سورہ احزاب مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی تہتر آیتیں ہیں اور نو رکوع
۳ ۔۔۔ یعنی جیسے اب تک معمول رہا ہے آئندہ بھی ہمیشہ ایک اللہ سے ڈرتے رہئے اور کافروں اور منافقوں کا کبھی کہا نہ مانیے۔ یہ سب مل کر خواہ کتنا ہی بڑا جتھا بنا لیں، سازشیں کریں، جھوٹے مطالبات منوانا چاہیں عیارانہ مشورے دیں، اپنی طرف جھکانا چاہیں، آپ اصلاً پروا نہ کیجئے اور خدا کے سوا کسی کا ڈر پاس نہ آنے دیجئے۔ اسی اکیلے پروردگار کی بات مانیے اسی کے آگے جھکیے خواہ ساری مخلوق اکٹھی ہو کر آ جائے اس کے خلاف ہرگز کسی کی بات نہ سنیں۔ اللہ تعالیٰ سب احوال کا جاننے والا ہے۔ وہ جس وقت جو حکم دے گا نہایت حکمت اور خبرداری سے دے گا۔ اسی میں تمہاری اصلی بہتری ہو گی۔ جب اس کے حکم پر چلتے رہو گے اور اسی پر بھروسہ رکھو گے تمہارے سب کام اپنی قدرت سے بنا دے گا۔ تنہا اسی کی ذات بھروسہ کرنے کے لائق ہے۔ جو سارے دل سے اس کا ہو رہا دوسری طرف دل نہیں لگا سکتا۔ دوسرا دل ہو تو دوسری طرف جائے لیکن سینہ میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "کافر چاہتے تھے اپنی طرف نرم کرنا اور منافق چاہتے تھے اپنی چال سکھانا اور پیغمبر کو صرف اللہ پر بھروسہ ہے۔ اس سے زیادہ دانا کون۔"
۴ ۔۔۔ یعنی جس طرح ایک آدمی کے سینہ میں دو دل نہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کی حقیقۃً دو مائیں یا ایک بیٹے کے دو باپ نہیں ہوتے۔ جاہلیت کے زمانہ میں کوئی بیوی کو ماں کہہ دیتا تو ساری عمر کے لئے اس سے جدا ہو جاتی۔ گویا اس لفظ سے وہ حقیقی ماں بن گئی۔ اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تو سچ مچ بیٹا سمجھا جاتا تھا اور سب احکام اس پر بیٹے کے جاری ہوتے تھے۔قرآن کریم نے اس لفظی و مصنوعی تعلق کو حقیقی اور قدرتی تعلق سے جدا کرنے کے لئے ان رسوم و مفروضات کی بڑی شد و مد سے تردید فرمائی۔ اس نے بتلایا کہ بیوی کو ماں کہہ دینے سے اگر واقعی وہ ماں بن جاتی ہے تو کیا یہ دو ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے؟ ایک وہ جس نے اول جنا تھا، اور دوسری یہ جس کو ماں کہہ کر پکارتا ہے۔ اسی طرح کسی نے زید کو بیٹا بنا لیا تو ایک باپ تو اس کا پہلے سے موجود تھا جس کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے۔ کیا واقعی اب یہ ماننا چاہیے کہ یہ دو باپوں سے الگ الگ پیدا ہوا ہے۔ جب ایسا نہیں تو حقیقی ماں باپ اور اولاد کے احکام ان پر جاری نہیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ بیوی کو ماں کہنے کا حکم سورۃ تحریم میں آئے گا۔ اور لے پالک (منہ بولے بیٹے) کا حکم آگے بیان ہوتا ہے۔ ان دو باتوں کے ساتھ تیسری بات (بطور تمہید و تشریح کے) یہ بھی سنا دی کہ ایسی باتیں زبان سے کہنے کی بہتیری ہیں جن کی حقیقت واقع میں وہ نہیں ہوتی جو الفاظ میں ادا کی جاتی ہے جیسے کسی غیر مستقل مزاج یا دوغلے آدمی کو یا کسی قوی الحفظ اور قوی القلب یا ایسے شخص کو جو ایک وقت میں دو مختلف چیزوں کی طرف متوجہ ہو کہہ دیتے ہیں کہ اس کے دو دل ہیں، حالانکہ سینہ چیر کر دیکھا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا۔ اسی طرح ماں کے علاوہ کسی کو ماں یا باپ کے سوا کسی کو باپ یا بیٹے کے سوا کسی کو بیٹا کہہ دینے سے واقع میں وہ نسبت ثابت نہیں ہو جاتی جو بدون ہمارے زبان سے کہے قدرت نے قائم کر دی ہے۔ لہٰذا مصنوعی اور حقیقی تعلقات میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
۵ ۔۔۔ ۱: یعنی ٹھیک انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر شخص کی نسبت اس کے حقیقی باپ کی طرف کی جائے کسی نے "لے پالک" بنا لیا تو وہ واقعی باپ نہیں بن گیا یوں شفقت و محبت سے کوئی کسی کو مجازاً بیٹا یا باپ کہہ کر پکار لے وہ دوسری بات ہے۔ غرض یہ ہے کہ نسبی تعلقات اور ان کے احکام میں اشتباہ و التباس واقع نہ ہونے پائے۔ ابتدائے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زید بن حارثہ کو آزاد کر کے متبنّیٰ کر لیا تھا۔ چنانچہ دستور کے موافق لوگ انہیں زید بن محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ کر پکارنے لگے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی سب زید بن حارثہ کہنے لگے۔
۲: یعنی اگر باپ معلوم نہ ہو تو بہرحال تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ان ہی القاب سے یاد کرو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زید بن حارثہ کو فرمایا۔ "انـــت اخوانا ومولانا۔"
۳: یعنی بھول کر یا دانستہ اگر غلط کہہ دیا کہ فلاں کا بیٹا فلاں، وہ معاف ہے بھول چوک کا گناہ کسی چیز میں نہیں، ہاں ارادہ کا ہے۔ اس میں بھی اللہ چاہے تو بخش دے۔
۶ ۔۔۔ ۱: مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتا ہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلواۃ والسلام ہوئے۔ بنا بریں مومن (من حیث ھو مومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لئے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور ــــ اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہو گا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں " انما انا لکم بمنزلۃ الوالد الخ۔" اور ابی بن کعب وغیرہ کی قرآت میں آیت "النبی اولی بالمومنین الخ کے ساتھ وھو اب لھم "کا جملہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ باپ بیٹے کے تعلق میں غور کرو تو اس کا حاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن نبی اور امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقیناً امتی کا ایمان و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا ایک پر تو اور ظل ہوتا ہے اور شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی حکم دے دے تو فرض ہو جائے۔" ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا کہ تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
۲: یعنی دینی مائیں ہیں تعظیم و احترام میں اور بعض احکام میں جو ان کے لئے شریعت سے ثابت ہوں۔ کل احکام میں نہیں۔
۳: حضرت کے ساتھ جنہوں نے وطن چھوڑا، بھائی بندوں سے ٹوٹے، آپ نے ان مہاجرین اور انصار مدینہ میں سے دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بنا دیا تھا۔ بعدہٗ مہاجرین کے دوسرے قرابتدار مسلمان ہو گئے تب فرمایا کہ قدرتی رشتہ ناطہ اس بھائی چارہ سے مقدم ہے میراث وغیرہ رشتہ ناطے کے موافق تقسیم ہو گی۔ ہاں سلوک احسان ان رفیقوں سے بھی کئے جاؤ۔
۴: یعنی قرآن میں یہ حکم ہمیشہ کو جاری رہا۔ یا تورات میں بھی ہو گا یا "کتاب" سے "لوح محفوظ" مراد ہو۔
۷ ۔۔۔ یعنی یہ قول و قرار کہ ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرے گا۔ اور دین کے قائم کرنے اور حق تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے گا۔ "آل عمران" میں اس میثاق کا ذکر ہو چکا ہے۔" حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " اوپر پیغمبر کے حق میں فرمایا تھا کہ مومنین پر ان کی جان سے زیادہ تصرف رکھتا ہے، یہاں اشارہ کر دیا کہ یہ درجہ نبیوں کو اس لئے ملا کہ ان پر محنت (اور ذمہ داری بھی) سب سے زیادہ ہے۔ اکیلے ساری خلق سے مقابل ہونا اور کسی سے خوف و رجاء نہ رکھنا۔" پیغمبروں کے سوا کس کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ پانچ پیغمبر جن کے نام یہاں خصوصیت سے لئے اولوالعزم پیغمبر کہلاتے ہیں۔ ان کی ہدایت کا اثر ہزاروں برس رہا اور جب تک دنیا ہے رہے گا۔ ان میں پہلے نام لیا ہمارے نبی کا حالانکہ عالم شہادت میں آپ کا ظہور سب کے بعد ہوا ہے۔ مگر درجہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے پہلے ہیں، اور وجود بھی آپ کا عالم غیب میں سب سے مقدم ہے۔ کما ثبت فی الحدیث۔
۸ ۔۔۔ یعنی قول و قرار کے مطابق ان پیغمبروں کی زبانی اپنے احکام خلق کو پہنچائے اور حجت تمام کر دے تب ہر ایک سے پوچھ پاچھ کرے گا، تاکہ سچوں کا سچائی پر قائم رہنا ظاہر ہو اور منکروں کو سچائی سے انکار کرنے پر سزا دی جائے۔ آگے جنگ احزاب کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے سچے پیغمبر اور مومنین اور ان کے ظاہری ثمرات و نتائج ذکر کیے ہیں۔
۹ ۔۔۔ ۱: یعنی فرشتوں کی فوجیں جو کفار کے دلوں میں رعب ڈال رہی تھیں۔
۲: ہجرت کے چوتھے پانچویں سال یہود بنی نضیر جو مدینہ سے نکالے گئے تھے (اس کا ذکر سورہ "حشر" میں آئے گا) ہر قوم میں پھرے۔ اور ابھار اکسا کر قریش مکہ، بنی فزارہ اور غطفان وغیرہ قبائل عرب کی متحدہ طاقت کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہو گئے۔ تقریباً بارہ ہزار کا لشکر جرار پورے سازو سامان سے آراستہ اور طاقت کے نشہ میں چور تھا، یہود "بنی قریظہ" جن کا ایک مضبوط قلعہ مدینہ کی شرقی جانب تھا پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ نضیری یہود کی ترغیب و ترہیب سے آخرکار وہ بھی معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر حملہ آوروں کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے۔ مسلمانوں کی جمعیت کل تین ہزار تھی۔ جن میں ایک بڑی تعداد ان دغاباز منافقوں کی تھی جو سختی کا وقت آنے پر جھوٹے حیلے بہانے کر کے میدان جنگ سے کھسکنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ آخر حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے شہر کے گرد جدھر سے حملہ کا اندیشہ تھا خندق کھودی گئی۔ سخت جاڑے کا موسم تھا غلہ کی گرانی تھی بھوک کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔ مگر عشق الٰہی کے نشہ میں سرشار سپاہی اور ان کے سالار اعظم اس سنگلاخ زمین کی کھدائی میں حیرت انگیز قوت اور ہمت مردانہ کے ساتھ مشغول تھے۔ مجاہدین پتھریلی زمین پر کدال مارتے، اور کہتے
"نحن الذین با یعوا محمدا علی الجھاد ما بقینا ابدا۔"
ادھر سرکار محمدی سے جواب ملتا۔
"اللھم لا عیش الاعیش الاخیرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ"
خندق تیار ہو گئی تو اسلامی لشکر نے دشمن کے مقابل مورچے جما دیے۔ تقریباً بیس پچیس روز تک دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی رہیں۔ درمیان میں خندق حائل تھی۔ باوجود کثرت تعداد کے کفار سے بن نہ پڑا کہ شہر پر عام حملہ کر دیتے۔ البتہ دور سے تیر اندازی ہوتی رہی اور گاہ بگاہ فریقین کے خاص خاص افراد میدان مبارزت میں بھی دو دو ہاتھ دکھانے لگتے تھے۔ مشرکین اور یہود بنی قریظہ کے درمیان مسلمانوں کی جمعیت محصورین کی حیثیت رکتی تھی تاہم انہوں نے سب عورتوں بچوں کو شہر کی مضبوط و محفوظ حویلیوں میں پہنچا کر خود بڑی پا مردی اور استقامت کے ساتھ شہر کی حفاظت و مدافعت کا فرض انجام دیا۔ آخرکار نعیم ابن مسعود الاشجعی کی ایک عاقلانہ اور لطیف تدبیر سے مشرکین اور یہود بنی قریظہ میں پھوٹ پڑ گئی، ادھر کفار کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کا غیر مرئی لشکر مرعوب کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات سخت خوفناک جھکڑ ہوا کا چلا دیا۔ پروا ہوا سے ریت اور سنگریزے اڑ کر کفار کے منہ پر لگتے تھے۔ ان کے چولھے بجھ گئے، دیگچے زمین پر جا پڑے، کھانے پکانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ہوا کے زور سے خیمے اکھڑ گئے گھوڑے چھوٹ کر بھاگ گئے لشکر پریشان ہو گیا، سردی اور اندھیری ناقابل برداشت بن گئی۔ آخر ابوسفیان نے جن کے ہاتھ میں تمام لشکروں کی اعلیٰ کمان تھی طبل رحیل بجا دیا۔ ناچار سب اٹھ کر بے نیل و مرام واپس چل دیے۔ "وکفی اللہ المومنین القتال و کان اللہ قویاعزیزا۔" یہ جنگ "احزاب " کہلاتی ہے اور اسے "جنگ خندق" بھی کہتے ہیں۔ سخت جاڑے کے موسم اور فاقہ کشی کی حالت میں خندق کھودنا اور اتنے دشمنوں کے بیچ میں گھر کر لڑائی لڑنا یہ وہ حالات تھے جن میں منافق دل کی باتیں بولنے لگے اور مومن ثابت قدم رہے۔ اسی جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب آئندہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھ کر نہ آ سکیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا۔
۱۰ ۔۔۔ ۱: یعنی مدینہ کی شرقی جانب سے جو اونچی ہے اور غربی جانب سے جو نیچی ہے۔
۲: یعنی دہشت و حیرت سے آنکھیں پھرنے لگیں اور لوگوں کے تیور بدلنے لگے۔ دوستی جتانے والے لگے آنکھیں چرانے۔
۳: یعنی خوف و ہراس سے دل دھڑک رہے تھے گویا اپنی جگہ سے اٹھ کر گلے میں آلگے۔
۴: یعنی کوئی کچھ سمجھتا تھا کوئی کچھ اٹکلیں لڑا رہا تھا۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ اس مرتبہ اور سخت آزمائش آئی، دیکھیے کیا صورت پیش آئے۔ کچے ایمان والوں نے خیال کیا کہ بس جی اب کی بار نہیں بچیں گے۔ منافقین کا تو پوچھنا ہی کیا۔ آگے ان کے مقولے آرہے ہیں۔
۱۱ ۔۔۔ حضرت حذیفہ کو آپ نے دشمن کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا۔ اس کا مفصل قصہ حدیث میں پڑھو تو اس جھڑجھڑانے کی کیفیت کا کچھ اندازہ ہو۔ یہاں ترجمہ کی گنجائش نہیں۔
۱۲ ۔۔۔ بعض منافق کہنے لگے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کہتے تھے کہ میرا دین مشرق و مغرب میں پھیلے گا اور فارس، روم، صنعاء کے محلات مجھ کو دیے گئے۔ یہاں تو مسلمان قضائے حاجت کو بھی نہیں نکل سکتے۔ وہ وعدے کہاں ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے اب بھی نا امیدی کے وقت بے ایمانی کی باتیں نہ بولیں۔
۱۳ ۔۔۔ ۱: "یثرب " مدینہ طیبہ کا پرانا نام تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے "مدینۃ النبی "ہو گیا۔
۲: یعنی سارے عرب ہمارے دشمن ہوئے تو ہم کو رہنے کا ٹھکانا کہاں۔ سب لشکر سے جدا ہو کر گھر لوٹ چلو۔ اور حضرت لشکر کے ساتھ باہر کھڑے تھے۔ شہر میں مضبوط حویلیوں کے ناکے بند کر کے زنانے ان میں رکھ دیے تھے۔ یہ بہانہ کرنے لگے کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں کہیں چور گھس کر لوٹ نہ لیں۔ اور یہ محض جھوٹ بات بنائی تھی۔ غرض یہ تھی کہ بہانہ کر کے میدان سے بھاگ جائیں۔ چنانچہ جو اجازت لینے آیا آپ اجازت دیتے رہے کچھ پروا تکثیرِ سواد کی نہ کی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف تین سو نفوس قدسیہ آپ کے ساتھ باقی رہ گئے۔
۱۴ ۔۔۔ یعنی جھوٹے حیلے بنا رہے ہیں۔ اگر فرض کرو یہ لوگ شہر میں ہوں اور کوئی غنیم اِدھر ادھر سے گھس آئے پھر ان سے مطالبہ کرے کہ دین اسلام چھوڑ دو۔ جسے بظاہر یہ لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں، یا کہے کہ مسلمانوں سے لڑو اور فتنے فساد برپا کرو۔ اس وقت ان کا جھوٹ صاف کھل جائے، فوراً ان مطالبات کی تائید میں نکل پڑیں۔ نہ گھروں کے کھلے ہونے کا عذر کریں نہ لٹنے کا۔ بس بات چیت کرنے اور ہتھیار اٹھا کر لانے میں جو تھوڑی دیر لگے گی اسے مستثنیٰ کر کے ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ اسلام کے ظاہری دعوے سے دستبردار ہو کر فوراً فتنہ و فساد کی آگ میں کود پڑیں۔
۱۵ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "جنگ احد کے بعد انہوں نے اقرار کیا تھا کہ پھر ہم ایسی حرکت نہ کریں گے۔" اس کی پوچھ اللہ کی طرف سے ہو گی کہ وہ قول و قرار کہاں گیا۔
۱۶ ۔۔۔ یعنی جس کی قسمت میں موت ہے وہ کہیں بھاگ کر جان نہیں بچا سکتا۔ قضائے الٰہی ہر جگہ پہنچ کر رہے گی اور اگر ابھی موت مقدر نہیں تو میدان سے بھاگنا بےسود ہے۔ کیا میدان جنگ میں سب مارے جاتے ہیں اور فرض کرو بھاگنے سے بچاؤ ہی ہو گیا تو کتنے دن؟ آخر موت آنی ہے اب نہیں چند روز کے بعد آئے گی اور نہ معلوم کس سختی اور ذلت سے آئے۔
۱۷ ۔۔۔ یعنی اللہ کے ارادے کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ نہ کوئی تدبیر اور حیلہ اس کے مقابلہ میں کام دے سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اسی پر توکل کرے اور ہر حالت میں اسی کی مرضی کا طلبگار رہے۔ ورنہ دنیا کی برائی بھلائی یا سختی نرمی تو یقیناً پہنچ کر رہے گی۔ پھر اس کے راستہ میں بزدلی کیوں دکھائے اور وقت پر جان کیوں چرائے جو عاقبت خراب ہو اور دنیا کی تکلیف ہٹ نہ سکے۔ ف ۶ یعنی عرب کی مخالفت سے ڈرتے ہو، اگر اللہ حکم دے تو مسلمان اب تم کو قتل کر ڈالیں۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی ظاہری وضع داری اور دکھاوے کو شرما شرمی کبھی میدان میں آ کھڑے ہوتے ہیں ورنہ عموماً گھروں میں بیٹھے عیش اڑاتے اور اپنی برادری کے لوگوں کو بھی جو سچے مسلمان ہیں جہاد میں آنے سے روکتے رہتے ہیں۔
۱۹ ۔۔۔ ۱: یعنی مسلمانوں کا ساتھ دینے سے دریغ رکھتے ہیں اور ہر قسم کی ہمدردی و بہی خواہی سے بخل ہے۔ ہاں غنیمت کا موقع آئے تو حرص کے مارے چاہیں کہ کسی کو کچھ نہ ملے سارا مال ہم ہی سمیٹ کر لے جائیں۔ اسی احتمال پر لڑائی میں قدرے شرکت بھی کر لیتے ہیں۔
۲: یعنی آڑے وقت رفاقت سے جی چراتے ہیں، ڈر کے مارے جان نکلتی ہے اور فتح کے بعد آ کر باتیں بناتے اور سب سے زیادہ مردانگی جتاتے ہیں اور مال غنیمت پر مارے حرص کے گرے پڑتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق طعن و تشنیع سے زبان درازی کرتے ہیں۔
۳: یعنی جب اللہ و رسول پر ایمان نہیں تو کوئی عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جہاں حبط اعمال کا ذکر ہے تو فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے۔ یعنی بظاہر اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کو دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بھاری معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع کر دے۔ لیکن اس لئے بھاری نہیں رہتی کہ خود عمل ہی کے اندر ایسی خرابی چھپی ہوتی ہے جو کسی طرح اس کو درست نہیں ہونے دیتی۔ جیسے بے ایمان کا عمل کہ ایمان شرط اور روح ہے ہر عمل کی، بدون اس کے عمل مردہ ہے پھر قبول کس طرح ہو۔ کافر کتنی ہی محنت کرے سب اکارت ہے۔
۲۰ ۔۔۔ ۱: یعنی کفار کی فوجیں نا کامیاب واپس جا چکیں لیکن ان ڈرپوک منافقوں کو ان کے چلے جانے کا یقین نہیں آتا۔ اور فرض کیجئے کفار کی فوجیں پھر لوٹ کر حملہ کر دیں تو ان کی تمنا یہ ہو گی کہ اب وہ شہر میں بھی نہ ٹھہریں جب تک لڑائی رہے کسی گاؤں میں رہنے لگیں اور وہیں دور بیٹھے آنے جانے والوں سے پوچھ لیا کریں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ لڑائی کا نقشہ کیسا ہے۔
۲: یعنی باتوں میں تمہاری خیرخواہی جتائیں اور لڑائی میں زیادہ کام نہ دیں۔ محض مجبوری کو برائے نام شرکت کریں۔
۲۱ ۔۔۔ یعنی پیغمبر کو دیکھو، ان سختیوں میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے۔ مگر مجال ہے پائے استقامت ذرا جنبش کھا جائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہیے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت و استقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی پکے مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفر کی فوجیں اکٹھی ہو کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑی ہیں تو بجائے مذبذب یا پریشان ہونے کے ان کی اطاعت شعاری کا جذبہ اور ان کا یقین اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے وعدوں پر اور زیادہ بڑھ گیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو وہ ہی منظر ہے جس کی خبر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے سے دے رکھی تھی اور جس کے متعلق ان کا وعدہ ہو چکا تھا جیسا کہ سورۃ بقرہ میں فرمایا۔ "ام حسبتم ان تد خلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصراللّٰہ الا ان نصر اللّٰہ قریب" (بقرہ۔ رکوع۲۶) اور سورۃ ص میں جو مکیہ ہے فرمایا تھا۔ جند ما ھنالک مھزوم من الاحزاب (ص۔ رکوع۱)
۲۳ ۔۔۔ یعنی منافقین نے جو عہد کیا تھا پچھلے رکوع میں گزر چکا۔ "ولقد کانوا عاھدوا اللّٰہ من قبل لایولون الادبار" اسے توڑ کر بے حیائی کے ساتھ میدان جنگ سے ہٹ گئے۔ ان کے برعکس کتنے پکے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنا عہد و پیمان سچا کر دکھلایا۔ بڑی بڑی سختیوں کے وقت دین کی حمایت اور پیغمبر کی رفاقت سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جو زبان دے چکے تھے، پہاڑ کی طرح اس پر جمے رہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو اپنا ذمہ پورا کر چکے یعنی جہاد ہی میں جان دے دی جیسے شہدائے بدر و احد جن میں سے حضرت انس بن النضر رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت مشہور ہے اور بہت سے مسلمان وہ ہیں جو نہایت اشتیاق کے ساتھ موت فی سبیل اللہ کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب کوئی معرکہ پیش آئے جس میں ہمیں بھی شہادت کا مرتبہ نصیب ہو۔ بہرحال دونوں قسم کے مسلمانوں نے (جو اللہ کی راہ میں جان دے چکے، اور جو مشتاق شہادت ہیں) اپنے عہد و پیمان کی پوری حفاظت کی اور اپنی بات سے ذرہ بھر نہیں بدلے۔
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت طلحہ کو فرمایا ھٰذا ممن قضیٰ نحبہ (یہ ان میں سے ہے جو اپنا ذمہ پورا کر چکے) گویا ان کو اسی زندگی میں شہید قرار دے دیا۔ یہ وہ بزرگ ہیں جو جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ پر تیر روکتے رہے حتیٰ کہ ہاتھ شل ہو کر رہ گیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ۔
۲۴ ۔۔۔ یعنی جو عہد کے پکے اور قول و قرار کے سچے رہے ان کو سچ پر جمے رہنے کا بدلہ ملے اور بد عہد دغا باز منافقوں کو چاہے سزا دے اور چاہے توبہ کی توفیق دے کر معاف فرما دے۔ اس کی مہربانی سے کچھ بعید نہیں۔
۲۵ ۔۔۔ ۱: یعنی کفار کا لشکر ذلت و ناکامی سے پیچ وتاب کھاتا اور غصہ سے دانت پیستا ہوا میدان چھوڑ کر واپس ہوا، نہ فتح ملی نہ کچھ سامان ہاتھ آیا۔ ہاں عمرو بن عبدود جیسا ان کا نامور سوار جسے لوگ ایک ہزار سواروں کے برابر گنتے تھے اس لڑائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے کھیت رہا۔ مشرکین نے درخواست کی کہ دس ہزار لے کر اس کی لاش ہمیں دے دی جائے۔ آپ نے فرمایا وہ تم لے جاؤ، ہم مردوں کا ثمن کھانے والے نہیں۔
۲: یعنی مسلمانوں کو عام لڑائی لڑنے کی نوبت نہ آنے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ہوا کا طوفان اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر وہ اثر پیدا کر دیا کہ کفار از خود سراسیمہ اور پریشان حال ہو کر بھاگ گئے۔ اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے۔
۲۶ ۔۔۔ یہ یہود"بنی قریظہ" ہیں۔ مدینہ کے شرقی جانب ان کا مضبوط قلعہ تھا اور پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ جنگ احزاب کے موقع پر حیی ابن اخطب کے اغواء سے تمام معاہدات بالائے طاق رکھ کر مشرکین کی مدد پر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے بعض نے مسلمان عورتوں پر بزدلانہ حملہ کرنا چاہا جس کا جواب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بڑی بہادری سے دیا۔ جب کفار قریش وغبرہ عاجز ہو کر چلے گئے تو "بنو قریظہ" اپنے مضبوط قلعوں میں جا گھسے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جنگ احزاب سے فارغ ہو کر غسل وغیرہ میں مشغول تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے۔ چہرہ پر غبار کا اثر تھا فرمایا۔ یا رسول اللہ! آپ نے ہتھیار اتار دیے حالانکہ فرشتے ہنوز ہتھیار بند ہیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ "بنو قریظہ" پر حملہ کیا جائے۔ فوراً منادی ہو گئی کہ "بنو قریظہ" کے بدعہد یہودیوں پر چڑھائی ہے۔ نہایت سرعت کے ساتھ اسلامی فوج نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ چوبیس پچیس دن محاصرہ جاری رہا۔ آخر محصورین تاب نہ لا سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیام بھیجنے شروع کیے۔ اخیر میں ان کی طرف سے بات اس پر ٹھہری کہ ہم قلعوں سے باہر آتے ہیں اور "اوس" کے سردار حضرت سعد بن معاذ کو حکم ٹھہراتے ہیں (کیونکہ وہ ان کے حلیف تھے) جو فیصلہ ہمارے حق میں حضرت سعد کر دیں گے ہم کو منظور ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی قبول فرما لیا۔ قصہ مختصر سعد تشریف لائے اور بحیثیت ایک مسلم حکم کے فیصلہ کیا کہ بنی قریظہ کے سب جوان قتل کر دیے جائیں اور عورتیں لڑکے سب قید غلامی میں لائے جائیں اور ان کے اموال و جائیداد کے مالک مہاجرین ہوں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مرضی اور ان کی بد عہدی کی سزا یہ ہی تھی۔ اور یہ فیصلہ ٹھیک ان کی مسلمہ آسمانی کتاب "تورات" کے موافق تھا۔ چنانچہ تورات کتاب استثناء اصحاح ۲۰ آیت ۱۰ میں ہے "جب کسی شہر پر حملہ کرنے کے لئے تو جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے اگر وہ صلح تسلیم کر لیں اور تیرے لئے دروازے کھول دیں تو جتنے لوگ وہاں موجود ہوں سب تیرے غلام ہو جائیں گے۔ لیکن اگر صلح نہ کریں تو تو ان کا محاصرہ کر اور جب تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ دلا دے تو جس قدر مرد ہوں سب کو قتل کر دے۔ باقی بچے، عورتیں، جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں سب تیرے لئے مال غنیمت ہوں گے۔" اس فیصلہ کے مطابق کئی سو یہودی جوان قتل کئے گئے اور کئی سو عورتیں لڑکے قید ہوئے اور ان کے املاک و اموال پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔
۲۷ ۔۔۔ یہ زمین جو مدینہ کے قریب ہاتھ لگی حضرت نے مہاجرین پر تقسیم کر دی۔ ان کے گزران کا ٹھکانا ہو گیا اور انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور دوسری زمین سے مراد خیبر کی زمین ہے جو اس کے دو برس بعد ہاتھ لگی اس سے حضرت کے سب اصحاب آسودہ ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ قیامت تک جو زمینیں فتح کی جائیں سب اس میں شامل ہیں واللہ اعلم۔
۲۹ ۔۔۔ حضرت کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہو گئے چاہا کہ ہم بھی آسودہ ہوں۔ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کی کہ ہم کو مزید نفقہ اور سامان دیا جائے جس سے عیش و ترفہ کی زندگی بسر کر سکیں حضرت کو یہ باتیں شاق گزریں۔ قسم کھالی کہ ایک مہینہ گھر میں نہ جائیں گے۔ مسجد کے قریب ایک بالا خانہ میں علیحدہ فروکش ہو گئے۔ صحابہ مضطرب تھے۔ ابوبکر و عمر اس فکر میں ہوئے کہ کسی طرح یہ گتھی سلجھ جائے۔ انہیں زیادہ فکر اپنی اپنی صاحبزادیوں (عائشہ اور حفصہ) کی تھی کہ پیغمبر کو ملول کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کر بیٹھیں۔ دونوں نے دونوں کو دھمکایا اور سمجھایا۔ پھر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کچھ انس اور بے تکلفی کی باتیں کیں۔ آپ منشرح ہوئے ایک ماہ بعد یہ آیت تخییر اتری۔ یعنی اپنی ازواج سے صاف صاف کہہ دو کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ اگر دنیا کی عیش و بہار اور امیرانہ ٹھاٹھ چاہتی ہیں تو کہہ دو کہ میرے ساتھ تمہارا نباہ نہیں ہو سکتا۔ آؤ کہ میں کچھ دے دلا کر (یعنی کپڑوں کا جوڑا جو مطلقہ کو دیا جاتا تھا) تم کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں (یعنی شرعی طریقہ سے طلاق دے دوں) اور اگر اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی اور آخرت کے اعلیٰ مراتب کی طلب ہے تو پیغمبر کے پاس رہنے میں اس کی کمی نہیں۔ جو آپ کی خدمت میں صلاحیت سے رہے گی اللہ کے یہاں اس کے لئے بہت بڑا اجر تیار ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ جنت کے سب سے اعلیٰ مقام میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رہیں۔ نزول آیت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں تشریف لائے اول عائشہ کو حکم سنایا۔ انہوں نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مرضی اختیار کی پھر سب ازواج نے ایسا ہی کیا۔ دنیا کے عیش و عشرت کا تصور دلوں سے نکال ڈالا۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سب نیک ہی رہیں۔ الطیبات للطیبین۔ مگر حق تعالیٰ قرآن میں صاف خوشخبری کسی کو نہیں دیتا تاکہ نڈر نہ ہو جائے۔ خاتمہ کا ڈر لگا رہے یہی بہتر ہے۔ آگے ان عورتوں کو خطاب ہے جو نبی کی معیت اختیار کر لیں کہ انکا درجہ اس نسبت کی وجہ سے بہت بلند ہے چاہیے کہ ان کی اخلاقی اور روحانی زندگی اس معیار پر ہو جو اس مقام رفیع کے مناسب ہے کیونکہ علاوہ ان کی ذاتی بزرگی کے وہ امہات المومنین ہیں۔ مائیں اپنی اولاد کی بڑی حد تک ذمہ دار ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ ان کے اعمال و اخلاق امت کے لئے اسوۂ حسنہ بنیں۔
۳۰ ۔۔۔ بڑے کی غلطی بھی بڑی ہوتی ہے۔ اگر بالفرض تم میں کسی سے کوئی بد اخلاقی کا کام ہو جائے تو جو سزا اوروں کو اس پر ملتی ہے اس سے دگنی سزا ملے گی۔ اور اللہ پر آسان ہے یعنی تمہاری وجاہت اور نسبت زوجیت سزا دینے سے اللہ کو روک نہیں سکتی۔
۳۱ ۔۔۔ یعنی نیکی اور اطاعت پر جتنا اجر دوسروں کو ملے اس سے دو گنا ملے گا۔ اور مزید برآں ایک خاص روزی عزت کی عطا ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی بڑے درجہ کا لازم ہے کہ نیکی کا ثواب دونا اور برائی کا عذاب دونا۔"خود پیغمبر علیہ السلام کو فرمایا۔ "اذاً لا ذقناک ضعف الحیوۃ وضعف الممات" (اسراء، رکوع۸) ف ۲ یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کی طرح نہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے تم کو سیدالمرسلین کی زوجیت کے لیے انتخاب فرمایا اور امہات المومنین بنایا۔ لہٰذا اگر تقویٰ و طہارت کا بہترین نمونہ پیش کرو گی جیسا کہ تم سے متوقع ہے۔ اس کا وزن اللہ کے ہاں بہت زیادہ ہو گا۔ اور بالفرض کوئی بری حرکت سرزد ہو تو اسی نسبت سے وہ بھی بہت زیاد بھاری اور قبیح سمجھی جائے گی۔ غرض بھلائی کی جانب ہو یا برائی کی عام مومنات سے تمہاری پوزیشن ممتاز رہے گی۔
۳۲ ۔۔۔ یعنی اگر تقویٰ اور خدا کا ڈر دل میں رکھتی ہو تو غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے (جس کی ضرورت خصوصاً امہات المومنین کو پیش آتی رہتی ہے) نرم اور دلکش لہجہ میں کلام نہ کرو۔ بلاشبہ عورت کی آواز میں قدرت نے طبعی طور پر ایک نرمی اور نزاکت رکھی ہے۔ لیکن پاکباز عورتوں کی شان یہ ہونی چاہیے کہ حتی المقدور غیر مردوں سے بات کرنے میں بہ تکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں قدرے خشونت اور روکھا پن ہو اور کسی بد باطن کے قلبی میلان کو اپنی طرف جذب نہ کرے۔ امہات المومنین کو اس بارہ میں اپنے مقام بلند کے لحاظ سے اور بھی زیادہ احتیاط لازم ہے تاکہ کوئی بیمار اور روگی دل کا آدمی بالکل اپنی عاقبت تباہ نہ کر بیٹھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ ایک ادب سکھایا کہ کسی مرد سے بات کہو تو اس طرح کہو جیسے ماں کہے بیٹے کو۔ اور بات بھی بھلی اور معقول ہو۔
۳۳ ۔۔۔ ۱: یعنی اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتی اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بد اخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر حسن و جمال کی نمائش کرتی نہ پھریں۔ امہات المومنین کا فرض اس معاملہ میں بھی اوروں سے زیادہ مؤکدہ ہو گا جیسا کہ "لستن کاحد من النسآء" کے تحت میں گزر چکا۔ باقی کسی شرعی یا طبعی ضرورت کی بناء پر بدون زیب و زینت کے مبتذل اور ناقابل اعتناء لباس میں منتشر ہو کر احیانا باہر نکلنا بشرطیکہ ماحول کے اعتبار سے فتنہ کا مظنہ نہ ہو، بلاشبہ اس کی اجازت نصوص سے نکلتی ہے اور خاص ازواج مطہرات کے حق میں بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ متعدد واقعات سے اس طرح نکلنے کا ثبوت ملتا ہے لیکن شارع کے ارشادات سے یہ بداہتہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پسند اسی کو کرتے ہیں کہ ایک مسلمان عورت بہرحال اپنے گھر کی زینت بنے اور باہر نکل کر شیطان کو تاک جھانک کا موقع نہ دے۔ اس کی تفصیل ہمارے رسالہ "حجاب شرعی" میں ہے۔ رہا ستر کا مضمون یعنی عورت کے لیے کن اعضاء کو کن مردوں کے سامنے کھلا رہنا جائز ہے۔ اس کا بیان سورہ نور میں گزر چکا۔ (تنبیہ) جو احکام ان آیات میں بیان کیے گئے تمام عورتوں کے لیے ہیں۔ ازواج مطہرات کے حق میں چونکہ ان کا تاکد و اہتمام زائد تھا اس لیے لفظوں میں خصوصیت کے ساتھ مخاطب ان کو بنایا گیا۔ میرے نزدیک "یانسآء النبی من یات منکن بفاحشۃ سے لستن کاحد من النسآء تک ان احکام کی تمہید تھی۔ تمہید میں دو شقیں ذکر تھیں۔ ایک بے حیائی کی بات کا ارتکاب۔ اس کی روک تھام فلا تخصعن بالقول سے تبرج الجاہلیۃ الولی تک کی گئی۔ دوسری اللہ و رسول کی اطاعت اور عمل صالح، آگے واقمن الصلوٰۃ سے اجراً عظیما تک اس کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ برائی کے مواقع سے بچنا اور نیکی کی طرف سبقت کرنا سب کے لیے ضروری ہے مگر ازواج مطہرات کے لیے سب عورتوں سے زیادہ ضروری ہے۔ ان کی ہر ایک بھلائی برائی وزن میں دوگنی قرار دی گئی۔ اس تقریر کے موافق "فاحشۃٍ مبینۃٍ" کی تفسیر بھی بے تکلف سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
۲: یعنی اوروں سے بڑھ کر ان چیزوں کا اہتمام رکھو۔ کیونکہ تم نبی سے اقرب اور امت کے لیے نمونہ ہو۔
۳: یعنی اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ نبی کے گھر والوں کو ان احکام پر عمل کرا کر خوب پاک و صاف کر دے اور ان کے رتبہ کے موافق ایسی قلبی صفائی اور اخلاقی ستھرائی عطا فرمائے جو دوسروں سے ممتاز و فائق ہو (جس کی طرف یطہرکم کے بعد تطہیرا بڑھا کر اشارہ فرمایا ہے) یہ تطہیر و اذہاب رجس اس قسم کی نہیں جو آیت وضو میں ولکن یرید لیطہر کم ولیتم نعمتہ علیکم (مائدہ، رکوع۲) سے یا "بدر" کے قصہ میں لیطہرکم بہ ویذہب عنکم رجز الشیطان (انفال، رکوع۲) سے مراد ہے۔ بلکہ یہاں تطہیر سے مراد تہذیب نفس، تصفیہ قلب اور تزکیہ باطن کا وہ اعلیٰ مرتبہ ہے جو کامل اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے اور جس کے حصول کے بعد وہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں بن جاتے ہاں محفوظ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ لفظ یرید اللہ لیذہب الخ فرمانا اور اراد اللہ نہ فرمانا خود اس کی دلیل ہے کہ اہل بیت کے لیے عصمت ثابت نہیں (تنبیہ) نظم قرآن میں تدبر کرنے والے کو ایک لمحہ کے لیے اس میں شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں اہل بیت کے مدلول میں ازواج مطہرات یقیناً داخل ہیں۔ کیونکہ آیت ہذا سے پہلے اور پیچھے پورے رکوع میں تمام تر خطابات ان ہی سے ہوئے ہیں اور "بیوت" کی نسبت بھی پہلے وقرن فی بیوتکن میں اور آگے واذکرن مایتلی فی بیوتکن میں ان کی طرف کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ لفظ عموماً اسی سیاق میں مستعمل ہوا ہے۔ حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو خطاب کرتے ہوئے ملائکہ نے فرمایا اتعجبین من امر اللہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اہل البیت (ہود، رکوع۷) مطلقہ عورت باوجودیکہ نکاح سے نکل چکی مگر عدت منقضی ہونے سے پہلے بیوت کی نسبت اسی کی طرف کی گئی چنانچہ فرمایا۔ "لاتخرجوہن من بیوتہن" (طلاق، رکوع۱) حضرت یوسف کے قصہ میں "بیت" کو زلیخا کی طرف منسوب کیا۔ "وراودتہ التی ہوفی بیتہا" (یوسف، رکوع۳) بہرحال اہل بیت میں اس جگہ ازواج مطہرات کا داخل ہونا یقینی ہے بلکہ آیت کا خطاب اولا ان ہی سے ہے لیکن چونکہ اولاد و داماد بھی بجائے خود اہل بیت (گھر والوں) میں شامل ہیں بلکہ بعض حیثیات سے وہ اس لفظ کے زیادہ مستحق ہیں۔ جیسا کہ مسند احمد کی ایک روایت میں احق کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے اس لیے آپ کا حضرت فاطمہ، علی، حسن، حسین رضی اللہ عنہم کو ایک چادر میں لے کر "اللہم ہولاءِ اہل بیتی" الخ وغیرہ فرمانا یا حضرت فاطمہ کے مکان کے قریب گزرتے ہوئے "الصلوٰۃ اہل البیت یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس" الخ سے خطاب کرنا اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ گو آیت کا نزول بظاہر ازواج کے حق میں ہوا اور ان ہی سے تخاطب ہو رہا ہے مگر یہ حضرات بھی بطریق اولیٰ اس لقب کے مستحق اور فضیلت تطہیر کے اہل ہیں باقی ازواج مطہرات چونکہ خطاب قرآنی کی اولین مخاطب تھیں اس لیے ان کی نسبت اس قسم کے اظہار اور تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
۳۴ ۔۔۔ ۱: یعنی قرآن و سنت میں جو اللہ کے احکام اور دانائی کی باتیں ہیں، انہیں سیکھو، یاد کرو، دوسروں کو سکھاؤ اور اللہ کے احسان عظیم کا شکر ادا کرو کہ تم کو ایسے گھر میں رکھا جو حکمت کا خزانہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
۲: اس کی آیتوں میں بڑے باریک بھید اور پتے کی باتیں ہیں اور وہ ہی جانتا ہے کہ کون اس امانت کے اٹھانے کا اہل ہے اس نے اپنے لطف و مہربانی سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے لیے اور تم کو ان کی زوجیت کے لیے چن لیا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کے احوال و استعداد کی خبر رکھتا ہے کوئی کام یوں ہی بے جواز نہیں کر سکتا۔
۳۵ ۔۔۔ ۱: یعنی تکلیفیں اٹھا کر اور سختیاں جھیل کر احکام شریعت پر قائم رہنے والے۔
۲: یعنی تواضع و خاکساری اختیار کرنے والے یا نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنے والے۔
۳: بعض ازواج مطہرات نے کہا تھا کہ قرآن میں اکثر جگہ مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا کہیں نہیں اور بعض نیک بخت عورتوں کو خیال ہوا کہ آیات سابقہ میں ازواج نبی کا ذکر تو یا عام عورتوں کا کچھ حال بیان نہ ہوا اس پر یہ آیت اتری۔ تاکہ تسلی ہو جائے کہ عورت ہو یا مرد کسی کی محنت اور کمائی اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتی۔ اور جس طرح مردوں کو روحانی اور اخلاقی ترقی کرنے کے ذرائع حاصل ہیں عورتوں کے لیے بھی یہ میدان کشادہ ہے۔ یہ طبقہ اناث کی دلجمعی کے لیے تصریح فرما دی۔ ورنہ جو احکام مردوں کے لیے قران میں آئے وہ ہی عموماً عورتوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جداگانہ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ہاں خصوصی احکام الگ بتلا دیے گئے ہیں۔
۳۶ ۔۔۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی زاد بہن اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہا کہ ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کر دیں۔ یہ زید اصل سے شریف عرب تھے۔ لیکن لڑکپن میں کوئی ظالم ان کو پکڑ لایا اور غلام بنا کر مکہ کے بازار میں بیچ گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خرید لیا اور کچھ دنوں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہبہ کر دیا۔ جب یہ ہشیار ہوئے تو ایک تجارتی سفر کی تقریب سے اپنے وطن کے قریب سے گزرے، وہاں ان کے اعزہ کو پتہ لگ گیا۔ آخر ان کے والد، چچا اور بھائی حضرت کی خدمت میں پہنچے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم معاوضہ لے کر ہمارے حوالہ کر دیں، فرمایا کہ معاوضہ کی ضرورت نہیں، اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے خوشی سے لے جاؤ۔ انہوں نے حضرت زید سے دریافت کیا۔ حضرت زید نے کہا کہ میں حضرت کے پاس سے جانا نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہیں اور ماں باپ سے زیادہ چاہتے ہیں۔ حضرت نے ان کو آزاد کر دیا اور متبنیٰ بنا لیا۔ چنانچہ لوگ اس زمانہ کے رواج کے مطابق "زید بن محمد" کہہ کر پکارنے لگے تاآنکہ آیت "ادعوہم لا بائہم ہواقسط عنداللہ" نازل ہوئی۔ اس وقت ،زید بن محمد" کی جگہ پھر "زید بن حارثہ" رہ گئے چونکہ قرآن کے حکم کے موافق ان کے نام سے اس نسبت عظیمہ کا شرف جدا کر لیا گیا تھا شاید اس کی تلافی کے لیے تمام صحابہ کے مجمع میں سے صرف ان کو یہ خاص شرف بخشا گیا کہ ان کا نام قرآن میں تصریحاً وارد ہوا جیسا کہ آگے آتا ہے۔ "فلما قضی زید منہا وطرا۔" بہرحال حضرت زینب کی خاندانی حیثیت چونکہ بہت بلند تھی اور زید بن حارثہ بظاہر داغ غلامی اٹھا کر آزاد ہوئے تھے اس لیے ان کی نیز ان کے بھائی کی مرضی زید سے نکاح کرنے کی نہ تھی لیکن اللہ و رسول کو منظور تھا کہ اس طرح کی موہوم تفریقات و امتیازات نکاح کے راستہ میں حائل نہ ہوا کریں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زینب اور ان کے بھائی پر زور دیا کہ وہ اس نکاح کو قبول کر لیں۔ اسی وقت یہ آیت اتری اور ان لوگوں نے اپنی مرضی کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مرضی پر قربان کر دیا اور زینب کا نکاح زید بن حارثہ سے ہو گیا۔
۳۷ ۔۔۔ ۱: یعنی زید نے طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی، زینب سے کچھ غرض مطلب نہ رہا۔
۲: حضرت زینب زید کے نکاح میں آئیں تو وہ ان کی آنکھوں میں حقیر لگتا۔ مزاج کی موافقت نہ ہوئی۔ جب آپس میں لڑائی ہوتی تو زید آ کر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی شکایت کرتے اور کہتے میں اسے چھوڑتا ہوں حضرت منع فرماتے کہ میری خاطر اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اس نے تجھ کو اپنی منشاء کے خلاف قبول کیا۔ اب چھوڑ دینے کو وہ اور اس کے عزیز دوسری ذلت سمجھیں گے۔ اس لیے خدا سے ڈرو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگاڑ مت کر۔ اور جہاں تک ہو سکے نباہ کی کوشش کرتا رہ۔ جب معاملہ کسی طرح نہ سلجھا، اور بار بار جھگڑے قضیے پیش آتے رہے تو ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں آیا ہو کہ اگر ناچار زید چھوڑ دے گا تو زینب کی دلجوئی بغیر اس کے ممکن نہیں کہ میں خود اس سے نکاح کروں لیکن جاہلوں اور منافق کی بدگوئی سے اندیشہ کیا کہ کہیں گے اپنے بیٹے کی جورو گھر میں رکھ لی۔ حالانکہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کے نزدیک "لے پالک" کو کسی بات میں حکم بیٹے کا نہیں۔ ادھر اللہ کو یہ منظور تھا کہ اس جاہلانہ خیال کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے عملی طور پر ہدم کر دے تاکہ مسلمانوں کو آئندہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا توحش اور استنکاف باقی نہ رہے اس نے پیغمبر علیہ السلام کو مطلع فرمایا کہ میں زینب کو تیرے نکاح میں دینے والا ہوں۔ کیوں دینے والا ہوں؟ اس کو خود قرآن کے الفاظ "لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم" صاف صاف ظاہر کر رہے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں دینے کی غرض یہ ہی تھی کہ دلوں سے جاہلیت کے اس خیال باطل کا بالکل قلع قمع کر دیا جائے اور کوئی تنگی اور رکاوٹ آئندہ اس معاملہ میں باقی نہ رہنے پائے۔ اور شاید یہ ہی حکمت ہو گی جو اول زینب کا نکاح زید سے زور ڈال کر کرایا گیا۔ کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ یہ نکاح زیادہ مدت تک باقی نہ رہے گا۔ چند مصالح مہمہ تھیں جن کا حصول اس عقد پر معلق تھا۔ الحاصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود اپنے ذاتی خیال اور اس آسمانی پیشین گوئی کے اظہار سے عوام کے طعن و تشنیع کا خیال فرما کر شرماتے تھے اور زید کو طلاق کا مشورہ دینے میں بھی حیا کرتے تھے لیکن خدا کی خبر سچی ہونی تھی اور اس کا حکم تکوینی و تشریعی ضرور تھا کہ نافذ ہو کر رہے۔ آخرکار زید نے طلاق دے دی۔ اور عدت گزر جانے پر اللہ نے زینب کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے باندھ دیا۔ اس تقریر سے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دل میں جو چیز چھپائے ہوئے تھے وہ یہ ہی نکاح کی پیشین گوئی اور اس کا خیال تھا اسی کو بعد میں اللہ نے ظاہر فرما دیا۔ جیسا کہ لفظ "زوجنا کہا" سے ظاہر ہے اور ڈر اس بات کا تھا کہ بعض لوگ اس بات پر بدگمانی یا بدگوئی کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں یا گمراہی میں ترقی نہ کریں چونکہ مصالح مہمہ شرعیہ کے مقابلہ میں اس قسم کی جھجک بھی پیغمبر کی شان رفیع کے لئے مناسب نہ تھی۔ اس لیے بقاعدہ "حسنات الابرابر سیأت المقربین" اس کو عتاب آمیز رنگ میں بھاری کر کے ظاہر فرمایا گیا۔ جیسا کہ عموماً انبیاء علیہم السلام کی حالات کے ذکر میں واقع ہوا ہے۔ (تنبیہ) ہم نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نکاح کی خبر پہلے سے دے دی تھی۔ اس کی روایات فتح الباری سورہ احزاب کی تفسیر میں موجود ہیں۔ باقی جو لغو اور دوراز کار قصے اس مقام پر حاطب اللیل مفسرین و مورخین نے درج کر دئیے ہیں ان کی نسبت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ "لاینبغی التشاغل بہا" اور ابن کثیر لکھتے ہیں۔ "احببنا ان تضرب عنہا صفحاً لعدم صحتہا فلا نور دہا۔"
۳۹ ۔۔۔ یعنی اللہ کا حکم اٹل ہے جو بات اس کے یہاں طے ہو چکی ضرور ہو کر رہے گی۔ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا کرنے میں کیا مضائقہ ہے جو شریعت میں روا ہو گیا۔ انبیاء و رسل کو اللہ کے پیغامات پہنچانے میں اس کے سوا کبھی کسی کا ڈر نہیں رہا۔ (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی پیغام رسانی میں آج تک کسی چیز کی پروا نہیں کی نہ کسی کے کہنے سننے کے خیال سے کبھی متاثر ہوئے) پھر اس نکاح کے معاملہ میں رکاوٹ کیوں ہو۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کی کثرت ازواج مشہور ہے۔ جو الزام سفہاء آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے سکتے ہیں انبیاءے سابقین کی لائف میں اس سے بڑھ کر نظیریں موجود ہیں۔ لہٰذا اس طرح کی سفیہانہ اور جاہلانہ نکتہ چینیوں پر نظر نہیں کرنا چاہیے۔ آگے بتلایا ہے کہ زید بن حارثہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے متبنی کر لیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعی بیٹے نہیں بن گئے تھے کہ ان کی مطلقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح نہ کر سکیں۔ اور ایک زید کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں۔ کیونکہ آپ کی اولاد میں یا لڑکے ہوئے جو بچپن میں گزر گئے۔ اور بعض اس آیت کے نزول کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے۔ یا بیٹیاں تھیں جن میں سے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی ذریت دنیا میں پھیلی۔
۴۰ ۔۔۔ ۱: یعنی کسی کو اس کا بیٹا نہ جانو۔ ہاں اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے اس حساب سے سب ان کے روحانی بیٹے ہیں جیسا کہ ہم "النبی اولیٰ بالمومنین انفسہم" کے حاشیہ میں لکھ چکے ہیں۔
۲: یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئی۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا دورہ سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام بھی اخیر زمانہ میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہو گا۔ جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری و ساری ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام (زمین پر) زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کا چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو انبیاءے سابقین اپنے اپنے عہد میں بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا۔ اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوتا ہے۔ بدین لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے، آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب (تنبیہ) ختم نبوت کے متعلق قرآن، حدیث، اجماع وغیرہ سے سینکڑوں دلائل جمع کر کے بعض علمائے عصر نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مطالعہ کے بعد ذرا تردد نہیں رہتا کہ اس عقیدہ کا منکر قطعاً کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
۳: یعنی وہ ہی جانتا ہے کہ رسالت یا ختم نبوت کو کس محل میں رکھا جائے۔
۴۲ ۔۔۔ یعنی حق تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان فرمایا کہ ایسے عظیم الشان پیغمبر اور پیغمبروں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا۔ اس پر اس کا شکر ادا کرو۔ اور منعم حقیقی کو کبھی نہ بھولو، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے پھرتے، رات، دن صبح و شام، ہمہ اوقات اس کو یاد رکھو۔
۴۳ ۔۔۔ یعنی اللہ کو بکثرت یاد کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ اپنی رحمت تم پر نازل کرتا ہے جو فرشتوں کے توسط سے آتی ہے۔ یہ ہی رحمت و برکت ہے جو تمہارا ہاتھ پکڑ کر جہالت و ضلالت کی اندھیریوں سے علم و تقویٰ کے اجالے میں لاتی ہے۔ اگر اللہ کی خاص مہربانی ایمان والوں پر نہ ہو تو دولت ایمان کہاں سے ملے اور کیونکر محفوظ رہے۔ اسی کی مہربانی سے مومنین رشد و ہدایت اور ایمان و احسان کی راہوں میں ترقی کرتے ہیں۔ یہ تو دنیا میں ان کا حال ہوا، آخرت کا اعزاز و اکرام آگے مذکور ہے۔
۴۴ ۔۔۔ یعنی اللہ ان پر سلام بھیجے گا اور فرشتے سلام کرتے ہوئے ان کے پاس آئیں گے۔ اور مومنین کی آپس میں بھی یہ ہی دعا ہو گی جیسا کہ دنیا میں ہے۔
۴۵ ۔۔۔ ۱: یعنی اللہ کی توحید سکھاتے اور اس کا راستہ بتاتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں دل سے اور عمل سے اس پر گواہ ہیں اور محشر میں بھی امت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خدا کے پیغام کو کس نے کس قدر قبول کیا۔
۲: یعنی نا فرمانوں کو ڈراتے اور فرمانبرداروں کو خوشخبری سناتے ہیں۔
۴۶ ۔۔۔ پہلے جو فرمایا تھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اجالے میں لاتی ہے۔ یہاں بتلا دیا کہ وہ اجالا اس روشن چراغ سے پھیلا ہے۔ شاید چراغ کا لفظ اس جگہ اس معنی میں ہو جو سورہ "نور" میں فرمایا "وجعل القمر فیہن نورا وجعل الشمس سراجا" (اللہ نے چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا) یعنی آپ آفتاب نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعد کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی سب روشنیاں اسی نور اعظم میں محو و مدغم ہو گئیں۔
۴۷ ۔۔۔ یعنی دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو حضرت کے طفیل سب امتوں پر بزرگی اور برتری دی۔
۴۸ ۔۔۔ ۱: یعنی جب اللہ نے آپ کو ایسے کمالات اور ایسی برگزیدہ جماعت عنایت فرمائی تو آپ حسب معمول فریضہ دعوت و اصلاح کو پوری مستعدی سے ادا کرتے رہے اور اللہ جو حکم دے اس کے کہنے یا کرنے میں کسی کافر و منافق کی یادہ گوئی کی پروا نہ کیجئے۔
۲: یعنی اگر یہ بدبخت زبان اور عمل سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ستائیں تو ان کا خیال چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ وہ اپنی قدرت و رحمت سے سب کام بنا دے گا۔ منکروں کو راہ پر لے آنا یا سزا دینا سب اسی کے ہاتھ میں ہے، آپ کو اس فکر اور الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آپ طعن و تشنیع وغیرہ سے گھبرا کر اپنا کام چھوڑ بیٹھیں۔ اگر بفرض محال آپ ایسا کریں تو گویا ان کا مطلب پورا کر دیں گے اور ان کا کہا مان لیں گے۔ العیاذ باللہ۔
۴۹ ۔۔۔ یعنی جو مرد اپنی عورت کو بغیر صحبت کیے طلاق دے اگر اس کا مہر بندھا تھا تو نصف مہر دینا ہو گا ورنہ کچھ فائدہ پہنچا کر (یعنی عرف اور حیثیت کے موافق ایک جوڑا پوشاک دے کر) خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دے۔ اور عورت اسی وقت چاہے تو نکاح کر لے۔ اس صورت میں عدت نہیں۔ (حنفیہ کے نزدیک خلوت صحیحہ بھی صحبت کے حکم میں ہے تفصیل فقہ میں دیکھ لی جائے) یہ مسئلہ یہاں بیان فرمایا۔ حضرت کی ازواج کے ذکر میں جس کا سلسلہ دور سے چلا آتا تھا۔ درمیان میں چند آیات ضمنی مناسبت سے آ گئی تھیں۔ یہاں سے پھر مضمون سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ جب اس کے نزدیک گئے کہنے لگی اللہ تجھ سے پناہ دے، حضرت نے اس کو جواب دیا کہ تو نے بڑے کی پناہ پکڑی۔ اس پر یہ حکم فرمایا اور خطاب فرمایا، ایمان والوں کو معلوم ہو کہ یہ پیغمبر کے لیے خاص حکم نہیں، سب مسلمانوں پر یہ ہی حکم ہے۔ اسی کے موافق حضرت نے اس کو جوڑا دے کر رخصت کر دیا۔ پھر وہ ساری عمر اپنی محرومی پر پچھتاتی رہی۔
۵۰ ۔۔۔ ۱: یعنی لونڈیاں، باندیاں جو غنیمت وغیرہ سے ہاتھ لگی ہوں۔
۲: تیری عورتیں جن کا مہر دے چکا یعنی جواب تیرے نکاح میں ہیں خواہ قریش سے ہوں اور مہاجر ہوں یا نہ ہوں سب حلال رہیں ان میں سے کسی کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کی بیٹیاں یعنی قریش میں سے جو باپ یا ماں کی طرف سے قرابت دار ہوں بشرط ہجرت کے حلال ہیں ان سے نکاح کر سکتے ہو۔ اور جو عورت بخشے نبی کو اپنی جان یعنی بلا مہر کے نکاح میں آنا چاہے وہ بھی حلال ہے اگر آپ اس طرح نکاح میں لانا پسند کریں۔ یہ اجازت خاص پیغمبر کے لیے ہے گو آپ نے بھی اس پر عمل نہیں کیا (کما فی الفتح) شاید "ان اراد النبی" کی شرط سے اباحت مرجوحہ سمجھی ہو۔ بہرحال دوسرے مسلمانوں کے لیے وہ ہی حکم ہے جو معلوم ہو چکا "ان تبتغوابا موالکم" (نسا، رکوع۴) یعنی بلا مہر نکاح نہیں، خواہ عقد کے وقت ذکر آیا خواہ پیچھے ٹھہرا لیا یا نہ ٹھہرایا تو مہر مثل (جو اس کی قوم کا مہر ہو) واجب ہو گا۔ پیغمبر پر سے اللہ تعالیٰ نے یہ مہر کی قید اٹھا دی تھی۔ برخلاف مومنین کے کہ ان کو نہ چار سے زائد سے اجازت نہ بدون مہر کے نکاح درست۔ (تنبیہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پچیس سال کی عمر تک جوشباب کی امنگوں کے اصلی دن ہوتے ہیں محض تجرد میں گزارے۔ پھر اقرباء کے اصرار اور دوسری جانب کی درخواست پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے (جن کی عمر ڈھل چکی تھی اور دو مرتبہ بیوہ ہو چکی تھیں) آپ نے عقد کیا۔ تریپن سال کی عمر تک پورے سکون و طمانیت سے اسی پاکباز بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ یہ ہی زمانہ تھا کہ آپ ساری دنیا سے الگ غاروں اور پہاڑوں میں جا کر خدائے واحد کی عبادت کیا کرتے تھے اور یہ اللہ کی نیک بندی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے توشہ تیار کرتی اور عبادت الٰہی اور سکون قلبی کے حصول میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اعانت و امداد کیا کرتی تھی۔ زندگی کے اس طویل عرصہ میں جو دوسرے لوگوں کے لیے عموماً نفسانی جذبات کی انتہائی ہنگامہ خیزیوں کے اٹھ اٹھ کر ختم ہو جانے کا زمانہ ہوتا ہے، کوئی معاند سے معاند اور کٹر سے کٹر متعصب دشمن بھی ایک حرف ایک نقطہ، ایک شوشہ آپ کی پیغمبرانہ عصمت اور خارق عادت عفاف و پاکبازی کے خلاف نقل نہیں کر سکتا۔ اور واضح رہے کہ یہ اس اکمل البشر کی سیرت کا ذکر ہے جس نے خود اپنی نسبت فرمایا کہ مجھ کو جو جسمانی قوت عطا ہوئی ہے وہ اہل جنت میں سے چالیس مردوں کی برابر ہے جن میں سے ایک مرد کی قوت سو کے برابر ہو گی گویا اس حساب سے دنیا کے چار ہزار مردوں کی برابر قوت حضور کو عطا فرمائی گئی تھی۔ اور بیشک دنیا کے اکمل ترین بشر کی تمام روحانی و جسمانی قوتیں ایسے ہی اعلیٰ اور اکمل پیمانہ پر ہونی چاہیں۔ اس حساب سے اگر فرض کیجئے چار ہزار بیویاں آپ کے نکاح میں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت کے اعتبار سے اس درجہ میں شمار کیا جا سکتا تھا جیسے ایک مرد ایک عورت سے نکاح کر لے۔ لیکن اللہ اکبر! اس شدید ریاضت اور ضبط نفس کا کام ٹھکانہ ہے کہ تریپن سال کی عمر اس تجرد یا زہد کی حالت میں گزار دی۔ پھر حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد اپنے سب سے بڑے جان نثار وفادار رفیق کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ سے عقد کیا۔ ان کے سوا آٹھ بیوائیں آپ کے نکاح میں آئیں۔ وفات کے بعد نو موجود تھیں۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت سودہ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب، حضرت ام حبیبہ، حضرت جویرہ، حضرت صفیہ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن و ارضاہن (ان میں پچھلی تین قریشی نہیں) دنیا کا سب سے بڑا بے مثال انسان جو اپنے فطری قویٰ کے لحاظ سے کم از کم چار ہزار بیویوں کا مستحق ہو، کیا نو کا عدد دیکھ کر کوئی انصاف پسند اس پر کثرت ازواج کا الزام لگا سکتا ہے۔ پھر جب ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر تریپن سال سے متجاوز ہو چکی تھی، باوجوود عظیم الشان فتوحات کے ایک دن پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاتے تھے۔ جو آتا اللہ کے راستہ میں دے ڈالتے، اختیاری فقر و فاقہ سے پیٹ کو پتھر باندھتے، مہینوں ازواج مطہرات کے مکانوں سے دھواں نہ نکلتا، پانی اور کھجور پر گذارہ چلتا۔ روزہ پر روزوہ رکھتے، کئی کئی دن افطار نہ کرتے، راتوں کو اللہ کی عبادت میں کھڑے رہنے سے پاؤں پر ورم ہو جاتا، لوگ دیکھ کر رحم کھانے لگتے، عیش و طرب کا سامان تو کجا، تمام بیویوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ جسے آخرت کی زندگی پسند ہو۔ ہمارے ساتھ رہے جو دنیا کا عیش چاہے رخصت ہو جائے۔ ان حالات کے باوجود دوسری طرف دیکھا جاتا ہے کہ سب ازواج کے حقوق ایسے اکمل و احسن طریقہ سے ادا فرماتے جس کا تحمل بڑے سے بڑا طاقتور مرد نہیں کر سکتا۔ اور میدان جنگ میں لشکروں کے مقابلہ پر جب بڑے بڑے جوان مرد بہاد دل چھوڑ بیٹھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہاڑ کی طرح ڈٹے رہتے اور زبان سے فرماتے "الی عباد اللہ! انا رسول اللہ" اور "انا النبی لا کذب انا بن عبدالمطلب۔" بیویوں کا تعلق فرائض عبودیت و رسالت کی بجا آوری میں ذرہ برابر فرق نہ ڈالتا۔ نہ کسی سخت سے سخت کٹھن کام میں ایک منٹ کے لیے ضعف و تعب لاحق ہوتا۔ کیا یہ خارق عادت احوال اہل بصیرت کے نزدیک معجزہ سے کچھ کام ہیں؟ حقیقت میں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جوانی ایک معجزہ تھی، بڑھاپا بھی ایک معجزہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک زندگی کے ہر ایک دور میں پاک بزرگ متقیوں کے لیے کچھ نمونے رکھ دیے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی عملی رہبری کر سکیں۔ ازواج مطہرات کے جس نام نہاد کثرت پر مخالفین کو اعتراض ہے وہ ہی امت مرحومہ کے لیے اس کا ذریعہ نبی کے پیغمبر کا اتباع کرنے والے مرد اور عورتیں ان حکموں اور نمونوں سے بے تکلف واقف ہوں یا بالخصوص باطنی احوال اور خانگی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا کثرت ازواج میں ایک بڑی مصلحت یہ ہوئی کہ خانگی معاشرت اور نسوانی مسائل کے متعلق نبی کے احکام اور اسوہ حسنہ کی اشاعت کافی حد تک بے تکلف ہو سکے۔ نیز مختلف قبائل اور جماعتوں کو آپ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا اور اس طرح ان کی وحشت و نفرت بھی کم ہوئی اور اپنے کنبہ کی عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاکدامنی، خوبی اخلاق، حسن معاملہ اور بے لوث کیر کو سن کر اسلام کی طرف رغبت بڑھی۔ شیطانی شکوک و اوہام کا ازالہ ہوا، اور اس طرح خدا کے عاشقوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فدا کاروں اور دنیا کے ہادیوں کی وہ عظیم الشان جماعت تیار ہوئی جس سے زیادہ پرہیزگار و پاکباز کوئی جماعت (بجز انبیاء کے) آسمان کے نیچے کبھی نہیں پائی گئی اور جو کسی برے کیر کٹیر رکھنے والے کی تربیت میں محال تھا کہ تیار ہو سکے۔
۵۱ ۔۔۔ یعنی واہبتہ النفس کے متعلق اختیار ہے قبول کرو یا نہ کرو۔ اور موجودہ بیویوں میں سے جس کو چاہو رکھو یا طلاق دے دو۔ نیز جو بیویاں رہیں آپ پر قسم (باری باری سے رہنا) واجب نہیں، جسے چاہیں باری میں آگے پیچھے کر سکتے ہیں۔ اور جسے کنارے کر دیا ہو اسے دوبارہ واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حقوق و اختیارات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیے گئے تھے، مگر آپ نے مدت العمران سے کام نہیں لیا۔ معاملات میں اس قدر عدل و مساوات کی رعایت فرماتے تھے جو بڑے سے بڑا محتاط آدمی نہیں کر سکتا۔ اس پر بھی اگر قلبی میلان کس کی طرف بے اختیار ہوتا تو فرماتے۔ "اللہم ہذا قسمی فیمآ املک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک" (اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، جو چیز صاف تیرے قبضہ میں ہے میرے اختیار میں نہیں اس پر ملامت نہ کیجئے) شاید "واللہ یعلم مافی قلوبکم وکان اللہ علیماً حلیماً۔" کسی مرد کی کئی عورتیں ہوں تو اس پر باری سے سب کے پاس برابر رہنا واجب ہے، حضرت پر یہ واجب نہ تھا۔ اس واسطے کہ عورتیں اپنا حق نہ سمجھیں، تو جو دیں راضی ہو کر قبول کریں (ورنہ روز یہ ہی کشمکش اور جھنجھٹ رہا کرتی، مہمات دین میں خلل پڑتا، اور ازواج کی نظر بھی دنیا سے بالکل یکسو ہو کر مقصد اصلی کی طرف نہ رہتی۔ اسی غم و فکر میں مبتلا رہا کرتیں) پر حضرت نے اپنی طرف سے فرق نہیں کیا سب کی باری برابر رکھی۔ ایک حضرت سودہ نے (جب عمر زیادہ ہو گئی) اپنی باری حضرت عائشہ کو بخش دی تھی۔"
۵۲ ۔۔۔ ۱: یعنی جتنی قسمیں "انا اخللنا لک ازواجک التی الخ" میں فرما دیں، اس سے زیادہ حلال نہیں۔ اور جواب موجود ہیں ان کو بدلنا حلال نہیں۔ یعنی یہ کہ ان میں سے کسی کو اس لیے چھوڑ دو کہ دوسری اس کی جگہ کر لاؤ۔ حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت ہے کہ یہ ممانعت آخر کو موقوف ہو گئی۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ اس کے بعد کوئی نکاح کیا نہ ان میں سے کسی کو بدلا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت سب ازواج برابر موجود رہیں۔
۲: یعنی لونڈی یا باندی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دو حرم (باندیاں) مشہور ہیں۔ ایک ماریہ قبطیہ جن کے شکم سے صاحبزادہ حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے بچپن میں انتقال کر گئے۔ دوسری ریحانہ، رضی اللہ عنہا۔
۳: یعنی اللہ کی نگاہ میں ہے جو اس کے احکام و حدود کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں کرتے، اس کا خیال رکھ کر کام کرنا چاہیے۔
۵۳ ۔۔۔ ۱: یعنی بدون حکم و اجازت کے دعوت میں مت جاؤ اور جب تک بلائیں نہیں پہلے سے جا کر نہ بیٹھو کہ وہاں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے۔ اور گھر والوں کے کام کاج میں حرج واقع ہو۔
۲: یعنی کھانے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے گھر کا راستہ لینا چاہیے۔ وہاں مجلس جمانے سے میزبان اور دوسرے مکان والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ باتیں گو نبی کے مکانوں کے متعلق فرمائی ہیں۔ کیونکہ شان نزول کا تعلق ان ہی سے تھا۔ مگر مقصود ایک عام ادب سکھلانا ہے۔ بے دعوت کسی کے یہاں کھانا کھانے کی غرض سے جا بیٹھنا یا طفیلی بن کر جانا، یا کھانے سے قبل یوں ہی مجلس جمانا، یا فارغ ہونے کے بعد گپ شپ لڑانا درست نہیں۔
۳: یعنی آپ حیا کی وجہ سے اپنے نفس پر تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ لحاظ کی وجہ سے صاف نہیں فرماتے کہ اٹھ جاؤ مجھے کلفت ہوتی ہے یہ تو آپ کے اخلاق اور مروت کی باتیں ہوئی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو تمہاری تادیب و اصلاح میں کیا چیزیں مانع ہو سکتی ہیں۔ اس نے بہرحال پیغمبر ہی کی زبان سے اپنے احکام سنا دیئے۔
۴: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آداب سکھلائے۔ کبھی کھانے کو حضرت کے گھر میں جمع ہوتے تو پیچھے باتیں کرنے لگ جاتے۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مکان آرام کا وہ ہی تھا۔ شرم سے نہ فرماتے کہ اٹھ جاؤ۔ ان کے واسطے اللہ نے فرما دیا، اور اس آیت میں حکم ہوا پردہ کا کہ مرد حضرت کی ازواج کے سامنے نہ جائیں کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ بھی پردہ کے پیچھے سے مانگیں اس میں جانبین کے دل ستھرے اور صاف رہتے ہیں اور شیطانی وساوس کا استیصال ہو جاتا ہے۔
۵: یعنی کافر منافق جو چاہیں بکتے پھریں اور ایذاء رسانی کریں، مومنین جو دلائل و براہین کی روشنی میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انتہائی راستبازی اور پاکبازی کو معلوم کر چکے ہیں، انہیں لائق نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں یا وفات کے بعد کوئی بات ایسی کہیں یا کریں جو حنیف درجہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایذا کا سبب بن جائے۔ لازم ہے کہ مومنین اپنے محبوب و مقدس پیغمبر کی عظمت شان کو ہمیشہ مرعی رکھیں۔ مبادا غفلت یا تساہل سے کوئی تکلیف دہ حرکت صادر ہو جائے اور دنیا و آخرت کا خسارہ اٹھانا پڑے۔ ان تکلیف دہ حرکات میں سے ایک بہت سخت اور بھاری گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص ازواج مطہرات سے آپ کے بعد نکاح کرنا چاہے یا ایسے نالائق ارادہ کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اظہار کرے۔ ظاہر ہے کہ ازواج مطہرات کی مخصوص عظمت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے قائم ہوئی ہے کہ روحانی حیثیت سے وہ تمام مومنین کی محترم مائیں قرار دی گئیں۔ کیا کسی امتی کے عقد نکاح میں آنے کے بعد ان کا یہ احترام کماحقہ ملحوظ رہ سکتا ہے یا آپ کے بعد وہ خانگی بکھیڑوں میں پڑ کر تعلیم و تلقین دین کی اس اعلیٰ غرض کو آزادی کے ساتھ پورا کر سکتی ہیں جس کے لیے ہی فی الحقیقت قدرت نے نبی کی زوجیت کے لیے ان کو چنا تھا۔ اور کیا کوئی پرلے درجہ کا بے حس و بے شعور انسان بھی باور کر سکتا ہے کہ سید البشر امام المتقین اور پیکر خلق عظیم کی خدمت میں عمر گزارنے والی خاتون ایک لمحہ کے لیے بھی کسی دوسری جگہ رہ کر قلبی مسرت و سکون حاصل کرنے کی امید رکھ سکے گی۔ خصوصاً جبکہ معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وہ منتخب خواتین تھیں جن کے سامنے دنیا و آخرت کے دو راستوں میں سے ایک راستہ انتخاب کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے بڑی خوشی اور آزادی سے دنیا کے عیش و بہار پر لات مار کر اللہ رسول کی خوشنودی اور آخرت کا راستہ اختیار کر لینے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ تاریخ بتلاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کیسے عدیم النظیر زہد و ورع اور صبر و توکل کے ساتھ ان مقدس خواتین جنت نے عبادت الٰہی میں اپنی زندگیاں گزاریں اور احکام دین کی اشاعت اور اسلام کی خدمات مہمہ کے لیے اپنے کو وقف کیے رکھا ان میں سے کسی ایک کو کبھی بھول کر بھی دنیا کی لذتوں کا خیال نہیں آیا۔ اور کیسے آ سکتا تھا جبکہ پہلے ہی حق تعالیٰ نے "یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت وطہر کم تطہیرا" فرما کر ان کے تزکیہ و تطہیر کی کفالت فرمائی تھی۔ رضی اللہ عنہن وارضاہن وجعلنا ممن یعظمہن حق تعظیمہن فوق مانعظم امہاتنا التی ولدتنا، آمین۔ اس مسئلہ کی نہایت محققانہ بحث حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔
۵۴ ۔۔۔ یعنی زبان سے کہنا تو کجا دل میں بھی ایسا وسوسہ کبھی نہ لانا۔ اللہ کے سامنے ظاہر و باطن سب یکساں ہے دل کا کوئی بھید اس سے پوشیدہ نہیں۔
۵۵ ۔۔۔ ۱: اوپر ازواج مطہرات کے سامنے مردوں کے جانے کی ممانعت ہوئی تھی۔ اب بتلا دیا کہ محارم کا سامنے جانا منع نہیں۔ اس بارہ میں جو حکم عام مستورات کا سورہ "نور" میں گزر چکا وہ ہی ازواج مطہرات کا ہے۔ "ولا نسآئہن ولا ماملکت ایمانہن" کی تشریح ہم سورہ "نور" میں کر چکے ہیں وہاں مطالعہ کر لیا جائے۔
۲: یعنی پردہ کے جو احکام بیان ہوئے اور جو استثناء کیا گیا پوری طرح ملحوظ رکھو ذرا بھی گڑ بڑ نہ ہونے پائے۔ ظاہر و باطن میں حدود الٰہیہ محفوظ رہنی چاہئیں۔ اللہ سے تمہارا کوئی حال چھپا ہوا نہیں۔ یعلم خائنۃ الاعین وماتخفی الصدور
۵۶ ۔۔۔ صلوٰۃ النبی کا مطلب ہے "نبی کی ثناء و تعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ"پھر جس کی طرف "صلوٰۃ" منسوب ہو گی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثناء و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے، جیسے کہتے ہیں کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کے بیٹے پر ہے اس نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔ اللہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ثناء اور عزاز و اکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں، مگر ہر ایک کی صلوٰۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہو گی۔ آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہیے۔ علماء نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلوٰۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! "سلام" کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو چکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے) "السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" "صلوٰۃ" کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ درود شریف تلقین کیا۔ "اللہم صل علیٰ محمدٍ وعلیٰ ال محمدٍ کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمدٍ وعلیٰ اٰل محمدٍ کما بارکت علی ابراہیم وعلیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔" غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلوٰۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلا دیا کہ تمہارا بھیجنا یہ ہی ہے کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش ابدالآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیونکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں۔ یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کر دی جائیں۔ گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہ ہی اکیلا ہے کسی بندہ کی کیا طاقت تھی کہ سید الانبیاء کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کر سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے، اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر۔ اب جس کا جتنا جی چاہے اتنا حاصل کر لے۔" (تنبیہ) صلوٰۃ علی النبی کے متعلق مزید تفصیلات ان مختصر فوائد میں نہیں سما سکتیں۔ شروع حدیث میں مطالعہ کی جائیں۔ اور اس باپ میں شیخ شمس الدین سخاوی کا رسالہ "القول ابدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع" قابل دید ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بقدر کفالت لکھ دیا ہے فالحمد للہ علی ذلک۔
۵۷ ۔۔۔ اوپر مسلمانوں کو حکم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایذاء کا سبب نہ بنیں بلکہ ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کریں جس کی ایک صورت صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہے۔ اب بتلایا کہ اللہ و رسول کو ایذا دینے والے دنیا و آخرت میں ملعون و مطرود اور سخت رسواکن عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اللہ کو ستانا یہ ہی ہے کہ اس کے پیغمبروں کو ستائیں یا اس کی جناب میں نالائق باتیں کہیں۔
۵۸ ۔۔۔ یہ منافق تھے جو پیٹھ پیچھے بد گوئی کرتے رسول کی، آپ کی ازواج مطہرات پر جھوٹے طوفان اٹھاتے جیسا کہ سورہ "نور" میں گزر چکا۔ آگے بعض ایذاؤں کے انسداد کا بندوبست کیا گیا ہے جو مسلمان عورتوں کو ان کی طرف سے پہنچتی تھیں۔ روایات میں ہے کہ مسلمان مستورات جب ضروریات کے لیے باہر نکلتیں، بدمعاش منافق تاک میں رہتے۔ اور چھیڑ چھاڑ کرتے پھر پکڑے جاتے تو کہتے ہم نے سمجھا نہیں تھا کہ کوئی شریف عورت ہے۔ لونڈی باندی سمجھ کر چھیڑ دیا تھا۔
۵۹ ۔۔۔ ۱: یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیویں۔ روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے۔ لونڈی باندیوں کو ضرورت شدیدہ کی وجہ سے اس کا مکلف نہیں کیا۔ کیونکہ کاروبار میں حرج عظیم واقع ہوتا ہے۔
۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں"یعنی پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں بی بی ہے صاحب ناموس، بد ذات نہیں نیک بخت ہے، تو بدنیت لوگ اس سے نہ الجھیں۔ گھونگھٹ اس کا نشان رکھ دیا۔ یہ حکم بہتری کا ہے۔ آگے فرما دیا اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔" یعنی باوجود اہتمام کے کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ کی مہربانی سے بخشش کی توقع ہے۔ (تکمیل) یہ تو آزاد عورتوں کے متعلق انتظام تھا کہ انہیں پہچان کر ہر ایک کا حوصلہ چھیڑنے کا نہ ہو، اور جھوٹے عذر کرنے کا موقع نہ رہے۔ آگے عام چھیڑ چھاڑ کی نسبت دھمکی دی ہے خواہ بی بی سے ہو یا لونڈی سے۔
۶۰ ۔۔۔ یعنی جن کو بد نظری اور شہوت پرستی کا روگ لگا ہوا ہے۔
۲: یہ غالباً یہود ہیں جو اکثر جھوٹی خبریں اڑا کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا کرتے تھے اور ممکن ہے منافق ہی مراد ہوں۔
۶۱ ۔۔۔ یعنی اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر مسلط کر دیں گے تاچند روز میں ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں، اور جتنے دن رہیں ذلیل و مرعوب ہو کر رہیں چنانچہ یہود نکالے گئے اور منافقوں نے دھمکی سن کر شاید اپنا رویہ بدل دیا ہو گا اس لیے سزا سے بچے رہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جو لوگ بدنیت تھے مدینہ میں عورتوں کو چھیڑتے، ٹوکتے، اور جھوٹی خبریں اڑاتے، مخالفوں کے زور اور مسلمانوں کے ضعف و شکست کی وجہ سے تھا۔" ان کو یہ فرمایا۔
۶۲ ۔۔۔ یعنی عادت اللہ یہ ہی رہی ہے کہ پیغمبروں کے مقابلہ میں جنہوں نے شرارتیں کیں اور فتنے فساد پھیلائے اسی طرح ذلیل و خوار، یا ہلاک کیے گئے۔ یا یہ مطلب ہے کہ پہلی کتابوں میں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ مفسدوں کو اپنے درمیان سے نکال باہر کرو۔ جیسا کہ حضرت شاہ صاحب "تورات" سے نقل فرماتے ہیں۔
۶۳ ۔۔۔ گویا قیامت کے وقت کی ٹھیک تعیین کر کے اللہ نے کسی کو نہیں بتلایا۔ مگر یہاں اس کے قرب کی طرف اشارہ کر دیا۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلی اٹھا کر فرمایا "انا والساعۃ کہاتین" (میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں) یعنی بیچ کی انگلی جس قدر آگے نکلی ہوئی ہے میں قیامت سے بس اتنا پہلے آگیا ہوں قیامت بہت قریب لگی چلی آ رہی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "شاید یہ بھی منافقوں نے ہتھکنڈا پکڑا ہو گا کہ جس چیز کا (دنیا میں کسی کے پاس) جواب نہیں وہ ہی بار بار سوال کریں۔ اس پر یہاں ذکر کر دیا۔" اور ممکن ہے پہلے جو فرمایا تھا۔ "لعنہم اللہ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مصیبا۔" اس پر بطور تکذیب و استہزاء کے کہتے ہوں گے کہ وہ قیامت اور آخرت کب آئے گی جس کی دھمکیاں دی جاتی ہیں؟ آخر اس کا کچھ وقت تو بتاؤ۔
۶۴ ۔۔۔ اسی پھٹکار کا اثر ہے کہ لا طائل سوالات کر تے ہیں، انجام کی فکر نہیں کرتے۔
۶۶ ۔۔۔ ۱: یعنی اوندھے منہ ڈال کر ان کے چہروں کو آگ میں الٹ پلٹ کیا جائے گا۔
۲: اس وقت حسرت کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں اللہ و رسول کے کہنے پر چلتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔
۶۸ ۔۔۔ یہ شدت غیظ سے کہیں گے کہ ہمارے ان دنیاوی سرداروں اور مذہبی پیشواؤں نے دھوکے دے کر اور جھوٹ فریب کہہ کر اس مصیبت میں پھنسوایا۔ ان ہی کے اغواء پر ہم راہ حق سے بھٹکے رہے۔ اگر ہمیں سزا دی جاتی ہے تو ان کو دوگنی سزا دیجئے۔ اور جو پھٹکار ہم پر ہے اس سے بڑی پھٹکار ان بڑوں پر پڑنی چاہیے۔ گویا ان کو دوگنی سزا دلوا کر اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہیں گے۔ اسی مضمون کی ایک آیت سورہ "اعراف" کے چوتھے رکوع میں گزر چکی ہے۔ وہیں ان کی اس فریاد کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔
۶۹ ۔۔۔ یعنی تم ایسا کوئی کام یا کوئی بات نہ کرنا جس سے تمہارے نبی کو ایذاء پہنچے۔ نبی کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی بڑے آبرو ہے وہ سب اذیت دہ باتوں کو رد کر دے گا ہاں تمہاری عاقبت خراب ہو گی۔ دیکھوحضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت لوگوں نے کیسی اذیت دہ باتیں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی وجاہت و مقبولیت کی وجہ سے سب کا ابطال فرما دیا اور موسیٰ کا بے خطا اور بے داغ ہونا ثابت کر دیا۔ روایات میں ہے کہ بعض مفسد حضرت موسیٰ کو تہمت لگانے لگے کہ حضرت ہارون کو جنگل میں لے جا کر قتل کر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک خارق عادت طریقہ سے اس کی تردید کر دی۔ اور صحیحین میں ہے کہ حضرت موسیٰ حیا کی وجہ سے (ابنائے زمانہ کے دستور کے خلاف) چھپ کر غسل کرتے تھے، لوگوں نے کہا کہ ان کے بدن میں کچھ عیب ہے، برص کا داغ یا خصیہ پھولا ہوا۔ ایک روز حضرت موسیٰ اکیلے نہانے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگا۔ حضرت موسیٰ عصا لے کر اس کے پیچھے دوڑے، جہاں سب لوگ دیکھتے تھے پتھر کھڑا ہو گیا سب نے برہنہ دیکھ کر معلوم کر لیا کہ بے عیب ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے "پوشاند لباس ہرکرا عیب سے دید۔ بع عیباں رالباس عریانی داد۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قارون نے ایک عورت کو کچھ دے دلا کر مجمع میں کہلا دیا کہ موسیٰ علیہ السلام (العیاذ باللہ) اس کے ساتھ مبتلا ہیں۔ حق تعالیٰ نے آخرکار قارون کو زمین میں دھنسا دیا اور اسی عورت کی زبان سے اس تہمت کی تردید کرائی جیسا کہ سورہ "قصص" میں گزرا۔
(تنبیہ) موسیٰ علیہ السلام کا پتھر کے تعاقب میں برہنہ چلے جانا مجبوری کی وجہ سے تھا اور شاید یہ خیال بھی نہ ہو کہ پتھر مجمع میں لے جا کر کھڑا کر دے گا رہی پتھر کی حرکت وہ بطور خرق عادت تھی۔ خوارق عادات پر ہم نے ایک مستقل مضمون لکھا ہے اسے پڑھ لینے کے بعد اس قسم کی جزئیات میں الجھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بہرحال اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں انبیاء علیہم السلام کو جسمانی و روحانی عیوب سے پاک ثابت کرنے کا کس قدر اہتمام ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے تنفر اور استخفاف کے جذبات پیدا ہو کر قبول حق میں رکاوٹ نہ ہو۔
۷۱ ۔۔۔ یعنی اللہ سے ڈر کر درست اور سیدھی بات کہنے والے کو بہترین اور مقبول اعمال کی توفیق ملتی ہے اور تقصیرات معاف کی جاتی ہیں حقیقت میں اللہ و رسول کی اطاعت ہی میں حقیقی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے جس نے یہ راستہ اختیار کیا مراد کو پہنچ گیا۔
۷۲ ۔۔۔ یعنی ستم کر دئیے، جو بوجھ آسمان، زمین اور پہاڑوں سے نہ اٹھ سکتا تھا اس نادان نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیا آسماں بار امانت نتوانست کشید قرہ فال بنام من دیوانہ زدند۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ہے؟ پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر۔ آسمان و زمین وغیرہ میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہ ہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے۔ اس پرائی چیز (یعنی حکم) کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ اس کا انجام یہ ہے کہ منکروں کو قصور پر پکڑا جائے اور ماننے والوں کا قصور معاف کیا جائے۔ اب بھی یہ ہی حکم ہے کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کر دے تو بدلہ (ضمان) دینا پڑے گا اور بے اختیار ضائع ہو جائے تو بدلہ نہیں۔" (موضح) اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی ایک خاص امانت مخلوق کی کسی نوع میں رکھنے کا ارادہ کیا جو اس امانت کو اگر چاہے تو اپنی سعی و کسب اور قوت بازو سے محفوظ رکھ سکے اور ترقی دے سکے۔ تاکہ اس سلسلہ میں اللہ کی ہر قسم کی شؤن و صفات کا ظہور ہو مثلاً اس نوع کے جو افراد امانت کو پوری طرح محفوظ رکھیں اور ترقی دیں ان پر انعام و اکرام کیا جائے۔ جو غفلت یا شرارت سے ضائع کر دیں ان کو سزا دی جائے اور جو لوگ اس بارہ میں قدرے کوتاہی کریں ان سے عفو درگزر کا معاملہ ہو۔ میرے خیال میں یہ امانت ایمان و ہدایت کا ایک تخم ہے جو قلوب بنی آدم میں بکھیرا گیا۔ جس کو " مایہ التکلیف" بھی کہہ سکتے ہیں۔ "لاایمان لمن لاامانۃ لہ"اسی کی نگہداشت اور تردد کرنے سے ایمان کا درخت اگتا ہے گویا بنی آدم کے قلوب اللہ کی زمینیں ہیں، بیج بھی اسی نے ڈال دیا ہے بارش برسانے کے لیے رحمت کے بادل بھی اس نے بھیجے جن کے سینوں سے وحی الٰہی کی بارش ہوئی۔ آدمی کا فرض یہ ہے کہ ایمان کے اس بیج کو جو امانت الٰہیہ ہے ضائع نہ ہونے دے بلکہ پوری سعی و جہد اور تردد و تفقد سے اس کی پرورش کرے مبادا غلطی یا غفلت سے بجائے درخت اگنے کے بیج بھی سوخت ہو جائے اسی کی طرف اشارہ ہے۔ حذیفہ کی اس حدیث میں "ان الا مانۃ نزلت من السماء فی جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرٰن"(الحدیث) یہ امانت وہ ہی تخم ہدایت ہے جو اللہ کی طرف سے قلوب رجال میں تہ نشین کیا گیا۔ پھر علوم قرآن و سنت کی بارش ہوئی جس سے اگر ٹھیک طور پر انتفاع کیا جائے تو ایمان کا پودا اگے، بڑھے، پھولے، پھلے اور آدمی کو اس کے ثمرہ شیریں سے لذت اندوز ہونے کا موقع ملے۔ اگر انتفاع میں کوتاہی کی جائے تو اسی قدر درخت کے ابھرنے اور پھولنے پھلنے میں نقصان رہے یا بالکل غفلت برتی جائے تو سرے سے تخم بھی برباد ہو جائے۔ یہ امانت تھی جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو دکھلائی۔ مگر کس میں استعداد تھی جو اس امانت عظیمہ کو اٹھانے کا حوصلہ کرتا۔ ہر ایک نے بلسان حال یا بزبان قال ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے ڈر کر انکار کر دیا کہ ہم سے یہ بار نہ اٹھ سکے گا۔ خود سوچ لو کہ بجز انسان کے کون سی مخلوق ہے جو اپنے کسب و محنت سے اس تخم ایمان کی حفاظت و پرورش کر کے ایمان کا شجر بار آور حاصل کر سکے۔ فی الحقیقت عظیم الشان امانت کا حق ادا کر سکنا اور ایک افتادہ زمین کو جس میں مالک نے تخم تیزی کر دی تھی خون پسینہ ایک کر کے باغ و بہار بنا لینا اسی ظلوم و جہول انسان حصہ ہو سکتا ہے جس کے پاس زمین قابل موجود ہے اور محنت و تردد کر کے کسی چیز کو بڑھانے کی قدرت اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی ہے۔ "ظلوم" و "جہول"۔ "ظالم" و "جاہل" کا مبالغہ ہے۔ ظالم و جاہل وہ کہلاتا ہے جو بالفعل عدل اور علم سے خالی ہو مگر استعداد و صلاحیت ان صفات کے حصول کی رکھتا ہو۔ پس جو مخلوق بدء فطرت سے علم و عدل کے ساتھ متصف ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی یہ اوصاف سے جدا نہیں ہوئے مثلاً ملائکۃ اللہ یا جو مخلوق ان چیزوں کے حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی (مثلاً زمین آسمان پہاڑ وغیرہ) ظاہر ہے کہ دونوں اس امانت الٰہیہ کے حامل نہیں بن سکتے۔ بیشک انسان کے سوا "جن" ایک نوع ہے جس میں فی الجملہ استعداد اس کے تحمل کی پائی جاتی ہے اور اسی لیے "وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون" میں دونوں کو جمع کیا گیا۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ ادائے حق امانت کی استعداد ان میں اتنی ضعیف تھی کہ حمل امانت کے مقام میں چنداں قابل ذکر اور درخور اعتناء نہیں سمجھے گئے۔ گویا وہ اس معاملہ میں انسان کے تابع قرار دیئے گئے جن کا نام مستقل طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
۷۳ ۔۔۔ میرے نزدیک اس جگہ "ویتوب اللہ علی المومنین" الخ کے معنی معاف کرنے کے نہ لیے جائیں بلکہ ان کے حال پر متوجہ ہونے اور مہربانی فرمانے کے لیں تو بہتر ہے جیسے "لقدتاب اللہ علی النبی والمہاجرین " میں لیے گئے ہیں۔ یہ تو مومنین کاملین کا بیان ہوا۔ اور "وکان اللہ غفورا رحیما" میں قاصرین و مقصرین کے حال کی طرف اشارہ فرما دیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ نسال اللہ تعالیٰ ان یتوب علینا ویغفرلنا وثیبنبا بالفوز اعلیم۔ انہ جل جلالہ وعم نوالہ غفور رحیم۔ تم سورہ الاحزاب وللہ الحمد والمنۃ۔