۱ سورۂ زخرف مکّیہ ہے، اس سورت میں سات ۷رکوع، نواسی ۸۹ آیتیں اور تین ہزار چارسو ۳۴۰۰ حرف ہیں۔
۲ یعنی قرآنِ پاک کی، جس میں ہدایت و ضلالت کی راہیں جدا جدا اور واضح کر دیں اور امّت کے تمام شرعی ضروریات کو بیان فرما دیا۔
۴ اصلِ کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے، قرآنِ کریم اس میں ثبت ہے۔
۵ یعنی تمہارے کفر میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے کیا ہم تمہیں مہمل چھوڑ دیں اور تمہاری طرف سے وحیِ قرآن کا رخ پھیر دیں اور تمہیں امر و نہی کچھ نہ کریں۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم ایسا نہ کریں گے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ خدا کی قَسم اگر یہ قرآنِ پاک اٹھا لیا جاتا اس وقت جب کہ اس امّت کے پہلے لوگوں نے اس سے اعراض کیا تھا تو وہ سب ہلاک ہو جاتے لیکن اس نے اپنی رحمت و کرم سے اس قرآن کا نزول جاری رکھا۔
۶ جیسا آپ کی قوم کے لوگ کرتے ہیں،کفّار کا قدیم سے یہ معمول چلا آیا ہے۔
۷ اور ہر طرح کا زور و قوّت رکھتے تھے، آپ کی امّت کے لوگ جو پہلے کفّار کی چال چلتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کا بھی وہی انجام نہ ہو جو ان کا ہوا کہ ذلّت و رسوائی کی عقوبتوں سے ہلاک کئے گئے۔
۹ یعنی اقرار کریں گے کہ آسمان و زمین کو ا ﷲ تعالیٰ نے بنایا اور یہ بھی اقرار کریں گے کہ وہ عزّت و علم والا ہے باوجود اس اقرار کے بعث کا انکار کیسی انتہا درجہ کی جہالت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے اظہارِ قدرت کے لئے اپنے مصنوعات کا ذکر فرماتا ہے اور اپنے اوصاف و شان کا اظہار کرتا ہے۔
۱۰ سفروں میں اپنے منازل و مقاصد کی طرف۔
۱۱ تمہاری حاجتوں کی قدر نہ اتنا کم کہ اس سے تمہاری حاجتیں پوری نہ ہوں، نہ اتنا زیادہ کہ قومِ نوح کی طرح تمہیں ہلاک کر دے۔
۱۳ یعنی تمام اصناف و انواع۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرد ہے ضد اور نِد اور زوجیّت سے منزّہ و پاک ہے، اس کے سوا خَلق میں جو ہے زوج ہے۔
۱۵ آخر کار۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو اپنے ناقہ پر سوار ہوتے وقت پہلے الحمد ﷲ پڑھتے، پھر سبحان اﷲ اور اﷲ اکبر، یہ سب تین تین بار پھر یہ آیت پڑھتے : سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہ مُقْرِنِیْنَoوَاِنَّآ اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اس کے بعد اور دعائیں پڑھتے اور جب حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کَشتی میں سوار ہوتے تو فرماتے بِسْمِ اللہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا ط اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْر رَّحِیْم۔
۱۶ یعنی کفّار نے اس اقرار کے باوجود کہ اﷲ تعالیٰ آسمان و زمین کا خالق ہے یہ ستم کیا کہ ملائکہ کو اﷲ تعالیٰ کی بیٹیاں بتایا اور اولاد صاحبِ اولاد کا جز ہوتی ہے، ظالموں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لئے جز قرار دیا،کیسا عظیم جُرم ہے۔
۱۹ ادنیٰ اپنے لئے اور اعلیٰ تمہارے لئے،کیسے جاہل ہو،کیا بکتے ہو۔
۲۰ یعنی بیٹی کی کہ تیرے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
۲۱ کہ معاذ اﷲ وہ بیٹی والا ہے۔
۲۲ اور بیٹی کا ہونا اس قدر ناگوار سمجھے باوجود اس کے خدائے پاک کے لئے بیٹیاں بتائے تَعَالیٰ اللہُ عَنْ ذٰلِکَ۔
۲۳ کافر حضرت رحمٰن کے لئے اولاد کی قِسموں میں سے تجویز کرتے ہیں۔
۲۴ یعنی زیوروں کی زیب و زینت میں نازو نزاکت کے ساتھ پرورش پائے۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ زیور سے تزئین دلیلِ نقصان ہے تو مَردوں کو اس سے اجتناب چاہئے، پرہیزگاری سے اپنی زینت کریں۔ اب آگے آیت میں لڑکی کی ایک اور کمزوری کا اظہار فرمایا جاتا ہے۔
۲۵ یعنی اپنے ضعفِ حال اور قلّتِ عقل کی وجہ سے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عورت جب گفتگو کرتی ہے اور اپنی تائید میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف دلیل پیش کر دیتی ہے۔
۲۶ حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتانے میں بے دینوں نے تین کفر کئے، ایک تو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت، دوسرے اس ذلیل چیز کا اس کی طرف منسوب کرنا جس کو وہ خود بہت ہی حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے لئے گوارا نہیں کرتے، تیسرے ملائکہ کی توہین انہیں بیٹیاں بتانا۔ (مدارک ) اب اس کا رد فرمایا جاتا ہے۔
۲۷ فرشتوں کا مذکر یا مؤنث ہونا ایسی چیز تو ہے نہیں جس پر کوئی عقلی دلیل قائم ہو سکے اور ان کے پاس خبر کوئی آئی نہیں تو جو کفّار ان کو مؤنث قرار دیتے ہیں ان کا ذریعۂ علم کیا ہے ؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے اور انہوں نے مشاہدہ کر لیا ہے ؟ جب یہ بھی نہیں تو محض جاہلانہ گمراہی کی بات ہے۔
۲۸ یعنی کفّار کا فرشتوں کے مؤنث ہونے پر گواہی دینا لکھ لیا جائے گا۔
۲۹ آخرت میں اور اس پر سزا دی جائے گی۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کفّار سے دریافت فرمایا کہ تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کس طرح کہتے ہو ؟ تمہارا ذریعۂ علم کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں وہ سچّے تھے۔ اس گواہی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لکھی جائے گی اور اس پر جواب طلب ہو گا۔
۳۰ یعنی ملائکہ کو۔ مطلب یہ تھا کہ اگر ملائکہ کی پرستش کرنے سے اﷲ تعالیٰ راضی نہ ہوتا تو ہم پر عذاب نازل کرتا اور جب عذاب نہ آیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہی چاہتا ہے، یہ انہوں نے ایسی باطل بات کہی جس سے لازم آئے کہ تمام جُرم جو دنیا میں ہوتے ہیں ان سے خدا راضی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی تکذیب فرماتا ہے۔
۳۱ وہ رضائے الٰہی کے جاننے والے ہی نہیں۔
۳۳ اور اس میں غیرِ خدا کی پرستش کی اجازت ہے ایسا نہیں، یہ باطل ہے اور اس کے سوا بھی ان کے پاس کوئی حجّت نہیں ہے۔
۳۴ آنکھیں میچ کر بے سوچے سمجھے ان کا اتباع کرتے ہیں، وہ مخلوق پرستی کیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل بجز اس کے نہیں ہے کہ یہ کام وہ باپ دادا کی پیروی میں کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے بھی ایسا ہی کہا کرتے تھے۔
۳۵ اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کی اندھے بن کر پیروی کرنا کفّار کا قدیمی مرض ہے اور انہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کی پیروی کرنے کے لئے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہو، چنانچہ۔
۳۸ اگرچہ تمہارا دِین حق و صواب ہو مگر اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑنے والے نہیں چاہے وہ کیسا ہی ہو، اِس پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
۳۹ یعنی رسولوں کے نہ ماننے والوں اور انہیں جھٹلانے والوں سے۔
۴۰ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس توحیدی کلمہ کو جو فرمایا تھا کہ میں بیزار ہوں ۴۱ تمہارے معبودوں سے سوائے اس کے جس نے مجھ کو پیدا کیا۔
۴۱ تو آپ کی اولاد میں موحِّد اور توحید کے داعی ہمیشہ رہیں گے۔
۴۲ شرک سے اور یہ دِینِ برحق قبول کریں۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر فرمانے میں تنبیہ ہے کہ اے اہلِ مکّہ اگر تمہیں اپنے باپ دادا کا اتباع کرنا ہی ہے تو تمہارے آباء میں جو سب سے بہتر ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کا اتباع کرو اور شرک چھوڑ دو اور یہ بھی دیکھو کہ انہوں نے اپنے باپ اور قوم کو راہِ راست پر نہیں پایا تو ان سے بیزاری کا اعلان فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو باپ دادا راہِ راست پر ہوں دِینِ حق رکھتے ہوں ان کا اتباع کیا جائے اور جو باطل پر ہوں،گمراہی میں ہوں ان کے طریقہ سے بیزاری کا اعلان کیا جائے۔
۴۴ دراز عمریں عطا فرمائیں اور انکے کفر کے باعث ان پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہ کی۔
۴۶ یعنی سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روشن ترین آیات و معجزات کے ساتھ رونق افروز ہوئے اور آپ نے شرعی احکام واضح طور پر بیان فرمائے اور ہمارے اس انعام کا حق یہ تھا کہ اس رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اطاعت کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔
۴۸ جو کثیرُ المال، جتھے دار ہو جیسے کہ مکّہ مکرّمہ میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی اس بات کا رد فرماتا ہے۔
۴۹ یعنی کیا نبوّت کی کنجیاں انکے ہاتھ میں ہیں کہ جس کو چاہیں دے دیں، کس قدر جاہلانہ بات کہتے ہیں۔
۵۰ تو کسی کو غنی کیا، کسی کو فقیر، کسی کو قوی، کسی کو ضعیف۔ مخلوق میں کوئی ہمارے حکم کو بدلنے اور ہماری تقدیر سے باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا تو جب دنیا جیسی قلیل چیز میں کسی کو مجالِ اعتراض نہیں تو نبوّت جیسے منصبِ عالی میں کیا کسی کو دم مارنے کا موقع ہے ؟ ہم جسے چاہتے ہیں غنی کرتے ہیں، جسے چاہتے ہیں مخدوم بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں خادم بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں نبی بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں امّتی بناتے ہیں، امیر کیا کوئی اپنی قابلیّت سے ہو جاتا ہے ؟ ہماری عطا ہے جسے جو چاہیں کریں۔
۵۱ قوّت و دولت وغیرہ دنیوی نعمت میں۔
۵۲ یعنی مالدار فقیر کی ہنسی کرے، یہ قرطبی کی تفسیر کے مطابق ہے۔ اور دوسرے مفسّرین نے سُخْرِیًّا ہنسی بنانے کے معنیٰ میں نہیں لیا ہے بلکہ اعمال و اشغال کے مسخّر بنانے کے معنیٰ میں لیا ہے، اس صورت میں معنیٰ یہ ہوں گے کہ ہم نے دولت و مال میں لوگوں کو متفاوت کیا تاکہ ایک دوسرے سے مال کے ذریعہ خدمت لے اور دنیا کا نظام مضبوط ہو، غریب کو ذریعۂ معاش ہاتھ آئے اور مالدار کو کام کرنے والے بہم پہنچیں تو اس پر کون اعتراض کر سکتا ہے کہ فلاں کو کیوں غنی کیا اور فلاں کو فقیر اور جب دنیوی امور میں کوئی شخص دم نہیں مار سکتا تو نبوّت جیسے رتبۂ عالی میں کسی کو کیا تابِ سخن و حقِ اعتراض ؟ اس کی مرضی جس کو چاہے سرفراز فرمائے۔
۵۴ یعنی اس مال سے بہتر ہے جس کو دنیا میں کفّار جمع کر کے رکھتے ہیں۔
۵۵ یعنی اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کو فراخیِ عیش میں دیکھ کر سب لوگ کافر ہو جائیں گے۔
۵۶ کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں، وہ سریعۃ الزوال ہے۔
۵۷ جنہیں دنیا کی چاہت نہیں۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھّر کے پر کے برابر بھی قدر رکھتی تو کافر کو اس سے ایک پیاس پانی نہ دیتا۔ (قال الترمذی حدیث حسن غریب) دوسری حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نیاز مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے، راستہ میں ایک مُردہ بکری دیکھی، فرمایا دیکھتے ہو، اس کے مالکوں نے اسے بہت بے قدری سے پھینک دیا، دنیا کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی قدر نہیں جتنی بکری والوں کے نزدیک اس مری بکری کی ہو۔
( اخرجہ الترمذی و قال حدیث حسن) حدیث : سیدِ عالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر کرم فرماتا ہے تو اسے دنیا سے ایسا بچاتا ہے جیسا تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاؤ۔
(الترمذی و قال حسن غریب) حدیث : دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنّت ہے۔
۵۸ یعنی قرآنِ پاک سے اندھا بن جائے کہ اس کی ہدایتوں کو نہ دیکھے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے۔
۶۰ وہ اندھا بننے والے باوجود گمراہ ہونے کے۔
۶۳ ظاہرو ثابت ہو گیا کہ دنیا میں شرک کر کے۔
۶۵ جو چشمِ حق بیں سے محروم ہیں۔
۶۷ یعنی انہیں عذاب کرنے سے پہلے تمہیں وفات دیں۔
۶۹ تمہارے حیات میں ان پر اپنا وہ عذاب۔
۷۲ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں نبوّت و حکمت عطا فرمائی۔
۷۳ یعنی امّت کے لئے کہ انہیں اس سے ہدایت فرمائی۔
۷۴ روزِ قیامت کہ تم نے قرآن کا کیا حق ادا کیا ؟ اس کی کیا تعظیم کی ؟ اس نعمت کا کیا شکر بجا لائے ؟
۷۵ رسولوں سے سوال کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے ادیان و مِلَل کو تلاش کرو،کہیں بھی کسی نبی کی امّت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے اور اکثر مفسّرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ مومنینِ اہلِ کتاب سے دریافت کرو کہ کیا کبھی کسی نبی نے غیرُ اللہ کی عبادت کی اجازت دی تاکہ مشرکین پر ثابت ہو جائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی، نہ کسی کتاب میں آئی یہ بھی۔ ایک روایت ہے کہ شبِ معراج سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بیتُ المقدِس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبریلِ امین نے عرض کیا کہ اے سرورِ اکرم اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے، سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی۔
۷۶ جو موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں۔
۷۸ یعنی ہر ایک نشانی اپنی خصوصیت میں دوسری سے بڑھی چڑھی تھی، مراد یہ ہے کہ ایک سے ایک اعلیٰ تھی۔
۷۹ کفر سے ایمان کی طرف اور یہ عذاب قحط سالی اور طوفان و ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے، یہ سب حضرت موسیٰ عَلیٰ نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نشانیاں تھیں جو ان کی نبوّت پر دلالت کرتی تھیں اور ان میں ایک سے ایک بلند و بالا تھی۔
۸۰ عذاب دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔
۸۱ یہ کلمہ انکے عرف اور محاورہ میں بہت تعظیم و تکریم کا تھا وہ عالِم و ماہر و حاذقِ کامل کو جادوگر کہا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی نظر میں جادو کی بہت عظمت تھی اور وہ اس کو صفتِ مدح سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بوقتِ التجا اس کلمہ سے ندا کی، کہا۔
۸۲ وہ عہد یا تو یہ ہے کہ آپ کی دعا مستجاب ہے یا نبوّت یا ایمان لانے والوں اور ہدایت قبول کرنے والوں پر سے عذاب اٹھا لینا۔
۸۳ ایمان لائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اور ان پر سے عذاب اٹھا لیا گیا۔
۸۴ ایمان نہ لائے کفر پر مصِر رہے۔
۸۶ یہ دریائے نیل سے نکلی ہوئی بڑی بڑی نہریں تھیں جو فرعون کے قصر کے نیچے جاری تھیں۔
۸۷ میری عظمت و قوّت اور شان و سطوت۔ اﷲ تعالیٰ کی عجیب شان ہے، خلیفہ رشید نے جب یہ آیت پڑھی اور حکومتِ مصر پر فرعون کا غرور دیکھا تو کہا کہ میں وہ مصر اپنے ادنیٰ غلام کو دے دوں گا چنانچہ انہوں نے مصر خصیب کو دے دیا جو ان کا غلام تھا اور وضو کرانے کی خدمت پر مامور تھا۔
۸۸ یعنی کیا تمہارے نزدیک ثابت ہو گیا اور تم نے سمجھ لیا کہ میں بہتر ہوں۔
۸۹ یہ اس بے ایمان متکبّر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں کہا۔
۹۰ زبان میں گرہ ہونے کی وجہ سے، جو بچپن میں آگ منہ میں رکھنے سے پڑ گئی تھی اور یہ اس ملعون نے جھوٹ کہا کہ کیونکہ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے زبانِ اقدس کی وہ گرہ زائل کر دی تھی لیکن فرعونی پہلے ہی خیال میں تھے۔ آگے پھر اسی فرعون کا کلام ذکر فرمایا جاتا ہے۔
۹۱ یعنی اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام سچّے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو واجبُ الاطاعت سردار بنایا ہے تو انہیں سونے کا کنگن کیوں نہیں پہنا یا یہ بات اس نے اپنے زمانہ کے دستور کے مطابق کہی کہ اس زمانہ میں جس کسی کو سردار بنایا جاتا تھا اس کو سونے کے کنگن اور سونے کا طوق پہنایا جاتا تھا۔
۹۲ اور اس کے صدق کی گواہی دیتے۔
۹۳ ان جاہلوں کی عقل خبط کر دی انہیں بَہلا پھُسلا لیا۔
۹۴ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرنے لگے۔
۹۵ کہ بعد والے ان کے حال سے نصیحت و عبرت حاصل کریں۔
۹۶ شانِ نزول : جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے قریش کے سامنے یہ آیت وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ پڑھی جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اے مشرکین تم اور جو چیز اللہ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنّم کا ایندھن ہے، یہ سن کر مشرکین کو بہت غصّہ آیا اور ابنِ زبعری کہنے لگا یا محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کیا یہ خاص ہمارے اور ہمارے معبودوں ہی کے لئے ہے یا ہر امّت و گروہ کے لئے ؟ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے لئے بھی ہے اور سب امّتوں کے لئے بھی، اس پر اس نے کہا کہ آپ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم نبی ہیں اور آپ ان کی اور انکی والدہ کی تعریف کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے نصاریٰ ان دونوں کو پوجتے ہیں اور حضرت عزیر اور فرشتے بھی پوجے جاتے ہیں یعنی یہود وغیرہ ان کو پوجتے ہیں تو اگر یہ حضرات (معاذ اﷲ)جہنّم میں ہوں تو ہم راضی ہیں کہ ہم اور ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں اور یہ کہہ کر کفّار خوب ہنسے، اس پر یہ آیت اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمائی اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤی اُولٰۤئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ اور یہ آیت نازل ہوئی وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ الآیۃ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابنِ زبعری نے اپنے معبودوں کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کی مثال بیان کی اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مجادلہ کیا کہ نصاریٰ انہیں پوجتے ہیں تو قریش اس کی اس بات پر ہنسنے لگے۔
۹۷ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہتر ہیں تو اگر (معاذ اﷲ) وہ جہنّم میں ہوئے تو ہمارے معبود یعنی بت بھی ہوا کریں کچھ پروا نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۹۸ یہ جانتے ہوئے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں باطل ہے اور آیۂ کریمہ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے صرف بت مراد ہیں، حضرت عیسیٰ و حضرت عزیر اور ملائکہ کوئی مراد نہیں لئے جا سکتے، ابنِ زبعری عربی تھا، عربی زبان کا جاننے والا تھا، یہ اس کو خوب معلوم تھا کہ ماتعبدون میں جو ما ہے اس کے معنیٰ چیز کے ہیں، اس سے غیرِ ذوی العقول مراد ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے اس کا زبانِ عرب کے اصول سے جاہل بن کر حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ملائکہ کو اس میں داخل کرنا کٹھ حجّتی اور جہل پروری ہے۔
۹۹ باطل کے درپے ہونے والے۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ارشاد فرمایا جاتا ہے۔
۱۰۱ اپنی قدرت کا کہ بغیر باپ کے پیدا کیا۔
۱۰۲ اے اہلِ مکّہ ہم تمہیں ہلاک کر دیتے اور۔
۱۰۳ جو ہماری عبادت و اطاعت کرتے۔
۱۰۴ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا علاماتِ قیامت میں سے ہے۔
۱۰۵ یعنی میری ہدایت و شریعت کا اتباع کرنا۔
۱۰۶ شریعت کے اتباع یا قیامت کے یقین یا دِینِ الٰہی پر قائم رہنے سے۔
۱۰۸ یعنی نبوّت اور انجیلی احکام۔
۱۱۰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلامِ مبارک تمام ہو چکا، آگے نصرانیوں کے شرکوں کا بیان فرمایا جاتا ہے۔
۱۱۱ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں سے کسی نے کہا کہ عیسیٰ خدا تھے،کسی نے کہا خدا کے بیٹے،کسی نے کہا، تین میں کے تیسرے، غرض نصرانی فرقے فرقے ہو گئے یعقوبی، نسطوری، ملکانی، شمعونی۔
۱۱۲ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کفر کی باتیں کہیں۔
۱۱۴ یعنی دینی دوستی اور وہ محبّت جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے باقی رہے گی۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے آپ نے فرمایا دو دوست مومن اور دو دوست کافر، مومن دوستوں میں ایک مر جاتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا اور مجھے برائی سے روکتا تھا اور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے، یارب اس کو میرے بعد گمراہ نہ کر اور اس کو ہدایت دے جیسی میری ہدایت فرمائی اور اس کا اکرام کر جیسا میرا اکرام فرمایا، جب اس کا مومن دوست مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے کہ یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے۔ اور دو کافر دوستوں میں سے جب ایک مر جاتا ہے تو دعا کرتا ہے، یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرماں برداری سے منع کرتا تھا اور بدی کا حکم دیتا تھا، نیکی سے روکتا تھا اور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا نہیں، تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ایک دوسرے کو کہتا ہے بُرا بھائی، بُرا دوست، بُرا رفیق۔
۱۱۵ یعنی جنّت میں تمہارا اکرام ہو گا، نعمتیں دی جائیں گی، ایسے خوش کئے جاؤ گے کہ تمہارے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوں گے۔
۱۱۷ جنّتی درخت ثمر دار، سدا بہار ہیں، ان کی زیب و زینت میں فرق نہیں آتا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی ان سے ایک پھل لے گا تو درخت میں اس کی جگہ دو پھل نمودار ہو جائیں گے۔
۱۱۹ رحمت کی امید بھی نہ ہو گی۔
۱۲۰ کہ سرکشی و نافرمانی کر کے اس حال کو پہنچے۔
۱۲۲ یعنی موت دے دے، مالک سے درخواست کریں گے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ان کی موت کی دعا کرے۔
۱۲۴ عذاب میں ہمیشہ کبھی اس سے رہائی نہ پاؤ گے، نہ موت سے اور نہ کسی طرح۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہلِ مکّہ سے خطاب فرماتا ہے۔
۱۲۷ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ مَکر کرنے اور فریب سے ایذا پہنچانے کا اور در حقیقت ایسا ہی تھا کہ قریش دارُ النّدوہ میں جمع ہو کر حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ایذا رسانی کے لئے حیلے سوچتے تھے۔
۱۲۸ ان کے اس مَکر و فریب کا بدلہ جس کا انجام ان کی ہلاکت ہے۔
۱۲۹ ہم ضرور سنتے ہیں اور پوشیدہ ظاہر ہر بات جانتے ہیں، ہم سے کچھ نہیں چھُپ سکتا۔
۱۳۰ لیکن اس کے بچّہ نہیں اور اس کے لئے اولاد محال ہے یہ نفیِ ولد میں مبالغہ ہے۔ شانِ نزول : نضر بن حارث نے کہا تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو نضر کہنے لگا دیکھتے ہو قرآن میں میری تصدیق آ گئی ولید نے کہا کہ تیری تصدیق نہیں ہوئی بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رحمٰن کے ولد نہیں ہے اور میں اہلِ مکّہ میں سے پہلا موحِّد ہوں، اس سے ولد کی نفی کرنے والا، اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی تنزیہ کا بیان ہے۔
۱۳۱ اور اس کے لئے اولاد قرار دیتے ہیں۔
۱۳۲ یعنی جس لغو و باطل میں ہیں اسی میں پڑے رہیں۔
۱۳۳ جس میں عذاب کئے جائیں گے اور وہ روزِ قیامت ہے۔
۱۳۴ یعنی وہی معبود ہے، آسمان و زمین میں اسی کی عبادت کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۱۳۶ اس کا کہ اللہ ان کا رب ہے، ایسے مقبول بندے ایمان داروں کی شفاعت کریں گے۔
۱۳۸ اور اللہ تعالیٰ کے خالقِ عالَم ہونے کا اقرار کریں گے۔
۱۳۹ اور باوجود اس اقرار کے اس کی توحید و عبادت سے پھرتے ہیں۔
۱۴۰ سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۱۴۱ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قولِ مبارک کی قَسم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اکرام اور حضور کی دعا و التجا کے احترام کا اظہار ہے۔
۱۴۳ یہ سلامِ متارکت ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم تمہیں چھوڑتے ہیں اور تم سے امن میں رہنا چاہتے ہیں، وَکَانَ ھٰذَا قَبْلُ الْاَمْرِبِالْجِہَادِ۔