۱ سورۂ روم مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع ساٹھ آیتیں آٹھ سو انیس کلمے تین ہزار پانچ سو چونتیس حرف ہیں۔
۲ شانِ نُزول : فارس اور روم کے درمیان جنگ تھی اورچونکہ اہلِ فارس مجوسی تھے اس لئے مشرکینِ عرب ان کا غلبہ پسند کرتے تھے، رومی اہلِ کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان کا غلبہ اچھا معلوم ہوتا تھا۔ خسرو پرویز بادشاہِ فارس نے رومیوں پر لشکر بھیجا اور قیصرِ روم نے بھی لشکر بھیجا یہ لشکر سرزمینِ شام کے قریب مقابل ہوئے اہلِ فارس غالب ہوئے، مسلمانوں کو یہ خبر گراں گزری، کُفّارِ مکّہ اس سے خوش ہو کر مسلمانوں سے کہنے لگے کہ تم بھی اہلِ کتاب اور نصاریٰ بھی اہلِ کتاب اور ہم بھی اُمّی اور اہلِ فارس بھی اُمّی ہمارے بھائی اہلِ فارس تمہارے بھائیوں رومیوں پر غالب ہوئے ہماری تمہاری جنگ ہوئی تو ہم بھی تم پر غالب ہوں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور ان میں خبر دی گئی کہ چند سال میں پھر رومی اہلِ فارس پر غالب آ جائیں گے، یہ آیتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کُفّارِ مکّہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ خدا کی قَسم رومی ضرور اہلِ فارس پر غلبہ پائیں گے اے اہلِ مکّہ تم اس وقت کے نتیجۂ جنگ سے خوش مت ہو ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خبر دی ہے، اُ بَی بن خلف کافِر آپ کے مقابل کھڑا ہو گیا اور آپ کے اور اس کے درمیان سو سو اونٹ کی شرط ہو گئی اگر نو سال میں اہلِ فارس غالب آ جائیں تو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُ بَی کو سو اونٹ دیں گے اور اگر رومی غالب آ جائیں تو اُ بَی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دے گا۔ اس وقت تک قمار کی حرمت نازل نہ ہوئی تھی۔ مسئلہ : اور حضرت امام ابوحنیفہ و امام محمّد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک حربی کُفّار کے ساتھ عقودِ فاسدہ ربٰوا وغیرہ جائز ہیں اور یہی واقعہ ان کی دلیل ہے۔ القصّہ سات سال کے بعد اس خبر کا صدق ظاہر ہوا اور جنگِ حُدیبیہ یا بدر کے دن رومی اہلِ فارس پر غالب آئے اور رومیوں نے مدائن میں اپنے گھوڑے باندھے اور عراق میں رومیہ نامی ایک شہر کی بِنا رکھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط کے اونٹ اُ بَیْ کی اولاد سے وصول کر لئے کیونکہ وہ اس درمیان میں مر چکا تھا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ شرط کے مال کو صدقہ کر دیں۔ یہ غیبی خبر حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صحتِ نبوّت اور قرآنِ کریم کے کلامِ الٰہی ہونے کی روشن دلیل ہے۔ (خازن و مدارک)۔
۳ یعنی شام کی اس سرزمین میں جو فارس سے قریب تر ہے۔
۶ یعنی رومیوں کے غلبہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی۔ مراد یہ ہے کہ پہلے اہلِ فارس کا غلبہ ہونا اور دوبارہ اہلِ روم کا یہ سب اللہ تعالیٰ کے امر و ارادے اور اس کے قضا و قدر سے ہے۔
۷ کہ اس نے کتابیوں کو غیرِ کتابیوں پر غلبہ دیا اور اسی روز بدر میں مسلمانوں کو مشرکوں پر اور مسلمانوں کا صدق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور قرآنِ کریم کی خبر کی تصدیق ظاہر فرمائی۔
۸ جو اس نے فرمایا تھا کہ رومی چند برس میں پھر غالب ہوں گے۔
۱۰ تجارت، زراعت، تعمیر، وغیرہ دنیوی دھندے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کی بھی حقیقت نہیں جانتے اس کا بھی ظاہر ہی جانتے ہیں۔
۱۱ یعنی آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو عبث اور باطل نہیں بنایا ان کی پیدائش میں بے شمار حکمتیں ہیں۔
۱۲ یعنی ہمیشہ کے لئے نہیں بنایا بلکہ ایک مدّت معیّن کر دی ہے جب وہ مدّت پوری ہو جاوے گی تو یہ فنا ہو جائیں گے اور وہ مدّت قیامت قائم ہونے کا وقت ہے۔
۱۳ یعنی بَعث بعد الموت پر ایمان نہیں لاتے۔
۱۴ کہ رسولوں کی تکذیب کے باعث ہلاک کئے گئے ان کے اجڑے ہوئے دیار اور ان کی بربادی کے آثار دیکھنے والوں کے لئے موجِبِ عبرت ہیں۔
۱۶ تو وہ ان پر ایمان نہ لائے، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا۔
۱۷ ان کے حقوق کم کر کے اور انہیں بغیر جُرم کے ہلاک کر کے۔
۱۸ رسولوں کی تکذیب کر کے اپنے آپ کو مستحقِ عذاب بنا کر۔
۲۱ اور کسی نفع اور بھلائی کی امید باقی نہ رہے گی۔ بعض مفسِّرین نے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ ان کا کلام منقطع ہو جائے گا وہ ساکت رہ جائیں گے کیونکہ ان کے پاس پیش کرنے کے قابل کوئی حُجّت نہ ہو گی۔ بعض مفسِّرین نے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ وہ رسوا ہوں گے۔
۲۲ یعنی بُت جنہیں وہ پُوجتے تھے۔
۲۳ مومن اور کافِر پھر کبھی جمع نہ ہوں گے۔
۲۴ یعنی بُستانِ جنّت میں ان کا اکرام کیا جائے گا جس سے وہ خوش ہوں گے یہ خاطر داری جنّتی نعمتوں کے ساتھ ہو گی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد سماع ہے کہ انہیں نغمات طرب انگیز سنائے جائیں گے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح پر مشتمل ہوں گے۔
۲۶ نہ اس عذاب میں تخفیف ہو نہ اس سے کبھی نکلیں۔
۲۷ پاکی بولنے سے یا تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و ثناء مراد ہے اور اس کی احادیث میں بہت فضیلتیں وارد ہیں یا اس سے نماز مراد ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ کیا پنجگانہ نمازوں کا بیان قرآنِ پاک میں ہے؟ فرمایا ہاں اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں پانچوں نمازیں اور ان کے اوقات مذکور ہیں۔
۲۸ اس میں مغرب و عشاء کی نمازیں آ گئیں۔
۳۰ یعنی آسمان اور زمین والوں پر اس کی حمد لازم ہے۔
۳۱ یعنی تسبیح کرو کچھ دن رہے، یہ نمازِ عصر ہوئی۔
حکمت : نماز کے لئے یہ پنجگانہ اوقات مقرر فرمائے گئے اس لئے کہ افضل اعمال وہ ہے جو مدام ہو اور انسان یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے تمام اوقات نماز میں صرف کرے کیونکہ اس کے ساتھ کھانے پینے وغیرہ کے حوائج و ضروریات ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بندہ پر عبادت میں تخفیف فرمائی اور دن کے اوّل و اوسط و آخر میں اور رات کے اوّل و آخر میں نمازیں مقرر کیں تاکہ ان اوقات میں مشغولِ نماز رہنا دائمی عبادت کے حکم میں ہو۔ (مدارک و خازن)۔
۳۳ جیسے کہ پرند کو انڈے سے اور انسان کو نطفہ سے اور مومن کو کافِر سے۔
۳۴ جیسے کہ انڈے کو پرند سے نطفہ کو انسان سے کافِر کو مومن سے۔
۳۵ یعنی خشک ہو جانے کے بعد مینہ برسا کر سبزہ اُگا کر۔
۳۶ قبروں سے بَعث و حساب کے لئے۔
۳۷ تمہارا جدِّ اعلیٰ اور تمہاری اصل حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کر کے۔
۳۸ کہ بغیر کسی پہلی معرفت اور بغیر کسی قرابت کے ایک دوسرے کے ساتھ مَحبت و ہمدردی ہے۔
۳۹ زبانوں کا اختلاف تو یہ ہے کہ کوئی عربی بولتا ہے، کوئی عجمی، کوئی اور کچھ اور رنگتوں کا اختلاف یہ ہے کہ کوئی گورا ہے، کوئی کالا، کوئی گندمی اور یہ اختلاف نہایت عجیب ہے کیونکہ سب ایک اصل سے ہیں اور سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
۴۰ جس سے تکان دور ہوتی ہے اور راحت حاصل ہوتی ہے۔
۴۱ فضل تلاش کرنے سے کسبِ معاش مراد ہے۔
۴۵ جو سوچیں اور قدرتِ الٰہی پر غور کریں۔
۴۶ حضرت ابنِ عباس اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا کہ وہ دونوں بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں۔
۴۷ یعنی تمہیں قبروں سے بلائے گا اس طرح کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام قبر والوں کے اٹھانے کے لئے صور پھونکیں گے تو اوّلین و آخرین میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو نہ اٹھے چنانچہ اس کے بعد ہی ارشاد فرماتا ہے۔
۵۰ کیونکہ انسانوں کا تجربہ اور ان کی رائے یہی بتاتی ہے کہ شیِ کا اعادہ اس کی ابتداء سے سہل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی دشوار نہیں۔
۵۱ کہ اس جیسا کوئی نہیں وہ معبودِ برحق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۵۴ یعنی کیا تمہارے غلام تمہارے ساجھی ہیں۔
۵۶ یعنی آقا اور غلام کو اس مال و متاع میں یکساں استحقاق ہو ایسا کہ۔
۵۷ اپنے مال و متاع میں بغیر ان غلاموں کی اجازت سے تصرُّف کرنے سے۔
۵۸ مدعیٰ یہ ہے کہ تم کسی طرح اپنے مملوکوں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کر سکتے تو کتنا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مملوکوں کو اس کا شریک قرار دو۔ اے مشرکین تم اللہ تعالیٰ کے سوا جنہیں اپنا معبود قرار دیتے ہو وہ اس کے بندے اور مملوک ہیں۔
۵۹ جنہوں نے شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلمِ عظیم کیا ہے۔
۶۱ یعنی کوئی اس کا ہدایت کرنے والا نہیں۔
۶۲ جو انہیں عذاب الٰہی سے بچا سکے۔
۶۳ یعنی خلوص کے ساتھ دینِ الٰہی پر باستقامت و استقلال قائم رہو۔
۶۴ فطرت سے مراد دینِ اسلام ہے معنیٰ یہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے خَلق کو ایمان پر پیدا کیا جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچّہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے یعنی اسی عہد پر جو اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرما کر لیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ دینِ الٰہی پر قائم رہو جس پر اللہ تعالیٰ نے خَلق کو پیدا کیا ہے۔
۶۵ یعنی دینِ الٰہی پر قائم رہنا۔
۶۶ اس کی حقیقت کو تو اس دین پر قائم رہو۔
۶۷ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ اور طاعت کے ساتھ۔
۶۸ معبود کے باب میں اختلاف کر کے۔
۶۹ اور اپنے باطل کو حق گمان کرتا ہے۔
۷۰ مرض کی یا قحط کی یا اس کے سوا اور کوئی۔
۷۱ اس تکلیف سے خلاصی عنایت کرتا ہے اور راحت عطا فرماتا ہے۔
۷۳ کہ آخرت میں تمہارا کیا حال ہوتا ہے اس دنیا طلبی کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔
۷۵ اور شرک کرنے کا حکم دیتی ہے ایسا نہیں ہے نہ کوئی حُجّت ہے نہ کوئی سند۔
۷۶ یعنی تندرستی اور وسعتِ رزق کا۔
۷۸ قحط یا خوف یا اور کوئی بَلا۔
۷۹ یعنی ان کی معصیتوں اور ان کے گناہوں کا۔
۸۰ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور یہ بات مومن کی شان کے خلاف ہے کیونکہ مومن کا حال یہ ہے کہ جب اسے نعمت ملتی ہے تو شکر گزاری کرتا ہے اور جب سختی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔
۸۱ اس کے ساتھ سلوک اور احسان کرو۔
۸۲ ان کے حق دو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کر کے۔ مسئلہ : اس آیت سے محارم کے نفقہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ (مدارک)۔
۸۳ اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کے طالب ہیں۔
۸۴ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہو گی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہِ تعالیٰ نہیں ہوا۔
۸۵ نہ اس سے بدلہ لینا مقصود ہو نہ نام و نمود۔
۸۶ ان کا اجر و ثواب زیادہ ہو گا ایک نیکی کا دس گنا زیادہ دیا جائے گا۔
۸۷ پیدا کرنا، روزی دینا، مارنا، جِلانا یہ سب کام اللہ ہی کے ہیں۔
۸۸ یعنی بُتوں میں جنہیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو ان میں۔
۸۹ اس کے جواب سے مشرکین عاجز ہوئے اور انہیں دَم مارنے کی مجال نہ ہوئی تو فرماتا ہے۔
۹۰ شرک و معاصی کے سبب سے قحط اور امساکِ باراں اور قلّتِ پیداوار اور کھیتیوں کی خرابی اور تجارتوں کے نقصان اور آدمیوں اور جانوروں میں موت اور کثرتِ آتش زدگی اور غرق اور ہر شے میں بے برکتی۔
۹۱ کُفر و معاصی سے اور تائب ہوں۔
۹۲ اپنے شرک کے باعث ہلاک کئے گئے ان کے منازل اور مساکن ویران پڑے ہیں انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔
۹۳ یعنی دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔
۹۵ یعنی حساب کے بعد متفرق ہو جائیں گے جنّتی جنّت کی طرف جائیں گے اور دوزخی دوزخ کی طرف۔
۹۶ کہ منازلِ جنّت میں راحت و آرام پائیں۔
۹۷ اور ثواب عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ۔
۱۰۰ یعنی دریائی تجارتوں سے کسبِ معاش کرو۔
۱۰۱ ان نعمتوں کا اور اللہ کی توحید قبول کرو۔
۱۰۲ جو ان رسولوں کے صدقِ رسالت پر دلیلِ واضح تھیں تو اس قوم میں سے بعض ایمان لائےاور بعض نے کُفر کیا۔
۱۰۳ کہ دنیا میں انہیں عذاب کر کے ہلاک کر دیا۔
۱۰۴ یعنی انہیں نجات دینا اور کافِروں کو ہلاک کرنا۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو آخرت کی کامیابی اور اعداء پر فتح و نصرت کی بشارت دی گئی ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو بچائے گا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت جہنّم کی آگ سے بچائے گا یہ فرما کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔
۱۰۶ یعنی کبھی تو اللہ تعالیٰ ابرِ محیط بھیج دیتا ہے جس سے آسمان گھرا معلوم ہوتا ہے اور کبھی متفرق ٹکڑے علیٰحدہ علیٰحدہ۔
۱۰۸ یعنی بارش کے اثر جو اس پر مرتّب ہوتے ہیں کہ بارش زمین کو سیراب کرتی ہے، اس سے سبزہ نکلتا ہے، سبزے سے پھل پیدا ہوتے ہیں، پھلوں میں غذائیت ہوتی ہے اور اس سے جانداروں کے اجسام کے قوام کو مدد پہنچتی ہے اور یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ یہ سبزے اور پھل پیدا کر کے۔
۱۰۹ اور خشک میدان کو سبزہ زار بنا دیتا ہے جس کی یہ قدرت ہے۔
۱۱۰ ایسی جو کھیتی اور سبزے کے لئے مُضِر ہو۔
۱۱۱ بعد اس کے کہ وہ سرسبز و شاداب تھی۔
۱۱۲ یعنی کھیتی زرد ہونے کے بعد ناشکری کرنے لگیں اور پہلی نعمت سے بھی مُکَر جائیں۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب انہیں رحمت پہنچتی ہے رزق ملتا ہے خوش ہو جاتے ہیں اور جب کوئی سختی آتی ہے کھیتی خراب ہوتی ہے تو پہلی نعمتوں سے بھی مُکَر جاتے ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرتے اور جب نعمت پہنچتی شکر بجا لاتے اور جب بَلا آتی صبر کرتے اور دعاء و استغفار میں مشغول ہوتے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی فرماتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی محرومی اور ان کے ایمان نہ لانے پر رنجیدہ نہ ہوں۔
۱۱۳ یعنی جن کے دل مر چکے اور ان سے کسی طرح قبولِ حق کی توقع نہیں رہی۔
۱۱۴ یعنی حق کے سننے سے بہرے ہوں اور بہرے بھی ایسے کہ پیٹھ دے کر پھر گئے ان سے کسی طرح سمجھنے کی امید نہیں۔
۱۱۵ یہاں اندھوں سے بھی دل کے اندھے مراد ہیں۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کیا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہاں مُردوں سے مراد کُفّار ہیں جو دنیوی زندگی تو رکھتے ہیں مگر پند و موعظت سے منتفع نہیں ہوتے اس لئے انہیں اموات سے تشبیہ دی گئی جو دار العمل سے گزر گئے اور وہ پند و نصیحت سے منتفع نہیں ہو سکتے لہذا آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر سند لانا درست نہیں اور بکثرت احادیث سے مُردوں کا سننا اور اپنی قبروں پر زیارت کے لئے آنے والوں کو پہچاننا ثابت ہے۔
۱۱۶ اس میں انسان کے احوال کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے وہ ماں کے پیٹ میں جنین تھا پھر بچّہ ہو کر پیدا ہوا، شیر خوار رہا یہ احوال نہایت ضعف کے ہیں۔
۱۱۷ یعنی بچپن کے ضعف کے بعد جوانی کی قوّت عطا فرمائی۔
۱۱۸ یعنی جوانی کی قوّت کے بعد۔
۱۱۹ ضعف اور قوّت اور جوانی اور بڑھاپا یہ سب اللہ کے پیدا کئے سے ہیں۔
۱۲۰ یعنی آخرت کو دیکھ کر اس کو دنیا یا قبر میں رہنے کی مدّت بہت تھوڑی معلوم ہو گی اس لئے وہ اس مدّت کو ایک گھڑی سے تعبیر کریں گے۔
۱۲۱ یعنی ایسے ہی دنیا میں غلط اور باطل باتوں پر جمتے اور حق سے پھرتے تھے اور بَعث کا انکار کرتے تھے جیسے کہ اب قبر یا دنیا میں ٹھہرنے کی مدّت کو قَسم کھا کر ایک گھڑی بتا رہے ہیں ان کی اس قَسم سے اللہ تعالیٰ انہیں تمام اہلِ محشر کے سامنے رسوا کرے گا اور سب دیکھیں گے کہ ایسے مجمعِ عام میں قَسم کھا کر ایسا صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔
۱۲۲ یعنی انبیاء اور ملائکہ اور مومنین ان کا رد کریں گے اور فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔
۱۲۳ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم میں لوحِ محفوظ میں لکھا اسی کے مطابق تم قبروں میں رہے۔
۱۲۴ جس کے تم دنیا میں منکِر تھے۔
۱۲۵ دنیا میں کہ وہ حق ہے ضرور واقع ہو گا، اب تم نے جانا کہ وہ دن آ گیا اور اس کا آنا حق تھا تو اس وقت کا جاننا تمہیں نفع نہ دے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۲۶ یعنی نہ ان سے یہ کہا جائے کہ توبہ کر کے اپنے ربّ کو راضی کرو جیسا کہ دنیا میں ان سے توبہ طلب کی جاتی تھی۔
۱۲۷ تاکہ انہیں تنبیہ ہو اور انذار اپنے کمال کو پہنچے لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیتِ قرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کیا۔
۱۲۸ جنہیں جانتا ہے کہ وہ گمراہی اختیار کریں گے اور حق والوں کو باطل پر بتائیں گے۔
۱۳۰ آپ کی مدد فرمانے کا اور دینِ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنے کا۔
۱۳۱ یعنی یہ لوگ جنہیں آخرت کا یقین نہیں ہے اور بَعث و حساب کے منکِر ہیں ان کی شدّتیں اور ان کے انکار اور ان کے نالائق حرکات آپ کے لئے طیش اور قلق کا باعث نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے حق میں عذاب کی دعا کرنے میں جلدی فرمائیں۔