تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الرُّوم

سورہ روم مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی ساٹھ آیتیں ہیں اور چھ رکوع

۱ ۔۔۔    الف لام میم

۳ ۔۔۔    "ادنی الارض " (ملتے ہوئے ملک یا پاس والے ملک) سے مراد"اذرعات" "و بصری" کے درمیان کا خطہ ہے جو "شام" کی سرحد پر "حجاز" سے ملتا ہوا مکہ کے قریب واقع ہوا ہے، یا فلسطین" مراد ہو جو رومیوں کے ملک سے نزدیک تھا، یا "جزیرہ ابن عمر" جو فارس سے اقرب ہے۔ ابن حجر نے پہلے قول کی تصحیح کی ہے۔ واللہ اعلم۔

۴ ۔۔۔  ۱: یعنی نو سال کے اندر اندر رومی غالب ہو جائیں گے۔ کیونکہ لغت میں اور حدیث میں "بضع" کا اطلاق تین سے نو تک ہوا ہے۔ ان آیات میں قرآن نے ایک عجیب و غریب پیشین  گوئی کی جو اس کی صداقت کی عظیم الشان دلیل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ کی بڑی بھاری دو سلطنتیں "فارس" (جسے "ایران" کہتے ہیں) اور " روم" مدت دراز سے آپس میں ٹکراتی چلی آتی تھیں۔ ۶۰۲ء سے لے کر ۶۱۴ء کے بعد تک ان کی حریفانہ نبرد آزمائیوں کا سلسلہ جاری رہا کیا، جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی تصریحات سے ظاہر ہے۔ ۵۷۰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت شریفہ اور چالیس سال بعد ۶۱۰ء میں آپ کی بعثت ہوئی۔ مکہ والوں میں جنگ روم و فارس کے متعلق خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ اسی دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دعویٰ نبوت اور اسلامی تحریک نے ان لوگوں کے لئے ان جنگی خبروں میں ایک خاص دلچسپی پیدا کر دی۔ فارس کے آتش پرست مجوس کو مشرکین مکہ مذہباً اپنے سے نزدیک سمجھتے تھے۔ اور روم کے نصاریٰ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے بھائی یا کم از کم ان کے قریبی دوست قرار دیے جاتے تھے۔ جب فارس کے غلبہ کی خبر آتی مشرکین مکہ مسرور ہوتے اور اس سے مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے غلبہ کی فال لیتے اور خوش آئندہ توقعات باندھتے تھے۔ مسلمانوں کو بھی طبعاً صدمہ ہوتا کہ عیسائی اہل کتاب آتش پرست مجوسیوں سے مغلوب ہوں، ادھر ان کو مشرکین مکہ کی شماتت کا ہدف بننا پڑے آخر ۶۱۴ء کے بعد (جبکہ ولادت نبوی کو قمری حساب سے تقریباً پینتالیس سال اور بعثت کے پانچ سال گزر چکے) خسرو پرویز (کی خسرو ثانی) کے عہد میں فارس نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام، مصر، ایشیائے کوچک وغیرہ سب ممالک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی لشکر نے قسطنطنیہ میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑ گیا، بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہو گئے۔ بیت المقدس سے عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین لے اڑے۔قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہو گیا۔ بظاہر اسباب کوئی صورت روم کے ابھرنے اور فارس کے تسلط سے نکلنے کی باقی نہ رہی۔ یہ حالات دیکھ کر مشرکین مکہ نے خوب بغلیں بجائیں۔ مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کیا، بڑے بڑے حوصلے اور توقعات قائم کرنے لگے حتیٰ کہ بعض مشرکین نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آج ہمارے بھائی ایرانیوں نے تمہارے بھائی رومیوں کو مٹا دیا ہے کل ہم بھی تمہیں اسی طرح مٹا ڈالیں گے۔ اس وقت قرآن نے سلسلۂ اسباب ظاہری کے بالکل خلاف عام اعلان کر دیا کہ بیشک اس وقت رومی فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں لیکن نو سال کے اندر اندر وہ پھر غالب و منصور ہوں گے اس پیشین گوئی کی بناء پر حضرت ابوبکر صدیق نے بعض مشرکین سے شرط باندھ لی (اس وقت تک ایسی شرط لگانا حرام نہ ہوا تھا) کہ اگر اتنے سال تک رومی غالب نہ ہوئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا، ورنہ اسی قدر اونٹ تم مجھ کو دو گے۔شروع میں حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی رائے سے "بضع سنین " کی میعاد کچھ کم رکھی تھی۔ بعدہٗ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے "بضع" کے لغوی مدلول یعنی نو سال پر معاہدہ ٹھہرا۔ ادھر ہرقل قیصر روم نے اپنے زائل شدہ اقتدار کو واپس لینے کا تہیہ کر لیا اور منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فارس پر فتح دی تو "حمص " سے پیدل چل کر "ایلیا"(بیت المقدس) تک پہنچوں گا۔ قدرت دیکھو کہ قرآنی پیشین گوئی کے مطابق نو سال کے اندر یعنی ہجرت کا ایک سال گزرنے پر عین بدر کے دن جبکہ مسلمان اللہ کے فضل سے مشرکین پر نمایاں فتح و نصرت حاصل ہونے کی خوشیاں منا رہے تھے، یہ خبر سن کر اور زیادہ مسرور ہو گئے کہ رومی اہل کتاب کو خدا تعالیٰ نے ایرانی مجوسیوں پر غالب فرمایا، اس ضمن میں مشرکین مکہ کو مزید خذلان و خسران نصیب ہوا۔قرآن کی اس عظیم الشان اور محیر العقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کر کے بہت لوگوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت ابوبکر نے سو اونٹ مشرکین مکہ سے وصول کئے جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ صدقہ کر دیے جائیں۔ فللہ الحمد علیٰ نعمآئہ الظاہرۃ واٰلائہ الباہرۃ۔

 ۲:  پہلے فارس کو غالب کرنا، روم کو مغلوب کرنا، اور پیچھے حالات کو الٹ دینا، سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ صرف اتنی بات سے کسی قوم کے مقبول و مردود ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔"وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ "

۵ ۔۔۔  ۱: یعنی ایک تو اس دن اپنی فتح کی خوشی اس پر مزید خوشی یہ ہوئی کہ رومی اہل کتاب (جو نسبۃً مسلمانوں سے اقرب تھے) فارس کے مجوسیوں پر غالب آئے۔قرآن کی پیشین گوئی کے صدق کا لوگوں نے مشاہدہ کر لیا۔ کفار مکہ کو ہر طرح ذلت نصیب ہوئی۔

۲:  یعنی جسے مغلوب کرنا چاہے تو کوئی زبردستی کر کے روک نہ سکے اور جس پر مہربانی فرمانا چاہے اسے بے روک ٹوک غالب کر کے رہے۔

۶ ۔۔۔  یعنی اکثر لوگ نہیں سمجھتے کہ غالب یا مغلوب کرنے میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا حکمتیں ہیں اور یہ قدرت جب کوئی کام کرنا چاہے تو سب ظاہری رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اسی لئے اکثر ظاہر بیں بغیر اسباب ظاہری خدا پر بھروسہ نہیں رکھتے اور کسی کا عارضی غلبہ دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ہی اللہ کے ہاں مقبول ہو گا۔

۷ ۔۔۔  یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کی ظاہری سطح کو جانتے ہیں۔ یہاں کی آسائش و آرائش، کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، بونا جوتنا، پیسہ کمانا، مزے اڑانا بس یہ ہی ان کے علم و تحقیق کی انتہائی جولان گاہ ہے۔ اس کی خبر ہی نہیں کہ اس زندگی کی تہ میں ایک دوسری زندگی کا راز چھپا ہوا ہے جہاں پہنچ کر اس دنیاوی زندگی کے بھلے برے نتائج سامنے آئیں گے۔ضروری نہیں کہ جو شخص یہاں خوشحال نظر آتا ہے وہاں بھی خوشحال رہے۔ بھلا آخرت کا معاملہ تو دور ہے، یہیں دیکھ لو کہ ایک شخص یا ایک قوم کبھی دنیا میں عروج حاصل کر لیتی ہے لیکن اس کا آخری انجام ذلت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

۸ ۔۔۔  ۱: یعنی عالم کا اتنا زبردست نظام اللہ تعالیٰ نے بیکار پیدا نہیں کیا۔ کچھ اس سے مقصود ضرور ہے وہ آخرت میں نظر آئے گا۔ ہاں یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا تو ایک بات تھی، لیکن اس کے تغیرات و احوال میں غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ اس کی کوئی حد اور انتہا ضرور ہے۔ لہٰذا ایک وعدہ مقررہ پر یہ عالم فنا ہو گا اور دوسرا عالم اس کے نتیجہ کے طور پر قائم کیا جائے گا۔

۲:  وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی خدا کے سامنے جانا ہی نہیں جو حساب و کتاب دینا پڑے۔

۹ ۔۔۔    ۱: یعنی بڑی بڑی طاقتور قومیں (عاد و ثمود) جنہوں نے زمین کو بو، جوت کر لالہ و گلزار بنایا، اسے کھود کر چشمے اور کانیں نکالیں، ان منکرین سے بڑھ کر تمدن کو ترقی دی، لمبی عمریں پائیں اور زمین کو ان سے زیادہ آباد کیا۔ وہ آج کہاں ہیں؟جب اللہ کے پیغمبر کھلے نشان اور احکام لے کر آئے اور انہوں نے تکذیب کی تو کیا نہیں سنا کہ انجام کیا ہوا۔ کس طرح تباہ و برباد کئے گئے۔ ان کے ویران کھنڈر آج بھی ملک میں چل پھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ کیا ان میں ان بے فکروں کے لئے کوئی عبرت نہیں۔

۲: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو ظلم کا امکان نہیں۔ ہاں یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی جڑ پر کلہاڑی مارتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں۔ جن کا نتیجہ بربادی ہو تو یہ اپنی جان پر ظلم کرنا ہوا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے عدل و رحم کی کیفیت تو یہ ہے کہ بے رسول بھیجے اور بدون پوری طرح ہوشیار کئے کسی کو پکڑتا بھی نہیں۔

۱۰ ۔۔۔   وہ نتیجہ تو دنیا میں دیکھا تھا پھر آخرت میں تکذیب و استہزاء کی جو سزا ہے وہ الگ رہی۔ موجودہ اقوام کو چاہیے کہ گذشتہ قوموں کے احوال سے عبرت پکڑیں کیونکہ ایک قوم کو جن باتوں پر سزا ملی سب کو وہی سزا مل سکتی ہے۔ سب کی فنا بھی ایک کی فنا سے سمجھو اور سب کی سزا بھی ایک کی سزا سے۔

۱۳ ۔۔۔  یعنی جن کو اللہ کا شریک بناتے تھے جب وقت پر کام نہ آئیں گے تو منکر ہو کر کہنے لگیں گے کہ "واللہ ربنا ما کنا مشرکین۔" (خدا کی قسم ہم مشرک نہ تھے)

۱۴ ۔۔۔  یعنی نیک و بد ہر قسم کے لوگ الگ کر دئیے جائیں گے اور علیٰحدہ علیٰحدہ اپنے ٹھکانہ پر پہنچا دیے جائیں گے۔ جس کی تفصیل اگلی آیت میں ہے۔

۱۵ ۔۔۔  یعنی انعام و اکرام سے نوازے جائیں گے اور ہر قسم کی لذت و سرور سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ یہ نیکوں کا ٹھکانہ ہوا۔ آگے بدوں کی جگہ بتلائی ہے۔ مطلب یہ ہے، کہ دونوں میں ایسی تفریق اور جدائی کر دی جائے گی جس سے بڑھ کر کوئی جدائی نہیں ہو سکتی۔

۱۸ ۔۔۔  یعنی جنت چاہتے ہو تو اللہ پاک کی یاد کرو جو دل، زبان اور اعضاء و جوارح سب سے ہوتی ہے۔ نماز میں تینوں قسم کی یاد جمع کر دی گئی۔ اور اوقات فرض نماز کے یہ ہی ہیں جو آیت میں بیان ہو گے۔ یعنی صبح، شام، (جس میں مغرب و عشاء شامل ہیں) دن کے پچھلے وقت (عصر) اور دوپہر ڈھلنے کے بعد (ظہر) کی نمازیں ہیں ان اوقات میں حق تعالیٰ کی رحمت یا قدرت و عظمت کے آثار بہت زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ آفتاب عالم اجسام میں سب سے بڑا روشن کرہ ہے جس کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فیض و تاثیر سے عالم اسباب میں شاید ہی کوئی مادی مخلوق مستثنیٰ ہو (جیسا کہ ارض النجوم کے مصنف نے بہت شرح و بسط سے اس کو ثابت کیا ہے) اسی بناء پر سیارہ پرستوں نے اسے اپنا معبود اکبر قرار دیا تھا جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول "ہذا ربی ہذا اکبر" میں اشارہ ہے۔ اس کے عجز و بیچارگی اور آفتاب پرستوں کی اس کے فیض سے محرومی کا کھلا ہوا مظاہرہ بھی ان ہی پانچ اوقات میں ہوتا ہے۔صبح کو جب تک طلوع نہیں ہوا اور دوپہر ڈھلنے پر جبکہ اس کے عرض میں کمی آنی شروع ہوئی اور عصر کے وقت جبکہ اس کی حرارت اور روشنی میں نمایاں طور پر ضعف آگیا اور غروب کے بعد جب اس کی نورانی شعاعوں کے اتصال سے اس کے پجاری محروم ہو گئے۔ پھر عشاء کے وقت جب شفق بھی غائب ہو گئی اور روشنی کے ادنیٰ ترین آثار بھی افق پر باقی نہ رہے۔ ان اوقات میں موحدین کو حکم ہوا کہ خدائے اکبر کی عبادت کریں۔ اور شروع صلوٰۃ ہی میں " اللہ اکبر" کہہ کر اس موحد اعظم (ابراہیم خلیل اللہ) کی اقتداء کرتے رہیں۔ جس نے " ہذا ربی ہذا کبر " کے بعد فرمایا تھا " انی وجھت و جھی للذی فطر السموات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین " (انعام ۔ رکوع۹) شاید آیت ہذا میں " ولہ الحمد فی السموات والارض " فرما کر یہ ہی یاد دلایا ہے کہ تسبیح و تنزیہ اور یاد کرنے کے لائق وہی ذات ہو سکتی ہے جس کی خوبی آسمان و زمین کی کل کائنات زبان حال و قال سے بیان کر رہی ہے کوئی مجبور و عاجز مخلوق اس کا استحقاق نہیں رکھتی خواہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ آگے اسی خدائے اکبر کی بعض شؤون عظیمہ اور صفات کا ملہ کا بیان ہے تاکہ معبودیت کا استحقاق اور زیادہ واضح ہو جائے اسی ضمن میں بعث بعد الموت کے مسئلہ پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔

۱۹ ۔۔۔   یعنی انسان کو نطفہ سے، نطفہ کو انسان سے، جانور کو بیضہ سے اور بیضہ کو جانور سے، مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا کرتا ہے اور زمین جب خشک ہو کر مر جاتی ہے تو رحمت کے پانی سے پھر زندہ کر کے سر سبز و شاداب کر دیتا ہے۔غرض موت و حیات حقیقی ہو یا مجازی، حسی ہو یا معنوی، سب کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر تم کو زندہ کر کے قبروں سے نکال کھڑا کرنا اس کے نزدیک کیا مشکل ہو گا۔

۲۰ ۔۔۔    یعنی آدم کو مٹی سے بنایا، پھر دیکھو قدرت نے اسے پھیلایا کہ ساری زمین پر اس کی ذریت چھا گئی اور زمین میں پھیل کر کیسی کیسی عجیب و غریب ہشیاریاں اس مٹی کے پتلے نے دکھلائیں۔

۲۱ ۔۔۔  یعنی اول مٹی سے ایک آدم کو پیدا کیا پھر اسی کے اندر سے اس کا جوڑا نکالا تاکہ اس سے انس اور چین پکڑے اور پیدائشی طور پر دونوں صنفوں (مرد بعورت) کے درمیان خاص قسم کی محبت اور پیار رکھ دیا۔ تاکہ مقصود ازدواج حاصل ہو۔ چنانچہ دونوں کے میل جول سے نسل انسانی دنیا میں پھیل گئی۔ کما قال تعالیٰ یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالا کثیرا و نساء " (نساء ۔ رکوع ۱)

۲۲ ۔۔۔  سب انسان ایک ماں باپ سے بنائے، ملا کر بسائے، پھر تمام روئے زمین پر ان کو پھیلا دیا۔ سب کی جدا جدا بولیاں کر دیں۔ ایک ملک کا آدمی دوسرے ملک میں جا کر زبان کے اعتبار سے محض اجنبی ہو گیا۔ پھر دیکھو شروع دنیا سے آج تک کتنے بے شمار آدمی پیدا ہوئے مگر کوئی دو آدمی ایسے نہ ملیں گے جن کا لب و لہجہ، تلفظ، طرز تکلم بالکل یکساں ہو۔ جس طرح ہر آدمی کی شکل و صورت اور رنگت وغیرہ دوسرے سے ممتاز ہے، آواز اور لب و لہجہ بھی بالکل الگ ہے کوئی دو شخص ایسے نہ ملیں گے جن کی آواز اور رنگ، روپ میں کوئی مابہ الامتیاز نہ ہو۔ ابتدائے عالم سے آج تک برابر نئی نئی صورتیں اور بولنے کے نئے نئے طور نکلتے چلے آتے ہیں۔ اس خزانہ میں کبھی ٹوٹا نہیں آیا۔ حقیقت میں یہ کتنا بڑا نشان حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کا ہے۔

۲۳ ۔۔۔  ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ انسان کی دو حالتیں بدلی جاتی ہیں، سو یا تو بے خبر پتھر کی طرح اور روزی کی تلاش میں لگا تو ایسا ہوشیار کوئی نہیں۔ اصل تو رات ہے سونے کو اور دن تلاش کو، پھر دونوں وقت دونوں کام ہوتے ہیں۔

۲: یعنی جو سن کر محفوظ رکھتے ہیں۔ کما فی تفسیر ابن کثیر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " اپنے سونے کا احوال نظر نہیں آتا۔ سو لوگوں کی زبانی سنتے ہیں۔"(موضح) یہ لفظ "یسمعون" اختیار کرنے کا نکتہ ہوا۔

۲۴ ۔۔۔  ۱: بجلی کی چمک دیکھ کر لوگ ڈرتے ہیں کہیں کسی پر گر نہ پڑے۔ یا بارش زیادہ نہ ہو جائے جس سے جان و مال تلف ہوں۔ اور امید بھی رکھتے ہیں کہ بارش ہو تو دنیا کا کام چلے۔ مسافر کبھی اندھیرے میں اس کی چمک کو غنیمت سمجھتا ہے کہ دور تک راستہ نظر آ جائے۔ اور کبھی خوف کھا کر گھبراتا ہے۔

۲:  یعنی اسی سے سمجھ لو کہ مرے پیچھے تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

۲۵ ۔۔۔  ۱: پہلے آسمان و زمین کا پیدا کرنا مذکور ہوا تھا یہاں ان کے بقاء و قیام کو بتلایا کہ وہ بھی اسی کے حکم سے ہے مجال نہیں کہ کوئی اپنے مرکز ثقل سے ہٹ جائے۔ یا ایک دوسرے پر گر کر نظام کائنات کو درہم برہم کر دے۔

۲: یعنی زمین و آسمان جب تک اس کا حکم ہے قائم رہیں گے۔ پھر جس وقت دنیا کی میعاد پوری ہو جائیگی اللہ تعالیٰ کی ایک پکار پر تم سب قبروں سے نکلے چلے آؤ گے میدان حشر کی طرف۔

۲۶ ۔۔۔  یعنی آسمان و زمین کے رہنے والے سب اسی کے مملوک بندے اور اسی کی رعیت ہیں، کس کی طاقت ہے کہ اس کے حکم تکوینی سے سرتابی کر سکے۔

۲۷ ۔۔۔   ۱: یعنی قدرت الٰہی کے سامنے تو سب برابر ہیں لیکن تمہارے محسوسات کے اعتبار سے اول بار پیدا کرنے سے دوسری بار دوہرا دینا آسان ہونا چاہیے پھر یہ عجیب بات ہے کہ اول پیدائش پر اسے قادر مانو اور دوسری مرتبہ پیدا کرنے کو مستبعد سمجھو۔

۲:  یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی شان اس کی ہے۔ آسمان و زمین کی کوئی چیز اپنے حسن و خوبی میں اس کی شان و صفت سے لگاؤ نہیں کھا سکتی۔ مساوی ہونا تو کجا، وہ تو اس سے بھی بالا و برتر ہے جہاں تک مخلوق اس کے جلال و جمال کا تصور کر سکتی ہے۔ بلکہ جو خوبی کسی جگہ موجود ہے وہ اسی کے کمالات کا ادنیٰ پر تو ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "آسمان کے فرشتے نہ کھائیں نہ پیئیں نہ حاجت بشری رکھیں، سوائے بندگی کے کچھ کام نہیں۔ اور زمین کے لوگ سب چیز میں آلودہ۔ پر اللہ کی صفت نہ ان سے ملے نہ ان سے، وہ پاک ذات ہے"(موضح)۔

۲۸ ۔۔۔  یعنی شرک کا قبح و بطلان سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ خود تمہارے ہی احوال میں سے ایک مثال نکال کر بیان فرماتا ہے۔ وہ یہ کہ تمہارے ہاتھ کا مال (یعنی لونڈی غلام) جن کے تم محض ظاہری اور مجازی مالک ہو کیا اپنی روزی اور مال و متاع میں جو حق تعالیٰ نے دے رکھی ہے، تم ان کو برابر کا شریک تسلیم کر سکتے ہو جس طرح مشترک اموال و جائیداد میں اپنے بھائی بند حصہ دار ہوتے ہیں اور ہر وقت کھٹکا رہتا ہے کہ مشترک چیز میں تصرف کرنے پر برہم جائیں یا تقسیم کرنے لگیں یا کم از کم سوال کر بیٹھیں کہ ہماری اجازت اور مرضی کے بدون فلاں کام کیوں کیا۔ کیا ایسا ہی کھٹکا ایک آقا کو اپنے غلام یا نوکر کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر نہیں تو سمجھنا چاہیے کہ جب ایک چھوٹے مالک کا یہ حال ہے تو اس سچے مالک کو اپنے غلام کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ جس کو تم حماقت سے اس کا ساجھی گنتے ہو۔ ایک غلام تو آقا کی ملک میں شریک نہ ہو سکے۔ حالانکہ دونوں خدا کی مخلوق ہیں اور اسی کی دی ہوئی روزی کھاتے ہیں۔ مگر ایک مخلوق بلکہ مخلوق در مخلوق، خالق کی خدائی میں شریک ہو جائے! ایسی مہمل بات کوئی عقلمند قبول نہیں کر سکتا۔

۲۹ ۔۔۔  ۱: یعنی یہ بے انصاف لوگ ایسی صاف و واضح باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ وہ سمجھنا چاہتے ہی نہیں بلکہ جہالت اور ہوا پرستی سے محض اوہام و خواہشات کی پیروی پر تلے ہوئے ہیں۔

۲: یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی بے انصافی جہل اور ہوا پرستی کی بدولت راہ حق پر چلنے اور سمجھنے کی توفیق نہ دی۔ اب کون طاقت ہے جو اسے سمجھا کر راہ حق پر لے آئے یا مدد کر کے گمراہی اور تباہی سے بچا لے لہٰذا ایسوں کی طرف سے زیادہ متحسر اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان سے قطع نظر کر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمہ تن اپنے پروردگار کی طرف توجہ کیجئے۔ اور دین فطرت پر جمے رہیے۔

۳۰ ۔۔۔  ۱: یعنی جو گمراہی سے کسی طرح نکلنا نہیں چاہتا اسے شرک کی دلدل میں پڑا رہنے دو اور تم ہر طرف سے منہ موڑ کر ایک خدا کے ہو رہو۔ اور اس کے سچے دین کو بڑی توجہ اور یک جہتی سے تھامے رکھو۔

۲: اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے اور بدء فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخم ہدایت کے ڈال دی ہے کہ اگر گردو پیش کے احوال اور ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی بیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دین حق کو اختیار کرے کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔"عہد الست" کے قصہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور احادیث صحیحہ میں تصریح ہے کہ ہر بچہ فطرۃً (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے بعدہٗ ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو "حنفاء "پیدا کیا۔ شیاطین نے اغوا کر کے انہیں سیدھے راستہ سے بھٹکا دیا۔ بہرحال دین حق، دین حنیف اور دین قیم وہ ہے کہ اگر انسان کو اس کی فطرت پر مخلی بالطبع چھوڑ دیا جائے تو اپنی طبعیت سے اسی کی طرف جھکے۔ تمام انسانوں کی فطرت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے جس میں کوئی تفاوت اور تبدیلی نہیں۔ فرض کرو اگر فرعون یا ابوجہل کی اصلی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت نہ ہوتی تو ان کو قبول حق کا مکلف بنانا صحیح نہ ہوتا۔ جیسے اینٹ پتھر، یا جانوروں کو شرائع کا مکلف نہیں بنایا۔ فطرت انسانی کی اسی یکسانیت کا یہ اثر ہے کہ دین کے بہت سے اصول مہمہ کو کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً سب انسان تسلیم کرتے ہیں گو ان پر ٹھیک ٹھیک قائم نہیں رہتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی اللہ سب کا مالک حاکم، سب سے نرالا، کوئی اس کے برابر نہیں، کسی کا زور اس پر نہیں، یہ باتیں سب جانتے ہیں۔ اس پر چلنا چاہئے۔ ایسے ہی کسی کے جان و مال کو ستانا، ناموس میں عیب لگانا، ہر کوئی برا جانتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا ہر کوئی اچھا جانتا ہے۔ اس (راستہ) پر چلنا ہی دین سچا ہے (یہ امور فطری تھے مگر) ان کا بندوبست پیغمبروں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے سکھلا دیا۔

۳:   یعنی اصل پیدائش کے اعتبار سے کوئی فرق اور تغیر و تبدل نہیں۔ ہر فرد انسان کی فطرت قبول حق کے لئے مستعد بنائی ہے یا یہ مطلب کہ اللہ نے جس فطرت پر پیدا کیا اس کو تم اپنے اختیار سے بدل کر خراب نہ کرو۔ بیچ تم میں ڈال دیا ہے اسے بے توجہی یا بے تمیزی سے ضائع مت ہونے دو۔

۴: یعنی سیدھا دین یہ ہی فطرت کی آواز ہے۔ پر بہت لوگ اس نکتہ کو سمجھتے نہیں۔

۳۱ ۔۔۔  یعنی اصل دین پکڑے رہو، اس کی طرف رجوع ہو کر۔ اگر محض دنیاوی مصلحت کے واسطے یہ کام کئے تو دین درست نہ ہو گا۔ آگے دین فطرت کے چند اہم اصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مثلاً اتقاء (خدا سے ڈرتے رہنا) نماز قائم رکھنا، شرک جلی و خفی سے بیزار اور مشرکین سے علیحدہ رہنا، اپنے دین میں پھوٹ نہ ڈالنا۔

۳۲ ۔۔۔  یعنی دین فطرت کے اصول سے علیحدہ ہو کر ان لوگوں نے اپنے مذہب میں پھوٹ ڈالی، بہت سے فرقے بن گئے۔ ہر ایک کا عقیدہ الگ مذہب و مشرب جدا، جس کسی نے غلط کار یا ہوا پرستی سے کوئی عقیدہ قائم کر دیا یا کوئی طریقہ ایجاد کر لیا، ایک جماعت اسی کے پیچھے ہو گئی، تھوڑے دن بعد وہ ایک فرقہ بن گیا۔ پھر ہر فرقہ اپنے ٹھہرائے ہوئے اصول و عقائد پر خواہ وہ کتنے ہی مہمل کیوں نہ ہوں ایسا فریفتہ اور مفتون ہے کہ اپنی غلطی کا امکان بھی اس کے تصور میں نہیں آتا۔

۳۴ ۔۔۔  یعنی جیسے بھلے کام ہر انسان کی فطرت پہچانتی ہے۔ اللہ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر ایک کی فطرت جانتی ہے۔ چنانچہ خوف اور سختی کے وقت اس کا اظہار ہو جاتا ہے۔ بڑے سے بڑا سرکش مصیبت میں گھر کر خدائے واحد کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت جھوٹے سہارے سب ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ وہ ہی سچا مالک یاد رہ جاتا ہے جس کی طرف فطرت انسانی راہنمائی کرتی تھی۔ مگر افسوس کہ انسان اس حالت پر دیر تک قائم نہیں رہتا۔ جہاں خدا کی مہربانی سے مصیبت دور ہوئی، پھر اس کو چھوڑ کر جھوٹے دیوتاؤں کے بھجن گانے لگا۔گویا اس کے پاس سب کچھ ان ہی کا دیا ہوا ہے! خدا نے کچھ نہیں دیا! (العیاذ باللہ) اچھا چند روز مزے اڑا لے، آگے چل کر معلوم ہو جائے گا کہ اس کفر اور ناشکری کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اگر آدمیت ہوتی تو سمجھتا کہ اس کا ضمیر جس خدا کو سختی اور مصیبت کے وقت پکار رہا تھا وہ ہی اس لائق ہے کہ ہمہ وقت یاد رکھا جائے۔

۳۵ ۔۔۔  یعنی عقل سلیم اور فطرت انسانی کی شہادت شرک کو صاف طور پر رد کرتی ہے تو کیا اس کے خلاف وہ کوئی حجت اور سند رکھتے ہیں، جو بتلاتی ہو کہ خدا کی خدائی میں دوسرے بھی اس کے شریک ہیں (معاذاللہ) اگر نہیں تو انہیں معبود بننے کا استحقاق کہاں سے ہوا۔

۳۶ ۔۔۔  یعنی ان لوگوں کی حالت عجیب ہے۔ جب اللہ کی مہربانی اور احسان سے عیش میں ہوں تو پھولے نہ سمائیں ایسے اترانے لگیں اور آپے سے باہر ہو جائیں کہ محسن حقیقی کو بھی یاد نہ رکھیں۔ اور کسی وقت شامت اعمال کی بدولت مصیبت کا کوڑا پڑا تو بالکل آس توڑ کر اور نا امید ہو کر بیٹھ رہیں۔گویا اب کوئی نہیں جو مصیبت کے دور کرنے پر قادر ہو۔ مومن کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ عیش و راحت میں منعم حقیقی کو یاد رکھتا ہے۔ اس کے فضل و رحمت پر خوش ہو کر زبان و دل سے شکر ادا کرتا ہے اور مصیبت میں پھنس جائے تو صبر و تحمل کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ اور امید رکھتا ہے کہ کتنی ہی سخت مصیبت ہو اور ظاہری اسباب کتنے ہی مخالف ہوں اس کے فضل سے سب فضا بدل جائے گی۔ (تنبیہ) ایک آیت پہلے فرمایا تھا کہ " لوگ سختی کے وقت خالص خدا کو پکارنے لگتے ہیں۔" یہاں فرمایا کہ "برائی پہنچتی ہے تو آس توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں۔" دونوں میں کچھ اختلاف نہیں۔ پہلی حالت یعنی خدا کو پکارنا، ابتدائی منزل ہے۔ پھر جب مصیبت اور سختی میں امتداد ہوتا ہے تو آخر گھبرا کر ناامید ہو جاتا ہے یا بعض لوگوں کا وہ حال ہو بعض کا یہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۳۷ ۔۔۔  یعنی ایمان و یقین والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سختی نرمی اور روزی کا بڑھانا گھٹانا سب اسی رب قدیر کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا جو حال آئے بندہ کو صبر و شکر سے رضا بقضا رہنا چاہئے۔ نعمت کے وقت شکر گزار رہے، اور ڈرتا رہے کہیں چھن نہ جائے اور سختی کے وقت صبر کرے اور امید رکھے کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و عنایت سے سختیوں کو دور فرما دے گا۔

۳۸ ۔۔۔   یعنی جب فطرت کی شہادت سے ثابت ہو گیا کہ حقیقی مالک و رب وہ ہی اللہ ہے۔ دنیا کی نعمتیں سب اسی کی عطا کی ہوئی ہیں۔ تو جو لوگ اس کے دئیے ہوئے میں سے خرچ کریں۔ مسافر، محتاج اور غریب رشتہ داروں کی خبر لیں، اہل قرابت کے حقوق درجہ بدرجہ ادا کرتے رہیں۔ ایسے ہی بندوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو گی۔

۳۹ ۔۔۔    یعنی سود بیاج سے گو بظاہر مال بڑھتا دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں گھٹ رہا ہے جیسے کسی آدمی کا بدن ورم سے پھول جائے وہ بیماری یا پیام موت ہے اور زکوٰۃ نکالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کم ہو گا فی الحقیقت وہ بڑھتا ہے جیسے کسی مریض کا بدن مسہل و تنقیہ سے گھٹتا دکھائی دے مگر انجام اس کا صحت ہو۔ سود اور زکوٰۃ کا حال بھی انجام کے اعتبار سے ایسا ہی سمجھ لو۔"یمحق اللہ الربوٰا ویربی الصدقات "(بقرہ ۔ رکوع۳۸) حدیث میں ہے کہ ایک کھجور جو مومن صدقہ کرے قیامت کے دن بڑھ کر پہاڑ کے برابر نظر آئے گی۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے "ربا" سے یہاں سود بیاج مراد نہیں لیا۔ بلکہ آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو آدمی کسی کو کچھ دے اس غرض سے کہ دوسرا اس سے بڑھ کر احسان کا بدلہ کرے گا تو یہ دینا اللہ کے ہاں موجب برکت ثواب نہیں۔گو مباح ہو۔ اور پیغمبر علیہ السلام کے حق میں تو مباح بھی نہیں۔ کقولہ تعالیٰ۔ "ولا تمنن تستکثر " (مدثر ۔ رکوع۱) واللہ اعلم۔

۴۰ ۔۔۔  یعنی مارنا جلانا، روزی دینا، سب کام تو تنہا اس کے قبضہ میں ہوئے۔ پھر دوسرے شریک کدھر سے آ کر الوہیت کے مستحق بن گئے۔

۴۱ ۔۔۔  یعنی لوگ دین فطرت پر قائم نہ رہے کفر و ظلم دنیا میں پھیل پڑا اور اس کی شامت سے ملکوں اور جزیروں میں خرابی پھیل گئی۔ نہ خشکی میں امن و سکون رہا نہ تری میں، روئے زمین کو فتنہ و فساد نے گھیر لیا بحری لڑائیوں اور جہازوں کی لوٹ مار سے سمندروں میں بھی طوفان بپا ہو گیا۔ یہ سب اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ بندوں کی بد اعمالیوں کا تھوڑا سا مزہ دنیا میں بھی چکھا دیا جائے پوری سزا تو آخرت میں ملے گی۔ مگر کچھ نمونہ یہاں بھی دکھلا دیں، ممکن ہے بعض لوگ ڈر کر راہ راست پر آ جائیں۔ (تنبیہ) بندوں کی بدکاریوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں خرابی پھیلنا گو ہمیشہ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن جس خوفناک عموم و شمول کے ساتھ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے یہ تاریک گھٹا مشرق و مغرب اور برو بحر پر چھا گئی تھی، دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یورپ کے محقیقن نے اس زمانہ کی تاریک حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم مورخ بھی اس مشہور و معروف صداقت پر کوئی حرف گیری نہیں کر سکے (دیکھو دائرۃ المعارف فرید وجدی مادہ حمد) شاید اسی عموم فتنہ و فساد کو پیش نظر رکھ کر قتادہ رحمۃ اللہ نے آیت کا محمل زمانہ جاہلیت کو قرار دیا ہے۔

۴۲ ۔۔۔  یعنی اکثروں کی شامت شرک کی وجہ سے آئی۔ بعضوں پر دوسرے گناہوں کی وجہ سے آئی ہو گی۔

۴۳ ۔۔۔  ۱: یعنی دنیا میں فساد پھیل گیا تو تم دین قیم پر جو دین فطرت ہے ٹھیک ٹھیک قائم رہو۔ سب خرابیوں کا ایک یہ ہی علاج ہے۔

۲: یعنی اللہ کی طرف سے اس دن کا آنا اٹل ہے نہ کوئی طاقت اسے پھیر سکتی ہے نہ خود اللہ ملتوی کرے گا۔

۳: یعنی نیک جنت میں اور بد دوزخ میں بھیج دیے جائینگے۔"فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر" (شوریٰ ۔ رکوع۱) حضرت شاہ صاحب اس کو دنیا کے احوال پر حمل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔" یعنی دین کا غلبہ ہو، سزا پانے والے الگ ہوں اور اللہ کے مقبول بندے الگ۔"

۴۴ ۔۔۔    ۱: یعنی انکار کا وبال اسی پر پڑے گا۔

۲: یعنی جنت میں آرام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

۴۵ ۔۔۔  ۱: یعنی کتنا ہی بڑا نیک ہو اسے بھی اللہ کے فضل سے جنت ملے گی۔

۲: جو اس سچے مالک کو نہ بھائے اس کا کہاں ٹھکانا۔

۴۶ ۔۔۔   ۱: یعنی باران رحمت کی خوشخبری لاتی ہیں پھر خدا کی مہربانی سے مینہ برستا ہے

۲:  یعنی بادبانی جہاز اور کشتیاں ہوا سے چلتی ہیں اور دخانی اسٹیمروں کی رفتار میں بھی باد موافق مدد دیتی ہے۔

۳:  یعنی جہازوں کے ذریعہ سے تجارتی مال سمندر پار منتقل کر سکو۔ اور اللہ کے فضل سے خوب نفع کماؤ۔ پھر ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرتے رہو۔

(تنبیہ) پہلے خشکی تری میں فساد پھیلنے کا ذکر تھا اس کے مقابل یہاں بشارت و نعمت الٰہی کا تذکرہ ہوا۔ شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ آندھی اور غبار پھیل جانے کے بعد امید رکھو کہ باران رحمت آیا چاہتی ہے۔ٹھنڈی ہوائیں چل پڑی ہیں جو رحمت و فضل کی خوشخبری سنا رہی ہیں کافروں کو چاہیے کہ شرارت اور کفران نعمت سے باز آ جائیں اور خدا کی مہربانیوں کو دیکھ کر شکر گزار بندے بنیں۔

۴۷ ۔۔۔   پہلے فرمایا تھا کہ مقبول اور مردود جدا کر دیے جائیں گے منکروں پر ان کے انکار کا وبال پڑے گا۔ وہ اللہ کو اچھے نہیں لگتے۔ اب بتلاتے ہیں کہ اس کا اظہار دنیا ہی میں ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ کی عادت اور وعدہ ہے کہ مجرمین و مکذبین سے انتقام لے اور مومنین کاملین کو اپنی امداد و اعانت سے دشمنوں پر غالب کرے۔ بیچ میں ہوا کا ذکر اس واسطے آیا کہ جیسے باران رحمت کے نزول سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں اسی طرح دین کے غلبہ کی نشانیاں روشن ہوتی جاتی ہیں۔

۴۸ ۔۔۔  ۱: یعنی پہلے کسی طرف، پیچھے کسی طرف، اسی طرح دین بھی پھیلائے گا۔ چنانچہ پھیلا دیا۔

۲: اسی طرح جو ایمانی اور روحانی بارش سے منتفع ہوں گے وہ خوشیاں منائیں گے۔

۴۹ ۔۔۔  یعنی پہلے سے لوگ نا امید ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ بارش آنے سے ذرا پہلے تک بھی امید نہ تھی کہ مینہ برس کر ایسی جگ پر لو ہو جائیگی۔ انسان کا حال بھی عجیب ہے۔ذرا دیر میں نا امید ہو کر بیٹھ جاتا ہے پھر ذرا سی دیر میں خوشی سے کھل پڑتا ہے۔

۵۰ ۔۔۔   ۱: یعنی چند گھنٹے پہلے ہر طرف خاک اڑ رہی تھی اور زمین خشک، بے رونق اور مردہ پڑی تھی ناگہاں اللہ کی مہربانی سے زندہ ہو کر لہلہانے لگی۔ بارش نے اس کی پوشیدہ قوتوں کو کتنی جلد ابھار دیا۔ یہ ہی حال روحانی بارش کا سمجھو، اس سے مردہ دلوں میں جان پڑیگی اور خدا کی زمین " ظہر الفساد فی البر و البحر" والی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائیگی۔ ہر طرف رحمت الٰہی کے نشان اور دین کے آثار نظر آئینگے جو قابلیتیں مدت سے مٹی میں مل رہی تھیں، باران رحمت کا ایک چھینٹا ان کو ابھار کر نمایاں کر دے گا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے بعثت محمدی کے ذریعہ سے یہ جلوہ دنیا کو دکھلا دیا۔ ہمارے صوبہ کے شاعر حکیم نے کیا خوب کہا ہے۔

ہے یہ وہ نام خاک کو پاک کرے نکھار کر۔

 ہے یہ وہ نام خار کو پھول کرے سنوار کر۔

 ہے یہ وہ نام ارض کو کر دے سما ابھار کر۔

 اکبر اسی کو ورد تو صدق سے بے شمار کر۔

صل علی محمد صل علی محمد۔

۲:  یعنی یہاں مردہ دلوں کو روحانی زندگی عطا فرمائے گا اور قیامت کے دن مردہ لاشوں میں دوبارہ جان ڈالے گا۔ اس کی قدرت کا ملہ کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں۔

۵۱ ۔۔۔  یعنی پہلے نا امید تھے، بارش آئی، زمین جی اٹھی، خوشیاں منانے لگے۔ اب اگر اس کے بعد ہم ایک ہوا چلا دیں جس سے کھیتیاں خشک ہو کر زرد پڑ جائیں تو یہ لوگ فوراً پھر بدل جائیں گے اور اللہ کے سب احسان فراموش کر کے ناشکری شروع کر دیں۔غرض ان کا شکر اور ناشکری سب دنیاوی اغراض کے تابع ہیں اور یہاں اس پر فرمایا کہ اللہ کی مہربانی سے مراد پا کر بندہ نڈر نہ ہو جائے۔ اس کی قدرت رنگا رنگ ہے۔ معلوم نہیں دی ہوئی نعمت کب سلب کر لے۔ اور شاید ادھر بھی اشارہ ہو کر دین کی کھیتی دنیا میں سرسبز و شاداب ہونے کے بعد پھر باد مخالف کے جھونکوں سے مرجھا کر زرد پڑ جائیگی۔ اس وقت مایوس ہو کر ہمت ہارنی نہیں چاہئے۔

۵۳ ۔۔۔   یعنی اللہ کو سب قدرت ہے، مردہ کو زندہ کر دے، تم کو یہ قدرت نہیں کہ مردوں سے اپنی بات منوا سکو یا بہروں کو سنا دو۔ یا اندھوں کو دکھلا دو۔ خصوصاً  جب وہ سننے اور دیکھنے کا ارادہ بھی نہ کریں۔ پس آپ ان کے کفر و نا سپاسی سے ملول و غمگین نہ ہوں۔ آپ صرف دعوت و تبلیغ کے ذمہ دار ہیں کوئی بد بخت نہ مانے تو آپ کا کیا نقصان ہے آپ کی بات وہ ہی سنیں گے جو ہماری باتوں پر یقین کر کے تسلیم و انقیاد کی خو اختیار کرتے ہیں۔

(تنبیہ) اسی قسم کی آیت سورہ"نمل " کے آخر میں گزر چکی، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ مفسرین نے اس موقع پر " سماع موتیٰ" کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد سے اختلاف چلا آتا ہے اور دونوں جانب سے نصوص قرآن و حدیث پیش کی گئی ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھ لو کہ یوں تو دنیا میں کوئی کام اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں ہو سکتا مگر آدمی جو کام اسباب عادیہ کے دائرہ میں رہ کر با اختیار خود کرے وہ ا سکی طرف منسوب ہوتا ہے اور جو عام عادت کے خلاف غیر معمولی طریقہ سے ہو جائے اسے براہ راست حق تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ مثلاً کسی نے گولی مار کر کسی کو ہلاک کر دیا یہ اس قاتل کا فعل کہلائے گا اور فرض کیجئے ایک مٹھی کنکریاں پھینکیں جس سے لشکر تباہ ہو گیا، اسے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے تباہ کر دیا باوجودیکہ گولی سے ہلاک کرنا بھی اسی کی قدرت کا کام ہے۔ ورنہ اس کی مشیت کے بدون گولی یا گولا کچھ بھی اثر نہیں کر سکتا۔قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا"فلم تقتلو ہم و لکن اللہ قتلہم و مارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی "(انفال ۔ رکوع۲) یہاں خارق عادت ہونے کی وجہ سے پیغمبر اور مسلمانوں سے " قتل"و"رمی" کی نفی کر کے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی گئی۔ٹھیک اسی طرح" انک لا تسمع الموتیٰ" کا مطلب سمجھو۔ یعنی تم یہ نہیں کر سکتے کہ بولو اور اپنی آواز مردے کو سنا دو۔ کیونکہ یہ چیز ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہے۔ البتہ حق تعالیٰ کی قدرت سے ظاہری اسباب کے خلاف تمہاری کوئی بات مردہ سن لے اس کا انکار کوئی مومن نہیں کر سکتا۔ اب نصوص سے جن باتوں کا اس غیر معمولی طریقہ سے سننا ثابت ہو جائے گا اسی حد تک ہم کو سماع موتیٰ کا قائل ہونا چاہئے۔ محض قیاس کر کے دوسری باتوں کو سماع کے تحت میں نہیں لا سکتے۔ بہرحال آیت میں " اسماع " کی نفی سے مطلقاً سماع کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔

۵۴ ۔۔۔  یعنی بچہ شروع میں پیدائش کے وقت بیحد کمزور ناتواں ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ قوت آنے لگتی ہے حتیٰ کہ جوانی کے وقت اس کا زور انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور تمام قوتیں شباب پر ہوتی ہیں، پھر عمر ڈھلنے لگتی ہے اور زور قوت کے پیچھے کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ جس کی آخری حد بڑھاپا ہے۔ اس وقت تمام اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے اور قوی معطل ہونے لگتے ہیں۔قوت و ضعف کا یہ سب اتار چڑھاؤ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہے جس چیز کو بنائے۔ اور قوت و ضعف کے مختلف ادوار میں سے گزارے۔ اسی کو قدرت حاصل ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس چیز کو کس وقت تک کن حالات میں رکھنا مناسب ہے۔ لہٰذا اسی خدا کی اور اس کے پیغمبروں کی باتیں ہمیں سننی چاہئیں۔شاید اس میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ جس طرح تم کو کمزوری کے بعد زور دیا، مسلمانوں کو بھی ضعف کے بعد زور پکڑے گا اور اپنے شباب و عروج کو پہنچے گا۔ ا سکے بعد پھر ہو سکتا ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں کے ضعف کا آئے، سو یاد رکھنا چاہیے کہ خدائے قادر و توانا ہر وقت ضعف کو قوت سے تبدیل کر سکتا ہے۔ ہاں ایسا کرنے کی خاص صورتیں اور اسباب ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۵۵ ۔۔۔  ۱: یعنی قبر میں یا دنیا میں رہنا تھوڑا معلوم ہو گا جب مصیبت سر پر کھڑی نظر آئے گی کہیں گے کہ افسوس بڑی جلدی دنیا کی اور برزخ کی زندگی ختم ہو گئی۔ کچھ بھی مہلت نہ ملی جو ذرا سی دیر اور اس عذاب الیم سے بچے رہتے۔ یا دنیا میں کچھ زیادہ مدت ٹھہرنے کا موقع ملتا تو اس دن کے لئے تیاری کرتے یہ تو ایک دم مصیبت کی گھڑی سامنے آ گئی۔

۲:  یعنی جیسے اس وقت یہ کہنا جھوٹ اور غلط ہو گا اسی طرح سمجھ لو کہ دنیا میں بھی یہ لوگ غلط خیالات جماتے اور الٹی باتیں کیا کرتے تھے۔

۵۶ ۔۔۔  یعنی مومنین اور ملائکہ اس وقت ان کی تردید کرینگے کہ تم جھوٹ بکتے ہو یا دھوکہ میں پڑے ہو جو کہتے ہو کہ قبر میں یا دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ ٹھہرنا نہیں ہوا۔ تم ٹھیک اللہ کے علم اور اس کی خبر اور لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق قیامت کے دن تک ٹھہرے، ایک منٹ کی بھی کمی نہیں ہوئی۔ آج عین وعدہ کے موافق وہ دن آ پہنچا۔ اب وہ دیکھ لو جسے تم جانتے اور مانتے نہ تھے۔ اگر پہلے سے اس دن کا یقین کرتے تو تیار ہو کر آتے اور یہاں کی مسرتیں دیکھ کر کہتے کہ اس دن کے آنے میں بہت دیر لگی۔ بڑے انتظار و اشتیاق کے بعد آیا۔ جیسا کہ مومنین سمجھتے ہیں۔

۵۷ ۔۔۔   یعنی نہ کوئی معقول عذر پیش کر سکیں گے جو کام آئے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ اچھا اب توبہ اور اطاعت سے اپنے پروردگار کو راضی کر لو، کیونکہ اس کا وقت گزر چکا اب تو ہمیشہ کی سزا بھگتنے کے سوا چارہ نہیں۔

۵۸ ۔۔۔    یعنی اس وقت پچھتائیں گے اور آج خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ہے قرآن کریم کیسی عجیب مثالیں اور دلیلیں بیان کر کے طرح طرح سے ان کو سمجھاتا ہے، پر ان کی سجھ میں کوئی بات نہیں آتی، کیسی ہی آیتیں پڑھ کر سنائیے یا صاف سے صاف معجزے دکھلائیے وہ سن کر اور دیکھ کر یہ ہی کہہ دیتے ہیں کہ تم (پیغمبر اور مسلمان) سب مل کر جھوٹ بنا لائے ہو۔ ایک نے چند آیتیں بنا لیں دوسروں نے تصدیق کر دی۔ ایک نے جادو دکھلایا دوسرے اس پر ایمان لانے کو تیار ہو گئے۔ اس طرح ملی بھگت کر کے اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہو۔

۵۹ ۔۔۔  یعنی جو آدمی نہ سمجھے، نہ سمجھنے کی کوشش کرے اور ضد و عناد سے ہر بات کا انکار کرتا رہے اور اسی طرح شدہ شدہ اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور آخرکار ضد و عناد سے دل اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ قبول حق کی استعداد بھی ضائع کر بیٹھتا ہے۔ العیاذ باللہ !

۶۰ ۔۔۔   یعنی جب ان بد بختوں کا حال ضد و عناد کے اس درجہ پر پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی شرارتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ بلکہ پیغمبرانہ صبر و تحمل کے ساتھ اپنے دعوت و اصلاح کے کام میں لگے رہیں۔ اللہ نے جو آپ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے یقیناً پورا کر کے رہے گا۔ اس میں رتی برابر تفاوت و تخلف نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنے کام پر جمے رہیے۔ یہ بد عقیدہ اور بے یقین لوگ آپ کو ذرا بھی آپ کے مقام سے جنبش نہ دے سکیں گے۔ تم سورۃ الروم وللہ الحمد والمنہ۔