انداز بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول یا تو مکہ کے دَورِ متوسط کا آخری زمانہ ہے، یا پھر یہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے۔
کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدؐی پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے۔ اس میں اِنذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے۔
استدلال تین امور پر کیا گیا ہے :
توحید پر آثار کائنات اور عقل عام سے،
آخرت پر آثار کائنات، عقل عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے،
اور رسالت محمؐدی کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے، اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انہیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا۔
اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقہ سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبول حق کی تھوڑی سے صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے مَعقِل بن یَسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یٰس الب القرآن، یعنی یہ سورہ قرآن کا دل ہے۔ یہ اسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورہ فاتحہ کو اُم القرآن فرمایا گیا ہے۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آ گیا ہے۔ اور یٰس کو قرآن دھڑکتا ہو دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔
انہی حضرت مَعقِل بن یسار سے امام احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضؐور نے فرمایا : اقرءواسُورۃ یٰس علیٰ موتا کم۔ ’’ اپنے مرنے والوں پر سورہ یٰس پڑھا کرو۔ ‘‘ اس کی مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں، بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آ جائے اور وہ جان لے کہ حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس مصلحت کی تکمیل کے لیے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عربی داں آدمی کو سورہ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جائے تاکہ تذکیر کا حق پوری طرح ادا ہو جائے۔
(۱)۔ ابن عباس، عکرمہ، ضحاک، اسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ ’’اے انسان ‘‘ یا ‘’ اے شخص‘‘۔ اور بعض مفسرین نے اسے ’’ یا سید‘ ‘کا مخفف بھی قرار دیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے ن الفاظ کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
(۲)۔ اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ’’ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو‘‘ یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر اس بات پر قرآن قسم کھائی گئی ہے، اور قرآن کی صفت میں لفظ’’ حکیم ‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادِر نہیں ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو جانتے ہیں وہ ہر گز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں۔ (اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات ۲۷۲ تا ۲۷۴۔ ۲۸۵ تا ۲۸۶۔ ۶۴۱ تا ۶۴۳ جلد سوم، صفحات ۳۱۷ تا ۳۱۸۔ ۴۷۶۔ ۶۰۲۔ ۶۳۹ تا ۶۴۲۔ ۶۶۵ تا ۶۷۰۔ ۷۱۱ تا ۷۱۳۔ ۷۲۴ تا ۷۲۸۔ ۷۳۰ تا ۷۳۲)
(۳)۔ یہاں قرآن کے نازل کرنے والے کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ غالب اور زبردست ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے۔ پہلی صفت بیان کرنے سے مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ قرآن کسی بے زور ناصح کی نصیحت نہیں ہے جسے تم نظر انداز کر دو تو تمہارا کچھ نہ بگڑے، بلکہ یہ اُس مالکِ کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے، جس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اور جس کی پکڑ سے بچ جانے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اور دوسرے صفت بیان کرنے سے مقصود یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سراسر اس کی مہر بانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا رسول بھیجا اور یہ کتابِ عظیم نازل کی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ کر اُس راہ راست پر چل سکو جس سے تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل ہوں۔
(۴)۔ اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اُسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آ چکے تھے اور دوسری مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ ادیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آبا و اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا، اُس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اُٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت نا گزیر ہو جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اُٹھتے رہے تھے، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۃ سبا، حاشیہ نمبر ۵)
(۵)۔ یہ ان لوگوں کو ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کریا تا کہ آپ کی بات بہر حال مان کر نہیں دینی ہے۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمامِ حجت ہو جانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان کی اپنی شامتِ اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتے۔ اسی مضمون کو آگے چل کر اس فقرے میں کھول دیا گیا ہے کہ ’’ تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔ ‘‘
(۶)۔ اس آیت میں ’’ طوق ‘‘ سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبولِ حق میں مانع ہو رہی تھی۔ ’’ ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے ‘‘ اور سر اُٹھائے کھڑے ہونے ‘‘ سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آ جائے، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے۔
(۷)۔ ایک دیوار آگے اور ایک پیچھے کھڑی کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اسی ہٹ دھرمی اور استکبار کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں، اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں۔ ان کے تعصّبات نے ان کے ہر طرف سے اس طرح ڈھانک لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھُلے کھُلے حقائق نظر نہیں آتے ہو ہر سلیم الطبع اور بے تعصب انسان کو نظر آ رہے ہیں۔
(۸)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بے کار ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو۔ مگر ان کی روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آ جانے والے ہیں۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسے دوسرے قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ کر نکال لینا ہے۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ۔
(۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامۂ اعمال تین قوم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا بُرا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے۔ دوسرے، اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش (Impressions)بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں، اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح اُبھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سُنی جائے گی، اس کے اپنے خیالات اور نیتوں اور ارادوں کی پوری داستان اس کی لوحِ ذہن پر لکھی نظر آئے گی، اور اس کے ایک ایک اچھے اور بُرے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنا ت کی تصویریں سامنے آ جائیں گی۔ تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے پر، اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور بُرے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے ہیں گے۔ اپنی اولاد کو جا بھی اچھی یا بُری تربیت اس نے دی ہے، اپنے معاشرے میں جو بھلائیاں یا بُرائیاں بھی اس نے پھیلائی ہیں اور انسانیت کے حق میں جو پھول یا کانٹے بھی وہ بو گیا ہے ان سب کا پورا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہے گا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اپنے اچھے یا بُرے پھل لاتی رہے گی۔
(۱۰)۔ قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ژکر یہاں کیا گیا ہے اُنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصّہ ابن عبّاس، قتادہ، عِکرِمہ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہّ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان (Saleucid dynasty)کے ۱۳ بادشاہ انتیوکس (Antiochus)کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی ۶۵ قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذابِ الہٰی کی شکار ہوئی۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکارِ رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو۔
ان وجوہ سے یہ بات نا قابِل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصّہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی، تعصُّب اور انکارِ حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اُس بستی کے لوگ چلے تھے، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے۔
(۱۱) دوسرے الفاظ میں ا ن کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے۔ یہی خیال کفارِ مکہ کا بھی تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں :
وَقَا لُوْا مَلِ ھٰذَا الرَّسولِ یَأکُلُ الطَّعَمَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۔ (الفرقان:۷)
وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔
وَاَسَرُّواالنَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَٓا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَأ تُوْنَ السِّحٰرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ (الانبیاء۔ ۳)
اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟
قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جَہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا:
مَا ھٰذَآاِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآءَاللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَہً۔ مَا سَمِعْنَا بھِٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا لْاَوَّلِیْنَ۔ (المومنون : ۲۴)۔
یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی (کہ انسان رسول بن کر آئے )۔
قوم عاد نے یہی بات حضرت ہودؑ کے متعلق کہی تھی:
مَا ھٰذَآاِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَأ کُلُ مِمَّ تَأ کُلُوْنَ مَنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَه وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًامِثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًالَّخٰسِرُوْنَ۔ (المومنون :۳۳۔ ۳۴)۔
یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر ہی جیسا۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے۔
قوم ثمود نے حضرت صالحؑ کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ:
اَبَشَراً مِّنَّ وَ احِداً نَّتَّبِعُہٗ o(القمر:۲۴)
کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کر لیں۔
اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا، اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا، ’’ تم کچھ نہیں ہو مگر پ، جیسے بشر۔ ’‘ اور انبیاء نے اس کو جواب دیا کہ، اِنْ نَحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ تَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ۔ واقعی ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ‘‘ (ابراہیم:۱۰۔ ۱۱)
اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے :
اَلَمْ یَأ فِکُمْ نَبَؤُ االُذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ قَبْلُ فَذَا قُوْ ا وَبَا لَا اَ مْر، ھِمْ وَلَھُمْ عَذَاب ٌ اَلِیْمٌه ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَا نَتْ تَـأ تِیْہِمْ رُسُلھُُمْ بِا لْبَیِّنٰتِ فَقَا لُوْ ا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُا وَفَوَ لَّوْا۔ (التغابن: ۶)
کیا اِنہیں اسن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیا کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا ’’ کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ‘‘ ؟ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے۔
وَمَا مَنَعَ النَّا سَ اَنْ یُّؤ مِنُوْ ا اِذْ جَآ ءَ ھُمُ الْھُد یٰ اِلَّٓا اَنْ قَا لُوْا اَبَعَثَ اللہُ بَشَراً رَّسُوْلاً۔ (بنی اسرائیل : ۹۴)۔
لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا’’ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا‘‘؟
پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کوئی فرشتہ، یا بشریت سے بالا تر کوئی ہستی :
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَلاً جُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْآاَھْلَ الَّذِکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ه وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَداً لاَّ یَأ کُلُوْنَالطَّعَمَوَمَا کَا نُوْ ا خٰلِدِیْنَ o(الانبیاء : ۷۔ ۸)
ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے۔
وَمَٓا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّٓا اَنَّھُمْ لَیَأ کُلُوْنَ الطَّعَمَ وَیَمْشُوْنَ فِیالْاِ سْوَقِ (الفرقان:۲۰)۔
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔
قُلْ لّوْکَا نَ فِیالْاَ رْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّ لْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَالسَّمَآءِ مَلَکً رَّسُوْلًا o(بنی اسرائیل:۹۵)
اے نبی، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۔
(۱۲)۔ یہ ایک اور جہالت ہے جس میں کفارِ مکہ بھی مبتلا تھے، آج کے نام نہاد عقلیت پسند لوگ بھی مبتلا ہیں، اور قدیم ترین زمانے سے ہر زمانے وے ہر زمانے کے منکرینِ وحی و رسالت اس میں مبتلا رہے ہیں۔ ان سب لوگوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے انسانی ہدایت کے لیے کوئی وحی نازل نہیں کرتا۔ اس کو صرف عالم بالا کے معاملات سے دلچسپی ہے۔ انسانوں کا معاملہ اس نے خود انسانوں ہی پر چھوڑ رکھا ہے۔
(۱۳)۔ یعنی ہمارا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جو پیغام تم تک پہنچانے کے لیے ربّ العالمین نے ہمارے سپرد کیا ہے وہ تمہیں پہنچا دیں۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ مانو یا نہ مانو۔ یہ ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے کہ تمہیں زبردستی منوا کر ہی چھوڑیں۔ اور اگر تم نہ مانو گے تو تمہارے کفر میں ہم نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ اپنے اس جرم کی جواب دہی تم کو خود ہی کرنی پڑے گی۔
(۱۴)۔ اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْ اھٰذِہ مِنْ عِنْدِ کَ، ’’ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ‘‘ (النساء:۷۷)۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں۔ قوم ثمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ، ’’ ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے۔ ‘‘ (النمل : ۴۷) اور یہی رویّہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَ ا جَآءَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَا لُوْ الَنَا ھٰذِہ وَاِنْتُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَیَّرُ وْ بِمُسٰی وَمَنْ مُعَہٗ۔ ’’ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ‘‘ (الا عراف: ۱۳۰)
(۱۵)۔ یعنی کوئی کسی کے لیے منحوس نہیں ہے۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی ہی گردن میں لٹکا ہوا ہے۔ بُرائی دیکھتا ہے تو اپنے نصیب کی دیکھتا ہے اور بھلائی دیکھتا تو ہو بھی اس کے اپنے ہی نصیب کی ہوتی ہے۔ وَکُلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہ، ’’ ہر شخص کا پروانۂ خیر و شر ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے ‘‘ (بنی اسرائیل : ۱۳)
(۱۶)۔ یعنی دراصل تم بھلائی سے بھاگنا چاہتے ہو اور ہدایت کے بجائے گمراہی تمہیں پسند ہے، اس لیے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے اوہام و خرافات کے سہارے یہ بہانہ بازیاں کر رہے ہو۔
(۱۷)۔ اس ایک فقرے میں اس بندۂ خدا نے نبوت کی صداقت کے سار ے دلائل سمیٹ کر رکھ دیے۔ ایک نبی کی صداقت دو ہی باتوں سے چانچی جا سکتی ہے۔ ایک، اس کا قول و فعل۔ دوسرے اس کا بے غرض ہونا۔ اس شخص کے استدلال کا منشا یہ تھا کہ اول تو یہ لوگ سراسر معقول بات کہہ رہے ہیں اور ان کی اپنی سیرت بالکل بے داغ ہے۔ دوسرے کوئی شخص اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ اس دین کی دعوت یہ اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر دے رہے ہیں۔ اس کے بعد کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان کی بات کیوں نہ مانی جائے۔ اس شخص کا یہ استدلال نقل کر کے قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے ایک معیار رکھ دیا کہ نبی کی نبوت کو پرکھنا ہو تو اس کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و عمل بتا رہا ہے کہ وہ راہ راست پر ہیں۔ اور پھر ان کی سعی و جہد کے پیچھے کسی ذاتی غرض کا بھی نام نشان نہیں ہے۔ پھر کوئی معقول انسان ان کی بات کو رد آخر کس بنیاد پر کرے گا۔
(۱۸)۔ اس فقرے کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ استدلال کا شاہکار ہے، اور دوسرے حصے میں حکمتِ تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے۔ پہلے حصے میں وہ کہتا کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔ نا معقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیداکیا ہے۔ دوسرے حصّے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے، اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے۔ اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو۔
(۱۹)۔ یعنی نہ وہ خدا کے ایسے چہیتے ہیں کہ میں صریح جرم کروں اور وہ محض ان کی سفارش پر مجھے معاف کر دے۔ اور نہ ان کے اندر اتنا زور ہے کہ خدا مجھے سزا دینا چاہے اور وہ اپنے بل بوتے پر مجھے چھڑا لے جائیں۔
(۲۰)۔ یعنی یہ جانتے ہوئے بھی اگر میں ان کو معبود بناؤں۔
(۲۱)۔ اس فقرے میں پھر حکمت تبلیغ کا ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ یہ کہہ کر اس شخص نے ان لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ جس رب پر میں ایمان لایا ہوں وہ محض میرا ہی رب نہیں ہے بلکہ تمہارا رب بھی ہے۔ اس پر ایمان لا کر میں نے غلطی نہیں کی ہے بلکہ اس پر ایمان نہ لا کر تم ہی غلطی کر رہے ہو۔
(۲۲)۔ یعنی شہادت نصیب ہوتے ہی اس شخص کو جنت کی بشارت د دی گئی۔ جون ہی کہ وہ موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے علم میں پہنچا، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تے اور انہوں نے اسے خوش خبری دے دی کہ فردوسِ بریں اس کی منتظر ہے۔ اس فقرے کی تاویل میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ قَتَادہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل کر دیا اور سہ وہاں زندہ ہے ‘‘۔ یہ بات ملائکہ نے اس سے بشارت کے طور پر کہی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بعد جب تمام اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو وہ بھی اُن کے ساتھ داخل ہو گا۔ ‘‘
(۲۳)۔ یہ اس مرد مومن کے کمالِ اخلاق کا ایک نمونہ ہے۔ جن لوگوں نے اسے ابھی ابھی قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی غصہ اور جذبۂ انتقام اس کے دل میں نہ تھا کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں بد دعا کرتا اس کے بجائے وہ اب بھی ان کی خیر خواہی کیے جا رہا تھا۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنّا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش میری قوم میرے اس انجامِ نیک سے باخبر ہو جائے اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے کر راہِ راست اختیار کر لے۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ نصح قومہ حیّا و میتا، ’’ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مر کر بھی‘‘۔
اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو در پردہ اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھ اہل ایمان بھی اسی طرح تمہارے سچے خیر خواہ ہیں جس طرح وہ مرد مومن اپنی قوم کا خیر خواہ تھا۔ یہ لوگ تمہاری تمام ایذا رسانیوں کے باوجود تمہارے خلاف کوئی ذاتی عناد اور کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتے۔ ان کو دشمنی تم سے نہیں بلکہ تمہاری گمراہی سے ہے۔ یہ تم سے صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ تم راہ راست پر آ جاؤ۔ اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے حیاتِ برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے، جذبات و احساسات رکھتی ہے، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لیے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائے۔
(۲۴)۔ ان الفاظ میں ایک لطیف طنز ہے۔ اپنی طاقت پر ان کا گھمنڈ اور دینِ حق کے خلاف ان کا جوش و خروش گویا ایک شعلۂ جوّالہ تھا جس کے متعلق اپنے زعم میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان تینوں انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھسم کر ڈالے گا۔ لیکن اس شعلے کی بساط اس سے زیادہ کچھ نہ نکلی کہ خدا کے عذاب کی ایک ہی چوٹ نے اس کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا۔
(۲۵)۔ یعنی ایسے مٹے کہ ان کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ جو گِرا پھر نہ اٹھا۔ دنیا میں آج کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدّن ہی کا نہیں، ان کی نسلوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
(۲۶)۔ پچھلے دو رکوعوں میں کفار مکہ کو اِنکار و تکذیب اور مخالفت حق کے اس رویہّ پر ملامت کی گئی تھی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔ اب تقریر کا رُخ اس بنیادی نزاع کی طرف پھرتا ہے جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان کشمکش کی اصل وجہ تھی، یعنی توحید و آخرت کا عقیدہ، جسے حضورؐ پیش کر رہے تھے اور کفار ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں پے درپے چند دلائل دے کر لوگوں کو دعوت غور و فکر دی جا رہی ہے کہ دیکھو، کائنات کے یہ آثار جو علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں، کیا اس حقیقت کی صاف صاف نشان دہی نہیں کرتے جسے یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟
(۲۷)۔ یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے۔
(۲۸)۔ اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’ تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں۔ ‘‘ یعنی مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں، مثلاً روٹی، سالن، مُربّے، اچار، چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں۔
(۲۹)۔ ان مختصر فقروں میں زمین کی روئیدگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آدمی شب و روز اسزمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اِسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اس سر سبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے، جب مادّوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشو و نما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمیں کے اندر سے بناتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:
اولاً، زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔
ثانیاً، زمین اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے، اور اپنے اندر وہ گیسس بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشو و نما کے لیے درکار ہیں۔
رابعاً، سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔
یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں )جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ ساز گار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین، پانی، ہوا اور موسم میسّر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا، دوا، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جا نے والا تھا۔
اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین، پانی، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصّور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوعِ انسانی، اب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔
توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرَوْنَ ؟ یعنی کی یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سر و سامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے، اس کے شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں ؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ؟
(۳۰) یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے۔ اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے، یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے، یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے، یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں، درباریوں منہ چڑھے مصاحبوں، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان ہٹ کر رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پید ہی نہ ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
(۳۱)۔ یہ توحید کے حق میں ایک اور استدلال ہے، اور یہاں پھر پیش پا افتادہ حقائق ہی میں سے بعض کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ سب و روز جن اشیاء کا تم مشاہدہ کرتے اور یوں ہی غور و خوض کیے بغیر گزر جاتے ہو ان ہی کے اندر حقیقت کا سراغ دینے والے نشانات موجود ہیں۔ عورت اور مرد کا جوڑ تو خود انسان کا اپنا سبب پیدائش ہے۔ حیوانات کی نسلیں بھی نر و مادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں۔ نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں۔ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے۔ یہ تزویج، جس کی بدولت یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے، حکمت و صنّاعی کی ایسی باریکیاں اور پیچیدگیاں رکھتی ہے اور اس کے اندر ہر دو زوجین کے درمیان ایسی مناسبتیں پائی جاتی ہیں کہ بے لاگ عقل رکھنے والا کوئی شخص نہ تو اس چیز کو ایک اتفاقی حادثہ کہہ سکتا ہے کہ مختلف خداؤں نے ان بے شمار ازواج کو پیدا کر کے ان کے درمیان اس حکمت کے ساتھ جوڑ لگائے ہوں گے۔ ازواج کا ایک دوسرے کے لیے جوڑ ہونا اور ان کے ازدواج سے نئی چیزوں کا پیدا ہونا خود وحدت خالق کی صریح دلیل ہے۔
(۳۲)۔ رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آ رہے ہیں، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے، اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کی حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک ربّ قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے۔ دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کوئی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالا ارادہ قائم کیا ہے۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی، تو ان تمام صورتوں میں اس کرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پا یا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی، کافی یا نا کافی، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
(۳۳)۔ ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخر کار ٹھہر جانا ہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھہر جائے گا۔ اس آیت کا صحیح مفہوم انسان اسی وقت متعین کر سکتا ہے جب کہ اسے کائنات کے حقائق کا ٹھیک ٹھیک علم حاصل ہو جائے۔ لیکن انسانی علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے اور آج جو کچھ اسے بظاہر معلوم ہے اس کے بدل جانے کا ہر وقت امکان ہے۔ سورج کے متعلق قدیم زمانے کے لوگ عینی مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ پھر مزید تحقیق و مشاہدہ کے بعد یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے اور نظام شمسی کے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ لیکن یہ نظریہ بھی مستقل ثابت نہ ہوا۔ بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت (Fixed Stare) کہا جاتا ہے، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ ۱۰ سے لے کر ۱۰۰ میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے ۲۰ کیلو میٹر (تقریباً ۱۲ میل) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، لفظ "اسٹار"۔ اور لفظ "سن")۔
۳۴۔ یعنی مہینے کے دوران میں چاند کی گردش ہر روز بدلتی رہتی ہے۔ ایک دن وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے۔ پھر روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ چودھویں رات کو بدرِ کامل بن جاتا ہے۔ اس کے بعد روز گھٹتا چلا جاتا ہے۔ حتی کہ آخر کار پھر اپنی ابتدائی ہلالی شکل پر واپس پہنچ جاتا ہے۔ یہ چکر لاکھوں برس سے پوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے اور چاند کی ان مقرر ہ منزلوں میں بھی فرق نہیں آتا۔ اسی وجہ سے انسان حساب لگا کر ہمیشہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کس روز چاند کس منزل میں ہو گا۔ اگر اس کی حرکت کسی ضابطہ کی پابند نہ ہوتی تو یہ حساب لگانا ممکن نہ ہوتا۔
۳۵۔ اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے، یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آ جائے۔
۳۶۔ یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو۔
۳۷۔ فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار (Orbit) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء (آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے۔ یہ ارشاد کہ "سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ " چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔
ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز، سورج زمین سے ۳ لاکھ گنا بڑا ہے، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم ۲ ارب ۷۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل ہے۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے ۴ ارب ۶۰ کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جس کہکشاں (Galaxy) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً ۳ ہزار ملین (۳ ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں ۴ سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے، بلکہ اب تک کے مشاہد ات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً ۲۰ لاکھ لولبی سحابیوں (Spiral nebulae)میں سے ایک ہے، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی ۱۰ لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں ۱۰ کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جواب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی۔
تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم، جو حکمت، جو صنّاعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے ؟ اس نظم کے پیچھے کوئی حکیم، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے ؟
(۳۸)۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوحؑ کی کشتی۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوحؑ کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر در حقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے۔ کیوں کہ طوفانِ نوحؑ میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی۔
(۳۹)۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوحؑ والی کشتی تھی۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو دی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل نے بحری سفروں کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
(۴۰)۔ پچھلی نشانیوں کا ذکر دلائل توحید کی حیثیت سے کیا گیا تھا، اور اس نشانی کا ذکر یہ احساس دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر تصرف کے جو اختیارات بھی حاصل ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے ہیں، اس کے اپنے حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں، اس کے اپنے معلوم کیے ہوئے نہیں ہیں۔ انسان کا اپنا بل بوتا یہ نہ تھا کہ اپنے زور سے وہ ان عظیم طاقتوں کو مسخر کرتا اور نہ اس میں یہ صلاحیت تھی کہ خود اسرارِ فطرت کا پتہ چلا لیتا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکتا۔ پھر جن قوتوں پربھی اللہ نے اس کو اقتدار عطا کیا ہے ان پر اس کا قابو اسی وقت تک چلتا ہے جب تک اللہ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے مسخر ہیں۔ ورنہ جب مرضی الٰہی کچھ اور ہوتی ہے تو وہی طاقتیں جو انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں، اچانک اس پر پلٹ پڑتی ہیں اور آدمی اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل بے بس پاتا ہے۔ اس حقیقت پر متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحری سفر کے معاملہ کو محض بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ نوع انسانی پوری کی پوری طوفان میں ختم ہو جاتی اگر اللہ تعالیٰ کشتی بنانے کا طریقہ حضرت نوحؑ کو نہ سُجھا دیتا اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اس میں سوار نہ ہو جاتے۔ پھر نوع انسانی کے لیے تمام روئے زمین پر پھیلنا اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ سے کشتی سازی کے اصولوں کا علم پاکر لوگ دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے لائق ہو گئے مگر اس ابتدا سے چل کر آج کے عظیم الشان جہازوں کی تعمیر تک انسان نے جتنی کچھ ترقی کی ہے اور جہاز رانی کے فن میں جتنا کچھ بھی کمال حاصل کیا ہے اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دریا اور سمندر، سب اس کے قابو میں آ گئے ہیں اس ان پر اسے مکمل غلبہ حاصل ہو گیا ہے۔ آج بھی خدا کا پانی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور جب وہ چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت اس میں غرق کر دیتا ہے۔
(۴۱)۔ یعنی جو تم سے پہلے کی قومیں دیکھ چکی ہیں۔
(۴۲)۔ آیات سے مراد کتاب اللہ کی آیات بھی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کو نصیحت کی جاتی ہے، اور وہ آیات بھی مراد ہیں جو آثار کائنات اور خود انسان کے وجود اور اس کی تاریخ میں موجود ہیں جو انسان کو عبرت دلاتی ہیں، بشرطیکہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو۔
(۴۳)۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مردہ کر دیا ہے۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر نصیحت کا الٹا جواب ہے۔ ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لیے ایک اوندھا فلسفہ ہے۔ ہر بھلائی سے فرار کے لیے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے۔
(۴۴)۔ توحید کے بعد دوسری مسئلہ جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے متعلق عقلی دلائل تو آگے چل کر خاتمہ کلام پر دیے گئے ہیں۔ مگر دلائل دینے سے پہلے یہاں اس مسئلے کو لے کر عالم آخرت کا ایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے کھینچا گیا ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ جس چیز کا وہ انکار کر رہے ہیں وہ ان کے انکار سے ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ لا محالہ ایک روز ان حالات سے انہیں دوچار ہونا ہے۔
(۴۵)۔ اس سوال مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہو جاتا اور وہ اسے مان لیتے۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی۔
(۴۶)۔ یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ قیامت آہستہ آہستہ آ رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے لیں کہ وہ آ رہی ہے۔ بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصوّر موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آ پہنچی ہے۔ اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہو گا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابو ہریرہؓ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے، بازاروں میں خرید و فروخت کر رہے ہوں گے، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہو جائے گا۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی۔
(۴۷)۔ صور کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۲۲۔ پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کتنا زمانہ ہو گا، اس کے متعلق کوئی معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ سیکڑوں اور ہزاروں برس طویل ہو۔ حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسرافیل صور پر منہ رکھے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے۔ یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلا نفخۃالفَزَ ع، جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے۔ پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی ذرا سی سلوَٹ تک نہ رہے گی۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا، اور یہی نفخۃالقیام لربّ العالمین ہے۔ اسی مضمون کی تائید قرآن مجید کے بھی متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۹۲۔ ۴۹۳۔ جلد سوم، ص ۱۲۴۔ ۱۲۵۔
(۴۸)۔ یعنی اس وقت انہیں یہ احساس نہ ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب ایک مدت دراز کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں، بلکہ وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم سوئے پڑے تھے، اب یکایک کسی خوفناک حادثہ کی وجہ سے ہم جاگ اٹھے ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۲۳۔ ۱۹۹۔ ۲۰۰۔ )
(۴۹)۔ یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ جواب دینے والا کون ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر بعد خود انہی لوگوں کی سمجھ میں معاملہ کی اصل حقیقت آ جائے اور وہ آپ ہی اپنے دلوں میں کہیں کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ تو وہی چیز ہے جس کی خبر خدا کے رسول ہمیں دیتے تھے اور ہم اسے جھٹلایا کرتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان ان کی غلط فہمی رفع کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ خواب سے بیداری نہیں بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جواب قیامت کا پورا ماحول ان کو دے رہا ہو، یا فرشتے ان کو حقیقت حال سے مطلع کریں۔
(۵۰)۔ یہ وہ خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین اور فساق و مجرمین سے اس وقت فرمائے گا جب وہ اس کے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔
(۵۱)۔ اس کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا، کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہو گا۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتائے گا کہ دیکھو، جن صالح لوگوں کو تم دنیا میں بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے، وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں، اور تم جو اپنے آپ کو بڑا زیرک و فرزانہ سمجھ رہے تھے، یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے کر رہے ہو۔
(۵۲)۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ے۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ۔ اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا۔ تمہاری سب پارٹیاں توڑ دے گئیں۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے۔ تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔
(۵۳)۔ یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ’’ عبادت ‘‘ کو اطاعت کے معنی میں استعمال فرمایا ہے۔ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی تشریح کر چکے ہیں )ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات ۱۳۴۔ ۳۹۸۔ ۵۷۷۔ ۵۷۸۔ ۵۸۶۔ جلد دوم، صفحات ۱۸۹۔ ۴۸۲۔ ۴۸۳۔ جلد سوم، صفحات ۳۱۔ ۶۹۔ ۶۵۶۔ جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ ۶۳) اس سلسلہ میں وہ نفیس بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : لَا تَعْبُدُو الشَّیطٰن کے معنی ہیں لا تطیعوہ (اس کی اطاعت نہ کرو)۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا طاعت عبادت ہے ‘‘۔ اس کے بعد امام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عبادت بمعنی طاعت ہے تو کیا آیت اَطِیْعُو االلہَ وَاَطِیْوُاا لرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ : ’’ ان کی اطاعت جبکہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اسی کی اطاعت ہو گی۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو سجدہ کیا اور یہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ تھی۔ امراء کی طاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہو گی جب کہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جن میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے ‘‘۔ پھر فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تمہیں کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں۔ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے، اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس کے شیطان کی عبادت کی۔ اسے طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت نہ ہو تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے ‘‘۔ آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں :’’ مگر شیطان کی عبادت کے راتب مختلف ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سے مغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے۔ کچھ اور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹھنڈے دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں۔ ‘‘ (تفسیر کبیر۔ ج ۷۔ ص ۱۰۳۔ ۱۰۴)
(۵۴)۔ یعنی اگر تم عقل سے محروم رکھے گئے ہوتے اور پھر اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے دشمن کی بندگی کرتے تو تمہارے لیے عذر کی کوئی گنجائش تھی۔ لیکن تمہارے پاس تو خدا کی دی ہوئی عقل موجود تھی جس سے تم اپنے دنیا کے سارے کام چلا رہے تھے۔ اور تمہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے متنبہ بھی کر دیا تھا۔ اس پر بھی جب تم اپنے دشمن کے فریب میں آئے اور وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی اس حماقت کی ذمہ داری سے تم کسی طرح بری نہیں ہو سکتے۔
(۵۵)۔ یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو ا پنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے، گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے، اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھا، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں۔ یَوْ مَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتھُُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ (النور۔ آیت ۲۴)۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآؤُ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعھُُمْ وَ اَبْصَارھُُمْ وَجُلُوْدھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ( حٓم السجدہ۔ آیت ۲۰)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے، اور دوسری طرف سورۃ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی، ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے، یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے۔ اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا، کیسے کیسے کفر بکے تھے، کیا کیا جھوٹ بولے تھے، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں۔
(۵۶)۔ قیامت کا نقشہ کھینچنے کے بعد ان انہیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ قیامت تو خیر تمہیں دور کی چیز نظر آتی ہے، مگر ذرا ہوش میں آ کر دیکھو کہ خود اس دنیا میں، جس کی زندگی پر تم پھولے ہوئے ہو، تم کس طرح اللہ کے دست قدرت میں بے بس ہو۔ یہ آنکھیں جن کی بینائی کے طفیل تم اپنی دنیا کے سارے کام چلا رہے ہو، اللہ کے ایک اشارے سے اندھی ہو سکتی ہیں۔ یہ ٹانگیں جن کے بل پر تم یہ ساری دوڑ دھوپ دکھا رہے ہو، اللہ کے ایک حکم سے ان پر اچانک فالج گر سکتا ہے۔ جب تک اللہ کی دی ہوئی یہ طاقتیں کام کرتی رہتی ہیں، تم اپنی خودی کے زعم میں مدہوش رہتے ہو، مگر جب ان میں سے کوئی ایک طاقت بھی جواب دے جاتی ہے تو تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ تمہاری بساط کتنی ہے۔
(۵۷)۔ ساخت الٹ دینے سے مراد یہ لے کہ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں آدمی کی حالت بچوں جیسی کر دیتا ہے۔ اسی طرح وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اسے اٹھاتے بٹھاتے اور سہارا دے کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اس کو کھلاتے پلاتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے کپڑوں میں اور اپنے بستر پر رفع حاجت کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح وہ نا سمجھی کی باتیں کرتا ہے جس پر لوگ ہنستے ہیں۔ غرض جس کمزوری کی حالت سے اس نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اختتام زندگی پر وہ اسی حالت کو پہنچ جاتا ہے۔
(۵۸)۔ یہ اس بات کا جواب ہے کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی بعد موت اور جبت و دوزخ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے نزدیک بے وزن ٹھیرانے کی کوشش کرتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۵۴۶ تا ۵۴۹)
(۵۹)۔ زندہ سے مراد سوچنے اور سمجھنے والا انسان ہے جس کی حالت پتھر کی سی نہ ہو کہآپ اس کے سامنے کواہ کتنی ہی معقولیت کے ساتھ حق اور باطل کا فرق بیان کریں اور کتنی ہی درد مندی کے ساتھ اس کو نصیحت کریں، وہ نہ کچھ سنے، نہ سمجھے اور اپنی جگہ سے سر کے۔
(۶۰)۔ ’’ ہاتھوں ‘‘ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے۔ بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خود بنایا ہے، ان کی تخلیق میں کسے دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔
(۶۱)۔ نعمت کو منعم کے سوا کسی اور کا عطیہ سمجھنا، اس پر کسی اور کا احسان مند ہونا، اور منعم کے سوا اور سے نعمت پانے کی امید رکھنا یا نعمت طلب کرنا، یہ سب کفران نعمت ہے۔ اسی طرح یہ بھی کفران نعمت ہے کہ آدمی منعم کی دی ہوئی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے۔ لہٰذا ایک مشرک اور کافر اور منافق اور ناسق انسان محض زبان سے شکر کے الفاظ ادا کر کے خدا کا شاکر بند، قرار نہیں پا سکتا۔ کفار مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ ان جانوروں کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں دوسرے معبودوں کا کوئی دخل ہے۔ مگر یہ سب کچھ ماننے کے باوجود جب وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اپنے معبودوں کے شکریے بجا لاتے اور ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے اور ان سے مزید نعمتوں کی دعائیں مانگتے اور ان کے لیے قربانیاں کرتے تھے تو خدا کے لیے ان کا زبانی شکر بالکل بے معنی ہو جاتا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو کافر نعمت اور احسان فراموش قرار دے رہا ہے۔
(۶۲)۔ یعنی وہ جھوٹے معبود بے چارے خود اپنے بقا اور اپنی حفاظت اور اپنی ضروریات کے لیے ان عبادت گزاروں کے محتاج ہیں۔ ان کے لشکر نہہو ں تو ان غریبوں کی خدائی ایک دن نہ چلے۔ یہ ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی بارگاہیں بنا اور سجا رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے پروپیگنڈا کرتے پھرے ہیں۔ یہ ان کے حاضر باش غلام ہوئے ہیں۔ یہ ان کی بارگاہیں بنا اور سجا رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے پروپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں۔ یہ خلق خدا کو ان کا گرویدہ بناتے ہیں۔ یہ ان کی حمایت میں لڑتے اور جھگڑتے ہیں تب کہیں ان کا خدائی چلتی ہے۔ ورنہ ان کا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔ وہ اصلی خدا نہیں ہیں کہ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے، وہ اپنے زور پر آپ ساری کائنات کی فرماں روائی کر رہا ہے۔
(۶۳)، خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے۔ اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑ ے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے، وہ اپنے دلوں میں جانتے، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر، کاہن، ساحر، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو۔ سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخر کار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے۔
(۶۴)۔ اب کفار کے اس سوال کا استدلالی جواب دیا جا رہا ہے جو آیت ۴۸ میں نقل کیا گیا تھا۔ ان کو یہ سوال کہ ’’ قیامت کی دھمکی کب پوری ہو گی‘‘ کچھ اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس بنا پر تھا کہ وہ مرنے کے بعد انسانوں کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از امکان، بلکہ بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کے سوال کے جواب میں امکان آخرت ک دلائل ارشاد ہو رہے ہیں۔
ابن عباس، قتادہ اور سعید بن جُبیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی ایک بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آ گیا اور اس نے نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزا ہوا میں اڑا کر آپ سے کہا، اے محمدؐ تم کہتے ہو کہ مردے پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ بتاؤ، ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اس کا جواب فوراً ان آیات کی صورت میں دیا گیا۔
(۶۵)۔ یعنی وہ نطفہ جس میں محض ایک ابتدائی جرثومہ حیات کے سوا کچھ نہ تھا، اس کو ترقی دے کر ہم نے اس حد تک پہنچایا کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح چلنے پھرتے اور کھانے پینے لگا، بلکہ اس سے آگے پڑھ کر اس میں شعور و تعقُّل اور بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں ہیں، حتٰی کہ اب وہ اپنے خالق کے بھی منہ آنے لگا ہے۔
(۶۶)۔ یعنی ہمیں مخلوقات کی طرح عاجز سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کر سکتا، اسی طرح ہم بھی نہیں کر سکتے۔
(۶۷)۔ یعنی یہ بات بھول جاتا ہے کہ ہم نے بے جان مادہ سے وہ ابتدائی جرثومہ حیات پیدا کیا جو اس کا ذریعہ تخلیق بنا اور پھر اس جرثومے کو پرورش کر کے اسے یہاں تم بڑھا لائے کہ آج وہ ہمارے سامنے باتیں چھانٹنے کے قابل ہوا ہے۔
(۶۸)۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہرے بھرے درختوں میں وہ آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو۔ یا پھر یہ اشارہ ہے مرْخ اور عَفَار نامی ان دو درختوں کی طرف جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کر اہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تھے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی تھی۔ قدیم زمانہ میں عرب کے بدّو آگ جلانے کے لیے یہی چقماق استعمال کیا کرتے تھے اور ممکن ہے آج بھی کرتے ہوں۔