۱ سورۂ احقاف مکّیہ ہے، مگر بعض کے نزدیک اس کی چند آیتیں مدنی ہیں جیسے کہ آیت قُلْ اَرَاَیْتُمْ اور آیت فَاصْبِرْکَمَاصَبَرَ اور تین آیتیں وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اس سورت میں چار ۴رکوع اور پینتیس ۳۵ آیتیں اور چھ سو چوالیس ۶۴۴کلمے اور دو ہزار پانچ سو پچانوے ۲۵۹۵حرف ہیں۔
۳ کہ ہماری قدرت و وحدانیّت پر دلالت کریں۔
۴ وہ مقرر میعاد روزِ قیامت ہے جس کے آ جانے پر آسمان و زمین فنا ہو جائیں گے۔
۵ اس چیز سے مراد یا عذاب ہے یا روزِ قیامت کی وحشت یا قرآنِ پاک جو بعث و حساب کا خوف دلاتا ہے۔
۷ یعنی بت جنہیں معبود ٹھہراتے ہو۔
۸ جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے اتاری ہو، مراد یہ ہے کہ یہ کتاب یعنی قرآنِ مجید توحید اور ابطالِ شرک پر ناطق ہے اور جو کتاب بھی اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی اس میں یہی بیان ہے تم کُتُبِ ا لٰہیہ میں سے کوئی ایک کتاب تو ایسی لے آؤ جس میں تمہارے دِین(بت پرستی)کی شہادت ہو۔
۱۰ اپنے اس دعوے میں کہ خدا کا کوئی شریک ہے جس کی عبادت کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔
۱۴ اور کہیں گے کہ ہم نے انہیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی، درحقیقت یہ اپنی خواہشوں کے پرستار تھے۔
۱۶ یعنی قرآن شریف کو بغیر غور و فکر کئے اور اچھی طرح سنے۔
۱۷ کہ اس کے جادو ہونے میں شبہہ نہیں اور اس سے بھی بدتر بات کہتے ہیں، جس کا آ گے ذکر ہے۔
۱۸ یعنی سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے۔
۱۹ یعنی اگر بالفرض میں دل سے بناتا اور اس کو اللہ تعالیٰ کا کلام بتاتا تو وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہوتا اور اﷲ تبارک و تعالیٰ ایسے افتراء کرنے والے کو جلد عقوبت میں گرفتار کرتا ہے، تمہیں تو یہ قدرت نہیں کہ تم اس کی عقوبت سے بچا سکو یا اس کے عذاب کو دفع کر سکو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں تمہاری وجہ سے اﷲ تعالیٰ پر افتراء کرتا۔
۲۰ اور جو کچھ قرآنِ پاک کی نسبت کہتے ہو۔
۲۱ یعنی اگر تم کفر سے توبہ کر کے ایمان لاؤ تو اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے گا، اور تم پر رحمت کرے گا۔
۲۲ مجھ سے پہلے بھی رسول آ چکے ہیں تو تم کیوں نبوّت کا انکار کرتے ہو۔
۲۳ اس کے معنی میں مفسّرین کی چند قول ہیں، ایک تو یہ کہ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا ؟ وہ مجھے معلوم نہیں، یہ معنی ہوں تو یہ آیت منسوخ ہے، مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزّیٰ کی قَسم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کا یکساں حال ہے، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں، اگر یہ قرآن انکا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کا بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ ان کے ساتھ کیا کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے آیت لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ نازل فرمائی، صحابہ نے عرض کیا یا نبی اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم حضور کو مبارک ہو آپ کو تو معلوم ہو گیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا، یہ انتظار ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتھَِا الْاَنْھٰرُ اور یہ آیت نازل ہوئی بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ مِّنَ اﷲِ فَضْلاً کَبِیْراً تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ کیا کرے گا اور مومنین کے ساتھ کیا، دوسرا قول آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور کو اپنا بھی معلوم ہے، مومنین کا بھی، مکذّبین کا بھی، معنیٰ یہ ہیں کہ دنیا میں کیا کیا جائے گا ؟ یہ معلوم نہیں، اگر یہ معنیٰ لئے جائیں تو بھی آیت منسوخ ہے، اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو یہ بھی بتادیا لِیُظْہِرَہ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ اور مَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْب ہر حال اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امّت کے ساتھ پیش آنے والے امور پر مطلع فرمادیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر درایت بمعنیٰ ادراک بالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنیٰ میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مؤیِّد ہے، علامہ نیشا پوری نے اس آیت کے تحت میں فرمایا کہ اس میں نفی اپنی ذات سے جاننے کی ہے، من جہت الوحی جاننے کی نفی نہیں۔
۲۴ یعنی میں جو کچھ جانتا ہوں اﷲ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتا ہوں۔
۲۵ وہ حضرت عبداللہ بن سلام ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائے اور آپ کی صحتِ نبوّت کی شہادت دی۔
۲۶ کہ وہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
۲۷ اور ایمان سے محروم رہے تو اس کا نتیجہ کیا ہونا ہے۔
۲۸ یعنی دِینِ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں۔
۳۰ شانِ نزول : یہ آیت مشرکینِ مکّہ کے حق میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ اگر دِینِ محمّدی حق ہوتا تو فلاں و فلاں اس کو ہم سے پہلے کیسے قبول کر لیتے۔
۳۴ اﷲ تعالیٰ کی توحید اور سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شریعت پر دمِ آخر تک۔
۳۷ مسئلہ :اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اقل مدّتِ حمل چھ ماہ ہے کیونکہ جب دودھ چھڑانے کی مدّت دو سال ہوئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حَوْ لَیْنِ کَامِلَیْنِ تو حمل کے لئے چھ ماہ باقی رہے، یہی قول ہے امام ابو یوسف و امام محمّد رحمہما اﷲ تعالیٰ کا اور حضرت امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس آیت سے رضاع کی مدّت ڈھائی سال ثابت ہوتی ہے۔ مسئلہ کی تفاصیل مع دلائل کُتُبِ اصول میں مذکور ہیں۔
۳۸ اور عقل و قوّت مستحکم ہوئی اور یہ بات تیس سے چالیس سال تک کی عمر میں حاصل ہوتی ہے۔
۳۹ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی، آپ کی عمر سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے دو سال کم تھی، جب حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اٹھارہ سال کی ہوئی تو آپ نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صحبت اختیار کی، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عمر شریف بیس سال کی تھی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمراہی میں بغرضِ تجارت ملکِ شام کا سفر کیا، ایک منزل پر ٹھہرے، وہاں ایک بیری کا درخت تھا، حضور سیدِ عالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے، قریب ہی ایک راہب رہتا تھا، حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاس چلے گئے، راہب نے آپ سے کہا یہ کون صاحب ہیں جو اس بیری کے سایہ میں جلوہ فرما ہیں، حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)ا بنِ عبداللہ ہیں، عبدالمطلب کے پوتے، راہب نے کہا خدا کی قَسم یہ نبی ہیں، اس بیری کے سایہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے آج تک ان کے سوا کوئی نہیں بیٹھا، یہی نبی آخرُ الزّماں ہیں، راہب کی یہ بات حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں اثر کر گئی اور نبوّت کا یقین آپ کے دل میں جم گیا اور آپ نے صحبت شریف کی ملازمت اختیار کی، سفر و حضر میں آپ سے جدا نہ ہوتے، جب سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اپنی نبوّت و رسالت کے ساتھ سرفراز فرمایا تو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ پر ایمان لائے اس وقت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اڑتیس سال کی تھی، جب حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی۔
۴۰ کہ ہم سب کو ہدایت فرمائی اور اسلام سے مشرف کیا، حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام ابو قحافہ اور والدہ کا نام امّ الخیر ہے۔
۴۱ آپ کی یہ دعا بھی مستجاب ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حسنِ عمل کی وہ دولت عطا فرمائی کہ تمام امّت کے اعمال آپ کے ایک عمل کے برابر نہیں ہو سکتے، آپ کی نیکیوں میں سے ایک یہ ہے کہ نو مومن جو ایمان کی وجہ سے سخت ایذاؤں اور تکلیفوں میں مبتلا تھے ان کو آپ نے آزاد کیا، انہیں میں سے ہیں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ نے یہ دعا کی۔
۴۲ یہ دعا بھی مستجاب ہوئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں صلاح رکھی، آپ کی تمام اولاد مومن ہے اور ان میں حضرت امّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مرتبہ کس قدر بلند و بالا ہے کہ تمام عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے انہیں فضیلت دی ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدین بھی مسلمان اور آپ کے صاحبزادے محمّد اور عبداللہ اور عبدالرحمٰن اور آپ کی صاحبزادیاں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء اور آپ کے پوتے محمّد بن عبدالرحمٰن یہ سب مومن اور سب شرفِ صحابیّت سے مشرف صحابہ ہیں، آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کو یہ فضیلت حاصل ہو کہ اس کے والدین بھی صحابی ہوں، خود بھی صحابی، اولاد بھی صحابی، پوتے بھی صحابی، چار پشتیں شرفِ صحابیّت سے مشرّف۔
۴۳ ہر امر میں جس میں تیری رضا ہو۔
۴۶ دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی زبان مبارک سے۔
۴۷ مراد اس سے کوئی خاص شخص نہیں ہے بلکہ ہر کافر جو بعث کا منکِر ہو اور والدین کا نافرمان اور اس کے والدین اس کو دِینِ حق کی دعوت دیتے ہوں اور وہ انکار کرتا ہو۔
۴۸ ان میں سے کوئی مر کر زندہ نہ ہوا۔
۵۳ یعنی منازل و مراتب ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزِ قیامت جنّت کے درجات بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور جہنّم کے درجات پست ہوتے چلے جاتے ہیں تو جن کے عمل اچھے ہوں وہ جنّت کے اونچے درجے میں ہوں گے اور جو کفر و معصیّت میں انتہا کو پہنچ گئے ہوں وہ جہنّم کے سب سے نیچے درجے میں ہوں گے۔
۵۴ یعنی مومنوں اور کافروں کو فرمانبرداری اور نافرمانی کی پوری جزا دے۔
۵۵ یعنی لذّت و عیش جو تمہیں پانا تھا وہ سب دنیا میں تم نے ختم کر دیا، اب تمہارے لئے آخرت میں کچھ بھی باقی نہ رہا۔ اور بعض مفسّرین کا قول ہے کہ طیّبات سے قُوائے جسمانیہ اور جوانی مراد ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ تم نے اپنی جوانی اور اپنی قوّتوں کو دنیا کے اندر کفر و معصیّت میں خرچ کر دیا۔
۵۶ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیوی لذّات اختیار کرنے پر کفّار کو توبیخ فرمائی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور حضور کے اصحاب نے لذّاتِ دنیویہ سے کنارہ کشی اختیار فرمائی۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی وفات تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اہلِ بیت نے کبھی جَو کی روٹی بھی دو روز بَرابر نہ کھائی، یہ بھی حدیث میں ہے کہ پورا پور امہینہ گزر جاتا تھا دولت سرائے اقدس میں آگ نہ جلتی تھی، چند کھجوروں اور پانی پر گزر کی جاتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے کہ میں چاہتا تو تم سے اچھا کھانا کھاتا اور تم سے بہتر لباس پہنتا لیکن میں اپنا عیش و راحت اپنی آخر ت کے لئے باقی رکھنا چاہتا ہوں۔
۵۸ شرک سے۔ اور احقاف ایک ریگستانی وادی ہے جہاں قومِ عاد کے لوگ رہتے تھے۔
۶۰ اس بات میں کہ عذاب آنے والا ہے۔
۶۳ جو عذاب میں جلدی کرتے ہو اور عذاب کو جانتے نہیں ہو کہ کیا چیز ہے۔
۶۴ اور مدّتِ دراز سے ان کی سرزمین میں بارش نہ ہوئی تھی، اس کالے بادل کو دیکھ کر خوش ہوئے۔
۶۵ حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا۔
۶۶ چنانچہ اس آندھی کے عذاب نے ان کے مَردوں، عورتوں، چھوٹوں، بڑوں کو ہلاک کر دیا، ان کے اموال آسمان وز مین کے درمیان اڑتے پھرتے تھے، چیزیں پارہ پارہ ہو گئیں، حضر ت ہود علیہ السلام نے اپنے اور اپنے اوپر ایمان لانے والوں کے گرد ایک خط کھینچ دیا تھا ہوا، جب اس خط کے اندر آتی تو نہایت نرم، پاکیزہ، فرحت انگیز، سرد۔ اور وہی ہَوا قوم پر شدید، سخت، مہلِک، اور یہ حضرت ہود علیہ السلام کا ایک معجزۂ عظیمہ تھا۔
۶۷ اے اہلِ مکّہ وہ قوّت و مال اور طولِ عمر میں تم سے زیادہ تھے۔
۶۸ تاکہ دِین کے کام میں لائیں مگر انہوں نے سوائے دنیا کی طلب کے ان خدا داد نعمتوں سے دِین کا کام ہی نہیں لیا۔
۷۰ مثل ثمود و عاد و قومِ لوط کے۔
۷۱ کفرو طغیان سے لیکن وہ باز نہ آئے تو ہم نے انہیں ان کے کفر کے سبب ہلاک کر دیا۔
۷۳ اور جن کی نسبت یہ کہا کرتے تھے کہ ان بتوں کے پوجنے سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
۷۴ اور نزولِ عذاب کے وقت کام نہ آئے۔
۷۵ کہ وہ بتوں کو معبود کہتے ہیں اور بت پرستی کو قربِ الٰہی کا ذریعہ ٹھہراتے ہیں۔
۷۶ یعنی اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے آپ کی طرف جنّوں کی ایک جماعت کو بھیجا، اس جماعت کی تعداد میں اختلاف ہے، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ سات جن تھے جنہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان کی قوم کی طرف پیام رساں بنایا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ نو تھے علمائے محقّقین کا اس پر اتفاق ہے کہ جن سب کے سب مکلّف ہیں۔ اب ان جنّوں کا حال ارشاد ہوتا ہے کہ جب آپ نخلہ میں مکّہ مکرّمہ اور طائف کے درمیان مکّہ مکرّمہ کو آتے ہوئے اپنے اصحاب کے ساتھ نمازِ فجر پڑھ رہے تھے اس وقت جن۔
۷۷ تاکہ اچھی طرح حضرت کی قرأت سن لیں۔
۷۸ یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حکم سے اپنی قوم کی طرف ایمان کی دعوت دینے گئے اور انہیں ایمان نہ لانے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مخالفت سے ڈرایا۔
۸۰ عطاء نے کہا چونکہ وہ جن دِینِ یہودیّت پر تھے اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرتٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام نہ لیا۔ بعض مفسّرین نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام نہ لینے کا باعث یہ ہے کہ اس میں صرف مواعظ ہیں، احکام بہت ہی کم ہیں۔
۸۱ سیّدِ عالَم حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۸۲ جو اسلام سے پہلے ہوئے اور جن میں حق العباد نہیں۔
۸۳ اﷲ تعالیٰ سے کہیں بھاگ نہیں سکتا اور اس کے عذاب سے بچ نہیں سکتا۔
۸۵ جو اللہ تعالیٰ کے منادی حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بات نہ مانیں۔
۸۷ جس کے تم دنیا میں مرتکب ہوئے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے خطاب فرماتا ہے۔
۸۹ عذاب طلب کرنے میں، کیونکہ عذاب ان پر ضرور نازل ہونے والا ہے۔
۹۱ تو اس کی درازی اور دوام کے سامنے دنیا میں ٹھہرنے کی مدّت کو بہت قلیل سمجھیں گے اور خیال کریں گے کہ۔
۹۲ یعنی یہ قرآن اور وہ ہدایت و بیّنات جو اس میں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہے۔