۱ سورۂ مؤمن اس کا نام سورۂ غافر بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے سوائے دو آیتوں کے جو اَ لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰۤیٰتِ اللہِ سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں نو ۹رکوع اور پچاسی ۸۵آیتیں اور ایک ہزار ایک سو ننانوے ۱۱۹۹کلمے اور چار ہزار نو سو ساٹھ۴۹۶۰ حرف ہیں۔
۶ یعنی قرآنِ پاک میں جھگڑا کرنا کافر کے سوا مومن کا کام نہیں۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ جھگڑے اور جدال سے مراد آیاتِ الٰہیہ میں طعن کرنا اور تکذیب و انکار کے ساتھ پیش آنا ہے اور حلِّ مشکلات و کشفِ مُعضَلات کے لئے علمی و اصولی بحثیں جدال نہیں بلکہ اعظم طاعات میں سے ہیں،کفّار کا جھگڑا کرنا آیات میں یہ تھا کہ وہ کبھی قرآنِ پاک کو سِحر کہتے،کبھی شِعر، کبھی کہانت، کبھی داستان۔
۷ یعنی کافروں کا صحت و سلامتی کے ساتھ مُلک مُلک تجارتیں کرتے پھرنا اور نفع پانا تمہارے لئے باعثِ تردّد نہ ہو کہ یہ کفر جیسا عظیم جُرم کرنے کے بعد بھی عذاب سے امن میں رہے کیونکہ ان کا انجام کار خواری اور عذاب ہے، پہلی امّتوں میں بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں۔
۸ عاد و ثمود و قومِ لوط وغیرہ۔
۹ اور انہیں قتل اور ہلاک کر دیں۔
۱۱ کیا ان میں کوئی اس سے بچ سکا۔
۱۲ یعنی ملائکۂ حاملینِ عرش جو اصحابِ قرب اور ملائکہ میں اشرف و افضل ہیں۔
۱۳ یعنی جو ملائکہ کہ عرش کا طواف کرنے والے ہیں انہیں کرّوبی کہتے ہیں اور یہ ملائکہ میں صاحبِ سیادت ہیں۔
۱۴ اور سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ کہتے۔
۱۵ اور اس کی وحدانیّت کی تصدیق کرتے۔ شہر بن حوشب نے کہا کہ حاملینِ عرش آٹھ ہیں ان میں سے چار کی تسبیح یہ ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ حِلْمِکَ بَعْدَعِلْمِکَ اور چار کی یہسُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ۔
۱۶ اور بارگاہِ الٰہی میں اس طرح عرض کرتے ہیں۔
۱۷ یعنی تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو وسیع ہے۔ فائدہ : دعا سے پہلے عرضِ ثنا سے معلوم ہوا کہ آدابِ دعا میں سے یہ ہے کہ پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے پھر مراد عرض کی جائے۔
۲۰ روزِ قیامت جب کہ وہ جہنّم میں داخل ہوں گے اور ان کی بدیاں ان پر پیش کی جائیں گی اور وہ عذاب دیکھیں گے تو فرشتے ان سے کہیں گے۔
۲۲ کیونکہ پہلے نطفۂ بے جان تھے اس موت کے بعد انہیں جان دے کر زندہ کیا پھر عمر پوری ہونے پر موت دی پھر بعث کے لئے زندہ کیا۔
۲۳ اس کا جواب یہ ہو گا کہ تمہارے دوزخ سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں اور تم جس حال میں ہو جس عذاب میں مبتلا ہو اور اس سے رہائی کی کوئی راہ نہیں پا سکتے۔
۲۴ یعنی اس عذاب اور اس کے دوام و خلود کا سبب تمہارا یہ فعل ہے کہ جب توحیدِ الٰہی کا اعلان ہوتا اورلَا اِ لٰہَ اِلَّا اللہُ کہا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور کفر اختیار کرتے۔
۲۶ یعنی اپنی مصنوعات کے عجائب جو اس کے کمالِ قدرت پر دلالت کرتے ہیں مثل ہوا اور بادل اور بجلی وغیرہ کے۔
۲۸ اور ان نشانیوں سے پند پذیر نہیں ہوتا۔
۲۹ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف اور شرک سے تائب ہو۔
۳۱ انبیاء و اولیاء و علماء کو جنّت میں۔
۳۲ یعنی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے منصبِ نبوّت عطا فرماتا ہے اور جس کو نبی بناتا ہے اس کا کام ہوتا ہے۔
۳۳ یعنی خَلقِ خدا کو روزِ قیامت کا خوف دلائے جس دن اہلِ آسمان اور اہلِ زمین اور اوّلین و آخرین ملیں گے اور روحیں جسموں سے اور ہر عمل کرنے والا اپنے عمل سے ملے گا۔
۳۴ قبروں سے نکل کر اور کوئی عمارت یا پہاڑ اور چھُپنے کی جگہ اور آڑ نہ پائیں گے۔
۳۵ نہ اعمال، نہ اقوال، نہ دوسرے احوال اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز کبھی نہیں چھُپ سکتی لیکن یہ دن ایسا ہو گا کہ ان لوگوں کے لئے کوئی پردہ اور آڑ کی چیز نہ ہو گی جس کے ذریعہ سے وہ اپنے خیال میں بھی اپنے حال کو چھُپا سکیں اور خَلق کی فنا کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
۳۶ اب کوئی نہ ہو گا کہ جواب دے۔ خود ہی جواب میں فرمائے گا کہ اللہ واحدِ قہّار کی، اور ایک قول یہ ہے کہ روزِ قیامت جب تمام اوّلین و آخرین حاضر ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ تمام خَلق جواب دے گی لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِاللہ واحدِ قھّار کی، جیسا کہ آگے ارشاد ہوتا ہے۔
۳۷ٍٍ مومن تو یہ جواب بہت لذّت کے ساتھ عرض کریں گے کیونکہ وہ دنیا میں یہی اعتقاد رکھتے تھے، یہی کہتے تھے اور اسی کی بدولت انہیں مرتبے ملے اور کفّار ذلّت و ندامت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے اور دنیا میں اپنے منکِر رہنے پر شرمندہ ہوں گے۔
۳۸ نیک اپنی نیکی کا اور بد اپنی بدی کا۔
۴۰ شدّتِ خوف سے نہ باہر ہی نکل سکیں، نہ اندر ہی اپنی جگہ واپس جا سکیں۔
یعنی کافر شفاعت سے محروم ہوں گے۔
یعنی نگاہوں کی خیانت اور چوری، نا محرم کو دیکھنا اور ممنوعات پر نظر ڈالنا۔
یعنی دلوں کے راز، سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔
۴۵ کیونکہ نہ وہ علم رکھتے ہیں، نہ قدرت، تو ان کی عبادت کرنا اور انہیں خدا کا شریک ٹھہرانا بہت ہی کھُلا باطل ہے۔
۴۶ اپنی مخلوق کے اقوال و افعال اور جملہ احوال کو۔
۴۷ جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی۔
۴۸ قلعے اور محل اور نہریں اور حوض اور بڑی بڑی عمارتیں۔
۴۹ کہ عذابِ الٰہی سے بچا سکتا۔ عاقل کا کام ہے کہ دوسرے کے حال سے عبرت حاصل کرے اس عہد کے کافر یہ حالات دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیوں نہیں سوچتے کہ پچھلی قومیں ان سے زیادہ قوی و توانا اور صاحبِ ثروت و اقتدار ہونے کے باوجود اس عبرت ناک طریقہ پر تباہ کر دی گئیں یہ کیوں ہوا ؟
۵۱ اور انہوں نے ہماری نشانیوں اور برہانوں کو جادو بتایا۔
۵۲ یعنی نبی ہو کر پیامِ الٰہی لائے تو فرعون اور فرعونی۔
۵۳ تاکہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع سے باز آئیں۔
۵۴ کچھ بھی کار آمد نہیں، بالکل نکمّا اور بے کار، پہلے بھی فرعونیوں نے بحکمِ فرعون ہزار ہا قتل کئے مگر قضائے الٰہی ہو کر رہی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پروردگارِ عالَم نے فرعون کے گھر بار میں پالا، اس سے خدمتیں کرائیں، جیسا وہ داؤں فرعونیوں کا بے کار گیا ایسے ہی اب ایمان والوں کو روکنے کے لئے پھر دوبارہ قتل شروع کرنا بے کار ہے۔ حضرت موسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کے دِین کا رواج اللہ تعالیٰ کو منظور ہے اسے کون روک سکتا ہے۔
۵۶ فرعون جب کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے کا ارادہ کرتا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو اس سے منع کرتے اور کہتے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا تجھے اندیشہ ہے یہ تو ایک معمولی جادوگر ہے، اس پر تو ہم اپنے جادو سے غالب آ جائیں گے، اور اگر اس کو قتل کر دیا تو عام لوگ شبہ میں پڑ جائیں گے کہ وہ شخص سچّا تھا، حق پر تھا، تو دلیل سے اس کا مقابلہ کرنے میں عاجز ہوا، جواب نہ دے سکا تو تو نے اسے قتل کر دیا۔ لیکن حقیقت میں فرعون کا یہ کہنا کہ مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کروں خالص دھمکی ہی تھی، اس کو خود آپ کے نبیِ برحق ہونے کا یقین تھا اور وہ جانتا تھا کہ جو معجزات آپ لائے ہیں وہ آیاتِ الٰہیہ ہیں، سِحر نہیں لیکن یہ سمجھتا تھا کہ اگر آپ کے قتل کا ارادہ کرے گا تو آپ اس کو ہلاک کرنے میں جلدی فرمائیں گے، اس سے یہ بہتر ہے کہ طولِ بحث میں زیادہ وقت گزار دیا جائے اگر فرعون اپنے دل میں آپ کو نبیِ برحق نہ سمجھتا اور یہ نہ جانتا کہ ربّانی تائیدیں جو آپ کے ساتھ ہیں ان کا مقابلہ ناممکن ہے تو آپ کے قتل میں ہر گز تأمّل نہ کرتا کیونکہ وہ بڑا خونخوار، سفّاک، ظالم، بیدرد تھا، ادنیٰ سی بات میں ہزار ہا خون کر ڈالتا تھا۔
۵۷ جس کا اپنے آپ کو رسول بتاتا ہے تاکہ اس کا رب اس کو ہم سے بچائے۔ فرعون کا یہ مقولہ اس پر شاہد ہے کہ اس کے دل میں آپ کا اور آپ کی دعاؤں کا خوف تھا وہ اپنے دل میں آپ سے ڈرتا تھا ظاہری عزّت بنی رکھنے کے لئے یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ قوم کے منع کرنے کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کرتا۔
۵۸ اور تم سے فرعون پرستی بت چھڑا دے۔
۶۱ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی سختیوں کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی کلمہ تعلِّی کا نہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہی اور اس پر بھروسہ کیا، یہی خدا شناسوں کا طریقہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر ایک بَلا سے محفوظ رکھا، ان مبارک جملوں میں کیسی نفیس ہدایتیں ہیں، یہ فرمانا کہ میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں اور اس میں ہدایت ہے، رب ایک ہی ہے، یہ بھی ہدایت ہے کہ جو اس کی پناہ میں آئے اس پر بھروسہ کرے اور وہ اس کی مدد فرمائے کوئی اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنا شانِ بندگی ہے اور تمہارے رب فرمانے میں یہ بھی ہدایت ہی کہ اگر تم اس پر بھروسہ کرو تو تمہیں بھی سعادت نصیب ہو۔
۶۲ جن سے ان کا صدق ظاہر ہو گیا، یعنی نبوّت ثابت ہو گئی۔
۶۳ مطلب یہ ہے کہ دو حال سے خالی نہیں یا یہ سچّے ہوں گے یا جھوٹے، اگر جھوٹے ہوں تو ایسے معاملہ میں جھوٹ بول کر اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، ہلاک ہو جائیں گے۔ اور اگر سچّے ہیں تو جس عذاب کا تمہیں وعدہ دیتے ہیں اس میں سے بالفعل کچھ تمہیں پہنچ ہی جائے گا۔ کچھ پہنچنا اس لئے کہا کہ آپ کا وعدۂ عذاب دنیا و آخرت دونوں کو عام تھا اس میں سے بالفعل عذاب دینا ہی پیش آنا تھا۔
۶۵ یعنی مصر میں تو ایسا کام نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔
۶۶ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دینا۔
۶۷ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرنے اور ان کے درپے ہونے سے۔
۶۸ جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔
۶۹ کہ انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرتے رہے اور ہر ایک کو عذابِ الٰہی نے ہلاک کیا۔
۷۰ بغیر گناہ کے ان پر عذاب نہیں فرماتا اور بغیر اقامتِ حجّت کے ان کو ہلاک نہیں کرتا۔
۷۱ وہ قیامت کا دن ہو گا، قیامت کے دن کو یَوْمُ التَّنَاد یعنی پکار کا دن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی، ہر شخص اپنے سرگروہ کے ساتھ اور ہر جماعت اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی، جنّتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنّتیوں کو پکاریں گے، سعادت و شقاوت کی ندائیں کی جائیں گی کہ فلاں سعید ہوا اب کبھی شقی نہ ہو گا اور فلاں شقی ہو گیا اب کبھی سعید نہ ہو گا اور جس وقت موت ذبح کی جائے گی اس وقت ندا کی جائے گی کہ اے اہلِ جنّت اب دوام ہے موت نہیں ہے اور اے اہلِ دوزخ اب دوام ہے موت نہیں۔
۷۴ یعنی حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے قبل۔
۷۵ یہ بے دلیل بات تم نے یعنی تمہارے پہلوں نے خود گڑھی تاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء کی تکذیب کرو اور انہیں جھٹلاؤ تو تم کفر پر قائم رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوّت میں شک کرتے رہے اور بعد والوں کی نبوّت کے انکار کے لئے تم نے یہ منصوبہ بنا لیا کہ اب اللہ تعالیٰ کوئی رسول ہی نہ بھیجے گا۔
۷۶ ان چیزوں میں جن پر روشن دلیلیں شاہد ہیں۔
۷۸ کہ اس میں ہدایت قبول کرنے کا کوئی محل باقی نہیں رہتا۔
۷۹ براہِ جہل و فریب اپنے وزیر سے۔
۸۰ یعنی موسیٰ میرے سوا اور خدا بتانے میں، اور یہ بات فرعون نے اپنی قوم کو فریب دینے کے لئے کہی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ معبودِ برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور فرعون اپنے آپ کو فریب کاری کے لئے معبود ٹھہراتا ہے۔ (اس واقعہ کا بیان سورۂ قصص میں گزر چکا ہے)
۸۱ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور اس رسول کو جھٹلانا۔
۸۲ یعنی شیطانوں نے وسوسے ڈال کر اس کی برائیاں اس کی نظر میں بھلی کر دکھائیں۔
۸۳ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آیات کو باطل کرنے کے لئے اس نے اختیار کیا۔
۸۴ یعنی تھوڑی مدّت کے لئے نا پائیدار نفع ہے جس کو بقا نہیں۔
۸۵ مراد یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی و جاودانی اور جاودانی ہی بہتر۔ اس کے بعد نیک اور بد اعمال اور ان کے انجام بتائے۔
۸۶ کیونکہ اعمال کی مقبولیّت ایمان پر موقوف ہے۔
۸۷ یہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ عظیم ہے۔
۸۸ جنّت کی طرف ایمان و طاعت کی تلقین کر کے۔
۹۴ یعنی نزولِ عذاب کے وقت تم میری نصیحتیں یاد کرو گے اور اس وقت کا یاد کرنا کچھ کام نہ دے گا، یہ سن کر ان لوگوں نے اس مومن کو دھمکایا کہ اگر تو ہمارے دِین کی مخالفت کرے گا تو ہم تیرے ساتھ بُرے پیش آئیں گے، اس کے جواب میں اس نے کہا۔
۹۵ اور ان کے اعمال و احوال کو جانتا ہے پھر وہ مومن ان میں سے نکل کر پہاڑ کی طرف چلا گیا اور وہاں نماز میں مشغول ہو گیا، فرعون نے ہزار آدمی اس کی جستجو میں بھیجے، اللہ تعالیٰ نے درندے اس کی حفاظت پر مامور کر دیئے جو فرعونی اس کی طرف آیا درندوں نے اسے ہلاک کیا اور جو واپس گیا اور اس نے فرعون سے حال بیان کیا فرعون نے اس کو سولی دے دی تاکہ یہ حال مشہور نہ ہو۔
۹۶ اور اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر نجات پائی اگرچہ وہ فرعون کی قوم کا تھا۔
۹۷ دنیا میں تو یہ عذاب کہ وہ فرعون کے ساتھ غرق ہو گئے اور آخرت میں دوزخ۔
۹۸ اس میں جَلائے جاتے ہیں۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے قالب میں ہر روز دو ۲مرتبہ صبح و شام آگ پر پیش کی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ آگ تمہارا مقام ہے اور قیامت تک ان کے ساتھ یہی معمول رہے گا۔ مسئلہ : اس آیت سے عذابِ قبر کے ثبوت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر مرنے والے پر اس کا مقام صبح و شام پیش کیا جاتا ہے جنّتی پر جنّت کا اور دوزخی پر دوزخ کا اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے تاآنکہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کی طرف اٹھائے۔
۹۹ ذکر فرمائیے اے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اپنی قوم سے جہنّم کے اندر کفّار کے آپس میں جھگڑنے کا حال کہ۔
۱۰۰ دنیا میں اور تمہاری بدولت ہی کافر بنے۔
۱۰۱ یعنی کافروں کے سردار جواب دیں گے۔
۱۰۲ ہر ایک اپنی مصیبت میں گرفتار، ہم میں سے کوئی کسی کے کام نہیں آ سکتا۔
۱۰۳ ایمانداروں کو اس نے جنّت میں داخل کر دیا اور کافروں کو جہنّم میں، جو ہونا تھا ہو چکا۔
۱۰۴ یعنی دنیا کے ایک دن کی مقدار تک ہمارے عذاب میں تخفیف رہے۔
۱۰۵ کیا انہوں نے ظاہر معجزات پیش نہ کئے تھے ؟ یعنی اب تمہارے لئے جائے عذر باقی نہ رہی۔
۱۰۶ یعنی کافر انبیاء کے تشریف لانے اور اپنے کفر کرنے کا اقرار کریں گے۔
۱۰۷ ہم کافر کے حق میں دعا نہ کریں گے اور تمہارا دعا کرنا بھی بےکار ہے۔
۱۰۸ ان کو غلبہ عطا فرما کر اور حجّتِ قویّہ دے کر اور ان کے دشمنوں سے انتقام لے کر۔
۱۰۹ وہ قیامت کا دن ہے کہ ملائکہ رسولوں کی تبلیغ اور کفّار کی تکذیب کی شہادت دیں گے۔
۱۱۰ اور کافروں کا کوئی عذر قبول نہ کیا جائے گا۔
۱۱۳ یعنی توریت کا یا ان کے انبیاء پر نازل شدہ تمام کتابوں کا۔
۱۱۵ وہ آپ کی مدد فرمائے گا آپ کے دِین کو غالب کرے گا آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا۔ کلبی نے کہا کہ آیتِ صبر آیتِ قتال سے منسوخ ہو گئی۔
۱۱۶ یعنی اپنی امّت کے۔ (مدارک)
۱۱۷ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مداومت رکھو۔ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا اس سے پانچوں نمازیں مراد ہیں۔
۱۱۸ ان جھگڑا کرنے والوں سے کفّارِ قریش مراد ہیں۔
۱۱۹ اور ان کا یہی تکبّر ان کے تکذیب و انکار اور کفر کے اختیار کرنے کا باعث ہوا کہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان سے اونچا ہو، اس لئے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عداوت کی بایں خیالِ فاسد کہ اگر آپ کو نبی مان لیں گے تو اپنی بڑائی جاتی رہے گی اور امّتی اور چھوٹا بننا پڑے گا اور ہوَس رکھتے ہیں بڑے بننے کی۔
۱۲۰ اور بڑائی میسّر نہ آئے گی بلکہ حضور کی مخالفت و انکار ان کے حق میں ذلّت اور رسوائی کا سبب ہو گا۔
۱۲۲ یہ آیت منکِرینِ بعث کے رد میں نازل ہوئی ان پر حجّت قائم کی گئی کہ جب تم آسمان و زمین کی پیدائش پر باوجود ان کی اس عظمت اور بڑائی کے اللہ تعالیٰ کو قادر مانتے ہو تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کر دینا اس کی قدرت سے کیوں بعید سمجھتے ہو۔
۱۲۳ بہت لوگوں سے مراد یہاں کفّار ہیں اور ان کے انکارِ بعث کا سبب ان کی بے علمی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی پیدائش پر قادر ہونے سے بعث پر استدلال نہیں کرتے تو وہ مثل اندھے کے ہیں اور جو مخلوقات کے وجود سے خالق کی قدرت پر استدلال کرتے ہیں وہ مثل بینا کے ہیں۔
۱۲۴ یعنی جاہل و عالِم یکساں نہیں۔
۱۲۵ یعنی مومنِ صالح اور بد کار یہ دونوں بھی برابر نہیں۔
۱۲۶ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں کرتے۔
۱۲۷ اللہ تعالیٰ بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے اور ان کے قبول کے لئے چند شرطیں ہیں ایک اخلاص دعا میں، دوسرے یہ ہے کہ قلب غیر کی طرف مشغول نہ ہو، تیسرے یہ کہ وہ دعا کسی امرِ ممنوع پر مشتمل نہ ہو، چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو، پانچویں یہ کہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی جب ان شرطوں سے دعا کی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے یا تو اس کی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دے دی جاتی ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس کے گناہوں کا کَفّارہ کر دیا جاتا ہے۔ آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دعا سے مراد عبادت ہے اور قرآنِ کریم میں دعا بمعنیٰ عبادت بہت جگہ وارد ہے۔ حدیث شریف میں ہے : اَلدُّعَآ ءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (ابوداؤد و ترمذی) اس تقدیر پر آیت کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرو میں تمہیں ثواب دوں گا۔
۱۲۸ کہ اس میں اپنے کام باطمینان انجام دو۔
۱۲۹ کہ اس کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو اور اس پر ایمان نہیں لاتے باوجود یہ کہ دلائل قائم ہیں۔
۱۳۰ اور حق سے پھرتے ہیں باوجود دلائل قائم ہونے کے۔
۱۳۱ اور ان میں حق جویانہ نظرو تأمّل نہیں کرتے۔
۱۳۲ کہ وہ تمہاری قرار گاہ ہو زندگی میں بھی اور بعدِ موت بھی۔
۱۳۳ کہ اس کو مثل قبّہ کے بلند فرمایا۔
۱۳۴ کہ تمہیں راست قامت، پاکیزہ رو، متناسب الاعضاء کیا، بہائم کی طرح نہ بنایا کہ اوندھے چلتے۔
۱۳۷ شانِ نزول :کفّارِ نابکار نے براہِ جہالت و گمراہی اپنے دِینِ باطل کی طرف حضور ِ پُر نور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو دعوت دی تھی اور آپ سے بت پرستی کی درخواست کی تھی، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
۱۳۸ عقل و وحی کی توحید پر دلالت کرنے والی۔
۱۳۹ یعنی تمہارے اصل اور تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو۔
۱۴۰ بعد حضرت آدم علیہ السلام کے ان کی نسل کو۔
۱یعنی بڑھاپے یا جوانی کو پہنچنے سے قبل ہی، یہ اس لئے کیا کہ تم زندگانی کرو۔
۱۴۵ دلائلِ توحید کو اور ایمان لاؤ۔
۱۴۶ یعنی اشیاء کا وجود اس کے ارادہ کا تابع ہے کہ اس نے ارادہ فرمایا اور شے موجود ہوئی، نہ کوئی کلفت ہے، نہ مشقّت ہے، نہ کسی سامان کی حاجت، یہ اس کے کمالِ قدرت کا بیان ہے۔
۱۴۹ یعنی کفّار جنہوں نے قرآن شریف کی تکذیب کی۔
۱۵۰ اس کی بھی تکذیب کی اور اس کے رسولوں کے ساتھ جو چیز بھیجی، اس سے مراد یا تو وہ کتابیں ہیں جو پہلے رسول لائے یا وہ عقائدِ حقّہ جو تمام انبیاء نے پہنچائے مثل توحیدِ الٰہی اور بعث بعدِ موت کے۔
۱۵۳ اور وہ آگ باہر سے بھی انہیں گھیرے ہو گی اور ان کے اندر بھی بھری ہو گی۔ (اللہ تعالیٰ کی پناہ)
۱۵۴ یعنی وہ بت کیا ہوئے جن کی تم عبادت کرتے تھے۔
۱۵۶ بتوں کی پرستش کا انکار کر جائیں گے، پھر بت حاضر کئے جائیں گے اور کفّار سے فرمایا جائے گا کہ تم اور تمہارے یہ معبود سب جہنّم کا ایندھن ہو، بعض مفسّرین نے فرمایا :کہ جہنّمیوں کا یہ کہنا کہ ہم پہلے کچھ پوجتے ہی نہ تھے اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ اب ہمیں ظاہر ہو گیا کہ جنہیں ہم پوجتے تھے وہ کچھ نہ تھے کہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے۔
۱۵۷ یعنی یہ عذاب جس میں تم مبتلا ہو۔
۱۵۸ یعنی شرک و بت پرستی و انکارِ بعث پر۔
۱۵۹ جنہوں نے تکبّر کیا اور حق کو قبول نہ کیا۔
۱۶۲ انواعِ عذاب سے مثل بدر میں مارے جانے کے جیسا کہ یہ واقع ہوا۔
۱۶۳ اور عذابِ شدید میں گرفتار ہونا۔
۱۶۴ اس قرآن میں صراحت کے ساتھ۔
۱۶۵ قرآن شریف میں تفصیلاً و صراحتہً۔ (مرقاۃ) اور ان تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے نشانی اور معجزات عطا فرمائے اور ان کی قوموں نے ان سے مجادلہ کیا اور انہیں جھٹلایا، اس پر ان حضرات نے صبر کیا۔ اس تذکرہ سے مقصود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی ہے کہ جس طرح کے واقعات قوم کی طرف سے آپ کو پیش آرہے ہیں اور جیسی ایذائیں پہنچ رہی ہیں پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی حالات گزر چکے ہیں انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر فرمائیں۔
۱۶۶ کفّار پر عذاب نازل کرنے کی بابت۔
۱۶۷ رسولوں کے اور ان کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان۔
۱۶۸ کہ ان کے دودھ اور اُون وغیرہ کام میں لاتے ہو اور ان کی نسل سے نفع اٹھاتے ہو۔
۱۶۹ یعنی اپنے سفروں میں اپنے وزنی سامان ان کی پیٹھوں پر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتے ہو۔
۱۷۲ جو اس کی قدرت و وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۷۳ یعنی وہ نشانیاں ایسی ظاہر و باہر ہیں کہ ان کے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔
۱۷۵ اور جسمانی طاقت بھی ان سے زیادہ تھی۔
۱۷۶ یعنی ان کے محل اور عمارتیں وغیرہ۔
۱۷۷ معنیٰ یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ زمین میں سفر کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ منکِرینِ متمرّ دین کا کیا انجام ہوا اور وہ کس طرح ہلاک و برباد ہوئے اور ان کی تعداد ان کے زور اور ان کے مال کچھ بھی ان کے کام نہ آسکے۔
۱۷۸ اور انہوں نے علمِ انبیاء کی طرف التفات نہ کیا، اس کی تحصیل اور اس سے انتفاع کی طرف متوجّہ نہ ہوئے بلکہ اس کو حقیر جانا اور اس کی ہنسی بنائی اور اپنے دنیوی علم کو جو حقیقت میں جہل ہے، پسند کرتے رہے۔
۱۸۰ یعنی جن بتوں کو اس کے سوا پوجتے تھے ان سے بیزار ہوئے۔
۱۸۱ یہی ہے کہ نزولِ عذاب کے وقت ایمان لانا نافع نہیں ہوتا، اس وقت ایمان قبول نہیں کیا جاتا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے والوں پر عذاب نازل کرتا ہے۔