یہ طوال مفصل میں پہلی سورت ہے حجرات سے نازعات تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں بعض نے سورہ ق کو پہلی سورت قرار دیا ہے ابن کثیر و فتح القدیر۔ ان کا فجر کی نماز میں پڑھنا مسنون ومستحب ہے اور عبس سے سورۃ الشمس تک اوساط مفصل اور سورہ ضحی سے والناس تک قصار مفصل ہیں ظہر اور عشاء میں اوساط اور مغرب میں قصار پڑھنی مستحب ہیں (ایسر التفاسیر)
١۔ اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
۲۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہاے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورۃ الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے۔
٣۔ اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔
٤۔ یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں ) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد ٨٤۔٣١٨) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بے عقل ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بے عقلی ہے۔
٥۔ (۱) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔
۵۔ (۲) اس لیے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب و تعظیم کی تاکید بیان فرما دی۔
٦۔ (۲) یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلظ تھی اور ولید رضی اللہ عنہ تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لیے اسے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے ہر فرد اور ہر حکومت سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلظ فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔
۷۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کر دیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ولو اتبع الحق اھوا ھم لفسدت السموات والارض ومن فیھن۔ المومنون۔
٨۔ یہ آیت میں بھی صحابہ کرام کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد و ہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے ولو کرہ الکافرون۔
٩۔ (۱) اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔
۹۔ (۲) یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہو جائے۔
۹۔ (۳) یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آ جائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔
۱۰۔ (۱) یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرے کے دست و باز و ہمدرد وغم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کر کے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے مزید دیکھئے سورہ توبہ آیت ۱۷
١٠۔ (۲) اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان و تقویٰ کے لئے یقینی ہے۔
۱۱۔ (۱) ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہےالکبر بطر الحق وغمط الناس اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔
١١۔ (۲) یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔
۱۱۔ (۳) یعنی اپنے طور پر استہزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے
۱۱۔(۴) یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلاً اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے الاسم یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان فتح القدیر۔ البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے وغیرہ۔ القرطبی۔
۱۲۔ (۱) ظن کے معنی ہیں گمان کرنا مطلب ہے کہ اہل خیر و اہل اصلاح و تقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت و افترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لیے اس کا ترجمہ بد گمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو اکذب الحدیث سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ایاکم والظن البخاری کتاب الادب باب یا ایھاالذین امنو اجتنبو امنو اجتنبوا کثیرا من الظن صحیح مسلم ورنہ فسق و فجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بد گمانی رکھنا یہ وہ بد گمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔ ان الظن القبیح بمن ظاہرہ الخیر لا یجوز وانہ لا حرج فی الظن القبیح بمن ظاہرہ القبیح۔ القرطبی۔
۱۲۔ (۲) یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی کوتاہی تمہارے علم میں آ جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو بلکہ جستجو کر کے عیب تلاش کرو آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک جب تک وہ کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہ ہو مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن و سکون برباد ہو گیا ہے۔
۱۲۔ (۳) غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور گناہوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔
١٢۔(۴) یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔
۱۳۔ (۱) یعنی آدم و حوا علیہما السلام سے یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی مان باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم علیہ السلام سے ہی جا کر ملتا ہے۔
۱۳۔ (۲) شعوب شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کر سکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بد قسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔
۱۳۔ (۳) یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفایت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر۔
۱٤۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لیے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سے اسلام کا اظہار کیا تھا ان کے دل ایمان اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثیر کے نزدیک ان سے وہ اعراب مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا لیکن دعوی انہوں نے اپنی اصل حیثیت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعوی صحیح نہیں آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔
١٥۔ نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کر دیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔
١٦۔ (۱) تعلیم، یہاں علم اور اخبار کے معنی میں ہے یعنی آمَنَّا کہہ کر تم اللہ کو اپنے دین و ایمان سے آگاہ کر رہے ہو؟ یا اپنے دلوں کی کیفیت اللہ کو بتلا رہے ہو
١٦۔ (۲) تو کیا تمہارے دلوں کی کیفیت پر یا تمہارے ایمان کی حقیقت سے وہ آگاہ نہیں۔
١٧۔ یہی اعراب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے کہ دیکھو ہم مسلمان ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کی، جبکہ دوسرے عرب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے برسر پیکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرماتے ہوئے فرمایا، تم اللہ پر اسلام لانے کا احسان مت جتلاؤ اس لئے کہ اگر تم اخلاص سے مسلمان ہوئے ہو تو اس کا فائدہ تمہیں ہو گا، نہ کہ اللہ کو۔ اس لئے یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی نہ کہ تمہارا احسان اللہ پر ہے۔