تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ القَمَر

۱۔۔۔ ہجرت سے پیشتر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم "منیٰ" میں تشریف فرما تھے کفار کا مجمع تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی نشانی طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آسمان کی طرف دیکھو۔ ناگاہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا ان میں سے مغرب کی طرف اور دوسرا مشرق کی طرف چلا گیا۔

۲۔۔۔    یعنی اس طرح کے جادو مدعیانِ نبوت نے پہلے بھی کیے ہیں، پھر جس طرح وہ جاتے رہے یہ بھی جاتا رہے گا۔

۳۔۔۔   یعنی ان کا عذاب بھی اپنے وقت پر آئے گا۔ اور اللہ کے علم میں ان کی گمراہی اور ہلاکت ٹھہر چکی ہے وہ کسی صورت سے ٹلنے والی نہیں۔

۴۔۔۔   یعنی قرآن کے ذریعہ سے ہر قسم کے احوال اور تباہ شدہ قوموں کے واقعات معلوم کرائے جا چکے ہیں جن میں اگر غور کریں تو خداوند قہار کی طرف سے بڑی ڈانٹ ہے۔

۶۔۔۔   ۱: یعنی قرآن کریم پوری حکمت اور عقل کی باتوں کا مجموعہ ہے۔ کوئی ذرا نیک نیتی سے توجہ کرے تو دل میں اترتی چلی جائیں مگر افسوس اتنے سامان ہدایت کی موجودگی میں اس پر کچھ اثر نہیں۔ کوئی نصیحت و فہمائش وہاں کام نہیں دیتی۔ کتنا ہی سمجھاؤ پتھر پر جونک نہیں لگتی۔ لہٰذا ایسے سنگدل بدبختوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی منہ نہ لگائیے۔ آپ فرض تبلیغ و دعوت باحسن اسلوب ادا کر چکے۔ اب زیادہ تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کو ان کے ٹھکانے کی طرف چلنے دیں۔

۲:  یعنی میدان حشر کی طرف حساب دینے کو۔

۷۔۔۔   یعنی اس وقت خوف و ہیبت کے مارے ذلت و ندامت کے ساتھ آنکھیں جھکائے ہوں گے۔

۸۔۔۔     ۱: یعنی تمام اگلے پچھلے قبروں سے نکل کر ٹڈی دَل کی طرح پھیل پڑیں گے۔ اور خداوند قدوس کی عدالت میں حاضری دینے کے لیے تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوں گے۔

۲:  یعنی اس دن کے ہولناک احوال و شدائد اور اپنے جرائم کا تصور کر کے کہیں گے کہ یہ دن بڑا سخت آیا ہے دیکھئے آج کیا گزرے گی آگے بتلاتے ہیں کہ قیامت اور آخرت کا عذاب تو اپنے وقت پر آئے گا بہت سے مکذبین کیلئے اُسے پہلے دنیا ہی میں ایک سخت دن آ چکا ہے۔

۹۔۔۔   کہنے لگے اے نوح! اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو تم کو سنگسار کر دیا جائے گا۔ گویا دھمکیوں ہی میں اس کی بات رلا دی۔ اور بعض نے "وازدجر" کے معنی یوں کیے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے آسیب زدہ۔ جن اس کی عقل لے اڑے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

۱۰۔۔۔    یعنی سینکڑوں برس سمجھانے پر بھی جب کوئی نہ پسیجا تو بددعا کی، اور کہا اے پروردگار! میں ان سے عاجز آ چکا ہوں۔ ہدایت و فہمائش کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ اب آپ اپنے دین اور پیغمبر کا بدلہ لیجیے اور زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑیے۔

۱۲۔۔۔   یعنی پانی اس قدر ٹوٹ کر برسا، گویا آسمان کے دہانے کھل گئے اور نیچے سے زمین کے پردے پھٹ پڑے۔ اتنا پانی ابلا گویا ساری زمین چشموں کا مجموعہ بن کر رہ گئی۔ پھر اوپر اور نیچے کا یہ سب پانی مل کر اس کام کے لیے اکٹھا ہو گیا۔ جو پہلے سے اللہ کے ہاں ٹھہر چکا۔ یعنی قوم نوح کی ہلاکت اور غرقابی۔

۱۴۔۔۔    ۱: یعنی اس ہولناک طوفان کے وقت نوح کی کشتی ہماری حفاظت اور نگرانی میں نہایت امن چین سے چلی جا رہی تھی۔

۲: یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی بے قدری کی اور اللہ کی باتوں کا انکار کیا، یہ اس کی سزا ملی۔

۱۵۔۔۔      یعنی سوچنے والوں کے لیے اس واقعہ میں عبرت کی نشانیاں ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ آج کشتی کا وجود دنیا میں اس کشتی کے قصہ کو یاد دلانے والا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا نشان ہے۔ اور بعض نے کہا کہ بعینہ وہ ہی کشتی نوح کے بعد مدت تک رہی۔ "جودی" پہاڑ پر نظر آتی تھی۔ اس امت کے لوگوں نے بھی دیکھی۔ واللہ اعلم۔

۱۶۔۔۔    یعنی دیکھ لیا۔ میرا عذاب کیسا ہولناک اور میرا ڈرانا کس قدر سچا ہے۔

۱۷۔۔۔      یعنی قرآن سے نصیحت حاصل کرنا بالکل آسان ہے کیونکہ جو مضامین ترغیب و ترہیب اور انداز و تبشیر سے متعلق ہیں وہ بالکل صاف، سہل اور موثر ہیں۔ پر کوئی سوچنے سمجھنے کا ارادہ کرے تو سمجھے۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب نہیں قرآن محض ایک سطحی کتاب ہے جس کے اندر کوئ دقائق و غوامض نہیں۔ اس علیم و خبیر کے کلام کی نسبت ایسا گمان کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ جب اللہ بندوں سے کلام کرتا ہے تو معاذ اللہ اپنے غیر متناہی علوم سے کورا ہو جاتا ہے؟ یقیناً اس کے کلام میں وہ گہرے حقائق اور باریکیاں ہوں گی جن کا کسی دوسرے کلام میں تلاش کرنا بیکار ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے "لا تنقضی عَجَآئِبَہ،"(قرآن کے عجائب و اسرار کبھی ختم ہونے والے نہیں) علمائے امت اور حکمائے ملت نے اس کتاب کے دقائق و اسرار کا پتہ لگانے اور ہزارہا احکام مستنبط کرنے میں عمریں صرف کر دیں، تب بھی اس کی آخری تہ تک نہیں پہنچ سکے۔

۱۹۔۔۔   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی نحوست نہ اٹھی جب تک تمام نہ ہو چکے۔ اور یہ نحوست کا دن ان ہی کے حق میں تھا، یہ نہیں کہ ہمیشہ کو وہ دن منحوس سمجھ لیے جائیں جیسا کہ جاہلوں میں مشہور ہے۔ اور اگر وہ دن عذاب آنے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے منحوس بن گیا ہے۔ تو مبارک دن کون سا رہے گا۔ قرآن کریم میں تصریح ہے کہ وہ عذاب سات رات اور آٹھ دن برابر رہا۔ بتلائیے اب ہفتہ کے دنوں میں کون سا دن نحوست سے خالی رہے گا۔

۲۰۔۔۔   "قوم عاد" کے لوگ بڑے تنو مند اور قد آور تھے، لیکن ہوا کا جھکڑ ان کو اٹھا کر اس طرح زمین پر پٹکتا تھا جیسے کھجور کا تنہ جڑ سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا جائے۔

۲۳۔۔۔   یعنی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا۔ اور ایک نبی کا جھٹلانا سب کا جھٹلانا ہے۔ کیونکہ اصولِ دین میں سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔

۲۴۔۔۔   یعنی کوئی آسمان کا فرشتہ نہیں، بلکہ ہم ہی جیسا ایک آدمی اور وہ بھی اکیلا جس کے ساتھ کوئی قوت اور جتھا نہیں، چاہتا ہے کہ ہمیں دبا لے اور سب کو اپنا تابع بنا لے۔ یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر ہم اس پھندے میں پھنس جائیں تو ہماری بڑی غلطی اور حماقت بلکہ جنون ہو گا۔ وہ تو ہم کو ڈراتا ہے کہ مجھے نہ مانو گے تو آگ میں گرو گے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم اس کے تابع ہو جائیں تو گویا خود اپنے کو آگ میں گرا رہے ہیں۔

۲۵۔۔۔   یعنی پیغمبری کے لیے بس یہی رہ گیا تھا؟ سب جھوٹ ہے۔ خواہ مخواہ بڑائی مارتا ہے کہ خدا نے مجھے اپنا رسول بنا دیا۔ اور ساری قوم کو میری اطاعت کا حکم دیا ہے۔

۲۶۔۔۔     یعنی بہت جلد معلوم ہوا چاہتا ہے کہ دونوں فریق میں جھوٹا اور بڑائی مارنے والا کون ہے۔

۲۷۔۔۔     ۱: یعنی ان کی فرمائش کے موافق ہم پتھر سے اونٹنی نکال کر بھیجتے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے جانچا جائے گا کہ کون اللہ و رسول کی بات مانتا ہے اور کون نفس کی خواہش پر چلتا ہے۔

۲: یعنی دیکھتا رہ، کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

۲۸۔۔۔     حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "وہ اونٹنی جس پانی پر جاتی سب جانور بھاگتے، تو اللہ نے باری ٹھہرا دی۔ ایک دن وہ جائے، اور ایک دن سب جانور۔

۲۹۔۔۔    حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ایک بدکار عورت تھی اس کے مویشی بہت تھے اپنے ایک آشنا کو اکسادیا۔ اس نے اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں۔

۳۱۔۔۔    فرشتے نے ایک چیخ ماری، کلیجے پھٹ گئے۔ اور سب چورا ہو کر رہ گئے۔ جیسے کھیت کے گرد کانٹوں کی باڑ لگا دیتے ہیں۔ اور چند روز کے بعد پائمال ہو کر اس کا چورا ہو جاتا ہے۔

۳۳۔۔۔     یعنی حضرت لوط علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایک نبی کی تکذیب سب انبیاء کی تکذیب ہے۔

۳۵۔۔۔   یعنی وہ پچھلی رات میں اپنے گھر والوں کو لے کر صاف نکل گئے۔ ان کو ہم نے عذاب کی ذرا بھی آنچ نہ لگنے دی۔ اور یہ ہی ہماری عادت ہے۔ حق شناس اور شکر گزار بندوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔

۳۶۔۔۔   یعنی اس کی باتوں میں واہی تباہی شبہے اور جھگڑے کھڑے کر کے جھٹلانے لگے۔

۳۷۔۔۔     یعنی فرشتے جو حسین لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ ان کو آدمی سمجھ کر اپنی خوئے بد کی وجہ سے قبضانا چاہا۔ ہم نے ان کو اندھا کر دیا کہ ادھر ادھر دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اور کہا لو! پہلے اس عذاب کا مزہ چکھو۔

۳۹۔۔۔     یعنی اندھا کرنے کے بعد ان کی بستیاں الٹ دی گئیں۔ اور اوپر سے پتھر برسائے گئے۔ اس چھوٹے عذاب کے بعد یہ بڑا عذاب تھا۔

۴۱۔۔۔   حضرت موسیٰ اور ہارون اور ان کے ڈرانے والے نشان۔

۴۲۔۔۔  یعنی خدا کی پکڑ بڑے زبردست کی پکڑ تھی۔ جس کے قابو میں نکل کر کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ دیکھ لو! تمام فرعونیوں کا بیڑہ کس طرح بحر قلزم میں غرق کیا کہ ایک بچ کر نہ نکل سکا۔

۴۴۔۔۔    گذشتہ اقوام کے واقعات سنا کر موجودہ لوگوں کو خطاب ہے یعنی تم میں سے کافر کیا ان پہلے کافروں سے کچھ اچھے ہیں جو کفر و طغیان کی سزا میں تباہ نہیں کیے جائیں گے؟ یا اللہ کے ہاں سے کوئی پروانہ لکھ دیا گیا ہے کہ تم جو چاہو شرارت کرتے رہو، سزا نہیں ملے گی؟ یا یہ سمجھتے ہوئے ہیں کہ ہمارا مجمع اور جتھا بہت بڑا ہے۔ اور سب مل کر جب ایک دوسرے کی مدد پر آ جائیں گے تو سب بدلہ لے کر چھوڑیں گے اور کسی کو اپنے مقابلہ میں کامیاب نہ ہونے دیں گے۔

۴۵۔۔۔   یعنی عنقریب ان کو اپنے مجمع کی حقیقت کھل جائے گی جب مسلمانوں کے سامنے سے شکست کھا کر اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ چنانچہ "بدر" اور "احزاب" میں یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ "سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔

۴۶۔۔۔   یعنی یہاں کیا شکست کھائیں گے، ان کی شکست کا اصلی وقت تو وہ ہو گا جب قیامت سر پر آ کھڑی ہو گی۔ وہ بہت سخت مصیبت کا وقت ہو گا۔

۴۸۔۔۔    یعنی اس وقت غفلت کے نشہ میں پاگل بن رہے ہیں۔ یہ سودا دماغ میں سے اس وقت نکلے گا جب اوندھے منہ دوزخ کی آگ میں گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لو! اب ذرا اس کا مزہ چکھو۔

۴۹۔۔۔      یعنی ہر چیز جو پیش آنے والی ہے اللہ کے علم میں پہلے سے ٹھہر چکی ہے دنیا کی عمر اور قیامت کا وقت بھی اس کے علم میں ٹھہرا ہوا ہے اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔

۵۰۔۔۔   یعنی ہم چشم زدن میں جو چاہیں کر ڈالیں کسی چیز کے بنانے یا بگاڑنے میں ہم کو دیر نہیں لگتی نہ کچھ مشقت ہوتی ہے۔

۵۱۔۔۔     یعنی تمہاری قماش کے بہت سے کافروں کو پہلے تباہ کر چکے ہیں۔ پھر تم میں کوئی اتنا سوچنے والا نہیں کہ ان کے حال سے عبرت حاصل کر سکے۔

۵۲۔۔۔  یعنی ہر ایک نیکی بدی عمل کے بعد ان کے اعمالناموں میں لکھی گئی ہے۔ وقت پر ساری مسل سامنے کر دی جائے گی۔

۵۳۔۔۔   یعنی اس سے قبل ہر چھوٹی بڑی چیز کی تفصیل "لوح محفوظ" میں لکھی جا چکی۔ تمام دفاتر باقاعدہ مرتب ہیں کوئی چھوٹی موٹی چیز بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتی۔

۵۵۔۔۔   مجرمین کے بعد یہ متقین کا انجام بیان فرما دیا کہ وہ اپنی سچائی کی بدولت اللہ و رسول کے سچے وعدوں کے موافق ایک پسندیدہ مقام میں ہوں گے جہاں اس شنہشاہ مطلق کا قرب حاصل ہو گا۔ "اللّٰہُمَّ اِنَّکَ مَلِیْکٌ مَقْتَدِرٌ۔ مَاتَشَآءُ مِنْ اَمْرٍیَّکُونُ فَاسْعِدْنِیْ فِیْ الدَّارَیْنِ وَکُنْ لِّیْ وَلَا تَکُنْ عَلیَّ وَاَتِنِی فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاَخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنِی عَذَابَ النَّارِ۔" تم سورۃ القمر وللّٰہ الحمد والمنۃ۔