سورہ آلِ عمران مدنی ہے، اس میں دوسو آیتیں اور بیس رکوع ہیں
۱۔ سورہ آل عمران مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس میں دو سو آیتیں تین ہزار چار سو اسی کلمہ چودہ ہزار پانچ سو بیس حروف ہیں۔
۲۔ شان نزول: مفسرین نے فرمایا :کہ یہ آیت وفد نجران کے حق میں نازل ہوئی جو ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا اس میں چودہ سردار تھے اور تین اس قوم کے بڑے اکابر و مقتدا ایک عاقب جس کا نام عبدالمسیح تھا یہ شخص امیر قوم تھا اور بغیر اس کی رائے کے نصاریٰ کوئی کام نہیں کرتے تھے دوسرا سید جس کا نام ایہم تھا یہ شخص اپنی قوم کا معتمد اعظم اور مالیات کا افسرِ اعلیٰ تھا خوردو نوش اور رسدوں کے تمام انتظامات اسی کے حکم سے ہوتے تھے تیسرا ابو حارثہ ابن علقمہ تھا یہ شخص نصاریٰ کے تمام علماء اور پادریوں کا پیشوائے اعظم تھا سلاطین روم اس کے علم اور اس کے دینی عظمت کے لحاظ سے اس کا اکرام و ادب کرتے تھے یہ تمام لوگ عمدہ اور قیمتیں پوشاکیں پہن کر بڑی شان و شکوہ سے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ کرنے کے قصد سے آئے اور مسجد اقدس میں داخل ہوئے حضورِ اقدس علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات اس وقت نماز عصر ادا فرما رہے تھے ان لوگوں کی نماز کا وقت بھی آگیا اور انہوں نے بھی مسجد شریف ہی میں جانب شرق متوجہ ہو کر نماز شروع کر دی فراغ کے بعد حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو شروع کی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیمات نے فرمایا :تم اسلام لاؤ کہنے لگے ہم آپ سے پہلے اسلام لا چکے حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے فرمایا یہ غلط ہے یہ دعویٰ جھوٹا ہے تمہیں اسلام سے تمہارا یہ دعویٰ روکتا ہے کہ اللّٰہ کے اولاد ہے اور تمہاری صلیب پرستی روکتی ہے اور تمہارا خنزیر کھانا روکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر عیسیٰ خدا کے بیٹے نہ ہوں تو بتائیے ان کا باپ کون ہے اور سب کے سب بولنے لگے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے ضرور مشابہ ہوتا ہے انہوں نے اقرار کیا پھر فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب حی لایموت ہے اس کے لئے موت محال ہے اور عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات پر موت آنے والی ہے انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا پھر فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب بندوں کا کار ساز اور انکا حافظ حقیقی اور روزی دینے والا ہے انہوں نے کہا ہاں حضور نے فرمایا کیا حضرت عیسیٰ بھی ایسے ہی ہیں کہنے لگے نہیں فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللّٰہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں انہوں نے اقرار کیا حضور نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ بغیر تعلیم الٰہی اس میں سے کچھ جانتے ہیں انہوں نے کہا نہیں حضور نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عیسیٰ حمل میں رہے پیدا ہونے والوں کی طرح پیدا ہوئے بچوں کی طرح غذا دیئے گئے کھاتے پیتے تھے عوارضِ بشری رکھتے تھے انہوں نے اس کا اقرار کیا حضور نے فرمایا پھر وہ کیسے اِلٰہ ہو سکتے ہیں جیسا کہ تمہارا گمان ہے اس پر وہ سب ساکت رہ گئے اور ان سے کوئی جواب بن نہ آیا اس پر سور ۂ آل عمران کی اوّل سے کچھ اوپر اسی ۸۰ آیتیں نازل ہوئیں فائدہ صفات الٰہیہ میں حی بمعنی دائم باقی کے ہے یعنی ایسا ہمیشگی رکھنے والا جس کی موت ممکن نہ ہو قیوم وہ ہے جو قائم بالذات ہو اور خلق اپنی دُنیوی اور اُخروی زندگی میں جو حاجتیں رکھتی ہے اس کی تدبیر فرمائے۔
(۳) اس نے تم پر یہ سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور اس نے اس سے پہلے توریت اور انجیل اتاری،
ٍ۳۔ اس میں وفد نجران کے نصرانی بھی داخل ہیں۔
۴۔ مرد۔ عورت۔گورا۔ کالا۔ خوب صورت بد شکل وغیرہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا مادۂ پیدائش ماں کے پیٹ میں چالیس روز جمع ہوتا ہے پھر اتنے ہی دن علقہ یعنی خونِ بستہ کی شکل میں ہوتا ہے پھر اتنے ہی دن پارۂ گوشت کی صورت میں رہتا ہے پھر اللّٰہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق اس کی عمر اس کے عمل اس کا انجام کار یعنی اس کی سعادت و شقاوت لکھتا ہے پھر اس میں روح ڈالتا ہے تو اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں آدمی جنّتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں ہاتھ بھر کا یعنی بہت ہی کم فرق رہ جاتا ہے تو کتاب سبقت کرتی ہے اور وہ دوزخیوں کے سے عمل کرتا ہے،اسی پر اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور داخل جہنّم ہوتا ہے اور کوئی ایسا ہوتا ہے کہ دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور دوزخ میں ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے پھر کتاب سبقت کرتی ہے اور اس کی زندگی کا نقشہ بدلتا ہے اور وہ جنّتیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے اسی پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور داخل جنت ہو جاتا ہے۔
۵۔ اس میں بھی نصاریٰ کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کو خدا کا بیٹا کہتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔
۶۔ جس میں کوئی احتمال و اشتباہ نہیں۔
۷۔ کہ احکام میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور حلال و حرام میں انہیں پر عمل۔
۸۔ وہ چند وجوہ کا احتمال رکھتی ہیں ان میں سے کون سی وجہ مراد ہے یہ اللّٰہ ہی جانتا ہے یا جس کو اللّٰہ تعالیٰ اسکا علم دے۔
۹۔ یعنی گمراہ اور بد مذہب لوگ جو ہوائے نفسانی کے پابند ہیں۔
۱۰۔ اور اس کے ظاہر پر حکم کرتے ہیں یا تاویل باطل کرتے ہیں اور یہ نیک نیتی سے نہیں بلکہ (جمل)۔
۱۱۔ اور شک و شبہ میں ڈالنے (جمل)۔
۱۲۔ اپنی خواہش کے مطابق باوجودیکہ وہ تاویل کے اہل نہیں (جمل و خازن)۔
۱ٍ۳۔ حقیقت میں (جمل) اور اپنے کرم و عطا سے جس کو وہ نوازے۔
۱۴۔ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ فرماتے تھے کہ میں راسخین فی العلم سے ہوں اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں ان میں سے ہوں جو متشابہ کی تاویل جانتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ راسخ فی العلم وہ عالم با عمل ہے جو اپنے علم کا متبع ہو اور ایک قول مفسرین کا یہ ہے کہ راسخ فی العلم وہ ہیں جن میں چار صفتیں ہوں۔تقویٰ اللّٰہ کا۔تواضع لوگوں سے زُہد دنیا سے مجاہدہ نفس کے ساتھ (خازن)۔
۱۵۔ کہ وہ اللّٰہ کی طرف سے ہے اور جو معنی اس کی مراد ہیں حق ہیں اور اس کا نازل فرمانا حکمت ہے۔
۱۷۔ اور راسخ علم والے کہتے ہیں۔
۲۰۔ تو جس کے دل میں کجی ہو وہ ہلاک ہو گا اور جو تیرے منت و احسان سے ہدایت پائے وہ سعید ہو گا نجات پائے گا مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کذب منافی الوہیت ہے لہذا حضرت قدوس قدیر کا کذب محال اور اس کی طرف اس کی نسبت سخت بے ادبی (مدارک و ابو مسعود وغیرہ)۔
۲۱۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے منحرف ہو کر۔
۲۲۔ شان نزول حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ جب بدر میں کفار کو رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم شکست دے کر مدینہ طیبہ واپس ہوئے تو حضور نے یہود کو جمع کر کے فرمایا کہ تم اللّٰہ سے ڈرو اور اس سے پہلے اسلام لاؤ کہ تم پر ایسی مصیبت نازل ہو جیسی بدر میں قریش پر ہوئی تم جان چکے ہو میں نبی مرسل ہوں تم اپنی کتاب میں یہ لکھا پاتے ہو اس پر انہوں نے کہا کہ قریش تو فنونِ حرب سے نا آشنا ہیں اگر ہم سے مقابلہ ہوا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں خبر دی گئی کہ وہ مغلوب ہوں گے اور قتل کئے جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے ان پر جِزیہ مقرر ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز میں چھ سو کی تعداد کو قتل فرمایا اور بہتوں کو گرفتار کیا اور اہلِ خیبر پر جِزیہ مقرر فرمایا۔
۲ٍ۳۔ اس کے مخاطب یہود ہیں اور بعض کے نزدیک تمام کفار اور بعض کے نزدیک مومنین (جمل)۔
۲۵۔ یعنی نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب ان کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی ستتّر مہاجر اور دو سو چھتیس انصار مہاجرین کے صاحبِ رابیت حضرت علی مرتضیٰ تھے اور انصار کے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللّٰہ عنہما اس کل لشکر میں دو گھوڑے ستر اونٹ اور چھ زرہ آٹھ تلواریں تھیں اور اس واقعہ میں چودہ صحابہ شہید ہوئے چھ مہاجر اور آٹھ انصار۔
۲۶۔ کفار کی تعداد نو سو پچاس تھی ان کا سردار عتبہ بن ربیعہ تھا اور انکے پاس سو(۱۰۰) گھوڑے تھے اور سات سو اونٹ اور بکثرت زرہ اور ہتھیار تھے (جمل)۔
۲۷۔ خواہ اس کی تعداد قلیل ہی ہو اور سر و سامان کی کتنی ہی کمی ہو۔
۲۸۔ تاکہ شہوت پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق و امتیاز ظاہر ہو جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا اِنَّا جَعَلْنَامَاعَلَی الاَرۡضِ زِیْنَۃً لَّھَالِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً۔
۲۹۔ اس سے کچھ عرصہ نفع پہنچتا ہے پھر فنا ہو جاتی ہے انسان کو چاہئے کہ متاع دنیا کو ایسے کام میں خرچ کرے جس میں اس کی عاقبت کی درستی اور سعادتِ آخرت ہو۔
ٍ۳۰۔ جنّت تو چاہیے کہ اس کی رغبت کی جائے اور دُنیائے ٔ نا پائیدار کی فانی مرغوبات سے دل نہ لگایا جائے۔
ٍ۳۲۔ جو زنانہ عوارض اور ہر ناپسند و قابلِ نفرت چیز سے پاک۔
ٍ۳ٍ۳۔ اور یہ سب سے اعلیٰ نعمت ہے۔
(۱۶) وہ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے ! ہم ایمان لائے تو ہمارے گناہ معاف کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
۳۴۔ ا ور ان کے اعمال و احوال جانتا اور ان کی جزا دیتا ہے۔
ٍ۳۵۔ جو طاعتوں اور مصیبتوں پر صبر کریں اور گناہوں سے باز رہیں۔
ٍ۳۶۔ جن کے قول اور ارادے اور نیّتیں سب سچی ہوں۔
ٍ۳۷۔ اس میں آخر شب میں نماز پڑھنے والے بھی داخل ہیں اور وقت سحر کے دعا و استغفار کرنے والے بھی یہ وقت خلوت و اجابت دعا کا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے فرزند سے فرمایا کہ مُرغ سے کم نہ رہنا کہ وہ تو سحر سے ندا کرے اور تم سوتے رہو۔
۳۸۔ شان نزول احبار شام میں سے دو شخص سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب انہوں نے مدینہ طیبہ دیکھا تو ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ نبی آخر الزماں کے شہر کی یہی صفت ہے، جو اس شہر میں پائی جاتی ہے جب آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے تو انہوں نے حضور کے شکل و شمائل توریت کے مطابق دیکھ کر حضور کو پہچان لیا اور عرض کیا آپ محمد ہیں حضور نے فرمایا ہاں،پھر عرض کیا کہ آپ احمد ہیں (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) فرمایا ہاں، عرض کیا ہم ایک سوال کرتے ہیں اگر آپ نے ٹھیک جواب دے دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے فرمایا سوال کرو انہوں نے عرض کیا کہ کتاب اللّٰہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس کو سن کر وہ دونوں حِبر مسلمان ہو گئے حضرت سعید بن جُبَیْر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ کعبہ معظمہ میں تین سو ساٹھ بت تھے جب مدینہ طیبہ میں یہ آیت نازل ہوئی تو کعبہ کے اندر وہ سب سجدہ میں گر گئے۔
۴۰۔ اس کے سوا کوئی اور دین مقبول نہیں یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار جو اپنے دین کو افضل و مقبول کہتے ہیں اس آیت میں ان کے دعویٰ کو باطل کر دیا۔
۴۱۔ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں وارد ہوئی جنہوں نے اسلام کو چھوڑا اور انہوں نے سیّد انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت میں اختلاف کیا۔
۴۲۔ وہ اپنی کتابوں میں سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت دیکھ چکے اور انہوں نے پہچان لیا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی کتبِ الٰہیہ میں خبریں دی گئی ہیں۔
۴۳۔ یعنی ان کے اختلاف کا سبب ان کا حسد اور منافع دنیویہ کی طمع ہے۔
۴۴۔ یعنی میں اور میرے متبعین ہمہ تن اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور مطیع ہیں ہمارا دین دینِ توحید ہے جس کی صحت تمہیں خود اپنی کتابوں سے بھی ثابت ہو چکی ہے تو اس میں تمہارا ہم سے جھگڑا کرنا بالکل باطل ہے۔
۴۵۔ جتنے کافر غیر کتابی ہیں وہ اُمیّین میں داخل ہیں انہیں میں سے عرب کے مشرکین بھی ہیں۔
۴۶۔ اور دین اسلام کے حضور سر نیاز خم کیا یا باوجود براہین بیّنہ قائم ہونے کے تم ابھی تک اپنے کفر پر ہو یہ دعوت ِ اسلام کا ایک پیرایہ ہے اور اس طرح انہیں دینِ حق کی طرف بلایا جاتا ہے۔
۴۷۔ وہ تم نے پورا کر ہی دیا اس سے انہوں نے نفع نہ اٹھایا تو نقصان میں وہ رہے اس میں حضور سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تسکین خاطر ہے کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ نہ ہوں۔
۴۸۔ جیسا کہ بنی اسرائیل نے صبح کو ایک ساعت کے اندر تینتالیس(۴۳) نبیوں کو قتل کیا پھر جب ان میں سے ایک سو بارہ عابدوں نے اٹھ کر انہیں نیکیوں کا حکم دیا اور بدیوں سے منع کیا تو اسی روز شام کو انہیں بھی قتل کر دیا اس آیت میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ کے یہود کو تو بیخ ہے کیونکہ وہ اپنے آباء و اجداد کے ایسے بدترین فعل سے راضی ہیں۔
۴۹۔ مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی جناب میں بے ادبی کفر ہے اور یہ بھی کہ کُفر سے تمام اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔
۵۰۔ کہ انہیں عذابِ الٰھی سے بچائے۔
۵۱۔ یعنی یہود کو کہ انہیں توریت شریف کے علوم و احکام سکھائے گئے تھے جن میں سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے اوصاف و احوال اور دینِ اسلام کی حقانیت کا بیان ہے اس سے لازم آتا تھا کہ جب حضور تشریف فرما ہوں اور انہیں قرآنِ کریم کی طرف دعوت دیں تو وہ حضور پر اور قرآن شریف پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں لیکن ان میں سے بہتوں نے ایسا نہیں کیا اس تقدیر پر آیت میں مِنَ الْکِتَابِ سے توریت اور کتاب اللّٰہ سے قرآن شریف مراد ہے۔
۵۲۔ شان نزول اس آیت کے شان نزول میں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے ایک روایت یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم بیت المِدراس میں تشریف لے گئے اور وہاں یہود کو اسلام کی دعوت دی نُعَیۡم ابن عمرو اور حارث ابن زید نے کہا کہ اے محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم آپ کس دین پر ہیں فرمایا، ملّتِ ابراہیمی پر وہ کہنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام تو یہودی تھے سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا توریت لاؤ ابھی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اس پر نہ جمے اور منکر ہو گئے اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی اس تقدیر پر آیت میں کتاب اللّٰہ سے توریت مراد ہے انہیں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ یہود خیبر میں سے ایک مر دنے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تھا اور توریت میں ایسے گناہ کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ یہودیوں میں اونچے خاندان کے تھے اس لئے انہوں نے ان کا سنگسار کرنا گوارہ نہ کیا اوراس معاملہ کو بایں امید سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس لائے کہ شاید آپ سنگسار کرنے کا حکم نہ دیں مگر حضور نے ان دونوں کے سنگسار کرنے کا حکم دیا اس پر یہود طیش میں آئے اور کہنے لگے کہ اس گناہ کی یہ سزا نہیں آپ نے ظلم کیا، حضور نے فرمایا کہ فیصلہ توریت پر رکھو کہنے لگے یہ انصاف کی بات ہے توریت منگائی گئی اور عبداللّٰہ بن صوریا یہود کے بڑے عالم نے اس کو پڑھا اس میں آیت رجم آئی جس میں سنگسار کرنے کا حکم تھا عبداللّٰہ نے اس پر ہاتھ رکھ لیا اور اس کو چھوڑ گیا حضرت عبداللّٰہ بن سلام نے اس کا ہاتھ ہٹا کر آیت پڑھ دی یہودی ذلیل ہوئے اور وہ یہودی مرد و عورت جنہوں نے زنا کیا تھا حضور کے حکم سے سنگسار کئے گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
۵۳۔ کتابِ الٰہی سے رو گردانی کرنے کی۔
۵۴۔ یعنی چالیس دن یا ایک ہفتہ پھر کچھ غم نہیں۔
۵۵۔ اور ان کا یہ قول تھا کہ ہم اللّٰہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں وہ ہمیں گناہوں پر عذاب نہ کرے گا مگر بہت تھوڑی مدت۔
۵۷۔ شانِ نزول فتح مکہ کے وقت سیّد انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی امت کو ملک فارس و روم کی سلطنت کا وعدہ دیا تو یہود و منافقین نے اس کو بہت بعید سمجھا اور کہنے لگے کہاں محمد مصطفیٰ ٰ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم )اور کہاں فارس و روم کے ملک وہ بڑے زبردست اور نہایت محفوظ ہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور آخر کار حضور کا وہ وعدہ پورا ہوکررہا۔
۵۸۔ یعنی کبھی رات کو بڑھائے دن کو گھٹائے اور کبھی دن کو بڑھا کر رات کو گھٹائے یہ تیری قدرت ہے تو فارس و روم سے ملک لے کر غلامانِ مصطفیٰ ٰ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم )کو عطا کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔
۵۹۔ زندے سے مردے کا نکالنا اس طرح ہے جیسے کہ زندہ انسان کو نطفۂ بے جان سے اور پرند کے زندہ بچے کو بے روح انڈے سے اور زندہ دِل مؤمن کو مردہ دل کافر سے اور زندہ سے مُردہ نکالنا اس طرح جیسے کہ زندہ انسان سے نطفۂ بے جان اور زندہ پرند سے بے جان انڈا اور زندہ دل ایمان دار سے مردہ دِل کافر۔
۶۰۔ شانِ نزول حضرت عبادہ ابنِ صامت نے جنگِ احزاب کے دِن سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچسو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابل ان سے مدد حاصل کروں اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی۔
۶۱۔ کفار سے دوستی و محبّت ممنوع و حرام ہے، انہیں راز دار بنانا اُن سے موالات کرنا ناجائز ہے اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے۔
۶۲۔ یعنی روز قیامت ہر نفس کو اعمال کی جزا ملے گی اور اس میں کچھ کمی و کوتاہی نہ ہو گی۔
۶۳۔ یعنی میں نے یہ برا کام نہ کیا ہوتا۔
۶۴۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبّت کا دعویٰ جب ہی سچّا ہو سکتا ہے جب آدمی سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا متبع ہو اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت اختیار کرے شانِ نزول حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم قریش کے پاس ٹھہرے جنہوں نے خانہ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کر رہے تھے حضور نے فرمایا اے گروہِ قریش خدا کی قسم تم اپنے آباء حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کے دین کے خلاف ہو گئے قریش نے کہا ہم ان بتوں کو اللّٰہ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللّٰہ سے قریب کریں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ محبّتِ الٰہی کا دعویٰ سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم کے اتباع و فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہے حضور کی غلامی کرے اور حضور نے بت پرستی کو منع فرمایا تو بت پرستی کرنے والا حضور کا نافرمان اور محبّتِ الٰہی کے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔
۶۵۔ یہی اللّٰہ کی محبت کی نشانی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت بغیر اطاعتِ رسول نہیں ہو سکتی بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللّٰہ کی نافرمانی کی۔
۶۶۔ یہود نے کہا تھا کہ ہم حضرت ابراہیم و اسحٰق و یعقوب علیہم الصلوٰۃ والسلام کی اولاد سے ہیں اور انہیں کے دین پر ہیں اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اسلام کے ساتھ برگزیدہ کیا تھا اور تم اے یہود اسلام پر نہیں ہو تو تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے۔
۶۷۔ ان میں باہم نسلی تعلقات بھی ہیں اور آپس میں یہ حضرات ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی۔
۶۸۔ عمران دو ہیں ایک عمران بن یَصۡھُرۡ بن فاہث بن لاویٰ بن یعقوب یہ تو حضرت موسیٰ و ہارون کے والد ہیں دوسرے عمران بن ماثان یہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ مریم کے والد ہیں دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو برس کا فرق ہے یہاں دوسرے عمران مراد ہیں ان کی بی بی صاحبہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذا ہے یہ مریم کی والدہ ہیں۔
۶۹۔ اور تیری عبادت کے سوا دنیا کا کوئی کام اس کے متعلق نہ ہو بیت المقدِس کی خدمت اس کے ذمہ ہو علماء نے واقعہ اس طرح ذکر کیا ہے کہ حضرت زکریاء و عمران دونوں ہم زُلف تھے فاقوذا کی دُختر ایشاع جو حضرت یحییٰ کی والدہ ہیں اور ان کی بہن حَنَّہ جو فاقوذا کی دوسری دختر اور حضرت مریم کی والدہ ہیں وہ عمران کی بی بی تھیں ایک زمانہ تک حَنَّہ کے اولاد نہیں ہوئی یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا اور مایوسی ہو گئی یہ صالحین کا خاندان تھا اور یہ سب لوگ اللّٰہ کے مقبول بندے تھے ایک روز حَنَّہ نے ایک درخت کے سایہ میں ایک چڑیا دیکھی جو اپنے بچہ کو بھرا رہی تھی یہ دیکھ کر آپ کی دل میں اولاد کا شوق پیدا ہوا اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ یارب اگر تو مجھے بچہ دے تو میں اس کو بیت المقدِس کا خادم بناؤں اور اس خدمت کے لئے حاضر کر دوں جب وہ حاملہ ہوئیں اور انہوں نے یہ نذر مان لی تو ان کے شوہر نے فرمایا:کہ یہ تم نے کیا کیا اگر لڑکی ہو گی تو وہ اس قابل کہاں ہے اس زمانہ میں لڑکوں کو خدمتِ بیتُ المقْدِس کے لئے دیا جاتا تھا اور لڑکیاں عوارض نسائی اور زنانہ کمزوریوں اور مردوں کے ساتھ نہ رہ سکنے کی وجہ سے اس قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں اس لئے ان صاحبوں کو شدید فکر لاحق ہوئی اورحَنَّہ کے وضع حمل سے قبل عمران کا انتقال ہو گیا۔
۷۰۔ حَنَّہ نے یہ کلمہ اعتذار کے طور پر کہا اور ان کو حسرت و غم ہوا کہ لڑکی ہوئی تو نذر کسی طرح پوری ہو سکے گی۔
۷۱۔ کیونکہ یہ لڑکی اللّٰہ کی عطا ہے اور اس کے فضل سے فرزند سے زیادہ فضیلت رکھنے والی ہے یہ صاحب زادی حضرت مریم تھیں اور اپنے زمانہ کی عورتوں میں سب سے اجمل وافضل تھیں۔
۷۳۔ اور نذر میں لڑکے کی جگہ حضرت مریم کو قبول فرما یا حَنَّہ نے ولادت کے بعد حضرت مریم کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بیتُ المقْدِس میں احبار کے سامنے رکھ دیا یہ احبار حضرت ہارون کی اولاد میں تھے اور بیتُ المقْدِس میں ان کا منصب ایسا تھا جیسا کہ کعبہ شریف میں حجبہ کا چونکہ حضرت مریم ان کے امام اور ان کے صاحبِ قربان کی دختر تھیں اور ان کا خاندان بنی اسرائیل میں بہت اعلیٰ اور اہل علم کا خاندان تھا اس لئے ان سب نے جن کی تعداد ستائیس تھی حضرت مریم کو لینے اور ان کا تکفّل کرنے کی رغبت کی حضرت زکریا نے فرمایا کہ میں ان کا سب سے زیادہ حقدار ہوں کیونکہ میرے گھر میں ان کی خالہ ہیں معاملہ اس پر ختم ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے قرعہ حضرت زکریا ہی کے نام پر نکلا۔
۷۴۔ حضرت مریم ایک دن میں اتنا بڑھتی تھیں جتنا اور بچے ایک سال میں۔
۷۵۔ بے فصل میوے جو جنت سے اترتے اور حضرت مریم نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا۔
۷۶۔ حضرت مریم نے صِغر سنی میں کلام کیا جب کہ وہ پالنے میں پرورش پارہی تھیں جیسا کہ ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسی حال میں کلام فرمایا مسئلہ یہ آیت کراماتِ اولیاء کے ثبوت کی دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اُن کے ہاتھوں پر خوارق ظاہر فرماتا ہے حضرت زکریا نے جب یہ دیکھا تو فرمایا جو ذات پاک مریم کو بے وقت بے فصل اور بغیر سبب کے میوہ عطا فرمانے پر قادر ہے وہ بے شک اس پر قادر ہے کہ میری بانجھ بی بی کو نئی تندرستی دے اور مجھے اس بڑھاپے کی عمر میں امید منقطع ہو جائے کے بعد فرزند عطا کرے بایں خیال آپ نے دعا کی جس کا اگلی آیت میں بیان ہے۔
۷۷۔ یعنی محراب بیت المقدِس میں دروازے بند کر کے دعا کی۔
۷۸۔ حضرت زکریا علیہ السلام عالم کبیر تھے۔قربانیاں بارگاہِ الٰہی میں آپ ہی پیش کیا کرتے تھے اور مسجد شریف میں بغیر آپ کے اِذن کے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا جس وقت محراب میں آپ نماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی دخول کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے دروازہ بند تھا اچانک آپ نے ایک سفید پوش جوان دیکھا وہ حضرت جبریل تھے انہوں نے آپ کو فرزند کی بشارت دی جو اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ میں بیان فرمائی گئی۔
۷۹۔ کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ہیں کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰٰ نے کُن فرما کر بغیر باپ کے پیدا کیا اور ان پر سب سے پہلے ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عمر میں چھ ماہ بڑے تھے یہ دونوں حضرات خالہ زاد بھائی تھے حضرت یحییٰ کی والدہ اپنی بہن حضرت مریم سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا حضرت مریم نے فرمایا میں بھی حاملہ ہوں حضرت یحییٰ کی والدہ نے کہا اے مریم مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔
۸۰۔ سیّد اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطَاع ہو حضرت یحییٰ مؤمنین کے سردار اور علم و حلم و دین میں ان کے رئیس تھے۔
۸۱۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے براہ تعجب عرض کیا۔
۸۲۔ اور عمر ایک سو بیس سال کی ہو چکی۔
۸۳۔ ان کی عمر اٹھانوے سال کی مقصود سوال سے یہ ہے کہ بیٹا کس طرح عطا ہو گا آیا میری جوانی لوٹائی جائے گی اور بی بی کا بانجھ ہونا دور کیا جائے گا یا ہم دونوں اپنے حال پر رہیں گے۔
۸۴۔ بڑھاپے میں فرزند عطا کرنا اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔
۸۵۔ جس سے مجھے اپنی بی بی کے حمل کا وقت معلوم ہوتا کہ میں اور زیادہ شکر و عبادت میں مصروف ہوں۔
۸۶۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آدمیوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے زبان مبارک تین روز تک بند رہی اور تسبیح و ذکر پر آپ قادر رہے اوریہ ایک عظیم معجزہ ہے کہ جس میں جوارح صحیح و سالم ہوں اور زبان سے تسبیح و تقدیس کے کلمات ادا ہوتے رہیں مگر لوگوں کے ساتھ گفتگو نہ ہو سکے اور یہ علامت اس لئے مقرر کی گئی کہ اس نعمتِ عظیمہ کے ادائے حق میں زبان ذکر و شکر کے سوا اور کسی بات میں مشغول نہ ہو۔
۸۷۔ کہ باوجود عورت ہونے کے بیت المقدِس کی خدمت کے لئے نذر میں قبول فرمایا اور یہ بات اُن کے سوا کسی عورت کو میسّر نہ آئی اسی طرح ان کے لئے جنتی رزق بھیجنا حضرت زکریا کو ان کا کفیل بنانا یہ حضرت مریم کی برگزیدگی ہے۔
۸۸۔ مرد رسیدگی سے اور گناہوں سے اور بقول بعضے زنانے عوارض سے۔
۸۹۔ کہ بغیر باپ کے بیٹا دیا اور ملائکہ کا کلام سنوایا۔
۹۰۔ جب فرشتوں نے یہ کہا کہ حضرت مریم نے اتنا طویل قیام کیا کہ آپ کے قدم مبارک پر ورم آگیا اور پاؤں پھٹ کر خون جاری ہو گیا۔
۹۱۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو غیب کے علوم عطا فرمائے۔
۹۲۔ باوجود اس کے آپ کا ان واقعات کی اطلاع دینا دلیل قوی ہے اس کی کہ آپ کو غیبی علوم عطا فرمائے گئے۔
۹۷۔ آسمان سے نزول کے بعد اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین کی طرف اتریں گے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور دجّال کو قتل کریں گے۔
۹۸۔ اور دستور یہ ہے کہ بچہ عورت و مرد کے اختلاط سے ہوتا ہے تو مجھے بچہ کس طرح عطا ہو گا نکاح سے یا یونہی بغیر مرد کے۔
۹۹۔ جو میرے دعوائے نبوّت کے صدق کی دلیل ہے۔
۱۰۰۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی چمگادڑ کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت اکمل اور عجیب تر ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں اوروں سے ابلغ کیونکہ وہ بغیر پروں کے تو اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور بچہ جنتی ہے باوجودیکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔
۱۰۱۔ جس کا برص عام ہو گیا ہو اور اطبا اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں طب انتہاے ٔ عروج پر تھی اور اس کے ماہرین امر علاج میں ید طولیٰ رکھتے تھے اس لئے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کر دینا یقیناً معجزہ اور نبی کے صدق نبوّت کی دلیل ہے وہب کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہو جاتا تھا ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کر لیتے۔
۱۰۲۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ ا الصلوٰۃ والسلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ایک عازر جس کو آپ کے ساتھ اخلاص تھا جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ کو اطلاع دی مگر وہ آپ سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا جب آپ تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہو چکے آپ نے اس کی بہن سے فرمایا ہمیں اس کی قبر پر لے چل وہ لے گئی آپ نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا فرمائی عازر باذنِ الٰہی زندہ ہو کر قبر سے باہر آیا اور مدّت تک زندہ رہا اور اس کے اولاد ہوئی ایک بڑھیا کا لڑکا جس کا جنازہ حضرت کے سامنے جا رہا تھا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر نعش برداروں کے کندھوں سے اتر پڑا کپڑے پہنے گھر آیا زندہ رہا اولاد ہوئی ایک عاشر کی لڑکی شام کو مری اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا سے اس کو زندہ کیا ایک سام بن نوح جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے لوگوں نے خواہش کی کہ آپ ان کو زندہ کریں آپ ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی سام نے سنا کوئی کہنے والا کہتا ہے اَجِبْ رُوْحَ اللّٰہ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہو گئی اس ہول سے ان کا نصف سر سفید ہو گیا، پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو بغیر اس کے واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہو گیا اور باذنِ اللّٰہ فرمانے میں رد ہے نصاریٰ کا جو حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل تھے۔
۱۰۳۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے تو آپ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اسی سے ثابت ہوا کہ غیب کے علوم انبیاء کا معجزہ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ آدمی کو بتا دیتے تھے جو وہ کل کھا چکا اور آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ آپ کے پاس بچے بہت سے جمع ہو جاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے فلاں چیز تمہارے لئے اٹھا رکھی ہے بچے گھر جاتے روتے گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے۔ اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا بچے کہتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا وہ جادو گر ہیں ان کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کر دیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا وہ یہاں نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے انہوں نے کہا سور ہیں فرمایا ایسا ہی ہو گا اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سب سور ہی سور تھے۔ الحاصل غیب کی خبریں دینا انبیاء کا معجزہ ہے اور بے وساطت انبیاء کوئی بشر امور غیب پر مطلع نہیں ہو سکتا۔
(۵۰) اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلے کتاب توریت کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں (ف ۱۰۴) اور میں تمہارے پاس پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ہوں، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
۱۰۴۔ جو شریعت موسیٰ علیہ السلام میں حرام تھیں جیسے کہ اونٹ کے گوشت مچھلی کچھ پرند۔
۱۰۵۔ یہ اپنی عبدیت کا اقرار اور اپنی ربوبیت کی نفی ہے اس میں نصاریٰ کا رد ہے۔
۱۰۶۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ یہود اپنے کفر پر قائم ہیں اور آ پ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی آیات باہرات اور معجزات سے اثر پذیر نہیں ہوئے اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ ان کے دین کو منسوخ کریں گے تو جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ کے ایذا و قتل کے درپے ہوئے اور آپ کے ساتھ انہوں نے کفر کیا۔
۱۰۷۔ حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے یہ بارہ اشخاص تھے۔
۱۰۸۔ مسئلہ : اس آیت سے ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء کا دین اسلام تھا نہ کہ یہودیت و نصرانیت۔
۱۰۹۔ یعنی کفار بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ مَکر کیا کہ دھوکے کے ساتھ آپ کے قتل کا انتظام کیا اور اپنے ایک شخص کو اس کام پر مقرر کر دیا۔
۱۱۰۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے مَکر کا یہ بدلہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھا لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃوالسلام کی شباہت اس شخص پر ڈال دی جو اُن کے قتل کے لئے آمادہ ہوا تھا چنانچہ یہود نے اس کو اسی شبہ پر قتل کر دیا۔ مسئلہ لفظ مَکر لُغتِ عرب میں سَتر یعنی پوشیدگی کے معنیٰ میں ہے اسی لئے خفیہ تدبیر کو بھی مَکر کہتے ہیں اور وہ تدبیر اگر اچھے مقصد کے لئے ہو تو محمود اور کِسی قبیح غرض کے لئے ہو تو مذموم ہوتی ہے مگر اُردو زبان میں یہ لفظ فریب کے معنیٰ میں مستعمل ہوتا ہے اس لئے ہر گز شانِ الٰہی میں نہ کہا جائے گا اور اب چونکہ عربی میں بھی بمعنی خداع کے معروف ہو گیا ہے اس لئے عربی میں بھی شانِ الٰہی میں اس کا اطلاق جائز نہیں آیت میں جہاں کہیں وارد ہوا وہ خفیہ تدبیر کے معنیٰ میں ہے۔
۱۱۱۔ یعنی تمہیں کفار قتل نہ کر سکیں گے (مدارک وغیرہ)۔
۱۱۲۔ آسمان پر محل کرامت اور مَقَرِّ ملائکہ میں بغیر موت کے حدیث شریف میں ہے سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت عیسیٰ میری اُمت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے صلیب توڑیں گے خنازیر کو قتل کریں گے چالیس سال رہیں گے نکاح فرمائیں گے اولاد ہو گی، پھر آپ کا وصال ہو گا وہ اُمت کیسے ہلاک ہو جس کے اول میں ہوں اور آخر عیسیٰ اور وسط میں میرے اہل بیت میں سے مہدی مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مَنَارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے یہ بھی وارد ہوا کہ حجرۂ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میں مدفون ہوں گے۔
۱۱ٍ۳۔ یعنی مسلمانوں کو جو آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہیں۔
۱۱۵۔ شانِ نزول نصاریٰ نجران کا ایک وفد سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور وہ لوگ حضور سے کہنے لگے آپ گمان کرتے ہیں کہ عیسیٰ اللّٰہ کے بندے ہیں فرمایا ہاں اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کے کلمے جو کواری بتول عذراء کی طرف القاء کئے گئے نصاریٰ یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے یا محمد کیا تم نے کبھی بے باپ کا انسان دیکھا ہے اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں (معاذ اللّٰہ )اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بغیر باپ ہی کے ہوئے اور حضرت آدم علیہ السلام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کئے گئے تو جب انہیں اللّٰہ کا مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللّٰہ کا مخلوق و بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے۔
۱۱۶۔ جب رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے نصاریٰ نجران کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اور مشورہ کر لیں کل آپ کو جواب دیں گے جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص عاقب سے کہا کہ اے عبدالمسیح آپ کی کیا رائے ہے اس نے کہا اے جماعت نصاریٰ تم پہچان چکے کہ محمدنبی مرسل تو ضرور ہیں اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہو جاؤ گے اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ و اور گھر کو لوٹ چلو یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور کی گود میں تو امام حسین ہیں اور دست مبارک میں حسن کا ہاتھ اور فاطمہ اور علی حضور کے پیچھے ہیں (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم)اور حضور ان سب سے فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا نجران کے سب سے بڑے نصرانی عالم(پادری)نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا اے جماعت نصاریٰ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللّٰہ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللّٰہ تعالیٰ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے ان سے مباہلہ نہ کرنا ہلاک ہو جاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گایہ سن کر نصاریٰ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کے لئے تیار نہ ہوئے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے نجران والوں پر عذاب قریب آ ہی چکا تھا اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کر دیئے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور نجران اور وہاں کے رہنے والے پرند تک نیست و نابود ہو جاتے اور ایک سال کے عرصہ میں تمام نصاریٰ ہلاک ہو جاتے۔
۱۱۷۔ کہ حضرت عیسیٰ اللّٰہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور ا ن کا وہ حال ہے جو اوپر مذکور ہو چکا۔
۱۱۸۔ اس میں نصاریٰ کا بھی رد ہے اور تمام مشرکین کا بھی۔
۱۱۹۔ اور قرآن اور توریت اور انجیل اس میں مختلف نہیں۔
۱۲۰۔ نہ حضرت عیسیٰ کو نہ حضرت عزیر کو نہ اور کسی کو۔
۱۲۱۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے احبار و رہبان کو بنایا کہ انہیں سجدے کرتے اور ان کی عبادتیں کرتے (جمل)۔
۱۲۲۔ شان نزول نجران کے نصاریٰ اور یہود کے احبار میں مباحثہ ہوا یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور نصرانیوں کایہ دعویٰ تھا کہ آپ نصرانی تھے یہ نزاع بہت بڑھا تو فریقین نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو حَکَمۡ مانا اور آپ سے فیصلہ چاہا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور علماء توریت و انجیل پر ان کا کمال جہل ظاہر کر دیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ان کے کمال جہل کی دلیل ہے۔ یہودیت و نصرانیت توریت و انجیل کے نزول کے بعد پیدا ہوئیں اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کا زمانہ جن پر توریت نازل ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صد ہا برس بعد ہے اور حضرت عیسیٰ جن پر انجیل نازل ہوئی ان کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد دو ہزار برس کے قریب ہوا ہے اور توریت و انجیل کسی میں آپ کو یہودی یا نصرانی نہیں فرمایا گیا باوجود اس کے آپ کی نسبت یہ دعویٰ جہل و حماقت کی انتہا ہے۔
۱۲۴۔ اور تمہاری کتابوں میں اس کی خبر دی گئی تھی یعنی نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے ظہور اور آپ کی نعت و صفت کی جب یہ سب کچھ جان پہچان کر بھی تم حضور پر ایمان نہ لائے اور تم نے اس میں جھگڑا کیا۔
۱۲۵۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی یا نصرانی کہتے ہیں۔
۱۲۷۔ تونہ کسی یہودی یا نصرانی کا اپنے آپ کو دین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا صحیح ہو سکتا ہے نہ کسی مشرک کا بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس میں یہود و نصاریٰ پر تعریض ہے کہ وہ مشرک ہیں۔
۱۲۸۔ اور انکے عہدِ نبوت میں ان پر ایمان لائے اور انکی شریعت پر عامل رہے۔
۱۲۹۔ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔
۱ٍ۳۱۔ شا نِ نزول یہ آیت حضرت معاذ بن جبل و حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر کے حق میں نازل ہوئی جن کو یہوداپنے دین میں داخل کرنے کی کوشش کرتے اور یہودیت کی دعوت دیتے تھے اس میں بتایا گیا کہ یہ ان کی ہوس خام ہے وہ ان کو گمراہ نہ کر سکیں گے۔
۱ٍ۳۲۔ اور تمہاری کتابوں میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت موجود ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ نبی برحق ہیں اور ان کادین سچا دین۔
۱ٍ۳ٍ۳۔ اپنی کتابوں میں تحریف و تبدیل کر کے۔
۱ٍ۳۴۔ اور انہوں نے باہم مشورہ کر کے یہ مَکر سوچا۔
۱ٍ۳۶۔ شانِ نزول یہود اسلام کی مخالفت میں رات دن نئے نئے مَکر کیا کرتے تھے خیبر کے علماء یہود کے بارہ شخصوں نے باہمی مشورہ سے ایک یہ مَکر سوچا کہ ان کی ایک جماعت صبح کو اسلام لے آئے اور شام کو مرتد ہو جائے اور لوگوں سے کہے کہ ہم نے اپنی کتابوں میں جو دیکھا تو ثابت ہوا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم وہ نبی موعود نہیں ہیں جن کی ہماری کتابوں میں خبر ہے تاکہ اس حرکت سے مسلمانوں کو دین میں شبہ پیدا ہو لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کا یہ راز فاش کر دیا اور ان کا یہ مَکر نہ چل سکا اور مسلمان پہلے سے خبردار ہو گئے۔
۱ٍ۳۷۔ اور جواس کے سوا ہے وہ باطل و گمراہی ہے۔
۱ٍ۳۸۔ دین و ہدایت اور کتاب و حکمت اور شرف فضیلت۔
۱۴۱۔ مسئلہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبوّت جس کسی کو ملتی ہے اللّٰہ کے فضل سے ملتی ہے اس میں استحقاق کادخل نہیں ( خازن)۔
۱۴۲۔ شان نزول یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی اور اس میں ظاہر فرمایا گیا کہ ان میں دو قسم کے لوگ ہیں امین و خائن بعض تو ایسے ہیں کہ کثیر مال ان کے پاس امانت رکھا جائے تو بے کم و کاست وقت پر ادا کر دیں جیسے حضرت عبداللّٰہ بن سلام جن کے پاس ایک قریشی نے بارہ سو اَوقِیہ سونا امانت رکھا تھا آپ نے اس کو ویسا ہی ادا کیا اور بعض اہل کتاب میں اتنے بد دیانت ہیں کہ تھوڑے پر بھی ان کی نیت بگڑ جاتی ہے جیسے کہ فخاص بن عازوراء جس کے پاس کسی نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی مانگتے وقت اس سے مُکَرگیا۔
۱۴۳۔ اور جب ہی دینے والا اس کے پاس سے ہٹے وہ مال امانت ہضم کر جاتا ہے۔
۱۴۵۔ کہ اس نے اپنی کتابوں میں دوسرے دین والوں کے مال ہضم کرجانے کا حکم دیا ہے باوجود یہ کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسا حکم نہیں۔
۱۴۶۔ شانِ نزول یہ آیت یہود کے احبار اور انکے رؤساء ابو رافع وکنانہ بن ابی الحقیق اورکعب بن اشرف وحیّی بن اخطب کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کاوہ عہد چھپایا تھا جو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے کے متعلق ان سے توریت میں لیا گیا۔ انہوں نے اس کو بدل دیا اور بجائے اس کے اپنے ہاتھوں سے کچھ کا کچھ لکھ دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ یہ اللّٰہ کی طرف سے ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جماعت کے جاہلوں سے رشوتیں اور زر حاصل کرنے کے لئے کیا۔
۱۴۷۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین لوگ ایسے ہیں کہ روز قیامت اللّٰہ تعالیٰ نہ ان سے کلام فرمائے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے اور انہیں درد ناک عذاب ہے اس کے بعد سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کو تین مرتبہ پڑھا حضرت ابوذر راوی نے کہا کہ وہ لوگ ٹوٹے اور نقصان میں رہے یا رسول اللّٰہ وہ کون لوگ ہیں حضور نے فرمایا ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور احسان جتانے والا اور اپنے تجارتی مال کو جھوٹی قسم سے رواج دینے والا حضرت ابو امامہ کی حدیث میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی مسلمان کا حق مارنے کے لئے قسم کھائے اللّٰہ اس پر جنت حرام کرتا ہے اور دوزخ لازم کرتا ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ اگرچہ تھوڑی ہی چیز ہو فرمایا اگرچہ ببول کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔
۱۴۸۔ شانِ نزول حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ دونوں کے حق میں نازل ہوئی کہ انہوں نے توریت و انجیل کی تحریف کی اور کتاب اللّٰہ میں اپنی طرف سے جو چاہا ملایا۔
۱۴۹۔ اور کمال علم و عمل عطا فرمائے اور گناہوں سے معصوم کرے۔
۱۵۰۔ یہ انبیاء سے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔شانِ نزول نجران کے نصاریٰ نے کہا کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا ہے کہ ہم انہیں رب مانیں اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاء کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافع یہودی اور سید نصرانی نے سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہایا محمد آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں حضور نے فرمایا اللّٰہ کی پناہ کہ میں غیر اللّٰہ کی عبادت کا حکم کروں نہ مجھے اللّٰہ نے اس کا حکم دیا نہ مجھے اس لئے بھیجا۔
۱۵۱۔ ربّانی کے معنی عالم فقیہ اور عالم با عمل اور نہایت دیندار کے ہیں۔
۱۵۲۔ اس سے ثابت ہوا کہ علم و تعلیم کا ثمرہ یہ ہونا چاہئے کہ آدمی اللّٰہ والا ہو جائے جسے علم سے یہ فائدہ نہ ہوا اس کاعلم ضائع اور بے کار ہے۔
۱۵۳۔ اللّٰہ تعالیٰ یا اس کا کوئی نبی۔
۱۵۴۔ ایسا کسی طرح نہیں ہو سکتا۔
۱۵۵۔ حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ان سے سید انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت عہد لیا اور ان انبیاء نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی نصرت کریں اس سے ثابت ہوا کہ حضور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں۔
۱۵۶۔ یعنی سید عالم محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔
۱۵۷۔ اس طرح کہ انکے صفات و احوال اس کے مطابق ہوں جو کتب انبیاء میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
۱۵۹۔ اور آنے والے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے سے اعراض کرے۔
۱۶۱۔ بعد عہد لئے جانے کے اور دلائل واضح ہونے کے باوجود۔
۱۶۳۔ دلائل میں نظر کر کے اور انصاف اختیار کر کے۔ اور یہ اطاعت ان کو فائدہ دیتی اور نفع پہنچاتی ہے۔
۱۶۴۔ کسی خوف سے یا عذاب کے دیکھ لینے سے جیسا کہ کافر عند الموت وقت یاس ایمان لاتا ہے یہ ایمان اسکو قیامت میں نفع نہ دے گا۔
۱۶۵۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا کہ بعض پر ایمان لائے بعض کے منکر ہو گئے۔
۱۶۶۔ شانِ نزول حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی کہ یہود حضور کی بعثت سے قبل آپ کے وسیلہ سے دعائیں کرتے تھے اور آپ کی نبوت کے مُقِرّ تھے اور آپ کی تشریف آوری کا انتظار کرتے تھے جب حضور کی تشریف آوری ہوئی تو حسداً آپ کا انکار کرنے لگے اور کافر ہو گئے معنیٰ یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے توفیق ایمان دے کہ جو جان پہچان کر اور مان کر منکر ہو گئی۔
۱۶۷۔ یعنی سید انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔
۱۶۸۔ اور وہ روشن معجزات دیکھ چکے تھے۔
۱۶۹۔ اور کفر سے باز آئے۔ شانِ نزول :حارث ابن سوید انصاری کو کفار کے ساتھ جا ملنے کے بعد ندامت ہوئی تو انہوں نے اپنی قوم کے پاس پیام بھیجا کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کریں کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے انکے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تب وہ مدینہ منورہ میں تائب ہو کر حاضر ہوئے اور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
۱۷۰۔ شانِ نزول:یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کے ساتھ کفر کیا پھر کفر میں اور بڑھے اور سید انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن کے ساتھ کفر کیا،اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی جو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے قبل تو اپنی کتابوں میں آپ کی نعت و صفت دیکھ کر آپ پر ایمان رکھتے تھے اور آ پ کے ظہور کے بعد کافر ہو گئے اور پھر کفر میں اور شدید ہو گئے۔
۱۷۱۔ اس حال میں یا وقت موت یا اگر وہ کفر پر مرے۔
۱۷۲۔ بر سے تقویٰ و طاعت مراد ہے حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہاں خرچ کرنا عام ہے تمام صدقات کا یعنی واجبہ ہوں یا نافلہ سب اس میں داخل ہیں حسن کا قول ہے کہ جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو اور اسے رضائے الٰہی کے لئے خرچ کرے وہ اس آیت میں داخل ہے خواہ ایک کھجور ہی ہو(خازن) عمر بن عبدالعزیز شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے ان سے کہا گیا اس کی قیمت ہی کیوں نہیں صدقہ کر دیتے فرمایا شکر مجھے محبوب و مرغوب ہے یہ چاہتا ہوں کہ راہِ خدا میں پیاری چیز خرچ کروں (مدارک) بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابو طلحہ انصاری مدینے میں بڑے مالدار تھے انہیں اپنے اموال میں بیرحا(باغ)بہت پیارا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کیا مجھے اپنے اموال میں بیر حاسب سے پیارا ہے میں اس کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں حضور نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت ابوطلحہ نے بایمائے حضور اپنے اقارب اور بنی عم میں اس کو تقسیم کر دیا حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے ابو موسی اشعری کو لکھا کہ میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو جب وہ آئی تو آپ کو بہت پسند آئی آپ نے یہ آیت پڑھ کر اللّٰہ کے لئے اس کو آزاد کر دیا۔
۱۷۳۔ شانِ نزول: یہود نے سید عالم سے کہا کہ حضور اپنے آپ کو ملّتِ ابراہیمی پر خیال کرتے ہیں باوجود یکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اونٹ کا گوشت اور دودھ نہیں کھاتے تھے آپ کھاتے ہیں تو آپ ملّتِ ابراہیمی پر کیسے ہوئے حضور نے فرمایا کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم پر حلال تھیں یہود کہنے لگے کہ یہ حضرت نوح پر بھی حرام تھیں حضرت ابراہیم پر بھی حرام تھیں اور ہم تک حرام ہی چلی آئیں اس پر اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا گیا کہ یہود کا یہ دعویٰ غلط ہے بلکہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم و اسمٰعیل و اسحاق و یعقوب پرحلال تھیں حضرت یعقوب نے کسی سبب سے ان کو اپنے اوپر حرام فرمایا اور یہ حرمت ان کی اولاد میں باقی رہی یہود نے اس کا انکار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ توریت اس مضمون پر ناطق ہے اگر تمہیں انکار ہے تو توریت لاؤ اس پر یہود کو اپنی فضیحت و رسوائی کا خوف ہوا اور وہ توریت نہ لا سکے ان کا کذب ظاہر ہو گیا اور انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی فائدہ اس سے ثابت ہوا کہ پچھلی شریعتوں میں احکام منسوخ ہوتے تھے اس میں یہود کا رد ہے جو نسخ کے قائل نہ تھے فائدہ حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اُمّی تھے باوجود اس کے یہود کو توریت سے الزام دینا اور توریت کے مضامین سے استدلال فرمانا آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے اور اس سے آپ کے وہبی اور غیبی علوم کا پتہ چلتا ہے۔
۱۷۴۔ اور کہے کہ ملتِ ابراہیمی میں اونٹوں کے گوشت اور دودھ اللّٰہ تعالیٰ نے حرام کئے تھے۔
۱۷۵۔ کہ وہی ا سلام اور دین محمدی ہے۔
۱۷۶۔ شانِ نزول:یہود نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ بیت المَقدِس ہمارا قبلہ ہے کعبہ سے افضل اور اس سے پہلا ہے انبیاء کا مقام ہجرت و قبلۂ عبادت ہے مسلمانوں نے کہا کہ کعبہ افضل ہے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ سب سے پہلا مکان جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے طاعت و عبادت کے لئے مقرر کیا نماز کا قبلہ حج اور طواف کا موضع بنایا جس میں نیکیوں کے ثواب زیادہ ہوتے ہیں وہ کعبہ معظمہ ہے جو شہر مکہ معظمہ میں واقع ہے حدیث شریف میں ہے کہ کعبہ معظمہ بیت المَقدِس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔
۱۷۷۔ جو اس کی حرمت و فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرند کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو اِدھر اُدھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرند بیمار ہو جاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں اسی سے انہیں شفا ہوتی ہے اور وُحوش ایک دوسرے کو حرم میں ایذا نہیں دیتے حتی کہ کتے اس سرزمین میں ہرن پر نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے اور لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب جمعہ کو ارواحِ اَولیاء اس کے گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی کا قصد کرتا ہے برباد ہو جاتا ہے انہیں آیات میں سے مقام ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا(مدارک و خازن وا حمدی)۔
۱۷۸۔ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور اس میں آ پ کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو باوجود طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے ابھی تک کچھ باقی ہیں۔
۱۷۹۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و جنایت کر کے حرم میں داخل ہو تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے نہ اس پر حد قائم کی جائے حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔
۱۸۰۔ مسئلہ :اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ استطاعت شرط ہے حدیث شریف میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی تفسیر زادو راحلہ سے فرمائی زاد یعنی توشہ کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے نفقہ کے علاوہ ہونا چاہئے راہ کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ بغیر اس کے استطاعت ثابت نہیں ہوتی۔
۱۸۱۔ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرض قطعی کا منکر کافر ہے۔
۱۸۲۔ جو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے صدق نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۸۳۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب کر کے اور آپ کی نعت و صفت چھپا کر جو توریت میں مذکور ہے۔
۱۸۴۔ کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت توریت میں مکتوب ہے اور اللّٰہ کو جو دین مقبول ہے وہ صرف دین اسلام ہی ہے۔
۱۸۵۔ شانِ نزول:اَوس و خَزْرَج کے قبیلوں میں پہلے بڑی عداوت تھی اور مدتوں ان کے درمیان جنگ جاری رہی سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقہ میں ان قبیلوں کے لوگ اسلام لا کر باہم شیرو شکر ہوئے ایک روز وہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے اُنس و محبت کی باتیں کر رہے تھے شاس بن قیس یہودی جو بڑا دشمن اسلام تھا اس طرف سے گزرا اور ان کے باہمی روابط دیکھ کر جل گیا اور کہنے لگا کہ جب یہ لوگ آپس میں مل گئے تو ہمارا کیا ٹھکانا ہے ایک جوان کو مقرر کیا کہ انکی مجلس میں بیٹھ کر ان کی پچھلی لڑائیوں کا ذکر چھیڑے اور اس زمانہ میں ہر ایک قبیلہ جو اپنی مدح اور دوسروں کی حقارت کے اشعار لکھتا تھا پڑھے چنانچہ اس یہودی نے ایسا ہی کیا اور اس کی شرر انگیزی سے دونوں قبیلوں کے لوگ طیش میں آ گئے اور ہتھیار اٹھا لئے قریب تھا کہ خونریزی ہو جائے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم یہ خبر پاکر مہاجرین کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا کہ اے جماعت اہل اسلام یہ کیا جاہلیت کے حرکات ہیں میں تمہارے درمیان ہوں اللّٰہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کی عزت دی جاہلیت کی بلاسے نجات دی تمہارے درمیان الفت و محبت ڈالی تم پھر زمانۂ کفر کی حالت کی طرف لوٹتے ہو حضور کے ارشاد نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ شیطان کا فریب اور دشمن کا مَکر تھا انہوں نے ہاتھوں سے ہتھیار پھینک دیئے اور روتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ فرمانبردارانہ چلے آئے ا ن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۱۸۶۔ حَبْلِ اللّٰہ ِ کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہی ععددں بعض کہتے ہیں اس سے قرآن مراد ہے مُسلِم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل اللّٰہ ہے جس نے اس کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اُس کو چھوڑا وہ گمراہی پر حضرت ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ حبل اللّٰہ سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کر لو کہ وہ حبل اللّٰہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۱۸۷۔ جیسے کہ یہود و نصاریٰ متفرق ہو گئے اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی ممانعت کی گئی جو مسلمانوں کے درمیان تفرق کا سبب ہوں طریقہ مسلمین مذہب اہل سنت ہے اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق اور ممنوع ہے۔
۱۸۸۔ اور اسلام کی بدولت عداوت دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی حتیٰ کہ اَوس اور خَزْرَج کی وہ مشہور لڑائی جو ایک سو بیس سال سے جاری تھی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم کے ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ نے مٹا دی اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کر دی اور جنگ جو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کر دیئے۔
۱۸۹۔ یعنی حالتِ کفر میں کہ اگر اسی حال پر مر جاتے تو دوزخ میں پہنچتے۔
۱۹۱۔ اس آیت سے امر معروف و نہی منکر کی فرضیت اور اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔
۱۹۲۔ حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا کہ نیکیوں کا حکم کرنا اور بدیوں سے روکنا بہترین جہاد ہے۔
۱۹۳۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ آپس میں مختلف ہوئے اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ عناد و دشمنی راسخ ہو گئی یا جیسا کہ خود تم زمانۂ اسلام سے پہلے جاہلیت کے وقت میں متفرق تھے تمہارے درمیان بغض و عناد تھا مسئلہ : اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اجتماع کا حکم دیا گیا اور اختلاف اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی گئی احادیث میں بھی اس کی بہت تاکیدیں وارد ہیں اور جماعت مسلمین سے جدا ہونے کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو فرقہ پیدا ہوتا ہے اس حکم کی مخالفت کر کے ہی پیدا ہوتا ہے اور جماعت مسلمین میں تفرقہ اندازی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور حسب ارشاد حدیث وہ شیطان کا شکار ہے اَعَاذَنَا اللّٰہُ تَعَالیٰ مِنہُ۔
۱۹۵۔ یعنی کفّار اُن سے تو بیخاً کہا جائے گا۔
۱۹۶۔ اس کے مخاطب یا تو تمام کفار ہیں اس صورت میں ایمان سے روز میثاق کا ایمان مراد ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے بَلیٰ کہا تھا اور ایمان لائے تھے اب جو دُنیا میں کافر ہوئے تو اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ روز میثاق ایمان لانے کے بعد تم کافر ہو گئے حسن کا قول ہے کہ اس سے منافقین مراد ہیں جنہوں نے زبان سے اظہار ایمان کیا تھا اور ان کے دل مُنکر تھے عِکْرَمہ نے کہا کہ وہ اہل کتاب ہیں جو سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم کی بعثت کے قبل تو حضور پر ایمان لائے اور حضور کے ظہور کے بعد آپ کا انکار کر کے کافر ہو گئے ایک قول یہ ہے کہ اس کے مخاطب مرتدین ہیں جو اسلام لا کر پھر گئے اور کافر ہو گئے۔
۱۹۷۔ یعنی اہل ایمان کہ اس روز بکرمہٖ تعالیٰ و ہ فرحان و شاداں ہوں گے اور اُن کے چہرے چمکتے دمکتے ہوں گے داہنے بائیں اور سامنے نُور ہو گا۔
۱۹۸۔ اور کسی کو بے جرم عذاب نہیں دیتا اور کسی کی نیکی کا ثواب کم نہیں کرتا۔
۱۹۹۔ اے اُمّتِ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔ شانِ نزول : یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود وغیرہ اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی حدیث میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللّٰہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کا دست رحمت جماعت پر ہے جو جماعت سے جدا ہوا دوزخ میں گیا۔
۲۰۰۔ سید انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر۔
۲۰۱۔ جیسے کہ حضرت عبداللّٰہ بن سلام اور انکے اصحاب یہود میں سے اور نجاشی اور ان کے اصحاب نصاریٰ میں سے۔
۲۰۲۔ زبانی طعن و تشنیع اور دھمکی وغیرہ سے شان نزول یہود میں سے جو لوگ اسلام لائے تھے جیسے حضرت عبداللّٰہ ابن سلام اور اُن کے ہمراہی رؤساء یہود ان کے دشمن ہو گئے اور انہیں ایذا دینے کی فکر میں رہنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو مطمئن کر دیا کہ زبانی قیل و قال کے سوا وہ مسلمانوں کو کوئی آزار نہ پہنچا سکیں گے غلبہ مسلمانوں ہی کو رہے گا اور یہود کا انجام ذلت و رسوائی ہے۔
۲۰۳۔ اور تمہارے مقابلہ کی تاب نہ لا سکیں گے یہ غیبی خبریں ایسی ہی واقع ہوئیں۔
۲۰۴۔ ہمیشہ ذلیل ہی رہیں گے عزّت کبھی نہ پائیں گے اسی کا اثر ہے کہ آج تک یہود کو کہیں کی سلطنت میسّر نہ آئی جہاں رہے رعایا و غلام ہی بن کر رہے۔
۲۰۵۔ تھام کر یعنی ایمان لا کر۔
۲۰۶۔ یعنی مسلمانوں کی پناہ لے کر اور انہیں جزیہ دے کر۔
۲۰۷۔ چنانچہ یہودی کو مالدار ہو کر بھی غناءِ قلبی میسر نہیں ہوتا۔
۲۰۸۔ شان نزول: جب حضرت عبداللّٰہ بن سلام اور انکے اصحاب ایمان لائے تو احبار یہود نے جل کر کہا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ہم میں سے جو ایمان لائے ہیں وہ برے لوگ ہیں اگر برے نہ ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑتے اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی عطاء کا قول ہے مِنَ اَھْلِ الْکِتَابِ اُمَّۃ قَآئِمَۃٌ سے چالیس مرد اہل نجران کے بتیس۳۲ حبشہ کے آٹھ روم کے مراد ہیں جو دین عیسوی پر تھے پھر سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے۔
۲۰۹۔ یعنی نماز پڑھتے ہیں اس سے یا تو نماز عشاء مراد ہے جو اہل کتاب نہیں پڑھتے یا نماز تہجد۔
۲۱۰۔ اور دین میں مداہنت نہیں کرتے۔
۲۱۱۔ یہود نے عبداللّٰہ بن سلام اور انکے اصحاب سے کہا تھا کہ تم دین اسلام قبول کر کے ٹوٹے میں پڑے تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ وہ درجاتِ عالیہ کے مستحق ہوئے اور اپنی نیکیوں کی جزا پائیں گے یہود کی بکواس بے ہودہ ہے۔
۲۱ٍ۳۔ شان نزول: یہ آیت بنی قُرَیْظَہ و نُضَیر کے حق میں نازل ہوئی یہود کے روساء نے تحصیلِ ریاست و مال کی غرض سے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ دشمنی کی تھی اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ ان کے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے وہ رسول کی دُشمنی میں ناحق اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکینِ قریش کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ ابوجہل کو اپنی دولت و مال پر بڑا فخر تھا اور ابوسفیان نے بدر و اُحد میں مشرکین پر بہت کثیر مال خرچ کیا تھا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت تمام کفار کے حق میں عام ہے ان سب کو بتایا گیا کہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی کام آنے والا اور عذابِ الٰہی سے بچانے والا نہیں۔
۲۱۴۔ مُفَسرِین کا قول ہے کہ اس سے یہود کا وہ خرچ مراد ہے جو اپنے علماء اور رؤساء پر کرتے تھے ایک قول یہ ہے کہ کفار کے تمام نفقات و صدقات مراد ہیں ایک قول یہ ہے کہ ریا کار کا خرچ کرنا مراد ہے کیونکہ ان سب لوگوں کا خرچ کرنا یا نفع دنیوی کے لئے ہو گا یا نفع اُخروی کے لئے اگر محض نفع دنیوی کے لئے ہو تو آخرت میں اس سے کیا فائدہ اور ریاکار کو تو آخرت اور رضائے الٰہی مقصود ہی نہیں ہوتی اس کا عمل دکھاوے اور نمود کے لئے ہوتا ہے ایسے عمل کا آخرت میں کیا نفع اور کافر کے تمام عمل اکارت ہیں وہ اگر آخرت کی نیت سے بھی خرچ کرے تو نفع نہیں پا سکتا ان لوگوں کے لئے وہ مثال بالکل مطابق ہے جو آیت میں ذکر فرمائی جاتی ہے۔
۲۱۵۔ یعنی جس طرح کہ برفانی ہوا کھیتی کو برباد کر دیتی ہے اسی طرح کُفر انفاق کو باطل کر دیتا ہے۔
۲۱۶۔ ان سے دوستی نہ کرو محبت کے تعلقات نہ رکھو وہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ شان نزول: بعض مسلمان یہود سے قرابت اور دوستی اور پڑوس وغیرہ تعلقات کی بنا پر میل جول رکھتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی
مسئلہ: کفار سے دوستی و محبت کرنا اور انہیں اپنا راز دار بنانا ناجائز و ممنوع ہے۔
۲۱۹۔ رشتہ داری اور دوستی وغیرہ تعلقات کی بنا ء پر۔
۲۲۰۔ اور دینی مخالفت کی بنا پر تم سے دشمنی رکھتے ہیں۔
۲۲۱۔ ا ور وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔
۲۲ٍ۳۔ بمیرتا برہی اے حسود کیں رنجیست ٭ کہ از مشقت اوجز بمرگ نتواں رست۔
۲۲۵۔ اور اُن سے دوستی و محبت نہ کرو مسئلہ اس آیت سے معلُوم ہوا کہ دشمن کے مقابلے میں صبر و تقویٰ کام آتا ہے۔
۲۲۶۔ بمقام مدینہ طیّبہ بقصد اُحد۔
۲۲۷۔ جمہور مُفسّرِین کا قول ہے کہ یہ بیان جنگ ِاُحد کا ہے جس کا اجمالی واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شکست کھانے سے کفّار کو بڑا رنج تھا اس لئے اُنہوں نے بقصدِ انتقام لشکرِ گراں مرتب کر کے فوج کَشی کی، جب رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ لشکرِ کفّار اُحد میں اُترا ہے تو آپ نے اصحاب سے مشورہ فرمایا اس مشورت میں عبداللّٰہ بن ابی بن سلول کو بھی بلایا گیا جو اس سے قبل کبھی کسی مشورت کے لئے بُلایا نہ گیا تھا اکثر انصار کی اور اس عبداللّٰہ کی یہ رائے ہوئی کہ حضور مدینہ طیبہ میں ہی قائم رہیں اور جب کفّار یہاں آئیں تب اُن سے مقابلہ کیا جائے یہی سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی مرضی تھی لیکن بعض اصحاب کی رائے یہ ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہئے اور اسی پر انہوں نے اصرار کیا سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم دولت سرائے اقدس میں تشریف لے گئے اور اسلحہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے اب حضور کو دیکھ کر ان اصحاب کو ندامت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور کو رائے دینا اور اس پر اصرار کرنا ہماری غلطی تھی اس کو معاف فرمائیے اور جو مرضیِ مُبارک ہو وہی کیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ نبی کے لئے سزاوار نہیں کہ ہتھیار پہن کر قبل جنگ اُتار دے مشرکین اُحد میں چہار شنبہ پنج شنبہ کو پہنچے تھے اور رسول ِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز بعد نماز جمعہ ایک انصاری کی نماز جنازہ پڑھ کر روانہ ہوئے اور پندرہ شوال ۳ھ روز یک شنبہ اُحد میں پہنچے یہاں نزول فرمایا اور پہاڑ کا ایک درّہ جو لشکرِ اسلام کے پیچھے تھا اس طرف سے اندیشہ تھا کہ کسی وقت دشمن پشت پر سے آکر حملہ کرے اس لئے حضور نے عبداللّٰہ بن زُبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ وہاں مامور فرمایا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو تو تیر باری کر کے اُس کو دفع کر دیا جائے اور حکم دیا کہ کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا اور اس جگہ کو نہ چھوڑنا خواہ فتح ہو یا شکست ہو عبداللّٰہ بن ابی بن سلول منافق جس نے مدینہ طیبہ میں رہ کر جنگ کرنے کی رائے دی تھی اپنی رائے کے خلاف کئے جانے کی وجہ سے برہم ہوا اور کہنے لگا کہ حضور سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے نو عمر لڑکوں کا کہنا تو مانا اور میری بات کی پروا نہ کی اس عبداللّٰہ بن اُبَیْ کے ساتھ تین سو منافق تھے ان سے اس نے کہا کہ جب دشمن لشکرِ اسلام کے مقابل آ جائے اس وقت بھاگ پڑو تاکہ لشکرِ اسلام میں ابتری ہو جائے اور تمہیں دیکھ کر اور لوگ بھی بھاگ نکلیں۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد معہ ان منافقین کے ہزار تھی اور مشرکین تین ہزار، مقابلہ ہوتے ہی عبداللّٰہ بن اُبَی منافق اپنے تین سو منافقوں کو لے کر بھاگ نکلا اور حضور کے سات سو اصحاب حضور کے ساتھ رہ گئے اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کو ثابت رکھا یہاں تک کہ مشرکین کو ہزیمت ہوئی اب صحابہ بھاگتے ہوئے مشرکین کے پیچھے پڑ گئے اور حضور سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے جہاں قائم رہنے کے لئے فرمایا تھا وہاں قائم نہ رہے تو اللّٰہ تعالیٰ نے اِنہیں یہ دکھا دیا کہ بدر میں اللّٰہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی برکت سے فتح ہوئی تھی یہاں حضور کے حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں سے رُعب و ہیبت دور فرمائی اور وہ پلٹ پڑے اور مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک جماعت رہی جس میں حضرت ابوبکر و علی و عباس و طلحہ و سعد تھے اسی جنگ میں دندانِ اقدس شہید ہوا اور چہرۂ اقدس پر زخم آیا اسی کے متعلق یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۲۲۸۔ یہ دونوں گروہ انصار میں سے تھے ایک بنی سلمہ خَزْرَجْ میں سے اور ایک بنی حارثہ اَوْس میں سے یہ دونوں لشکر کے بازو تھے جب عبداللّٰہ بن ابی بن سلول منافق بھاگا تو انہوں نے بھی واپس جانے کا قصد کیا اللّٰہ تعالیٰ نے کرم کیا اور انہیں اس سے محفوظ رکھا اور وہ حضور کے ساتھ ثابت رہے یہاں اس نعمت و احسان کا ذکر فرمایا ہے۔
۲۲۹۔ تمہاری تعداد بھی کم تھی تمہارے پاس ہتھیاروں اور سواروں کی بھی کمی تھی۔
۲ٍ۳۰۔ چنانچہ مؤمنین نے روز بدر صبر و تقویٰ سے کام لیا اللّٰہ تعالیٰ نے حسب وعدہ پانچ ہزار فرشتوں کی مدد بھیجی اور مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست ہوئی۔
۲ٍ۳۱۔ اور دُشمن کی کثرت اور اپنی قلّت سے پریشانی اور اضطراب نہ ہو۔
۲ٍ۳۲۔ تو چاہئے کہ بندہ مسبّب الاسباب پر نظر رکھے اور اسی پر توکل رکھے۔
۲ٍ۳ٍ۳۔ اس طرح کہ اُن کے بڑے بڑے سردار مقتول ہوں اور گرفتار کئے جائیں جیسا کہ بدر میں پیش آیا۔
۲ٍ۳۴۔ مسئلہ : اس آیت میں سود کی ممانعت فرمائی گئی مع توبیخ کے اس زیادتی پر جو اس زمانہ میں معمول تھی کہ جب میعاد آ جاتی تھی اور قرضدار کے پاس ادا کی کوئی شکل نہ ہوتی تو قرض خواہ مال زیادہ کر کے مدّت بڑھا دیتا۔ اور ایسا بار بار کرتے جیسا کہ اس ملک کے سود خوار کرتے ہیں اور اس کو سود در سود کہتے۔
مسئلہ: اس آیت سے ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
۲ٍ۳۵۔ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا اس میں ایمانداروں کو تہدید ہے کہ سود وغیرہ جو چیزیں اللّٰہ نے حرام فرمائیں ان کو حلال نہ جانیں کیونکہ حرام قطعی کو حلال جاننا کُفر ہے۔
۲ٍ۳۶۔ کہ رسُول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی طاعت طاعتِ الٰہی ہے اور رسُول کی نافرمانی کرنے والا اللّٰہ کا فرمانبردار نہیں ہو سکتا۔
۲ٍ۳۷۔ توبہ و ادائے فرائض و طاعات و اخلاصِ عمل اختیار کر کے۔
۲ٍ۳۸۔ یہ جنّت کی وُسعت کا بیان ہے اس طرح کہ لوگ سمجھ سکیں کیونکہ اُنہوں نے سب سے وسیع چیز جو دیکھی ہے وہ آسمان و زمین ہی ہے اس سے وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر آسمان و زمین کے طبقے طبقے اور پرت پرت بنا کر جوڑ دیئے جائیں اور سب کا ایک پرت کر دیا جائے اس سے جنّت کے عرض کا اندازہ ہوتا ہے کہ جنّت کتنی وسیع ہے ہر قَل بادشاہ نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لکھا کہ جب جنّت کی یہ وسعت ہے کہ آسمان و زمین اس میں آ جائیں تو پھر دوزخ کہاں ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں فرمایا کہ سُبحانَ اللّٰہ جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے اس کلام بلاغت نظام کے معنی نہایت دقیق ہیں ظاہر پہلو یہ ہے کہ دورۂ فلکی سے ایک جانب میں دن حاصل ہوتا ہے تو اس کے جانب مقابل میں شب ہوتی ہے اسی طرح جنت جانبِ بالا میں ہے اور دوزخ جہت پستی میں یہود نے یہی سوال حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے کیا تھا تو آپ نے بھی یہی جواب دیا تھا اس پر انہوں نے کہا کہ توریت میں بھی اسی طرح سمجھایا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ کی قدرت و اختیار سے کچھ بعید نہیں جس شے کو جہاں چاہے رکھے یہ انسان کی تنگی نظر ہے کہ کسی چیز کی وسعت سے حیران ہوتا ہے تو پوچھنے لگتا ہے کہ ایسی بڑی چیز کہاں سمائے گی حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ جنّت آسمان میں ہے یا زمین میں فرمایا کون سی زمین اور کون سا آسمان ہے جس میں جنت سما سکے عرض کیا گیا پھر کہاں ہے فرمایا آسمانوں کے اوپر زیرِعرش۔
۲ٍ۳۹۔ اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت وَاتَّقُوالنَّارَالَّتِیْ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ سے ثابت ہوا کہ جنّت و دوزخ پیدا ہو چکیں موجود ہیں۔
۲۴۰۔ یعنی ہر حال میں خرچ کرتے ہیں بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے سید عالم نے فرمایا خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا یعنی خدا کی راہ میں دو تمہیں اللّٰہ کی رحمت سے ملے گا۔
۲۴۱۔ یعنی اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہو۔
۲۴۲۔ اور توبہ کریں اور گناہ سے باز آئیں اور آئندہ کے لئے اس سے باز رہنے کا عزم پختہ کریں کہ یہ توبہ مقبولہ کے شرائط میں سے ہے۔
۲۴۳۔ شان نزول: تیہان خرما فروش کے پاس ایک حسین عورت خرمے خریدنے آئی اُس نے کہا یہ خرمے تو اچھے نہیں ہیں عمدہ خرمے مکان کے اندر ہیں اس حیلے سے اس کو مکان میں لے گیا اور پکڑ کر لپٹا لیا اور منہ چُوم لیا عورت نے کہا خدا سے ڈر یہ سنتے ہی اس کو چھوڑ دیا اور شرمندہ ہوا اور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حال عرض کیا اس پر یہ آیت وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْ نازل ہوئی ایک قول یہ ہے کہ ایک انصاری اور ایک ثقفی دونوں میں محبت تھی اور ہر ایک نے ایک دوسرے کو بھائی بنایا تھا ثقفی جہاد میں گیا تھا اور اپنے مکان کی نگرانی اپنے بھائی انصاری کے سپرد کر گیا تھا ایک روز انصاری گوشت لایا جب ثقفی کی عورت نے گوشت لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو انصاری نے اُس کا ہاتھ چُوم لیا اور چُومتے ہی اس کو سخت ندامت و شرمندگی ہوئی اور وہ جنگل میں نکل گیا اپنے سر پر خاک ڈالی اور منہ پر طمانچے مارے جب ثقفی جہاد سے واپس آیا تو اس نے اپنی بی بی سے انصاری کا حال دریافت کیا اس نے کہا خدا ایسے بھائی نہ بڑھائے اور واقعہ بیان کیا انصاری پہاڑوں میں روتا استغفار و توبہ کرتا پھرتا تھا ثقفی اس کو تلاش کر کے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا اِس کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
۲۴۴۔ یعنی اطاعت شعاروں کے لئے بہتر جزا ہے۔
۲۴۵۔ پچھلی اُمتوں کے ساتھ جنہوں نے حِرص دنیا اور اس کے لذّات کی طلب میں انبیاء و مرسلین کی مخالفت کی اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں مہلتیں دیں پھر بھی وہ راہِ راست پر نہ آئے تو انہیں ہلاک و برباد کر دیا۔
۲۴۷۔ اس کا جو جنگِ اُحد میں پیش آیا۔
۲۴۹۔ جنگِ بدر میں باوجود اس کے انہوں نے پست ہمّتی نہ کی اور تم سے مقابلہ کرنے میں سُستی سے کام نہ لیا تو تمہیں بھی سُستی و کم ہمّتی نہ چاہئے۔
۲۵۰۔ کبھی کِسی کی باری ہے کبھی کِسی کی۔
۲۵۱۔ صبر و اخلاص کے ساتھ کہ اُن کو مشقت و ناکامی جگہ سے نہیں ہٹا سکتی اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آ سکتی۔
۲۵۲۔ اور انہیں گناہوں سے پاک کر دے۔
۲۵۳۔ یعنی کافروں سے جو مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو مسلمانوں کے لئے شہادت و تطہیر ہیں اور مُسلمان جو کُفّار کو قتل کریں تو یہ کُفّار کی بربادی اَور اُن کا استیصال ہے۔
۲۵۴۔ کہ اللّٰہ کی رضاء کے لئے کیسے زخم کھاتے اور تکلیف اُٹھاتے ہیں اِس میں اُن پر عتاب ہے جو روز اُحد کُفّار کے مقابلہ سے بھاگے۔
۲۵۵۔ شانِ نزول: جب شہداءِ بدر کے درجے اور مرتبے اور ان پر اللّٰہ تعالیٰ کے انعام و احسان بیان فرمائے گئے تو جو مسلمان وہاں حاضر نہ تھے انہیں حسرت ہوئی اور انہوں نے آرزو کی کہ کاش کِسی جہاد میں انہیں حاضری میسّر آئے اور شہادت کے درجات ملیں اِنہی لوگوں نے حضور سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے اُحد پر جانے کے لئے اصرار کیا تھا اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
۲۵۶۔ اور رسولوں کی بعثت کا مقصُوُد رسالت کی تبلیغ اور حجّت کا لازم کر دینا ہے نہ کہ اپنی قوم کے درمیان ہمیشہ موجود رہنا۔
۲۵۷۔ اور اُنکے متبعین اُن کے بعد اُن کے دین پر باقی رہے شانِ نزول جنگِ اُحد میں جب کافروں نے پُکارا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم شہید ہو گئے اور شیطان نے یہ جھوٹی افواہ مشہور کی تو صحابہ کو بہت اِضطراب ہوا اَور اُن میں سے کچھ لوگ بھاگ نکلے پھر جب ندا کی گئی کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم تشریف رکھتے ہیں تو صحابہ کی ایک جماعت واپس آئی حضور نے انہیں ہزیمت پر ملامت کی اُنہوں نے عرض کیا ہمارے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں آپ کی شہادت کی خبر سُن کر ہمارے دِل ٹوٹ گئے اور ہم سے ٹھہرا نہ گیا اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ انبیاء کے بعد بھی اُمّتوں پر اُن کے دین کا اتباع لازم رہتا ہے تو اگر ایسا ہوتا بھی تو حضور کے دین کا اتباع اور اس کی حمایت لازم رہتی۔
۲۵۸۔ جو نہ پھرے اور اپنے دین پر ثابت رہے ان کو شاکرین فرمایا کیونکہ اُنہوں نے اپنے ثبات سے نعمتِ اسلام کا شکر ادا کیا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ امینُ الشاکرین ہیں۔
۲۵۹۔ اس میں جہاد کی ترغیب ہے،اور مسلمانوں کو دُشمن کے مقابلہ پر جری بنایا جاتا ہے کہ کوئی شخص بغیر حکمِ الٰہی کے مر نہیں سکتا چاہے وہ مہالک و معارک میں گھس جائے اور جب موت کا وقت آتا ہے تو کوئی تدبیر نہیں بچا سکتی۔
۲۶۰۔ اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔
۲۶۱۔ اور اس کو اپنے عمل و طاعت سے حصولِ دنیا مقصُود ہو۔
۲۶۲۔ اس سے ثابت ہوا کہ مدار نیّت پر ہے جیسا کہ بخاری و مسلم شریف کی حدیث میں آیا ہے۔
۲۶۳۔ ایسا ہی ہر ایماندار کو چاہئے۔
۲۶۴۔ یعنی حمایت دین و مقاماتِ حرب میں اُن کی زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہ آتا جِس میں گھبراہٹ پریشانی اور تزلزل کا شائبہ بھی ہوتا بلکہ وہ استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہتے اور دُعا کرتے۔
۲۶۵۔ یعنی تمام صغائر و کبائر باوجود یکہ وہ لوگ ربّانی یعنی اتقیا تھے پھر بھی گناہوں کا اپنی طرف نسبت کرنا شانِ تواضع و انکسار اور آدابِ عبدیت میں سے ہے۔
۲۶۶۔ اس سے یہ مسئلہ معلُوم ہوا کہ طلبِ حاجت سے قبل توبہ و استغفار آدابِ دُعا میں سے ہے۔
۲۶۷۔ یعنی فتح و ظفر اور دشمنوں پر غلبہ۔
۲۶۸۔ مغفرت و جنّت اور استحقاق سے زیادہ انعام و اکرام۔
۲۶۹۔ خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق و مشرک۔
۲۷۱۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ کُفّار سے علیٰحدگی اختیار کریں اور ہر گز اُن کی رائے و مشورے پر عمل نہ کریں اور اُن کے کہے پرنہ چلیں۔
۲۷۲۔ جنگِ اُحد سے واپس ہو کر جب ابوسفیان وغیرہ اپنے لشکریوں کے ساتھ مکّہ مکرّمہ کی طرف روانہ ہوئے تو اُنہیں اس پر افسوس ہوا کہ ہم نے مسلمانوں کو بالکل ختم کیوں نہ کر ڈالا آپس میں مشورہ کر کے اس پر آمادہ ہوئے کہ چل کر اُنہیں ختم کر دیں جب یہ قصد پختہ ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رُعب ڈالا اور انہیں خوفِ شدید پیدا ہوا اور وہ مکہ مکرمہ ہی کی طرف واپس ہو گئے اگر چہ سبب تو خاص تھا لیکن رُعب تمام کُفّار کے دلوں میں ڈال دیا گیا کہ دُنیا کے سارے کفار مسلمانوں سے ڈرتے ہیں اور بفضلہٖ تعالیٰ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہے۔
۲۷۴۔ کُفّار کی ہزیمت کے بعد حضرت عبداللّٰہ بن جبیر کے ساتھ جو تیر انداز تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ مشرکین کو ہزیمت ہو چکی اب یہاں ٹھہر کر کیا کریں چلو کچھ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں بعض نے کہا مرکز مت چھوڑو رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بتاکید حکم فرمایا ہے کہ تم اپنی جگہ قائم رہنا کسی حال میں مرکز نہ چھوڑنا جب تک میرا حکم نہ آئے مگر لوگ غنیمت کے لئے چل پڑے اور حضرت عبداللّٰہ بن جبیر کے ساتھ دس سے کم اصحاب رہ گئے۔
۲۷۵۔ کہ مرکز چھوڑ دیا اور غنیمت حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے۔
۲۷۷۔ جو مرکز چھوڑ کر غنیمت کے لئے چلا گیا۔
۲۷۸۔ جو اپنے امیر عبداللّٰہ بن جبیر کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہ کر شہید ہو گیا۔
۲۷۹۔ اور مصیبتوں پر تمہارے صابر و ثابت رہنے کا امتحان ہو۔
۲۸۰۔ کہ خدا کے بندو میری طرف آؤ۔
۲۸۱۔ یعنی تم نے جو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی مخالفت کر کے آپ کو غم پہنچا یا تھا اس کے بدلے تم کو ہزیمت کے غم میں مبتلا کیا۔
۲۸۲۔ جو رُعب و خَوف دلوں میں تھا اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے دُور کیا اور امن و راحت کے ساتھ اُن پر نیند اُتاری یہاں تک کہ مسلمانوں کو غنودگی آ گئی اور نیند نے اُن پر غلبہ کیا حضرت ابوطلحہ فرماتے ہیں کہ روزِ اُحد نیند ہم پر چھا گئی ہم میدان میں تھے تلوار ہمارے ہاتھ سے چھُوٹ جاتی تھی پھر اُٹھاتے تھے پھر چھُوٹ جاتی تھی۔
۲۸۳۔ اور وہ جماعت مؤمنین صادق الایمان کی تھی۔
۲۸۵۔ اور وہ خوف سے پریشان تھے اللّٰہ تعالیٰ نے وہاں مؤمنین کو منافقین سے اس طرح ممتاز کیا تھا کہ مؤمنین پر تو امن و اطمینان کی نیند کا غلبہ تھا اور منافقین خوف و ہراس میں اپنی جانوں کے خوف سے پریشان تھے اور یہ آیتِ عظیمہ اور معجزۂ باہرہ تھا۔
۲۸۶۔ یعنی منافقین کو یہ گمان ہو رہا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد نہ فرمائے گایا یہ کہ حضور شہید ہو گئے۔ اب آپ کا دین باقی نہ رہے گا۔
۲۸۷۔ فتح و ظفر قضا و قدر سب اُس کے ہاتھ ہے۔
۲۸۸۔ منافقین اپنا کُفر اور وعدۂ الٰہی میں اپنا متردد ہونا اور جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ چلے آنے پر متاسّف ہونا۔
۲۸۹۔ اور ہمیں سمجھ ہوتی تو ہم گھر سے نہ نکلتے مسلمانوں کے ساتھ اہلِ مکّہ سے لڑائی کے لئے نہ آتے اور ہمارے سردار نہ مارے جاتے۔ پہلے مقولہ کا قائل عبداللّٰہ بن اُبَی بن سلول منافق ہے اور اِس مقولہ کا قائل معتب بن قشیر۔
۲۹۰۔ اور گھروں میں بیٹھ رہنا کچھ کام نہ آتا کیونکہ قضا و قدر کے سامنے تدبیر و حیلہ بے کار ہے۔
۲۹۲۔ اس سے کچھ چھپا نہیں اور یہ آزمائش دُوسروں کو خبردار کرنے کے لئے ہے۔
۲۹۳۔ اور جنگِ اُحد میں بھاگ گئے اور نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تیرہ یا چودہ اصحاب کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔
۲۹۴۔ کہ اُنہوں نے سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے بَرخلاف مرکز چھوڑا۔
۲۹۵۔ یعنی ابن ابی وغیرہ منافقین۔
۲۹۶۔ اور اِس سفر میں مر گئے یا جِہاد میں شہید ہو گئے۔
۲۹۷۔ موت و حیات اُسی کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو مسافر و غازی کو سلامت لائے اور محفوظ گھر میں بیٹھے ہوئے کو موت دے اُن منافقین کے پاس بیٹھ رہنا کیا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے اور جہاد میں جانے سے کب موت لازم ہے اور اگر آدمی جہاد میں مارا جائے تو وہ موت گھر کی موت سے بدرجہا بہتر لہذا منافقین کا یہ قول باطل اور فریب دہی ہے اوران کا مقصد مسلمانوں کو جہاد سے نفرت دلانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے۔
۲۹۸۔ اور بالفرض وہ صورت پیش ہی آ جائے جس کا تمہیں اندیشہ دلایا جاتا ہے۔
۲۹۹۔ جو راہِ خدا میں مرنے پر حاصِل ہوتی ہے۔
ٍ۳۰۰۔ یہاں مقاماتِ عبدیّت کے تینوں مقاموں کا بیان فرمایا گیا پہلا مقام تو یہ ہے کہ بندہ بخوفِ دوزخ اللّٰہ کی عبادت کرے اُسکو عذابِ نار سے امن دی جاتی ہے اس کی طرف لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہ میں اشارہ ہے دُوسری قسم وہ بندے ہیں جو جنّت کے شوق میں اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں اس کی طرف ورَحْمَۃٌ میں اشارہ ہے کیونکہ رحمت بھی جنت کا ایک نام ہے تیسری قِسم وہ مخلص بندے ہیں جو عشقِ الٰہی اور ا سکی ذاتِ پاک کی محبت میں اِس کی عبادت کرتے ہیں اور اُن کا مقصُود اُس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے اِنہیں حق سبحانہ، تعالیٰ اپنے دائرۂ کرامت میں اپنی تجلّی سے نوازے گا اِس کی طرف لَاِالَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ میں اشارہ ہے۔
ٍ۳۰۱۔ اور آپ کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور راْفت و رحمت ہوئی کہ روزِ اُحد غضب نہ فرمایا۔
ٍ۳۰۲۔ اور شدّت و غِلظت سے کام لیتے۔
ٍ۳۰۳۔ تاکہ اللّٰہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
ٍ۳۰۴۔ کہ اُس میں اُن کی دِلداری بھی ہے اور عزّت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنّت ہو جائے گا اور آئندہ امّت اِس سے نفع اُٹھاتی رہے گی۔ مشورہ کے معنیٰ ہیں کِسی امر میں رائے دریافت کرنا
مسئلہ : اِس سے اِجتہاد کا جواز اور قِیاس کا حجّت ہونا ثابت ہوا۔(مدارک و خازن)۔
ٍ۳۰۵۔ توکل کے معنی ہیں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کر دینا مقصُود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللّٰہ پر ہونا چاہئے
مسئلہ: اس سے معلوم ہوا ہے کہ مشورہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔
۳۰۶۔ اور مددِ الٰہی وہی پاتا ہے جو اپنی قوّت و طاقت پر بھروسہ نہیں کرتا اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت کا اُمّیدوار رہتا ہے۔
۳۰۷۔ کیونکہ یہ شانِ نبوّت کے خلاف ہے اور انبیاء سب معصوم ہیں اور اِن سے ایسا ممکن نہیں نہ وحی میں نہ غیر وحی میں اور جو کوئی شخص کچھ چھپا رکھے اُس کا حکم اِسی آیت میں آگے بیان فرمایا جاتا ہے۔
۳۰۸۔ اور اِس کی اطاعت کی نافرمانی سے بچا جیسے کہ مہاجرین و انصارو صالحین امت۔
ٍ۳۰۹۔ یعنی اللّٰہ کا نافرمان ہوا جیسے منافقین و کُفّار۔
۳۱۰۔ ہر ایک کی منزلت اور اس کا مقام جُدا نیک کا الگ بد کا الگ۔
ٍ۳۱۱۔ منّت نعمتِ عظیمہ کو کہتے ہیں اور بے شک سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت نعمتِ عظیمہ ہے کیونکہ خلق کی پیدائش جہل و عدمِ دَرَایَت و قلتِ فہم و نقصانِ عقل پر ہے تو اللّٰہ تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو ان میں مبعوث فرما کر انہیں گمراہی سے رہائی دی اور حضور کی بدولت انہیں بینائی عطا فرما کر جہل سے نکالا اور آپ کے صدقہ میں راہِ راست کی ہدایت فرمائی اور آپ کے طفیل میں بے شمار نعمتیں عطا کیں۔
ٍ۳۱۲۔ یعنی اُنکے حال پر شفقت و کرم فرمانے والا اور اُن کے لئے باعثِ فخر و شرف جس کے احوال زُہد وَرَع راست بازی دیانت داری خصائلِ جمیلہ اخلاقِ حمیدہ سے وہ واقف ہیں۔
ٍ۳۱ٍ۳۔ سیّدِ عالم خاتَم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔
ٍ۳۱۴۔ اور اُس کی کتابِ مجید فرقانِ حمید اُن کو سُناتا ہے باوجود یہ کہ اُن کے کان پہلے کبھی کلامِ حق و وحیِ سماوی سے آشنا نہ ہوئے تھے۔
ٍ۳۱۵۔ کُفر و ضلالت اور ارتکابِ محرمات و معاصی اور خصائلِ ناپسندیدہ و ملکاتِ رذیلہ و ظلماتِ نفسانیہ سے۔
ٍ۳۱۶۔ اور نفس کی قوت عملیہ اور علمیہ دونوں کی تکمیل فرماتا ہے۔
ٍ۳۱۷۔ کہ حق و باطِل و نیک و بد میں امتیاز نہ رکھتے تھے اور جہل و نابینائی میں مبتلا تھے۔
ٍ۳۱۸۔ جیسی کہ جنگِ اُحد میں پہنچی کہ تم میں سے ستّر قتل ہوئے۔
ٍ۳۱۹۔ بدر میں کہ تم نے ستّر کو قتل کیا ستّر کو گرفتار کیا۔
ٍ۳۲۰۔ اور کیوں پہنچی جب کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہیں۔
ٍ۳۲۱۔ کہ تم نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی مرضی کے خلاف مدینہ طیّبہ سے باہر نِکل کر جنگ کرنے پر اصرار کیا پھر وہاں پہنچنے کے بعد باوجود حضور کی شدید ممانعت کے غنیمت کے لئے مرکز چھوڑا یہ سبب تمہارے قتل و ہزیمت کا ہوا۔
ٍ۳۲۴۔ یعنی مؤمن و منافق ممتاز ہو گئے۔
ٍ۳۲۵۔ یعنی عبداللّٰہ بن ابی بن سلول وغیرہ منافقین سے۔
ٍ۳۲۶۔ مسلمانوں کی تعداد بڑھاؤ اور حفاظت دین کے لئے۔
ٍ۳۲۷۔ اپنے اہل و مال کو بچانے کے لئے۔
ٍ۳۲۹۔ یعنی شہدائے اُحد جو نسبی طور پر ان کے بھائی تھے ان کے حق میں عبداللّٰہ بن ابی وغیرہ منافقین نے۔
ٍ۳ٍ۳۰۔ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد میں نہ جاتے یا وہاں سے پھر آتے۔
ٍ۳ٍ۳۱۔ مروی ہے کہ جس روز منافقین نے یہ بات کہی اسی دن ستر منافق مر گئے۔
ٍ۳ٍ۳ٍ۳۔ اور زندوں کی طرح کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں۔ سیاق آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ حیات روح و جسم دونوں کے لئے ہے علماء نے فرمایا کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور زمانہ صحابہ میں اور اس کے بعد بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو انکے جسم تر و تازہ پائے گا۔(خازن وغیرہ)۔
ٍ۳ٍ۳۴۔ فضل و کرامت اور انعام و احسان موت کے بعد حیات دی اپنا مقرّب کیا جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور ان منازل کے حاصل کرنے کے لئے توفیق شہادت دی۔
ٍ۳ٍ۳۵۔ اور دنیا میں وہ ایمان و تقویٰ پر ہیں جب شہید ہوں گے ان کے ساتھ ملیں گے اور روز قیامت امن اور چین کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
ٍ۳ٍ۳۶۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور نے فرمایا جس کسی کے راہ خدا میں زخم لگا وہ روز قیامت ویسا ہی آئے گا جیسا زخم لگنے کے وقت تھا اس کے خون میں خوشبو مشک کی ہو گی اور رنگ خون کا ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے کہ شہید کو قتل سے تکلیف نہیں ہوتی مگر ایسی جیسی کسی کو ایک خراش لگے مسلم شریف،حدیث میں ہے شہید کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔
۳ٍ۳۷۔ شانِ نزول: جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد جب ابوسفیان مع اپنے ہمراہیوں کے مقام روحاء میں پہنچے تو انہیں افسوس ہوا کہ وہ واپس کیوں آ گئے مسلمانوں کا بالکل خاتمہ ہی کیوں نہ کر دیا یہ خیال کر کے انہوں نے پھر واپس ہونے کا ارادہ کیا سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوسفیان کے تعاقب کے لئے روانگی کا اعلان فرما دیا صحابہ کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی اور جو جنگ احد کے زخموں سے چور ہو رہے تھے حضور کے اعلان پر حاضر ہو گئے اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اس جماعت کو لے کر ابوسفیان کے تعاقب میں روانہ ہو گئے جب حضور مقام حَمراءالاسد پر پہنچے جو مدینہ سے آٹھ میل ہے تو وہاں معلوم ہوا کہ مشرکین مرعوب و خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
ٍ۳ٍ۳۸۔ یعنی نُعَیم بن مسعود اشجعی نے۔
ٍ۳ٍ۳۹۔ یعنی ابوسفیان وغیرہ مشرکین نے۔
ٍ۳۴۰۔ شانِ نزول: جنگ اُحد سے واپس ہوتے ہوئے ابوسفیان نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے پکار کر کہہ دیا تھا کہ اگلے سال ہماری آپ کی مقام بدر میں جنگ ہو گی۔ حضور نے انکے جواب میں فرمایا انشاء اللّٰہ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان اہل مکہ کو لے کر جنگ کے لئے روانہ ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خوف ڈالا اور انہوں نے واپس ہو جانے کا ارادہ کیا اس موقع پر ابوسفیان کی نُعَیم بن مسعود اشجعی سے ملاقات ہوئی جو عمرہ کرنے آیا تھا ابوسفیان نے اس سے کہا کہ اے نعیم اس زمانہ میں میری لڑائی مقام بدر میں محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ طے ہو چکی ہے اور اس وقت مجھے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جنگ میں نہ جاؤں واپس جاؤں تو مدینہ جا اور تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو میدان جنگ میں جانے سے روک دے اس کے عوض میں تجھ کو دس اونٹ دوں گا نعیم نے مدینہ پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کر رہے ہیں ان سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو اہل مکہ نے تمہارے لئے بڑے لشکر جمع کئے ہیں خدا کی قسم تم میں سے ایک بھی پھر کر نہ آئے گا سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم میں ضرور جاؤں گاچاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو پس حضور ستر سواروں کو ہمراہ لے کر حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَ کِیْلُ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے بدر میں پہنچے وہاں آٹھ شب قیام کیا مال تجارت ساتھ تھا اس کو فروخت کیا خوب نفع ہوا اور سالم غانم مدینہ طیبہ واپس ہوئے جنگ نہیں ہوئی چونکہ ابو سفیان اور اہل مکہ خوف زدہ ہو کر مکہ شریف کو واپس ہو گئے تھے اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
ٍ۳۴۱۔ بامن و عافیت منافع تجارت حاصل کر کے۔
ٍ۳۴۲۔ اور دشمن کے مقابلہ کے لئے جرأت سے نکلے اور جہاد کا ثواب پایا۔
ٍ۳۴۳۔ کہ اس نے اطاعت رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آمادگی جہاد کی توفیق دی اور مشرکین کے دلوں کو خوف زدہ کر دیا کہ وہ مقابلہ کی ہمت نہ کر سکے اور راہ میں سے واپس ہو گئے۔
ٍ۳۴۴۔ اور مسلمانوں کو مشرکین کی کثرت سے ڈراتا ہے جیسا کہ نعیم بن مسعود اشجعی نے کیا۔
ٍ۳۴۵۔ یعنی منافقین و مشرکین جو شیطان کے دوست ہیں ان کا خوف نہ کرو۔
ٍ۳۴۶۔ کیونکہ ایمان کا مقتضا ہی یہ ہے کہ بندے کو خدا ہی کا خوف ہو۔
ٍ۳۴۷۔ خواہ وہ کُفّارِ قریش ہوں یا منافقین یا رؤساء یہود یا مرتدین وہ آپ کے مقابلہ کے لئے کتنے ہی لشکر جمع کریں کامیاب نہ ہوں گے۔
ٍ۳۴۸۔ اس میں قَدرِیّہ و معتزلہ کا رد ہے اور آیت دلیل ہے اس پر کہ خیرو شر بہ ارادۂ الٰہی ہے۔
۳۴۹۔ یعنی منافقین جو کلمۂ ایمان پڑھنے کے بعد کافر ہوئے یا وہ لوگ جو باوجود ایمان پر قادر ہونے کے کافر ہی رہے اور ایمان نہ لائے۔
۳۵۰۔ حق سے عناد اور رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے خلاف کر کے حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا، کون شخص اچھا ہے فرمایا جس کی عمر دراز ہو اور عمل اچھے ہوں عرض کیا گیا اور بدتر کون ہے فرمایا جس کی عمر دراز ہو اور عمل خراب۔
ٍ۳۵۳۔ مومن مخلص سے یہاں تک کہ اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو تمہارے احوال پر مطلع کر کے مومن و منافق ہر ایک کو ممتاز فرما دے۔شانِ نزول: رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خلقت و آفرینش سے قبل جب کہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اسی وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے براہِ استہزاء کہا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا باوجود یکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں پہچانتے اس پر سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے منبر پر قیام فرما کر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔عبداللّٰہ بن حذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر کہا میرا باپ کون ہے یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا حذافہ پھر حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے فرمایا یا رسول اللّٰہ ہم اللّٰہ کی ربوبیت پر راضی ہوئے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے قرآن کے امام ہونے پر راضی ہوئے آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں حضور نے فرمایا کیا تم باز آؤ گے کیا تم باز آؤ گے پھر منبر سے اترآئے اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اور حضور کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔
ٍ۳۵۴۔ تو ان برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور سید انبیاء حبیب خدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و حدیث سے ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلو ۃ والسلام کو غیوب کے علوم عطا فرمائے اور غیوب کے علم آپ کا معجزہ ہیں۔
ٍ۳۵۵۔ اور تصدیق کرو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے۔
ٍ۳۵۶۔ بخل کی معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آ رہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بد خلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔
ٍ۳۵۷۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اللّٰہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
ٍ۳۵۸۔ وہی دائم باقی ہے اور سب مخلوق فانی ان سب کی ملک باطل ہونے والی ہے۔ تو نہایت نادانی ہے کہ اس مال نا پائیدار پر بخل کیا جائے اور راہ خدا میں نہ دیا جائے۔
۳۵۹۔ یہود نے یہ آیہ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً سن کر کہا تھا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا معبود ہم سے قرض مانگتا ہے تو ہم غنی ہوئے وہ فقیر ہوا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
ٍ۳۶۱۔ قتل انبیاء کو اس مقولہ پر معطوف کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جرم بہت عظیم ترین ہیں۔ اور قباحت میں برابر ہیں اور شانِ انبیاء میں گستاخی کرنے والا شانِ الٰہی میں بے ادب ہو جاتا ہے۔
ٍ۳۶۲۔ شانِ نزول: یہود کی ایک جماعت نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ ہم سے توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ جو مدعی رسالت ایسی قربانی نہ لائے جس کو آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انکے اس کذب محض اور افتراء خالص کا ابطال کیا گیا کیونکہ اس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لئے معجزہ کافی ہے کوئی معجزہ ہو جب نبی نے کوئی معجزہ دکھایا اس کے صدق پر دلیل قائم ہو گئی اور اس کی تصدیق کرنا اور اس کی نبوت کو ماننا لازم ہو گیا اب کسی خاص معجزہ کا اصرار حجت قائم ہونے کے بعد نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔
ٍ۳۶۳۔ جب تم نے یہ نشانی لانے والے انبیاء کو قتل کیا اور ان پر ایمان نہ لائے تو ثابت ہو گیا کہ تمہارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
ٍ۳۶۶۔ دنیا کی حقیقت اس مبارک جملہ نے بے حجاب کر دی آدمی زندگانی پر مفتون ہوتا ہے اسی کو سرمایہ سمجھتا ہے اور اس فرصت کو بے کار ضائع کر دیتا ہے۔ وقت اخیر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بقا نہ تھی اس کے ساتھ دل لگانا حیات باقی اور اخروی زندگی کے لئے سخت مضرت رساں ہوا حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ دنیا طالبِ دنیا کے لئے متاع غرور اور دھوکے کا سرمایہ ہے لیکن آخرت کے طلب گار کے لئے دولتِ باقی کے حصول کا ذریعہ اور نفع دینے والا سرمایہ ہے یہ مضمون اس آیت کے اوپر کے جملوں سے مستفاد ہوتا ہے۔
۳۶۷۔ حقوق و فرائض اور نقصان اور مصائب اور امراض و خطرات و قتل و رنج و غم وغیرہ سے تاکہ مؤمن و غیر مومن میں امتیاز ہو جائے مسلمانوں کو یہ خطاب اس لئے فرمایا گیا کہ آنے والے مصائب و شدائد پر انہیں صبر آسان ہو جائے۔
ٍ۳۷۰۔ اللّٰہ تعالیٰ نے علماء توریت و انجیل پر واجب کیا تھا کہ ان دونوں کتابوں میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر دلالت کرنے والے جو دلائل ہیں وہ لوگوں کو خوب اچھی طرح مشرح کر کے سمجھا دیں اور ہر گز نہ چھپائیں۔
ٍ۳۷۱۔ اور رشوتیں لے کر حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے اوصاف کو چھپایا جو توریت و انجیل میں مذکور تھے۔
ٍ۳۷۲۔ علم دین کا چھپانا ممنوع ہے، حدیث شریف میں آیا کہ جس شخص سے کچھ دریافت کیا گیا جس کو وہ جانتا ہے اور اس نے اس کو چھپایا روزِ قیامت اس کے آگ کی لگام لگائی جائے گی
مسئلہ :علماء پر واجب ہے کہ اپنے علم سے فائدہ پہنچائیں اور حق ظاہر کریں اور کسی غرض فاسد کے لئے اس میں سے کچھ نہ چھپائیں۔
ٍ۳۷۳۔ شانِ نزول: یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور باوجود نادان ہونے کے یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے
مسئلہ: اس آیت میں وعید ہے خود پسندی کرنے والے کے لئے اور اس کے لئے جو لوگوں سے اپنی جھوٹی تعریف چاہے جو لوگ بغیر علم اپنے آپ کو عالم کہلواتے ہیں یا اسی طرح اور کوئی غلط وصف اپنے لئے پسند کرتے ہیں انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
۳۷۴۔ اس میں ان گستاخوں کا رد ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اللّٰہ فقیر ہے۔
ٍ۳۷۵۔ صانع قدیم علیم حکیم قادر کے وجود پر دلالت کرنے والی۔
ٍ۳۷۶۔ جن کی عقل کدورت سے پاک ہو اور مخلوقات کے عجائب و غرائب کو اعتبار و استدلال کی نظر سے دیکھتے ہوں۔
ٍ۳۷۷۔ یعنی تمام احوال میں مسلم شریف میں مروی ہے کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم تمام احیان میں اللّٰہ کا ذکر فرماتے تھے بندہ کا کوئی حال یادِ الٰہی سے خالی نہ ہونا چاہئے حدیث شریف میں ہے جو بہشتی باغوں کی خوشہ چینی پسند کرے اسے چاہئے کہ ذکر الٰہی کی کثرت کرے۔
ٍ۳۷۸۔ اور اس سے ان کے صانع کی قدرت و حکمت پر استدلال کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ۔
ٍ۳۷۹۔ بلکہ اپنی معرفت کی دلیل بنایا۔
ٍ۳۸۰۔ اس منادی سے مراد یا سید انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جن کی شان میں د اعِیاً اِلیَ اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وارد ہے یا قرآن کریم۔
ٍ۳۸۱۔ انبیاء و صالحین کے کہ ہم ان کے فرماں برداروں میں داخل کئے جائیں۔
۳۸۳۔ اور جزائے اعمال میں عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ شانِ نزول:ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میں ہجرت میں عورتوں کا کچھ ذکر ہی نہیں سنتی یعنی مردوں کے فضائل تو معلوم ہوئے لیکن یہ بھی معلوم ہو کہ عورتوں کو بھی ہجرت کا کچھ ثواب ملے گا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور انکی تسکین فرما دی گئی کہ ثواب عمل پر مرتب ہے عورت کا ہویا مرد کا۔
ٍ۳۸۴۔ یہ سب اللّٰہ کا فضل و کرم ہے۔
ٍ۳۸۵۔ شانِ نزول: مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار و مشرکین اللّٰہ کے دشمن تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی و مشقت میں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ کفّار کا یہ عیش متاع قلیل ہے اور انجام خراب۔
ٍ۳۸۶۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی دولت سرائے اقدس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطان کونین ایک بوریئے پر آرام فرما ہیں چمڑہ کا تکیہ جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں زیر سر مبارک ہے جسم اقدس میں بوریئے کے نقش ہو گئے ہیں یہ حال دیکھ کر حضرت فاروق رو پڑے سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے سبب گریہ دریافت کیاتو عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ قیصر و کسریٰ تو عیش و راحت میں ہوں اور آپ رسول خدا ہو کر اس حالت میں۔فرمایا کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت۔
ٍ۳۸۷۔ شانِ نزول: حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہ آیت نجاشی بادشاہِ حبشہ کے باب میں نازل ہوئی ان کی وفات کے دن سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا چلو اور اپنے بھائی کی نماز پڑھو جس نے دوسرے ملک میں وفات پائی ہے حضور بقیع شریف میں تشریف لے گئے اور زمین حبشہ آپ کے سامنے کی گئی اور نجاشی بادشاہ کا جنازہ پیش نظر ہوا اس پر آپ نے چار تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھی اور اس کے لئے استغفار فرمایا۔ سبحان اللّٰہ۔ کیا نظر ہے کیا شان ہے سرزمین حبشہ حجاز میں سامنے پیش کر دی جاتی ہے منافقین نے اس پر طعن کیا اور کہا دیکھو حبشہ کے نصرانی پر نماز پڑھتے ہیں جس کو آپ نے کبھی دیکھا بھی نہیں اور وہ آپ کے دین پر بھی نہ تھا اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ٍ۳۸۸۔ عجز و انکسار اور تواضع و اخلاص کے ساتھ۔
ٍ۳۸۹۔ جیسا کہ یہود کے رؤساء لیتے ہیں۔
۳۹۰۔ اپنے دین پر اور اس کو کسی شدت و تکلیف وغیرہ کی وجہ سے نہ چھوڑو صبر کے معنیٰ میں حضرت جنید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ صبر نفس کو ناگوار امر پر روکنا ہے بغیر جزع کے بعض حکماء نے کہا،صبر کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) ترک شکایت (۲) قبول قضا(۳) صدوق رضا۔