۱ سورۂ عنکبوت مکیّہ ہے اس میں سات رکوع انہتر ۶۹ آیتیں نو سو اسی ۹۸۰ کلمے چار ہزار ایک سو پینسٹھ حرف ہیں۔
۲ شدائدِ تکالیف اور انواعِ مصائب اور ذوقِ طاعات و ترکِ شہوات و بدلِ جان و مال سے ان کی حقیقتِ ایمان خوب ظاہر ہو جائے اور مؤمنِ مخلص اور منافق میں امتیاز ظاہر ہو جائے۔ شانِ نُزول : یہ آیت ان حضرات کے حق میں نازِل ہوئی جو مکّہ مکرّمہ میں تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کیا تو اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں لکھاکہ مَحض اقرار کافی نہیں جب تک ہجرت نہ کرو ان صاحبوں نے ہجرت کی اور بقصدِ مدینہ روانہ ہوئے، مشرکین ان کے درپے ہوئے اور ان سے قتال کیا بعض حضرات ان میں سے شہید ہو گئے بعض بچ آئے ان کے حق میں یہ دو آیتیں نازِل ہوئیں اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد ان لوگوں سے سلمہ بن ہشّام اور عیّاش بن ابی ربیعہ اور ولید بن ولید اور عمّار بن یاسر وغیرہ ہیں جو مکّہ مکرّمہ میں ایمان لائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمّار کے حق میں نازِل ہوئی جو خدا پرستی کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کُفّار انہیں سخت ایذائیں پہنچاتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع بن عبداللہ کے حق میں نازِل ہوئیں جو بدر میں سب سے پہلے شہید ہونے والے ہیں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی نسبت فرمایا کہ مہجع سید الشہداء ہیں اور اس اُمّت میں بابِ جنّت کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں گے ان کے والدین اور ان کی بی بی کو ان کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل کی پھر ان کی تسلّی فرمائی۔
۳ طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا، بعض ان میں سے وہ ہیں جو آرے سے چیر ڈالے گئے، بعض لوہے کی کنگھیوں سے پرزے پرزے کئے گئے اور مقامِ صدق و وفا میں ثابت و قائم رہے۔
۴ ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا۔
۶ اور ہم ان سے انتقام نہ لیں گے۔
۷ بعث و حساب سے ڈرے یا ثواب کی امید رکھے۔
۸ اس نے ثواب و عذاب کا جو وعدہ فرمایا ہے ضرور پورا ہونے والا ہے چاہیئے کہ اس کے لئے تیار رہے اور عملِ صالح میں جلدی کرے۔
۱۰ خواہ اعدائے دین سے محاربہ کر کے یا نفس و شیطان کی مخالفت کر کے اور طاعتِ الٰہی پر صابر و قائم رہ کر۔
۱۲ انس و جن و ملائکہ اور ان کے اعمال و عبادات سے اس کا امر و نہی فرمانا بندوں پر رحمت و کرم کے لئے ہے۔
شانِ نُزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان اور سورۂ احقاف کی آیتیں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں و بقول ابنِ اسحٰق سعد بن مالک زہری کے حق میں نازِل ہوئیں ان کی ماں حمنہ بنتِ ابی سفیان بن امیہ بن عبدِ شمس تھی حضرت سعد سابقین اوّلین میں سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے جب آپ اسلام لائے تو آپ کی والدہ نے کہا کہ تو نے یہ کیا نیا کام کیا خدا کی قَسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کھاؤں نہ پیوں یہاں تک کہ مر جاؤں اور تیری ہمیشہ کے لئے بدنامی ہو اور تجھے ماں کا قاتل کہا جائے پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک شبانہ روز نہ کھایا، نہ پیا، نہ سایہ میں بیٹھی اس سے ضعیف ہو گئی پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی تب حضرت سعد اس کے پاس آئے اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے ماں اگر تیری سو ۱۰۰ جانیں ہوں اور ایک ایک کر کے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں تو چاہے کھا چاہے مت کھا، جب وہ حضرت سعد کی طرف سے مایوس ہو گئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کُفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے۔
۱۶ کیونکہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کو کسی کے کہے سے مان لینا تقلید ہے معنیٰ یہ ہوئے کہ واقع میں میرا کوئی شریک نہیں تو علم و تحقیق سے تو کوئی بھی کسی کو میرا شریک مان ہی نہیں سکتا مَحال ہے رہا تقلیداً بغیر علم کے میرے لئے شریک مان لینا یہ نہایت قبیح ہے اس میں والدین کی ہرگز اطاعت نہ کر۔ مسئلہ: ایسی اطاعت کسی مخلوق کی جائز نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہو۔
۱۸ کہ ان کے ساتھ حشر فرمائیں گے اور صالحین سے مراد انبیاء و اولیاء ہیں۔
۱۹ یعنی دین کے سبب سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے جیسے کہ کُفّار کا ایذا پہنچانا۔
۲۰ اور جیسا اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے تھا ایسا خَلق کی ایذا سے ڈرتے ہیں حتی کہ ایمان ترک کر دیتے ہیں اور کُفر اختیار کر لیتے ہیں یہ حال منافقین کا ہے۔
۲۱ مثلاً مسلمانوں کی فتح ہو یا انہیں دولت ملے۔
۲۲ ایمان و اسلام میں اور تمہاری طرح دین پر ثابت تھے تو ہمیں اس میں شریک کرو۔
۲۴ جو صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور بَلا و مصیبت میں اپنے ایمان و اسلام پر ثابت و قائم رہے۔
۲۵ اور دونوں فریقوں کو جزا دے گا۔
۲۶ کُفّارِ مکّہ نے مومنینِ قریش سے کہا تھا کہ تم ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا دین اختیار کرو تمہیں اللہ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے گی اس کے ہم کفیل ہیں اور تمہارے گناہ ہماری گردن پر یعنی اگر ہمارے طریقہ پر رہنے سے اللہ تعالیٰ نے تم کو پکڑا اور عذاب کیا تو تمہارا عذاب ہم اپنے اوپر لے لیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب فرمائی۔
۲۸ ان کے گناہوں کے جنہیں انہوں نے گمراہ کیا اور راہِ حق سے روکا۔ حدیث شریف میں ہے جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالا اس پر اس طریقہ نکالنے کا گناہ بھی ہے اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں ان کے گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان پر سے ان کے بارِ گناہ میں کچھ بھی کمی ہو۔ (مسلم شریف)۔
۲۹ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال و افتراء سب جاننے والا ہے لیکن یہ سوال تو بیخ کے لئے ہے۔
۳۰ اس تمام مدّت میں قوم کو توحید و ایمان کی دعوت جاری رکھی اور ان کی ایذاؤں پر صبر کیا اس پر بھی وہ قوم باز نہ آئی اور تکذیب کرتی رہی۔
۳۱ طوفان میں غرق ہو گئے۔ اس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ان کی قوموں نے بہت سختیاں کی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام پچاس کم ہزار برس دعوت فرماتے رہے اور اس طویل مدّت میں ان کی قوم کے بہت قلیل لوگ ایمان لائے تو آپ کچھ غم نہ کریں کیونکہ بفضلہٖ تعالیٰ آپ کی قلیل مدّت کی دعوت سے خَلقِ کثیر مشرف بہ ایمان ہو چکی ہے۔
۳۲ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کو۔
۳۳ جو آپ کے ساتھ تھے ان کی تعداد اٹھہتّر تھی نصف مرد نصف عورت ان میں حضرت نوح علیہ السلام کے فرزند سام و حام ویافث اور ان کی بی بیاں بھی شامل ہیں۔
۳۴ کہا گیا ہے کہ وہ کَشتی جودی پہاڑ پر مدّتِ دراز تک باقی رہی۔
۳۶ کہ بُتوں کو خدا کا شریک کہتے ہو۔
۳۹ اور مجھے نہ مانو تو اس سے میرا کوئی ضَرر نہیں، میں نے راہ دکھا دی، معجزات پیش کر دیئے، میرا فرض ادا ہو گیا، اس پر بھی اگر تم نہ مانو۔
۴۰ اپنے انبیاء کو جیسے کہ قومِ نوح و عاد و ثمود وغیرہ ان کے جھٹلانے کا انجام یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا۔
۴۱ کہ پہلے انہیں نطفہ بناتا ہے پھر خونِ بستہ کی صورت دیتا ہے پھر گوشت پارہ بناتا ہے اس طرح تدریجاً ان کی خِلقت کو مکمل کرتا ہے۔
۴۳ یعنی پہلی بار پیدا کرنا اور مرنے کے بعد پھر دوبارہ بنانا۔
۴۴ گزشتہ قوموں کے دیار و آثار کو کہ۔
۴۵ مخلوق کو پھر اسے موت دیتا ہے۔
۴۶ یعنی جب یہ یقین سے جان لیا کہ پہلی مرتبہ اللہ ہی نے پیدا کیا تو معلوم ہو گیا کہ اس خالِق کا مخلوق کو موت دینے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی متعذّر نہیں۔
۵۰ اس سے بچنے اور بھاگنے کی کہیں مجال نہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ نہ زمین والے اس کے حکم و قضا سے کہیں بھاگ سکتے ہیں نہ آسمان والے۔
۵۱ یعنی قرآن شریف اور بَعث پر ایمان نہ لائے۔
۵۲ اس پند و موعظت کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر فرمایا جاتا ہے کہ جب آپ نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی اور دلائل قائم کئے اور نصیحتیں فرمائیں۔
۵۳ یہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا یا سرداروں نے اپنے متّبعین سے بہرحال کچھ کہنے والے تھے کچھ اس پر راضی ہونے والے تھے سب متفق اس لئے وہ سب قائلین کے حکم میں ہیں۔
۵۴ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ ان کی قوم نے آگ میں ڈالا۔
۵۵ اس آگ کو ٹھنڈا کر کے اور حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی بنا کر۔
۵۶ عجیب عجیب نشانیاں، آگ کا اس کثرت کے باوجود اثر نہ کرنا اور سرد ہو جانا اوراس کی جگہ گلشن پیدا ہو جانا اور یہ سب پل بھر سے بھی کم میں ہونا۔
۵۸ پھر منقطع ہو جائے گی اور آخرت میں کچھ کام نہ آئے گی۔
۵۹ بُت اپنے پجاریوں سے بیزار ہوں گے اور سردار اپنے ماننے والوں سے اور ماننے والے سرداروں پر لعنت کریں گے۔
۶۰ بُتوں کا بھی اور پجاریوں کا بھی ان میں سرداروں کا بھی اور ان کے فرمانبرداروں کا بھی۔
۶۱ جو تمہیں عذاب سے بچائے اور جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات آگ سے سلامت نکلے اور اس نے آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچایا۔
۶۲ یعنی حضرت لوط علیہ السلام نے یہ معجِزہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں۔ ایمان سے تصدیقِ رسالت ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحید کا اعتقاد تو ان کو ہمیشہ سے حاصل ہے اس لئے انبیاء ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں اور کُفر ان سے کسی حال میں متصور نہیں۔
۶۴ جہاں اس کا حکم ہو چنانچہ آپ نے سوادِ عراق سے سرزمینِ شام کی طرف ہجرت فرمائی اس ہجرت میں آپ کے ساتھ آپ کی بی بی سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام تھے۔
۶۵ بعد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے۔
۶۶ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء ہوئے سب آپ کی نسل سے ہوئے۔
۶۷ کتاب سے توریت، انجیل، زبور، قرآن شریف مراد ہیں۔
۶۸ کہ پاک ذُرِّیَّت عطا فرمائی، پیغمبری ان کی نسل میں رکھی، کتابیں ان پیغمبروں کو عطا کیں جو ان کی اولاد میں ہیں اور ان کو خَلق میں محبوب و مقبول کیا کہ تمام اہلِ مِلَل و اَدیان ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت فخر جانتے ہیں اور ان کے لئے اختتامِ دنیا تک درود مقرر کر دیا، یہ تو وہ ہے جو دنیا میں عطا فرمایا۔
۶۹ جن کے لئے بڑے بلند درجے ہیں۔
۷۰ اس بے حیائی کی تفسیر اس سے اگلی آیت میں بیان ہوتی ہے۔
۷۱ راہ گیروں کو قتل کر کے ان کے مال لوٹ کر اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کر دیا تھا۔
۷۲ جو عقلاً و عرفاً قبیح و ممنوع ہے جیسے گالی دینا، فحش بکنا، تالی اور سیٹی بجانا، ایک دوسرے کے کنکریاں مارنا، رستہ چلنے والوں پر کنکری وغیرہ پھینکنا، شراب پینا، تمسخُر اور گندی باتیں کرنا، ایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ ذلیل افعال و حرکات جن کی قومِ لوط عادی تھی، حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر انہیں ملامت کی۔
۷۳ اس بات میں کہ یہ افعال قبیح ہیں اور ایسا کرنے والے پر عذاب نازِل ہو گا یہ انہوں نے براہِ استہزاء کہا جب حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں۔
۷۴ نُزولِ عذاب کے بارے میں میری بات پوری کر کے۔
۷۵ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔
۷۶ ان کے بیٹے اور پوتے حضرت اسحٰق و حضرت یعقوب علیہما السلام کا۔
۷۸ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔
۷۹ اور لوط علیہ السلام تو اللہ کے نبی اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں۔
۸۲ خوب صورت مہمانوں کی شکل میں۔
۸۳ قوم کے افعال و حرکات اور ان کی نالائقی کا خیال کر کے اس وقت فرشتوں نے ظاہر کیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔
۸۶ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ روشن نشانی قومِ لوط کے ویران مکان ہیں۔
۸۷ یعنی روزِ قیامت کی ایسے افعال بجا لا کر جو ثوابِ آخرت کا باعث ہوں۔
۹۰ حجر اور یمن میں جب تم اپنے سفروں میں وہاں گزرے ہو۔
۹۲ صاحبِ عقل تھے حق و باطل میں تمییز کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا۔
۹۳ اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا۔
۹۵ اور وہ قوم لوط تھی جن کو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں سے ہلاک کیا گیا جو تیز ہوا سے ان پر لگتے تھے۔
۹۶ یعنی قومِ ثمود کہ ہولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی۔
۹۷ یعنی قارون اور اس کے ساتھیوں کو۔
۹۸ جیسے قومِ نوح کو اور فرعون کو اور اس کی قوم کو۔
۹۹ وہ کسی کو بغیر گناہ کے عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔
۱۰۰ نافرمانیاں کر کے اور کُفر و طغیان اختیار کر کے۔
۱۰۱ یعنی بُتوں کو معبود ٹھہرایا ہے ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور واقع میں ان کے عجز و بے اختیاری کی مثال یہ ہے جو آگے ذکر فرمائی جاتی ہے۔
۱۰۲ اپنے رہنے کے لئے نہ اس سے گرمی دور ہو نہ سردی، نہ گرد و غبار و بارش کسی چیز سے حفاظت ایسے ہی بُت ہیں کہ اپنے پجاریوں کو نہ دنیا میں نفع پہنچا سکیں نہ آخرت میں کوئی ضرر پہنچا سکیں۔
۱۰۳ ایسے ہی سب دِینوں میں کمزور اور نکمّا دین بُت پرستوں کا دین ہے۔
فائدہ : حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو یہ ناداری کا باعث ہوتے ہیں۔
۱۰۴ کہ ان کا دین اس قدر نکمّا ہے۔
۱۰۵ کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔
۱۰۶ تو عاقل کو کب شایان ہے کہ عزّت و حکمت والے قادرِ مختار کی عبادت چھوڑ کر بے علم بے اختیار پتّھروں کی پوجا کرے۔
۱۰۷ یعنی ان کے حسن و خوبی اور ان کے نفع اور فائدے اور ان کی حکمت کو علم والے سمجھتے ہیں جیسا کہ اس مثال نے مشرک اور موحِّد کا حال خوب اچھی طرح ظاہر کر دیا اور فرق واضح فرما دیا۔ قریش کے کُفّار نے طنز کے طور پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے ہنسی بنائی تھی۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں تمثیل کی حکمت کو نہیں جانتے۔ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال مقتضائے حکمت ہے تو باطل اور کمزور دین کے ضعف و بطلان کے اظہار کے لئے یہ مثال نہایت ہی نافع ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و علم عطا فرمایا وہ سمجھتے ہیں۔
۱۰۸ اس کی قدرت و حکمت اور اس کی توحید و یکتائی پر دلالت کرنے والی۔
۱۰۹ یعنی قرآن شریف کہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اور اس میں لوگوں کے لئے پند و نصیحت بھی اور احکام و آداب و مکارمِ اخلاق کی تعلیم بھی۔
۱۱۰ یعنی ممنوعاتِ شرعیہ سے لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا حضور سے اس کی شکایت کی گئی فرمایا اس کی نماز کسی روز اس کو ان باتوں سے روک دے گی چنانچہ بہت ہی قریب زمانہ میں اس نے توبہ کی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔
۱۱۱ کہ وہ افضل طاعات ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ عمل جو تمہارے اعمال میں بہتر اور ربّ کے نزدیک پاکیزہ تر، نہایت بلند رتبہ اور تمہارے لئے سونے چاندی دینے سے بہتر اور جہاد میں لڑنے اور مارے جانے سے بہتر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا بے شک یا رسولَ اللہ، فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور سے دریافت کیا تھا کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کن بندوں کا درجہ افضل ہے ؟ فرمایا بکثرت ذکر کرنے والوں کا صحابہ نے عرض کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا ؟ فرمایا اگر وہ اپنی تلوار سے کُفّار و مشرکین کو یہاں تک مارے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے جب بھی ذاکرین ہی کا درجہ اس سے بلند ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے اور ایک قول اس کی تفسیر میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑا ہے بے حیائی اور بُری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں۔
۱۱۲ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات سے دعوت دے کر اور حُجّتوں پر آگاہ کر کے۔
۱۱۳ زیادتی میں حد سے گزر گئے، عناد اختیار کیا، نصیحت نہ مانی، نرمی سے نفع نہ اٹھایا ان کے ساتھ غِلظت اور سختی اختیار کرو اور ایک قول یہ ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ جن لوگوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایذا دی یا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹا اور شریک بتایا ان کے ساتھ سختی کرو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ذمّی جزیہ ادا کرنے والوں کے ساتھ احسن طریقہ پر مجادلہ کرو مگر جنہوں نے ظلم کیا اور ذمّہ سے نکل گئے اور جزیہ کو منع کیا ان سے مجادلہ تلوار کے ساتھ ہے۔
مسئلہ : اس آیت سے کُفّار کے ساتھ دینی امور میں مناظرہ کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور ایسے ہی علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی۔
۱۱۴ اہلِ کتاب سے جب وہ تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں۔
۱۱۵ حدیث شریف میں ہے جب اہلِ کتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے تو اگر وہ مضمون انہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے۔
۱۱۶ قرآنِ پاک، جیسے ان کی طرف توریت وغیرہ اتاری تھیں۔
۱۱۷ یعنی جنہیں توریت دی جیسے کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب۔
فائدہ : یہ سورت مکّیہ ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب مدینہ میں ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ان کی خبر دی یہ غیبی خبروں میں سے ہے۔ (جمل)۔
۱۱۹ جو کُفر میں نہایت سخت ہیں۔ جحود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو یعنی جان بوجھ کر مُکرنا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ یہود خوب پہچانتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ تعالیٰ کے سچّے نبی ہیں اور قرآن حق ہے یہ سب کچھ جانتے ہوئے انہوں نے عناداً انکار کیا۔
۱۲۲ یعنی اہلِ کتاب کہتے کہ ہماری کتابوں میں نبیِ آخر الزماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ وہ اُمّی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پڑھیں گے مگر انہیں اس شک کا موقع ہی نہ ملا۔
۱۲۳ ضمیرِ ھُوَ کا مرجع قرآن ہے اس صورت میں معنیٰ یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو عُلَماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنیٰ کہ وہ ظاہر الاعجاز ہیں اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اور کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجِزہ ہو اور نہ ایسی کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ھُوَ کی ضمیر کا مرجع سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو قرار دے کر آیت کے یہ معنیٰ بیان فرمائے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم صاحب ہیں ان آیاتِ بیّنات کے جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہلِ کتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں آپ کی نعت و صفت پاتے ہیں۔ (خازن)۔
۱۲۴ یعنی یہودِ عنود کہ بعد ظہورِ معجزات کے جان پہچان کر عناداً منکِر ہوتے ہیں۔
۱۲۶ مثلِ ناقۂ حضرت صالح و عصائے حضرت موسیٰ اور مائدۂ حضرت عیسیٰ کے علیہم الصلوٰۃ والسلام۔
۱۲۷ حسبِ حکمت جو چاہتا ہے نازِل فرماتا ہے۔
۱۲۸ نافرمانی کرنے والوں کو عذاب کا اور اسی کا مکلّف ہوں اس کے بعد اللہ تعالیٰ کُفّارِ مکّہ کے اس قول کا جواب ارشاد فرماتا ہے۔
۱۲۹ معنیٰ یہ ہیں کہ قرآنِ کریم معجِزہ ہے، انبیائے متقدّمین کے معجزات سے اتم و اکمل اور تمام نشانیوں سے طالبِ حق کو بے نیاز کرنے والا کیونکہ جب تک زمانہ ہے قرآنِ کریم باقی و ثابت رہے گا اور دوسرے معجزات کی طرح ختم نہ ہو گا۔
۱۳۰ میرے صدقِ رسالت اور تمہاری تکذیب کا معجزات سے میری تائید فرما کر۔
۱۳۱ یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جس نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر آسمان سے پتّھروں کی بارش کرائیے۔
۱۳۲ جو اللہ تعالیٰ نے معیّن کی ہے اور اس مدّت تک عذاب کا مؤخّر فرمانا مقتضائے حکمت ہے۔
۱۳۴ اس سے ان میں کا کوئی بھی نہ بچے گا۔
۱۳۶ جس زمین میں بسہولت عبادت کر سکو معنیٰ یہ ہیں کہ جب مومن کو کسی سرزمین میں اپنے دین پر قائم رہنا اور عبادت کرنا دشوار ہو تو چاہئے کہ وہ ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرے جہاں آسانی سے عبادت کر سکے اور دین کی پابندی میں دشواریاں درپیش نہ ہوں۔ شانِ نُزول : یہ آیت ضعفائے مسلمینِ مکّہ کے حق میں نازِل ہوئی جنہیں وہاں رہ کر اسلام کے اظہار میں خطرے اور تکلیفیں تھیں اور نہایت ضیق میں تھے انہیں حکم دیا گیا کہ میری بندگی تو ضرور ہے یہاں رہ کر نہ کر سکو تو مدینہ شریف کو ہجرت کر جاؤ وہ وسیع ہے وہاں امن ہے۔
۱۳۷ اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہے۔
۱۳۸ ثواب و عذاب اور جزائے اعمال کے لئے تو لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے ہجرت کرو۔
۱۳۹ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لائے۔
۱۴۰ سختیوں پر اور کسی شدّت میں اپنے دین کو نہ چھوڑا، مشرکین کی ایذا سہی، ہجرت اختیار کر کے دین کی خاطر وطن کو چھوڑنا گوارا کیا۔
۱۴۲ شانِ نُزول : مکّۂ مکرّمہ میں مومنین کو مشرکین شب و روز طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہتے تھے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان سے مدینۂ طیّبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم مدینہ شریف کو کیسے چلے جائیں نہ وہاں ہمارا گھر، نہ مال، کون ہمیں کھلائے گا، کون پلائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے اس کی انہیں قوّت نہیں اور نہ وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں جیسے کہ بہائم ہیں طیور ہیں۔
۱۴۳ تو جہاں ہو گے وہی روزی دے گا تو یہ کیا پوچھنا کہ ہمیں کون کھلائے گا کون پلائے گا ساری خَلق کا اللہ رزّاق ہے ضعیف اور قوی مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے۔
۱۴۴ تمہارے اقوال اور تمہارے دل کی باتوں کو۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرو جیسا چاہئے تو وہ تمہیں ایسی روزی دے جیسی پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اٹھتے ہیں شام کو سیر واپس ہوتے ہیں۔ (ترمذی)۔
۱۴۶ اور باوجود اس اقرار کے کس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید سے منحرف ہوتے ہیں۔
۱۴۸ کہ باوجود اس اقرار کے توحید کے منکِر ہیں۔
۱۴۹ کہ جیسے بچّے گھڑی بھر کھیلتے ہیں کھیل میں دل لگاتے ہیں پھر اس سب کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے نہایت سریع الزوال ہے اور موت یہاں سے ایسا ہی جدا کر دیتی ہے جیسے کھیل والے بچّے منتشر ہو جاتے ہیں۔
۱۵۰ کہ وہ زندگی پائیدار ہے، دائمی ہے، اس میں موت نہیں، زندگانی کہلانے کے لائق وہی ہے۔
۱۵۱ دنیا اور آخرت کی حقیقت، تو دنیائے فانی کو آخرت کی جاودانی زندگی پر ترجیح نہ دیتے۔
۱۵۲ اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو باوجود اپنے شرک و عناد کے بُتوں کو نہیں پکارتے بلکہ۔
۱۵۳ کہ اس مصیبت سے نَجات وہی دے گا۔
۱۵۴ اور ڈوبنے کا اندیشہ اور پریشانی جاتی رہتی ہے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
۱۵۵ زمانۂ جاہلیّت کے لوگ بحری سفر کرتے وقت بُتوں کو ساتھ لے جاتے تھے جب ہوا مخالف چلتی اور کَشتی خطرہ میں آتی تو بُتوں کو دریا میں پھینک دیتے اور یاربّ یاربّ پکارنے لگتے اور امن پانے کے بعد پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاتے۔
۱۵۶ یعنی اس مصیبت سے نَجات کی۔
۱۵۷ اور اس سے فائدہ اٹھائیں بخلاف مومنینِ مخلصین کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اخلاص کے ساتھ شکر گزار رہتے ہیں اور جب ایسی صورت پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے رہائی دیتا ہے تو اس کی اطاعت میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں مگر کافِروں کا حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔
۱۶۲ قتل کئے جاتے ہیں گرفتار کئے جاتے ہیں۔
۱۶۴ یعنی سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اور اسلام سے کُفر کر کے۔
۱۶۶ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوّت اور قرآن کو نہ مانے۔
۱۶۷ بے شک تمام کافِروں کا ٹھکانا جہنّم ہی ہے۔
۱۶۸ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ معنیٰ یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انہیں ثواب کی راہ دیں گے۔ حضرت جنید نے فرمایا جو توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اخلاص کی راہ دیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جو طلبِ علم میں کوشش کریں گے انہیں ہم عمل کی راہ دیں گے۔ حضرت سعد بن عبداللہ نے فرمایا جو اقامتِ سنّت میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنّت کی راہ دکھا دیں گے۔