۱ سورۂ یٰسٓ مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، تراسی آیتیں، سات سو انتیس کلمے، تین ہزار حروف ہیں۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے کہ ہر چیز کے لئے قلب ہے اور قرآن کا قلب یٰسٓ ہے اور جس نے یٰسٓ پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھتا ہے , یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد میں ایک راوی مجہول ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اپنے اموات پر یٰسٓ پڑھو اسی لئے قریبِ موت حالتِ نزع میں مرنے والوں کے پاس یٰسٓ پڑھی جاتی ہے۔
۲ اے سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۳ جو منزلِ مقصود کو پہنچانے والی ہے یہ راہ توحید و ہدایت کی راہ ہے تمام انبیاء علیہم السلام اسی راہ پر رہے ہیں، اس آیت میں کُفّار کا رد ہے جو حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہتے تھے لَسْتَ مُرْسَلاً تم رسول نہیں ہو۔ اس کے بعد قرآنِ کریم کی نسبت ارشاد فرمایا۔
۴ یعنی ان کے پاس کوئی نبی نہ پہنچے اور قومِ قریش کا یہی حال ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پہلے ان میں کوئی رسول نہیں آیا۔
۵ یعنی حکمِ الٰہی و قضائے ازلی ان کے عذاب پر جاری ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد لَاَ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ان کے حق میں ثابت ہو چکا ہے اور عذاب کا ان کے لئے مقرر ہو جانا اس سبب سے ہے کہ وہ کُفر و انکار پر اپنے اختیار سے مُصِر رہنے والے ہیں۔
۶ اس کے بعد ان کے کُفر میں پختہ ہونے کی ایک تمثیل ارشاد فرمائی۔
۷ یہ تمثیل ہے ان کے کُفر میں ایسے راسخ ہونے کی آیات و نُذر پند و ہدایت کسی سے وہ منتفع نہیں ہو سکتے جیسے کہ وہ شخص جن کی گردنوں میں غُل کی قِسم کا طوق پڑا ہو جو ٹھوڑی تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سر نہیں جھکا سکتے، یہی حال ان کا ہے کہ کسی طرح ان کو حق کی طرف التفات نہیں ہوتا اور اس کے حضور سر نہیں جھکاتے اور بعض مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی حقیقتِ حال ہے، جہنّم میں انہیں اسی طرح کا عذاب کیا جائے گا جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اِذِ الْاَغْلَالُ فِیْ اَعْنَا قِہِمْ۔
شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل اور اس کے دو مخزومی دوستوں کے حق میں نازل ہوئی ابوجہل نے قَسم کھائی تھی کہ اگر وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو پتّھر سے سر کچل ڈالے گا جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ اسی ارادۂ فاسدہ سے ایک بھاری پتّھر لے کر آیا جب اس نے پتّھر کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ گردن میں چِپکے رہ گئے اور پتّھر ہاتھ کو لپٹ گیا یہ حال دیکھ کر اپنے دوستوں کی طرف واپس ہوا اور ان سے واقعہ بیان کیا تو اس کے دوست ولید بن مغیرہ نے کہا کہ یہ کام میں کروں گا اور ان کا سر کچل کر ہی آؤں گا چنانچہ وہ پتّھر لے آیا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ابھی نماز ہی پڑھ رہے تھے، جب یہ قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی سلب کر لی حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی آواز سنتا تھا آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، یہ بھی پریشان ہو کر اپنے یاروں کی طرف لوٹا وہ بھی نظر نہ آئے انہوں نے ہی اسے پکار ا اور اس سے کہا کہ تو نے کیا کیا ؟ کہنے لگا میں نے ان کی آواز تو سنی مگر وہ نظر ہی نہیں آئے، اب ابوجہل کے تیسرے دوست نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کام کو انجام دے گا اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف چلا تھا کہ الٹے پاؤں ایسا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اوندھے منھ گر گیا اس کے دوستوں نے حال پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا حال بہت سخت ہے میں نے ایک بہت بڑا سانڈ دیکھا جو میرے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے درمیان حائل ہو گیا، لات و عزّیٰ کی قَسم اگر میں ذرا بھی آ گے بڑھتا تو وہ مجھے کھا ہی جاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن و جمل)
۸ یہ بھی تمثیل ہے کہ جیسے کسی شخص کے لئے دونوں طرف دیواریں ہوں اور ہر طرف سے راستہ بند کر دیا گیا ہو وہ کسی طرح منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا یہی حال ان کُفّار کا ہے کہ ان پر ہر طرف سے ایمان کی راہ بند ہے سامنے ان کے غرورِ دنیا کی دیوار ہے اور ان کے پیچھے تکذیبِ آخرت کی اور وہ جہالت کے قید خانہ میں محبوس ہیں آیات و دلائل میں نظر کرنا انہیں میسّر نہیں۔
۹ یعنی آپ کے ڈر سنانے اور خوف دلانے سے وہی نفع اٹھاتا ہے۔
۱۱ یعنی دنیا کی زندگانی میں جو نیکی یا بدی کی تاکہ اس پر جزا دی جائے۔
۱۲ یعنی اور ہم ان کی وہ نشانیاں، وہ طریقے بھی لکھتے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا بد، جو نیک طریقے اُمّتی نکالتے ہیں ان کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور اس طریقے کو نکالنے والوں اور عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے اور جو بُرے طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعتِ سیّئہ کہتے ہیں اس طریقے کے نکالنے والے اور عمل کرنے والوں دونوں گناہ گار ہوتے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کو بھی ثواب بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کے بھی گناہ بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدہا امورِ خیر مثلِ فاتحہ گیارہویں و تیجہ و چالیسواں و عرس و توشہ و ختم و محافلِ ذکرِ میلاد و شہادت جن کو بد مذہب لوگ بدعت کہہ کر منع کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نیکیوں سے روکتے ہیں یہ سب درست اور باعثِ اجر و ثواب ہیں اور ان کو بدعتِ سیّئہ بتانا غلط و باطل ہے۔ یہ طاعات اور اعمالِ صالحہ جو ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ہیں بدعتِ سیّئہ نہیں۔ بدعتِ سیّئہ وہ بُرے طریقے ہیں جن سے دین کو نقصان پہنچتا ہے اور جو سنّت کے مخالف ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ جو قوم بدعت نکالتی ہے اس سے ایک سنّت اٹھ جاتی ہے تو بدعت سیّئہ وہی ہے جس سے سنّت اٹھتی ہو جیسے کہ رفض، خروج، وہابیّت یہ سب انتہا درجہ کی خراب سیّئہ بدعتیں ہیں، رفض و خروج جو اصحاب و اہلِ بیتِ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عداوت پر مبنی ہیں، ان سے اصحاب و اہلِ بیت کے ساتھ مَحبت و نیاز مندی رکھنے کی سنّت اٹھ جاتی ہے جس کے شریعت میں تاکیدی حکم ہیں، وہابیّت کی اصل مقبولانِ حق حضراتِ انبیاء و اولیاء کی جناب میں بے ادبی و گستاخی اور تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دینا ہے، اس سے بزرگانِ دین کی حرمت و عزّت اور ادب و تکریم اور مسلمانوں کے ساتھ اخوّت و مَحبت کی سنّتیں اٹھ جاتی ہیں جن کی بہت شدید تاکیدیں ہیں اور جو دین میں بہت ضروری چیزیں ہیں اور اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا کہ آثار سے مراد وہ قَدم ہیں جو نمازی مسجد کی طرف چلنے میں رکھتا ہے اور اس معنیٰ پر آیت کی شانِ نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیّبہ کے کنارے پر رہتے تھے انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب آ بسیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور سیدِ عاَلم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے قَدم لکھے جاتے ہیں تم مکان تبدیل نہ کرو یعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔
۱۴ اس شہر سے مراد انطاکیہ ہے یہ ایک بڑا شہر ہے اس میں چشمے ہیں، کئی پہاڑ ہیں، ایک سنگین شہرِ پناہ ہے، بارہ میل کے دور میں بستا ہے۔
۱۵ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعہ کا مختصر بیان یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دو حواریوں صادق و صدوق کو انطاکیہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو جو بُت پرست تھے دینِ حق کی دعوت دیں جب یہ دونوں شہر کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ بکریاں چرا رہا ہے اس شخص کا نام حبیب نجّار تھا اس نے ان کا حال دریافت کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے ہیں تمہیں دینِ حق کی دعوت دینے آئے ہیں کہ بُت پرستی چھوڑ کر خدا پرستی اختیار کرو، حبیب نجّار نے نشانی دریافت کی انہوں نے کہا کہ نشانی یہ ہے کہ ہم بیماروں کو اچھا کرتے ہیں، اندھوں کو بینا کرتے ہیں، برص والے کا مرض دور کر دیتے ہیں، حبیب نجّار کا ایک بیٹا دو سال سے بیمار تھا، انہوں نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندرست ہو گیا، حبیب ایمان لائے اور اس واقعہ کی خبر مشہور ہو گئی تا آنکہ ایک خَلقِ کثیر نے ان کے ہاتھوں اپنے امراض سے شفا پائی یہ خبر پہنچنے پر بادشاہ نے انہیں بُلا کر کہا کیا ہمارے معبودوں کے سوا اور کوئی معبود بھی ہے ؟ ان دونوں نے کہا ہاں وہی جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا پھر لوگ ان کے درپے ہوئے اور انہیں مارا اور یہ دونوں قید کر لئے گئے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شمعون کو بھیجا وہ اجنبی بن کر شہر میں داخل ہوئے اور بادشاہ کے مصاحبین و مقرَّبین سے رسم و راہ پیدا کر کے بادشاہ تک پہنچے اور اس پر اپنا اثر پیدا کر لیا جب دیکھا کہ بادشاہ ان سے خوب مانوس ہو گیا ہے تو ایک روز بادشاہ سے ذکر کیا کہ دو جو آدمی قید کئے گئے ہیں کیا ان کی بات سنی گئی تھی وہ کیا کہتے تھے ؟ بادشاہ نے کہا کہ نہیں جب انہوں نے نئے دین کا نام لیا فوراً ہی مجھے غصّہ آ گیا شمعون نے کہا کہ اگر بادشاہ کی رائے ہو تو انہیں بلایا جائے دیکھیں ان کے پاس کیا ہے چنانچہ وہ دونوں بلائے گئے، شمعون نے ان سے دریافت کیا تمہیں کس نے بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا اس اللہ نے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر جاندار کو روزی دی اورجس کا کوئی شریک نہیں، شمعون نے کہا اس کی مختصر صفت بیان کرو انہوں نے کہا وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے، شمعون نے کہا تمہاری نشانی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا جو بادشاہ چاہے تو بادشاہ نے ایک اندھے لڑکے کو بلایا انہوں نے دعا کی وہ فوراً بینا ہو گیا، شمعون نے بادشاہ سے کہا کہ اب مناسب یہ ہے کہ تو اپنے معبودوں سے کہہ کہ وہ بھی ایسا ہی کر کے دکھائیں تاکہ تیری اور ان کی عزّت ظاہر ہو، بادشاہ نے شمعون سے کہا کہ تم سے کچھ چھُپانے کی بات نہیں ہے ہمارا معبود نہ دیکھے، نہ سنے، نہ کچھ بگاڑ سکے، نہ بنا سکے پھر بادشاہ نے ان دونوں حواریوں سے کہا کہ اگر تمہارے معبود کو مُردے کے زندہ کر دینے کی قدرت ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں، انہوں نے کہا ہمارا معبود ہر شے پر قادر ہے، بادشاہ نے ایک دہقان کے لڑکے کو منگایا جس کو مرے ہوئے سات دن ہو گئے تھے اور جسم خراب ہو چکا تھا، بدبو پھیل رہی تھی، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں مشرک مرا تھا مجھ کو جہنّم کے سات وادیوں میں داخل کیا گیا، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ جس دین پر تم ہو بہت نقصان دہ ہے، ایمان لاؤ اور کہنے لگا کہ آسمان کے دروازے کھُلے اور ایک حسین جوان مجھے نظر آیا جو ان تینوں شخصوں کی سفارش کرتا ہے، بادشاہ نے کہا کون تین ؟ اس نے کہا ایک شمعون اور دو یہ، بادشاہ کو تعجّب ہوا، جب شعمون نے دیکھا کہ اس کی بات بادشاہ میں اثر کر گئی تو اس نے بادشاہ کو نصیحت کی وہ ایمان لایا اور اس کی قوم کے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ ایمان نہ لائے اور عذابِ الٰہی سے ہلاک کئے گئے۔
۱۶ یعنی دو حواری۔ وہب نے کہا کہ ان کے نام یوحنا اور بولس تھے اور کعب کا قول ہے کہ صادق و صدوق۔
۱۷ یعنی شمعون سے تقویت اور تائید پہنچائی۔
۱۹ ادلّۂ واضحہ کے ساتھ اور وہ اندھوں اور بیماروں کو اچھا کرتا اور مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔
۲۰ جب سے تم آئے ہو بارش ہی نہیں ہوئی۔
۲۳ اور تمہیں اسلام کی دعوت دی گئی۔
۲۴ ضلال و طُغیان میں اور یہی بڑی نحوست ہے۔
۲۵ یعنی حبیب نجّار جو پہاڑ کے غار میں مصروفِ عبادتِ الٰہی تھا جب اس نے سنا کہ قوم نے ان فرستادوں کی تکذیب کی۔
۲۶ حبیب نجّار کی یہ گفتگو سن کر قوم نے کہا کہ کیا تو ان کے دین پر ہے اور تو ان کے معبود پر ایمان لے آیا ؟ اس کے جواب میں حبیب نجّار نے کہا۔
۲۷ یعنی ابتدائے ہستی سے جس کی ہم پر نعمتیں ہیں اور آخِرِ کار بھی اسی کی طرف رجوع کرنا ہے اس مالکِ حقیقی کی عبادت نہ کرنا کیا معنیٰ اور اس کی نسبت اعتراض کیسا، ہر شخص اپنے وجود پر نظر کر کے اس کے حقِ نعمت و احسان کو پہچان سکتا ہے۔
۲۸ یعنی کیا بُتوں کو معبود بناؤں۔
۲۹ جب حبیب نجّار نے اپنی قوم سے ایسا نصیحت آمیز کلام کیا تو وہ لوگ ان پر یکبارگی ٹوٹ پڑے اور ان پر پتّھراؤ شروع کیا اور پاؤں سے کچلا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا۔ قبر ان کی انطاکیہ میں ہے جب قوم نے ان پر حملہ شروع کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرستادوں سے بہت جلدی کر کے یہ کہا۔
۳۰ یعنی میرے ایمان کے شاہد رہو جب وہ قتل ہو چکے تو بطریقِ اکرام۔
۳۱ جب وہ جنّت میں داخل ہوئے اور وہاں کی نعمتیں دیکھیں۔
۳۲ حبیب نجّار نے یہ تمنّا کی کہ ان کی قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حبیب کی مغفرت کی اور اِکرام فرمایا تاکہ قوم کو مرسلِین کے دین کی طرف رغبت ہو۔ جب حبیب قتل کر دیئے گئے تو اللہ ربُّ العزّت کا اس قوم پر غضب ہوا اور ان کی عقوبت و سزا میں تاخیر نہ فرمائی گئی۔ حضرت جبریل کو حکم ہوا اور ان کی ایک ہی ہولناک آواز سے سب کے سب مر گئے چنانچہ ارشاد فرمایا جاتا ہے۔
۳۴ فنا ہو گئے جیسے آگ بجھ جاتی ہے۔
۳۵ ان پر اور ان کی مثل اور سب پر جو رسولوں کی تکذیب کر کے ہلاک ہوئے۔
۳۶ یعنی اہلِ مکّہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرتے ہیں کہ۔
یعنی دنیا کی طرف لوٹنے والے نہیں کیا یہ لوگ ان کے حال سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔
۳۸ یعنی تمام اُمّتیں روزِ قیامت ہمارے حضور حساب کے لئے موقَف میں حاضر کی جائیں گی۔
۳۹ جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مُردہ کو زندہ فرمائے گا۔
اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا نہ لائیں گے۔
۴۶ بحر و بَر کی عجیب و غریب مخلوقات میں سے جس کی انسانوں کو خبر بھی نہیں ہے۔
۴۷ ہماری قدرتِ عظیمہ پر دلالت کرنے والی۔
۴۸ تو بالکل تاریک رہ جاتی ہے جس طرح کالے بھوجنگے حبشی کا سفید لباس اتار لیا جائے تو پھر وہ سیاہ ہی سیاہ رہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین کے درمیان کی فضا اصل میں تاریک ہے، آفتاب کی روشنی اس کے لئے ایک سفید لباس کی طرح ہے جب آفتاب غروب ہو جاتا ہے تو یہ لباس اتر جاتا ہے اور فضا اپنی اصلی حالت میں تاریک رہ جاتی ہے۔
۴۹ یعنی جہاں تک اس کی سیر کی نہایت مقرر فرمائی گئی ہے اور وہ روزِ قیامت ہے اس وقت تک وہ چلتا ہی رہے گا یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ اپنی منزلوں میں چلتا ہے اور جب سب سے دور والے مغرب میں پہنچتا ہے تو پھر لوٹ پڑتا ہے کیونکہ یہی اس کا مستقَر ہے۔
۵۰ اور یہ نشانی ہے جو اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ پر دلالت کرتی ہے۔
۵۱ چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں ہر شب ایک منزل میں ہوتا ہے اور پوری منزل طے کر لیتا ہے نہ کم چلے نہ زیادہ، طلوع کی تاریخ سے اٹھائیسویں تاریخ تک تمام منزلیں طے کر لیتا ہے اور اگر مہینہ تیس کا ہو تو دو شب اور انتیس ہو تو ایک شب چھُپتا ہے اور جب اپنے آخرِ منازل میں پہنچتا ہے تو باریک اور کمان کی طرح خمیدہ اور زرد ہو جاتا ہے۔
۵۲ جو سوکھ کر پَتلی اور خمیدہ اور زرد ہو گئی ہو۔
۵۳ یعنی شب میں جو اس کے ظہورِ شوکت کا وقت ہے اس کے ساتھ جمع ہو کر اس کے نور کو مغلوب کرے کیونکہ سورج اور چاند میں سے ہر ایک کے ظہورِ شوکت کے لئے ایک وقت مقرر ہے، سورج کے لئے دن اور چاند کے لئے رات۔
۵۴ کہ دن کا وقت پورا ہونے سے پہلے آ جائے ایسا بھی نہیں بلکہ رات اور دن دونوں معیّن حساب کے ساتھ آتے جاتے ہیں کوئی ان میں سے اپنے وقت سے قبل نہیں آتا اور نیّرَین یعنی آفتاب و ماہتاب میں سے کوئی دوسرے کے حدودِ شوکت میں داخل نہیں ہوتا نہ آفتاب رات میں چمکے نہ ماہتاب دن میں۔
۵۵ جو سامان اسباب وغیرہ سے بھری ہوئی تھی، مراد اس سے کَشتیِ نوح ہے جس میں ان کے پہلے اجداد سوار کئے گئے تھے اور یہ ان کی ذُرِّیَّتیں ان کی پشت میں تھیں۔
۵۷ جو ان کی زندگانی کے لئے مقرر فرمایا ہے۔
۶۰ یعنی ان کا دستور اور طریقہ کار ہی یہ ہے کہ وہ ہر آیت و موعظت سے اعراض و رو گردانی کیا کرتے ہیں۔
۶۱ شانِ نُزول : یہ آیت کُفّارِ قریش کے حق میں نازل ہوئی جن سے مسلمانوں نے کہا تھا کہ تم اپنے مالوں کا وہ حصّہ مسکینوں پر خرچ کرو جو تم نے بَزُعمِ خود اللہ تعالیٰ کے لئے نکالا ہے، اس پر انہوں نے کہا کہ کیا ہم ان کو کھلائیں جنہیں اللہ تعالیٰ کھلانا چاہتا تھا تو کھِلا دیتا، مطلب یہ تھا کہ خدا ہی کو مسکینوں کا محتاج رکھنا منظور ہے تو انہیں کھانے کو دینا اس کی مشیّت کے خلاف ہو گا یہ بات انہوں نے بخیلی اور کنجوسی سے بطورِ تمسخُر کے کہی تھی اور نہایت باطل تھی کیونکہ دنیا دارالامتحان ہے، فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں، فقیر کی آزمائش صبر سے اور غنی کی انفاق فی سبیلِ اللہ سے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ مکّہ مکرّمہ میں زندیق لوگ تھے جب ان سے کہا جاتا تھا کہ مسکینوں کو صدقہ دو تو کہتے تھے ہرگز نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ محتاج کرے ہم کھلائیں۔
۶۳ اپنے دعوے میں ان کا یہ خِطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آپ کے اصحاب سے تھا اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے۔
۶۴ یعنی صور کے پہلے نفخہ کی جو حضرت اسرافیل علیہ السلام پھونکیں گے۔
۶۵ خرید و فروخت میں اور کھانے پینے میں اور بازاروں اور مجلسوں میں، دنیا کے کاموں میں کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے گی۔ حدیث شریف میں ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ خریدار اور بائع کے درمیان کپڑا پھیلا ہو گا نہ سودا تمام ہونے پائے گا، نہ کپڑا لپٹ سکے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی یعنی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور وہ کام ویسے ہی ناتمام رہ جائیں گے نہ انہیں خود پورا کر سکیں گے، نہ کسی دوسرے سے پورا کرنے کو کہہ سکیں گے اور جو گھر سے باہر گئے ہیں وہ واپس نہ آ سکیں گے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
۶۶ وہیں مر جائیں گے اور قیامت فرصت و مہلت نہ دے گی۔
۶۷ دوسری مرتبہ، یہ نفخۂ ثانیہ ہے جو مُردوں کے اٹھانے کے لئے ہو گا اور ان دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہو گا۔
۶۹ یہ مقولہ کُفّار کا ہو گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ یہ بات اس لئے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ دونوں نفخوں کے درمیان ان سے عذاب اٹھا دے گا اور اتنا زمانہ وہ سوتے رہیں گے اور نفخۂ ثانیہ کے بعد جب اٹھائے جائیں گے اور احوالِ قیامت دیکھیں گے تو اس طرح چیخ اٹھیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب کُفّار جہنّم اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو اس کے مقابلہ میں عذابِ قبر انہیں سہل معلوم ہو گا اس لئے وہ وَیل و افسوس پکار اٹھیں گے اور اس وقت کہیں گے۔
۷۰ اور اس وقت کا اقرار انہیں کچھ نافع نہ ہو گا۔
۷۱ یعنی نفخۂ اخیرہ ایک ہولناک آواز ہو گی۔
۷۲ حساب کے لئے پھر ان سے کہا جائے گا۔
۷۳ طرح طرح کی نعمتیں اور قِسم قِسم کے سرور اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت، جنّتی نہروں کے کنارے، بہشتی اشجار کی دلنواز فضائیں، طرب انگیز نغمات، حسینانِ جنّت کا قرب اور قِسم قِسم کی نعمتوں سے التذاذ، یہ ان کے شغل ہوں گے۔
۷۴ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر سلام فرمائے گا خواہ بواسطہ یا بے واسطہ اور یہ سب سے بڑی اور پیاری مراد ہے۔ ملائکہ اہلِ جنّت کے پاس ہر دروازے سے آ کر کہیں گے تم پر تمہارے رحمت والے ربّ کا سلام۔
۷۵ جس وقت مومن جنّت کی طرف روانہ کئے جائیں گے، اس وقت کُفّار سے کہا جائے گا کہ الگ ہٹ جاؤ مومنین سے علیحدہ ہو جاؤ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم کُفّار کو ہو گا کہ الگ الگ جہنّم میں اپنے اپنے مقام پر جائیں۔
۷۸ اور کسی کو عبادت میں میرا شریک نہ کرنا۔
۷۹ کہ تم اس کی عداوت اور گمراہ گری کو سمجھتے اور جب وہ جہنّم کے قریب پہنچیں گے تو ان سے کہا جائے گا۔
۸۰ کہ وہ بول نہ سکیں اور یہ مُہر کرنا ان کے یہ کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا۔
۸۱ ان کے اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے۔
۸۲ کہ نشان بھی باقی نہ رہتا اس طرح کا اندھا کر دیتے۔
۸۳ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنے فضل و کرم سے نعمتِ بصر ان کے پاس باقی رکھی تو اب ان پر حق یہ ہے کہ وہ شکر گزاری کریں کُفر نہ کریں۔
۸۴ اور انہیں بندر یا سور بنا دیتے۔
۸۵ اور ان کے جُرم اس کے مستدعی تھے لیکن ہم نے اپنی رحمت و حکمت کے حسبِ اِقتضا عذاب میں جلدی نہ کی اور ان کے لئے مہلت رکھی۔
۸۶ کہ وہ بچپن کے سے ضعف و ناتوانی کی طرف واپس ہونے لگے اور دم بدم اس کی طاقتیں، قوّتیں اور جسم اور عقل گَھٹنے لگے۔
۸۷ کہ جو احوال کے بدلنے پر ایسا قادر ہو کہ بچپن کے ضعف و ناتوانی اور صِغرِ جسم و نادانی کے بعد شباب کی قوّتیں و توانائی و جسمِ قوی و دانائی عطا فرماتا ہے پھر کِبرِ سن اور آخرِ عمر میں اسی قوی ہیکل جوان کو دبلا اور حقیر کر دیتا ہے اب نہ وہ جسم باقی ہے نہ قوّتیں، نشست برخاست میں مجبوریاں درپیش ہیں، عقل کام نہیں کرتی، بات یاد نہیں رہتی، عزیز و اقارب کو پہچان نہیں سکتا، جس پروردگار نے یہ تغیّر کیا وہ قادر ہے کہ آنکھیں دینے کے بعد انہیں مٹا دے اور اچھی صورتیں عطا کرنے کے بعد ان کو مسخ کر دے اور موت دینے کے بعد پھر زندہ کر دے۔
۸۸ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو شِعر گوئی کا ملکہ نہ دیا یا یہ کہ قرآن تعلیمِ شِعر نہیں ہے اور شِعر سے کلامِ کاذب مراد ہے خواہ موزوں ہو یا غیرِ موزوں۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علومِ اوّلین و آخرین تعلیم فرمائے گئے جن سے کشفِ حقائق ہوتا ہے اور آپ کے معلومات واقعی نفس الامری ہیں، کذبِ شِعری نہیں جو حقیقت میں جہل ہے وہ آپ کی علمِ اوّلین و شان کے لائق نہیں اور آپ کا دامنِ تقدّس اس سے پاک ہے۔ اس میں شِعر بمعنی کلامِ موزوں کے جاننے اور اس کے صحیح و سقیم جیّد و ردّی کو پہچاننے کی نفی نہیں۔ علمِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں طعن کرنے والوں کے لئے یہ آیت کسی طرح سند نہیں ہو سکتی، اللہ تعالیٰ نے حضور کو علومِ کائنات عطا فرمائے اس کے انکار میں اس آیت کو پیش کرنا مَحض غلط ہے۔ شانِ نُزول : کُفّارِ قریش نے کہا تھا کہ محمّدِ (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) شاعر ہیں اور جو وہ فرماتے ہیں یعنی قرآنِ پاک وہ شِعر ہے اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ (معاذ اللہ) یہ کلامِ کاذب ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ا ن کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے کہ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِر اسی کا اس آیت میں رد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں دیا اور یہ کتاب اشعار یعنی اکاذیب پر مشتمل نہیں، کُفّارِ قریش زبان سے ایسے بد ذوق اور نظمِ عروضی سے ایسے ناواقف نہ تھے کہ نثر کو نظم کہہ دیتے اور کلامِ پاک کو شِعرِ عروضی بتا بیٹھتے اور کلام کا مَحض وزنِ عروضی پر ہونا ایسا بھی نہ تھا کہ اس پر اعتراض کیا جا سکے، اس سے ثابت ہو گیا کہ ان بے دینوں کی مراد شِعر سے کلامِ کاذب تھی۔ (مدارک و جمل و روح البیان) اور حضرت شیخ اکبر قدّس سرہ نے اس آیت کے معنیٰ میں فرمایا ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے معمّے اور اجمال کے ساتھ خِطاب نہیں فرمایا جس میں مراد کے مخفی رہنے کا احتمال ہو بلکہ صاف صریح کلام فرمایا ہے جس سے تمام حجاب اٹھ جائیں اور علوم روشن ہو جائیں چونکہ شِعر لغز و توریہ اور رمز و اجمال کا محل ہوتا ہے اس لئے شِعر کی نفی فرما کر اس معنیٰ کو بیان فرما دیا۔
۸۹ صاف صریح حق و ہدایت، کہاں وہ پاک آسمانی کتاب تمام علوم کی جامع اور کہاں شِعر جیسا کلامِ کاذب چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔ (الکبریت الاحمر للشیخ الاکبر)
۹۰ دل زندہ رکھتا ہو کلام و خِطاب کو سمجھے اور یہ شان مومن کی ہے۔
۹۱ یعنی حُجّتِ عذاب قائم ہو جائے۔
۹۲ یعنی مسخّر و زیرِ حکم کر دیا۔
۹۳ اور فائدے ہیں کہ ان کی کھالوں، بالوں اور اون وغیرہ کام میں لاتے ہیں۔
۹۴ دودھ اور دودھ سے بننے والی چیزیں وہی مٹّھا وغیرہ۔
۹۵ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا۔
۹۷ اور مصیبت کے وقت کام آئیں اور عذاب سے بچائیں اور ایسا ممکن نہیں۔
۹۸ کیونکہ جماد بے جان، بے قدرت، بے شعور ہیں۔
۹۹ یعنی کافِروں کے ساتھ ان کے بُت بھی گرفتار کر کے حاضر کئے جائیں گے اور سب جہنّم میں داخل ہوں گے بُت بھی اور ان کے پجاری بھی۔
۱۰۰ یہ خِطاب ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی فرماتا ہے کہ کُفّار کی تکذیب و انکار سے اور ان کی ایذاؤں اور جفا کاریوں سے آپ غمگین نہ ہوں۔
۱۰۱ ہم انہیں ان کے کردار کی جزا دیں گے۔
۱۰۲ شانِ نُزول : یہ آیت عاص بن وائل یا ابوجہل اور بقولِ مشہور اُ بَی بن خلف حُمَجی کے حق میں نازل ہوئی جو انکارِ بَعث میں یعنی مرنے کے بعد اٹھنے کے انکار میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے بحث و تکرار کرنے آیا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک گلی ہوئی ہڈی تھی اس کو توڑتا جاتا تھا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہتا جاتا تھا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ اس ہڈی کو گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ زندہ کرے گا ؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں اور تجھے بھی مرنے کے بعد اٹھائے گا اور جہنّم میں داخل فرمائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس کے جہل کا اظہار فرمایا گیا کہ گلی ہوئی ہڈی کا بکھرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت سے زندگی قبول کرنا اپنی نادانی سے ناممکن سمجھتا ہے، کتنا احمق ہے اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ ابتدا میں ایک گندہ نطفہ تھا گلی ہوئی ہڈی سے بھی حقیر تر، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے اس میں جان ڈالی، انسان بنایا تو ایسا مغرور و متکبِّر انسان ہوا کہ اس کی قدرت ہی کا منکِر ہو کر جھگڑنے آ گیا، اتنا نہیں دیکھتا کہ جو قادرِ برحق پانی کی بوند کو قوی اور توانا انسان بنا دیتا ہے اس کی قدرت سے گلی ہوئی ہڈی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا بعید ہے اور اس کو ناممکن سمجھنا کتنی کھُلی ہوئی جہالت ہے۔
۱۰۳ یعنی گلی ہوئی ہڈی کو ہاتھ سے مل کر مثل بناتا ہے کہ یہ تو ایسی بکھر گئی کیسے زندہ ہو گی۔
۱۰۴ کہ قطر ۂ مَنی سے پیدا کیا گیا ہے۔
۱۰۵ پہلی کا بھی اور موت کے بعد والی کا بھی۔
۱۰۶ عرب کے دو درخت ہوتے ہیں جو وہاں کے جنگلوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ایک کا نام مرخ ہے دوسرے کا عفار، ان کی خاصیّت یہ ہے کہ جب ان کی سبز شاخیں کاٹ کر ایک دوسرے پر رگڑی جائیں تو ان سے آگ نکلتی ہے باوجود یہ کہ وہ اتنی تر ہوتی ہیں کہ ان سے پانی ٹپکتا ہوتا ہے۔ اس میں قدرت کی کیسی عجیب و غریب نشانی ہے کہ آگ اور پانی دونوں ایک دوسرے کی ضد، ہر ایک ایک جگہ ایک لکڑی میں موجود، نہ پانی آگ کو بجھائے نہ آگ لکڑی کو جَلائے، جس قادرِ مطلق کی یہ حکمت ہے وہ اگر ایک بدن پر موت کے بعد زندگی وارد کرے تو اس کی قدرت سے کیا عجیب اور اس کو ناممکن کہنا آثارِ قدرت دیکھ کر جاہلانہ و معاندانہ انکار کرنا ہے۔
۱۰۷ یا انہیں کو بعدِ موت زندہ نہیں کر سکتا۔
۱۱۰ یعنی مخلوقات کا وجود اس کے حکم کے تابع ہے۔