اس سورہ کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ایک حٰم، دوسرے السجدہ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے۔
معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر عُتبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر ) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کر لیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آ جائیں۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا’’ بھتیجے، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کر لو‘‘۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابولولید، آپ کہیں، میں سنوں گا۔ اس نے کہا، ‘‘ بھتیجے، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں۔ اور اگر تم پر کوئی جِن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا ء بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں۔ ‘‘ عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضورؐ خاموش سنتے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟ اس نے کہا، ہاں۔ ، آپؐ نے فرمایا اچھا، اب میری سنو۔ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت ۳۸) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا، ’’ اے ابوالید، میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ‘‘ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، خدا کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا۔ پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سُن آئے؟ اس نے کہا : ’’ بخدا، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم، نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سردارانِ قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آ گیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہو گی۔ ‘‘ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے، ’’ ولید کے ابّا، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔ ‘‘ عتبہ نے کہا، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتا دی، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو (ابن ہشام، جلد ۱، ص ۳۱۳۔ ۳۱۴)
اس قصے کو متعدد دوسرے محدثین نے حضرت جاب بن عبداللہ سے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضورؐ تلاوت کرتے ہوئے آیت : فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْ تُکُمْ صَا عِقُۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ (اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں ) پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ’’خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو‘‘۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ آپ لوگ جانتے ہیں، محمدؐ کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے، اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہو جائے‘‘۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۹۰۔ ۹۱۔ البدایہ والنہایہ، ج۳، ص ۶۲)۔
عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہی تھیں۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضورؐ کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا۔ اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضورؐ کے نبی، اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہر حال کوئی امکان نہیں ہے، اب لامحالہ آپؐ کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے، یا پھر، معاذاللہ، آپؐ کی عقل پر فتور آ گیا ہے۔ پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا، اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کرائے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو ایک شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے۔
عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سورہ میں اس مخالفت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے، آپ خواہ کچھ کریں، ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دی گے۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں۔ اپنے کان بند کر لیے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی نہ ملنے دے گی۔
انہوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔
انہوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیروؤں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جائے اور اتنا شور مچایا جائے کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے۔
وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو اُلٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں۔ بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے۔ سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالتے تھے۔ سیاق و سباق سے الگ کرک ے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اُڑتے اور اس کے ساتھ ا پنی طرف سے چار باتیں ملا کر نئے نئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کی جائے۔
عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کر لے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں، جسے یہ نہیں جانتا، یکایک اٹھ کر فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے۔
اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے :
(۱)۔ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں، جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے۔ خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جواس سے فائدہ اٹھائیں، اور ڈرنا چاہیے ان لوگو کو جو اس سے منہ موڑ لیں۔
(۲)۔ تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سنائے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے۔ وہ تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے۔
(۳)۔ تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو۔ تمہاری ضد سے یہ حقیقت بہر حال نہیں بدل سکتی۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دوچار ہو گے۔
(۴)۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اَتھاہ کائنات بنائی ہے، جو زمین و آسمان کا خالق ہے، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو، اور جس کے مہیا کیے ہوئے رزق پر تم پل رہے ہو۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو، اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو۔
(۵)۔ اچھا، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا۔ اور یہ عذاب بھی تمہارے جرم کی آخری سزا نہ ہو گا، بلکہ آگے میدان حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے۔
(۶)۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جِن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں، اس کی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی خود صحیح بات سوچنے دیں، نہ کسی دوسرے سے سننے دیں۔ اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے کو بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں، اور ہر ایک دوسرے کی شہ پا کر نہلے پر دہلا مار رہا ہے، مگر قیامت کے راز جب شامت آئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں۔
(۷)۔ یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا در پردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔
(۸)۔ آج تمہاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا۔ لیکن اگر ہم تمہاری ہدایت کے لیے عجمی مذاق ہے، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو۔
(۹)۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔
(۱۰)۔ آج تم نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے، اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا، وہ حق تھا۔
مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو در پیش تھے۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو در کنار، ایمان کے راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا، اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مدد گا محسوس کر رہے تھے۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار مدد گار نہیں ہو، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دینے ہیں۔ پھر یہ فرما کر انکا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے، دوسروں کو خدا کی طرف بلائے، اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے سنگ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جائے َ اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں، مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انہیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا۔ صبر کے ساتھ اس سے کام لو، اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکسائے تو خدا سے پناہ مانگو۔
۱۔ یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے۔ یعنی تم جب تم چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود تصنیف کر رہے ہیں، لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بجبیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصّہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو، اور اگر اس سے بے رخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو۔
دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان (رحمان اور رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بے رخی برتتا ہے، یا اسے رد کرتا ہے، یا اس پر چین بجبیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنورنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہو گا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑتے کے لیے دوڑے۔
تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں۔ اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کر سکتا۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے۔
چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے۔ (اس مقام پر آیت ۴۴ بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے، اس سے پہلے ہم رفع کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۳۸۳، ۳۸۴۔ رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ۱۹ تا ۲۳)
پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں۔ یعنیاس سے فائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو۔
چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل، ایک فلسفہ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو۔ بلکہ یہ ہان کے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں۔ ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سر سری طور پر نظر انداز کر سکتا ہے۔
۲۔ یعنی اس کے لیے ہمارے دلوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے۔
۳۔ یعنی اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ اس نے ہمیں اور تمہیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ بن گئی ہے جو ہم کو اور تم کو جمع نہیں ہونے دیتی۔
۴۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسرے یہ کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کیے جاؤ، ہم بھی تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں گے اور جو کچھ تمہیں نیچا دکھانے کے لیے ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔
۵۔ یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتار دوں، تمہارے بہرے کان کھول دوں، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے۔ میں تو ایک انسان ہوں۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو۔
۶۔ یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے۔
۷۔ یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو۔
۸۔ معافی اس بے وفائی کی جواب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوئے۔
۹۔ یہاں زکوٰۃ کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس اور ان کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس مقام پر زکوٰۃ سے مراد وہ پاکیزگی نفس ہے جو توحید کے عقیدے اور اللہ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ تباہی ہے ان مشرکین کے لیے جو پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا گروہ جس میں قتادہ، سُدی، حسن بصری، ضحاک، مُقاتل اور ابن السائب جیسے مفسرین شامل ہیں، اس لفظ کو یہاں بھی زکوٰۃ مال ہی کے معنی میں لیتا ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک کر کے خدا کا اور زکوٰۃ نہ دے کر بندوں کا حق مارتے ہیں۔
۱۰۔ اصل میں : اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے دو معنی اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا اجر ہو گا جس میں کبھی کمی نہ آئے گی۔ دوسرے یہ کہ وہ اجر احسان جتا جتا کر نہیں دیا جائے گا جیسے کسی بخیل کا عطیہ ہوتا ہے کہ اگر وہ جی کڑا کر کے کسی کو کچھ دیتا بھی ہے تو بار بار اس کو جتاتا ہے۔
۱۱۔ زمین کی برکتوں سے مراد وہ بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی دولت ہی زمین پر نباتی، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی۔
۱۲۔ اصل الفاظ ہیں : قَدَّ رَ فِیْحَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَ آءً لِلسَّآئِلِیْنَ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :
بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ’’۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں۔
ابن عباس، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ’’ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ‘‘۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا۔
ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق‘‘۔
جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ ’’ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا‘‘۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک آّیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا۔ نباتات کی بے شمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں۔ جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے۔ پھر ان سب سے جدا، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرّہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا۔
موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن ’’قرآنی نظام ربوبیت ‘‘ کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّا ئِلین کا ترجمہ ’’ سب مانگنے والوں کے لیے برابر ‘‘ کرتے ہیں، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ ’’قرآنی قانون‘‘ تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں نہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے، اللہ میاں خود اپنے اس ’’قرآنی قانون‘‘ کی خلاف ورزی .................... بلکہ معاذ اللہ، بے انصافی............... فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’ سائلین ‘‘ میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے۔ مثلاً بھیڑ بکری، گائے، بھینس، گھوڑے، گدھے، خچر، اور اونٹ وغیرہ۔ اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟
۱۳۔ اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۳۶۔ ۲۶۱۔ ۳۲۴۔ جلد دوم ص ۴۲۰)۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا یک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کُرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔
۱۴۔ اس مقام پر تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے :
اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا۔
دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزاء غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے (Nebula)سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے، اسی دُخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔
سوم یہ کہ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا‘‘ سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس نے زمین بنائی، پھر اس میں پہاڑ جمانے، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیا، پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ کائنات کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا۔ اس غلط فہمی کو بعد کا یہ فقرہ رفع کر دیتا ہے کہ ’’ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاؤ اور انہوں نے کہا ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اُس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جا رہی تھی۔ محض لفظ ثُمَّ (پھر) کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہو چکی تھی۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ثُمَّ کا لفظ لازماً ترتیب زمانی ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ ترتیب بیان کے طور پر بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ زمر، حاشیہ نمبر ۱۲)
قدیم زمانے کے مفسرین میں یہ بحث مدت ہائے دراز تک چلتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی رو سے زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ ایک گروہ اس آیت اور سورہ بقرہ کی آیت ۲۹ سے یہ استدلال کرتا ہے کہ زمین پہلے بنی ہے۔ دوسرا گروہ سورہ نازعات کی آیات ۲۷ تا ۳۳ سے دلیل لاتا ہے کہ آسمان پہلے بنا ہے، کیونکہ وہاں اس امر کی تصریح ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات کا ذکر طبیعیات یا ہیئت کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر کے لیے پیش فرمایا گیا ہے۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے غیر ضروری تھی کہ تخلیق آسمان و زمین کی زمانی ترتیب بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ، بہر حال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر پہلے کرتا ہے، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمال قدرت کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے، کیونکہ چرخ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے۔
۱۵۔ ان الفاظ میں الہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صنّاعی کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے۔ اس غرض کے لیے اُسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے، بلکہ اُس نے کائنات کے اُس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جائے، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا۔ اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی۔ ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا، یہاں تک کہ ۴۸ گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۱۰۵۔ ۲۵۲ ۲۵۹۔ جلد دوم، ص ۵۴۱۔ ۵۴۲۔ جلد سوم، ص ۶۷۔ جلد چہارم، یٰس، آیت ۸۲۔ المومن، آیت ۶۸)۔
۱۶۔ ان آیات کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات کا مطالعہ مفید ہو گا۔ جلد اول، ص ۶۱۔ جلد دوم ص ۴۴۱۔ ۴۴۲۔ ۵۰۰ تا ۵۰۲۔ جلد سوم، ص ۱۵۵ تا ۱۵۷۔ ۲۴۸۔ ۲۷۰۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ نمبر ۳۷۔ الصافّات، حواشی نمبر ۵۔ ۶)
۱۷۔ یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اُس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھیرائیں گے۔
۱۸۔ اس فقرے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے۔ دوسرے یہ کہ رسولوں نے ہر پہلو سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنے میں کسر نہ اٹھا رکھی۔ تیسرے یہ کہ ان کے پاس ان کے اپنے ملک میں بھی رسول آئے اور گرد و پیش کے ملکوں بھی آتے رہے۔
۱۹۔ یعنی اگر اللہ کو ہمارا یہ مذہب پسند نہ ہوتا اور وہ اس سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ تم چونکہ فرشتے نہیں ہو بلکہ ہم جیسے انسان ہی ہو اس لیے ہم یہ نہیں مانتے کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ ہم اپنا مذہب چھوڑ کر وہ دین اختیار کر لیں جسے تم پیش کر رہے ہو۔ کفار کا یہ کہنا کہ جس چیز کے لیے تم ’’ بھیجے گئے ہو‘‘ اسے ہم نہیں مانتے، محض طنز کے طور پر تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کو خدا کا بھیجا ہوا مانتے تھے اور پھر ان کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بلکہ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز بیان ہے جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ کے متعلق اپنے درباریوں سے کہا تھا کہ : اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْن (الشعراء: آیت ۲۷)۔ ’’ یہ رسول صاحب جو تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ یٰس حاشیہ نمبر ۱۱)
۲۰۔ ’’ منحوس دنوں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آ گئے تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجائے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آ جاتا۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
طوفانی ہوا کے لیے ’’ریح صر صر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ آیت ۷) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا (الزاریات، ۴۲ ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا (الا حقاف، ۲۴۔ ۲۵)
۲۱۔ یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا، اور اسن کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے۔ (عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۴ تا ۴۷، ۳۴۵ تا ۳۴۹۔ جلد سوم، ص ۲۷۷ تا ۲۷۹۔ ۵۱۷ تا ۵۲۰۔ ۷۰۰)
۲۲۔ ثمود کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۷ تا ۵۰۔ ۳۴۹ تا ۳۵۳۔ ۵۱۵ تا ۵۱۶۔ ۶۲۶۔ جلد سوم، ص ۵۲۱ تا ۵۲۶۔ ۵۸۱ تا ۵۸۶۔
۲۳۔ اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بین کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ کیونکہ ان انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے۔
۲۴۔ یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے، بلکہ تمام اگلی پچھلی نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا نا گزیر ہے۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جائے گی اور ٹھیرائی جاتی رہے گی۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۲۶ تا ۲۹)
۲۵۔ احادیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ جب کوئی ہیکڑ مجرم اپنے جرائم کا انکار ہی کرتا چلا جائے گا اور تمام شہادتوں کو بھی جھٹلانے پر تُل جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے جسم کے اعضاء ایک ایک کر کے شہادت دیں گے کہ اس نے ان سے کیا کیا کام لیے تھے۔ یہ مضمون حضرت انسؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت بن عباسؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے اور مسلم، نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بزّار وغیرہ محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۵۵)۔
یہ آیت منجملہ ان بہت سی آیات کے ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم آخرت محض ایک روحانی عالَم نہیں ہو گا بلکہ انسان وہاں دوبارہ اسی طرح جسم و روح کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ اب اس دنیا میں ہیں۔ یہی نہیں، ان کو جسم بھی وہی دیا جائے گا جس میں اب وہ رہتے ہیں۔ وہی تمام اجزاء اور جواہر (Atoms)جن سے ان کے بدن اس دنیا میں مرکب تھے، قیامت کے روز جمع کر دیئے جائیں گے اور وہ اپنے انہی سابق جسموں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جن کے اندر رہ کر وہ دنیا میں کام کر چکے تھے ظاہر ہے کہ انسان کے اعضاء وہاں اسی صورت میں تو گواہی دے سکتے ہیں جبکہ وہ وہی اعضاء ہوں جن سے اس نے اپنی پہلی زندگی میں کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس مضمون پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی دلیل قاطع ہیں : بنی اسرائیل، آیات ۴۹ تا ۵۱۔ ۹۸۔ المومنون، ۳۵ تا ۳۸۔ ۸۲ ۸۳۔ النور، ۲۴۔ السجدہ، ۱۰۔ یٰسٓ، ۶۵۔ ۷۸۔ ۷۹۔ الصافات، ۱۶ تا ۱۸۔ الواقعہ، ۴۷ تا ۵۰۔ النازعات، ۱۰ تا ۱۴۔
۲۶۔ اس سے معلوم صرف انسان کے اپنے اعضائے جسم ہی قیامت کے روز گواہی نہیں دیں گے، بلکہ ہر وہ چیز بول اٹھے گی جس کے سامنے انسان نے کسی فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ یہی بات سورہ زلزال میں فرمائی گئی ہے کہ : وَ اَخْرَ جَتِ الْاَرضُ اَثْقَا لَھَا o وَقَا لَ ا لْاِنْسَانُ مَا لَھَا o یَوْمَئِذٍتَحَدِّ ثُ اَ خْبَا رَھَا oبِاَ نَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا o زمین وہ سارے بوجھ نکال پھینکے گی جو اس کے اندر بھرے پڑے ہیں، اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے، اس روز زمین اپنی ساری سرگزشت سنا دے گی (یعنی جوجو کچھ انسان نے اس کی پیٹھ پر کیا ہے اس کی ساری داستان بیان کر دے گی)۔ کیونکہ تیرا رب اسے بیان کرنے کا حکم دے چکا ہو گا۔
۲۷۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تشریح میں خوب فرمایا ہے کہ ہر آدمی کا رویہ اس گمان کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے جو وہ اپنے رب کے متعلق قائم کرتا ہے۔ مومن صالح کا رویہ اس لیے درست ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے بارے میں صحیح گمان رکھتا ہے، اور کافر و منافق اور فاسق و ظالم کا رویہ اس لیے ظ
غلط ہوتا ہے کہ اپنے رب کے بارے میں اس کا گمان غلط ہوتا ہے۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بڑی جامع اور مختصر حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا رب کہتا ہے انا عند ظن عبدی بی، ’’ میں اس گمان کے ساتھ ہو ں جو میرا بندہ مجھ سے رکھاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری و مسلم)
۲۸۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی طرف پلٹنا چاہیں گے تو پلٹ نہ سکیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے تو نہ نکل سکیں گے، اور یہ بھی کہ توبہ اور معذرت کرنا چاہیں گے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا۔
۲۹۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مستقل اور دائمی سنت ہے کہ وہ بُری نیت اور بُری خواہشات رکھنے والے انسانوں کو کبھی اچھے ساتھی نہیں دلواتا، بلکہ انہیں ان کے اپنی رجحانات کے مطابق بُرے ساتھی ہی دلواتا ہے۔ پھر جتنے جتنے وہ بدی کی پستیوں میں گہرے اترتے جاتے ہیں اتنے ہی بدتر سے بدتر آدمی اور شیاطین ان کے ہم نشین اور مشیر اور رفیق کار بنتے چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ فلان صاحب بذات خود تو بہت اچھے ہیں، مگر انہیں ساتھی بُرے مِل گئے ہیں، حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کو ویسے ہی دوست ملتے ہیں جیسا وہ خود ہوتا ہے۔ ایک بیک آدمی کے ساتھ اگر بُرے لوگ لگ بھی جائیں تو وہ اس کے ساتھ زیادہ دیر تک لگے نہیں رہ سکتے۔ اور اسی طرح ایک بد نیت اور بد کردار آدمی کے ساتھ نیک اور شریف انسانوں کی رفاقت اتفاقاً واقع ہو بھی جائے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں نبھ سکتی۔ بد آدمی فطرۃً بدو ہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بد ہی اس کی طرف کھنچتے ہیں، جس طرح غلاظت مکھیوں کو کھینچتی ہے اور مکھیاں غلاظت کی طرف کھنچتی ہیں۔ اور یہ جو ارشاد فرمایا کہ وہ آگے اور پیچھے ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کا ماضی بھی بڑا شاندار تھا اور مستقبل بھی نہایت درخشاں ہے وہ ایسی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھاتے تھے کہ ہر طرف ان کو ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ آپ پر تنقید کرنے والے احمق ہیں، آپ کوئی نرالا کام تھوڑی کر رہے ہیں، دنیا میں ترقی کرنے والے وہی کچھ کرتے رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں اور آگے اول تو کوئی آخرت ہے ہی نہیں جس میں آپ کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے، لیکن اگر وہ پیش آ ہی گئی، جیسا کہ چند نادان دعویٰ کرتے ہیں، تو جو خدا آپ کو یہاں نعمتوں سے نواز رہا ہے وہ وہاں بھی آپ پر انعام و اکرام کی بارش کرے گا، دوزخ آپ کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بنی ہے جنہیں یہاں خدا نے اپنی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے۔
۳۰۔ یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے، اور اس شخصیت کے ساتھ اس کا طرز ادا کس درجہ مؤثر ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کس انداز میں اس بے نظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا۔ اس لیے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کونہ خود سنو، نہ کسی کو سننے دو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی اسے سنانا شروع کریں، شور مچاؤ، تالی پیت دو۔ آوازے کسی، اعتراضات کی بوچھاڑ کر دو۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز اس کے مقابلے میں دب جائے۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے۔
۳۱۔ یعنی دنیا میں تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور پیشواؤں اور فریب دینے والے شیاطین کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں، مگر جب قیامت کے رو انہیں پتا چلے گا کہ یہ رہنما انہیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی لوگا نہیں کسنے لگیں گے اور یہ چاہیں گے کہ وہ کسی طرح ان کے ہاتھ آ جائیں تو پکڑ کر انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں۔
۳۲۔ یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخلف تحقق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روئے سخن مڑتا ہے۔
۳۳۔ یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔
توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اور اکابر صحابہؓ نے اس طرح کی ہے :
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قد قا لھا ا لناس ثم کفر اکثر حم، فمن مات علیھا فھو ممن استقام۔ ’’ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گئے۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا‘‘ (ابن جریر، نسائی ابن ابی حتم)۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکو ا باللہ شیئاً، لَمْ عَلتفتواالٰی الٰہٍ غیرہ۔ ’’ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی‘‘(ابن جریر)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا، ’’ خدا کی قسم، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے، لومڑیوں کی طرح ادھر سے اِدھر سے اُدھر سے اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ‘‘ (ابن جریر)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا‘‘ (کشاف)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ‘‘ (کشاف )
۳۴۔ فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں۔ اگر چہ اللہ جل شانہٗ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے، لیکن بالعموم اہل ایمان پر، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت، یا قبر، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو، اور ان کی ہمت بندھے، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں، اور قبر (عالم برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتدائے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن ان کی یہ معیّت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہارے سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔
۳۵۔ یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں، ان سے ہر گز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں، ان پر کوئی رنج نہ کرو، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں، کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہاں ہم تمہارے لیے چین ہی چین ہے، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا گم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔
۳۶۔ اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونا بجائے خود وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے، یہ ہے کہ تم خون نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کو جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار لینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں، اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے، اور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے۔
۳۷۔ اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پروؤں کو، یہ ہدایت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا، جس میں اخلاق انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں۔ ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں، اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضورؐ کو بتایا گیا۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی ہے۔ کیوں کہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں، خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں، ظالم ہیں، اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو در کنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے، مسلسل کام کرتی چلی جائے، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے۔ کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود دلوں کو مسخر کرتی ہے، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں، ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اُس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔
اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے۔ لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں۔
۳۸۔ یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کار گر، مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اس کے لیے بڑا عزم، بڑا حوصلہ، بڑی قوت برداشت، اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں، اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بد مست ہو رہے ہوں، اور وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا، اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کر لیا ہو، اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو۔
۳۹۔ یہ قانون فطرت ہے۔ بڑے ہی بلند مرتبے کا انسان ان صفات سے متصف ہوا کرتا ہے، اور جو شخص یہ صفات رکھتا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ گھٹیا درجے کے لوگ اپنی کمینہ چالوں، ذلیل ہتھکنڈوں اور رکیک حرکتوں سے اس کو شکست دے دیں۔
۴۰۔ شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً ان کے سربرآوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بیجا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گِری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہر گز برداشت نہ کی جانی چاہیے، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔
اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورؐ پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایا ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا ’’ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ‘‘
۴۱۔ مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے۔
یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۱۱۰ تا ۱۱۱۴۔ ۵۸۱۔ ۵۸۲۔ جلد سوم، ص ۲۹۹۔ ۷۰۸۔ ۷۰۹۔
۴۲۔ اب روئے سخن عوام الناس کی طرف مڑ رہا ہے اور چند فقرے ان کے حقیقت سمجھانے کے لیے ارشاد ہو رہے ہیں۔
۴۳۔ یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی او اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کر رہے ہیں۔
۴۴۔ یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہ خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے۔
۴۵۔ ’’ غرور میں آ کر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں۔
۴۶۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں۔
اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آیتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ لیکن حضرات ابن عباس، ابن عمر، سعید بن المسیّب، مسرق، قتادہ، حسن بصری، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی، ابن سیرین، ابراہیم بَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ پر سجدے کے قائل ہیں۔ یہی امام ابو حنیفہؒ کا قسل بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے۔
۴۷۔ تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۴۹۔ ۵۵۰۔ جلد سوم، ص ۲۰۲۔ ۷۴۲۔ ۷۴۳۔ جلد چہارم، فاطر، حاشیہ ۱۹۔
۴۸۔ عوام الناس کو چند فقروں میں یہ سمجھانے کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جس توحید آخرت کے عقیدے کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی معقول ہے اور آثار کائنات اسی کے حق ہونے کی شہادت دے رہے ہیں، اب روئے سخن پھر ان مخالفین کی طرف مڑتا ہے جو پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ مخالفت پر تُلے ہوئے تھے۔
۴۹۔ اصل الفاظ ہیں : یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَا تِنَا (ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں )۔ الحاد کے معنی ہیں انحراف، سیدھی راہ سے ٹیڑھی راہ کی طرف مڑ جانا، کج روی اختیار کرنا۔ اللہ کی آیات میں الحاد کا مطلب تو نہ لے، باقی ہر طرح کے غلط معنی ان کو پہنا کر خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہے۔ کفار مکہ قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے جو چالیں چل رہے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قرآن کی آیات کو سن کر جاتے اور پھر کسی آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر، کسی آیت میں لفظی تحریف کر کے، کسی فقرے یا لفظ کو غلط معنی پہنا کر طرح طرح کے اعتراضات جڑتے اور لوگوں کو بہکاتے پھرتے تھے کہ لو سنو، آج ان نبی صاحب نے کیا کہہ دیا ہے۔
۵۰۔ ان الفاظ میں ایک سخت دھمکی مضمر ہے۔ حاکم ذی اقتدار کا کہنا کہ فلاں شخص جو حرکتیں کر رہا ہے وہ مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، آپ سے آپ یہ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بچ کر نہیں جا سکتا۔
۵۱۔ یعنی اٹل ہے۔ اس کو ان چالوں سے شکست نہیں دی جا سکتی جو باطل پرست لوگ اس کے خلاف چل رہے ہیں۔ اس میں صداقت کا زور ہے۔ علم حق کا زور ہے۔ دلیل و حجت کا زور ہے۔ زبان اور بیان کا زور ہے۔ بھیجنے والے خدا کی خدائی کا زور ہے۔ اور پیش کرنے والے رسول کی شخصیت کا زور ہے۔ جھوٹ اور کھوکھلے پروپیگنڈے کے ہتھیاروں سے کوئی اسے زک دینا چاہے تو کیسے دے سکتا ہے۔
۵۲۔ سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کوئی علم ایسا نہیں آ سکتا جو فی الواقع ’’علم‘‘ ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست تمدُن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باطل خواہ سامنے سے آ کر حملہ آور ہو یا ہیر پھیر کے راستوں سے چھاپے مارے، بہر حال کسی طرح بھی وہ اس دعوت کو شکست نہیں دے سکتا جسے لے کر قرآن آیا ہے۔ تمام مخالفتوں اور مخالفین کی ساری خفیہ اور علانیہ چالوں کے علی الرغم یہ دعوت پھیل کر رہے گی اور کوئی اسے زک نہیں دے سکے گا۔
۵۳۔ یعنی یہ اس کا حلم اور عفو و درگزر ہی ہے کہ اس کے رسولوں کو جھٹلایا گیا، گالیاں دی گئیں، اذیتیں پہنچائی گئیں اور پھر بھی وہ سالہا سال تک مخالفین کو محبت دیتا چلا گیا۔
۵۴۔ یہ اس ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلی کیا جا رہا تھا کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) عرب ہیں، عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ اگر عربی میں قرآن پیش کرتے ہیں تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ ان پر خدا نے نازل کیا ہے۔ ان کے اس کلام کو خدا کا نازل کیا ہوا کلام تو اس وقت مانا جا سکتا تھا جب یہ کیس ایسی زبان میں یکایک دھواں دھار تقریر کرنا شروع کر دیتے جسے یہ نہیں جانتے، مثلاً فارسی یا رومی یا یونانی۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ان کی اپنی زبان میں قرآن بھیجا گیا ہے جسے یہ سمجھ سکیں تو ان کو یہ اعتراض ہے کہ عرب کے ذریعہ سے عربوں کے لیے عربی زبان میں یہ کلام کیوں نازل کیا گیا۔ لیکن اگر کسی دوسری زبان میں یہ بھجا جاتا تو اس وقت یہی لوگ یہ اعتراض کرتے کہ یہ معاملہ بھی خوب ہے۔ عرب قوم میں ایک عرب کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، مگر کلام اس پر ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے جسے نہ رسول سمجھتا ہے نہ قوم۔
۵۵۔ دور سے جب کسی کو پکارا جاتا ہے تو اس کے کان میں ایک آواز تو پڑتی ہے مگر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ ایسی بے نظیر تشبیہ ہے جس سے ہٹ دھرم مخالفین کے نفسیات کی پوری تصویر نگاہوں کے سامنے کھچ جاتی ہے۔ فطری بات ہے کہ جو شخص کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہوتا اس سے اگر آپ گفتگو کریں تو وہ اسے سنتا ہے، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور معقول بات ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص آپ کے خلاف نہ صرف تعصب بلکہ عناد اور بغض رکھتا ہو اس کو آپ اپنی بات سمجھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں، وہ سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے گا۔ آپ ساری بات سن کر بھی اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ آپ اتنی دیر تک کیا کہتے رہے ہیں۔ اور آپ کو بھی یوں محسوس ہو گا کہ جیسے آپ کی آواز اس کے کان کے پردوں سے اُچٹ کر باہر ہی باہر گزرتی رہی ہے، دل اور دماغ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پا سکی۔
۵۶۔ یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تُل گئے تھے۔
۵۷۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہوتا کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔
۵۸۔ اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد، ان کے نفس کی خواہشات، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے تم پر، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔
۵۹۔ یعنی تیرا رب کبھی یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ نیک انسان کی نیکی ضائع کر دے اور بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ نہ دے۔
۶۰۔ اس ساعت سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ گھڑی جب ندی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جائے گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے۔
۶۱۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے۔
۶۲۔ اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام مور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟‘‘
۶۳۔ یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے۔ ’’ ہم عرض کر چکے ہیں ‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے۔
۶۴۔ یعنی مایوسی کے عالم میں یہ لوگ ہر طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جن کی سیوا کرتے رہے، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آئے اور ہمیں خدا کے عذاب سے چھڑا لے، یا کم از کم ہماری سزا ہی کم کرا دے، مگر کسی طرف سے کوئی مددگار بھی ان کو نظر نہ آئے گا۔
۶۵۔ بھلائی سے مراد ہے خوشحالی، کشادہ رزق، تندرستی، بال بچوں کی خیر وغیرہ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑگڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔
۶۶۔ یعنی یہ سب کچھ مجھے اپنی اہلیت کی بنا پر ملا ہے اور میرا حق یہی ہے کہ میں یہ کچھ پاؤں۔
۶۷۔ یعنی ہماری اطاعت و بندگی سے منہ موڑتا ہے اور ہمارے آگے جھکنے کو اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے۔
۶۸۔ اس مضمون کی متعدد آیات اس سے پہلے قرآن مجید میں گزر چکی ہیں۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۲۷۰۔ ۳۲۵۔ ۳۲۶۔ ۶۳۹۔ جلد سوم، ص ۷۵۵ تا ۷۵۷۔ جلد چہارم، الزمر، آیات ۸۔ ۹۔ ۴۹۔
۶۹۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر سری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گئے ہو، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیک لو۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں۔ لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسوں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو۔
۷۰۔ اس آیت کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں :
ایک مفہوم یہ ہے کہ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گرد و پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہیں۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ مان کر نہیں دے رہے ہیں، وہ سراسر حق تھا۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کا غالب آ جانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کر لینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے، باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہیں اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملے پر غور کیے بغیر کر دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحت اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے، بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح ممالک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھی جو ا یک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کا مالک بنا دیتی ہیں اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے۔ اس کے بر عکس یہ فتح اپنے جِلَو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے، انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے۔ دنیا جن فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھی کہ کاروبار دنیا چلانے والوں میں بھی وہ پائے جا سکتے ہیں، اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرمانرواؤں کی سیاست میں، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں، فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں، ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیلداری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیے۔ اس نے اپنے پیدا کروہ معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق اور کردار اور طہارت و نظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فروتر نظر آنے لگے۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحقیق اور معقول طرز فکر و عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے، یا اگر انہوں نے اس کی فکر کی بھی تو ان امراض کے علاج میں کامیاب نہ ہو سکے، مثلاً رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق، ایک ہی معاشرے میں طبقات کی تقسیم اور ان کے درمیان اونچ نیچ کا امتیاز اور چھوت چھات، قانونی حقوق اور عملی معاشرت میں مساوات کا فقدان، عورتوں کی پستی اور بنیادی حقوق تک سے محرومی، جرائم کی کثرت، شراب اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج، حکومت کا تنقید و محاسبے سے بالا تر رہنا، عوام کا بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہونا، بین الاقوامی تعلقات میں معاہدات کی بے احترامی، جنگ میں وحشیانہ حرکات، اور ایسے ہی دوسرے امراض۔ سب سے بڑھ کر خود عرب کی سر زمین میں اس انقلاب نے دیکھتے دیکھتے طوائف الملوکی کی جگہ نظم، خونریزی و بد امنی کی جگہ امن، فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت، ظلم و بے انصافی کی جگہ عدل، گندگی و نا شائستگی کی جگہ پاکیزگی اور تہذیب، جہالت کی جگہ علم، اور نسل در نسل چلنے والی عداوتوں کی جگہ اخوت و محبت پیدا کر دی، اور جس قوم کے لو گ اپنے قبیلے کی سرداری سے بڑھ کر کسی چیز کا خواب تک نہ دیکھ سکتے تھے انہیں دنیا کا امام بنا دیا۔ یہ تھیں وہ نشانیاں جو اسی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جسے مخاطب کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی مرتبہ یہ آیت سنائی تھی۔ اور اس کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو برابر دکھائے جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے دور میں بھی اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب و شائستگی کے علمبردار بنے پھتے ہیں۔ یورپ کی قوموں نے افریقہ، امریکہ، ایشیا اور خود یورپ میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئ نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں اتنی انسانیت پیدا کر دی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پا کر اترے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پائے گئے ہیں اور آج تک پائے جا رہے ہیں۔ کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمراں رہے اس وقت عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہندوستان میں آٹھ سو برس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آ جانے کے بعد کیا برتاؤ کر رہے ہیں۔ یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے۔
دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آفاق ارض و سماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے وہی برحق ہے۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آفاق ارض و سماء اور خود اپنے وجود کو تو لوگ اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ پھر زمانہ مستقبل میں ان چیزوں کے اندر نشانیاں دکھانے کے کیا معنی۔ لیکن یہ اعتراض بھی ویسا ہی سطحی ہے جیسا اوپر کے مفہوم پر اعتراض سطحی تھا۔ آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان احاطہ نہیں کر سکا ہے، نہ کبھی کر سکے گا۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی۔
۷۱۔ یعنی کیا لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس دعوت حق کو جھٹلانے اور زک پہنچانے کے لیے جو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا ہے۔
۷۲۔ یعنی ان کے اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کبھی ان کو اپنے رب کے سامنے جانا ہے اورا پنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
۷۳۔ یعنی اس کی گرفت سے بچ کر یہ کہیں جا نہیں سکتے اور اس کے ریکارڈ سے ان کی کوئی حرکت چھوٹ نہیں سکتی۔