١۔ طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اس شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی۔
٢۔ مَسْطُوْرِ کے معنی ہیں مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کا مصداق مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔
٣۔١رق یہ متعلق ہے مَسْطُورِ کے۔ رَقِ وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ منشور بمعنی مبسوط پھیلا یا کھلا ہوا۔
٤۔ یہ بیت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے آتے ہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا۔ بعض بیت معمور سے خانہ کعبہ مراد لیتے ہیں۔ جو عبادت کے لیے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔
٥۔ اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لئے بمنزلہ چھت کے ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر اسے ' محفوظ چھت ' کہا ہے، بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے۔ وجعلنا السماء سقفا محفوظا۔ بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
٦۔ مسجور کے معنی ہیں بھڑکے ہوئے۔ بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہو گی، اس سے مردہ جسم زندہ ہو جائیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں ان میں قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا واذا البحار سجرت اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولی قرار دیا ہے اور بعض نے مسجور کے معنی مملوء بھرے ہوئے کے لیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئے ہیں امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔(تفسیر ابن کثیر)
۸۔ یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے یعنی یہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی مظہر ہیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب بھی یقیناً واقع ہو کر رہے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے اسے کوئے ٹالنے پر قادر نہیں ہو گا۔
٩۔ مور کے معنی ہیں حرکت و اضطراب، قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور ستارے و سیاروں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہو گا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کے لئے ظرف ہے۔ یعنی عذاب اس روز واقع ہو گا جب آسمان تھر تھرائے گا اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔
١٢۔ یعنی اپنے کفر و باطل میں مصروف اور حق کی تکذیب استہزاء میں لگے ہوئے ہیں۔
١٣۔ الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔
١٤۔ یہ جہنم پر مقرر فرشتے انہیں کہیں گے۔
١٥۔ (۱) جس طرح تم دنیا میں پیغمبروں کو جادوگر کہا کرتے تھے، بتلاؤ! کیا یہ بھی کوئی جادو کا کرتب ہے ؟
١٥۔ (۲) یا جس طرح تم دنیا میں حق کے دیکھنے سے اندھے تھے یہ عذاب بھی تمہیں نظر نہیں آ رہا ہے ؟ یہ تقریع و توبیخ کے لیے انہیں کہا جائے گا ورنہ ہر چیز ان کے مشاہدے میں آ چکی ہو گی۔
١٧۔ اہل کفر و اہل شقاوت کے بعد اہل ایمان و اہل سعادت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
١٨۔ یعنی جنت کے گھر، لباس، کھانے، سواریاں، حسین جمیل بیویاں (حور عین) اور دیگر نعمتیں، ان سب پر وہ خوش ہوں گے، کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گی۔ اور ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر کا مصداق۔
١٩۔ دوسرے مقام پر فرمایا (کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا ھَنِیئاً بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَاْلِیَۃِ) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بہت ضروری ہیں۔
٢٠۔ مَصْفُوفَۃِ، ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے، گویا ایک صف میں ہیں۔ بعض نے مفہوم بیان کیا ہے، کہ چہرے ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔ جیسے میدان جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوتی ہیں اس مفہوم کو قرآن میں دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے "علی سرر متقابلین" ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر فروکش ہوں گے۔
٢١۔ (۱) یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقویٰ اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کر کے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کر کے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل و احسان سے فروتر ہو گی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہو گا اور حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا و استغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد) اس کی تأیید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔(صحیح مسلم)
٢١۔ (۲) رھین بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہو گا۔ یہ عام ہے۔ مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔ یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا "کل نفس بماکسبت رھینۃ" ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہو گا۔
٢٢۔ زِدْنَاہُمْ، یعنی خوب دیں گے
٢٣۔ (۱) یتنازعون یتعاطون ویتناولون ایک دوسرے سے لیں گے۔ یا پھر وہ معنی ہیں جو فاضل مترجم نے کیے ہیں، کاس اس پیالے اور جام کو کہتے ہیں جو شراب یا کسی اور مشروب سے بھرا ہوا ہو خالی برتن کو کاس نہیں کہتے۔
٢٣۔ (۲) اس شراب میں دنیا کی شراب کی تاثیر نہیں ہو گی اسے پی کر نہ کوئی بہکے گا اور نہ اتنا مدہوش ہو گا۔
٢٤۔ یعنی جنتیوں کی خدمت کے لئے انہیں نو عمر خادم بھی دیئے جائیں گے جو ان کی خدمت کے لئے پھر رہے ہوں گے اور حسن و جمال اور صفائی و رعنائی میں وہ ایسے ہوں گے جیسے موتی، جسے ڈھک کر رکھا گیا ہو، تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماند نہ پڑ ے۔
٢٥۔ ایک دوسرے سے دنیا کے حالات پوچھیں گے کہ دنیا میں وہ کن حالات میں زندگی گزارتے اور ایمان و عمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے۔
٢٦۔ یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لئے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لئے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔
٢٧۔ سَمُوم لو، جھلس ڈالنے والی گرم ہوا کو کہتے ہیں، جہنم کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔
۲۸۔ یعنی صرف اسی ایک کی عبادت کرتے تھے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے عذاب جہنم سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے۔
٢٩۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ اور نصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جو کچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لئے کہ آپ اللہ کے فضل سے کاہن ہیں نہ دیوانہ (جیسا کہ یہ کہتے ہیں ) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے جو کہ کاہن پر نہیں آتی آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیوں کر ممکن ہے۔
٣٠۔ ١ رَیْب کے معنی ہیں حوادث، موت کے ناموں سے ایک نام۔ مطلب ہے قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو موت آ جائے اور ہمیں چین نصیب ہو جائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے۔
٣١۔ یعنی دیکھو! موت پہلے کسے آتی ہے ؟ اور ہلاکت کس کا مقدر ہے۔
٣٢۔ (۱) یعنی یہ تیرے بارے میں جو اناپ شناپ جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتے ہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں۔
٣٢۔ (۲) نہیں بلکہ یہ سرکش اور گمراہ لوگ ہیں، اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر بڑھکاتی ہے۔
۳۳۔ یعنی قرآن گھڑنے کے الزام پر ان کو آمادہ کرنے والا بھی ان کا کفر ہی ہے۔
٣٤۔ یعنی اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کر دیں جو نظم، اعجاز، حسن بیان، حقائق کے مسائل میں اس کا مقابلہ کر سکیں۔
٣٥۔ (۱) یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں کس طرح چھوڑ دے گا۔
٣٥۔ (۲) یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
٣٦۔ بلکہ اللہ کے وعدوں اور وعیدوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔
٣٧۔ (۱) کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں جس کو چاہیں نہ دیں یا جس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔
٣٧۔ (۲) مصیطر یا مسیطر سَطْرً سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ و نگران ہو، وہ چونکہ ساری تفصیلات لکھتا ہے، اس لئے یہ محافظ اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔
٣٨۔ یعنی کیا ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح آسمانوں پر جا کر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔
٤٠۔ یعنی اس کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہو۔
٤١۔ کہ ضرور ان سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ و سلم مر جائیں گے اور ان کو موت اس کے بعد آئیگی
٤٢۔ (۱) یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہو جائے۔
٤٢۔ (۲) یعنی کید و مکر ان پر ہی الٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہیں کو ہو گا جیسے فرمایا ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ چنانچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے۔
٤٤۔ مطلب ہے کہ اپنے کفر و عناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آ رہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتا ہے۔
۴۷۔ (۱) یعنی دنیا میں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ولنذیقنہم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلہم یرجعون) (الم السجدہ۲۱
٤٧۔ (۲) اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لئے ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لئے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ' منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہو جاتا ہے تو اسکی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا؟ (ابوداؤد کتاب الجنائز نمبر۳۰۸۹)
٤٨۔ اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک۔
٤٩۔ اس سے مراد قیام اللیل۔ یعنی نماز تہجد، جو عمر بھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول رہا۔