خزائن العرفان

سورة یسٓ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ یٰسٓ مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، تراسی آیتیں، سات سو انتیس کلمے، تین ہزار حروف ہیں۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے کہ ہر چیز کے لئے قلب ہے اور قرآن کا قلب یٰسٓ ہے اور جس نے یٰسٓ پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھتا ہے , یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں ایک راوی مجہول ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اپنے اموات پر یٰسٓ پڑھو اسی لئے قریبِ موت حالتِ نزع میں مرنے والوں کے پاس یٰسٓ پڑھی جاتی ہے۔

(۱) یسٰں

(۲) حکمت والے  قرآن کی قسم۔

(۳) بیشک تم (ف ۲)

۲                 اے سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

(۴) سیدھی راہ پر بھیجے  گئے  ہو (ف ۳)

۳                 جو منزلِ مقصود کو پہنچانے والی ہے یہ راہ توحید و ہدایت کی راہ ہے تمام انبیاء علیہم السلام اسی راہ پر رہے ہیں، اس آیت میں کُفّار کا رد ہے جو حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہتے تھے لَسْتَ مُرْسَلاً  تم رسول نہیں ہو۔ اس کے بعد قرآنِ کریم کی نسبت ارشاد فرمایا۔

(۵) عزت والے  مہربان کا اتارا ہوا۔

(۶) تاکہ تم اس قوم کو ڈر سناؤ جس کے  باپ دادا نہ ڈرائے  گئے  (ف ۴) تو وہ بے  خبر ہیں۔

۴                 یعنی ان کے پاس کوئی نبی نہ پہنچے اور قومِ قریش کا یہی حال ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پہلے ان میں کوئی رسول نہیں آیا۔

(۷) بیشک ان میں اکثر پر بات ثابت ہو چکی ہے  (ف ۵) تو وہ ایمان نہ لائیں گے  (ف ۶)

۵                 یعنی حکمِ الٰہی و قضائے ازلی ان کے عذاب پر جاری ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد لَاَ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ  ان کے حق میں ثابت ہو چکا ہے اور عذاب کا ان کے لئے مقرر ہو جانا اس سبب سے ہے کہ وہ کُفر و انکار پر اپنے اختیار سے مُصِر رہنے والے ہیں۔

۶                 اس کے بعد ان کے کُفر میں پختہ ہونے کی ایک تمثیل ارشاد فرمائی۔

(۸) ہم نے  ان کی گردنو ں میں طوق کر دیے  ہیں کہ وہ ٹھوڑیوں تک ہیں تو یہ اوپر کو منہ اٹھائے  رہ گئے  (ف ۷)

۷                 یہ تمثیل ہے ان کے کُفر میں ایسے راسخ ہونے کی آیات و نُذر پند و ہدایت کسی سے وہ منتفع نہیں ہو سکتے جیسے کہ وہ شخص جن کی گردنوں میں غُل کی قِسم کا طوق پڑا ہو جو ٹھوڑی تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سر نہیں جھکا سکتے، یہی حال ان کا ہے کہ کسی طرح ان کو حق کی طرف التفات نہیں ہوتا اور اس کے حضور سر نہیں جھکاتے اور بعض مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی حقیقتِ حال ہے، جہنّم میں انہیں اسی طرح کا عذاب کیا جائے گا جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اِذِ الْاَغْلَالُ فِیْ اَعْنَا قِہِمْ۔

شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل اور اس کے دو مخزومی دوستوں کے حق میں نازل ہوئی ابوجہل نے قَسم کھائی تھی کہ اگر وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو پتّھر سے سر کچل ڈالے گا جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ اسی ارادۂ فاسدہ سے ایک بھاری پتّھر لے کر آیا جب اس نے پتّھر کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ گردن میں چِپکے رہ گئے اور پتّھر ہاتھ کو لپٹ گیا یہ حال دیکھ کر اپنے دوستوں کی طرف واپس ہوا اور ان سے واقعہ بیان کیا تو اس کے دوست ولید بن مغیرہ نے کہا کہ یہ کام میں کروں گا اور ان کا سر کچل کر ہی آؤں گا چنانچہ وہ پتّھر لے آیا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ابھی نماز ہی پڑھ رہے تھے، جب یہ قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی سلب کر لی حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی آواز سنتا تھا آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، یہ بھی پریشان ہو کر اپنے یاروں کی طرف لوٹا وہ بھی نظر نہ آئے انہوں نے ہی اسے پکار ا اور اس سے کہا کہ تو نے کیا کیا ؟ کہنے لگا میں نے ان کی آواز تو سنی مگر وہ نظر ہی نہیں آئے، اب ابوجہل کے تیسرے دوست نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کام کو انجام دے گا اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف چلا تھا کہ الٹے پاؤں ایسا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اوندھے منھ گر گیا اس کے دوستوں نے حال پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا حال بہت سخت ہے میں نے ایک بہت بڑا سانڈ دیکھا جو میرے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے درمیان حائل ہو گیا، لات و عزّیٰ کی قَسم اگر میں ذرا بھی آ گے بڑھتا تو وہ مجھے کھا ہی جاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن و جمل)

(۹) اور ہم نے  ان کے  آگے  دیوار بنا دی اور ان کے  پیچھے  ایک دیوار اور انہیں اوپر سے  ڈھانک دیا تو انہیں کچھ نہیں سوجھتا (ف ۸)

۸                 یہ بھی تمثیل ہے کہ جیسے کسی شخص کے لئے دونوں طرف دیواریں ہوں اور ہر طرف سے راستہ بند کر دیا گیا ہو وہ کسی طرح منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا یہی حال ان کُفّار کا ہے کہ ان پر ہر طرف سے ایمان کی راہ بند ہے سامنے ان کے غرورِ دنیا کی دیوار ہے اور ان کے پیچھے تکذیبِ آخرت کی اور وہ جہالت کے قید خانہ میں محبوس ہیں آیات و دلائل میں نظر کرنا انہیں میسّر نہیں۔

(۱۰) اور انہیں ایک سا ہے  تم انہیں ڈراؤٕ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان  لانے  کے  نہیں۔

(۱۱) تم تو اسی کو ڈر سناتے  ہو (ف ۹) جو نصیحت پر چلے  اور رحمن سے  بے  دیکھے  ڈرے، تو اسے  بخشش اور عزت کے  ثواب کی بشارت دو (ف ۱۰)

۹                 یعنی آپ کے ڈر سنانے اور خوف دلانے سے وہی نفع اٹھاتا ہے۔

۱۰               یعنی جنّت کی۔

(۱۲) بیشک ہم مُردوں کو جِلائیں گے  اور ہم لکھ رہے  ہیں جو انہوں نے  آگے  بھیجا (ف ۱۱) اور جو نشانیاں پیچھے  چھوڑ گئے  (ف ۱۲) اور ہر چیز  ہم نے  گن رکھی ہے  ایک بتانے  وا لی کتاب میں (ف ۱۳)

۱۱               یعنی دنیا کی زندگانی میں جو نیکی یا بدی کی تاکہ اس پر جزا دی جائے۔

۱۲               یعنی اور ہم ان کی وہ نشانیاں، وہ طریقے بھی لکھتے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا بد، جو نیک طریقے اُمّتی نکالتے ہیں ان کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور اس طریقے کو نکالنے والوں اور عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے اور جو بُرے طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعتِ سیّئہ کہتے ہیں اس طریقے کے نکالنے والے اور عمل کرنے والوں دونوں گناہ گار ہوتے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کو بھی ثواب بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کے بھی گناہ بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدہا امورِ خیر مثلِ فاتحہ گیارہویں و تیجہ و چالیسواں و عرس و توشہ و ختم و محافلِ ذکرِ میلاد و شہادت جن کو بد مذہب لوگ بدعت کہہ کر منع کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نیکیوں سے روکتے ہیں یہ سب درست اور باعثِ اجر و ثواب ہیں اور ان کو بدعتِ سیّئہ بتانا غلط و باطل ہے۔ یہ طاعات اور اعمالِ صالحہ جو ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ہیں بدعتِ سیّئہ نہیں۔ بدعتِ سیّئہ وہ بُرے طریقے ہیں جن سے دین کو نقصان پہنچتا ہے اور جو سنّت کے مخالف ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ جو قوم بدعت نکالتی ہے اس سے ایک سنّت اٹھ جاتی ہے تو بدعت سیّئہ وہی ہے جس سے سنّت اٹھتی ہو جیسے کہ رفض، خروج، وہابیّت یہ سب انتہا درجہ کی خراب سیّئہ بدعتیں ہیں، رفض و خروج جو اصحاب و اہلِ بیتِ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عداوت پر مبنی ہیں، ان سے اصحاب و اہلِ بیت کے ساتھ مَحبت و نیاز مندی رکھنے کی سنّت اٹھ جاتی ہے جس کے شریعت میں تاکیدی حکم ہیں، وہابیّت کی اصل مقبولانِ حق حضراتِ انبیاء و اولیاء کی جناب میں بے ادبی و گستاخی اور تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دینا ہے، اس سے بزرگانِ دین کی حرمت و عزّت اور ادب و تکریم اور مسلمانوں کے ساتھ اخوّت و مَحبت کی سنّتیں اٹھ جاتی ہیں جن کی بہت شدید تاکیدیں ہیں اور جو دین میں بہت ضروری چیزیں ہیں اور اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا کہ آثار سے مراد وہ قَدم ہیں جو نمازی مسجد کی طرف چلنے میں رکھتا ہے اور اس معنیٰ پر آیت کی شانِ نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیّبہ کے کنارے پر رہتے تھے انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب آ بسیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور سیدِ عاَلم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے قَدم لکھے جاتے ہیں تم مکان تبدیل نہ کرو یعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔

۱۳               یعنی لوحِ محفوظ میں۔

(۱۳) اور ان سے  نشانیاں بیان کرو اس شہر والوں کی (ف ۱۴) جب ان کے  پاس فرستادے  (رسول) آئے، (ف ۱۵)

۱۴               اس شہر سے مراد انطاکیہ ہے یہ ایک بڑا شہر ہے اس میں چشمے ہیں، کئی پہاڑ ہیں، ایک سنگین شہرِ پناہ ہے، بارہ میل کے دور میں بستا ہے۔

۱۵               حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعہ کا مختصر بیان یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دو حواریوں صادق و صدوق کو انطاکیہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو جو بُت پرست تھے دینِ حق کی دعوت دیں جب یہ دونوں شہر کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ بکریاں چرا رہا ہے اس شخص کا نام حبیب نجّار تھا اس نے ان کا حال دریافت کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے ہیں تمہیں دینِ حق کی دعوت دینے آئے ہیں کہ بُت پرستی چھوڑ کر خدا پرستی اختیار کرو، حبیب نجّار نے نشانی دریافت کی انہوں نے کہا کہ نشانی یہ ہے کہ ہم بیماروں کو اچھا کرتے ہیں، اندھوں کو بینا کرتے ہیں، برص والے کا مرض دور کر دیتے ہیں، حبیب نجّار کا ایک بیٹا دو سال سے بیمار تھا، انہوں نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندرست ہو گیا، حبیب ایمان لائے اور اس واقعہ کی خبر مشہور ہو گئی تا آنکہ ایک خَلقِ کثیر نے ان کے ہاتھوں اپنے امراض سے شفا پائی یہ خبر پہنچنے پر بادشاہ نے انہیں بُلا کر کہا کیا ہمارے معبودوں کے سوا اور کوئی معبود بھی ہے ؟ ان دونوں نے کہا ہاں وہی جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا پھر لوگ ان کے درپے ہوئے اور انہیں مارا اور یہ دونوں قید کر لئے گئے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شمعون کو بھیجا وہ اجنبی بن کر شہر میں داخل ہوئے اور بادشاہ کے مصاحبین و مقرَّبین سے رسم و راہ پیدا کر کے بادشاہ تک پہنچے اور اس پر اپنا اثر پیدا کر لیا جب دیکھا کہ بادشاہ ان سے خوب مانوس ہو گیا ہے تو ایک روز بادشاہ سے ذکر کیا کہ دو جو آدمی قید کئے گئے ہیں کیا ان کی بات سنی گئی تھی وہ کیا کہتے تھے ؟ بادشاہ نے کہا کہ نہیں جب انہوں نے نئے دین کا نام لیا فوراً ہی مجھے غصّہ آ گیا شمعون نے کہا کہ اگر بادشاہ کی رائے ہو تو انہیں بلایا جائے دیکھیں ان کے پاس کیا ہے چنانچہ وہ دونوں بلائے گئے، شمعون نے ان سے دریافت کیا تمہیں کس نے بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا اس اللہ نے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر جاندار کو روزی دی اورجس کا کوئی شریک نہیں، شمعون نے کہا اس کی مختصر صفت بیان کرو انہوں نے کہا وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے، شمعون نے کہا تمہاری نشانی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا جو بادشاہ چاہے تو بادشاہ نے ایک اندھے لڑکے کو بلایا انہوں نے دعا کی وہ فوراً بینا ہو گیا، شمعون نے بادشاہ سے کہا کہ اب مناسب یہ ہے کہ تو اپنے معبودوں سے کہہ کہ وہ بھی ایسا ہی کر کے دکھائیں تاکہ تیری اور ان کی عزّت ظاہر ہو، بادشاہ نے شمعون سے کہا کہ تم سے کچھ چھُپانے کی بات نہیں ہے ہمارا معبود نہ دیکھے، نہ سنے، نہ کچھ بگاڑ سکے، نہ بنا سکے پھر بادشاہ نے ان دونوں حواریوں سے کہا کہ اگر تمہارے معبود کو مُردے کے زندہ کر دینے کی قدرت ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں، انہوں نے کہا ہمارا معبود ہر شے پر قادر ہے، بادشاہ نے ایک دہقان کے لڑکے کو منگایا جس کو مرے ہوئے سات دن ہو گئے تھے اور جسم خراب ہو چکا تھا، بدبو پھیل رہی تھی، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں مشرک مرا تھا مجھ کو جہنّم کے سات وادیوں میں داخل کیا گیا، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ جس دین پر تم ہو بہت نقصان دہ ہے، ایمان لاؤ اور کہنے لگا کہ آسمان کے دروازے کھُلے اور ایک حسین جوان مجھے نظر آیا جو ان تینوں شخصوں کی سفارش کرتا ہے، بادشاہ نے کہا کون تین ؟ اس نے کہا ایک شمعون اور دو یہ، بادشاہ کو تعجّب ہوا، جب شعمون نے دیکھا کہ اس کی بات بادشاہ میں اثر کر گئی تو اس نے بادشاہ کو نصیحت کی وہ ایمان لایا اور اس کی قوم کے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ ایمان نہ لائے اور عذابِ الٰہی سے ہلاک کئے گئے۔

(۱۴) جب ہم نے  ان کی طرف  دو بھیجے  (ف ۱۶) پھر انہوں نے  ان کو جھٹلایا تو ہم نے  تیسرے  سے  زور دیا (ف ۱۷) اب ان سب نے  کہا (ف ۱۸) کہ بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے  گئے  ہیں۔

۱۶               یعنی دو حواری۔ وہب نے کہا کہ ان کے نام یوحنا اور بولس تھے اور کعب کا قول ہے کہ صادق و صدوق۔

۱۷               یعنی شمعون سے تقویت اور تائید پہنچائی۔

۱۸               یعنی تینوں فرستادوں نے۔

(۱۵) بولے  تم تو نہیں مگر  ہم جیسے  آدمی اور  رحمن نے  کچھ نہیں اتارا تم نرے  جھوٹے  ہو۔

(۱۶) وہ بولے  ہمارا  رب جانتا ہے  کہ بیشک ضرور ہم تمہاری طرف بھیجے  گئے  ہیں۔

(۱۷) اور ہمارے  ذمہ  نہیں مگر صاف پہنچا دینا (ف ۱۹)

۱۹               ادلّۂ واضحہ کے ساتھ اور وہ اندھوں اور بیماروں کو اچھا کرتا اور مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔

(۱۸) بولے  ہم تمہیں منحوس سمجھتے  ہیں (ف ۲۰) بیشک اگر تم باز نہ آئے  (ف ۲۱) تو ضرور ہم تمہیں سنگسار کریں گے  بیشک ہمارے  ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے  گی۔

۲۰               جب سے تم آئے ہو بارش ہی نہیں ہوئی۔

۲۱               اپنے دین کی تبلیغ سے۔

(۱۹) انہوں نے  فرمایا تمہاری نحوست تو تمہارے  ساتھ ہے  (ف ۲۲) کیا  اس پر بدکتے  ہو کہ تم سمجھائے  گئے  (ف ۲۳) بلکہ تم حد سے  بڑھنے  والے  لوگ ہو (ف ۲۴)

۲۲               یعنی تمہار ا کُفر۔

۲۳               اور تمہیں اسلام کی دعوت دی گئی۔

۲۴               ضلال و طُغیان میں اور یہی بڑی نحوست ہے۔

(۲۰) اور شہر کے  پرلے  کنارے  سے  ایک مرد  دوڑتا آیا  (ف ۲۵) بولا، اے  میری قوم! بھیجے  ہوؤں کی پیروی کرو۔

۲۵               یعنی حبیب نجّار جو پہاڑ کے غار میں مصروفِ عبادتِ الٰہی تھا جب اس نے سنا کہ قوم نے ان فرستادوں کی تکذیب کی۔

(۲۱)  ایسوں کی پیروی کرو جو تم سے  کچھ نیگ (اجر) نہیں مانگتے  اور  وہ راہ پر ہیں۔

(۲۲)  (ف ۲۶) اور مجھے  کیا ہے  کہ اس کی بندگی نہ کروں  جس نے  مجھے  پیدا کیا اور اسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے، (ف ۲۷)

۲۶               حبیب نجّار کی یہ گفتگو سن کر قوم نے کہا کہ کیا تو ان کے دین پر ہے اور تو ان کے معبود پر ایمان لے آیا ؟ اس کے جواب میں حبیب نجّار نے کہا۔

۲۷               یعنی ابتدائے ہستی سے جس کی ہم پر نعمتیں ہیں اور آخِرِ کار بھی اسی کی طرف رجوع کرنا ہے اس مالکِ حقیقی کی عبادت نہ کرنا کیا معنیٰ اور اس کی نسبت اعتراض کیسا، ہر شخص اپنے وجود پر نظر کر کے اس کے حقِ نعمت و احسان کو پہچان سکتا ہے۔

(۲۳) کیا اللہ کے  سوا اور خدا ٹھہراؤں (ف ۲۸) کہ اگر رحمٰن میرا کچھ برا چاہے  تو ان کی سفارش میرے  کچھ کام نہ آئے  اور نہ وہ مجھے  بچا سکیں۔

۲۸               یعنی کیا بُتوں کو معبود بناؤں۔

(۲۴)  بیشک جب تو میں کھلی گمراہی میں ہو (ف ۲۹)

۲۹               جب حبیب نجّار نے اپنی قوم سے ایسا نصیحت آمیز کلام کیا تو وہ لوگ ان پر یکبارگی ٹوٹ پڑے اور ان پر پتّھراؤ شروع کیا اور پاؤں سے کچلا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا۔ قبر ان کی انطاکیہ میں ہے جب قوم نے ان پر حملہ شروع کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرستادوں سے بہت جلدی کر کے یہ کہا۔

(۲۵) مقرر میں تمہارے  رب پر ایمان لایا تو میری سنو (ف ۳۰)

۳۰               یعنی میرے ایمان کے شاہد رہو جب وہ قتل ہو چکے تو بطریقِ اکرام۔

(۲۶) اس سے  فرمایا گیا کہ جنت میں داخل ہو (ف ۳۱)  کہا کسی طرح میری قوم جانتی۔

۳۱               جب وہ جنّت میں داخل ہوئے اور وہاں کی نعمتیں دیکھیں۔

(۲۷)  جیسی میرے  رب نے  میری مغفرت کی اور مجھے  عزت والوں میں کیا (ف ۳۲)

۳۲               حبیب نجّار نے یہ تمنّا کی کہ ان کی قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حبیب کی مغفرت کی اور اِکرام فرمایا تاکہ قوم کو مرسلِین کے دین کی طرف رغبت ہو۔ جب حبیب قتل کر دیئے گئے تو اللہ ربُّ العزّت کا اس قوم پر غضب ہوا اور ان کی عقوبت و سزا میں تاخیر نہ فرمائی گئی۔ حضرت جبریل کو حکم ہوا اور ان کی ایک ہی ہولناک آواز سے سب کے سب مر گئے چنانچہ ارشاد فرمایا جاتا ہے۔

(۲۸) اور ہم نے  اس کے  بعد اس کی قوم پر آسمان سے  کوئی لشکر نہ اتارا (ف ۳۳) اور نہ ہمیں وہاں کوئی لشکر اتارنا تھا۔

۳۳               اس قوم کی ہلاکت کے لئے۔

(۲۹) وہ تو بس ایک ہی چیخ تھی جبھی وہ بجھ کر رہ گئے  (ف ۳۴)۔

۳۴               فنا ہو گئے جیسے آگ بجھ جاتی ہے۔

(۳۰) اور کہا گیا کہ ہائے  افسوس ان بندوں پر (ف ۳۵) جب ان کے  پاس کوئی رسول آتا ہے  تو اس سے   ٹھٹھا ہی کرتے  ہیں۔

۳۵               ان پر اور ان کی مثل اور سب پر جو رسولوں کی تکذیب کر کے ہلاک ہوئے۔

(۳۱) کیا انہوں نے  نہ دیکھا (ف ۳۶) ہم نے  ان سے  پہلے  کتنی سنگتیں ہلاک فرمائیں کہ وہ اب ان کی طرف پلٹنے  والے  نہیں (ف ۳۷)

۳۶               یعنی اہلِ مکّہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرتے ہیں کہ۔

یعنی دنیا کی طرف لوٹنے والے نہیں کیا یہ لوگ ان کے حال سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔

(۳۲) اور جتنے  بھی ہیں سب کے  سب ہمارے  حضور حاضر لائے  جائیں گے  (ف ۳۸)

۳۸               یعنی تمام اُمّتیں روزِ قیامت ہمارے حضور حساب کے لئے موقَف میں حاضر کی جائیں گی۔

(۳۳) اور ان کے  لیے  ایک نشانی مردہ زمین ہے  (ف ۳۹) ہم نے  اسے  زندہ کیا (ف ۴۰) اور پھر اس سے  اناج نکالا تو اس میں سے  کھاتے  ہیں۔

۳۹               جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مُردہ کو زندہ فرمائے گا۔

۴۰               پانی برسا کر۔

(۳۴) اور ہم نے  اس میں (ف ۴۱) باغ بنائے  کھجوروں اور انگوروں کے  اور ہم نے  اس میں کچھ چشمے  بہائے  کہ۔

یعنی زمین میں۔

(۳۵)  اس کے  پھلوں میں سے  کھائیں اور یہ ان کے  ہاتھ کے  بنائے  نہیں تو کیا حق نہ مانیں گے  (ف ۴۲)

اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا نہ لائیں گے۔

(۳۶) پاکی ہے  اسے  جس نے  سب جوڑے  بنائے  (ف ۴۳) ان چیزوں سے  جنہیں زمین اگاتی ہے  (ف ۴۴) اور خود ان سے  (ف ۴۵) اور ان چیزوں سے  جن کی انہیں خبر نہیں (ف ۴۶)

یعنی اصناف و اقسام۔

۴۴               غلّے پھل وغیرہ۔

۴۵               اولادِ ذکور و اُناث۔

۴۶               بحر و بَر کی عجیب و غریب مخلوقات میں سے جس کی انسانوں کو خبر بھی نہیں ہے۔

(۳۷) اور ان کے  لیے  ایک نشانی (ف ۴۷) رات ہے   ہم اس پر سے  دن کھینچ لیتے  ہیں (ف ۴۸) جبھی وہ اندھیروں میں ہیں۔

۴۷               ہماری قدرتِ عظیمہ پر دلالت کرنے والی۔

۴۸               تو بالکل تاریک رہ جاتی ہے جس طرح کالے بھوجنگے حبشی کا سفید لباس اتار لیا جائے تو پھر وہ سیاہ ہی سیاہ رہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین کے درمیان کی فضا اصل میں تاریک ہے، آفتاب کی روشنی اس کے لئے ایک سفید لباس کی طرح ہے جب آفتاب غروب ہو جاتا ہے تو یہ لباس اتر جاتا ہے اور فضا اپنی اصلی حالت میں تاریک رہ جاتی ہے۔

(۳۸)  اور سورج چلتا ہے  اپنے  ایک ٹھہراؤ کے  لیے  (ف ۴۹) یہ حکم ہے  زبردست علم والے  کا (ف ۵۰)

۴۹               یعنی جہاں تک اس کی سیر کی نہایت مقرر فرمائی گئی ہے اور وہ روزِ قیامت ہے اس وقت تک وہ چلتا ہی رہے گا یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ اپنی منزلوں میں چلتا ہے اور جب سب سے دور والے مغرب میں پہنچتا ہے تو پھر لوٹ پڑتا ہے کیونکہ یہی اس کا مستقَر ہے۔

۵۰               اور یہ نشانی ہے جو اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ پر دلالت کرتی ہے۔

(۳۹) اور چاند کے  لیے  ہم نے  منزلیں مقرر کیں (ف ۵۱) یہاں تک کہ پھر ہو گیا  جیسے  کھجور کی پرانی ڈال (ٹہنی)  (ف ۵۲)

۵۱               چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں ہر شب ایک منزل میں ہوتا ہے اور پوری منزل طے کر لیتا ہے نہ کم چلے نہ زیادہ، طلوع کی تاریخ سے اٹھائیسویں تاریخ تک تمام منزلیں طے کر لیتا ہے اور اگر مہینہ تیس کا ہو تو دو شب اور انتیس ہو تو ایک شب چھُپتا ہے اور جب اپنے آخرِ منازل میں پہنچتا ہے تو باریک اور کمان کی طرح خمیدہ اور زرد ہو جاتا ہے۔

۵۲               جو سوکھ کر پَتلی اور خمیدہ اور زرد ہو گئی ہو۔

(۴۰) سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے  (ف ۵۳) اور نہ رات دن پر سبقت لے  جائے  (ف ۵۴) اور ہر ایک،  ایک گھیرے  میں پیر رہا ہے۔

۵۳               یعنی شب میں جو اس کے ظہورِ شوکت کا وقت ہے اس کے ساتھ جمع ہو کر اس کے نور کو مغلوب کرے کیونکہ سورج اور چاند میں سے ہر ایک کے ظہورِ شوکت کے لئے ایک وقت مقرر ہے، سورج کے لئے دن اور چاند کے لئے رات۔

۵۴               کہ دن کا وقت پورا ہونے سے پہلے آ جائے ایسا بھی نہیں بلکہ رات اور دن دونوں معیّن حساب کے ساتھ آتے جاتے ہیں کوئی ان میں سے اپنے وقت سے قبل نہیں آتا اور نیّرَین یعنی آفتاب و ماہتاب میں سے کوئی دوسرے کے حدودِ شوکت میں داخل نہیں ہوتا نہ آفتاب رات میں چمکے نہ ماہتاب دن میں۔

(۴۱) اور ان کے  لیے  نشانی یہ ہے  کہ انہیں ان بزرگوں کی پیٹھ میں ہم نے  بھری کشتی میں سوار کیا (ف ۵۵)

۵۵               جو سامان اسباب وغیرہ سے بھری ہوئی تھی، مراد اس سے کَشتیِ نوح ہے جس میں ان کے پہلے اجداد سوار کئے گئے تھے اور یہ ان کی ذُرِّیَّتیں ان کی پشت میں تھیں۔

(۴۲) اور ان کے  لیے  ویسی ہی کشتیاں بنا دیں جن پر سوار ہوتے  ہیں۔

(۴۳) اور ہم چاہیں تو انہیں ڈبو دیں (ف ۵۶) تو نہ کوئی ان کی فریاد کو پہنچنے  والا ہو اور نہ وہ بچائے  جائیں۔

۵۶               باوجود کَشتیوں کے۔

(۴۴) مگر ہماری طرف کی رحمت اور ایک وقت تک برتنے  دینا (ف ۵۷)

۵۷               جو ان کی زندگانی کے لئے مقرر فرمایا ہے۔

(۴۵) اور جب ان سے  فرمایا جاتا ہے  ڈرو تم اس سے  جو تمہارے  سامنے  ہے  (ف ۵۸) اور جو تمہارے  پیچھے  آنے  والا ہے  (ف ۵۹) اس امید پر کہ تم پر مہر ہو تو منہ پھیر لیتے  ہیں۔

۵۸               یعنی عذابِ دنیا۔

۵۹               یعنی عذابِ آخرت۔

(۴۶) اور جب کبھی ان کے  رب کی نشانیوں سے  کوئی نشانی ان  کے  پاس آتی ہے  تو اس سے  منہ پھیر لیتے  ہیں۔ (ف ۶۰)

۶۰               یعنی ان کا دستور اور طریقہ کار ہی یہ ہے کہ وہ ہر آیت و موعظت سے اعراض و رو گردانی کیا کرتے ہیں۔

(۴۷) اور جب ان سے  فرمایا جائے  اللہ کے  دیے  میں سے  کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو تو کافر مسلمانوں کے  لیے  کہتے  ہیں کہ کیا ہم اسے  کھلائیں جسے  اللہ چاہتا تو کھلا دیتا (ف ۶۱) تم تو نہیں مگر کھلی گمراہی میں۔

۶۱               شانِ نُزول : یہ آیت کُفّارِ قریش کے حق میں نازل ہوئی جن سے مسلمانوں نے کہا تھا کہ تم اپنے مالوں کا وہ حصّہ مسکینوں پر خرچ کرو جو تم نے بَزُعمِ خود اللہ تعالیٰ کے لئے نکالا ہے، اس پر انہوں نے کہا کہ کیا ہم ان کو کھلائیں جنہیں اللہ تعالیٰ کھلانا چاہتا تھا تو کھِلا دیتا، مطلب یہ تھا کہ خدا ہی کو مسکینوں کا محتاج رکھنا منظور ہے تو انہیں کھانے کو دینا اس کی مشیّت کے خلاف ہو گا یہ بات انہوں نے بخیلی اور کنجوسی سے بطورِ تمسخُر کے کہی تھی اور نہایت باطل تھی کیونکہ دنیا دارالامتحان ہے، فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں، فقیر کی آزمائش صبر سے اور غنی کی انفاق فی سبیلِ اللہ سے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ مکّہ مکرّمہ میں زندیق لوگ تھے جب ان سے کہا جاتا تھا کہ مسکینوں کو صدقہ دو تو کہتے تھے ہرگز نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ محتاج کرے ہم کھلائیں۔

(۴۸) اور کہتے  ہیں کب آئے  گا یہ وعدہ (ف ۶۲) اگر تم سچے  ہو (ف ۶۳)

۶۲               بَعث و قیامت کا۔

۶۳               اپنے دعوے میں ان کا یہ خِطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آپ کے اصحاب سے تھا اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے۔

(۴۹) راہ نہیں دیکھتے  مگر ایک چیخ کی (ف ۶۴) کہ انہیں  آلے  گی جب وہ دنیا  کے  جھگڑے  میں پھنسے  ہوں گے، (ف ۶۵)

۶۴               یعنی صور کے پہلے نفخہ کی جو حضرت اسرافیل علیہ السلام پھونکیں گے۔

۶۵               خرید و فروخت میں اور کھانے پینے میں اور بازاروں اور مجلسوں میں، دنیا کے کاموں میں کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے گی۔ حدیث شریف میں ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ خریدار اور بائع کے درمیان کپڑا پھیلا ہو گا نہ سودا تمام ہونے پائے گا، نہ کپڑا لپٹ سکے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی یعنی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور وہ کام ویسے ہی ناتمام رہ جائیں گے نہ انہیں خود پورا کر سکیں گے، نہ کسی دوسرے سے پورا کرنے کو کہہ سکیں گے اور جو گھر سے باہر گئے ہیں وہ واپس نہ آ سکیں گے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

(۵۰) تو نہ وصیت کر سکیں گے  اور نہ اپنے  گھر پلٹ کر جائیں (ف ۶۶)

۶۶               وہیں مر جائیں گے اور قیامت فرصت و مہلت نہ دے گی۔

(۵۱) اور پھونکا جائے  گا صور (ف ۶۷) جبھی وہ قبروں سے  (ف ۶۸) اپنے  رب کی طرف دوڑتے  چلیں گے۔

۶۷               دوسری مرتبہ، یہ نفخۂ ثانیہ ہے جو مُردوں کے اٹھانے کے لئے ہو گا اور ان دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہو گا۔

۶۸               زندہ ہو کر۔

(۵۲) کہیں گے  ہائے  ہماری خرابی کس نے  ہمیں سوتے  سے  جگا دیا (ف ۶۹) یہ ہے  وہ جس کا رحمٰن نے  وعدہ دیا تھا اور رسولوں نے  حق فرمایا (ف ۷۰)

۶۹               یہ مقولہ کُفّار کا ہو گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ یہ بات اس لئے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ دونوں نفخوں کے درمیان ان سے عذاب اٹھا دے گا اور اتنا زمانہ وہ سوتے رہیں گے اور نفخۂ ثانیہ کے بعد جب اٹھائے جائیں گے اور احوالِ قیامت دیکھیں گے تو اس طرح چیخ اٹھیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب کُفّار جہنّم اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو اس کے مقابلہ میں عذابِ قبر انہیں سہل معلوم ہو گا اس لئے وہ وَیل و افسوس پکار اٹھیں گے اور اس وقت کہیں گے۔

۷۰               اور اس وقت کا اقرار انہیں کچھ نافع نہ ہو گا۔

 (۵۳)  وہ تو نہ ہو گی مگر ایک چنگھاڑ (ف ۷۱) جبھی وہ سب کے  سب ہمارے  حضور حاضر ہو جائیں گے  (ف ۷۲)

۷۱               یعنی نفخۂ اخیرہ ایک ہولناک آواز ہو گی۔

۷۲               حساب کے لئے پھر ان سے کہا جائے گا۔

(۵۴) تو آج کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہو گا اور تمہیں بدلا نہ ملے  گا اپنے  کیے  کا۔

(۵۵)  بیشک جنت والے  آج دل کے  بہلاووں میں چین کرتے  ہیں (ف ۷۳)

۷۳               طرح طرح کی نعمتیں اور قِسم قِسم کے سرور اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت، جنّتی نہروں کے کنارے، بہشتی اشجار کی دلنواز فضائیں، طرب انگیز نغمات، حسینانِ جنّت کا قرب اور قِسم قِسم کی نعمتوں سے التذاذ، یہ ان کے شغل ہوں گے۔

(۵۶) وہ اور ان کی بیبیاں سایوں میں ہیں، تختوں پر تکیہ لگائے۔

(۵۷)  ان کے  لیے  اس میں میوہ ہے  اور  ان کے  لیے  ہے  اس میں جو مانگیں۔

(۵۸)  ان پر سلام ہو گا، مہربان رب کا فرمایا ہوا  (ف ۷۴)

۷۴               یعنی اللہ تعالیٰ ان پر سلام فرمائے گا خواہ بواسطہ یا بے واسطہ اور یہ سب سے بڑی اور پیاری مراد ہے۔ ملائکہ اہلِ جنّت کے پاس ہر دروازے سے آ کر کہیں گے تم پر تمہارے رحمت والے ربّ کا سلام۔

(۵۹)  اور آج الگ پھٹ جاؤ، اے  مجرمو! (ف ۷۵)

۷۵               جس وقت مومن جنّت کی طرف روانہ کئے جائیں گے، اس وقت کُفّار سے کہا جائے گا کہ الگ ہٹ جاؤ مومنین سے علیحدہ ہو جاؤ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم کُفّار کو ہو گا کہ الگ الگ جہنّم میں اپنے اپنے مقام پر جائیں۔

(۶۰) اے  اولاد آدم کیا میں نے  تم سے  عہد نہ لیا تھا (ف ۷۶) کہ شیطان کو نہ پوجنا (ف ۷۷) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

۷۶               اپنے انبیاء کی معرفت۔

۷۷               اس کی فرمانبرداری نہ کرنا۔

(۶۱)  اور میری بندگی کرنا (ف ۷۸) یہ سیدھی راہ ہے۔

۷۸               اور کسی کو عبادت میں میرا شریک نہ کرنا۔

(۶۲)  اور بیشک اس نے  تم میں سے  بہت سی خلقت کو بہکا دیا، تو کیا تمہیں عقل نہ تھی (ف ۷۹)

۷۹               کہ تم اس کی عداوت اور گمراہ گری کو سمجھتے اور جب وہ جہنّم کے قریب پہنچیں گے تو ان سے کہا جائے گا۔

(۶۳) یہ ہے  وہ جہنم جس کا  تم سے  وعدہ تھا۔

(۶۴)  آج اسی میں جاؤ بدلہ اپنے  کفر کا۔

(۶۵) آج ہم ان کے  مونھوں پر مہر کر دیں گے  (ف ۸۰) اور ان کے  ہاتھ ہم سے  بات کریں گے  اور ان  پاؤں ان کے  کئے  کی گواہی دیں گے  (ف ۸۱)

۸۰               کہ وہ بول نہ سکیں اور یہ مُہر کرنا ان کے یہ کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا۔

۸۱               ان کے اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے۔

(۶۶) اور اگر ہم چاہتے  تو ان کی آنکھیں مٹا دیتے  (ف ۸۲) پھر لپک کر رستہ کی طرف جاتے  تو انہیں کچھ نہ سوجھتا (ف ۸۳)

۸۲               کہ نشان بھی باقی نہ رہتا اس طرح کا اندھا کر دیتے۔

۸۳               لیکن ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنے فضل و کرم سے نعمتِ بصر ان کے پاس باقی رکھی تو اب ان پر حق یہ ہے کہ وہ شکر گزاری کریں کُفر نہ کریں۔

(۶۷) اور اگر ہم چاہتے  تو ان کے  گھر بیٹھے  ان کی صورتیں بدل دیتے  (ف ۸۴) نہ آگے  بڑھ سکتے  نہ پیچھے  لوٹتے  (ف ۸۵)

۸۴               اور انہیں بندر یا سور بنا دیتے۔

۸۵               اور ان کے جُرم اس کے مستدعی تھے لیکن ہم نے اپنی رحمت و حکمت کے حسبِ اِقتضا عذاب میں جلدی نہ کی اور ان کے لئے مہلت رکھی۔

(۶۸) اور جسے  ہم بڑی عمر کا کریں اسے  پیدائش میں الٹا پھیریں (ف ۸۶) تو کیا سمجھے  نہیں (ف ۸۷)

۸۶               کہ وہ بچپن کے سے ضعف و ناتوانی کی طرف واپس ہونے لگے اور دم بدم اس کی طاقتیں، قوّتیں اور جسم اور عقل گَھٹنے لگے۔

۸۷               کہ جو احوال کے بدلنے پر ایسا قادر ہو کہ بچپن کے ضعف و ناتوانی اور صِغرِ جسم و نادانی کے بعد شباب کی قوّتیں و توانائی و جسمِ قوی و دانائی عطا فرماتا ہے پھر کِبرِ سن اور آخرِ عمر میں اسی قوی ہیکل جوان کو دبلا اور حقیر کر دیتا ہے اب نہ وہ جسم باقی ہے نہ قوّتیں، نشست برخاست میں مجبوریاں درپیش ہیں، عقل کام نہیں کرتی، بات یاد نہیں رہتی، عزیز و اقارب کو پہچان نہیں سکتا، جس پروردگار نے یہ تغیّر کیا وہ قادر ہے کہ آنکھیں دینے کے بعد انہیں مٹا دے اور اچھی صورتیں عطا کرنے کے بعد ان کو مسخ کر دے اور موت دینے کے بعد پھر زندہ کر دے۔

(۶۹) اور ہم نے  ان کو شعر کہنا نہ سکھایا (ف ۸۸) اور نہ وہ ان کی شان کے  لائق ہے، وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن (ف ۸۹)

۸۸               معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو شِعر گوئی کا ملکہ نہ دیا یا یہ کہ قرآن تعلیمِ شِعر نہیں ہے اور شِعر سے کلامِ کاذب مراد ہے خواہ موزوں ہو یا غیرِ موزوں۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علومِ اوّلین و آخرین تعلیم فرمائے گئے جن سے کشفِ حقائق ہوتا ہے اور آپ کے معلومات واقعی نفس الامری ہیں، کذبِ شِعری نہیں جو حقیقت میں جہل ہے وہ آپ کی علمِ اوّلین و شان کے لائق نہیں اور آپ کا دامنِ تقدّس اس سے پاک ہے۔ اس میں شِعر بمعنی کلامِ موزوں کے جاننے اور اس کے صحیح و سقیم جیّد و ردّی کو پہچاننے کی نفی نہیں۔ علمِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں طعن کرنے والوں کے لئے یہ آیت کسی طرح سند نہیں ہو سکتی، اللہ تعالیٰ نے حضور کو علومِ کائنات عطا فرمائے اس کے انکار میں اس آیت کو پیش کرنا مَحض غلط ہے۔ شانِ نُزول : کُفّارِ قریش نے کہا تھا کہ محمّدِ (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) شاعر ہیں اور جو وہ فرماتے ہیں یعنی قرآنِ پاک وہ شِعر ہے اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ (معاذ اللہ) یہ کلامِ کاذب ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ا ن کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے کہ  بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِر  اسی کا اس آیت میں رد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں دیا اور یہ کتاب اشعار یعنی اکاذیب پر مشتمل نہیں، کُفّارِ قریش زبان سے ایسے بد ذوق اور نظمِ عروضی سے ایسے ناواقف نہ تھے کہ نثر کو نظم کہہ دیتے اور کلامِ پاک کو شِعرِ عروضی بتا بیٹھتے اور کلام کا مَحض وزنِ عروضی پر ہونا ایسا بھی نہ تھا کہ اس پر اعتراض کیا جا سکے، اس سے ثابت ہو گیا کہ ان بے دینوں کی مراد شِعر سے کلامِ کاذب تھی۔ (مدارک و جمل و روح البیان) اور حضرت شیخ اکبر قدّس سرہ نے اس آیت کے معنیٰ میں فرمایا ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے معمّے اور اجمال کے ساتھ خِطاب نہیں فرمایا جس میں مراد کے مخفی رہنے کا احتمال ہو بلکہ صاف صریح کلام فرمایا ہے جس سے تمام حجاب اٹھ جائیں اور علوم روشن ہو جائیں چونکہ شِعر لغز و توریہ اور رمز و اجمال کا محل ہوتا ہے اس لئے شِعر کی نفی فرما کر اس معنیٰ کو بیان فرما دیا۔

۸۹               صاف صریح حق و ہدایت، کہاں وہ پاک آسمانی کتاب تمام علوم کی جامع اور کہاں شِعر جیسا کلامِ کاذب چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔ (الکبریت الاحمر للشیخ الاکبر)

(۷۰) کہ اسے  ڈرائے  جو زندہ ہو (ف ۹۰) اور کافروں پر بات ثابت ہو جائے  (ف ۹۱)

۹۰               دل زندہ رکھتا ہو کلام و خِطاب کو سمجھے اور یہ شان مومن کی ہے۔

۹۱               یعنی حُجّتِ عذاب قائم ہو جائے۔

(۷۱)  اور کیا انہوں نے  نہ دیکھا کہ ہم نے  اپنے  ہاتھ کے  بنائے  ہوئے  چوپائے  ان کے  لیے  پیدا کیے  تو یہ ان کے  مالک ہیں۔

(۷۲) اور انہیں ان کے  لیے  نرم کر دیا (ف ۹۲) تو کسی پر سوار ہوتے  ہیں اور کسی کو کھاتے  ہیں۔

۹۲               یعنی مسخّر و زیرِ حکم کر دیا۔

(۷۳) اور ان کے  لیے  ان میں کئی طرح کے  نفع (ف ۹۳) اور پینے  کی چیزیں ہیں (ف ۹۴) تو کیا شکر نہ کریں گے  (ف ۹۵)

۹۳               اور فائدے ہیں کہ ان کی کھالوں، بالوں اور اون وغیرہ کام میں لاتے ہیں۔

۹۴               دودھ اور دودھ سے بننے والی چیزیں وہی مٹّھا وغیرہ۔

۹۵               اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا۔

(۷۴)  اور انہوں نے  اللہ کے  سوا  اور خدا ٹھہرا لیے  (ف ۹۶) کہ شاید ان کی مدد ہو (ف ۹۷)

۹۶               یعنی بُتوں کو پُوجنے لگے۔

۹۷               اور مصیبت کے وقت کام آئیں اور عذاب سے بچائیں اور ایسا ممکن نہیں۔

(۷۵) وہ ان کی مدد نہیں کر سکتے  (ف ۹۸) اور وہ ان کے  لشکر سب گرفتار حاضر آئیں گے  (ف ۹۹)

۹۸               کیونکہ جماد بے جان، بے قدرت، بے شعور ہیں۔

۹۹               یعنی کافِروں کے ساتھ ان کے بُت بھی گرفتار کر کے حاضر کئے جائیں گے اور سب جہنّم میں داخل ہوں گے بُت بھی اور ان کے پجاری بھی۔

(۷۶) تو  تم ان کی بات کا غم نہ کرو (ف ۱۰۰) بیشک ہم جانتے  ہیں جو وہ چھپاتے  ہیں اور ظاہر کرتے  ہیں (ف ۱۰۱)

۱۰۰             یہ خِطاب ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی فرماتا ہے کہ کُفّار کی تکذیب و انکار سے اور ان کی ایذاؤں اور جفا کاریوں سے آپ غمگین نہ ہوں۔

۱۰۱             ہم انہیں ان کے کردار کی جزا دیں گے۔

(۷۷) اور کیا آدمی نے  نہ دیکھا کہ ہم نے  اسے  پانی کی بوند سے  بنایا جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے  (ف ۱۰۲)

۱۰۲             شانِ نُزول : یہ آیت عاص بن وائل یا ابوجہل اور بقولِ مشہور اُ بَی بن خلف حُمَجی کے حق میں نازل ہوئی جو انکارِ بَعث میں یعنی مرنے کے بعد اٹھنے کے انکار میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے بحث و تکرار کرنے آیا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک گلی ہوئی ہڈی تھی اس کو توڑتا جاتا تھا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہتا جاتا تھا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ اس ہڈی کو گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ زندہ کرے گا ؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں اور تجھے بھی مرنے کے بعد اٹھائے گا اور جہنّم میں داخل فرمائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس کے جہل کا اظہار فرمایا گیا کہ گلی ہوئی ہڈی کا بکھرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت سے زندگی قبول کرنا اپنی نادانی سے ناممکن سمجھتا ہے، کتنا احمق ہے اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ ابتدا میں ایک گندہ نطفہ تھا گلی ہوئی ہڈی سے بھی حقیر تر، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے اس میں جان ڈالی، انسان بنایا تو ایسا مغرور و متکبِّر انسان ہوا کہ اس کی قدرت ہی کا منکِر ہو کر جھگڑنے آ گیا، اتنا نہیں دیکھتا کہ جو قادرِ برحق پانی کی بوند کو قوی اور توانا انسان بنا دیتا ہے اس کی قدرت سے گلی ہوئی ہڈی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا بعید ہے اور اس کو ناممکن سمجھنا کتنی کھُلی ہوئی جہالت ہے۔

(۷۸) اور ہمارے  لیے  کہاوت کہتا ہے  (ف ۱۰۳) اور اپنی پیدائش بھول گیا (ف ۱۰۴) بولا ایسا کون ہے   کہ ہڈیوں کو زندہ کرے  جب وہ بالکل گل گئیں۔

۱۰۳             یعنی گلی ہوئی ہڈی کو ہاتھ سے مل کر مثل بناتا ہے کہ یہ تو ایسی بکھر گئی کیسے زندہ ہو گی۔

۱۰۴             کہ قطر ۂ مَنی سے پیدا کیا گیا ہے۔

(۷۹) تم فرماؤ وہ زندہ کرے  گا جس نے  پہلی بار انہیں بنایا،  اور اسے  ہر پیدائش کا علم ہے  (ف ۱۰۵)

۱۰۵             پہلی کا بھی اور موت کے بعد والی کا بھی۔

(۸۰) جس نے  تمہارے  لیے  ہرے  پیڑ میں آگ پیدا کی جبھی تم اس سے  سلگاتے  ہو (ف ۱۰۶)

۱۰۶             عرب کے دو درخت ہوتے ہیں جو وہاں کے جنگلوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ایک کا نام مرخ ہے دوسرے کا عفار، ان کی خاصیّت یہ ہے کہ جب ان کی سبز شاخیں کاٹ کر ایک دوسرے پر رگڑی جائیں تو ان سے آگ نکلتی ہے باوجود یہ کہ وہ اتنی تر ہوتی ہیں کہ ان سے پانی ٹپکتا ہوتا ہے۔ اس میں قدرت کی کیسی عجیب و غریب نشانی ہے کہ آگ اور پانی دونوں ایک دوسرے کی ضد، ہر ایک ایک جگہ ایک لکڑی میں موجود، نہ پانی آگ کو بجھائے نہ آگ لکڑی کو جَلائے، جس قادرِ مطلق کی یہ حکمت ہے وہ اگر ایک بدن پر موت کے بعد زندگی وارد کرے تو اس کی قدرت سے کیا عجیب اور اس کو ناممکن کہنا آثارِ قدرت دیکھ کر جاہلانہ و معاندانہ انکار کرنا ہے۔

(۸۱)  اور کیا وہ جس نے  آسمان اور زمین بنائے  ان جیسے  اور نہیں بنا سکتا (ف ۱۰۷) کیوں نہیں (ف ۱۰۸) اور وہی بڑا پیدا کرنے  والا سب کچھ جانتا۔

۱۰۷             یا انہیں کو بعدِ موت زندہ نہیں کر سکتا۔

۱۰۸             بے شک وہ اس پر قادر ہے۔

(۸۲)  اس کا کام تو یہی ہے  کہ جب کسی چیز کو چاہے  (ف ۱۰۹) تو اس سے  فرمائے  ہو جا وہ فوراً ہو جاتی ہے، (ف ۱۱۰)

۱۰۹             کہ پیدا کرے۔

۱۱۰             یعنی مخلوقات کا وجود اس کے حکم کے تابع ہے۔

(۸۳)  تو پاکی ہے، اسے  جس کے  ہاتھ ہر چیز کا قبضہ ہے، اور اسی کی طرف پھیرے  جاؤ گے  (ف ۱۱۱)

۱۱۱             آخرت میں۔