خزائن العرفان

سورة حٰمٓ السجدة / فُصّلَت

اللہ کے  نام سے  جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 اس سورت کا نام سورۂ فُصِّلَتْ بھی ہے اور سورۂ سجدہ و سورۂ مصابیح بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے، اس میں چھ۶ رکوع، چوّن۵۴ آیتیں اور سات سو چھیانوے۷۹۶ کلمے اور تین ہزار تین سو پچاس۳۳۵۰ حرف ہیں۔

(۱) حٰمٓ

(۲) یہ اتارا ہے  بڑے  رحم والے  مہربان کا۔

(۳) ایک کتاب ہے  جس کی آیتیں مفصل فرمائی گئیں (ف ۲) عربی قرآن عقل والوں کے  لیے۔

۲                 احکام و امثال و مواعظ و و عد و عید وغیرہ کے بیان میں۔

(۴) خوشخبری دیتا (ف ۳) اور ڈر سناتا (ف ۴) تو ان میں اکثر نے  منہ پھیرا  تو وہ سنتے  ہی نہیں (ف ۵)

۳                 اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو ثواب کی۔

۴                 اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو عذاب کا۔

۵                 توجّہ سے قبول کا سننا۔

(۵) اور بولے  (ف ۶) ہمارے  دل غلاف میں ہیں اس بات سے  جس کی طرف تم ہمیں بلاتے  ہو (ف ۷) اور ہمارے  کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے  (ف ۸) اور ہمارے  اور تمہارے  درمیان روک ہے  (ف ۹) تو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے  ہیں (ف ۱۰)

۶                 مشرکین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے۔

۷                 ہم اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے یعنی توحید و ایمان کو۔

۸                 ہم بہرے ہیں، آپ کی بات ہمارے سننے میں نہیں آتی، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ آپ ہم سے ایمان و توحید کے قبول کرنے کی توقّع نہ رکھئے، ہم کسی طرح ماننے والے نہیں اور نہ ماننے میں ہم بمنزلۂ اس شخص کے ہیں جو نہ سمجھتا ہو، نہ سنتا ہو۔

۹                 یعنی دینی مخالفت، تو ہم آپ کی بات ماننے والے نہیں۔

۱۰               یعنی تم اپنے دِین پر رہو، ہم اپنے دِین پر قائم ہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ تم سے ہمارا کام بگاڑنے کی جو کوشش ہو سکے وہ کرو، ہم بھی تمہارے خلاف جو ہو سکے گا کریں گے۔

(۶)  تم فرماؤ (ف ۱۱) آدمی ہونے  میں تو میں تمہیں جیسا ہوں (ف ۱۲) مجھے  وحی ہوتی ہے  کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے  حضور سیدھے  رہو (ف ۱۳) اور اس سے  معافی مانگو (ف ۱۴) اور خرابی ہے  شرک والوں کو۔

۱۱               اے اکرمُ الخلق سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم براہِ تواضع ان لوگوں کے ارشادات و ہدایات کے لئے کہ۔

۱۲               ظاہر میں، کہ میں دیکھا بھی جاتا ہوں، میری بات بھی سنی جاتی ہے اور میرے تمہارے درمیان میں بظاہر کوئی جنسی مغایرت بھی نہیں ہے تو تمہارا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ میری بات نہ تمہارے دل تک پہنچے، نہ تمہارے سننے میں آئے اور میرے تمہارے درمیان کوئی روک ہو، بجائے میرے کوئی غیرِ جنس جن یا فرشتہ آتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ نہ وہ ہمارے دیکھنے میں آئیں، نہ ان کی بات سننے میں آئے، نہ ہم ان کے کلام کو سمجھ سکیں، ہمارے ان کے درمیان تو جنسی مخالفت ہی  بڑی روک ہے لیکن یہاں تو ایسا نہیں کیونکہ میں بشری صورت میں جلوہ نما ہوا تو تمہیں مجھ سے مانوس ہونا چاہئے اور میرے کلام کے سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کرنا چاہئے کیونکہ میرا مرتبہ بہت بلند ہے اور میرا کلام بہت عالی ہے، اس لئے میں وہی کہتا ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے۔ فائدہ : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا بلحاظِ ظاہر اَنَا بَشَرمِّثْلُکُمْ فرمانا حکمتِ ہدایت و ارشاد کے لئے بطریقِ تواضع ہے اور جو کلمات تواضع کے لئے کہے جائیں وہ تواضع کرنے والے کے علوِّ منصب کی دلیل ہوتے ہیں، چھوٹوں کا ان کلمات کو اس کی شان میں کہنا یا اس سے برابری ڈھونڈھنا ترکِ ادب اور گستاخی ہوتا ہے تو کسی امّتی کو روا نہیں کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مماثل ہونے کا دعویٰ کرے یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ آپ کی بشریت بھی سب سے اعلیٰ ہے ہماری بشریت کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں۔

۱۳               اس پر ایمان لاؤ، اس کی ا طاعت اختیار کرو، اس کی راہ سے نہ پھرو۔

۱۴               اپنے فسادِ عقیدہ و عمل کی۔

(۷) وہ جو زکوٰۃ نہیں دیتے  (ف ۱۵) اور وہ آخرت کے  منکر ہیں (ف ۱۶)

۱۵               یہ منعِ زکوٰۃ سے خوف دلانے کے لئے فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ زکوٰۃ کو منع کرنا ایسا بُرا ہے کہ قرآنِ کریم میں مشرکین کے اوصاف میں ذکر کیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو مال بہت پیارا ہوتا ہے تو مال کا راہِ خدا میں خرچ کر ڈالنا اس کے ثبات و استقلال اور صدق و اخلاصِ نیّت کی قوی دلیل ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زکوٰۃ سے مراد ہے توحید کا معتقد ہونا اور(لا الہ الا اﷲ)کہنا، اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ جو توحید کا اقرار کر کے اپنے نفسوں کو شرک سے باز نہیں رکھتے۔ اور قتادہ نے اس کے معنیٰ یہ لئے ہیں کہ جو لوگ زکوٰۃ کو واجب نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔

۱۶               کہ مرنے کے بعد اٹھنے اور جزا کے ملنے کے قائل نہیں۔

(۸) بیشک جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کے  لیے  بے  انتہا ثواب ہے  (ف ۱۷)

۱۷               جو منقطع نہ ہو گا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت بیماروں، اپاہجوں اور بوڑھوں کے حق میں نازل ہوئی جو عمل و طاعت کے قابل نہ رہیں، انہیں وہی اجر ملے گا جو تندرستی میں عمل کرتے تھے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب بندہ کوئی عمل کرتا ہے اور کسی مرض یا سفر کے باعث وہ عامل اس عمل سے مجبور ہو جاتا ہے تو تندرستی اور اقامت کی حالت میں جو کرتا تھا ویسا ہی اس کے لئے لکھا جاتا ہے۔

(۹) تم فرماؤ کیا تم لوگ اس کا انکار رکھتے  ہو جس نے  دو دن میں زمین بنائی (ف ۱۸) اور اس کے  ہمسر ٹھہراتے  رہو (ف ۱۹) وہ ہے  سارے  جہان کا رب (ف ۲۰)

۱۸               اس کی ایسی قدرتِ کاملہ ہے اور چاہتا تو ایک لمحہ سے بھی کم میں بنادیتا۔

۱۹               یعنی شریک۔

۲۰               اور وہی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، سب اس کی مملوک و مخلوق ہیں۔ اس کے بعد پھر اس کی قدرت کا بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۱۰) اور اس میں (ف ۲۱) اس کے  اوپر سے  لنگر ڈالے  (ف ۲۲)  (بھاری بوجھ رکھے ) اور اس میں برکت رکھی (ف ۲۳) اور اس میں اس کے  بسنے  والوں کی روزیاں مقرر کیں یہ سب ملا کر چار دن میں (ف ۲۴) ٹھیک جواب پوچھنے  والوں کو۔

۲۱               یعنی زمین میں۔

۲۲               پہاڑوں کے۔

۲۳               دریا اور نہریں اور درخت و پھل اور قِسم قِسم کے حیوانات وغیرہ پیدا کر کے۔

۲۴               یعنی دو دن زمین کی پیدائش اور دو دن میں یہ سب۔

(۱۱) پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا اور وہ دھواں تھا (ف ۲۵) تو اس سے  اور زمین سے  فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے  چاہے  ناخوشی سے، دونوں نے  عرض کی کہ ہم رغبت کے  ساتھ حاضر ہوئے۔

۲۵               یعنی بخار بلند ہونے والا۔

 (۱۲) تو انہیں پورے  سات آسمان کر دیا دو  دن میں (ف ۲۶) اور ہر آسمان میں اسی کے  کام کے  احکام بھیجے  (ف ۲۷) اور ہم نے  نیچے  کے  آسمان کو (ف ۲۸) چراغوں سے  آراستہ کیا (ف ۲۹) اور نگہبانی کے  لیے  (ف ۳۰) یہ اس عزت والے  علم والے  کا ٹھہرایا ہوا ہے۔

۲۶               یہ کل چھ دن ہوئے، ان میں سب سے پچھلا جمعہ ہے۔

۲۷               وہاں کے رہنے والوں کو طاعات و عبادات و امرو نہی کے۔

۲۸               جو زمین سے قریب ہے۔

۲۹               یعنی روشن ستاروں سے۔

(۱۳)  پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف ۳۱) تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے  جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی (ف ۳۲)

۳۰               شیاطینِ مسترقہ سے۔

۳۱               یعنی اگر یہ مشرکین اس بیان کے بعد بھی ایمان لانے سے اعراض کریں۔

۳۲               یعنی عذابِ مہلک سے جیسا ان پر آیا تھا۔

(۱۴) جب رسول ان کے  آگے  پیچھے  پھرتے  تھے  (ف ۳۳) کہ اللہ کے  سوا کسی کو نہ پوجو،  بولے  (ف ۳۴) ہمارا  رب چاہتا تو فرشتے  اتارتا (ف ۳۵) تو جو کچھ تم لے  کر بھیجے  گئے  ہم اسے  نہیں مانتے  (ف ۳۶)

۳۳               یعنی قومِ عاد و ثمود کے رسول ہر طرف سے آتے تھے اور ان کی ہدایت کی ہر تدبیر عمل میں لاتے تھے اور انہیں ہر طرح نصیحت کرتے تھے۔

۳۴               ان کی قوم کے کافر ان کے جواب میں کہ۔

۳۵               بجائے تمہارے، تم تو ہماری مثل آدمی ہو۔

۳۶               یہ خطاب ان کا حضرت ھود اور حضرت صالح اور تمام انبیاء سے تھا جنہوں نے ایمان کی دعوت دی، امام بغوی نے باسنادِ ثعلبی حضرت جابر سے روایت کی کہ جماعتِ قریش نے جن میں ابوجہل وغیرہ سردار بھی تھے یہ تجویز کیا کہ کوئی ایسا شخص جو شعر، سِحر، کہا نت میں ماہر ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کلام کرنے کے لئے بھیجا جائے چنانچہ عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب ہوا، عتبہ نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے آ کر کہا کہ آپ بہتر ہیں یا ہاشم ؟ آپ بہتر ہیں یا عبدالمطلب ؟ آپ بہتر ہیں یا عبداللہ؟ آپ کیوں ہمارے معبودوں کو بُرا کہتے ہیں ؟ کیوں ہمارے باپ دادا کو گمراہ بتاتے ہیں ؟ حکومت کا شوق ہو توہم آپ کو بادشاہ مان لیں، آپ کے پھریرے اڑائیں، عورتوں کا شوق ہو تو قریش کی جن لڑکیوں میں سے آپ پسند کریں ہم دس آپ کے عقد میں دیں، مال کی خواہش ہو تو اتنا جمع کر دیں جو آپ کی نسلوں سے بھی بچ رہے، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم یہ تمام گفتگو خاموش سنتے رہے، جب عتبہ اپنی تقریر کر کے خاموش ہوا تو حضور ِ انور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی سورت حٰمٓۤ سجدہ پڑھی، جب آپ آیت فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ  پر پہنچے تو عتبہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ حضور کے دہانِ مبارک پر رکھ دیا اور آپ کو رشتہ و قرابت کے واسطہ سے قَسم دلائی اور ڈر کر اپنے گھر بھاگ گیا، جب قریش اس کے مکان پر پہنچے تو اس نے تمام واقعہ بیان کر کے کہا کہ خدا کی قَسم محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) جو کہتے ہیں نہ وہ شعر ہے، نہ سِحر ہے، نہ کہانت، میں ان چیزوں کو خوب جانتا ہوں، میں نے ان کا کلام سنا، جب انہوں نے آیت فَاِنْ اَعْرَضُوْا پڑھی تو میں نے ان کے دہانِ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں قَسم دی کہ بس کریں اور تم جانتے ہی ہو کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہی ہو جاتا ہے، ان کی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوتی، مجھے اندیشہ ہو گیا کہ کہیں تم پر عذاب نازل نہ ہونے لگے۔

(۱۵) تو وہ جو عاد تھے  انہیں نے  زمین میں ناحق تکبر کیا (ف ۳۷) اور بولے  ہم سے  زیادہ کس کا زور،  اور کیا انہوں نے  نہ جانا کہ اللہ جس نے  انہیں بنایا ان سے  زیادہ قوی ہے، اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے  تھے۔

۳۷               قومِ عاد کے لوگ بڑے قوی اور شہ زور تھے، جب حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا تو انہوں نے کہا ہم اپنی طاقت سے عذاب کو ہٹا سکتے ہیں۔

۳۸               نہایت ٹھنڈی بغیر بارش کے۔

(۱۷) اور رہے  ثمود انہیں ہم نے  راہ دکھائی (ف ۳۹) تو انہوں نے  سوجھنے  پر اندھے   ہونے  کو پسند کیا (ف ۴۰) تو انہیں ذلت کے  عذاب کی کڑ ک نے  آ  لیا (ف ۴۱) سزا  ان کے  کیے  کی (ف ۴۲)

۳۹               اور نیکی اور بدی کے طریقے ان پر ظاہر فرمائے۔

۴۰               اور ایمان کے مقابلہ میں کفر اختیار کیا۔

۴۱               اور ہولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کئے گئے۔

یعنی ان کے شرک و تکذیبِ پیغمبر اور معاصی کی۔

(۱۸) اور ہم نے  (ف ۴۳) انہیں بچا لیا جو ایمان لائے  (ف ۴۴) اور ڈرتے  تھے  (ف ۴۵)

صاعقہ کے اس ذلّت والے عذاب سے۔

۴۴               حضرت صالح علیہ السلام پر۔

۴۵               شرک اور اعمالِ خبیثہ سے۔

(۱۹) اور جس دن اللہ کے  دشمن (ف ۴۶) آگ کی طرف ہانکے  جائیں گے  تو ان کے  اگلوں کو روکیں گے۔

۴۶               یعنی کفّار اگلے اور پچھلے۔

(۲۰) یہاں تک کہ پچھلے  آ ملیں (ف ۴۷) یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے  ان کے  کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے  چمڑے  سب ان پر ان کے  کیے  کی گواہی دیں گے  (ف ۴۸)

۴۷               پھر سب کو دوزخ میں ہانک دیا جائے گا۔

۴۸               اعضاء بحکمِ الٰہی بول اٹھیں گے، اور جو جو عمل کئے تھے بتا دیں گے۔

(۲۱)  اور وہ اپنی کھالوں سے  کہیں گے   تم نے  ہم پر کیوں گواہی دی، وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے  بلوایا جس نے  ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے  تمہیں پہلی بار بنایا اور اسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے۔

(۲۲) اور تم (ف ۴۹) اس سے  کہاں  چھپ کر جاتے  کہ تم پر گواہی دیں تمہارے  کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھا لیں (ف ۵۰) لیکن تم تو یہ سمجھے  بیٹھے  تھے  کہ اللہ تمہارے  بہت سے  کام نہیں جانتا (ف ۵۱)

۴۹               گناہ کرتے وقت۔

۵۰               تمہیں تو اس کا گمان بھی نہ تھا بلکہ تم تو بعث و جزا کے سرے ہی سے قائل نہ تھے۔

۵۱               جو تم چھُپا کر کرتے ہو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ کفّار یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر کی باتیں جانتا ہے اور جو ہمارے دلوں میں ہے اس کو نہیں جانتا۔ (معاذ اللہ)

(۲۳) اور یہ ہے  تمہارا وہ گمان جو تم نے  اپنے  رب کے  ساتھ کیا اور اس نے  تمہیں ہلاک کر دیا (ف ۵۲) تو  اب رہ گئے  ہارے  ہوؤں میں۔

۵۲               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ تمہیں جہنّم میں ڈال دیا۔

(۲۴) پھر اگر وہ صبر کریں (ف ۵۳) تو آگ ان کا ٹھکانا ہے  (ف ۵۴) اور اگر وہ منانا چاہیں تو کوئی ان کا منانا نہ مانے، (ف ۵۵)

۵۳               عذاب پر۔

۵۴               یہ صبر بھی کارآمد نہیں۔

۵۵               یعنی حق تعالیٰ ان سے راضی نہ ہو چاہے کتنا ہی مِنّت کریں،کسی طرح عذاب سے رہائی نہیں۔

(۲۵) اور ہم نے  ان پر کچھ ساتھی تعینات کیے  (ف ۵۶) انہوں نے  انہیں بھلا کر دیا جو ان کے  آگے  ہے  (ف ۵۷) اور جو ان کے  پیچھے  (ف ۵۸) اور ان پر بات پوری ہوئی (ف ۵۹) ان گروہوں کے   ساتھ جو ان سے  پہلے  گزر چکے  جن اور آدمیوں کے، بیشک وہ زیاں کار تھے۔

۵۶               شیاطین میں سے۔

۵۷               یعنی دنیا کی زیب و زینت، اور خواہشاتِ نفس کا اتباع۔

۵۸               یعنی امرِ آخرت، یہ وسوسہ ڈال کر کہ نہ مرنے کے بعد اٹھنا ہے، نہ حساب، نہ عذاب، چین ہی چین ہے۔

۵۹               عذاب کی۔

(۲۶) اور کافر بولے  (ف ۶۰) یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بیہودہ غل کرو (ف ۶۱) شاید یونہی تم غالب  آؤ (ف ۶۲)

۶۰               یعنی مشرکینِ قریش۔

۶۱               اور شور مچاؤ۔ کفّار ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ جب حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم قرآن شریف پڑھیں تو زور زور سے شور کرو، خوب چلاؤ، اونچی اونچی آوازیں نکال کر چیخو، بے معنیٰ کلمات سے شور کرو، تالیاں اور سیٹیاں بجاؤ تاکہ کوئی قرآن نہ سننے پائے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پریشان ہوں۔

۶۲               اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم قراء ت موقوف کر دیں۔

(۲۷) تو بیشک ضرور ہم کافروں کو سخت عذاب چکھائیں گے  اور بیشک ہم ان کے  بُرے  سے  بُرے  کام کا انہیں بدلہ دیں گے  (ف ۶۳)

۶۳               یعنی کفر کا بدلہ سخت عذاب۔

(۲۸) یہ ہے  اللہ کے  دشمنوں کا بدلہ آ گ، اس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے، سزا  اس کی کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے  تھے۔

(۲۹) اور کافر بولے  (ف ۶۴) اے  ہمارے  رب ہمیں دکھا وہ دونوں جن اور آدمی جنہوں نے  ہمیں گمراہ کیا (ف ۶۵) کہ ہم انہیں اپنے  پاؤں تلے  ڈا لیں (ف ۶۶) کہ وہ ہر نیچے  سے  نیچے  رہیں (ف ۶۷)

۶۴               جہنّم میں۔

۶۵               یعنی ہمیں وہ دونوں شیطان دکھا جِنِّی بھی اور انسی بھی، شیطان دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جنّوں میں سے، ایک انسانوں میں سے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ، جہنّم میں کفّار ان دونوں کے دیکھنے کی خواہش کریں گے۔

۶۶               آ گ میں۔

۶۷               درکِ اسفل میں ہم سے زیادہ سخت عذاب میں۔

(۳۰) بیشک وہ جنہوں نے  کہا ہمارا  رب اللہ ہے  پھر اس پر قائم رہے  (ف ۶۸) ان پر فرشتے  اترتے  ہیں (ف ۶۹) کہ نہ ڈرو (ف ۷۰) اور نہ غم کرو (ف ۷۱) اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا (ف ۷۲)

۶۸               حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا استقامت کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا استقامت یہ ہے کہ امر و نہی پر قائم رہے۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا استقامت یہ ہے کہ عمل میں اخلاص کرے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا استقامت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے۔ اور استقامت کے معنیٰ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر کو بجا لائے اور معاصی سے بچے۔

۶۹               موت کے وقت یا وہ جب قبروں سے اٹھیں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کو تین بار بشارت دی جاتی ہے ایک وقتِ موت، دوسرے قبر میں، تیسرے قبروں سے اٹھنے کے وقت۔

۷۰               موت سے اور آخرت میں پیش آنے والے حالات سے۔

۷۱               اہلِ اولاد کے چھوٹنے کا یا گناہوں کا۔

۷۲               اور فرشتے کہیں گے۔

(۳۱) ہم تمہارے  دوست ہیں دنیا کی زندگی میں (ف ۷۳) اور آخرت میں (ف ۷۴) اور تمہارے  لیے  ہے  اس میں (ف ۷۵) جو تمہارا جی چاہے  اور تمہارے  لیے  اس میں جو مانگو۔

۷۳               تمہاری حفاظت کرتے تھے۔

۷۴               تمہارے ساتھ رہیں گے اور جب تک تم جنّت میں داخل ہو تم سے جدا نہ ہوں گے۔

۷۵               یعنی جنّت میں وہ کرامت اور نعمت و لذّت۔

(۳۲) مہمانی بخشنے  والے  مہربان کی طرف سے۔

(۳۳) اور اس سے  زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے  (ف ۷۶) اور  نیکی کرے  (ف ۷۷) اور کہے  میں مسلمان ہوں (ف ۷۸)

۷۶               اس کی توحید و عبادت کی طرف۔ کہا گیا ہے کہ اس دعوت دینے والے سے مراد حضور سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مومن مراد ہے جس نے نبی علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دی۔

۷۷               شانِ نزول : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ آیت مؤذّنوں کے حق میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جو کوئی کسی طریقہ پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے وہ اس میں داخل ہے۔ دعوت الَی اللہ کے کئی مرتبے ہیں اوّل دعوتِ انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام معجزات اور حجج و براہین و سیف کے ساتھ، یہ مرتبہ انبیاء ہی کے ساتھ خاص ہے۔ دوّم دعوتِ علماء فقط حجج و براہین کے ساتھ، اور علماء کئی طرح کے ہیں ایک عالِم باﷲ، دوسرے عالِم بصفاتِ اﷲ، تیسرے عالِم باحکامِ اﷲ۔ مرتبۂ سوم دعوتِ مجاہدین ہے یہ کفّار کو سیف کے ساتھ ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ دِین میں داخل ہوں اور طاعت قبول کر لیں۔ مرتبۂ چہارم مؤذنین کی دعوت نماز کے لئے، عملِ صالح کی دو قِسم ہے ایک وہ جو قلب سے ہو، وہ معرفتِ الٰہی ہے، دوسرے جو اعضاء سے ہو تو وہ تمام طاعات ہیں۔

۷۸               اور یہ فقط قول نہ ہو بلکہ دِینِ اسلام کا دل سے معتقد ہو کر کہے کہ سچّا کہنا یہی ہے۔

(۳۴) اور نیکی  اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی، اے  سننے  والے  برائی کو بھلائی سے  ٹال (ف ۷۹) جبھی وہ کہ تجھ  میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے  گا جیسا  کہ گہرا دوست (ف ۸۰)

۷۹               مثلاً غصّہ کو صبر سے، اور جہل کو حلم سے، بدسلوکی کو عفو سے کہ اگر تیرے ساتھ کوئی برائی کرے تو معاف کر۔

۸۰               یعنی اس خصلت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دشمن دوستوں کی طرح محبّت کرنے لگیں گے۔ شانِ نزول : کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابوسفیان کے حق میں نازل ہوئی کہ باوجود ان کی شدّتِ عداوت کے نبی کریم نے ان کے ساتھ سلوکِ نیک کیا، ان کی صاحب زادی کو اپنی زوجیّت کا شرف عطا فرمایا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صادقُ المحبّت، جان نثار ہو گئے۔

(۳۵) اور یہ دولت (ف ۸۱) نہیں ملتی مگر  صابروں کو، اور اسے  نہیں پاتا مگر بڑے  نصیب والا۔

۸۱               یعنی بدیوں کو نیکیوں سے دفع کرنے کی خصلت۔

(۳۶) اور اگر تجھے  شیطان کا کوئی کونچا (تکلیف) پہنچے  (ف ۸۲) تو اللہ کی پناہ مانگ (ف ۸۳) بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔

۸۲               یعنی شیطان تجھ کو برائیوں پر ابھارے اور اس خصلتِ نیک سے اور اس کے علاوہ اور نیکیوں سے منحرف کرے۔

۸۳               اس کے شر سے اور اپنی نیکیوں پر قائم رہ، شیطان کی راہ نہ اختیار کر، اللہ تعالیٰ تیری مدد فرمائے گا۔

(۳۷) اور اس کی نشانیوں میں سے  ہیں رات اور دن اور سورج اور چاند (ف ۸۴) سجدہ نہ کرو سورج کو اور نہ چاند کو (ف ۸۵) اور اللہ کو سجدہ کرو جس نے  انہیں پیدا کیا (ف ۸۶) اگر تم اس کے  بندے  ہو۔

۸۴               جو اس کی قدرت و حکمت اور اس کی ربوبیّت و وحدانیّت پر دلالت کرتے ہیں۔

۸۵               کیونکہ وہ مخلوق ہیں اور حکمِ خالق سے مسخّر ہیں اور جو ایسا ہو، مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا۔

۸۶               وہی سجدہ اور عبادت کا مستحق ہے۔

(۳۸) تو اگر یہ تکبر کریں (ف ۸۷) تو وہ جو تمہارے  رب کے  پاس ہیں (ف ۸۸)  رات دن اس کی پاکی بولتے  ہیں اور اکتاتے  نہیں،(  السجدۃ۔۱۱)

۸۷               صرف اللہ کو سجدہ کرنے سے۔

۸۸               ملائکہ وہ۔

(۳۹) اور اس کی نشانیوں سے  ہے  کہ تو زمین کو دیکھے  بے  قدر پڑی (ف ۸۹) پھر جب ہم نے  اس پر پانی اتارا  (ف ۹۰) تر و تازہ ہوئی اور بڑھ چلی، بیشک جس نے  اسے  جِلایا ضرور مردے   جِلائے  گا، بیشک وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۸۹               سوکھی کہ اس میں سبزہ کا نام و نشان نہیں۔

۹۰               بارش نازل کی۔

(۴۰) بیشک وہ جو ہماری آیتوں میں ٹیڑھے  چلتے  ہیں (ف ۹۱) ہم سے  چھپے  نہیں (ف ۹۲) تو کیا جو آ  گ میں ڈالا جائے  گا (ف ۹۳) وہ بھلا، یا جو قیامت میں امان سے  آئے  گا (ف ۹۴) جو جی میں آئے  کرو بیشک وہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے۔

۹۱               اور تاویلِ آیات میں صحت و استقامت سے عدول و انحراف کرتے ہیں۔

۹۲               ہم انہیں اس کی سزا دیں گے۔

۹۳               یعنی کافرِ ملحد۔

۹۴               مومنِ صادقُ العقیدہ، بے شک وہی بہتر ہے۔

(۴۱) بیشک جو ذکر سے  منکر ہوئے  (ف ۹۵) جب وہ ان کے  پاس آیا ان کی خرابی کا کچھ حال نہ پوچھ، اور بیشک وہ عزت وا لی کتاب ہے  (ف ۹۶)

۹۵               یعنی قرآنِ کریم سے اور انہوں نے اس میں طعن کئے۔

۹۶               بے عدیل و بے نظیر جس کی ایک سورت کا مثل بنانے سے تمام خَلق عاجز ہے۔

(۴۲)  باطل کو اس کی طرف راہ نہیں نہ اس کے  آگے  سے   نہ اس کے  پیچھے  سے  (ف ۹۷) اتارا ہوا ہے  حکمت والے  سب خوبیوں سراہے  کا۔

۹۷               یعنی کسی طرح اور کسی جہت سے بھی باطل اس تک راہ نہیں پاسکتا، وہ تغییر و تبدیل و کمی و زیادتی سے محفوظ ہے، شیطان اس میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتا۔

(۴۳)  تم سے  نہ  فرمایا جائے  (ف ۹۸) مگر وہی جو تم سے  اگلے  رسولوں کو فرمایا، کہ بیشک تمہارا رب بخشش والا (ف ۹۹) اور دردناک عذاب والا ہے  (ف ۱۰۰)

۹۸               اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔

۹۹               اپنے انبیاء علیہم السلام کے لئے اور ان پر ایمان لانے والوں کے لئے۔

۱۰۰             انبیاء علیہم السلام کے دشمنوں اور تکذیب کرنے والوں کے لئے۔

(۴۴)  اور اگر ہم اسے  عجمی زبان کا قرآن کرتے  (ف ۱۰۱) تو ضرور کہتے  کہ اس کی آیتیں کیوں نہ کھولی گئیں (ف ۱۰۲) کیا کتاب عجمی اور  نبی عربی (ف ۱۰۳) تم فرماؤ وہ (ف ۱۰۴) ایمان والوں کے  لیے  ہدایت اور شفا ہے  (ف ۱۰۵) اور وہ جو ایمان نہیں لاتے  ان کے  کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے  (ف ۱۰۶) اور وہ ان پر اندھا پن ہے  (ف ۱۰۷) گویا وہ دور جگہ سے  پکارے  جاتے  ہیں (ف ۱۰۸)

۱۰۱             جیسا کہ یہ کفّار بطریقِ اعتراض کہتے ہیں کہ یہ قرآن عجمی زبان میں کیوں نہ اترا۔

۱۰۲             اور زبانِ عربی میں بیان نہ کی گئیں۔ کہ ہم سمجھ سکتے۔

۱۰۳             یعنی کتاب نبی کی زبان کے خلاف کیوں اتری۔ حاصل یہ ہے کہ قرآنِ پاک عجمی زبان میں ہوتا تو یہ کافر اعتراض کرتے، عربی میں آیا تو معترض ہوئے۔ بات یہ ہے کہ خوئے بد را بہانۂ بسیار۔ ایسے اعتراض طالبِ حق کی شان کے لائق نہیں۔

۱۰۴             قرآنِ شریف۔

۱۰۵             کہ حق کی راہ بتاتا ہے،گمراہی سے بچاتا ہے، جہل و شک وغیرہ قلبی امراض سے شفا دیتا ہے اور جسمانی امراض کے لئے بھی اس کا پڑھ کر دم کرنا دفعِ مرض کے لئے مؤثر ہے۔

۱۰۶             کہ وہ قرآنِ پاک کے سننے کی نعمت سے محروم ہیں۔

۱۰۷             کہ شکوک و شبہات کی ظلمتوں میں گرفتار ہیں۔

۱۰۸             یعنی وہ اپنے عدمِ قبول سے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں جیسا کہ کسی کو دور سے پکارا جائے تو وہ پکارنے والے کی بات نہ سنے، نہ سمجھے۔

(۴۵) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی (ف ۱۰۹) تو اس میں اختلاف کیا گیا (ف ۱۱۰) اور اگر ایک بات تمہارے  رب کی طرف سے  گزر نہ چکی ہوتی (ف ۱۱۱) تو جبھی ان کا فیصلہ ہو جاتا (ف ۱۱۲)  اور بیشک وہ (ف ۱۱۳) ضرور اس کی طرف سے  ایک دھوکا ڈالنے  والے  شک میں ہیں۔

۱۰۹             یعنی توریتِ مقدّس۔

۱۱۰             بعضوں نے اس کو مانا اور بعضوں نے نہ مانا، بعضوں نے اس کی تصدیق کی اور بعضوں نے تکذیب۔

۱۱۱             یعنی حساب و جزا کو روزِ قیامت تک مؤخر نہ فرما دیا ہوتا۔

۱۱۲             اور دنیا ہی میں انہیں اس کی سزا دے دی جاتی۔

۱۱۳             یعنی کتابِ الٰہی کی تکذیب کرنے والے۔

(۴۶) جو نیکی کرے  وہ اپنے  بھلے  کو اور جو برائی کرے  اپنے  بُرے  کو، اور تمہارا  رب بندوں  پر ظلم نہیں کرتا۔

(۴۷) قیامت کے  علم کا اسی پر حوالہ ہے  (ف ۱۱۴) اور کوئی پھل اپنے  غلاف سے  نہیں نکلتا اور نہ کسی مادہ کو پیٹ رہے  اور نہ جنے  مگر  اس کے  علم سے  (ف ۱۱۵) اور جس دن انہیں ندا فرمائے  گا (ف ۱۱۶) کہاں ہیں میرے  شریک (ف ۱۱۷) کہیں گے  ہم تجھ سے  کہہ چکے  ہیں کہ ہم میں کوئی گواہ نہیں (ف ۱۱۸)

۱۱۴             تو جس سے وقتِ قیامت دریافت کیا جائے اس کو لازم ہے کہ کہے کہ اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔

۱۱۵             یعنی اللہ تعالیٰ پھل کے غلاف سے برآمد ہونے کے قبل اس کے احوال کو جانتا ہے اور مادّہ کے حمل کو اور اس کی ساعتوں کو اور وضع کے وقت کو اور اس کے ناقص و غیر ناقص اور اچھے اور بُرے اور نَر و مادّہ ہونے کو سب کو جانتا ہے، اس کا علم بھی اسی کی طرف حوالہ کرنا چاہئے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اولیائے کرام اصحابِ کشف بسا اوقات ان امور کی خبریں دیتے ہیں اور وہ صحیح واقع ہوتی ہیں بلکہ کبھی منجم اور کاہن بھی خبریں دیتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نجومیوں اور کاہنوں کی خبریں تو محض اٹکل کی باتیں ہیں جو اکثر و بیشتر غلط ہو جایا کرتی ہیں، وہ علم ہی نہیں، بے حقیقت باتیں ہیں اور اولیاء کی خبریں بے شک صحیح ہوتی ہیں اور وہ علم سے فرماتے ہیں اور یہ علم ان کا ذاتی نہیں، اللہ تعالیٰ کا عطا فرمایا ہوا ہے تو حقیقت میں یہ اسی کا علم ہوا، غیر کا نہیں۔ (خازن)

۱۱۶             یعنی اللہ تعالیٰ مشرکین سے فرمائے گا کہ۔

۱۱۷             جو تم نے دنیا میں گھڑ رکھے تھے جنہیں تم پوجا کرتے تھے، اس کے جواب میں مشرکین۔

۱۱۸             جو آج یہ باطل گواہی دے کہ تیرا کوئی شریک ہے یعنی ہم سب مومنِ موحّد ہیں، یہ مشرکین عذاب دیکھ کر کہیں گے اور اپنے بتوں سے بَری ہونے کا اظہار کریں گے۔

(۴۸) اور گم گیا ان سے  جسے  پہلے  پوجتے  تھے  (ف ۱۱۹) اور سمجھ لیے  کہ انہیں کہیں (ف ۱۲۰) بھاگنے  کی جگہ نہیں۔

۱۱۹             دنیا میں یعنی بت۔

۱۲۰             عذابِ الٰہی سے بچنے اور۔

(۴۹) آدمی بھلائی مانگنے  سے  نہیں اُکتاتا  (ف ۱۲۱) اور کوئی برائی پہنچے  (ف ۱۲۲) تو ناامید آس ٹوٹا (ف ۱۲۳)

۱۲۱             ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مال اور تونگری و تندرستی مانگتا رہتا ہے۔

۱۲۲             یعنی کوئی سختی و بلا و معاش کی تنگی۔

۱۲۳             اﷲ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے، یہ اور اس کے بعد جو ذکر فرمایا جاتا ہے وہ کافر کا حال ہے اور مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ لَایَایْئَسُ مِنْ رَّ وْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ۔

(۵۰) اور اگر ہم اسے  کچھ اپنی رحمت کا مزہ دیں (ف ۱۲۴) اس تکلیف کے  بعد جو اسے  پہنچی تھی تو کہے  گا یہ تو میری ہے  (ف ۱۲۵) اور میرے  گمان میں قیامت قائم نہ ہو گی اور اگر (ف ۱۲۶) میں رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو ضرور میرے   لیے  اس کے  پاس بھی خوبی ہی ہے  (ف ۱۲۷) تو ضرور ہم بتا دیں گے  کافروں کو جو انہوں نے  کیا (ف ۱۲۸) اور ضرور انہیں گاڑھا  عذاب چکھائیں گے  (ف ۱۲۹) 

۱۲۴             صحت و سلامت و مال و دولت عطا فرما کر۔

۱۲۵             خالص میرا حق ہے، میں اپنے عمل سے اس کا مستحق ہوں۔

۱۲۶             بالفرض جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں۔

۱۲۷             یعنی وہاں بھی میرے لئے دنیا کی طرح عیش و راحت و عزّت و کرامت ہے۔

۱۲۸             یعنی انکے اعمالِ قبیحہ اور ان اعمال کے نتائج اور جس عذاب کے وہ مستحق ہیں اس سے انہیں آگاہ کر دیں گے۔

۱۲۹             یعنی نہایت سخت۔

(۵۱) اور جب ہم آدمی پر احسان کرتے  ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے  (ف ۱۳۰) اور اپنی طرف دور ہٹ جاتا ہے  (ف ۱۳۱) اور جب اسے  تکلیف پہنچتی ہے  (ف ۱۳۲) تو چوڑی دعا والا ہے  (ف ۱۳۳)

۱۳۰             اور اس احسان کا شکر بجا نہیں لاتا اور اس نعمت پر اتراتا ہے اور نعمت دینے والے پروردگار کو بھول جاتا ہے۔

۱۳۱             یادِ الٰہی سے تکبّر کرتا ہے۔

۱۳۲             کسی قِسم کی پریشانی، بیماری یا ناداری وغیرہ کی پیش آتی ہے۔

۱۳۳             خوب دعائیں کرتا ہے، روتا ہے،گڑگڑاتا ہے اور لگاتار دعائیں مانگے جاتا ہے۔

(۵۲) تم فرماؤ (ف ۱۳۴) بھلا بتاؤ اگر یہ قرآن اللہ کے  پاس سے  ہے  (ف ۱۳۵) پھر تم اس کے  منکر ہوئے  تو اس سے  بڑھ کر گمراہ کون جو دور کی ضد میں ہے  (ف ۱۳۶)

۱۳۴             اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکّہ مکرّمہ کے کفّار سے۔

۱۳۵             جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے ہیں اور براہینِ قطعیہ ثابت کرتی ہیں۔

۱۳۶             حق کی مخالفت کرتا ہے۔

(۵۳)  ابھی ہم انہیں دکھائیں گے  اپنی آیتیں دنیا بھر میں (ف ۱۳۷) اور خود ان کے  آپے  میں (ف ۱۳۸) یہاں تک کہ ان پر کھل جائے  کہ بیشک وہ حق ہے  (ف ۱۳۹) کیا تمہارے  رب کا ہر چیز پر گواہ ہونا کافی نہیں۔

۱۳۷             آسمان و زمین کے اقطار میں سورج، چاند، ستارے، نباتات، حیوان، یہ سب اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرنے والے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان آیات سے مراد گزری ہوئی امّتوں کی اجڑی ہوئی بستیاں ہیں جن سے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ ان نشانیوں سے مشرق و مغرب کی وہ فتوحات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور ان کے نیاز مندوں کو عنقریب عطا فرمانے والا ہے۔

۱۳۸             ان کی ہستیوں میں لاکھوں لطائفِ صنعت اور بے شمار عجائبِ حکمت ہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ بدر میں کفّار کو مغلوب و مقہور کر کے خود ان کے اپنے احوال میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرا دیا یا یہ معنیٰ ہیں کہ مکّہ مکرّمہ فتح فرما کر ان میں اپنی نشانیاں ظاہر کر دیں گے۔

۱۳۹             یعنی اسلام و قرآن کی سچّائی اور حقانیّت ان پر ظاہر ہو جائے۔

(۵۴) سنو انہیں ضرور اپنے  رب سے  ملنے  میں شک ہے  (ف ۱۴۰) سنو ! وہ ہر چیز کو محیط ہے  (ف ۱۴۱)

۱۴۰             کیونکہ وہ بعث و قیامت کے قائل نہیں ہیں۔

۱۴۱             کوئی چیز اس کے احاطۂ علمی سے باہر نہیں اور اس کے معلومات غیر متناہی ہیں۔