۲ ۔۔۔ یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کچھ سہل نہیں جو دعویٰ کرے امتحان و ابتلاء کے لیے تیار ہو جائے یہ ہی کسوٹی ہے جس پر کھرا کھوٹا کسا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ سب سے سخت امتحان انبیاء کا ہے، ان کے بعد صالحین کا، پھر درجہ بدرجہ ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ مشابہت رکھے ہوں۔ نیز امتحان آدمی کا اس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتا ہے۔ جس قدر کوئی شخص دین میں مضبوط اور سخت ہو گا اسی قدر امتحان میں سختی کی جائے گی۔
۳ ۔۔۔ ۱: یعنی پہلے نبیوں کے متبعین بڑے بڑے سخت امتحانوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں فریاد کی کہ حضرت! ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کیجئے اور دعاء فرمایے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر سختی اور ظلم و ستم کی انتہاء کر رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک (زندہ) آدمی کو زمین کھود کر (کھڑا) گاڑ دیا جاتا تھا۔ پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر بیچ سے دو ٹکڑے کر دیتے تھے، بعضوں کے بدن میں لوہے کہ کنگھیاں پھرا کر چمڑا اور گوشت ادھیڑ دیا جاتا تھا۔ تاہم یہ سختیاں ان کو دین سے نہ ہٹا سکیں۔
۲: یعنی اللہ تعالیٰ اعلانیہ ظاہر کر دے گا اور دیکھ لے گا کہ دعوائے ایمان میں کون سچا نکلتا ہے اور کون جھوٹا، اسی کے موافق ہر ایک کو جزا دی جائے گی۔
(تنبیہ) "فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہ الخ" سے جو حدوث علمِ باری کا وہم ہوتا ہے اس کا نہایت محققانہ جواب مترجم علام قدس سرہ نے دیا ہے۔ ملاحظہ کیا جائے پارہ دوم رکوع اول "اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَنْ یَّنْقَلِبُ عَلیٰ عَقِبَیْہِ "( البقرۃ ، آیت ۱۴۳ )کے تحت میں۔ ہم نے یہاں ان توجیہات کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو مفسرین نے لکھی ہیں۔
۴ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "پہلی دو آیتیں مسلمانوں کے متعلق تھیں جو کافروں کی ایذاؤں میں گرفتار تھے اور یہ آیت ان کافروں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے۔" (موضح) یعنی مومنین کے امتحانات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم مزے سے ظلم کرتے رہیں گے اور سختیوں سے بچے رہیں گے۔ وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتے ہیں۔ جو سخت ترین سزا ان کو ملنے والی ہے اس کے سامنے مسلمانوں کے امتحان کی سختی کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ اگر اس وقت کی عارضی مہلت سے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ہم ہمیشہ مامون رہیں گے اور سزا دہی کے وقت خدا کے ہاتھ نہ آئیں گے تو حقیقت میں بہت ہی بری بات طے کی ایسا احمقانہ فیصلہ آنے والی مصیبت کو روک نہیں سکتا۔
۵ ۔۔۔ یعنی جو شخص اس توقع پر سختیاں اٹھا رہا ہے کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں بات بات پر پکڑ ہو گی۔ نا کامیاب ہوا تو یہاں کی سختیوں سے کہیں بڑھ کر سختیاں جھیلنی پڑیں گی اور کامیاب رہا تو ساری کلفتیں ڈھل جائیں گی اللہ کی خوشنودی اور اس کا دیدار نصیب ہو گا۔ ایسا شخص یاد رکھے کہ اللہ کا وعدہ آرہا ہے، کوئی طاقت اسے پھیر نہیں سکتی۔ اس کی اعلیٰ توقعات پوری ہو کر رہیں گی اور اس کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی کی جائیں گی۔ اللہ سب کی باتیں سنتا اور جانتا ہے کسی کی محنت رائگاں نہ کرے گا۔
۶ ۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی کی اطاعت سے کیا نفع اور معصیت سے کیا نقصان۔ وہ تو کلی طور پر بے نیاز ہے۔ ہاں بندہ اپنے پروردگار کی طاعت میں جس قدر محنت اٹھائے گا اس کا پھل دنیا و آخرت میں اسی کو ملے گا، پس مجاہدے کرنے والے یہ خیال کبھی نہ آنے دیں کہ ہم خدا کے راستہ میں اتنی محنت کر کے کچھ اس پر احسان کر رہے ہیں؟ (العیاذ باللہ) اس کا احسان ہے کہ خود تمہارے فائدہ کے لیے طاعت و ریاضت کی توفیق بخشے۔
۷ ۔۔۔ یعنی جہاں سے بے پروا اور بے نیاز ہونے کے باجود اپنی رحمت و شفقت سے تمہاری محنت کو ٹھکانے لگاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی ایمان کی برکت سے نیکیاں ملیں گی اور برائیاں معاف ہوں گی۔" (موضح القرآن)
۸ ۔۔۔ ۱: یعنی تمام کائنات میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو خدا کی شریک ہو سکے۔ پھر اس کی خبر کسی کو کہاں سے ہوئی۔ جو لوگ شرکاء ٹھہراتے ہیں محض جاہلانہ اوہام اور بے سند خیالات کی پیروی کر رہے ہیں۔ واقعہ کی خبر انہیں کچھ بھی نہیں۔
۲: دنیا میں ماں باپ سے زیادہ حق کسی کا نہیں۔ پر اللہ کا حق ان سے زیادہ ہے۔ ان کی خاطر دین نہ چھوڑے۔ (موضح) حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے جو مشرکہ تھی بیٹے کے اسلام کی خبر سن کر عہد کیا کہ دانہ پانی کچھ نہ چکھوں گی نہ چھت کے نیچے آرام کروں گی، تاوقتیکہ سعد (معاذ اللہ) اسلام سے نہ پھر جائے چنانچہ کھانا پینا ترک کر دیا اور بالکل نڈھال ہو گئی۔ لوگ زبردستی منہ چیر کر کھانا پانی دیتے تھے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ گویا بتلا دیا کہ والدین کا اس طرح خلاف حق پر مجبور کرنا یہ بھی ایک ابتلاء و امتحان ہے، چاہیے کہ مومن کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہو۔
۳:یعنی سب کو عدالت میں حاضر ہونا ہے اس وقت بتلا دیا جائے گا کہ اولاد اور والدین میں سے کس کی زیادتی اور کون حق پر تھا۔
۹ ۔۔۔ یعنی جو اس قسم کی زبردست رکاوٹوں کے باوجود بھی ایمان اور نیکی کی راہ پر قائم رہے حق تعالیٰ ان کا حشر اپنے خاص نیک بندوں میں کرے گا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں یعنی اولاد نے اگر ناحق بات میں والدین کا کہا نہ مانا اور والدین ناحق پر قائم رہے تو اولاد کا حشر صالحین کے زمرہ میں ہو گا، ان والدین کے زمرہ میں نہ ہو گا گو طبعی و نسبی تعلقات کی بناء پر وہ اس سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ معلوم ہوا"اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ"میں حب دینی مراد ہے، حب طبعی مراد نہیں۔
۱۰ ۔۔۔ ۱: یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو زبان سے اپنے کو مومن کہتے تھے۔ مگر دلوں میں ایمان راسخ نہیں تھا۔ ان کو جہاں اللہ کے راستہ میں کوئی تکلیف پہنچی یا دین کی وجہ سے لوگوں نے ستایا تو آزمائش کو خدائی عذاب سمجھنے لگے۔ جس طرح آدمی عذاب الٰہی سے گھبرا کر جان بچانا چاہتا اور اپنے پہلے دعووں سے دستبردار ہونے لگتا ہے اور ناچار اعتراف کرتا ہے کہ میں غلطی پر تھا، یہ ہی حال ان ضعفاء القلوب کا ہے۔ جہاں دین کے معاملہ میں کوئی سختی پہنچی بس گھبرا کر دعویٰ ایمان سے دستبردار ہونا شروع کر دیا اور زبان سے یا عمل سے گویا اقرار کرنے لگے کہ ہم اس دعوے میں غلطی پر تھے یا ایسا دعویٰ کیا ہی نہ تھا۔
۲: یعنی اگر مسلمان کی کوئی کامیابی اور عروج دیکھیں تو باتیں بنانے لگیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے اور اب بھی تمہارے اسلامی بھائی ہیں۔ خصوصاً اگر مسلمانوں کو فتح ہو اور فرض کیجیے یہ لوگ کفار کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے ہاتھ میں قید ہو جائیں، پھر تو نفاق و تملق کی کوئی حد نہ رہے۔
۳: یعنی جیسے کچھ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اللہ کو سب معلوم ہے۔ کیا زبانی دعوے کر کے اللہ سے اپنے دلوں کا حال چھپا سکتے ہیں؟
۱۱ ۔۔۔ یعنی معلوم تو اسے پہلے ہی سے سب کچھ ہے لیکن اب تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ لے گا کہ کون اپنے کو سچا مومن ثابت کرتا ہے اور کون جھوٹا دغا باز منافق ہے (تنبیہ) اس قسم کے مواضع میں "لَیَعْلَمَنْ اللّٰہُ" کے معنی "لَیُرِیَنَّ اللّٰہُ" کے لینا ابن عباس سے منقول ہے کہ کما فی تفسیر ابن کثیر۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی مسلمان کو چاہیے ایمان پر مضبوط رہے، نہ کوئی تکلیف و ایذاء دہی اس کو طریق استقامت سے ہٹا سکے اور نہ کفار کی احمقانہ استمالت سے متاثر ہو، مثلاً کفار مسلمانوں سے کہے ہیں کہ تم اسلام چھوڑ کر اپنی برادری میں آملو اور ہماری راہ پر چلو، تمام تکلیفوں اور ایذاؤں سے بچ جاؤ گے مفت میں کیوں مصیبتیں جھیل رہے ہو۔ اور اگر ایسا کرنے میں گناہ سمجھتے اور مؤاخذہ کا اندیشہ رکھتے ہو تو خدا کے ہاں بھی ہمارا نام لے دینا کہ انہوں نے ہم کو یہ مشورہ دیا تھا۔ اگر ایسی صورت پیش آئی تو ساری ذمہ داری ہم اٹھا لیں گے، اور تمہارے گناہ کا بوجھ اپنے سر رکھ لیں گے کما قال الشاعر۔ ع
تو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
۱۳ ۔۔۔ ۱: یعنی جھوٹے ہیں، تمہارا بوجھ رتی برابر بھی ہلکا نہیں کر سکتے۔ ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں۔ ایک تو ان کے ذاتی گناہوں کا بار تھا، اب دوسروں کے اغواء و اضلال کے بار نے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ"کوئی چاہے کہ رفاقت کر کے کسی کے گناہ اپنے اوپر لے لے، یہ نہیں ہو گا۔ مگر جس کو گمراہ کیا اور اس کے بہکائے سے اس نے گناہ کیا، وہ گناہ اس پر بھی اور اس پر بھی۔" (موضح) جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں تو جو کوئی کسی کو (ناحق) قتل کرے، اس کے گناہ کا حصہ آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کو پہنچتا ہے جس نے اول یہ بری راہ نکالی۔
۲: یعنی جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے، یہ خود مستقل گناہ ہے جس پر ماخوذ ہوں گے۔ آگے چند قصص کے ضمن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سچوں کے مقابلہ میں ہمیشہ سے جھوٹے اغواء اور شرارت کرتے رہیں اور سچوں کو مدتوں تک امتحان و ابتلاء کے دور میں سے گزرنا پڑا ہے۔ مگر آخری نتیجہ انہی کے حق میں بہتر ہوا، منکر اور شریر لوگ خائب و خاسر رہے سچے کامیاب و سربلند ہوئے۔ اشقیاء کے تمام مکائد تار عنکبوت سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔
۱۴ ۔۔۔ ۱: ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت نوح چالس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔ ساڑھے نو سو برس دعوت و تبلیغ اور سعی و اصلاح میں مصروف رہے۔ پھر طوفان آیا، طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے اس طرح کل عمر ایک ہزار پچاس سال ہوئی۔
۲: یعنی جب گناہوں اور شرارتوں سے باز نہ آئے تو طوفان نے سب کو گھیر لیا۔ بجز چند نفوس کے سب ہلاک ہو گئے۔
۱۵ ۔۔۔ ۱: یعنی جو آدمی یا جانور جہاز پر سوار تھے ان کو نوح علیہ السلام کی معیت میں ہم نے محفوظ رکھا۔ سورہ "ہود" میں یہ قصہ مفصل گزر چکا۔
۲: کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا جہاز مدت دراز تک "جودی" پر لگا رہا تاکہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت ہو اور اب جو جہاز اور کشتیاں موجود ہیں یہ بھی ایک نشانی ہے جسے دیکھ کر سفینہ نوح کی یاد تازہ ہوتی اور قدرتِ الٰہی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یا شاید یہ مراد ہو کہ کشتی کے اس قصہ کو ہم نے ہمیشہ کے لیے عبرت بنا دیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جس وقت یہ سورت اتری ہے حضرت کے بہت سے اصحاب کافروں کی ایذاؤں سے تنگ آ کر جہاز پر سوار ہو کر ملک حبشہ کی طرف گئے تھے جب حضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ ہجرت کر آئے تب وہ جہاز والے صحابہ بھی سلامتی سے آملے۔" (موضح بتغییر یسیر) گویا نوح و سفینہ نوح کی تاریخ اس رنگ میں دہرائی گئی۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی جھوٹے عقیدے تراشتے ہو اور جھوٹے خیالات و اوہام کی پیروی کرتے ہو، چنانچہ اپنے ہاتھوں سے یہ بت بنا کر کھڑے کر لیے ہیں۔ جنہیں جھوٹ موٹ خدا کہنے لگے۔
۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے۔ سو جان رکھو کہ اللہ کے سوا روزی کوئی نہیں دیتا وہ ہی دیتا ہے۔ اپنی خوشی کے موافق۔ "لہٰذا اس کے شکر گزار بنو اور اسی کی بندگی کرو۔ وہیں تم کو لوٹ کر جانا ہے، آخر اس وقت کیا منہ دکھاؤ گے۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی جھٹلانے سے میرا کچھ نہیں بگڑتا، میں صاف صاف تبلیغ و نصیحت کر کے اپنا فرض ادا کر چکا، بھلا برا سمجھا چکا، نہ مانو گے نقصان اٹھاؤ گے جیسے "عاد" و "ثمود" وغیرہ تم سے پہلے اٹھا چکے ہیں۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: یعنی خود اپنی ذات میں غور کرو، پہلے تم کچھ نہ تھے، اللہ نے تم کو پیدا کیا اسی طرح مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "شروع تو دیکھتے ہو، دوہرانا اسی سے سمجھ لو۔"
۲: یعنی اللہ کے نزدیک تو کوئی چیز بھی مشکل نہیں۔ البتہ تمہارے سمجھنے کی بات ہے کہ جس نے بدون نمونہ کے اول ایک چیز کو بنایا، نمونہ قائم ہونے کے بعد بنانا تو اور زیادہ آسان ہونا چاہیے۔
۲۰ ۔۔۔ یعنی اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی پیدائش میں بھی غور کرو اور چل پھر کر دیکھو کہ کیسی کیسی مخلوق خدا نے پیدا کی ہے۔ اسی پر دوسری زندگی کو قیاس کر لو۔ اس کی قدرت اب کچھ محدود نہیں ہو گئی۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی دوبارہ پیدا کر کے جسے اپنی حکمت کے موافق چاہے گا سزا دے گا اور جس پر چاہے گا اپنے فضل و کرم سے مہربانی فرمائے گا۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی جس کو اللہ تعالیٰ سزا دینا چاہے وہ نہ زمین کے سوراخوں میں گھس کر سزا سے بچ سکتا ہے نہ آسمان میں اڑ کر، کوئی بلندی یا پستی خدا کے مجرم کو پناہ نہیں دے سکتی نہ کوئی طاقت اس کی حمایت اور مدد کو پہنچ سکتی ہے۔
۲۳ ۔۔۔ یعنی جنہوں نے اللہ کی باتوں کا انکار کر دیا اور اس سے ملنے کی امید نہیں رکھی۔ (کیونکہ وہ بعث بعد الموت کے قائل ہی نہ ہوئے) انہیں رحمت الٰہی کی امید کیونکر ہو سکتی ہے۔ لہٰذا وہ آخرت میں بھی محرم و مایوس ہی رہیں گے۔ یہ گویا "مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ" کا عکس ہوا۔
۲۴ ۔۔۔ ۱: یعنی ابراہیم کی تمام معقول باتیں اور دلائل و براہین سن کر جب ان کے ہم قوم جواب سے عاجز ہوئے تو قوت کے استعمال پر اتر آئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ یا تو قتل کر کے ایک دم ان کا قصہ ہی تمام کر دو اور یا آگ میں جلاؤ شاید تکلیف محسوس کر کے اپنی باتوں سے باز آ جائے تو نکال لیں گے ورنہ راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ جائے گا۔
۲: یعنی انہوں نے مشورہ کر کے آگ میں ڈال دیا، مگر حق تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا۔ جیسا کہ سورہ "انبیاء" میں مفصلاً گزر چکا ہے۔
۳: یعنی اس واقعہ سے سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کو کس طرح بچا لیتا ہے۔ اور مخالفین حق کو کس طرح خائب و خاسر کرتا ہے۔ نیز یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی تاثیر اس کے حکم سے ہے۔ جب حکم نہ ہو تو آگ جیسی چیز جلا نہیں سکتی۔
۲۵ ۔۔۔ ۱: یعنی آگ سے نکل کر پھر نصیحت شروع کر دی۔
۲: یعنی بت پرستی کو کون عقلمند جائز رکھ سکتا ہے؟ بت پرست بھی دل میں جانتے ہیں کہ یہ نہایت مہمل حرکت ہے۔ مگر شیرازہ قومی کو جمع رکھنے کے لیے ایک مذہب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کے نام پر تمام قوم متحد و متفق رہے اور ایک دوسرے کے دوست بنے رہیں کہ جیسا کہ آج کل ہم یورپ کی عیسائی قوموں کا حال دیکھتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ بت پرستی کا شیوع و رواج اس بناء پر نہیں ہوا کہ وہ کوئی معقول چیز ہے بلکہ اندھی تقلید، قومی مروت و لحاظ اور تعلقات باہمی کا دباؤ اس کا بڑا سبب ہے۔ یا یہ غرض ہو کہ بت پرستی کی اصل جڑ آپس کی محبت اور دوستی تھی۔ ایک قوم میں کچھ نیک آدمی جنہیں لوگ محبوب رکھتے تھے انتقال کر گئے ۔ لوگوں نے جوش محبت میں ان کی تصویریں بنا کر بطور یادگار رکھ لیں پھر تصویروں کی تعظیم کرنے لگے۔ وہی تعظیم بڑھتے بڑھتے عبادت بن گئی۔ یہ سب احتمالات آیت میں مفسرین نے بیان کئے ہیں۔ اور ممکن ہے، ،مَّوَدَّة بَيْنِكُمْ، ، سے بت پرستوں کی اپنے بتوں سے جو محبت ہے وہ مراد ہو جیسا کہ دوسری جگہ، ، انداد یحبونھم کحب اللہ، ، فرمایا۔ واللہ اعلم۔
۳: یعنی یہ سب دوستیاں اور محبتیں چند روزہ ہیں ۔قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن بنو گے اور بعض بعض کو لعنت کرو گے ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہں، ، یعنی وہ شیطان جس کے نام کے تھان ہیں اللہ کے روبرو منکر ہوں گے کہ ہم نے نہیں کہا کہ ہم کو پوجو۔ تب یہ پوجنے والے ان کو لعنت کریں گے کہ ہماری نذر ونیاز لے کر وقت پر پھر گئے ۔(موضح)
۴: جو دوزخ کی آگ سے تم کو بچا لے جیسے میرے پروردگار نے تمہاری آگ سے مجھ کو بچا لیا۔
۲۶ ۔۔۔ حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ ابراہیم کو ان کی قوم کے کسی مرد نے نہ مانا۔ البتہ لوط نے فوراً بلا توقف تصدیق کی۔ دونوں کا وطن "عراق" میں شہر بابل تھا۔ خدا کے توکل پر وطن سے نکل کھڑے ہوئے اللہ نے ملک شام میں پہنچا کر بسایا۔ (تنبیہ) "وقال اِنِّی مُہَاجِرٌ الخ" میں دونوں احتمال ہیں۔ قائل ابراہیم ہوں یا لوط علیہما السلام۔
۲۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اسحاق بیٹا اور یعقوب پوتا دیا۔ جن کی نسل "بنی اسرائیل" کہلاتی ہے۔
۲: یعنی حضرت ابراہیم کے بعد بجز ان کی اولاد کے کسی کو کتابِ آسمانی اور پیغمبری نہ دی جائے گی۔ چنانچہ جس قدر انبیاء ان کے بعد تشریف لائے ان ہی کی ذریت سے تھے۔ اسی لیے ان کو "ابو الانبیاء" کہا جاتا ہے۔
۳: یعنی دنیا میں حق تعالیٰ نے مال، اولاد، عزت اور ہمیشہ کا نام نیک دیا، اور ملک شام ہمیشہ کے لیے ان کی اولاد کو بخشا۔ (کذا فی الموضح) اور آخرت میں اعلیٰ درجہ کے صالحین کی جماعت میں (جو انبیائے اولوالعزم کی جماعت ہے) شامل رکھا۔
۲۸ ۔۔۔ یعنی یہ فعل شنیع تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ فطرت انسانی اس سے نفور ہے۔ ایسے خلاف فطرت و شریعت کام کی بنیاد تم نے ڈالی۔
۲۹ ۔۔۔ ۱: راہ مارنے سے مراد ممکن ہے کہ ڈاکہ زنی ہو، یہ بھی ان میں رائج ہو گئی، یا اسی بدکاری سے مسافروں کی راہ مارتے تھے کہ ڈر کے مارے اس طرف ہو کر نہ نکلیں یا "تَقْطَعُونَ السَّبِیْلَ" کا مطلب یہ ہو کہ فطری اور معتاد راستہ کو چھوڑ کر توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع کر رہے تھے۔
۲: شاید یہی بدکاری اعلانیہ لوگوں کے سامنے کرتے ہوں گے۔ اس بات کی شرم بھی نہ رہی تھی یا کچھ اور ٹھٹھے اور چھیڑ اور بے شرمی کی باتیں کرتے ہوں گے۔
۳: یعنی اگر تم سچے نبی ہو اور واقعی سچ کہتے ہو کہ ہمارے یہ کام خراب اور مستوجب عذاب ہیں تو دیر کیا ہے وہ عذاب لے آئیے۔ دوسری جگہ فرمایا "وَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ اِلَّا اَنْ قَالُوآ اُخْرِجُوہُمْ مِنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ۔" (اعراف، رکوع۱۰،آیت ۸۲) یعنی ان کی قوم کا جواب یہی تھا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ بڑے پاک بننا چاہتے ہیں۔ شاید قوم میں سے بعض نے یہ بعض نے وہ جواب دیا ہو گا، یا ایک وقت میں ایک بات اور دوسرے میں دوسری کہی ہو گی۔ مثلاً اول عذاب کی دھمکیوں کا مذاق اڑایا، پھر آخری فیصلہ یہ کیا ہو گا، کہ انہیں بستی سے نکال دیا جائے بہرحال ثابت ہو گیا کہ وہ قوم نہ صرف اس فعل شنیع کی مرتکب اور بانی تھی، بلکہ اس کے جاری رکھنے پر اس قدر اصرار تھا کہ نصیحت کرنے والے پیغمبر کو اپنی بستی سے نکالنے پر تیار ہو گئے۔ ان کی فطرت اور طبائع اس قدر مسخ ہو چکی تھی کہ خوف خدا کا کوئی شائبہ دلوں میں باقی نہ رہا تھا۔ عذاب کی دھمکیوں کا مذاق اڑاتے تھے اور پیغمبر کے مقابلہ پر آمادہ تھے۔ جرم کی یہ ہی نوعیت ان کے ہلاک کرنے کے لیے کافی تھی۔ اور اگر اس کے ساتھ توحید کے بھی قائل نہ تھے تو کڑوا کریلا نیم چڑھا" سمجھئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی دعوت حضرت ابراہیم کی طرف سے مشتہر ہو کر پہنچ چکی ہو گی۔ اس لیے لوط علیہ السلام خاص اسی فعل شنیع سے روکنے پر مامور ہوئے۔ اور ممکن ہے انہوں نے توحید وغیرہ کی دعوت بھی دی ہو۔ مگر اس کو یہاں نقل نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم۔
۳۰ ۔۔۔ یہ ان کی طرف سے مایوس ہو کر فرمایا، شاید سمجھ گئے ہوں گے کہ ان کی آئندہ نسلیں بھی درست ہونے والی نہیں۔ وہ بھی انہی کے نقش قدم پر چلیں گی جیسے نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ "اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوآ اِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً" (نوح، رکوع۲،آیت ۲۷) کذا قال النیشا بوری فی تفسیرہ۔
۳۱ ۔۔۔ لوط علیہ السلام کی دعا پر فرشتوں کو اس بستی کے تباہ کرنے کا حکم ہوا۔ فرشتے اول حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان کو بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت سنائی اور اطلاع دی کہ ہم اس بستی (سُدُوم) کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگ کسی طرح اپنی حرکات شنیعہ سے باز نہیں آتے۔ ان واقعات کی تفصیل سورہ اعراف، ہود اور حجر وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ (تنبیہ) شاید ہلاکت کی خبر کے ساتھ بیٹے کی بشارت دینے کا مطلب یہ ہو کہ ایک قوم سے اگر خدا کی زمین خالی کی جانے والی ہے تو دوسری طرف حق تعالیٰ ایک عظیم الشان قوم "بنی اسرائیل" کی بنیاد ڈالنے والا ہے۔ نبہ علیہ العلامۃ النیسابوری فی تفسیرہ۔
۳۲ ۔۔۔ ۱: یعنی کیا لوط کی موجودگی میں بستی کو تباہ کیا جائے گا؟ یا انہیں وہاں سے علیحدہ کر کے تعذیب کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ غالباً حضرت ابراہیم کو ازراہِ شفقت خیال آیا کہ لوط کی آنکھوں کے سامنے یہ آفت نازل ہوئی تو عجب نہیں کہ عذاب کا ہولناک منظر دیکھنے سے وحشت اور گھبراہٹ ہو، فرشتوں نے اپنے کلام میں کوئی استثناء کیا نہ تھا، اس سے ان کے ذہن میں یہ ہی شق آئی ہو گی کہ لوط کی موجودگی میں کارروائی کریں گے۔ واللہ اعلم۔
۲: یعنی فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ہم سب کو جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں اور جو ان میں خدا کے مجرم ہیں۔ تنہا لوط نہیں، بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ سب کو عذاب کے مواقع سے علیحدہ کر لیں گے صرف اس کی ایک عورت وہاں رہ جائے گی۔ کیونکہ اس پر بھی عذاب آنا ہے۔
۳۳ ۔۔۔ فرشتے نہایت حسین و جمیل مردوں کی شکل میں وہاں پہنچے۔ حضرت لوط نے اول پہچانا نہیں۔ بہت تنگدل اور ناخوش ہوئے کہ اب ان مہمانوں کی عزت قوم کے ہاتھ سے کس طرح بچاؤں گا۔ اگر اپنے یہاں نہ ٹھہراؤں تو اخلاق و مروت اور مہمان نوازی کے خلاف ہے۔ ٹھہراتا ہوں تو اس بدکار قوم سے آبرو کس طرح محفوظ رہے گی۔
۳۴ ۔۔۔ یعنی اپنی قوم کی شرارت سے ڈریے مت۔ یہ کچھ نہیں کر سکتی اور ہمارے بچاؤ کے لیے غمگین نہ ہو ہم آدمی نہیں، فرشتے ہیں، جو تجھ کو اور تیرے ہم مشرب گھر والوں کو بچا کر اس قوم کو غارت کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ قصہ پہلے کئی جگہ گزر چکا۔
۳۵ ۔۔۔ یعنی ان کی الٹی ہوئی بستیوں کے نشان مکہ والوں کو ملک شام کے سفر میں دکھائی دیتے ہیں۔
۳۶ ۔۔۔ ۱: یعنی آخرت کی طرف سے غافل نہ بنو۔ اکیلے خدائے واحد کی پرستش کرو۔
۲: خرابی مچانے سے شاید مراد ہے لین دین میں دغا بازی کرنا، سود بٹہ لگانا، جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ اور ممکن ہے رہزنی بھی کرتے ہوں۔ وقیل غیر ذلک۔
۳۸ ۔۔۔ ۱: یعنی ان کی بستیوں کے کھنڈر تم دیکھ چکے ہو ان سے عبرت حاصل کرو۔
۲: یعنی دنیا کے کام میں ہشیار تھے اور اپنے نزدیک عقلمند تھے پر شیطان کے بہکائے سے نہ بچ سکے۔
۳۹ ۔۔۔ یعنی کھلی نشانیاں دیکھ کر بھی حق کے سامنے نہ جھکے اور کبر و غرور نے ان کی گردن نیچے نہ ہونے دی۔ پھر نتیجہ کیا ہوا؟ کیا بڑے بن کر سزا سے بچ گئے؟ یا العیاذ باللہ خدا کو تھکا دیا۔
۴۰ ۔۔۔ ۱: یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کے جرم کے موافق سزا دی گئی۔
۲: یہ قوم لوط ہے اور بعض نے "عاد" کو بھی اس میں داخل کیا ہے۔
۳: یہ "ثمود" تھے اور اہل مدین بھی۔
۴: یعنی قارون کو جیسا کہ سورہ قصص میں گزرا۔
۵: یہ فرعون و ہامان ہوئے اور بعض نے قوم نوح کو بھی اس میں داخل کیا ہے۔
۶: یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ نہیں کہ کوئی نا انصافی یا بے موقع کام کرے، اس کی بارگاہ عیوب و نقائص سے بکلی مبرا و منزہ ہے۔ ظلم تو وہاں متصور ہی نہیں، ہاں بندے خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، یعنی ایسے کام کرتے ہیں جن کا نتیجہ لا محالہ ان کے حق میں برا ہو۔
۴۱ ۔۔۔ یعنی گھر اس واسطے ہے کہ جان مال کا بچاؤ ہو، نہ مکڑی کا جالا کہ دامن کے جھٹکے سے ٹوٹ پڑے۔ یہ ہی مثال اس کی ہے جو اللہ کے سوا کسی کو اپنا بچانے والا اور محافظ سمجھے بدون مشیت الٰہی کچھ بچاؤ نہیں کر سکتے۔
۴۲ ۔۔۔ ۱: یعنی ممکن تھا سننے والا تعجب کرے کہ سب کو ایک ہی ذیل میں کھینچ دیا کسی کو مستثنیٰ نہ کیا۔ بعض لوگ بت کو پوجتے ہیں، بعض آگ پانی کو، بعض اولیاء انبیاء یا فرشتوں کو، سو اللہ نے فرما دیا کہ اللہ کو سب معلوم ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی ان میں سے مستقل قدرت و اختیار رکھتا تو اللہ سب کی یک قلم نفی نہ کرتا۔
۲: یعنی اللہ کو کسی کی رفاقت نہیں چاہیے، وہ زبردست ہے، اور مشورہ نہیں چاہیے کیونکہ حکیم مطلق ہے۔
۴۳ ۔۔۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ "مکڑی" اور "مکھی" وغیرہ حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کرتا ہے جو اس کی عظمت کے منافی ہیں اس کا جواب دیا، کہ مثالیں اپنے مواقع کے لحاظ سے نہایت موزوں اور ممثل لہ پر پوری منطبق ہیں۔ مگر سمجھدار ہی اس کا مطلب ٹھیک سمجھتے ہیں۔ جاہل بیوقوف کیا جانیں۔ مثال کا انطباق مثال دینے والے کی حیثیت پر نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ جس کی مثال ہے اس کی حیثیت کو دیکھو، اگر وہ حقیر و کمزور ہے تو تمثیل بھی ایسی ہی حقیر و کمزور چیزوں سے ہو گی۔ مثال دینے والے کی عظمت کا اس سے کیا تعلق۔
۴۴ ۔۔۔ ۱: یعنی نہایت حکمت سے بنایا، بیکار پیدا نہیں کیا۔
۲: یعنی جب آسمان و زمین اس اکیلے نے بنا دیے تو چھوٹے چھوٹے کاموں میں اسے کسی شریک یا مددگار کی کیا احتیاج ہو گی۔ ہوتی تو ان بڑے کاموں میں ہوتی۔
۴۵ ۔۔۔ ۱: یعنی قرآن کی تلاوت کرتے رہئیے تاکہ دل مضبوط اور قوی رہے، تلاوت کا اجر و ثواب الگ حاصل ہو۔ اس کے معارف و حقائق کا انکشاف بیش از بیش ترقی کرے۔ دوسرے لوگ بھی سن کر اس کے مواعظ اور علوم و برکات سے منتفع ہوں، جو نہ مانیں ان پر خدا کی حجت تمام ہو، اور دعوت و اصلاح کا فرض بحسن و خوبی انجام پاتا رہے۔
۲: نماز کا برائیوں سے روکنا دو معنی میں ہو سکتا ہے۔ ایک بطریق تسبب، یعنی نماز میں اللہ تعالیٰ نے خاصیت و تاثیر رکھی ہو کہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دے جیسے کسی دوا کا استعمال کرنا بخار وغیرہ امراض کو روک دیتا ہے۔ اس صورت میں یاد رکھنا چاہیے کہ دوا کے لئے ضروری نہیں کہ اس کی ایک ہی خوراک بیماری کو روکنے کے لئے کافی ہو جائے۔ بعض دوائیں خاص مقدار میں مدت تک التزام کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔ اس وقت ان کا نمایاں اثر ظاہر ہوتا ہے بشرطیکہ مریض کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دوا کی خاصیت کے منافی ہو۔ پس نماز بھی بلاشبہ بڑی قوی التاثیر دوا ہے۔ جو روحانی بیماریوں کو روکنے میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ ہاں ضرورت اس کی ہے کہ ٹھیک مقدار میں اس احتیاط اور بدرقہ کے ساتھ جو اطبائے روحانی نے تجویز کیا ہو خاصی مدت تک اس پر مواظبت کی جائے۔ اس کے بعد مریض خود محسوس کرے گا کہ نماز کس طرح اس کی پرانی بیماریوں اور برسوں کے روگ کو دور کرتی ہے۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ نماز کا برائیوں سے روکنا بطور اقتضاء ہو یعنی نماز کی ہر ایک ہیئت اور اس کا ہر ایک ذکر مقتضی ہے کہ جو انسان ابھی ابھی بارگاہ الٰہی میں اپنی بندگی، فرمانبرداری، خضوع و تذلل، اور حق تعالےٰ کی ربوبیت، الوہیت اور حکومت و شہنشاہی کا اظہار و اقرار کر کے آیا ہے، مسجد سے باہر آ کر بھی بد عہدی اور شرارت نہ کرے اور اس شہنشاہ مطلق کے احکام سے منحرف نہ ہو۔گویا نماز کی ہر ایک ادا نمازی کو پانچ وقت حکم دیتی ہے کہ او بندگی اور غلامی کا دعویٰ کرنے والے واقعی بندوں اور غلاموں کی طرح رہ۔ اور بزبان حال مطالبہ کرتی ہے کہ بے حیائی اور شرارت و سرکشی سے باز آ۔ اب کوئی باز آئے یا نہ آئے مگر نماز بلاشبہ اسے روکتی اور منع کرتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ خود روکتا اور منع فرماتا ہے۔ کما قال تعالیٰ۔ "ان اللہ یامر باالعدل " (نحل۔ رکوع۱۳) پس جو بد بخت اللہ تعالیٰ کے روکنے اور منع کرنے پر برائی سے نہیں رکتے نماز کے روکنے پر بھی ان کا نہ رکنا محل تعجب نہیں۔ ہاں یہ واضح رہے کہ ہر نماز کا روکنا اور منع کرنا اسی درجہ تک ہو گا جہاں تک اس کے ادا کرنے میں خدا کی یاد سے غفلت نہ ہو۔ کیونکہ نماز محض چند مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں۔ سب سے بڑی چیز اس میں خدا کی یاد ہے۔ نمازی ارکان صلوٰۃ ادا کرتے وقت اور قرات قرآن یا دعاء و تسبیح کی حالت میں جتنا حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کو مستحضر اور زبان و دل کو موافق رکھے گا اتنا ہی اس کا دل نماز کے منع کرنے کی آواز کو سنے گا۔ اور اسی قدر اس کی نماز برائیوں کو چھڑانے میں موثر ثابت ہو گی۔ ورنہ جو نماز قلب لاہی و غافل سے ادا ہو وہ صلوٰۃ منافق کے مشابہ ٹھہرے گی۔ جس کی نسبت حدیث میں فرمایا۔"لا یذکر اللہ فیھا الا قلیلا۔" اسی کی نسبت "لم یزدد بھا من اللہ الا بعدا "کی وعید آئی ہے۔
۳: یعنی نماز برائی سے کیوں نہ روکے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے یاد کرنے کی بہترین صورت ہے۔ کما قال تعالیٰ۔ "واقم الصلوٰۃ لذکری "(طٰہٰ رکوع) اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے نماز اور جہاد وغیرہ تمام عبادات کی روح کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو عبادت کیا، ایک جسد بے روح اور لفظ بے معنی ہے۔ حضرت ابوالدرداء وغیرہ کی احادیث کو دیکھ کر علماء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ذکر اللہ (خدا کی یاد) سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔ اصلی فضیلت اسی کو ہے۔ یوں عارضی اور وقتی طور پر کوئی عمل ذکر اللہ پر سبقت لے جائے وہ دوسری بات ہے، لیکن غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس عمل میں بھی فضیلت اسی ذکر اللہ کی بدولت آئی ہے۔ بہرحال ذکر اللہ تمام اعمال سے افضل ہے اور جب وہ نماز کے ضمن میں ہو تو افضل تر ہو گا۔ پس بندے کو چاہیے کہ کسی وقت خدا کے ذکر سے غافل نہ ہو خصوصاً جس وقت کسی برائی کی طرف میلان ہو فوراً خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ قرآن و حدیث میں ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو یاد فرماتا ہے۔ بعض سلف نے آیت کا یہ ہی مطلب لیا ہے کہ نماز میں ادھر سے بندہ خدا کو یاد کرتا ہے اس لئے نماز بڑی چیز ہوئی لیکن اس کے جواب میں جو ادھر سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو یاد فرماتا ہے۔ یہ سب سے بڑی چیز ہے۔ جس کی انتہائی قدر کرنی چاہیے اور یہ شرف و کرامت محسوس کر کے اور زیادہ ذکر اللہ کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ اسلام کے احکام بہت ہیں، مجھے کوئی ایک جامع و مانع چیز بتلا دیجئے، فرمایا "لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللہ " (تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جتنی دیر نماز میں لگے اتنا تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے۔ اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔" (موضح) یہ "لذکر اللہ اکبر۔" کی ایک اور لطیف تفسیر ہوئی۔
۴: یعنی جو آدمی جس قدر خدا کو یاد رکھتا ہے یا نہیں رکھتا خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ لہٰذا ذاکر اور غافل میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا معاملہ بھی جدا گانہ ہو گا
۴۶ ۔۔۔ ۱: یعنی مشرکوں کا دین جڑ سے غلط ہے اور اہل کتاب کا دین اصل میں سچا تھا، تو ان سے ان کی طرح مت جھگڑو کہ جڑ سے ان کی بات کاٹنے لگو۔ بلکہ نرمی، متانت، خیرخواہی اور صبرو تحمل سے واجبی بات سمجھاؤ۔ البتہ جو ان میں صریح بے انصافی، عناد اور ہٹ دھرمی پر تل جائے اس کے ساتھ مناسب سختی کا برتاؤ کر سکتے ہو اور آگے چل کر ایسوں کو سزا دینی ہے۔ (تنبیہ) پہلے قرآن کی تلاوت کا حکم تھا، اغلب ہے کہ منکرین اسے سن کر الجھنے لگیں، تو بتلا دیا کہ بحث کے وقت فریق مقابل کی علمی و دینی حیثیت کا خیال رکھو۔ جوش مناظرہ میں صداقت و اخلاق کی حد سے نہ نکلو۔ جہاں کہیں جتنی سچائی ہو اس کا اعتراف کرو۔
۲: یعنی ہمارا جیسا کہ قرآن پر ایمان ہے اس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے حضرت موسیٰ و مسیح علیہما الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے انبیاء پر جو کتابیں اتاریں بیشک وہ سچی تھیں۔ ایک حرف ان کا غلط نہ تھا۔ (گو تمہارے ہاتھ میں وہ آسمانی کتابیں اپنی اصلی صورت و حقیقت میں باقی نہ رہیں)۔
۳: یعنی اصلی معبود ہمارا تمہارا ایک ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ہم تنہا اسی کے حکم پر چلتے ہیں، تم نے اس سے ہٹ کر اوروں کو بھی خدائی کے حقوق و اختیارات دے دیے۔ مثلاً حضرت مسیح یا حضرت عزیر علیہما السلام کو یا احبار و رہبان کو۔ نیز ہم نے اس کے تمام احکام کو مانا سب پیغمبروں کی تصدیق کی، سب کتابوں کو برحق سمجھا اس کے آخری حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ تم نے کچھ مانا کچھ نہ مانا۔ اور آخری صداقت سے منکر ہو گئے۔
۴۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اس کتاب میں آخر تمہاری کتابوں سے کونسی بات کم ہے جو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جس طرح انبیائے سابقین پر کتابیں اور صحیفے ایک دوسرے کے بعد اترتے رہے، پیغمبر آخرالزماں پر یہ کتاب لاجواب اتری اس کے ماننے سے اتنا انکار کیوں ہے۔
۲: یعنی جن اہل کتاب نے اپنی کتاب ٹھیک سمجھی وہ اس کتاب کو بھی مانیں گے اور انصافاً ماننا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے جو منصف ہیں، وہ اس کی صداقت دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ صرف اہل کتاب بلکہ عرب کے بعض لوگ بھی جو کتب سابقہ کا کچھ علم نہیں رکھتے اس قرآن کو مانتے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں قرآن کریم کی صداقت کے دلائل اس قدر روشن ہیں کہ بجز سخت حق پوش نافرمان کے کوئی ان کی تسلیم سے انکار نہیں کر سکتا۔
۴۸ ۔۔۔ نزول قرآن سے پہلے آپ کی عمر کے چالیس سال ان ہی مکہ والوں میں گزرے۔ سب جانتے ہیں کہ اس مدت میں نہ آپ کسی استاد کے پاس بیٹھے نہ کوئی کتاب پڑھی نہ کبھی ہاتھ میں قلم پکڑا، ایسا ہوتا تو ان باطل پرستوں کو شبہ نکالنے کی جگہ رہتی کہ شاید اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں نوٹ کر لی ہوں گی، ان ہی کو اب آہستہ آہستہ اپنی عبارت میں ڈھال کر سنا دیتے ہیں۔گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کوئی پڑھا لکھا انسان بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے آدمی مل کر اور کل مخلوق کی طاقت کو اپنے ساتھ ملا کر بھی ایسی بے نظیر کتاب تیار نہیں کر سکتے، تاہم جھوٹوں کو بات بنانے کا ایک موقع ہاتھ لگ جاتا لیکن جب کہ آپ کا امی ہونا مسلمات میں سے ہے تو اس سرسری شبہ کی بھی جڑ کٹ گئی اور یوں ضدی لوگ کہنے کو تو اس کو بھی کہتے تھے۔"اساطیر الاولین اکتتبھا فھی ۔۔۔ تملیٰ علیہ بکرۃ واصیلا۔" (فرقان۔ رکوع۱)
۴۹ ۔۔۔ یعنی پیغمبر نے کسی سے لکھا پڑھا نہیں۔ بلکہ یہ وحی جو ان پر آئی ہمیشہ کو بن لکھے سینہ بسینہ جاری رہے گی۔ اللہ کے فضل سے علماء اور حفاظ و قراء کے سینے اس کے الفاظ و معانی کی حفاظت کریں گے اور آسمانی کتابیں حفظ نہ ہوتی تھیں۔ یہ کتاب حفظ ہی سے باقی ہے۔ لکھنا اس پر افزود ہے (موضح با ضافۂ یسیر)
۲ یعنی نا انصافی کا کیا علاج۔ ایک شخص یہ ہی ٹھان لے کہ میں کبھی سچی بات نہ مانوں گا۔ وہ روشن سے روشن چیز کا بھی انکار کر دے گا۔
۵۰ ۔۔۔ یعنی میرے قبضہ میں نہیں کہ جو نشان تم طلب کیا کرو وہی دکھلادیا کروں نہ کسی نبی کی تصدیق اس بات پر موقوف ہو سکتی ہے۔ میرا کام تو یہ ہے کہ بدی کے نتائج سے تم کو صاف لفظوں میں آگاہ کرتا رہوں باقی حق تعالیٰ میری تصدیق کے لئے جو نشان چاہے دکھلا دے، یہ اس کے اختیار میں ہے۔
۵۱ ۔۔۔ یعنی کیا یہ نشان کافی نہیں جو کتاب انہیں دن رات پڑھ کر سنائی جاتی ہے اس سے بڑا نشان کون سا ہو گا۔ دیکھتے نہیں کہ اس کتاب کے ماننے والے کس طرح سمجھ حاصل کرتے جاتے ہیں اور اللہ کی رحمت سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
۵۲ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کی زمین پر اس کے آسمان کے نیچے میں اعلانیہ دعویٰ رسالت کر رہا ہوں جسے وہ سنتا اور دیکھتا ہے پھر روز بروز مجھے اور میرے ساتھیوں کو غیر معمولی طریقہ سے بڑھا رہا ہے۔ برابر میرے دعوے کی فعلی تصدیق کرتا ہے۔ میری زبان پر اور ہاتھوں پر قدرت کے وہ خارق عادت نشان ظاہر کئے جاتے ہیں جن کی نظیر پیش کرنے سے تمام جن و انس عاجز ہیں۔ کیا میری صداقت پر اللہ کی گواہی کافی نہیں۔
۲: آدمی کی بڑی شقاوت اور خسران یہ ہے کہ جھوٹی بات کو خواہ کتنی ہی بدیہی البطلان ہو فوراً قبول کر لے اور سچی بات سے گو کتنی ہی صاف روشن ہو انکار کرتا رہے۔
۵۳ ۔۔۔ ۱: یعنی اگر باطل پر ہیں تو ہم پر دنیا میں کوئی آفت کیوں نہیں آتی۔
۲: یعنی ہر چیز اپنے وقت معین پر آتی ہے، گھبراؤ نہیں، وہ آفت بھی آ کر رہے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس امت کا عذاب یہ ہی تھا مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونا اور پکڑے جانا۔ سو فتح مکہ کے لوگ بے خبر رہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر سر پر آ کھڑا ہوا۔
۵۴ ۔۔۔ ۱: یہاں عذاب سے شاید آخرت کا عذاب مراد ہو جیسا کہ جواب سے ظاہر ہے۔
۲: یعنی آخرت کا عذاب تو فضول مانگتے ہیں، اس عذاب میں تو پڑے ہی ہیں۔ یہ کفر اور برے کام دوزخ نہیں تو اور کیا ہے جس نے ہر طرف سے انہیں گھیر رکھا ہے۔ موت کے بعد حقیقت کھل جائے گی کہ دوزخ کس طرح جلاتی ہے جب یہ ہی اعمال جہنم کی آگ اور سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے۔
۵۵ ۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کہے گا، یا وہ عذاب ہی بولے گا جیسے زکوٰۃ نہ دینے والے کا مال۔ حدیث میں آیا ہے کہ سانپ ہو کر گلے میں پڑے گا، گلے چیرے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔
۵۶ ۔۔۔ یعنی یہ مکہ کے کافر اگر تم کو تنگ کرتے ہیں تو خدا کی زمین تنگ نہیں دوسری جگہ جا کر خدا کی عبادت کرو۔
۵۷ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جب کافروں نے مکہ میں بہت زور باندھا تو مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ہوا۔ چنانچہ اسی تراسی گھر حبشہ چلے گئے۔ اس کو فرمایا کوئی دن کی زندگی ہے جہاں بن پڑے وہاں کاٹ دو، پھر ہمارے پاس اکٹھے آؤ گے۔ اس میں مہاجرین کی تسلی کر دی تاکہ وطن چھوڑنا اور حضرت سے جدا ہونا دل پر بھاری نہ گزرے۔ گویا جتلا دیا کہ وطن، خویش و اقارب، رفقاء اور چھوٹے بڑے آج نہیں کل چھوٹیں گے۔ فرض کرو اس وقت مکہ سے ہجرت نہ کی تو ایک روز دنیا سے ہجرت کرنا ضروری ہے مگر وہ بے اختیار ہو گا۔ بندگی اس کا نام ہے کہ اپنی خوشی اور اختیار سے ان چیزوں کو چھوڑ دے جو پروردگار حقیقی کی بندگی میں مزاحم اور خلل انداز ہوتی ہیں۔
۵۹ ۔۔۔ یعنی جو صبر و استقلال سے اسلام و ایمان کی راہ پر جمے رہے اور خدا پر بھروسہ کر کے گھر بار چھوڑ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے ان کو اس وطن کے بدلے وہ وطن ملے گا اور یہاں کے گھروں سے بہتر گھر دیے جائیں گے۔
۶۰ ۔۔۔ یہ روزی کی طرف سے خاطر جمع کر دی کہ " اکثر جانوروں کے گھر میں اگلے دن کا قوت نہیں ہوتا۔ نیا دن اور نئی روزی " (موضح) پھر جو خدا جانوروں کو روزی پہنچاتا ہے کیا اپنے وفادار عاشقوں کو نہ پہنچائے گا۔ خوب سمجھ لو رزاق حقیقی وہ ہے جو سب کی باتیں سنتا اور دلوں کے اخلاص کو جانتا ہے۔ ہر ایک کا ظاہر و باطن اس کے سامنے ہے۔ کسی کی محنت وہاں رائیگاں نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ اس کے راستہ میں وطن چھوڑ کر نکلے ہیں انہیں ضائع نہیں کرے گا۔ سامان معیشت ساتھ لے جانے کی فکر نہ کریں۔ کتنے جانور ہیں جو اپنی روزی اپنی کمر پر لادے نہیں پھرتے، پھر بھی رازق حقیقی ان کو ہر روز رزق پہنچاتا ہے۔
۶۱ ۔۔۔ یعنی رزق کے تمام اسباب (سماویہ و ارضیہ) اسی نے پیدا کئے سب جانتے ہیں، پھر اس پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ ہی پہنچا بھی دے گا۔ مگر جتنا وہ چاہے نہ جتنا تم چاہو۔ یہ اگلی آیت میں سمجھا دیا ہے (موضح)۔
۶۲ ۔۔۔ ناپ کر دیتا ہے یہ نہیں کہ بالکل نہ دے۔ ف ۵ یعنی یہ خبر اسی کو ہے کہ کس کو کتنا دینا چاہئے۔
۶۳ ۔۔۔ یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔
۶۴ ۔۔۔ یعنی آدمی کو چاہیے یہاں کی چند روزہ زندگی سے زیادہ آخرت کی فکر کرے کہ اصلی و دائمی زندگی وہ ہے۔ دنیا کے کھیل تماشے میں غرق ہو کر عاقبت کو بھول نہ بیٹھے۔ بلکہ یہاں رہ کر وہاں کی تیاری اور سفر آخرت کے لئے تو شہ درست کرے۔
۶۶ ۔۔۔ عنی چاہیے تو یہ تھا کہ آدمی دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو اور آخرت کو فراموش نہ کرے۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کشتی طوفان میں گھر جائے تو بڑی عقیدت مندی سے اللہ کو پکارتے ہیں۔ پھر جہاں آفت سر سے ٹلی اور خشکی پر قدم رکھا، اللہ کے احسانوں سے مکر کر جھوٹے دیوتاؤں کو پکارنا شروع کر دیا۔ گویا غرض یہ ہوئی کہ اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے رہیں اور دنیا کے مزے اڑاتے رہیں۔ خیر بہتر ہے چند روز دل کے ارمان نکال لیں، عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ اس بغاوت و شرارت، احسان فراموشی اور ناسپاسی کا نتیجہ کیا ہے۔
۶۷ ۔۔۔ مکہ کے لوگ اللہ کے گھر کے طفیل دشمنوں سے پناہ میں تھے۔ حالانکہ سارے ملک عرب میں فساد اور کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ بتوں کے جھوٹے احسان مانتے ہیں اللہ کا یہ سچا احسان نہیں مانتے۔
۶۸ ۔۔۔ یعنی سب سے بڑی نا انصافی یہ ہے کہ اللہ کاشریک کسی کو ٹھہرائے۔ یا اس کی طرف وہ باتیں منسوب کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ یا پیغمبر جو سچائی لے کر آئے ہیں اسے سنتے ہی جھٹلانا شروع کر دے۔ کیا ان ظالموں کو معلوم نہیں کہ منکروں کا ٹھکانا دوزخ ہے جو ایسی بیباکی اور بے حیائی سے عقل و انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
۶۹ ۔۔۔ ۱: یعنی جو لوگ اللہ کے واسطے محنت اٹھاتے اور سختیاں جھیلتے ہیں اور طرح طرح کے مجاہدات میں سرگرم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ایک خاص نور بصیرت عطا فرماتا اور اپنے قرب و رضا یا جنت کی راہیں سجھاتا ہے۔ جوں جوں وہ ریاضات و مجاہدات میں ترقی کرتے ہیں۔ اسی قدر ان کی معرفت و انکشاف کا درجہ بلند ہوتا جاتا ہے اور وہ باتیں سوجھنے لگتی ہیں کہ دوسروں کو ان کا احساس تک نہیں ہوتا۔
۲: یعنی اللہ کی حمایت و نصرت نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (تم سورۃ العنکبوت فللہ الحمد و اللمنہ)