۱ سورۂ دخان مکّی ہے، اس میں تین۳ رکوع اور ستاون۵۷ یا انسٹھ۵۹ آیتیں اور تین سو چھیالیس ۳۴۶کلمے اور ایک ہزار چار سو اکتیس ۱۴۳۱حرف ہیں۔
۲ یعنی قرآنِ پاک کی جو حلال و حرام وغیرہ احکام کا بیان فرمانے والا ہے۔
۳ اس رات سے یا شبِ قدر مراد ہے یا شبِ برأۃ۔ اس شب میں قرآنِ پاک بِتمامہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا، پھر وہاں سے حضرت جبرئیل بیس۲۰ سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے، اس شب کو شبِ مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآنِ پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس شب میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔
۵ سال بھر کے ارزاق و آجال و احکام۔
۶ اپنے رسول خاتمُ الانبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور ان سے پہلے انبیاء کو۔
۷ کہ وہ آسمان و زمین کا رب ہے تو یقین کرو کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کے رسول ہیں۔
۸ ان کا قرار علم و یقین سے نہیں بلکہ ان کی بات میں ہنسی اور تمسخر شامل ہے اور وہ آپ کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان پر دعا کی کہ یارب انہیں ایسی ہفت سالہ قحط کی مصیبت میں مبتلا کر جیسے سات سال کا قحط حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بھیجا تھا، یہ دعا مستجاب ہوئی اور حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ارشاد فرمایا گیا۔
۹ چنانچہ قریش پر قحط سالی آئی اور یہاں تک اس کی شدّت ہوئی کہ وہ لوگ مردار کھا گئے اور بھوک سے اس حال کو پہنچ گئے کہ جب اوپر کو نظر اٹھاتے، آسمان کی طرف دیکھتے تو ان کو دھواں ہی دھواں معلوم ہوتا یعنی ضعف سے نگاہوں میں خیر گی آ گئی تھی اور قحط سے زمین سے خشک ہو گئی، خاک اڑنے لگی، غبار نے ہوا کو مکدر کر دیا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دھوئیں سے مراد وہ دھواں ہے جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت ظاہر ہو گا، مشرق و مغرب اس سے بھر جائیں گے، چالیس روز و شب رہے گا، مومن کی حالت تو اس سے ایسی ہو جائے گی جیسے زکام ہو جائے اور کافر مدہوش ہوں گے، ان کے نتھنوں اور کانوں اور بدن کے سوراخوں سے دھواں نکلے گا۔
۱۰ اور تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تصدیق کرتے ہیں۔
۱۱ یعنی ایسی حالت میں وہ کیسے نصیحت مانیں گے۔
۱۲ اور معجزاتِ ظاہرات اور آیاتِ بیّنات پیش فرما چکا۔
۱۳ جس کو وحی کی غشی طاری ہونے کے وقت جنّات یہ کلمات تلقین کر جاتے ہیں۔ (معاذ اﷲ تعالیٰ)
۱۴ جس کفر میں تھے اسی کی طرف لوٹو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا، اب فرمایا جاتا ہے کہ ا س دن کو یاد کرو۔
۱۵ اس دن سے مراد روزِ قیامت ہے یا روزِ بدر۔
۱۶ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
۱۷ یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو اور جو شدّتیں اور سختیاں ان پر کرتے ہو اس سے رہائی دو۔
۱۸ اپنے صدقِ نبوّت و رسالت کی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا تو فرعونیوں نے آپ کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے تو آپ نے فرمایا۔
۱۹ یعنی میرا تو کّل و اعتماد اس پر ہے، مجھے تمہاری دھمکی کی کچھ پروا نہیں، اللہ تعالیٰ میرا بچانے والا ہے۔
۲۰ میری ایذا کے درپے نہ ہو، انہوں نے اس کو بھی نہ مانا۔
۲۲ یعنی فرعون مع اپنے لشکروں کے تمہارے درپے ہو گا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام روانہ ہوئے اور دریا پر پہنچ کر آپ نے عصا مارا، اس میں بارہ رستے خشک پیدا ہو گئے، آپ مع بنی اسرائیل کے دریا میں سے گزر گئے، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آ رہا تھا، آپ نے چاہا کہ پھر عصا مار کر دریا کو ملا دیں تاکہ فرعون اس میں سے گزر نہ سکے تو آپ کو حکم ہوا۔
۲۳ تاکہ فرعونی ان راستوں سے دریا میں داخل ہو جائیں۔
۲۴ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان ہو گیا اور فرعون اور اس کے لشکر دریا میں غرق ہو گئے اور ان کا تمام مال و متاع اور سامان یہیں رہ گیا۔
۲۷ یعنی بنی اسرائیل کو جو نہ ان کے ہم مذہب تھے، نہ رشتہ دار، نہ دوست۔
۲۸ کیونکہ وہ ایماندار نہ تھے اور ایماندار جب مرتا تو اس پر آسمان و زمین چالیس روز تک روتے ہیں، جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں ہے مجاہد سے کہا گیا کہ مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں، فرمایا زمین کیوں نہ روئے اس بندے پر جو زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا اور آسمان کیوں نہ روئے اس بندے پر جس کی تسبیح و تکبیر آسمان میں پہنچتی تھی۔ حسن کا قول ہے کہ مومن کی موت پر آسمان والے اور زمین والے روتے ہیں۔
۲۹ توبہ وغیرہ کے لئے عذاب میں گرفتار کرنے کے بعد۔
۳۰ یعنی غلامی اور شاقّہ خدمتوں اور محنتوں سے اور اولاد کے قتل کئے جانے سے جو انہیں پہنچتا تھا۔
۳۲ کہ ان کے لئے دریا میں خشک رستے بنائے، ابر کو سائبان کیا، من و سلویٰ اتارا، اس کے علاوہ اور نعمتیں دیں۔
۳۴ یعنی اس زندگانی کے بعد سوائے ایک موت کے ہمارے لئے اور کوئی حال باقی نہیں، اس سے ان کا مقصود بعث یعنی موت کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنا تھا جس کو اگلے جملے میں واضح کر دیا۔ (کبیر)
۳۶ اس بات میں کہ ہم بعد مرنے کے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے، کفّارِ مکّہ نے یہ سوال کیا تھا کہ قُصَیْ بِن کلاب کو زندہ کر دو، اگر موت کے بعد کسی کا زندہ ہونا ممکن ہو، اور یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ جس کام کے لئے وقت معیّن ہو اس کا اس وقت سے قبل وجود میں نہ آنا اس کے ناممکن ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اور نہ اس کا انکار صحیح ہوتا ہے، اگر کوئی شخص کسی نئے جمے ہوئے درخت یا پودے کو کہے کہ اس میں سے اب پھل نکالو ورنہ ہم نہیں مانیں گے کہ اس درخت سے پھل نکل سکتا ہے تو اس کو جاہل قرار دیا جائے گا اور اس کا انکار محض حُمُق یا مکابرہ ہو گا۔
۳۷ یعنی کفّارِ مکّہ زور و قوّت میں۔
۳۸ تُبَّع حمِیْری بادشاہِ یمن صاحبِ ایمان تھے اور ان کی قوم کافر تھی جو نہایت قوی، زور آور اور کثیرُ التعداد تھی۔
۴۲ اگر مرنے کے بعد اٹھنا اور حساب و ثواب نہ ہو تو خَلق کی پیدائش محض فنا کے لئے ہو گی اور یہ عبث و لعب ہے۔ تو اس دلیل سے ثابت ہوا کہ اس دنیوی زندگی کے بعد اخروی زندگی ضرور ہے جس میں حساب و جزا ہو۔
۴۳ کہ طاعت پر ثواب دیں اور معصیّت پر عذاب کریں۔
۴۴ کہ پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے اور حکیم کا فعل عبث نہیں ہوتا۔
۴۵ یعنی روزِ قیامت جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلہ فرمائے گا۔
۴۶ اور قرابت و محبّت نفع نہ دے گی۔
۴۸ یعنی سوائے مومنین کے، کہ وہ باذنِ الٰہی ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے۔ (جمل)
۴۹ تھوہڑ ایک خبیث، نہایت کڑوا درخت ہے جو اہلِ جہنّم کی خوراک ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر ایک قطرہ اس تھوہڑ کا دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو اہلِ دنیا کی زندگانی خراب ہو جائے۔
۵۰ ابوجہل کی اور اس کے ساتھیوں کی جو بڑے گنہگار ہیں۔
۵۱ جہنّم کے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ۔
۵۳ اور اس وقت دوزخی سے کہا جائے گا کہ۔
۵۵ ملائکہ یہ کلمہ اہانت اور تذلیل کے لئے کہیں گے کیونکہ ابوجہل کہا کرتا تھا کہ بطحاء میں میں بڑا عزّت والا کرم والا ہوں، اس کو عذاب کے وقت یہ طعنہ دیا جائے گا اور کفّار سے یہ بھی کہا جائے گا کہ۔
۵۷ اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اس کے بعد پرہیزگاروں کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔
۵۹ یعنی ریشم کے باریک و دبیز لباس۔
۶۰ کہ کسی کی پشت کسی کی طرف نہ ہو۔
۶۱ یعنی جنّت میں اپنے جنّتی خادموں کو میوے حاضر کرنے کا حکم دیں گے۔
۶۲ کہ کسی قِسم کا اندیشہ ہی نہ ہو گا، نہ میوے کے کم ہونے کا، نہ ختم ہو جانے کا، نہ ضرر کرنے کا، نہ اور کوئی۔
۶۶ اور نصیحت قبول کریں اور ایمان لائیں، لیکن لائیں گے نہیں۔