۳۔۔۔ ۱: یعنی آسمان و زمین، اور یہ سب کارخانہ اللہ تعالیٰ نے بیکار نہیں بنایا۔ بلکہ کسی خاص غرض و مقصد کے لیے پیدا کیا ہے جو ایک معین میعاد اور ٹھہرے ہوئے وعدہ تک یوں ہی چلتا رہے گا تاآنکہ اس کا نتیجہ ظاہر ہو اسی کو آخرت کہتے ہیں۔
۲: یعنی برے انجام سے ڈرتے نہیں، اور آخرت کی تیاری نہیں کرتے۔ جب آخرت کی بات سنی ایک کان سنی دوسرے کان نکال دی۔
۴۔۔۔ ۱: یعنی خداوند قدوس نے تو آسمان و زمین اور کل مخلوقات بنائی کیا سچے دل سے کہہ سکتے ہو کہ زمین کا کوئی ٹکڑا یا آسمان کا کوئی حصہ کسی اور نے بھی بنایا ہے یا بنا سکتا ہے۔ پھر ان کو خدا کے ساتھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیوں پکارا جاتا ہے۔
۲: یعنی اگر اپنے دعوائے شرک میں سچے ہو تو کسی آسمانی کتاب کی سند لاؤ یا کسی ایسے علمی اصول سے ثابت کرو جو عقلاء کے نزدیک مسلم چلا آتا ہو جس چیز پر کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہ ہو آخر اسے کیونکر تسلیم کیا جائے۔
۵۔۔۔ یعنی اس سے بڑی حماقت اور گمراہی کیا ہو گی کہ خدا کو چھوڑ کر ایک ایسی بے جان یا بے اختیار مخلوق کو اپنی حاجت برآری کے لیے پکارا جائے جو اپنے مستقل اختیار سے کسی کو پکار کر نہیں پہنچ سکتی۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو پکارنے کی خبر بھی ہو۔ پتھر کی مورتیوں کا تو کہنا ہی کیا، فرشتے اور پیغمبر بھی وہ ہی بات سن سکتے اور وہ ہی کام کر سکتے ہیں جس کی اجازت اور قدرت حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔
۶۔۔۔ یعنی محشر میں جبکہ امداد و اعانت کی زیادہ حاجت ہو گی۔ یہ بیچارے معبود اپنے عابدین کی مدد تو کیا کر سکتے۔ ہاں دشمن بن کر ان کے مقابل کھڑے ہوں گے اور سخت بیزاری کا اظہار کریں گے بلکہ یہاں تک کہہ دیں گے کہ "مَاکَانُوْآ اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ" (قصص، رکوع۷'آیت ۶۳) یہ لوگ ہماری پرستش کرتے ہی نہ تھے اس وقت سوچو کیسی حسرت و ندامت کا سامنا ہو گا۔
۷۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو فی الحال انجام کی کچھ فکر نہیں کسی نصیحت و فہمائش پر کان نہیں دھرتے بلکہ جب قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اسے جادو کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔
۸۔۔۔ ۱: یعنی جادو کہنے سے زیادہ قبیح و شنیع ان کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن مجید آپ خود بنا لائے ہیں اور جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ العیاذ باللہ۔
۲: یعنی خدا پر جھوٹ لگانا انتہائی جرم ہے اگر بفرض محال میں ایسی جسارت کروں تو گویا جان بوجھ کر خود کو اللہ کے غضب اور اس کی سخت ترین سزا کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ بھلا خیال کرو جو شخص ساری عمر بندوں پر جھوٹ نہ لگائے اور ذرا ذرا سے معاملہ میں اللہ کے خوف سے کانپتا ہو، کیا وہ ایک دم بیٹھے بٹھائے اللہ پر جھوٹ طوفان باندھ کر اپنے کو ایسی عظیم ترین آفت و مصیبت میں پھنسائے گا۔ جس سے بچانے والی اور پناہ دینے والی کوئی طاقت دنیا میں موجود نہیں۔ اگر میں جھوٹ سچ بنا کر فرض کرو تمہیں اپنا تابع کرلوں تو کیا تم خدا کے غضب و قہر سے جو جھوٹے مدعیان نبوت پر ہوتا ہے، مجھ کو نجات دے سکو گے؟ اور جب اللہ مجھ کو برائی پہنچانا چاہے گا تم میرا کچھ بھلا کر سکو گے؟ آخر میرے چہل سالہ حالات و سوانح سے اتنا تو تم بھی جانتے ہو کہ میں اس قدر بے خوف اور بیباک نہیں ہوں اور نہ ایسا بے عقل ہوں کہ بعض انسانوں کو خوش کر کے خداوند قدوس کا غصہ مول لے لوں۔ بہرحال اگر میں معاذ اللہ کاذب و مفتری ہوں تو اس کا وبال مجھ پر پڑے گا۔
۳: یعنی جو باتیں تم نے شروع کر رکھی ہیں اللہ ان کو بھی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا لغو اور دور ازکار خیالات چھوڑ کر اپنے انجام کی فکر کرو۔ اگر خدا کے سچے رسول کو جھوٹا اور مفتری کہا تو سمجھ لو اس کا حشر کیا ہو گا۔ خدا پر میری اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے علم صحیح و محیط کے موافق ہر ایک کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ میں اسی کو اپنے اور تمہارے درمیان گواہ ٹھہراتا ہوں وہ اپنے قول و فعل سے بتلا رہا ہے اور آئندہ بتلا دے گا کہ کون حق پر ہے اور کون جھوٹ بول رہا، افتراء کر رہا ہے۔
۴: یعنی اب بھی باز آؤ تو بخشے جاؤ۔ اور یہ بھی اس کی مہربانی اور بردباری سمجھو کہ باوجود جرائم پر مطلع ہونے اور کامل قدرت رکھنے کے تم کو فوراً ہلاک نہیں کر دیتا۔
۹۔۔۔ ۱: یعنی میری باتوں سے اس قدر بدکتے کیوں ہو؟ میں کوئی انوکھی چیز لے کر تو نہیں آیا۔ مجھ سے پہلے بھی دنیا میں سلسلہ نبوت و رسالت کا جاری رہا ہے۔ وہ ہی میں کہتا ہوں کہ ان سب رسولوں کے بعد مجھ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے جس کی خبر پہلے رسول دیتے چلے آئے ہیں۔ اس حیثیت سے بھی یہ کوئی نئی بات نہ رہی۔ بلکہ بہت پرانی بشارات کا مصداق آج سامنے آگیا۔ پھر اس کے ماننے میں اشکال کیا ہے۔
۲: یعنی مجھے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ میرے کام کا آخری نتیجہ کیا ہونا ہے۔ میرے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرے گا اور تمہارے ساتھ کیا کرے گا۔ نہ میں اس وقت پوری پوری تفاصیل اپنے اور تمہارے انجام کے متعلق بتلا سکا ہوں کہ دنیا اور آخرت میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں گی۔ ہاں ایک بات کہتا ہوں کہ میرا کام صرف وحی الٰہی کا اتباع اور حکم خداوندی کا امتثال کرنا اور کفر و عصیان کے سخت خطرناک نتائج سے خوب کھول کر آگاہ کر دینا ہے۔ آگے چل کر دنیا یا آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا اس کی تمام تفصیلات فی الحال میں نہیں جانتا نہ اس بحث میں پڑنے سے مجھے کچھ مطلب۔ بندہ کا کام نتیجہ سے قطع نظر کر کے مالک کے احکام کی تعمیل کرنا ہے اور بس۔
۱۰۔۔۔ اس زمانہ میں عرب کے جاہل مشرک بنی اسرائیل کے علم و فضل سے مرعوب تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا چرچا ہوا تو مشرکین نے اس باب میں علمائے بنی اسرائیل کا عندیہ لینا چاہا۔ غرض یہ تھی کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کر دیں تو کہنے کو ایک بات ہاتھ آ جائے کہ دیکھو اہل علم اہل کتاب بھی ان کی باتوں کو جھوٹا کہتے ہیں۔ مگر اس مقصد میں مشرکین ہمیشہ ناکام رہے۔ خدا تعالیٰ نے ان ہی بنی اسرائیل کی زبانوں سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق و تائید کرائی۔ نہ صرف اتنی بات سے کہ وہ لوگ بھی قرآن کی طرح تورات کو آسمانی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح حضرت موسیٰ کو پیغمبر کہتے تھے اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دعوائے رسالت اور قران کی وحی کوئی انوکھی چیز نہیں رہتی بلکہ اس طرح کہ بعض علمائے یہود نے صریحاً اقرار کیا اور گواہی دی کہ بیشک ہمارے ہاں اس ملک (عرب) سے ایک عظیم الشان رسول اور کتاب کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور یہ رسول وہ ہی معلوم ہوتا ہے اور یہ کتاب اسی طرح کی ہے جس کی خبر دی گئی تھی۔ علمائے یہود کی یہ شہادتیں فی الحقیقت ان پیشین گوئیوں پر مبنی تھیں۔ جو باوجود ہزارہا تحریف و تبدل کے آج بھی تورات وغیرہ میں موجود چلی آتی ہیں۔ جن سے ہویدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا گواہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام) ہزاروں برس پہلے خود گواہی دے چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے اقارب اور بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے اسی کی مثل ایک رسول آنے والا ہے۔ "اِنَّا اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔" (المزمل، رکوع۱'آیت ۱۵) یہ ہی سبب تھا کہ بعض منصف و حق پرست احبار یہود مثلاً عبد اللہ بن سلام وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ دیکھتے ہی اسلام لے آئے اور بول اٹھے کہ "اِنَّ ہٰذَا الْوَجْہَ لَیْسَ بِوَجْہٍ کَاذِبٍ" (یہ چہرہ جھو ٹے کا چہرہ نہیں) انہوں نے قرآن جیسی واضح الاعجاز کتاب کے حق ہونے کی گواہی دے۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام ایک چیز پر وقوع سے ہزاروں برس پہلے ایمان رکھیں، علمائے یہود اس کے صدق کی گواہی دیں، بعض احبار یہود زبانی و قلبی شہادت دے کر مشرف با اسلام ہو جائیں، اور ان سب شہادتوں کے باوجود تم اپنی شیخی اور غرور سے اس کو قبول نہ کرو تو سمجھ لو اس سے بڑھ کر ظلم اور گناہ کیا ہو گا اور ایسے ظالم اور گنہگار کی نجات و فلاح کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔
۱۱۔۔۔ ۱: یعنی کمزور و ذلیل اور لونڈی غلام مسلمان ہوتے ہیں۔ اگر یہ دین بہتر ہوتا تو بہتر لوگ اس کی طرف جھپٹتے۔ کیا یہ چیز اچھی ہوتی تو اس کے حاصل کرنے میں ہم جیسے عقل مند اور عزت و دولت والے ان لونڈی غلاموں سے پیچھے رہ جاتے۔
۲: یعنی ہمیشہ کچھ لوگ ایسی باتیں بناتے چلے آئے ہیں۔ شاید یہ جواب ہو گا "وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْم بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ" اور "مَاکُنْتَ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل" کا۔
۱۲۔۔۔ یعنی یہ پرانا جھوٹ نہیں، بلکہ بہت پرانا سچ ہے۔ نزول قرآن سے سینکڑوں برس پہلے تورات نے بھی اصولی تعلیم یہ ہی دی تھی جس کی انبیاء و اولیاء اقتداء کرتے رہے۔ اور اس نے پیچھے آنے والی نسلوں کے لیے اپنی تعلیمات و بشارات سے راستہ و ہدایت کی راہ ڈال دی اور رحمت کے دروازے کھول دیے اب قرآن اترا تو اس کو سچا ثابت کرتا ہوا۔ غرض دونوں کتابیں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں اور یہ ہی حال دوسری کتب سماویہ کا ہے۔
۱۳۔۔۔ اس طرح کی آیت "حٰم السجدہ" میں چوبیسویں پارہ میں گزر چکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لیے جائیں۔
۱۴۔۔۔ یعنی اپنے نیک کاموں کے سبب حق تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ بہشت میں رہیں گے۔
۱۵۔۔۔ ۱: قرآن میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ماں باپ کا حق بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ موجد حقیقی تو اللہ ہے لیکن عالم اسباب میں والدین اولاد کے وجود کا سبب ظاہری اور حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا مظہر خاص بنتے ہیں۔ یہاں بھی پہلے "اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اَسْتَقَامُوْا۔" میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کا ذکر تھا۔ اب والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے، ان کی تعظیم و محبت اور خدمت گزاری کو اپنی سعادت سمجھے۔ دوسری جگہ بتلایا ہے کہ اگر والدین مشرک ہوں تب بھی ان کے ساتھ دنیا میں معاملہ اچھا رکھنا چاہیے۔ خصوصاً ماں کی خدمت گزاری کے بعض وجوہ سے اس کا حق باپ سے بھی فائق ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر دال ہیں۔
۲: یعنی حمل جب کئی مہینہ کا ہو جاتا ہے اس کا ثقل محسوس ہونے لگتا ہے اس حالت میں اور تولد کے وقت ماں کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔ پھر دودھ پلاتی اور برسوں تک اس کی ہر طرح نگہداشت رکھتی ہے۔ اپنی آسائش و راحت کو اس کی آسائش و راحت پر قربان کر دیتی ہے۔ باپ بھی بڑی حد تک ان تکلیفوں میں شریک رہتا اور سامانِ تربیت فراہم کرتا ہے۔ بیشک یہ سب کام فطرت کے تقاضے سے ہوتے ہیں۔ مگر اسی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کی شفقت و محبت کو محسوس اور ان کی محنت و ایثار کی قدر کرے۔ (تنبیہ) حدیث میں ماں کی خدمت گزاری کا تین مرتبہ حکم فرما کر باپ کی خدمت گزاری کا ایک مرتبہ حکم فرمایا ہے۔ لطف یہ ہے کہ آیہ ہذا میں والد کا ذکر صرف ایک مرتبہ لفظ "والدیہ" میں ہوا۔ اور والدہ کا تین مرتبہ ذکر لفظ "وَالدَیْہِ"میں، پھر "حَمَلَتْہُ اُمُّہُ" میں، پھر "وَضَعَتْہُ " میں۔
۳: شاید یہ بطور عادت اکثریہ کے فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "لڑکا اگر قوی ہو تو اکیس مہینہ میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے ہیں حمل کے۔" یا یوں کہو کہ کم از کم مدتِ حمل چھ مہینے ہیں اور دو برس میں عموماً بچوں کا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے اس طرح کل مدت تیس مہینے ہوئے۔ مدت رضاع کا اس سے زائد ہونا نہایت قلیل و نادر ہے۔
۴: چالیس برس کی عمر میں عموماً انسان کی عقلی اور اخلاقی قوتیں پختہ ہو جاتی ہیں اسی لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت چالیس برس سے پہلے نہ ہوتی تھی۔
۵: یعنی سعادت مند آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جو احسانات اللہ تعالیٰ کے اس پر اور اس کے ماں باپ پر ہو چکے ان کا شکر ادا کرنے اور آئندہ نیک عمل کرنے کی توفیق خدا سے چاہے اور اپنی اولاد کے حق میں بھی نیکی کی دعا مانگے۔ جو کوتاہی حقوق اللہ یا حقوق العباد میں رہ گئی ہو، اس سے توبہ کرے اور ازراہِ تواضع و بندگی اپنی مخلصانہ عبودیت و فرمانبرداری کا اعتراف کرے۔ (تنبیہ) صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، بڑے ہی خوش قسمت تھے کہ خود ان کو، ان کے ماں باپ کو اور اولاد کو ایمان کے ساتھ صحبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا شرف میسر ہوا۔ دیگر صحابہ میں یہ خصوصیت کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
۱۶۔۔۔ یعنی ایسے بندوں کی نیکیاں قبول اور کوتاہیاں معاف ہوتی ہیں۔ اور ان کا مقام اللہ کے سچے وعدہ کے موافق جنت میں ہے۔
۱۷۔۔۔ ۱: سعات مند اولاد کے مقابلہ میں یہ بے ادب، نافرمان، اور نالائق اولاد کا ذکر فرمایا کہ ماں باپ اس کو ایمان کی بات سمجھاتے ہیں، وہ نہیں سمجھتا نہایت گستاخانہ خطاب کر کے ایذاء پہنچاتا ہے۔
۲: یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی دھمکیوں سے میں نہیں ڈرتا۔ بھلا کتنی قومیں اور جماعتیں مجھ سے پہلے گزر چکی ہیں۔ کوئی شخص بھی ان میں سے اب تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس آیا؟ لوگ ہمیشہ سے یونہی سنتے چلے آتے ہیں مگر آج تک تو اس خبر کا تحقق ہوا نہیں۔ پھر میں کیونکر اعتبار کر لوں ۔
۳: یعنی اس کی گستاخیوں پر ایک طرف اللہ سے فریاد کرتے اور دعا مانگتے ہیں کہ اسے قبولِ حق کو توفیق ملے اور دوسری طرف اس کو سمجھاتے ہیں کہ کم بخت تیرا ستیاناس! اب بھی باز آ جا! دیکھ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے بعث بعد الموت کی جو خبر اس نے دی ہے ضرور اپنے وقت پر پوری ہو کر رہے گی۔ اس وقت تیرا یہ انکار رنگ لائے گا۔
۴: یعنی ایسی کہانیاں بہت سنی ہیں۔ پرانے وقتوں کے قصے اسی طرح مشہور ہو جاتے ہیں اور واقع میں ان کا مصداق کچھ نہیں ہوتا۔
۱۸۔۔۔ ۱: "عذاب کی بات" وہ ہی ہے۔ "لَاَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔" (السجدہ، رکوع۲'آیت ۱۳) یعنی جس طرح بہت سی جماعتیں جنوں اور آدمیوں کی ان سے پہلے جہنم کی مستحق ہو چکی ہیں، یہ بدبخت بھی ان ہی میں شامل ہیں۔
۲: اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر آدمی کے دل میں فطری طور پر جو بیج ایمان و سعادت کا بکھیرا تھا وہ بھی ان بدبختوں نے ضائع کر دیا۔ اس سے زیادہ ٹوٹا اور خسارہ کیا ہو گا کہ کوئی شخص تجارت میں بجائے منافع حاصل کرنے کے راس المال کو بھی اپنی غفلت اور حماقت سے ضائع کر بیٹھے۔
۱۹۔۔۔ ۱: یعنی اعمال کے تفاوت کی وجہ سے اہل جنت کے کئی درجے ہیں اور اسی طرح اہل دوزخ کے بھی۔
۲: نہ کسی نیکی کا ثواب کم کیا جائے گا نہ کسی جرم کی سزا حد مناسب سے زائد کی جائے گی۔
۲۰۔۔۔ ۱: کافر کے کسی نیک کام میں ایمان کی روح نہیں ہوتی۔ محض صورت اور ڈھانچہ نیکی کا ہوتا ہے۔ ایسی فانی نیکیوں کا اجر بھی فانی ہے جو اسی زندگی میں مال، اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں مل جاتا ہے۔ اس کو فرمایا کہ تم اپنی صوری نیکیوں کے مزے دنیا میں لے چکے اور وہاں کی لذتوں سے تمتع کر چکے۔ جو عیش و آرام ایمان لانے کی تقدیر پر آخرت میں ملتا، گویا اس کی جگہ بھی دنیا میں مزے اڑا لیے۔ اب یہاں کے عیش میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جن لوگوں نے آخرت نہ چاہی فقط دنیا ہی چاہی ان کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں مل چکا۔
۲: یعنی آج تمہاری جھوٹی شیخی اور نافرمانیوں کی سزا میں ذلیل و رسوا کرنے والا عذاب دیا جائے گا۔ یہ ہی ایک چیز تمہارے لیے یہاں باقی ہے آگے بعض زور آور اور متکبر قوموں کا حال بیان فرماتے ہیں کہ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ان کا انجام کیا ہوا۔
۲۱۔۔۔ ۱: یعنی ہود علیہ السلام جو "عاد" کے قومی بھائی تھے۔
۲: مؤلف "ارض القرآن"، "بلاد الاحقاف" کے تحت میں لکھتا ہے "یمامہ، عمان، بحرین، حضر موت اور مغربی یمن کے بیچ میں جو صحرائے اعظم "الدہنا۔" یا "ربع خالی" کے نام سے واقع ہے گو وہ آبادی کے قابل نہیں، لیکن اس کے اطراف میں کہیں کہیں آبادی کے لائق تھوڑی تھوڑی زمین ہے خصوصاً اس حصہ میں جو حضر موت سے نجران تک پھیلا ہوا ہے۔ گو اس وقت وہ بھی آباد نہیں تاہم عہد قدیم میں اسی حضر موت اور نجران کے درمیان حصہ میں "عادِارم" کا مشہور قبیلہ آباد تھا جس کو خدا نے اس کی نافرمانی کی پاداش میں نیست و نابود کر دیا۔"
۳: یعنی ہود علیہ السلام سے پہلے اور پیچھے بہت ڈرانے والے آئے۔ سب نے وہ ہی کہا جو حضرت ہود علیہ السلام نے کہا تھا یعنی ایک خدا کی بندگی کرو اور کفرو معصیت کے برے انجام سے ڈرو۔ ممکن ہے قوم عاد میں بھی حضرت ہود علیہ السلام کے علاوہ اور نذیر آئے ہوں۔ واللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
۲۲۔۔۔ یعنی ہم اپنے آبائی طریقہ سے ہٹنے والے نہیں۔ اگر تو اپنی دھمکیوں میں سچا ہے تو دیر کیا ہے۔ جو زبان سے کہتا ہے، کر کے دکھلا دے۔
۲۳۔۔۔ یعنی اس قسم کا مطالبہ کرنا تمہاری نادانی اور جہالت ہے۔ میں خدا کا پیغمبر ہوں جو پیام میرے ہاتھ بھیجا گیا وہ پہنچا رہا ہوں۔ اس سے زائد کا نہ مجھے علم نہ اختیار۔ یہ علم خدا ہی کو ہے کہ منکر قوم کس وقت دنیاوی سزا کی مستوجب ہوتی ہے اور کس وقت تک اسے مہلت ملنی چاہیے۔
۲۴۔۔۔ ۱: یعنی سامنے سے بادل اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ سمجھے کہ سب ندی نالے بھر جائیں گے۔ کہنے لگے کہ بہت برساؤ گھٹا اٹھی ہے اب کام بن جائے گا۔ اس وقت طویل خشک سالی کی وجہ سے پانی کی بہت ضرورت تھی۔
۲: یعنی یہ برساؤ بادل نہیں بلکہ عذاب الٰہی کی آندھی ہے وہ ہی جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔
۲۵۔۔۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل ہوا کا وہ غضب ناک طوفان چلا جس کے سامنے درخت، آدمی اور جانوروں کی حقیقت تنکوں سے زیادہ نہ تھی۔ ہر چیز ہوا نے اکھاڑ پھینکی اور چاروں طرف تباہی نازل ہو گئی۔ آخر مکانوں کے کھنڈرات کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ دیکھ لیا! اللہ کے مجرموں کا حال یہ ہوتا ہے۔ چاہیے کہ ان واقعات کو سن کر ہوش میں آؤ۔ ورنہ تمہارا بھی یہ ہی حال ہو سکتا ہے۔
۲۶۔۔۔ ۱: یعنی مال، اولاد، جتھے، اور جسمانی طاقت جو ان کو دی گئی تھی، تم کو نہیں دی گئی۔ مگر جب عذاب آیا، کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر تم کس بات پر مغرور ہو۔
۲: یعنی نصیحت سننے کے لیے کان اور قدرت کی نشانیاں دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سمجھنے بوجھنے کے لیے دل دیے گئے تھے۔ پر وہ کسی قوت کو کام میں نہ لائے۔ اندھے، بہرے اور پاگل بن کر پیغمبروں کے مقابل ہو گئے۔ آخر انجام یہ ہوا کہ یہ قوتیں سب موجود ہیں اور عذاب الٰہی نے آ گھیرا۔ کوئی اندرونی یا بیرونی قوت اس کو دفع نہ کر سکی۔
۳: یعنی جس عذاب کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ ان پر واقع ہوا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ان کو دل اور کان اور آنکھ دی تھی۔ یعنی دنیا کے کام میں عقلمند تھے۔ وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت بھی درست ہو۔
۲۷۔۔۔ ۱: یعنی "عاد" کے سوا "قوم ثمود" اور "قوم لوط" وغیرہ کی بستیاں بھی اسی طرح تباہ کی جا چکی ہیں۔ جو تمہارے آس پاس واقع تھیں۔ یہ مکہ والوں کو فرمایا کیونکہ سفروں میں ان کا گزر ان مقامات کی طرف ہوتا تھا۔
۲: مگر اتنا سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آئے۔
۲۸۔۔۔ ۱: یعنی جن بتوں کی نسبت کہا کرتے تھے کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دیں اور بڑے بڑے درجے دلائیں وہ اس آڑے وقت میں کیوں کام نہ آئے۔ اب ذرا ان کو بلایا ہوتا۔
۲: یعنی آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ نہ عذاب کے وقت ان کو پکارا جاتا ہے آخر وہ گئے کہاں جو ایسی مصیبت میں بھی کام نہیں آتے۔
۳: یعنی ظاہر ہوا کہ بتوں کو خدا بنانا اور ان سے امیدیں قائم کرنا، محض جھوٹی اور من گھڑت باتیں تھیں۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے پھر وہ چلے کیسے۔ (ربط) اوپر کی آیات میں انسانوں کے تمرد وسرکشی کی داستان تھی۔ آگے اس کے مقابل جنوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا حال سناتے ہیں۔ تاکہ معلوم ہو کہ جو قوم طبعی طور پر سخت متمرد اور سرکش واقع ہوئی ہے اس کے بعض افراد کس طرح اللہ کا کلام سن کر موم ہو جاتے ہیں۔
۲۹۔۔۔ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل جنوں کو کچھ آسمانی خبریں معلوم ہو جاتی تھیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنا شروع ہوئی وہ سلسلہ تقریباً بند ہو گیا اور بہت کثرت سے شہاب کی مار پڑنے لگی۔ جنوں کو خیال ہوا کہ ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آسمانی خبروں پر بہت سخت پہرے بٹھلائے گئے ہیں۔ اسی کی جستجو کے لیے جنوں کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل پڑے۔ ان میں سے ایک جماعت " بطن نخلہ" کی طرف گزری۔ وہاں اتفاق سے اس وقت حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ نماز فجر ادا کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کی اس ٹکڑی کا رخ قرآن سننے کے لیے ادھر پھیر دیا۔ قرآن کی آواز انہیں بہت عجیب اور موثر و دلکش معلوم ہوئی اور اس کی عظمت وہیبت دلوں پر چھا گئی۔ آپس میں کہنے لگے کہ چپ رہو اور خاموشی کے ساتھ یہ کلام پاک سنو۔ آخر قرآن کریم نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ ہی نئی چیز ہے جس نے جنوں کو آسمانی خبروں سے روکا ہے۔ بہرحال جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پڑھ کر فارغ ہوئے، یہ لوگ اپنے دلوں میں ایمان و ایقان لے کر واپس گئے اور اپنی قوم کو نصیحت کی۔ ان کی مفصل باتیں سورہ "جن" میں آئیں گی۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے آنے جانے اور سننے سنانے کا پتہ نہیں لگا۔ ایک درخت نے باذن اللہ کچھ اجمالی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی اور مفصل حال اس کے بعد وحی کے ذریعہ سے معلوم کرایا گیا۔ کما قال تعالیٰ "قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ" الخ (جن، رکوع۱'آیت ۱) بعدہٗ بہت بڑی تعداد میں جن مسلمان ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کرنے اور دین سیکھنے کے لیے ان کے وفود حاضر خدمت ہوئے۔ خفاجی نے روایات کی بناء پر دعویٰ کیا ہے کہ چھ مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنوں سے ملاقات کی۔ اس لیے روایات میں جو اختلاف ان کے عدد یا دوسرے امور کے متعلق معلوم ہوتا ہے اس کو تعددِ وقائع پر حمل کرنا چاہیے۔
۳۰۔۔۔ ۱: کتب سابقہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب (تورات) کے برابر کوئی کتاب احکام و شرائع کو حاوی نہیں تھی۔ اسی پر انبیائے بنی اسرائیل کا عمل رہا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہ ہی فرمایا کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کے لیے آیا ہوں۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت سے جنوں میں تورات ہی مشہور چلی آتی تھی۔ اس لیے اس موقع پر انہوں نے اسی کی طرف اشارہ کیا۔ خود تورات میں بھی جو پیشین گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آئی ہے اس کے لفظ یہ ہیں کہ (اے موسیٰ) "تیری مانند ایک نبی اٹھاؤں گا۔
۲: شاید اس وقت قرآن کا جو حصہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت فرمایا تھا اس میں ایسا مضمون آیا ہو گا۔ یا قرائن سے سمجھے ہوں۔
۳: یعنی سچے عقیدے اور عمل کا سیدھا راستہ۔
۳۱۔۔۔ ۱: یعنی اس کی بات مانو جو اللہ کی طرف بلا رہا ہے اور اس کی رسالت پر یقین کرو۔
۲: یعنی جو گناہ حالت کفر میں کر چکے ہو، اسلام کی برکت سے سب معاف ہو جائیں گے۔ آئندہ سے نیا کھاتہ شروع ہو گا۔ لیکن یاد رہے کہ یہاں ذنوب کا ذکر ہے۔ حقوق العباد کا معاف ہونا اس سے نہیں نکلتا۔
۳۲۔۔۔ یعنی نہ خود بھاگ کر خدا کی مار سے بچ سکے نہ کوئی دوسرا بچا سکے حضرت شاہ صاحب "فی الارض" کی قید پر لکھتے ہیں کہ "(شیاطین کو) اوپر سے فرشتے مارتے ہیں تو زمین ہی کو بھاگتے ہیں۔
۳۳۔۔۔ ۱: اس لفظ میں "یہود" کے عقیدے کا رد ہے جو کہتے تھے کہ چھ دن میں اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے۔ "ثم استراح" (پھر ساتویں دن آرام کرنے لگا) العیاذ باللہ۔
۲: یعنی بڑا عذاب مرنے کے بعد ہو گا اور اس دھوکا میں نہ رہیں کہ مر کر کہاں زندہ ہوتے ہیں۔ اللہ کو یہ کچھ مشکل نہیں۔ جو آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے نہ تھکا، اس کو تمہارا دوبارہ پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔
۳۴۔۔۔ ۱: یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ دوزخ کا وجود اس کا عذاب کیا واقعی چیز نہیں؟آخر سب ذلیل ہو کر اقرار کریں گے کہ بیشک واقعی ہے۔ (ہم غلطی پر تھے جو اس کا انکار کیا کرتے تھے)
۲: یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ اچھا اب اس انکار و تکذیب کا مزہ چکھتے رہو۔
۳۵۔۔۔ ۱: یعنی جب معلوم ہو چکا کہ منکرین کو سزا ضرور ملتی ہے۔ آخرت میں ملے یا دنیا میں بھی تو آپ ان کے معاملہ میں جلدی نہ کریں۔ بلکہ ایک میعادِ معین تک صبر کرتے رہیں جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔ (تنبیہ) بعض سلف نے کہا کہ سب رسول اولوالعزم (ہمت والے) ہیں اور عرف میں پانچ پیغمبر خصوصی طور پر اولوالعزم کہلاتے ہیں۔ حضرت نوح علیہا لسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم۔
۲: "ڈھیل نہ پائی تھی" دنیا میں یعنی اب تو دیر سمجھتے ہیں کہ عذاب جلد کیوں نہیں آتا۔ اس دن جانیں گے کہ بہت شتاب آیا۔ دنیا میں ہم ایک ہی گھڑی رہے۔ یا عالم قبر کا رہنا ایک گھڑی معلوم ہو گا۔ قاعدہ ہے کہ گزری ہوئی مدت تھوڑی معلوم ہوا کرتی ہے۔ خصوصاً سختی اور مصیبت کے وقت عیش و آرام کا زمانہ بہت کم نظر آنے لگتا ہے۔
۳: یعنی ہم نے نصیحت کی بات پہنچا دی اور سب نیک و بد سمجھا دیا۔ اب جو نہ مانیں گے وہ ہی تباہ و برباد ہوں گے۔ ہماری طرف سے حجت تمام ہو چکی اور کسی کو بے قصور ہم نہیں پکڑتے اسی کو غارت کرتے ہیں جو غارت ہونے ہی پر کمر باندھ لے۔ تم سورۃ الاحقاف بفضل اللہ وحسن توفیقہ۔ وللہ الحمد والمنۃ۔