خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الذّاریَات

اللہ کے  نام سے  جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ ذاریات مکّیہ ہے، اس میں تین ۳رکوع، ساٹھ۶۰ آیتیں، تین سو ساٹھ ۳۶۰کلمے، ایک ہزار دو سو انتالیس ۱۲۳۹ حرف ہیں۔

(۱)قسم ان کی جو بکھیر کر اڑانے  والیاں ف (ف ۲) 

۲                 یعنی وہ ہوائیں جو خاک وغیرہ کو اڑاتی ہیں۔

(۲) پھر بوجھ اٹھانے  والیاں  (ف ۳)

۳                 یعنی وہ گھٹائیں اور بدلیاں جو بارش کا پانی اٹھاتی ہیں۔

(۳) پھر نرم چلنے  والیاں (ف ۴)

۴                 وہ کَشتیاں جو پانی میں بسہولت چلتی ہیں۔

(۴) پھر حکم سے  بانٹنے  والیاں (ف ۵)

۵                 یعنی فرشتوں کی وہ جماعتیں جو بحکمِ الٰہی بارش و رزق وغیرہ تقسیم کرتی ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مدبّرات الامر کیا ہے اور عالَم میں تدبیر و تصرّف کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ بعض مفسّرین کا قول ہے کہ یہ تمام صفتیں ہواؤں کی ہیں کہ وہ خاک بھی اڑاتی ہیں، بادلوں کو بھی اٹھائے پھرتی ہیں، پھر انہیں لے کر بسہولت چلتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے بلاد میں اس کے حکم سے بارش کو تقسیم کرتی ہیں۔ قَسم کا مقصودِ اصلی اس چیز کی عظمت بیان کرنا ہے جس کے ساتھ قَسم فرمائی گئی کیونکہ یہ چیزیں کمالِ قدرتِ الٰہی پر دلا لت کرنے والی ہیں۔ اربابِ دانش کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان میں نظر کر کے بعث و جزا پر استدلال کریں کہ جو قادرِ برحق ایسے امورِ عجیبہ پر قدرت رکھتا ہے وہ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ ہستی عطا فرمانے پر بے شک قادر ہے۔

(۵) بیشک جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے  (ف ۶) ضروری سچ ہے۔

۶                 یعنی بعث و جزا۔

(۶) اور بیشک انصاف ضرور ہونا (ف ۷)

۷                 اور حساب کے بعد نیکی بدی کا بدلہ ضرور ملنا۔

(۷)  آرائش والے  آسمان کی قسم (ف ۸)

۸                 جس کو ستاروں سے مزیّن فرمایا ہے کہ اے اہلِ مکّہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں اور قرآنِ پاک کے بارے میں۔

(۸) تم مختلف بات میں ہو (ف ۹)

۹                 کبھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ساحر کہتے ہو، کبھی شاعر، کبھی کاہن، کبھی مجنون (معاذ اللہ تعالیٰ) اسی طرح قرآنِ کریم کو کبھی سِحر بتاتے ہو، کبھی شِعر،کبھی کہانت، کبھی اگلوں کی داستانیں۔

(۹) اس قرآن سے  وہی اوندھا کیا جاتا ہے  جس کی قسمت ہی میں اوندھایا جانا ہو (ف ۱۰)

۱۰               اور جو محرومِ ازلی ہے اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور بہکانے والوں کے بہکائے میں آتا ہے۔ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے زمانہ کے کفّار جب کسی کو دیکھتے کہ ایمان لانے کا ارادہ کرتا ہے توا س سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت کہتے کہ ان کے پاس کیوں جاتا ہے ؟ وہ تو شاعر ہیں، ساحر ہیں۔ کاذب ہیں۔ (معاذ اللہ تعالیٰ) اور اسی طرح قرآنِ پاک کو کہتے ہیں کہ وہ شِعر ہے، سِحر ہے، کذب ہے۔ (معاذ اللہ تعالیٰ)

(۱۰) مارے  جائیں دل سے  تراشنے  والے

(۱۱) جو نشے  میں بھولے  ہوئے  ہیں (ف ۱۱)

۱۱               یعنی نشۂ جہالت میں آخرت کو بھولے ہوئے ہیں۔

(۱۲) پوچھتے  ہیں (ف ۱۲)  انصاف کا دن کب ہو گا (ف ۱۳)

۱۲               نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے تمسخر اور تکذیب کے طور پر کہ۔

۱۳               ان کے جوا ب میں فرمایا جاتا ہے۔

(۱۳) اس دن ہو گا جس دن وہ آگ پر تپائے  جائیں گے  (ف ۱۴)

۱۴               اور انہیں عذاب دیا جائے گا۔

(۱۴) اور فرمایا جائے  گا چکھو اپنا تپنا،  یہ ہے  وہ جس کی تمہیں جلدی تھی (ف ۱۵)

۱۵               اور دنیا میں تمسخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ عذاب جلدی لاؤ جس کا وعدہ دیتے ہو۔

(۱۵) بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں ہیں (ف ۱۶)

۱۶               یعنی اپنے رب کی نعمت میں ہیں باغوں کے اندر جن میں لطیف چشمے جاری ہیں۔

(۱۶) اپنے  رب کی عطائیں لیتے  ہوئے، بیشک وہ اس سے  پہلے  (ف ۱۷) نیکو کار تھے۔

۱۷               دنیا میں۔

(۱۷) وہ رات میں کم سویا کرتے  (ف ۱۸)

۱۸               اور زیادہ حصّہ شب کا نماز میں گزارتے۔

(۱۸) اور پچھلی رات استغفار کرتے  (ف ۱۹)

۱۹               یعنی رات تہجّد اور شب بیداری میں گزارتے ہیں اور بہت تھوڑی دیر سوتے ہیں اور شب کا پچھلا حصّہ استِغفار میں گزارتے ہیں اور اتنے سو جانے کو بھی تقصیر سمجھتے ہیں۔

(۱۹) اور ان کے  مالوں میں حق تھا منگتا اور بے  نصیب کا (ف ۲۰)

۲۰               منگتا تو وہ جو اپنی حاجت کے لئے لوگوں سے سوال کرے اور محروم وہ کہ حاجت مند ہو اور حیاءً سوال بھی نہ کرے۔

(۲۰) اور زمین میں نشانیاں ہیں  یقین والوں کو (ف ۲۱)

۲۱               جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔

(۲۱) اور خود تم میں (ف ۲۲) تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں۔

۲۲               تمہاری پیدائش میں اور تمہارے تغیّرات میں اور تمہارے ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے بے شمار عجائب و غرائب ہیں جس سے بندوں کو اس کی شانِ خدائی معلوم ہوتی ہے۔

(۲۲) اور  آسمان میں تمہارا  رزق ہے  (ف ۲۳) اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے  (ف ۲۴)

۲۳               کہ اسی طرف سے بارش کر کے زمین کو پیداوار سے مالا مال کیا جاتا ہے۔

۲۴               آخرت کے ثواب و عذاب کا وہ سب آسمان میں مکتوب ہے۔

(۲۳) تو آسمان اور زمین کے  رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے  ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے  ہو۔

(۲۴) اے  محبوب! کیا تمہارے  پاس ابراہیم کے  معزز مہمانوں کی خبر آئی (ف ۲۵)

۲۵               جو دس یا بارہ فرشتے تھے۔

(۲۵) جب وہ اس کے  پاس آ کر بولے  سلام کہا، سلام نا شناسا لوگ ہیں (ف ۲۶)

۲۶               یہ بات آپ نے اپنے دل میں فرمائی۔

(۲۶) پھر اپنے  گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے  آیا (ف ۲۷)

۲۷               نفیس بھُنا ہوا۔

(۲۷ ) پھر اسے  ان کے  پاس رکھا (ف ۲۸) کہا کیا تم کھاتے  نہیں۔

۲۸               کہ کھائیں۔ اور یہ میزبان کے آداب میں سے ہے کہ مہمان کے سامنے کھانا پیش کرے، جب ان فرشتوں نے نہ کھایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔

(۲۸) تو اپنے  جی میں ان سے  ڈرنے  لگا (ف ۲۹) وہ بولے  ڈریے  نہیں (ف ۳۰) اور اسے  ایک علم والے  لڑکے  کی بشارت دی۔

۲۹               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ آپ کے دل میں بات آئی کہ یہ فرشتے ہیں اور عذاب کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

۳۰               ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں۔

 (۲۹) اس پر اس کی بی بی (ف ۳۱) چلاتی آئی پھر اپنا ماتھا ٹھونکا اور بولی کیا بڑھیا  بانجھ (ف ۳۲)

۳۱               یعنی حضرت سارہ۔

۳۲               جس کے کبھی بچّہ نہیں ہوا اور نوّے ۹۰یا ننانوے ۹۹سال کی عمر ہو چکی، مطلب یہ تھا کہ ایسی عمر اور ایسی حالت میں بچّہ ہونا نہایت تعجّب کی بات ہے۔

(۳۰) انہوں نے  کہا تمہارے  رب نے  یونہی فرما دیا، اور وہی حکیم دانا ہے۔

(۳۱) ابراہیم نے  فرمایا تو اے  فرشتو! تم کس کام سے  آئے  (ف ۳۳)

۳۳               یعنی سوائے اس بشارت کے تمہارا اور کیا کام ہے۔

(۳۲) بولے  ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے  گئے  ہیں (ف ۳۴)

۳۴               یعنی قومِ لوط کی طرف۔

(۳۳) کہ ان پر گارے  کے  بنائے  ہوئے  پتھر چھوڑیں۔

(۳۴) جو تمہارے  رب کے  پاس حد سے  بڑھنے  والوں کے  لیے  نشان کیے  رکھے  ہیں (ف ۳۵)

۳۵               ان پتّھروں پر نشان تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ دنیا کے پتّھروں میں سے نہیں ہیں۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتّھر پر اس کا نام مکتوب تھا جو اس سے ہلاک کیا جانے والا تھا۔

(۳۵) تو ہم نے  اس شہر میں جو ایمان والے  تھے  نکال لیے۔

(۳۶) تو  ہم نے  وہاں ایک ہی گھر مسلمان پایا (ف ۳۶)

۳۶               یعنی ایک ہی گھر کے لوگ، اور وہ حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کی دونوں صاحب زادیاں ہیں۔

(۳۷) اور ہم نے  اس میں (ف ۳۷) نشانی باقی  رکھی ان کے  لیے  جو دردناک عذاب سے  ڈرتے  ہیں (ف ۳۸)

۳۷               یعنی قومِ لوط کے اس شہر میں کافروں کو ہلاک کرنے کے بعد۔

۳۸               تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور ان کے جیسے افعال سے باز رہیں، اور وہ نشانی ان کے اجڑے ہوئے دیار تھے یا وہ پتّھر جن سے وہ ہلاک کئے گئے یا وہ کالا بدبو دار پانی جو اس سرزمین سے نکلا تھا۔

(۳۸) اور موسیٰ میں (ف ۳۹) جب ہم نے  اسے  روشن سند لے  کر فرعون کے  پاس بھیجا (ف ۴۰)

۳۹               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی نشانی رکھی۔

۴۰               روشن سند سے مراد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات ہیں جو آپ نے فرعون اور فرعونیوں پر پیش فرمائے۔

(۳۹) تو اپنے  لشکر سمیت پھر گیا (ف ۴۱) اور تب بولا جادوگر ہے  یا دیوانہ۔

۴۱               یعنی فرعون نے مع اپنی جماعت کے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اعراض کیا۔

(۴۰) تو ہم نے  اسے  اور اس کے  لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ اپنے  آپ کو ملامت کر رہا تھا (ف ۴۲)

۴۲               کہ کیوں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لایا اور کیوں ان پر طعن کئے۔

(۴۱) اور عاد میں (ف ۴۳) جب ہم نے  ان پر خشک آندھی بھیجی (ف ۴۴)

۴۳               یعنی قومِ عاد کے ہلاک کرنے میں بھی قابلِ عبرت نشانیاں ہیں۔

۴۴               جس میں کچھ بھی خیرو برکت نہ تھی، یہ ہلاک کرنے والی ہوا تھی۔

(۴۲)  جس چیز پر گزرتی  اسے  گلی ہوئی چیز کی طرح چھوڑتی (ف ۴۵)

۴۵               خواہ وہ آدمی ہوں یا جانور یا اور اموال جس چیز کو چھو گئی اس کو ہلاک کر کے ایسا کر دیا گویا کہ وہ مدّتوں کی ہلاک شدہ گلی ہوئی ہے۔

(۴۳) اور ثمود میں (ف ۴۶) جب ان سے  فرمایا گیا ایک وقت تک برت لو (ف ۴۷)

۴۶               یعنی قومِ ثمود کے ہلاک میں بھی نشانیاں ہیں۔

۴۷               یعنی وقتِ موت تک دنیا میں زندگانی کر لو یہی زمانہ تمہاری مہلت کا ہے۔

(۴۴) تو انہوں نے  اپنے  رب کے  حکم سے  سرکشی کی (ف ۴۸) تو ان کی آنکھوں کے  سامنے  انہیں کڑک نے  آلیا (ف ۴۹)

۴۸               اور حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی اور ناقہ کی کوچیں کاٹیں۔

۴۹               اور ہولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کر دیئے گئے۔

(۴۵) تو وہ نہ کھڑے  ہو سکے  (ف ۵۰) اور نہ وہ بدلہ لے  سکتے  تھے۔

۵۰               وقتِ نزولِ عذاب نہ بھاگ سکے۔

(۴۶) اور ان سے  پہلے  قوم نوح کو ہلاک فرمایا، بیشک وہ فاسق لوگ تھے۔

(۴۷) اور آسمان کو ہم نے  ہاتھوں سے  بنایا (ف ۵۱) اور بیشک ہم وسعت دینے  والے  ہیں  (ف ۵۲)

۵۱               اپنے دستِ قدرت سے۔

۵۲               اس کو اتنی کہ زمین مع اپنے فضا کے اس کے اندر اس طرح آ جائے جیسے کہ ایک میدانِ وسیع میں گیند پڑی ہو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ہم اپنی خَلق پر رزق وسیع کرنے والے ہیں۔

(۴۸) اور زمین کو ہم نے  فرش کیا تو ہم  کیا ہی اچھے  بچھا لے  والے۔

(۴۹) اور ہم نے  ہر چیز کے  دو جوڑ بنائے  (ف ۵۳) کہ تم دھیان کرو (ف ۵۴)

۵۳               مثل آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور رات اور دن اور خشکی و تری اور گرمی و سردی اور جن و انس اور روشنی و تاریکی اور ایمان و کفر اور سعادت و شقاوت اور حق و باطل اور نَر و مادّہ کے۔

۵۴               اور سمجھو کہ ان تمام جوڑوں کا پیدا کرنے والا فردِ واحد ہے نہ اس کا نظیر ہے، نہ شریک، نہ ضد، نہ نِد، وہی مستحقِ عبادت ہے۔

(۵۰) تو اللہ کی طرف بھاگو (ف ۵۵) بیشک میں اس کی طرف سے  تمہارے  لیے  صریح ڈر سنانے  والا ہوں۔

۵۵               اس کے ماسوا کو چھوڑ کر اس کی عبادت اختیار کرو۔

(۵۱) اور اللہ کے  ساتھ اور معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں اس کی طرف سے  تمہارے  لیے  صریح ڈر سنانے  والا ہوں۔

(۵۲) یونہی (ف ۵۶) جب ان سے  اگلوں کے  پاس کوئی رسول تشریف لایا تو یہی بولے  کہ جادوگر ہے  یا دیوانہ۔

۵۶           جیسے کہ ان کفّار نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کو ساحر و مجنون کہا ایسے ہی۔

(۵۳) کیا  آپس میں ایک دوسرے  کو یہ بات کہہ مرے  ہیں بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں (ف ۵۷)

۵۷               یعنی پہلے کفّار نے اپنے پچھلوں کو یہ وصیّت تو نہیں کی کہ تم انبیاء کی تکذیب کرنا اور ان کی شان میں اس طرح کی باتیں بنانا لیکن چونکہ سرکشی اور طغیان کی علّت دونوں میں ہے اس لئے گمراہی میں ایک دوسرے کے موافق رہے۔

(۵۴) تو اے  محبوب! تم ان سے  منہ پھیر لو تو تم پر کچھ الزام نہیں (ف ۵۸)

۵۸               کیونکہ آپ رسالت کی تبلیغ فرما چکے اور دعوت و ارشاد میں جہدِ بلیغ صرف کر چکے اور آپ نے اپنی سعی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ شانِ نزول : جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم غمگین ہوئے اور آپ کے اصحاب کو بہت رنج ہوا کہ جب رسول علیہ السلام کو اعراض کرنے کا حکم مل گیا تو اب وحی کیوں آئے گی اور جب نبی نے امّت کو تبلیغ بطریقِ اتم فرما دی اور امّت سرکشی سے باز نہ آئی اور رسول کو ان سے اعراض کا حکم مل گیا تو وقت آگیا کہ ان پر عذاب نازل ہو، اس پر وہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جو اس آیت کے بعد ہے اور اس میں تسکین دی گئی کہ سلسلۂ وحی منقطع نہیں ہوا ہے، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم کی نصیحت سعادت مندوں کے لئے جاری رہے گی چنانچہ ارشاد ہوا۔

(۵۵) اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو  فائدہ دیتا ہے۔

(۵۶) اور میں نے  جن اور آدمی اتنے  ہی لیے  بنائے  کہ میری بندگی کریں (ف ۵۹)

۵۹               اور میری معرفت ہو۔

(۵۷) میں ان سے  کچھ رزق نہیں مانگتا (ف ۶۰) اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے  کھانا دیں (ف ۶۱)

۶۰               کہ میرے بندوں کو روزی دیں یا سب کی نہیں تو اپنی ہی روزی خود پیدا کریں کیونکہ رزّاق میں ہوں اور سب کی روزی کا میں ہی کفیل ہوں۔

۶۱               میری خَلق کے لئے۔

(۵۸) بیشک اللہ ہی بڑا رزق دینے  والا قوت والا قدرت والا ہے  (ف ۶۲)

۶۲               سب کو وہی دیتا، وہی پالتا ہے۔

(۵۹) تو بیشک ان ظالموں کے  لیے  (ف ۶۳) عذاب کی ایک باری ہے  (ف ۶۴) جیسے  ان کے  ساتھ والوں کے  لیے  ایک باری تھی (ف ۶۵) تو مجھ سے  جلدی نہ کریں (ف ۶۶)

۶۳               جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

۶۴               حصّہ ہے، نصیب ہے۔

۶۵               یعنی اُمَمِ سابقہ کے کفّار کے لئے جو انبیاء کی تکذیب میں ان کے ساتھی تھے، ان کا عذاب و ہلاک میں حصّہ تھا۔

۶۶               عذاب نازل کرنے کی۔

(۶۰) تو کافروں کی خرابی ہے  ان کے  اس دن سے  جس کا وعدہ دیے  جاتے  ہیں (ف ۶۷) 

۶۷               اور وہ روزِ قیامت ہے۔