آیت ۴ کے فقرے ان الذین ینا دونک من ورآء الحجرات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لفظ الحجرات آیا ہے۔
یہ بات روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور سورت کے مضامین بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سورت مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجموعہ ہے جنہیں مضمون کی مناسبت سے یکجا کر دیا گیا ہے۔ علاوہ بریں روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اکثر احکام مدینہ طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئے ہیں۔ مثلاً آیت ۴ کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ بنی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کے وفد نے آ کر ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پکارنا شروع کر دیا تھا، اور تمام کتب سیرت میں اس وفد کی آمد کا زمانہ ۹ھ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح آیت ۶ کے متعلق حدیث کی بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی المصطلق سے زکوٰۃ وصول کر کے لانے کے لیے بھیجا تھا اور یہ بات معلوم ہے کہ ولید بن عقبہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔
اس سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں اللہ اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گزرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا، بد گمانیاں کرنا، دوسرے کے حالات کی کھوج کرید کرنا، لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا، یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملاً فرمانبردار بن کر رہنا، اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیا میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے، معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔
۱۔ یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر اقدام رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے لانے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے ’’ پیش قدمی نہ کرو‘‘، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہی۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت ۳۶ سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیشقدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔
یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم ’’کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ کے مطابق‘‘۔ آپؐ پوچھا ’’ اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ سنت رسول اللہ کیا طرف ’’ آپ نے فرمایا ’’ اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’پھر میں خود اجتہاد کروں گا‘‘۔ اس پر حضورؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ‘‘۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ علیہ و سلم کی سنت۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا افراد امت کا قیاس و اجتہاد۔
۲۔ یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کو روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔
۳۔ یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضورؐ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایا فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔
یہ ادب اگر چہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضورؐ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بین کی جائیں۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، در اصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔
۴۔ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسولؐ کی عظمت کا کیا مقام ہے۔ رسول پاکؐ کے سوا کوئی شخص، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو، بہر حال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے، خلاف تہذیب حرکت ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کا احترام در اصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔
۵۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ارشاد سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسولؐ کے احترام سے خالی ہے وہ در حقیقت تقویٰ سے خالی ہے، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بد تہذیبی نہیں ہے۔ بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔
۶۔ حضورؐ کے عہد مبارک میں جن لوگوں جے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بار ہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آ دھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آ جائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپؐ کو پکارتے پھرتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں۔
۷۔ یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں۔
۸۔ اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلِق جب مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ولید بن عقبہ کو بھیجا تا کہ ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر لائیں۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کر دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضور یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کریں بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے وہ دستہ روانہ کر دیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ روانہ کرنے والے تھے۔ بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار (ام المومنین حضرت جویریہ کے والد) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکوٰۃ سے ہمیں ہر گز انکار نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس قصے کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس، حارث بن ضرار، مجاہد، قتادہ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ، یزید بن رومان، ضحاک اور مقاتل بن حیان سے نقل کیا ہے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت میں یہ پورا قصہ بیان تو اسی طرح ہوا ہے مگر اس میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے۔
اس نازک موقع پر جب کہ ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال ی بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔ اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بنا پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو۔ اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث پہنچی تھیں، اور فقہاء نے قانون شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہو، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ اس امر پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ عم دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ آیت میں لفظ نَبَأ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اندر سے کوئی آ کر کہتا ہے کہ آ جاؤ۔ آپ اس کے کہنے پر اندر جا سکتے ہیں قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اِذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح۔ اسی طرح اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں، ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کر نے میں مانع نہیں ہے۔
۹۔ یہ بات سیاق و سباق سے بھی مترشح ہوتی ہے، اور متعدد مفسرین نے بھی اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ بنی المصطلق کے معاملہ میں ولید بن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کر دی جائے۔ اس پر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو بھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں جو تمہارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ تمہارا یہ چاہنا کہ اہم معاملات میں جو رائے تمہیں مناسب نظر آتی ہے آپ اسی پر عمل کیا کریں، سخت بے جا جسارت ہے۔ اگر تمہارے کہنے پر عمل کیا جانے لگے تو بکثرت مواقع پر ایسی غلطیاں ہوں گی جن کا خمیازہ خود تم کو بھگتنا پڑے گا۔
۱۰۔ مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام رائے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کر دیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روئے سخن دو الگ الگ گرہوں کی طرف ہے۔ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مَّنَ الْاَمْرِ کا خطاب پوری جماعت صحابہ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کر دینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہ سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتی کہ جنہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہو گیا تھا جو کے باعث انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنی رائے پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر، اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پر صحابہ کی عام جماعت قائم ہے۔
۱۱۔ یعنی اللہ کا یہ فضل و احسان کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ جس کو بھی وہ دیتا ہے حکمت کی بنا پر اور اس علم کی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا مستحق ہے۔
۱۲۔ یہ نہیں فرمایا کہ ’’جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں‘‘، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ‘‘۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی ’’ فرقہ‘‘ کے بجائے ’’طائفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے۔
۱۳۔ اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو۔
۱۴۔ یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جاہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ ح پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے )۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں بر سر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص)۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا (روح المعانی)۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علیؓ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حسہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ماوجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ اِلاٰ یۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) ’’مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی‘‘
زیادتی کرنے والے گروہ سے ’’قتال‘‘ کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال نا گزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔
اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔
۱۵۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جوں ہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جائے، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں۔
۱۶۔ محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں بر سر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جائے۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد بر پا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے۔
۱۷۔ یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میںاس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبی کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں:
۱)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔
(الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔
(ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقت ور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔
(ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بر سر حق فریق کا ساتھ دیں۔
(د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔
۲)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں:
(الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔
(ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں،اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔
(ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔
(د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جب کہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہر حال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔
(ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ’’باغی‘‘ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امرت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سر خسی لکھتے ہیں کہ ’’ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خرج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ‘‘ (البسوط، باب الخوارج)۔ امام، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ’’ ائمہ،یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ اس پر امام نودی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ’’باغی‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا مصداق نہیں ٹھیراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص ۸۱۔جلد دوم،ص ۳۹) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی(الجصاص،ج ۱ ص ۸۱)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا(الجصاص،ج۱،ص ۸۱۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری،ج۲،ص۷۱۔۷۲)۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْالخارج عن طاعۃ امام الحق، ’’ فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے‘‘۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن لجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھیراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج ۱۰، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج ۴،ص۱۳۵)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ’’ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے‘‘(جلد اول،ص ۴۰۷)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’ جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا‘‘۔ ایک اور قول امام مالکؒ کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ’’ جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ‘‘ پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو‘‘۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الامع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لا نفسہم۔‘‘ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھا یا ہو‘‘۔
۳)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہو گا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہو گا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔
۴)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں،ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔(المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔
۵)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔
۶)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضورؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ،جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو،خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جائے۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟
۷)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علیؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہر حال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو، اسکا کوئی ضِمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کے رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔الحصاص)۔
۸ )۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کر دیا جائے گا۔ (المبسوط)۔
۹ )۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کا رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔(المبسوط)۔
۱۰ )۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہو گا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی)۔
۱۱ )۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دو بارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سر نو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ابن العربی)۔
۱۲)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا (المبسوط۔ الجصاص)۔
۱۳)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جائے گی، مگر جب وہ جنگ کر کے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔
ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے۔
۱۸۔ یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتابالایمان)۔
حضرت عبداللہ بن مسعسد کی رسایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر‘‘(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ‘‘۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔
حضرت ابو سعید خذریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ‘‘(مسند احمد)۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے ’’ مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے ‘‘(بخاری و مسلم)۔
ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے ‘‘(بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ)۔
۱۹۔ پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پروہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ،ایک دوسرے کی سل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت (Law of libel) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہویا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی ’’حیثیت عرفی‘‘ ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی رعی جواز ثابت کر دیا جائے۔
۲۰۔ مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے، بلکہ کسی کی نقل اتارنا، اس کی طرف اشارے کرنا، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں، اور مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے۔
مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لیے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے۔ دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں۔ اس لیے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی۔
۲۱۔ اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مجہومات بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، او کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو شانہ ملامت بنانا۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے۔ کلام الہٰی کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا عَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً (ایک دوسرے پر طعن نہ کرو) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓ ا اَنْفُسَکَمْ(اپنے اوپر طعن نہ کرو) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لیے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لیے تیار نہ ہو گیا ہو۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لیے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بن پر اس کے حملوں کو ٹال جائے۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے۔
۲۲۔ اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اس جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کیا ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا گاتا ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش (چندے سلیمان)اور واصل الاخدَب (کبڑے واصل) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ بجائے خود برا ہو۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھ جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، انہیں پسند کرتے ہیں، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب۔
۲۳۔ یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے، یا پھبتیاں خوب کستا ہے، یا برے برے ناک خوب تجویز کرتا ہے، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے۔
۲۴۔ مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینمے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان نگہ ہوتے ہیں۔اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے :
ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے، مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور ہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔
دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔ اس سے آگے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کار روائی کر بیٹھنا درست نہیں ہے۔
چوتھی قوسم کا گمان جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرے، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے، یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوءِ ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کر لیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے۔ حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہو سکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بد گمانی کے سوا نہیں ہے۔
اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے، بعض حالات میں نا گزیر ہے، بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے نا جائز ہے، اور بعض حالات میں بالکل ہی نا جائز ہے۔ اسی بنا پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ گمان سے یا بدگمان سے مطلقاً پرہیز کرو، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو۔ پھر حکم کا منشا واضح کرنے کے لیے مزید بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس تنبیہ سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کبھی آدمی گمان کی بنا پر کوئی رائے قائم کر رہا ہو یا کسی اقدام کا فیصلہ کرنے لگے تو اسے اچھی طرح جانچ تول کر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ میں جو گمان کر رہا ہوں کہیں وہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیا فی الواقع اس گمان کی ضرورت ہے؟ کیا اس گمان کے لیے میرے پاس معقول وجوہ ہیں؟ کیا اس گمان کی بنا پر جو طرز عمل میں اختیار کر رہا ہوں وہ جائز ہے؟ یہ احتیاط لازماً ہر وہ شخص کرے گا جو خدا سے ڈرتا ہو۔ اپنے گمان کو مطلق العنان بنا کر رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بے خوف اور آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہیں۔
۲۵۔ یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو۔ یہ حرکت خواہ بد گمانی کی بنا پر کی جائے، یا بد نیتی سے کسی کو نقصان پہنچانے کی خطر کی جائے، یا محض اپنا استعجاب(Curiosity) دور کرنے کے لیے کی جائے، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کر ے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بد اخلاق ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا:
یا معشر من امن بلسانہ ولم ید خل الایمان قلبہٗ لا تتبعوا عورات المسلمین نانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورہ ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ۔(ابوداؤد)
اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہو گا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے۔
حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ڈلی اللہ علی ہو سلم کو یہ فرماتے سنا ہے :
انکا ان اتبعت عورات الناس اضدتھم او کد ت ان تفسد ھم۔ (ابو داؤد)۔
تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔
ایک اور حدیث میں حضور کا ارشاد ہے :
ازاظننتم فلا تحققوا (احکام القرآن للجصاص) : جب کسی شخص کے متعلق تمہیں کوئی برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو۔
اور ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
من رأ ی عورۃ فستر ھا کان کمن احیا کوؤدۃ (الجصاص) : جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا۔
تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افرادی ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے۔ شریع نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کر کے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے، بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہو جائیں۔ رہیں مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت، اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کنے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گ ارہا تھا۔ آپ کو دک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا’’ اے دشمن خدا، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’ امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔‘‘ یہ سن کر عمرؓ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کار روائی نہ کی، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔ (مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخزائطی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پت چلائے اور پھر انہیں پکڑے۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
ان الامیر ازا ابتغی الرنیۃ فی الناس انسدھم (ابوداؤد) : حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ مخصوص حالات ہیں جنمیں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کی کچھ علامات نمایاں نظر آ رہی ہوں اور اس کے متعلق یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کر سکتی ہے۔ یا مثلاً کسی شخص کے ہاں کوئی شادی کا پیغام بھیجے، یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے اس کے حالات کی تحقیق کر سکتا ہے۔
۲۶۔ غیبت کی تعریف یہ ہے کہ ’’ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ‘‘۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت جسے مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے، اس میں حضور نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے :
ذکرک اخاک بما یکرہ قیل افرأیت ان کان فی اخی ما اقول؟ قال ان کان فیہ ما تقول فقد بھتَّہٗ۔ غیبت یہ ہے کہ ’’ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو‘‘ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو تُو نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں ہو موجود نہ ہو تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔
ایک دوسری روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
ان رجلا سئل رسول اللہ ﷺلیاللہ علیہ و سلم ما الغیبۃ؟ فقال ان تذکر من المرءمایکرہ ان یسمع۔ قال یا رسول اللہ وان کان حقّا؟ قال اذاقلت بَاطلاً فذٰلک البھتان۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے نا گوار ہو‘‘۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر چہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔
ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ و کنایہ میں، بہر صورت حرام ہے۔ اسی طرح یہ نعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے۔ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رحم کی سزا دے دی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ’’ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کُتے کی موت نہ مار دیا گیا‘‘۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا ’’ اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے ‘‘ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ اسے کون کھائے گا؟ فرمایا : نما نلتما من عِرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ۔ ‘‘ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی‘‘۔
اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے :
ان من اربیٰ الربا الا ستطا لۃ فی عرض المسلم بغیر حق (ابوداؤد) بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے۔
اس ارشاد میں ’’ ناحق‘‘ کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھواضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعو ا الیٰ ما قال؟ ’’ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کی اونٹ؟تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا‘‘(ابو داؤد)۔ یہ بات حضورؐ کو اس کے بیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضورؐ کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔
ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم۔ انہوں نے آ کر حضورؐ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا ’’ معاویہ مفلس ہیں اور ابولجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں۔
ایک روز حضورؐ حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّشرّالناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ (اونزکہ) الناس اتقاء فحشہ۔ ‘’خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضورؐ نے اس شخص کے متعلق بُری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں سے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبر دار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔
ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ’’ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ (بخاری و مسلم)۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگر چہ غیبت تھی، مگر حضورؐ نے اس کو جائز رکھا، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاءو محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ ایک صحیح(یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں :
۱)۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔
۲)۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔
۳)۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جائے۔
۴)۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبر دار کرنا تا کہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔
۵)۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔
۶)۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری جلد ۱۰،ص ۳۶۲۔ شرح مسلم للنودی، باب تحریم الغیبۃ۔ ریاض الصالحین، باب کایباح من الغیبۃ۔ احکام القرآن للجصاص و روح المعانی، تفسیر آیہ ولا یغتب بعضکم بعضاً)۔
ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہاس کی تردید کرے، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
ما من امرئٍ یخذل امرءًا مسْلماً فی موضع تنتھک فیہ حرمتہ و ینتقص فیہمن عرضِہٖ الّا خذلہ اللہ تعالیٰ فی مواطن یحبّ فیھا نصرتہ، وما من امریءٍ ینصر امرءً ا مسْلماً فی مو ضع ینتقص فِیہ مِن عِرضہٖ وینتھک فیہِمِنْ حرمتہٖ الّا نصرہ اللہ عز و جل فی مواطن یحب فیحا نصرتہ (ابوداؤد)۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جا رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔
رہا غیبت کرنے والا، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے فک جائے۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے۔ اگر اس نے کسی مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے۔اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جب کہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتائے کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی۔
۲۷۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کے انتہائی گھناؤنا ہونے کا تصور دلایا ہے۔ مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے، کجا کہ وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو، اور انسان بھی کوئی اور نہیں خود اپنا بھائی ہو۔ پھر اس تشبیہ کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے اور زیادہ مؤثر بنا دیا گیا ہے گا کہ ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھ کر خود فیصلہ کرے کہ آیا وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں ہے اور اس کی فطرت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ کیسے یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے ایک مومن بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اور جہاں اس کو یہ خبر تک نہیں ہے کہ اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے؟ اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجائے خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مردہ بے چارہ تو اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے۔ مگر یہ فعل بجائے خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بے خبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا۔ اس بے خبری کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی، مگر اس کی عزت پر بہر حال اس سے حرف آئے گا، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے۔
۲۸۔ پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی بر تری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھیرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لُوٹیں، غلام بنائیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پر ستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں:
ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شرع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آ جائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خد و خال، زبانیں، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہر گز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مدد گار بن سکتے تھے۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی۔
تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مدہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کیس کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہر حال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں۔
یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا:
الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبر ھا۔ یا ایھالناس، الناس رجلان، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَمن ترابٍ۔(بیہقی فی شعب العیمان۔ترمذی)
شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو، تمام انسان بس دوہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیز گار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا:
یا ایھا الناس، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی ولالعجمی علیٰ عربی ولا سود علی احمر ولا لا حمر علی اسود الا بالتقویٰ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔ الا ھل بلغتُ؟ قالو ابلیٰ یا رسول اللہ، قال فیبلغ الشاھد الغایب۔ (بیہقی) لوگو، خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں۔
کلکم بو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بایٰائِھم اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان۔ (بزار) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔
ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:
ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔(ابن جریر) ٓللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُرکم و امسالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم (مسلم۔ ابن ماجہ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ، نسل،زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے۔ لیکن در اصل یہ ایک غلط خیال ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات، خصائل، طرز زندگی، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بُعد ہو وہاں عمر بھی کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
۲۹۔ یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں۔
۳۰۔ اس سے مراد تمام بدوی نہیں ہیں بلکہ یہاں ذکر چند خاص بدوی گروہوں کا ہو راہ ہے جو اسلام میں بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہو گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ بھی رہیں گے اور اسلامی فتوحات کے قواعد سے متمتع بھی ہوں گے۔ یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے، محض زبانی اقرار ایمان کر کے انہوں نے مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا لیا تھا۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت فاش ہو جاتا تھا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر طرح طرح کے مطالبہ کرتے تھے، اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے۔ روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویے کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً مُزینہ، جہینہ، اسلم، اشجع، غِفار وغیرہ۔ خاس طور پر بنی اَسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جُبیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آئے اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے کہا کہ ’’ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوئے ہیں، ہم نے آپ سے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلان اور فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے ‘‘ اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کر لینا ان کا ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔
۳۱۔ اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کو دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کہو ہم مسلمان ہو گئے ہیں‘‘ ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں ’’مومن ‘‘اور ’’مسلم ‘‘دو متقابل اصطلاحیں ہیں، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’’ اسلام‘‘ اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں، اور ’’مسلم‘‘ وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے۔ مثال کے طور پر حسب ڈیل آیات ملاحظہ ہوں:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاَسْلَا مُ (آل عمران ۱۹ ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
وَمَنْیَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِ سْلَامِ دِیْناًفَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران۔۸۵) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً (المائدہ۔۳) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے۔
فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔ (الانعام۔ ۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دینات ہے۔
ظاہر ہے کہ ان آیات میں ’’ اسلام‘‘ سے مراد اطاعت بالا ایمان نہیں ہے۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:
قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّ لِ مَنْ اَسْلَمَ۔ (الانعام۔ ۱۴) اے نبی کہا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں۔
فَاِنْ اَسْلَمُو افَقَدِ اھْتَدَوْا (آل عمران۔۲۰) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی۔
یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا (المائدہ۔ ۴۴) تمام انبیاء جو اسلام لائے تھے تو رات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح ’’ مسلم‘‘ کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَا تِہٖ وِلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمّوْنَ۔ (آل عمرآن۔۱۰۲) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں تم مسلم ہو۔
ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا (الحج۔ ۷۸ ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی۔
مَا کَا نَ اِبْرَا ھِیْمْ عَھُو دِیًّا وَّ لَا نَصْرَا نِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً۔(آل عمران۔ ۶۷) ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نصرانی، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّ یَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ ۱۲۸) رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔
یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّ یْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرہ۔۱۳۲) (تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا) اے ہمارے رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مُسلم ہو۔
ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے، بس ظاہر طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بہ ظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں، لیکن بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گئے ہیں، اور یَا اَیّھَُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوئے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں، یا ضعیف الایمان، یا محض منافق۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران، آیت ۱۵۶۔ النساء،۱۲۶۔ المائدہ، ۵۴۔ الانفال، ۲۰۔۲۷۔التوبہ، ۳۸ الحدید، ۲۸۔ الصّف، ۲۔