاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پورا کرتی تھیں، اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعہ سے یہ رقم لایا کرتی ہیں، اور نہ جواب لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہو سکتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ’’حاجتمند ‘‘ آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے۔ یہ عورتیں ’’قلیقیات‘‘ کہلاتی تھیں اور ان کے گھر ’’ مواخیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ بڑے بڑے معزز رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ خود عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین، وہی صاحب جنہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کر چکے تھے، اور وہی صاحب جو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں سب سے پیش پیش تھے ) مدینے میں ان کا ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان کے ذریعہ سے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی ان ہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فعج بھی بڑھاتے تھے۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک، جس کا نام مُعاذہ تھا، مسلمان ہو گئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا۔ اس نے جا کر حضرت ابو بکر سے شکایت کی۔ انہوں نے معاملہ سرکار تک پہنچایا، اور سرکار رسالت آپ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے (ابن جریر، ج ۱۸، ص ۵۵ تا ۵۸۔ ۱۰۳۔ ۱۰۴۔ الانتِیعاب لا بن عبد البر، ج ۲، ص ۷۶۲۔ ابن کثیر، ج۳، ۲۸۸۔ ۲۸۹)۔ یہی زمانہ تھا جب بارگاہ خداوندی سے یہ آیت نازل ہوئی۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل مقصود محض لونڈیوں کو جرم زنا پر مجبور کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ دولت اسلامیہ کے حدود میں قحبہ گری (Prostitution) کے کاروبار کو بالکل خلاف قانون قرار دے دینا ہے، اور ساتھ ساتھ ان عورتوں کے لیے اعلان معافی بھی ہے جو اس کاروبار میں جبراً استعمال کی گئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرما دیا کہ : لا مُسَاعاۃ فی الاسلام ’’اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ‘‘ (ابو داؤد بروایت ابن عباس، باب فی ادعاء ولد الزنا) دوسرا حکم جو آپ نے دیا وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے۔ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ آپ نے مہر البغیِ یعنی زنا کے معاوضے کو خبیث اور شرّ الکماسب، ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا (ابو داؤد، ترمذی، نسائی)۔ ابو جُحَیفَہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے کسب البغی، یعنی پیشۂ زنا سے کمائی ہوئی آمدنی کو حرام ٹھیرایا (بخاری، مسلم، احمد )۔ ابو مسعود بن عمرو کی روایت ہے کہ آپ نے مَھر البَغیِ کا لین دین ممنوع قرار دیا (صحاح ستہ و احمد۔ تیسرا حکم آپ نے یہ دیا کہ لونڈی سے جائز طور پر صرف ہاتھ پاؤں کی خدمت لی جا سکتی ہے اور مالک کوئی ایسی رقم اس پر عائد، یا اس سے وصول نہیں کر سکتا جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رقم وہ کہاں سے اور کیا کر کے لاتی ہے۔ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسْب الْاَمَۃ حتی یُعلَم من این ھو، ’’ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے لونڈی سے کوئی آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے ‘‘ (ابو داؤد، کتاب الاجا رہ )۔ رافع بن رِفَاعَہ انصاری کی روایت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے کہ نھانا نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسب الامۃ الا ماعملت بید ھا و قال ھٰکذاباصابعہ نحوالخبز والغزل و النفش،’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو لونڈیکی کمائی سے منع کیا بجز اس کے جو وہ ہاتھ کی محبت سے حاصل کرے، اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یوں، جیسے روٹی پکانا، صوت کاتنا، یا اون اور روئی دھنکنا ‘‘(مسند اھمد، ابو داؤد، و کتاب الجارہ )۔ اسی معنی میں ایک روایت ابو داؤد اور سمند احمد میں حضرت ابو ہُریرہؓ سے بھی مروی ہے جس میں کسب الاماء (لونڈیوں کی کمائی) اور مھر البغی (زنا کی آمدنی وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر، عبد اللہ بن ابی کی لونڈی معاذہ کے معاملہ میں جو کچھ آپ نے فیصلہ فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی سے اس کا مالک جبراً پیشہ کرائے اس پر سے مالک کی ملکیت بھی ساقط ہو جاتی ہے۔ یہ امام زُہری کی روایات ہے جسے ابن کثیر نے مسند عبدالرزاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
۶۰: اس آیت کا تعلق صرف اوپر کی آخری آیت ہی سے نہیں ہے بلکہ اس پورے سلسلۂ بیان سے ہے جو آغاز سورہ سے یہاں تک چلا آ رہا ہے۔ صاف صاف ہدایتیں دینے والی آیات سے مراد وہ آیات ہیں جنمیں زنا اور قذف اور لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے، بد کار مردوں اور عورتوں سے اہل ایمان کو شادی بیاہ کے معاملہ میں مقاطعہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، شریف لوگوں پر بے بنیاد تہمتیں لگانے اور معاشرے میں فواحش کی اشاعت کرنے سے روکا گیا ہے، مردوں اور عورتوں کو غیض بصر اور حفظ فروج کی تاکید کی گئی ہے، عورتوں کے لیے پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں، شادی کے قابل لوگوں کے مجرد بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے، غلاموں کی آزادی کے لیے کتابت کی صورت تجویز کی گئی ہے، اور معاشرے کو قحبہ گری کی لعنت سے پاک کرنے کا حکام دیا گیا ہے۔ ان ارشادات کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے ڈر کر سیدھی راہ اختیار کر لینے والوں کو جس طرح تعلیم دی جاتی ہے وہ تو ہم نے سے دی ہے، اب اگر تم اس تعلیم کے خلاف چلو گے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم ان قوموں کا سا انجام دیکھنا چاہتے ہو جن کی عبرتناک مثالیں خود اسی قرآن میں ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غالباً ایک حکم نامے کے اختتام پر اس سے زیادہ سخت تنبیہ کے الفاظ اور کوئی نہیں ہو سکتے۔ مگر آفرین ہے اس قوم پر جو ماشاء اللہ مومن بھی ہو اور اس حکم نامے کی تلاوت بھی کرے اور پھر ایسی سخت تنبیہ کے باوجود اس حکم نامے کی خلاف ورزی بھی کرتی رہے !
۶۱: یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کا فر دشمن سرگرم تھے۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے، مسلمانوں میں شامل تھے، مسلمانوں کے ساتھ، اور خصوصاً انصار کے ساتھ، رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے، اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی۔ لیکن در حقیقت ان کی دنیا پرستی نے ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعوائے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور پھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں اور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے، اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشت بانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہاں وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے۔
۶۲: آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔ نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سمجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے یے لفظ ’’نور‘‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’’نور‘‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’’سبب ظہور‘‘ ہے، باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔ نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔
۶۳: مبارک، یعنی کثیر المنافع، بہت سے فائدوں کا حامل۔
۶۴: یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو، جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے۔
۶۵: اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں، شدت ظہور کا پردہ ہے۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں، جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں، جو کبھی زائل نہیں ہوتا، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے۔ رہا یہ مضمون کہ ’’ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘‘، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتون کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی، اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات، جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے، کسی اور چیز سے طاقت (Energy) حاصل کر رہی ہے، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہ۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ نور بنا رکھا ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ‘‘، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو۔ یہ تینوں چیزیں، یعنی زیتون، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزائے تمثیل تین ہیں، چراغ، طاق، اور فانوسِ شفاف۔ آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ ’’ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ‘‘۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو ’’ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ‘‘ کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ’’ نور‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس ’’نور ‘‘ ہونا ہے۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم، صاحب قدرت، صاحب حکمت وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہ دیا جائے، یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے۔
۶۶: یعنی اگر چہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے، مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ادراک کی توفیق، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جو کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں، اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے۔
۶۷: اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو، اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے۔
۶۸: بعض مفسرین نے ان ’’ گھروں ‘‘ سے مراد مساجد لی ہیں، اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے۔ اور بعض دوسرے مفسرین ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لیتے ہیں اور انہیں بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انہیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے۔ ’’ ان مین اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ‘‘، یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کے زیادہ مؤید نظر آتے ہیں، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کے بھی اتنے ہی مؤید ہیں جتنے پہلی تفسیر کے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف معبدوں تک ہی محدود نہیں رکھتے جہاں کاہن یا پو جاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جا سکتے، بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے۔ چونکہ اس سورے میں تمام تر خانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں، اس لیے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اگر چہ پہلی تفسیر کو بھی رد کر دینے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں، دونوں ہی ہوں۔
۶۹: یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت، اور اس سے دلچسپی، اور اس کا خوف، اور اس کے انعام کی طلب، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔ وہ دنیا پرستی ہیں گم نہیں ہے۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جائے۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔
۷۰: یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حلت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے، یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں، خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں۔
۷۱: اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں، اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان، اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہوں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھائے اس کی طرف پیاس بھانے کی امید لیے ہوئے دوڑتا چلا جاتا ہے، اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفت طے کرتے چلے جا رہے ہو۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو، بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا، اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے۔
۷۲: اس مثال میں تمام کفار و منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں نمائشی نیکیاں کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ان سب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی قطعی اور کامل جہالت کی حالت میں بسر کر رہے ہیں، خواہ وہ دنیا کی اصطلاحوں میں علامہ دہر اور علوم و فنون کے استاذ الاساتذہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی جگہ پھنسا ہوا ہو جہاں مکمل تاریکی ہو، روشنی کی ایک کرن تم نہ پہنچ سکتی ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم تم اور ہائڈروجن بم اور آواز سے تیز رفتار طیارے، اور چاند تک پہنچنے والی ہوائیاں بنا لینے کا نام علم ہے۔ ان کے نزدیک معاشیات اور مالیات اور قانون اور فلسفے میں مہارت کا نام علم ہے۔ مگر حقیقی علم ایک اور چیز ہے، اور اس کی ان کو ہوا تک نہیں لگی ہے۔ اس علم کے اعتبار سے وہ جاہل محض ہیں، اور ایک ان پڑھ دیہاتی ذی علم ہے اگر وہ معرفت حق سے بہرہ مند ہو۔
۷۳: یہاں پہنچ کر وہ اصل مدعا کھول دیا گیا ہے جس کی تمہید : اَللہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مضمون سے اٹھائی گئی تھی۔ جب کائنات میں کوئی نور در حقیقت اللہ کے نور کے سوا نہیں ہے، اور سارا ظہور حقائق اسی نور کی بدولت ہو رہا ہے، تو جو شخص اللہ سے نور نہ پائے وہ اگر کامل تاریکی میں مبتلا نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ کہیں اور تو روشنی موجود ہی نہیں ہے کہ اس سے ایک کرن بھی وہ پا سکے۔
۷۴: اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف صالح اہل ایمان ہی کو نصیب ہوتی ہے، باقی سب لوگ اس نور کامل و شامل کے محیط ہوتے ہوئے بھی اندھوں کیطرح تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ اب اس نور کی طرف رہنمائی کرنے والے بے شمار نشانات میں سے صرف چند کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر کوئی انہیں دیکھے تو ہر وقت ہر طرف اللہ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہے۔ مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ اپنے سر کے دے دے پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھتے ہیں تو انہیں بیولوجی اور زولوجی اور طرح طرح کی دوسری لوجیاں تو اچھی خاصی کام کرتی نظر آتی ہیں مگر اللہ کہیں کام کرتا نظر نہیں آتا۔
۷۵: اس سے مراد سردی سے جمے ہوئے بادل بھی ہو سکتے ہیں جنہیں مجازاً آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو۔ اور زمین کے پہاڑ بھی ہو سکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں، جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے۔
۷۶: یعنی اطاعت سے رو گردانی ان کے دعوائے ایمان کی خود تردید کر دیتی ہے، اور اس حرکت سے یہ بات کھل کھل جاتی ہے کہ انہوں نے جھوٹ کہا جب کہا کہ ہم ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔
۷۷: یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ رسول کی طرف بلایا جانا صرف رسول ہی کی طرف بلایا جانا نہیں بلکہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف بلایا جانا ہے۔ نیز اس آیت اور اوپر والی آیت سے یہ بات بلا کسی اشتباہ کے بالکل واضح ہو جاتی ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس قانون کے آگے جھک جائیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا ہے۔ یہ طرز عمل اگر وہ اختیار نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان ایک منافقانہ دعویٰ ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیات ۵۹۔ ۶۱۔ مع حواشی ۸۹ تا ۹۲ )۔
۷۸: واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی کے لیے نہ تھا، بلکہ آپ کے بعد جو بھی اسلامی حکومت کے منصب قضا پر ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے کرے اس کی عدالت کا سمن در اصل اللہ اور رسول کی عدالت کا سمن ہے، اور اس سے منہ موڑنے والا در حقیقت اس سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے منہ موڑنے والا ہے۔ اس مضمون کی یہ تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک مرسل حدیث میں مروی ہے جسے حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ : من دُعِیَ الیٰ حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ ’’ جو شخص مسلمانوں کے حکام عدالت میں سے کسی حاکم کی طرف بلایا جائے اور وہ حاضر نہ ہو تو وہ ظالم ہے۔ اس کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘ (احکام القرآن جصاص ج ۳، ص ۴۰۵ )۔ بالفاظ دیگر ایسا شخص سزا کا بھی مستحق ہے، اورت مزید براں اس کا بھی مستحق ہے کہ اسے برسر باطل فرض کر کے اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ دے دیا جائے۔
۷۹: یہ آیت اس حقیقت کو صاف صاف کھول کر بیان کر رہی ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتوں کو خوشی سے لپک کر لے لے، مگر جو کچھ خدا کی شریعت میں اس کی اغراض و خواہشات کے خلاف ہو اسے رد کر دے، اور اس کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے قوانین کو ترجیح دے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے، کیونکہ وہ ایمان خدا اور رسول پر نہیں، اپنی اغراض اور خواہشات پر رکھتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ خدا کی شریعت کے کسی جز کو اگر وہ مان بھی رہا ہے تو خدا کی نگاہ میں اس طرح کے ماننے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
۸۰: یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہو گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں، اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں، آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے، بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے، وہ بہت بڑا دغا باز، خائن اور جعل ساز ہے۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔
۸۱: دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان سے جو اطاعت مطلوب ہے وہ معروف اور معلوم قسم کی اطاعت ہے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو، نہ کہ وہ اطاعت جس کا یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پڑے اور پھر بھی یقین نہ آ سکتے۔ جو لوگ حقیقت میں مطیع فرمان ہوتے ہیں ان کا رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ان کے طرز عمل کو دیکھ کر محسوس کر لیتا ہے کہ یہ اطاعت گزار لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ اسے رفع کرنے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پیش آئے۔
۸۲: یعنی یہ فریب کاریاں مخلوق کے مقابلے میں تو شاید چل بھی جائیں مگر خدا کے مقابلے میں کیسے چل سکتی ہیں جو کھلے اور چھپے سب حالات، بلکہ دلوں کے مخفی ارادے اور خیالات تک ے واقف ہے۔
۸۳: جیسا کہ اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ہم اشارہ کر چکے ہیں، اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا تباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے و غلامی کی پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و نمکُّن کے معنی میں لے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان، صلاح، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تَمکُّن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً سفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نا رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان وہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔ قرآن در اصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے : اس کے ایک معنی ہیں ’’خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا‘‘ اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے۔ دوسرے معنی ہیں ’’خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی (نہ کہ محض امر تکوینی) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔ تیسرے معنی ہیں ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’’نیابت‘‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ آخر یہ معنی خلافت بمعنی ’’جانشینی‘‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں۔ اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جوہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ای لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین، یعنی اسلام، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چو راہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانبیاء، حاشیہ ۹۹)۔ اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود و صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں، کرۂ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ ہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : ’’اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم وے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنْکُمْ وَعَمِلُو االصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں ے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں، تو اس کو جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ‘‘۔ دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں۔
۸۴: کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکارِ حق بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں۔
۸۵: یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو۔
۸۶: جمہور مفسرین و فقہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں، کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ابن عمر اور مجاہد اس آیت میں مملوکوں سے مراد صرف غلام لیتے ہیں اور لونڈیوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ آگے جو حکم بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس تخصیص کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تخلیہ کے اوقات میں جس طرح خود اپنے بچوں کا اچانک آ جانا مناسب نہیں اسی طرح خادمہ کا بھی آ جانا غیر مناسب ہے۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس آیت کا حکم بالغ و نا بالغ دونوں قسم کے مملوکوں کے لیے عام ہے۔
۸۷: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالغوں کا سا خواب دیکھنے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔ اسی سے فقہاء نے لڑکوں کے معاملے میں احتلام کو بلوغ کا آغاز مانا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن جو ترجمہ ہم نے متن میں اختیار کیا ہے وہ اس بنا پر قابل ترجیح ہے کہ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کے لیے ہے، اور احتلام کو علامت بلوغ قرار دینے کے بعد حکم صرف لڑکوں کے لیے خاص ہو جاتا ہے، کیونکہ لڑکی کے معاملہ میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے نہ کہ احتلام۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حکم کا منشا یہ ہے کہ جب تک گھر کے بچے اس عمر کو نہ پہنچیں جس میں ان کے اندر صنفی شعور بیدار ہوا کرتا ہے، اور اس قاعدے کی پابندی کریں، اور جب اس عمر کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے آ رہا ہے۔
۸۸: اصل میں لفظ عورات استعمال ہوا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ تین وقت تمہارے لیے عورات ہیں ‘‘۔ عورت اردو میں تو صنف اُناث کے لیے بولا جاتا ہے مگر عربی میں اس کے معنی خلل اور خطرے کی جگہ کے ہیں، اور اس چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا کھل جانا آدمی کے لیے باعث شرم ہو، یا جس کا ظاہر ہو جانا اس کو ناگوار ہو، نیز اس معنی میں بھی یہ مستعمل ہے کہ کوئی چیز غیر محفوظ ہو۔ یہ سب معنی باہم قریبی مناسبت رکھتے ہیں اور آیت کے مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک سبھی شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں تم لوگ تنہا، یا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالتوں میں ہوتے ہو جن میں گھر کے بچوں اور خادموں کا اچانک تمہارے پاس آ جانا مناسب نہیں ہے، لہٰذا ان کو یہ ہدایت کرو کہ ان تین وقتوں میں جب وہ تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں۔
۸۹: یعنی ان تین وقتوں کے سوا دوسرے اوقات میں نا بالغ بچے اور گھر کے مملوک ہر وقت عورتوں اور مردوں کے پاس ان کے کمرے میں یا ان کے تخلیے کی جگہ میں بلا اجازت آ سکتے ہیں۔ اس صورت میں اگر تم کسی نا مناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت آ جائیں تو تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق نہیں ہے، کیونکہ پھر یہ تمہاری اپنی حماقت ہو گی کہ کام کاج کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھو۔ البتہ اگر تخلیے کے مذکورۂ بالا تین اوقات میں وہ بلا اجازت آ جائیں، تو وہ قصور وار ہیں اگر تمہاری تربیت و تعلیم کے باوجود یہ حرکت کریں، ورنہ تم خود گناہ گار ہو اگر تم نے اپنے بچوں اور مملوکوں کو یہ تہذیب نہیں سکھائی۔
۹۰: یہ وجہ ہے اس اجازت عام کی جو تین اوقات مذکورہ کے سوا دوسرے تمام اوقات میں بچوں اور مملوکوں کو بلا اجازت آنے کے لیے دی گئی ہے۔ اس سے اصول فقہ کے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ شریعت کے احکام مصلحت پر مبنی ہیں، اور ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے، خواہ وہ بیان کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
۹۱: یعنی بالغ ہو جائیں۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائی ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام باویوسف، امام محمد، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں ۱۵ برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں ۱۷ برس کی لڑکی اور ۱۸ برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلیہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ ۱۵ یا ۱۸ برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو نما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے مُعتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم ۱۲ اور زیادہ سے زیادہ ۱۵ برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے یے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں۔ ۱۵ برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں ۱۴ سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر، جبکہ میں ۱۵ سال کا تھا، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی (صحاح ستہ و مسند احمد)۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال ۳ ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال ۵ ھ میں اور بقول ابن سعد ذی اسعدہ ۵ میں پیش آیا۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر ۱۴ سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف ۱۵ سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ۱۲ سال ۱۱ مہینے کی عمر کو ۱۴ سال، اور ۱۵ برس ۱۱ مہینے کی عمر کا ۱۵ سال کہہ دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکتے۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے ۱۵ برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے، کوئی منصوص حکم نہیں ہے۔
۹۲: اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ’’عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں ‘‘ یا ’’بیٹھی ہوئی عورتیں ‘‘۔ اس سے مراد ہے سن یاس، یعنی عورت کا س عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے۔
۹۳: اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثَیَابَھُنَّ، ’’ اپنے کپڑے اتار دیں ‘‘۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سورۂ احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْھِنَّ میں دیا گیا تھا۔
۹۴: اصل الفاظ ہیں غَیرَمُتَبَرِّ جٰتٍ م بِزِیْنَۃٍ، ’’ سینت کے ساتھ تَبرُّج کرنے والی نہ ہوں ‘‘۔ تَبَرُّج کے معنی ہیں اظہار و نمائش کے۔ بارج اس کھلی کشتی یا جہاز کو کہتے ہیں جس پر چھت نہ ہو۔ اسی معنی میں عورت کے لیے یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کہ وہ مردوں کے سامنے اپنے حسن اور اپنی آرائش کا اظہار کرے۔ پو آیت کا مطلب یہ ہے کہ چدر اتار دینے کی یہ اجازت ان بوڑھی عورتوں کو دی جا رہی ہے جن کے نادر بن ٹھن کر رہنے کا شوق باقی نہ رہا ہو اور جن کے صنفی جذبات سرد پڑ چکے ہوں۔ لیکن اگر اس آگ میں کوئی چنگاری ابھی باقی ہو اور وہ نمائش زینت کی شکل اختیار کر رہی ہو تو پھر س اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
۹۵: اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کی اخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا س کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے، اس کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے، یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گئے ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو۔
۹۶: قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھائے۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے۔
۹۷: یہ آخری ہدایات ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کا نظم و ضبط پہلے سے زیادہ کَس دینے کے لیے دی جا رہی ہیں۔
۹۸: یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جائے، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا، بہر حال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں۔
۹۹: اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سے سے ہی نا جائز ہے۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو۔
۱۰۰: یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے ہ اجازت نہ دے، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔
۱۰۱: اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے۔
۱۰۲: اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بُلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلا نا یا دُعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی۔ ن مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں : اول یہ کہ ’’ رسول کے بُلانے کو عام آدمیوں کیں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو‘‘ یعنی رسول کا بلاوا غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے، لیکن رسول بلائے اور تم نہ جاؤ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے۔ دوم یہ کہ ’’ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو‘‘ وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دین تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں۔ سوم یہ کہ ’’ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ‘‘۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکارا کرو۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی۔ یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے۔
۱۰۳: یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں، کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں، لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں۔
۱۰۴: امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ’’ظالموں کا تسلط‘‘ لیا ہے۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے۔ ہر حال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں، اخلاقی زوال، نظام جماعت کی پراگندگی، داخلی انتشار، سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ