تفسیر عثمانی

سورة یسٓ

۴ ۔۔۔      یعنی قرآن کریم اپنی اعجازی شان، پر حکمت تعلیمات، اور پختہ مضامین کے لحاظ سے بڑا زبردست شاہد اس بات کا ہے کہ جو نبی امی اس کو لے کر آیا یقیناً وہ اللہ کا بھیجا ہوا اور بیشک و شبہ سیدھی راہ پر ہے۔ اس کی پیروی کرنے والوں کو کوئی اندیشہ منزل مقصود سے بھٹکنے کا نہیں۔

۵ ۔۔۔     یعنی یہ دین کا سیدھا راستہ یا قرآن حکیم اس خدا کا اتارا ہوا ہے جو زبردست بھی ہے کہ منکر کو سزا دیے بغیر نہ چھوڑے، اور رحم فرمانے والا بھی کہ ماننے والوں کو نوازش و بخشش سے مالا مال کر دے۔ اسی لیے آیات قرآنیہ میں بعض آیات شان لطف و مہر کا اور بعض شان غضب و قہر کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔

۷ ۔۔۔     یعنی بہت کٹھن کام آپ کے سپرد ہوا ہے کہ اس قوم (عرب) کو آپ قرآن کے ذریعہ سے ہوشیار و بیدار کریں۔ جس کے پاس صدیوں سے کوئی جگانے والا نہیں بھیجا تھا۔ وہ جاہل و غافل قوم جسے نہ خدا کی خبر نہ آخرت کی، نہ ماضی سے عبرت نہ مستقبل کی فکر، نہ مبداء پر نظر نہ منتہاء پر، نہ نیک و بد کی تمیز نہ بھلے برے کا شعور اس کو اتنی ممتد جہالت و غفلت کی اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کی صاف سڑک پر لا کھڑا کرنا کوئی معمولی اور سہل کام نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری قوت اور زور شور کے ساتھ ان کو اس غفلت و جہالت کے خوفناک نتائج اور بھیانک مستقبل سے ڈرا کر فلاح و بہبود کے اعلیٰ مدارج پر پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ یہ قوم اپنی اعلیٰ کامیابی سے تمام عالم کے لیے کامیابی کا دروازہ کھول دے۔ لیکن بہت افراد وہ ملیں گے جو کسی قسم کی نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں۔ اسی لیے ان پر سے شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے جو ان کی حماقتوں اور شرارتوں کو ان کی نگاہ میں خوشنما کر کے دکھلاتا اور اگلے پچھلے سب احوال کو خواہ کتنے ہی گندے ہوں، خوبصورت بنا کر ظاہر کرتا ہے۔ آخر یہ لوگ دوسری زندگی سے بالکل منکر ہو کر اپنی فانی خواہشات ہی کو قبلہ مقصود ٹھہرا لیتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف سے شیطان کی بات "لاغوینہم اجمعین الاعبادک منہم المخلصین" (مخلصین کے سوا میں سب کو بہکا کر رہوں گا) سچی ہوتی ہے اور دوسری طرف حق تعالیٰ کا قول "لاملان جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین" تجھ سے اور تیرے پیروؤں سے دوزخ کو بھر دوں گا) ثابت اور چسپاں ہو جاتا ہے۔ باقی علم الٰہی میں تو ازل سے ثابت ہے کہ فلاں قوم کے فلاں فلاں افراد اپنی بدتمیزی اور لاپروائی سے شیطان کے اغواء میں پھنس کر عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے ایسے لوگوں کے راہ پر آنے اور ماننے کی کیا توقع ہو سکتی ہے پس آپ کو سلسلہ انداز و اصلاح میں اگر ایسے ہمت شکن واقعات کا مقابلہ کرنا پڑے تو ملول و غمگین نہ ہوں اپنا فرض ادا کیے جائیں اور نتیجہ کو خدا کے سپرد کر دیں۔ تقریر بالا کو سمجھنے کے لیے یہ آیات پیش نظر رکھیے۔ (۱) "ومن یعش عن ذکر الرحمن تقیض لہ شیطانا فہولہ قرین وانہم لیصدونہم عن السبیل ویحسبون انہم مہتدون۔" (زخرف، رکوع۴) معلوم ہوا کہ شیطان ابتداء کسی پر مسلط نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اندھا بن کر نصیحت سے اعراض کرتے رہنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آخرکار شیطان مسلط ہو جائے جیسے ہاتھ پاؤں سے مدت تک کام نہ لے تو وہ عضو بیکار کر دیا جاتا ہے۔ قال تعالیٰ "فلما زاغوآ ازاغ اللہ قلوبہم" (الصف، رکوع۱) "ونقلب افئدتہم وابصارہم کمالم یومنوابہ اول مرۃ ونذرہم فی طغیانہم یعمہون۔"(انعام، رکوع۱۳) (ب) "وقیضنا لہم قرنآءَ فزینوا لہم مابین ایدیہم وما خلفہم وحق علیہم القول فی امم"(حم السجدہ، رکوع۳) تسلط کے بعد شیطان یہ کام کرتا ہے جس کا نتیجہ "خلق علیہم القول"ہے (ج) "والذی قال لوالدیہ افٍ لکما اتعدا ننی ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی و ہما یستغیثان اللہ ویلک امن ان وعد اللہ حق فیقول ماہذا الا اساطیر الاولین اولئک الذین حق علیہم القول فی امم" (الاحقاف، رکوع۲) ان آیات سے معلوم ہوا کہ لفظ "حق القول" ان لوگوں پر صادق آتا ہے جو موت کے بعد کی دوسری زندگی کا یقین ہی نہیں رکھتے، نہ برائی کو برائی سمجھتے ہیں، بلکہ اغوائے شیطانی سے اپنی بدیوں کو نیکی اور گمراہی کو ہدایت تصور کر لیتے ہیں۔ کیسے ہی معقول دلائل سنائیے اور کھلے کھلے نشان دکھلائیے، سب کو جھٹلاتے رہیں اور فضول حجتیں نکالتے رہیں، بظاہر ہادیوں اور پیغمبروں کی بات کی طرف کان جھکائیں مگر ایک حرف سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ محض ہوا و ہوس کو اپنا معبود ٹھہرا لیں نہ عقل سے کام لیں نہ آنکھوں سے، یہ ہی لوگ ہیں جن کے اعراض و عناد کے نتیجہ میں آخرکار اللہ تعالیٰ دلوں پر مہر کر دیتا ہے کہ ان میں خیر کے گھسنے کی پھر ذرا گنجائش نہیں رہتی۔ جیسے کوئی شخص اپنے اوپر روشنی کے سب دروازے بند کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اندھیرے میں چھوڑ دیتا ہے یا ایک بیمار دوا پینے کی قسم کھا لے، طبیب سے روشنی کرے اور ہر قسم کی بد پرہیزی پر تیار ہو جائے تو اللہ اس کے مرض کو مہلک بنا دیتا اور مایوسی کے درجہ میں پہنچا دیتا ہے۔ فرماتے ہیں "تلک القریٰ نقص علیک من انبآئہا ولقد جآءَ تہم رسلہم بالبینات فما کانوا لیومنوا بما کذبوا من قبل کذالک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین" (اعراف رکوع۱۳) "ثم بعثنا من بعدہٗ رسلاً الی قومہم فجآءُوہم بالبینات فما کانوا لیومنوا بما کذبوا بہ من قبل کذالک تطبع علی قلوب المعتدین" (یونس، رکوع۸) "ولقد ضربنا للناس فی ہذا القراٰن بن کل مثل ولئن جئتہم بایۃٍ لیقولن الذین کفروا ان انتم الا مبطلون کذالک یطبع اللہ علی قلوب الذین لایعلمون فاصبران وعد اللہ حق" (روم، رکوع۶) "کذالک یضل اللہ من ہو مسرف مرتاب الذین یجادلون فی ایٰات اللہ بغیر سلطان اتاہم کبر مقتا عند اللہ وعند للذین اٰمنوا کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبرٍ جبار۔" (مومن، رکوع۴) "ومنہم من یستمع الیک حتی اذا خرجوا من عندک قالوا للذین اوتوا العلم ماذا قال انفاً اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبہم"(محمد، رکوع۲) "بل طبع اللہ علیہا بکفرہم فلا یومنون الا قلیلاً" (نساء، رکوع۲۲) "کلا بل ران علیٰ قلوبہم ماکانوا یکسبون" (مطففین، رکوع۱) "افرایت من اتخذ الہہ ہواہ واضلہ اللہ علی علمٍ وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یہدیہ من بعداللہ" (الجاشیہ، رکوع۳) "ولقد ذرانا لجہنم کثیراً من الجن والانس لہم قلوب لا یفقہون بہاولہم اعین لا یبصرون بہا ولہم اذان لا یسمعون بہا اولئک کالا نعام بل ہم اضل اولئک ہم الغافلون" (اعراف، رکوع۲۲) "یحرفون الکلم من بعد مواضعہ یقولون ان اوتیتم ہذا فخذوہ وان لم توتوہ فاحذروا ومن یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئاً اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطہر قلوبہم۔"(المائدہ، رکوع۶)

۸ ۔۔۔       یہ ان ہی لوگوں کے حق میں ہے جن کا ذکر گزشتہ فائدہ میں ہوا۔ یہ طوق عادات و رسوم حب جاہ و مال اور تقلید آباء و اجداد کے تھے جنہوں نے ان کے گلے سختی سے دبا رکھے تھے اور نخوت و تکبر کی وجہ سے ان کے سر نیچے نہیں جھکتے تھے۔

۹ ۔۔۔       نبی کی عداوت نے ان کے اور قبول ہدایت کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی تھیں۔ جاہلانہ رسوم و اطوار اور اہواء و آرائے فاسدہ کی اندھیریوں میں اس طرح بند تھے کہ اگلا پیچھا اور نشیب و فراز کچھ نظر نہ آتا تھا۔ نہ ماضی پر نظر تھی نہ مستقبل پر، باقی ان افعال کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف سے اس لیے کہ گئی کہ خالق خیر و شر کا وہی ہے اور اسباب پر مسببات کا ترتب اسی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے دلائل آفاقیہ میں غور کرنے کی نفی ہوئی جیسا کہ "فہم مقمحون" میں دلائل انفسیہ کی طرف ملتفت نہ ہونے کا اشارہ تھا۔ کیونکہ سر اوپر کو اٹھ رہا ہو جھک نہ سکے تو اپنے بدن پر نظر نہیں پڑ سکتی۔

۱۰ ۔۔۔     ان کو برابر ہے لیکن آپ کے حق میں برابر نہیں، بلکہ ایسی سخت معاند اور سرکش قوم کو نصیحت کرنا اور اصلاح کے درپے ہونا عظیم درجات کے حصول کا سبب ہے اور کبھی یہ اخلاق دوسروں کی ہدایت کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح کی آیات سورہ "بقرہ" کے اوائل میں گزر چکی ہیں۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی ڈرانے کا فائدہ اسی کے حق میں ظاہر ہوتا ہے جو نصیحت کو مان کر اس پر چلے اور اللہ کا ڈر دل میں رکھتا ہو۔ جس کو خدا کا ڈر ہی نہیں نہ نصیحت کی کچھ پروا، وہ نبی کی تنبیہ و تذکیر سے کیا فائدہ اٹھائے گا ایسے لوگ بجائے مغفرت و عزت کے سزا اور ذلت کے مستحق ہوں گے۔ آگے اشارہ کرتے ہیں کہ فریقین کی اس عزت و ذلت کا پورا اظہار زندگی کے دوسرے دور میں ہو گا جس کے مبادی موت کے بعد سے شروع ہو جاتے ہیں۔

۱۲ ۔۔۔      ۱: یعنی موت کے بعد دوسری زندگی یقینی ہے جہاں سب اپنے کیے کا بدلہ پائیں گے اور شاید ادھر بھی اشارہ ہو کہ یہ قوم (عرب) جس کی روحانی قوتیں بالکل مردہ ہو چکی ہیں، حق تعالیٰ کو قدرت ہے کہ پھر ان میں زندگی کی روح پھونک دے کہ وہ دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں کرے اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنے آثار عظیمہ چھوڑ جائے۔

۲:  یعنی نیک و بد اعمال جو آگے بھیج چکے اور بعض اعمال کے اچھے برے اثرات یا نشان جو پیچھے چھوڑے مثلاً کوئی کتاب تصنیف کی یا علم سکھلایا، یا عمارت بنائی یا کوئی رسم ڈالی نیک یا بد، سب اس میں داخل ہیں بلکہ الفاظ کے عموم میں وہ نشان قدم بھی شامل ہو سکتے ہیں جو کسی عبادت کے لیے چلتے وقت زمین پر پڑ جاتے ہیں چنانچہ بعض احادیث صحیحہ میں تصریح ہے۔ "دیار کم تکتب اثارکم۔"

۳:  یعنی جس طرح تمام اعمال و آثار وقوع کے بعد ضابطہ کے موافق لکھے جاتے ہیں، قبل از وقوع بھی ایک ایک چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور وہ لکھنا بھی محض انتظامی ضوابط و مصالح کی بناء پر ہے ورنہ اللہ کے علم قدیم میں ہر چھوٹی بڑی چیز پہلے سے موجود و حاضر ہے اسی کے موافق لوح محفوظ میں نقل کی جاتی ہے۔

۱۳ ۔۔۔       ۱: یہ گاؤں اکثر کے نزدیک شہر "انطاکیہ" ہے۔ اور بائیبل کتاب اعمال کے آٹھویں اور گیارہویں باب میں ایک قصہ اسی قصہ کے مشابہ کچھ تفاوت کے ساتھ شہر انطاکیہ کا بیان ہوا ہے۔ لیکن اب کثیر نے تاریخی حیثیت سے اور سیاق قرآن کے لحاظ سے اس پر کچھ اعتراضات کیے ہیں۔ اگر وہ صحیح ہوں تو کوئی اور بستی ماننی پڑے گی واللہ اعلم۔ اس قصہ کا ذکر مومنین کے لیے بشارت اور مکذبین کے لیے عبرت ہے۔

إ         ۲:   ان کے ناموں کی صحیح تعیین نہیں ہو سکتی اور نہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا کسی پیغمبر کے واسطہ سے حکم ہوا تھا اس کے نائب ہو کر فلاں بستی کی طرف جاؤ۔ دونوں احتمال ہیں۔ گو متبادریہ ہی ہے کہ پیغمبر ہوں۔ شاید حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے ہوں گے۔

۱۴ ۔۔۔     یعنی اول دو گئے پھر ان کی تائید کے لیے تیسرا بھیجا گیا تینوں نے مل کر کہا ہم خود نہیں آئے، اللہ کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ ہم کہیں اسی کا پیغام سمجھو۔

۱۵ ۔۔۔       یعنی تم میں کوئی سرخاب کا پر نہیں جو اللہ تمہیں بھیجتا۔ ہم سے کس بات میں تم بڑھ کر تھے۔ بس رہنے دو خواہ مخواہ خدا کا نام نہ لو۔ اس نے کچھ نہیں اتارا۔ تینوں سازش کر کے ایک جھوٹ بنا لائے اسے خدا کی طرف نسبت کر دیا۔

۱۶ ۔۔۔     یعنی اگر ہم خدا پر جھوٹ لگاتے ہیں تو وہ دیکھ رہا ہے۔ کیا وہ اپنے فعل سے برابر جھوٹوں کی تصدیق کرتا رہے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب تم سمجھو یا نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اپنے دعوے میں سچے ہیں اور کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے۔ اسی لیے فعلاً ہماری تصدیق کر رہا ہے۔

۱۷ ۔۔۔      یعنی ہم اپنا فرض ادا کر چکے، خدا کا پیام خوب کھول کر واضح، معقول اور دلنشیں طریقہ سے تم کو پہنچا دیا، اب اتمام حجت کے بعد خود سوچ لو کہ تکذیب و عداوت کا انجام کیا ہونا چاہیے۔

۱۸ ۔۔۔      شاید تکذیب مرسلین اور کفر و عناد کی شامت سے قحط وغیرہ پڑا ہو گا۔ یا مرسلین کے سمجھانے پر آپس میں اختلاف ہوا کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، اس کو نامبارک کہا۔ یعنی تمہارے قدم کیا آئے، قحط اور نا اتفاقی کی بلا ہم پر ٹوٹ پڑی۔ یہ سب تمہاری نحوست ہے۔ (العیاذ باللہ) ورنہ پہلے ہم اچھے خاصے آرام چین کی زندگی بسر کر رہے تھے بس تم اپنے وعظ و نصیحت سے ہم کو معاف رکھو۔ اگر یہ طریقہ نہ چھوڑو گے اور وعظ و نصیحت سے باز نہ آؤ گے تو ہم سخت تکلیف و عذاب پہنچا کر تم کو سنگسار کر ڈالیں گے۔

۱۹ ۔۔۔       یعنی تمہارے کفر و تکذیب کی شامت سے عذاب آیا۔ اگر حق و صداقت کو سب مل کر قبول کر لیتے نہ یہ اختلاف مذموم پیدا ہوتا، نہ اس طرح مبتلائے آفات ہوتے۔ پس نا مبارکی اور نحوست کے اسباب خود تمہارے اندر موجود ہیں۔ پھر کیا اتنی بات پر کہ تمہیں اچھی نصیحت و فہمائش کی اور بھلا برا سمجھایا، اپنی نحوست ہمارے سر ڈالنے لگے۔ اور قتل کی دھمکیاں دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم عقل و آدمیت کی حدود سے خارج ہو جاتے ہو۔ نہ عقل سے سمجھتے ہو نہ آدمیت کی بات کرتے ہو۔

۲۰ ۔۔۔      کہتے ہیں کہ اس مرد صالح کا نام حبیب تھا۔ شہر کے پرلے کنارے عبادت میں مشغول رہتا اور کسب حلال سے کھاتا تھا۔ فطری صلاحیت نے چپ نہ بیٹھنے دیا۔ قصہ سنتے ہی مرسلین کی تائید و حمایت اور مکذبین کی نصیحت و فہمائش کے لیے دوڑتا ہوا آیا۔ مبادا اشقیاء اپنی دھمکیوں کو پورا کرنے لگیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرسلین کی آواز کا اثر شہر کے دور دراز حصوں تک پہنچ گیا تھا۔

۲۱ ۔۔۔      یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس کا پیغام لے کر آئے ہیں جو نصیحت کرتے ہیں اس پر خود کار بند ہیں اخلاق، اعمال اور عادات و اطوار سب ٹھیک ہیں۔ پھر ایسے بے لوث بزرگوں کا اتباع کیوں نہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے جو پیغام بھیجے کیوں قبول نہ کیا جائے۔

۲۲ ۔۔۔     ۱: یہ اپنے اوپر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔ یعنی تم کو آخر کیا ہوا کہ جس نے پیدا کیا اس کی بندگی نہ کرو۔

۲: یعنی یہ مت سمجھنا کہ پیدا کر کے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اب کچھ مطلب اس سے نہیں رہا۔ نہیں، سب کو مرے پیچھے اسی کے پاس واپس جانا ہے۔ اس وقت کی فکر کر رکھو۔

۲۴ ۔۔۔     یعنی کس قدر صریح گمراہی ہے کہ اس مہربان اور قادرِ مطلق پروردگار کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی تکلیف سے نہ بذات خود چھڑا سکیں نہ سفارش کر کے نجات دلا سکیں۔

۲۵ ۔۔۔     یعنی مجمع میں بے کھٹکے اعلان کرتا ہوں کہ میں خدائے واحد پر ایمان لا چکا۔ اسے سب سن رکھیں شاید مرسلین کو اس لیے سنایا ہو کہ وہ اللہ کے ہاں گواہ رہیں اور قوم کو اس لیے کہ سن کر کچھ متاثر ہوں یا کم از کم دنیا ایک مومن کی قوت ایمان کا مشاہدہ کرنے کی طرف متوجہ ہو۔

۲۶ ۔۔۔       یعنی فوراً بہشت کا پروانہ مل گیا۔ آگے نقل کرتے ہیں کہ قوم نے اس کو نہایت بیدردی کے ساتھ شہید کر ڈالا۔ ادھر شہادت واقع ہوئی ادھر سے حکم ملا کہ فوراً بہشت میں داخل ہو جا۔ جیسا کہ ارواح شہداء کی نسبت احادیث سے ثابت ہے کہ وہ قبل از محشر جنت میں داخل ہوتی ہیں۔

۲۷ ۔۔۔       قوم نے اس کی دشمنی کی کہ مار ڈالا۔ اس کو بہشت میں پہنچ کر بھی قوم کی خیر خواہی کا خیال رہا کہ اگر میرا حال اور جو انعام و اکرام حق تعالیٰ نے مجھ پر کیا ہے معلوم کر لیں تو سب ایمان لے آئیں۔

۲۹ ۔۔۔     یعنی اس کے بعد اس کی قوم کفر و ظلم اور تکذیب مرسلین کی پاداش میں ہلاک کی گئی اور اس اہلاک کے لیے کوئی مزید اہتمام کرنا نہیں پڑا کہ آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیجی جاتی، نہ حق تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ قوموں کی ہلاکت کے لیے بڑی بڑی فوجیں بھیجا کریں (یوں کسی خاص موقع پر کسی خاص مصلحت کی وجہ سے فرشتوں کا لشکر بھیج دیں وہ دوسری بات ہے) وہاں تو بڑے بڑے مدعیوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک ڈانٹ کافی ہے۔ چنانچہ اس قوم کا حال بھی یہ ہی ہوا کہ فرشتوں نے ایک چیخ ماری اور سب کے سب اسی دم بجھ کر رہ گئے۔

۳۱ ۔۔۔        یعنی دیکھتے اور سنتے ہیں کہ دنیا میں کتنی قومیں پہلے پیغمبروں سے ٹھٹھا کر کے غارت ہو چکی ہیں جن کا نام و نشان مٹ چکا۔ کوئی ان میں سے لوٹ کر ادھر واپس نہیں آئی۔ عذاب کی چکی میں سب پس کر برابر ہو گئیں اس پر بھی عبرت نہیں ہوئی، جب کوئی نیا رسول آتا ہے وہ ہی تمسخر اور استہزاء شروع کر دیتے ہیں۔ جو پہلے کفار کی عادت تھی۔ چنانچہ آج خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کفار مکہ کا یہ ہی معاملہ ہے۔

۳۲ ۔۔۔     یعنی وہ تو دنیا کا عذاب تھا، اور آخرت کی سزا الگ رہی۔ یہ نہ سمجھو کہ ہلاک ہو کر ادھر واپس نہیں آتے تو بس قصہ ختم ہوا۔ نہیں، سب کو پھر ایک دن خدا کے ہاں حاضر ہونا ہے۔ جہاں بلا استثناء مجرم پکڑے ہوئے آئیں گے۔

۳۵ ۔۔۔     ۱:یعنی شاید شبہ گزرتا کہ میرے پیچھے پھر کس طرح زندہ ہو کر حاضر کیے جائیں گے؟ اس کو یوں سمجھا دیا کہ زمین خشک اور مردہ پڑی ہوتی ہے۔ پھر خدا اس کو زندہ کرتا ہے کہ ایک دم لہلہانے لگتی ہے۔ کیسے کیسے باغ و بہار، غلے اور میوے اس سے پیدا ہوتے ہیں جن کو تم استعمال میں لاتے ہو۔ اسی طرح خیال کر لو کہ مردہ ابدان میں روح حیات پھونک دی جائے گی۔ بہرحال مردہ زمین میں ان کے لیے ایک نشانی ہے جس میں غور کرنے سے بعث بعد الموت اور حق تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت اور اس کے انعام و احسان کے مسائل کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں (تنبیہ) اوپر کی آیات میں ترہیب کا پہلو نمایاں تھا کہ عذاب الٰہی سے ڈر کر راہ ہدایت اختیار کریں۔ آیاتِ حاضرہ میں ترغیب کی صورت اختیار فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کر شکر گزاری کی طرف متوجہ ہوں اور یہ بھی سمجھیں کہ جو خدا مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے وہ ایمانی حیثیت سے ایک مردہ قوم کو زندہ کر دے، یہ کیا مشکل ہے۔

۲: یعنی یہ پھل اور میوے قدرتِ الٰہی سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں یہ طاقت نہیں کہ ایک انگور یا کھجور کا دانہ پیدا کر لیں۔ جو محنت اور تردد باغ لگانے اور اس کی پرورش کرنے میں کیا جاتا ہے اس کو بار آور کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور غور سے دیکھا جائے تو جو کام بظاہر ان کے ہاتھوں سے ہوتا ہے وہ بھی فی الحقیقت حق تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت و طاقت اور اس کی مشیت و ارادہ سے ہوتا ہے لہٰذا ہر حیثیت سے اس کی شکر گزاری اور احسان شناسی واجب ہوئی۔ (تنبیہ) مترجم محقق رحمۃ اللہ نے "وما عملتہ ایدیہم"میں "ما" کو نافیہ لیا ہے۔ کما ہو داب اکثر المتاخرین۔ لیکن سلف سے عموماً "ما" کا موصلہ ہونا منقول ہے اور اسی کی تائید ابن مسعود کی قرأت "ومما عملتہ ایدیہم" سے ہوتی ہے۔

۳۶ ۔۔۔     یعنی نباتات میں، انسانوں میں اور دوسری مخلوقات میں جن کی انہیں پوری خبر بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جوڑے بنائے ہیں خواہ تقابل کی حیثیت سے جیسے عورت مرد، نر مادہ، کھٹا میٹھا، سیاہ سفید، دن رات، اندھیرا اجالا، یا تماثل کی حیثیت سے جیسے یکساں رنگ اور مزے کے پھل اور ایک شکل و صورت کے دو جانور، بہرحال مخلوقات میں کوئی مخلوق نہیں جس کا مماثل یا مقابل نہ ہو یہ صرف خدا ہی کی ذات پاک ہے جس کا نہ کوئی مقابل ہے نہ مماثل، کیونکہ مقابلہ یا مماثلت ان چیزوں میں ہو سکتی ہے جو کسی درجہ میں فی الجملہ اشتراک رکھتی ہوں۔ خالق و مخلوق کا کسی حقیقت میں اشتراک ہی نہیں۔

۳۷ ۔۔۔     "سلخ" کہتے ہیں جانور کی کھال اتارنے کو جس سے نیچے کا گوشت ظاہر ہو جائے۔ اسی طرح سمجھ لو رات کی تاریکی پر دن کی چادر پڑی ہوئی ہے۔ جس وقت یہ نور کی چادر اوپر سے اتار لی جاتی ہے لوگ اندھیرے میں پڑے رہ جاتے ہیں اس کے بعد پھر سورج اپنی مقررہ رفتار سے معین وقت پر آ کر سب جگہ اجالا کرتا ہے۔ لیل و نہار کے ان تقلبات پر قیاس کر کے سمجھ لو کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ عالم کو فنا کر کے دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اور بیشک وہ ہی ایک خدا لائق پرستش ہے جس کے ہاتھ میں ان عظیم الشان انقلابات کی باگ ہے۔ جن سے ہم کو مختلف قسم کے فوائد پہنچتے ہیں۔ نیز جو قادر مطلق رات کو دن سے تبدیل کرتا ہے کیا کچھ بعید ہے کہ بذریعہ آفتاب رسالت کے دنیا سے جہالت کی تاریکیوں کو دور کر دے لیکن رات دن اور چاند، سورج کے طلوع و غروب کی طرح ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے۔

۳۸ ۔۔۔       سورج کی چال اور راستہ مقرر ہے اسی پر چلا جاتا ہے۔ ایک انچ یا ایک منٹ اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔ جس کام پر لگا دیا ہے ہر وقت اس میں مشغول ہے۔ کسی دم قرار نہیں۔ رات دن کی گردش اور سال بھر کے چکر میں جس جس ٹھکانہ پر اسے پہنچنا ہے پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے باذن خداوندی نیا دورہ شروع کرتا ہے۔ قرب قیامت تک اسی طرح کرتا رہے گا۔ تاآنکہ ایک وقت آئے گا جب اس کو حکم ہو گا کہ جدھر سے غروب ہوا ہے ادھر سے واپس آئے یہی وقت ہے جب باب توبہ بند کر دیا جائے گا۔ کما ورد فی الحدیث الصحیح۔ بات یہ ہے کہ اس کے طلوع و غریب کا یہ سب نظام اس زبردست اور باخبر ہستی کا قائم کیا ہوا ہے جس کے انتظام کو کوئی دوسرا شکست نہیں کر سکتا، اور نہ اس کی حکمت و دانائی پر کوئی حرف گیری کر سکتا ہے وہ خود جب چاہے اور جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرے کسی کو مجال انکار نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث آئی ہے جس میں شمس کے تحت العرش سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔ یہاں اس کی تشریح کا موقع نہیں۔ اس پر ہمارا مستقل مضمون "سجود الشمس" کے نام سے چھپا ہوا ہے۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔

۳۹ ۔۔۔       سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک طرح نہیں رہتا بلکہ روزانہ گھٹتا بڑھتا۔ اس کی اٹھائیس منزلیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں۔ ان کو ایک معین نظام کے ساتھ درجہ بدرجہ طے کرتا ہے۔ پہلی آیت میں رات دن کا بیان تھا، پھر سورج کا ذکر کیا جس سے سالوں اور فصلوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ اب چاند کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی رفتار سے قمری مہینوں کا وجود وابستہ ہے۔ چاند سورج مہینہ کے آخر میں ملتے ہیں تو چاند چھپ جاتا ہے جب آگے بڑھتا ہے تو نظر آتا ہے۔ پھر منزل بہ منزل بڑھتا چلا جاتا اور چودھویں شب کو پورا ہو کر بعد میں گھٹنا شروع ہوتا ہے آخر رفتہ رفتہ اسی پہلی حالت پر آ پہنچتا اور کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح پتلا، خمدار اور بے رونق سا ہو کر رہ جاتا ہے۔

۴۰ ۔۔۔     سورج کی سلطنت دن میں ہے اور چاند کی رات میں، یہ نہیں ہو سکتا کہ چاند کی نور افشانی کے وقت سورج اس کو آ دبائے۔ یعنی دن آگے بڑھ کر رات کا کچھ حصہ اڑا لے یا رات سبقت کر کے دن کے ختم ہونے سے پہلے آ جائے۔ جس زمانہ اور جس ملک میں جو اندازہ رات، دن کا رکھ دیا ہے ان کی رات کی مجال نہیں کہ ایک منٹ آگے پیچھے ہو سکیں۔ ہر ایک سیارہ اپنے اپنے مدار میں پڑا چکر کھا رہا ہے اس سے ایک قدم ادھر ادھر نہیں ہٹ سکتا اور باوجود اس قدر سریع حرکت اور کھلی ہوئی فضا کے نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ مقررہ انداز سے زیادہ تیز یا سست ہوتا ہے کیا یہ اس کا واضح نشان نہیں کہ یہ سب عظیم الشان مشینیں اور ان کے تمام پرزے کسی ایک زبردست مدبر و دانا ہستی کے قبضہ اقتدار میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ پھر جو ہستی رات دن اور چاند سورج کا ادل بدل کرتی ہے وہ تمہارے فنا کرنے اور فنا کے بعد دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہو گی؟ (العیاذ باللہ) (تنبیہ) حضرت شاہ صاحب "لا الشمس ینبغی لہآ ان تدرک القمر" کی تعبیر کا نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ سورج چاند اخیر مہینہ میں ملتے ہیں تو چاند پکڑتا ہے سورج کو۔ سورج چاند کو نہیں پکڑتا۔" اسی لیے لا القمر ینبغی لہ ان یدرک الشمس نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم۔

۴۲ ۔۔۔       یعنی حضرت نوح کے زمانہ میں جب طوفان آیا تو آدم کی نسل کو اس بھری ہوئی کشتی پر سوار کر لیا جو حضرت نوح نے بنائی تھی۔ ورنہ انسان کا تخم باقی نہ رہتا۔ پھر اسی کشتی کے نمونہ کی دوسری کشتیاں اور جہاز تمہارے لیے بنا دیے جن پر تم آج تک لدے پھرتے ہو۔ یا کشتیوں جیسی دوسری سواریاں پیدا کر دیں جس پر سوار ہوتے ہو۔ مثلاً اونٹ، جن کو عرب "سفائن البر" (خشکی کی کشتیاں) کہا کرتے تھے۔

۴۴ ۔۔۔     یعنی یہ مشت استخواں انسان! دیکھو کیسے خوفناک سمندروں کو کشتی کے ذریعہ عبور کرتا ہے۔ جہاں بڑے بڑے جہازوں کی حقیقت ایک تنکے کے برابر نہیں۔ اگر اللہ اس وقت غرق کرنا چاہے تو کون بچا سکتا ہے اور کون ہے جو فریاد کو پہنچے۔ مگر یہ اس کی مہربانی اور مصلحت ہے کہ اس طرح سب بحری سواریوں کو غرق نہیں کر دیتا۔ کیونکہ اس کی رحمت و حکمت مقتضی ہے کہ ایک معین وقت تک دنیا کا کام چلتا رہے۔ افسوس ہے کہ بہت لوگ ان نشانیوں کو نہیں سمجھتے نہ اس کی نعمتوں کو قدر کرتے ہیں۔

۴۶ ۔۔۔     سامنے آتا ہے جزاء کا دن اور پیچھے چھوڑے اپنے اعمال یعنی جب کہا جاتا ہے کہ قیامت کی سزا اور بداعمالیوں کی شامت سے بچنے کی فکر کرو تاکہ خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو تو نصیحت پر ذرا کان نہیں دھرتے۔ ہمیشہ خدائی احکام سے روگردانی کرتے رہتے ہیں۔

۴۷ ۔۔۔      ۱: یعنی اور احکام الٰہی تو کیا مانتے، فقیروں مسکینوں پر خرچ کرنا تو ان کے نزدیک بھی کارِ ثواب ہے لیکن یہ ہی مسلم بات جب پیغمبر اور مومنین کی طرف سے کہی جاتی ہے تو نہایت بھونڈے طریقہ سے تمسخر کے ساتھ یہ کہہ کر اس کا انکار کر دیتے ہیں کہ جنہیں خود اللہ میاں نے کھانے کو نہیں دیا ہم انہیں کیوں کھلائیں۔ ہم تو اللہ کی مشیت کے خلاف کرنا نہیں چاہتے اگر اس کی مشیت ہوتی تو ان کو فقیر و محتاج اور ہمیں غنی و تونگر نہ بناتا۔ خیال کرو اس حماقت اور بے حیائی کا کیا ٹھکانہ ہے۔ کیا خدا کسی کو دینا چاہے تو اس کی یہ ہی ایک صورت ہے کہ خود بلا واسطہ رزق اس کے ہاتھ پر رکھ دے۔ اگر وسائط سے دلانا بھی اس کی مشیت سے ہے تو تم نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ اللہ ان کو روٹی دینا نہیں چاہتا۔ یہ تو اس کا امتحان ہے کہ اغنیا کو فقراء کی اعانت پر مامور فرمایا اور ان کے توسط سے رزق پہنچانے کا سمان کیا جو اس امتحان میں نا کامیاب رہا اسے اپنی بدبختی اور شقاوت پر رونا چاہیے۔ (تنبیہ) بعض سلف کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات بعض زنادقہ کے حق میں ہیں۔ اس صورت میں ان کے اس قول کو تمسخر پر حمل نہ کیا جائے گا بلکہ حقیقت پر رکھیں گے۔

۲:   اگر یہ جملہ کفار کے قول کا تتمہ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ اے گروہ مومنین! تم صریح گمراہی میں پڑے ہو۔ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو جن کا خدا پیٹ بھرنا نہیں چاہتا۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کفار کو خطاب ہے کہ کس قدر بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ گمراہی ہے نیک کام میں تقدیر کے حوالے کرنا اور اپنے مزے میں لالچ پر دوڑنا۔"

۴۸ ۔۔۔     یعنی یہ قیامت اور عذاب کی دھمکیاں کب پوری ہوں گی۔ اگر سچے ہو تو جلد پوری کر کے دکھلا دو۔

۵۰ ۔۔۔       یعنی قیامت ناگہاں آ پکڑے گی اور وہ اپنے معاملات میں غرق ہوں گے۔ جس وقت پہلا صور پھونکا جائے گا سب ہوش و حواس جاتے رہیں گے اور آخر مر کر ڈھیر ہو جائیں گے۔ اتنی فرصت بھی نہ ملے گی کہ فرض کرو مرنے سے پہلے کسی کو کچھ کہنا چاہیں تو کہہ گزریں یا جو گھر سے باہر تھے وہ گھر واپس جا سکیں۔

۵۱ ۔۔۔       یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور فرشتے ان کو جلد جلد دھکیل کر میدان حشر میں لے جائیں گے۔

۵۲ ۔۔۔     ۱: شاید نفخہ اولی اور نفخہ ثانیہ کے درمیان ان پر نیند کی حالت طاری کر دی جائے۔ یا قیامت کا ہولناک منظر دیکھ کر عذاب قبر کو اہون سمجھیں گے اور نیند سے تشبیہ دیں گے۔ یا "مرقد" بمعنی "مضجع" کے ہو۔ نیند کی کیفیت سے تجرید کر لی جائے۔ واللہ اعلم۔

۲: یہ جواب اللہ کی طرف سے اس وقت ملے گا یا مستقبل کو حاضر قرار دے کر اب جواب دے رہے ہیں۔ یعنی کیا پوچھتے ہو کس نے اٹھا دیا۔ ذرا آنکھیں کھولو۔ یہ وہ ہی اٹھانا ہے جس کا وعدہ خدائے رحمان کی طرف سے کیا گیا تھا اور پیغمبر جس کی خبر برابر دیتے رہے تھے۔

۵۳ ۔۔۔     یعنی کوئی متنفس نہ بھاگ سکے گا نہ روپوش ہو سکے گا۔

۵۴ ۔۔۔      یعنی نہ کسی کی نیکی ضائع ہو گی نہ جرم کی حیثیت سے زیادہ سزا ملے گی۔ ٹھیک ٹھیک انصاف ہو گا اور جو نیک و بد کرتے تھے فی الحقیقت عذاب و ثواب کی صورت میں وہ ہی سامنے آ جائے گا۔

۵۷ ۔۔۔     بہشت میں ہر قسم کے عیش و نشاط کا سامان ہو گا۔ دنیا کی مکروہات سے چھوٹ کر آج یہ ہی ان کا مشغلہ ہو گا۔ وہ اور ان کی عورتیں آپس میں گھل مل کر اعلیٰ درجہ کے خوشگوار سایوں میں مسہریوں پر آرام کر رہے ہوں گے۔ ہمہ قسم کے میوے اور پھل وغیرہ ان کے لیے حاضر ہوں گے۔ بس خلاصہ یہ ہے کہ جس چیز کی جنتیوں کے دل میں طلب اور تمنا ہو گی وہ ہی دی جائے گی، اور منہ مانگی مرادیں ملیں گی۔ یہ تو جسمانی لذائذ کا حال ہوا، آگے روحانی نعمتوں کی طرف "سلام قولا من رب رحیم" سے اک ذرا سا اشارہ فرماتے ہیں۔

۵۸ ۔۔۔      یعنی اس مہربان پروردگار کی طرف سے جنتیوں کو سلام بولا جائے گا خواہ فرشتوں کے ذریعہ سے یا جیسا کہ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے بلاواسطہ خود رب کریم سلام ارشاد فرمائیں گے اس وقت کی عزت و لذت کا کیا کہنا۔ اللہم ارقنا عذہ النعمۃ العظمی بحرمۃ نبیک محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔

۵۹ ۔۔۔     یعنی جنتیوں کے عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ تمہارا مقام دوسرا ہے جہاں رہنا ہو گا۔

۶۱ ۔۔۔     یعنی اسی دن کے لیے تم کو انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار سمجھایا گیا کہ شیطان لعین کی پیروی مت کرنا جو تمہارا صریح دشمن ہے وہ جہنم میں پہنچائے بغیر نہ چھوڑے گا۔ اگر ابدی نجات چاہتے ہو تو یہ سیدھی راہ پڑی ہوئی ہے اس پر چلے آؤ اور اکیلے ایک خدا کی پرستش کرو۔

۶۴ ۔۔۔       یعنی افسوس اتنی نصیحت و فہمائش پر بھی تم کو عقل نہ آئی اور اس ملعون نے ایک خلقت کو گمراہ کر چھوڑا کیا تمہیں اتنی سمجھ نہ تھی کہ دوست دشمن میں تمیز کر سکتے۔ اور اپنے نفع و نقصان کو پہچانتے۔ دنیا کے کاموں میں تو اس قدر ہوشیاری اور ذہانت دکھلاتے تھے مگر آخرت کے معاملہ میں اتنے غبی بن گئے کہ موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے کی لیاقت نہ رہی۔ اب اپنی حماقتوں کا خمیازہ بھگتو۔ یہ دوزخ تیار ہے جس کا بصورت کفر اختیار کرنے کے تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کفر کا ٹھکانہ یہ ہی ہے۔ چاہیے کہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاؤ۔

۶۵ ۔۔۔       یعنی آج اگر یہ لوگ اپنے جرموں کا زبان سے اعتراف نہ بھی کریں تو کیا ہوتا ہے، ہم منہ پر مہر لگا دیں گے اور ہاتھ پاؤں کان آنکھ حتی کہ بدن کی کھال کو حکم دیا جائے گا کہ ان کے ذریعہ سے جن جرائم کا ارتکاب کیا تھا بیان کریں۔ چنانچہ ہر ایک عضو اللہ کی قدرت سے گویا ہو گا اور ان جرموں کی شہادت دے گا۔ کما قال تعالیٰ۔ "حتی اذا ماجاؤھا شہد علیہم سمعہم وابصارہم وجلودہم بما کانوا یعملون"(حم السجدہ، رکوع۳) وقال تعالیٰ فی موضع آخر۔ "قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شئی " (حم السجدہ، رکوع۳)

۶۷ ۔۔۔     یعنی جیسے انہوں نے ہماری آیتوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں اگر ہم چاہیں تو دنیا ہی میں بطور سزا کے ان کی ظاہری بینائی چھین کر نپٹ اندھا کر دیں کہ ادھر ادھر جانے کا راستہ بھی نہ سوجھے اور جس طرح یہ لوگ شیطانی راستوں سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر چلنا نہیں چاہتے، ہم کو قدرت ہے کہ اس کی صورتیں بگاڑ کر بالکل اپاہج بنا دیں کہ پھر یہ کسی ضرورت کے لیے اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔ پر ہم نے ایسا نہ چاہا اور ان جوارح و قویٰ سے ان کو محروم نہ کیا۔ یہ ہماری طرف سے مہلت اور ڈھیل تھی آج وہ ہی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ ان بیہودوں نے ہم کو کن نالائق کاموں میں لگایا تھا۔

۶۸ ۔۔۔       یعنی آنکھیں چھین لینا اور صورت بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے، سننے اور چلنے پھرنے سے معذور کر دیا جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا، بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے، جوانی میں نہیں کر سکتا؟

۶۹ ۔۔۔     یعنی اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ حقائق واقعہ ہیں۔ کوئی شاعرانہ تخیلات نہیں۔ اس پیغمبر کو ہم نے قرآن دیا ہے جو نصیحتوں اور روشن تعلیمات سے معمور ہے کوئی شعر و شاعری کا دیوان نہیں دیا جس میں نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوں، بلکہ آپ کی طبع مبارک کو فطری طور پر اس فن شاعری سے اتنا بعید رکھا گیا کہ باوجود قریش کے اس اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کے جس کی معمولی لونڈیاں بھی اس وقت شعر کہنے کا طبعی سلیقہ رکھتی تھیں۔ آپ نے مدت العمر کوئی شعر نہیں بنایا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر کبھی ایک آدھ مرتبہ زبان مبارک سے مقفی عبارت نکل کر بے ساختہ شعر کے سانچہ میں ڈھل گئی ہو وہ الگ بات ہے۔ اسے شاعری یا شعر کہنا نہیں کہتے۔ آپ خود تو شعر کیا کہتے کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرح بھی زندگی بھر میں دو چار مرتبہ سے زائد نہیں پڑھا۔ اور پڑھتے وقت اکثر اس میں ایسا تغیر کر دیا کہ شعر شعر نہ رہے۔ محض مطلب شاعر ادا ہو جائے۔ غرض آپ کی طبع شریف کو شاعری سے مناسبت نہیں دی گئی تھی کیونکہ یہ چیز آپ کے منصب جلیل کے لائق نہ تھی۔ آپ حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقائق سے بدون ادنیٰ ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شاعریت کا حسن و کمال کذب و مبالغہ، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں۔ شعر میں اگر کوئی جز محمود ہے تو اس کی تاثیر اور دلنشینی ہو سکتی ہے۔ سو یہ چیز قرآن کی نثر میں اس درجہ پر پائی جاتی ہے کہ ساری دنیا کے شاعر مل کر یہ بھی اپنے کلاموں کے مجموعہ میں پیدا نہیں کر سکتے۔ قرآن کریم کے اسلوب بدیع کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ گویا نظم کی اصل روح نکال کر نثر میں ڈال دی گئی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فصیح و عاقل دنگ ہو کر قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگے تھے۔ حالانکہ شعر و سحر کو قرآن سے کیا نسبت؟ کیا شاعری اور جادوگری کی بنیاد پر دنیا میں کبھی قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارتیں کھڑی ہوئی ہیں جو قرآنی تعلیم کی اساس پر آج تک قائم شدہ دیکھتے ہو۔ یہ کام شاعروں کا نہیں پیغمبروں کا ہے کہ خدا کے حکم سے مردہ قلوب کو ابدی زندگی عطا کرتے ہیں، حق تعالیٰ نے عرب کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ آپ پہلے سے شاعر تھے شاعری سے ترقی کر کے نبی بن بیٹھے۔

۷۰ ۔۔۔      یعنی زندہ دل آدمی قرآن سن کر اللہ سے ڈرے اور منکروں پر حجت تمام ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جس میں جان ہو یعنی نیک اثر پکڑتا ہو اس کے فائدہ کو اور منکروں پر الزام اتارنے کو۔"

۷۱ ۔۔۔     آیات تنزیلیہ کے بعد پھر آیاتِ تکوینیہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف قرآن کی پند و نصیحت کو سنو، اور دوسری طرف غور سے دیکھو کہ اللہ کے کیسے کیسے انعام و احسان تم پر ہوئے ہیں، اونٹ، گائے، بکری، گھوڑے، خچر وغیرہ جانوروں کو تم نے نہیں بنایا اللہ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے۔ پھر تم کو محض اپنے فضل سے ان کا مالک بنا دیا کہ جہاں چاہو بیچو اور جو چاہو کام لو۔

۷۳ ۔۔۔     دیکھو کتنے بڑے بڑے عظیم الجثہ قوی ہیکل جانور انسان ضعیف البنیان کے سامنے عاجز و مسخر کر دیے۔ ہزاروں اونٹوں کی قطار کو ایک خورد سال بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لے جائے ذرا کان نہیں ہلاتے۔ کیسے کیسے شہ زور جانوروں پر آدمی سواری کرتا ہے اور بعض کو کاٹ کر اپنی غذا بناتا ہے۔ علاوہ گوشت کھانے کے ان کی کھال، ہڈی اون وغیرہ سے کس قدر فوائد حاصل کیے جاتے ہیں ان کے تھن کیا ہیں گویا دودھ کے چشمے ہیں ان ہی چشموں کے گھاٹ سے کتنے آدمی سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں۔

۷۵ ۔۔۔       یعنی جس خدا نے یہ نعمتیں مرحمت فرمائیں اس کا یہ شکر ادا کیا کہ اس کے مقابل دوسرے احکام اور معبود ٹھہرا لیے جنہیں سمجھتے ہیں کہ آڑے وقت میں کام آئیں گے اور مدد کریں گے سو یاد رکھو! وہ تمہاری تو کیا اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ ہاں جب تم کو مدد کی ضرورت ہو گی اس وقت گرفتار ضرور کرا دیں گے تب پتہ لگے گا کہ جن کی حمایت میں عمر بھر لڑتے رہے تھے وہ آج کس طرح آنکھیں دکھانے لگے۔

۷۶ ۔۔۔       یعنی جب خود ہمارے ساتھ ان کا یہ معاملہ ہے تو آپ ان کی بات سے غمگین و دلگیر نہ ہوں۔ اپنا فرض ادا کر کے ہمارے حوالہ کریں۔ ہم ان سکے ظاہری و باطنی احوال سے خوب واقف ہیں ٹھیک ٹھیک بھگتان کر دیں گے۔

۷۷ ۔۔۔     یعنی انسان اپنی اصل کو یاد نہیں رکھتا کہ وہ ایک ناچیز قطرہ تھا، خدا نے کیا سے کیا بنا دیا۔ اس پانی کی بوند کو وہ زور اور قوت گویائی عطا کی کہ بات بات پر جھگڑنے اور باتیں بنانے لگا۔ حتیٰ کہ آج اپنی حد سے بڑھ کر خالق کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا۔

۷۸ ۔۔۔       یعنی دیکھتے ہو! خدا پر کیسے فقرے چسپاں کرتا ہے۔ گویا اس قادر مطلق کو عاجز مخلوق کی طرح فرض کر لیا ہے جو کہتا ہے کہ آخر جب بدن گل سڑ کر صرف ہڈیاں رہ گئیں وہ بھی بوسیدہ پرانی اور کھوکھلی، تو انہیں دوبارہ کون زندہ کرے گا۔ ایسا سوال کرتے وقت اسے اپنی پیدائش یاد نہیں رہی ورنہ اس قطرہ ناچیز کو ایسے الفاظ کہنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اپنی اصل پر نظر کر کے کچھ شرماتا اور کچھ عقل سے کام لے کر اپنے سوال کا جواب بھی حاصل کر لیتا جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔

۷۹ ۔۔۔     یعنی جس نے پہلی مرتبہ ان ہڈیوں میں جان ڈالی اسے دوسری بار جان ڈالنا کیا مشکل ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ (وہو اہون علیہ) اور اس قادر مطلق کے لیے تو سب ہی چیز آسان ہے پہلی مرتبہ ہو یا دوسری مرتبہ، وہ ہر طرح بنانا جانتا ہے اور بدن کے اجزاء اور ہڈیوں کے ریزے جہاں کہیں منتشر ہو گئے ہوں ان کا ایک ایک ذرہ اس کے علم میں ہے۔

۸۰ ۔۔۔      یعنی اول پانی سے سرسبز و شاداب درخت تیار کیا پھر اسی تر و تازہ درخت کو سکھا کر ایندھن بنا دیا جس سے اب تم آگ نکال رہے ہو۔ پس جو خدا ایسی متضاد صفات کو ادل بدل سکتا ہے کیا وہ ایک چیز کی موت و حیات کے الٹ پھیر پر قادر نہیں؟ (تنبیہ) بعض سلف نے "شجر اخضر" (سبز درخت) سے خاص وہ درخت مراد لیے ہیں جن کی شاخوں کو آپس میں رگڑنے سے آگ نکلتی ہو۔ جیسے بانس کا درخت ہے یا عرب میں مرخ اور عفار تھے۔ واللہ اعلم۔

۸۱ ۔۔۔     یعنی جس نے آسمان و زمین جیسی بڑی بڑی چیزیں پیدا کیں اسے ان کافروں جیسی چھوٹی چیزوں کا پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔

۸۲ ۔۔۔      یعنی کسی چھوٹی بڑی چیز کے پہلی مرتبہ یا دوبارہ بنانے میں اسے دقت ہی کیا ہو سکتی ہے اس کے ہاں تو بس ارادہ کی دیر ہے جہاں کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور کہا ہو جا! فوراً ہوئی رکھی ہے۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) میرے خیال میں اس آیت کو پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے خلق بدن کا ذکر تھا یہاں نفخ روح کا مطلب سمجھا دیا۔ واللہ اعلم۔ راجع و فوائد سورۃ الاسراء تحت بحث الروح۔

۸۳ ۔۔۔     یعنی وہ اعلیٰ ترین ہستی جس کے ہاتھ میں فی الحال بھی اوپر سے نیچے تک تمام مخلوقات کی زمام حکومت ہے اور آئندہ بھی اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ پاک ہے عجز و سفہ اور ہر قسم کے عیب و نقص سے تم سورۃ یس وللہ الحمد والمنتہ۔