۲۔۔۔ جو اس کے عطایا میں سب سے بڑا عطیہ اور اس کی نعمتوں میں سب سے اونچی نعمت و رحمت ہے، انسان کی بساط اور اس کے ظرف پر خیال کرو اور علم قرآن کے اس دریائے ناپید اکنار کو دیکھو، بلاشبہ ایسی ضعیف البنیان ہستی کو آسمانوں اور پہاڑوں سے زیادہ بھاری چیز کا حامل بنا دینا رحمان ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ ورنہ کہاں بشر اور کہاں خدا کا کلام۔ (تنبیہ) سورہ "النجم" میں فرمایا تھا۔ "علمہ شدید القویٰ الخ" یہاں کھول دیا کہ قرآن کا اصلی معلم اللہ ہے گو فرشتہ کے توسط سے ہو۔
۴۔۔۔ "ایجاد" (وجود عطا فرمانا) اللہ کی بڑی نعمت بلکہ نعمتوں کی جڑ ہے اس کی دو قسمیں ہیں، ایجادِ ذات، اور ایجادِ صفت تو اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ذات کو پیدا کیا اور اس میں علم بیان کی صفت بھی رکھی۔ یعنی قدرت دی کہ اپنے مافی الضمیر کو نہایت صفائی اور حسن و خوبی سے ادا کر سکے اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔ اسی صفت کے ذریعہ سے وہ قرآن سیکھتا سکھاتا ہے۔ اور خیر و شر، ہدایت و ضلالت، ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتوں کو واضح طور پر سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔
۵۔۔۔ یعنی دونوں کا طلوع و غروب، گھٹنا بڑھنا، یا ایک حالت پر قائم رہنا، پھر ان کے ذریعہ سے فصول و مواسم کا بدلنا اور سفلیات پر مختلف طرح سے اثر ڈالنا، یہ سب کچھ ایک خاص حساب اور ضابطہ اور مضبوط نظام کے ماتحت ہے۔ مجال نہیں کہ اس کے دائرہ سے باہر قدم رکھ سکیں اور اپنے مالک و خالق کے دیے ہوئے احکام سے روگردانی کر سکیں۔ اس نے اپنے بندوں کی جو خدمات اور دنوں کے سپرد کر دی ہیں۔ ان میں کوتاہی نہیں کر سکتے۔ ہمہ وقت ہماری خدمت میں مشغول ہیں۔
۶۔۔۔ یعنی علویات کی طرح سفلیات بھی اپنے مالک کی مطیع و منقاد ہیں۔ چھوٹے جھاڑ، زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں اور اونچے درخت سب اس کے حکم تکوینی کے سامنے سربسجود ہیں۔ بندے ان کو اپنے کام میں لائیں تو انکار نہیں کر سکتے۔
۹۔۔۔ اوپر سے دو دو چیزوں کے جوڑے بیان ہوتے چلے آ رہے تھے۔ یہاں بھی آسمان کی بلندی کے ساتھ آگے زمین کی پستی کا ذکر ہے۔ درمیان میں میزان (ترازو) کا ذکر شاید اس لیے ہو کہ عموماً ترازو کو تولتے وقت آسمان و زمین کے درمیان معلق رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اس تقدیر پر ہے کہ میزان سے مراد ظاہری اور حسی ترازو ہو۔ چونکہ اس کے ساتھ بہت سے معاملات کی درستی اور حقوق کی حفاظت وابستہ تھی۔ اس لیے ہدایت فرما دی کہ وضع میزان کی یہ غرض جب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ نہ لیتے وقت زیادہ تولو، نہ دیتے وقت کم، ترازو کے دونوں پلے اور باٹ بٹی میں کمی بیشی نہ ہو۔ نہ تولتے وقت ڈنڈی ماری جائے، بلکہ بدون کم بیشی کے دیانتداری کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک تولا جائے۔
(تنبیہ) اکثر سلف نے وضع میزان سے اس جگہ عدل کا قائم کرنا مراد لیا ہے یعنی اللہ نے آسمان سے زمین تک ہر چیز کو حق و عدل کی بنیاد پر اعلیٰ درجہ کے توازن و تناسب کے ساتھ قائم کیا۔ اگر عدل و حق ملحوظ نہ رہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بندے بھی عدل و حق کے جادہ پر مستقیم رہیں۔ اور انصاف کی ترازو کو اٹھنے یا جھکنے نہ دیں، نہ کسی پر زیادتی کریں نہ کسی کا حق دبائیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ عدل ہی سے زمین و آسمان قائم ہیں۔
۱۰۔۔۔ کہ اس پر آرام سے چلیں پھریں اور کاروبار جاری رکھیں۔
۱۲۔۔۔ یعنی پھل میوے بھی زمین سے نکلتے ہیں اور غلہ اناج بھی۔ پھر غلہ میں دو چیزیں ہیں۔ دانہ، جو انسانوں کی غذا ہے اور بھوسہ جو جانوروں کے لیے ہے۔ اور بعض چیزیں زمین میں وہ پیدا ہوتی ہیں جو کھانے کے کام نہیں آتیں لیکن ان کی خوشبو وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے
۱۳۔۔۔ یعنی اے جن و انس! اوپر کی آیات میں تمہارے رب کی جو عظیم الشان نعمتیں اور قدرت کی نشانیاں بیان کی گئیں تم میں سے کس کس کے جھٹلانے کی جرأت کرو گے؟ کیا یہ نعمتیں اور نشانیاں ایسی ہیں جن میں سے کسی کا انکار کیا جا سکے؟ علماء نے ایک حدیث صحیح کی بناء پر لکھا ہے کہ جب کوئی شخص یہ آیت "فبای الاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن" سنے تو جواب دے "لاَ بِشَیْ ءٍ مِّنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ۔"(اے ہمارے رب! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمدو ثنا تیرے ہی لیے ہے)
(تنبیہ) گو جن کا ذکر تصریحاً پہلے نہیں ہوا۔ لیکن "انام" میں وہ شامل ہیں۔ اور "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُونِ" میں دونوں کا عبادت کے لیے پیدا ہونا مذکور ہے۔ یہ اس آیت کے بعد متصل ہی آدمی اور جن کی کیفیت تخلیق بتلائی گئی ہے، اور چند آیات کے بعد "سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّہَ الثَّقَلَانِ" اور "یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاِنْسِ" میں صریحاً جن و انس کو مخاطب کیا گیا ہے، یہ قرائن دلالت کرتے ہیں کہ یہاں مخاطب وہ ہی دونوں ہیں۔
۱۵۔۔۔ یعنی سب آدمیوں کے باپ آدم کو مٹی اور جنوں کے باپ کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔
۱۶۔۔۔ "الآئِ" کا ترجمہ عموماً "نعمت" کیا گیا ہے۔ لیکن ابن جریر نے بعض سلف سے "قدرت" کے معنی نقل کیے ہیں۔ اس لیے جس مقام پر جو معنی زیادہ چسپاں ہوں وہ اختیار کیے جائیں۔ یہاں اس سے پہلی آیت میں دونوں مطلب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ انس و جن کو خلعت وجود سے سرفراز فرمانا اور جمادلایعقل سے عاقل بنا دینا اللہ کی بڑی نعمت ہے اور اس کی لامحدود قدرت کی نشانی بھی ہے۔ (تنبیہ) یہ جملہ "فَبِاَیِّ اٰلآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ" اس سورت میں اکتیس مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ کسی خاص نعمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا شؤون عظمت و قدرت میں سے کسی خاص شان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس قسم کی تکرار عرب و عجم کے کلاموں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔
۱۷۔۔۔ جاڑے اور گرمی میں جس جس نقطہ سے سورج طلوع ہوتا ہے وہ دو مشرق اور جہاں جہاں غروب ہوتا ہے وہ دو مغرب ہوئیں۔ ان ہی مشرقین اور مغربین کے تغیر و تبدیل سے موسم اور فصلیں بدلتی ہیں۔ اور طرح طرح کے انقلابات ہوتے ہیں۔ زمین والوں کے ہزارہا فوائد و مصالح ان تغیرات سے وابستہ ہیں تو ان کا ادل بدل بھی خدا کی بڑی نعمت اور اس کی قدرت عظیمہ کی نشانی ہوئی۔ (تنبیہ) آیت سے پہلے اور پیچھے دور تک دو دو چیزوں کے جوڑے بیان ہوئے ہیں اس لیے یہاں مشرقین و مغربین کا ذکر نہایت ہی لطف دیتا ہے۔
۲۰۔۔۔ یعنی ایسا نہیں کہ میٹھا اور کھاری پانی ایک دوسرے پر چڑھائی کر کے اس کی خاصیت وغیرہ کو بالکلیہ زائل کر دے یا دونوں مل کر دنیا کو غرق کر ڈالیں۔ اس آیت کے مضمون کے متعلق کچھ تقریر سورہ "فرقان" کے اواخر میں گزر چکی ہے۔ اس کو ملاحظہ کر لیا جائے۔
۲۴۔۔۔ یعنی کشتیاں اور جہاز گو بظاہر تمہارے بنائے ہوئے ہیں مگر خود تم کو اللہ نے بنایا اسی نے وہ قوتیں اور سامان عطا کیے جن سے جہاز تیار کرتے ہو۔ لہٰذا تم اور تمہاری مصنوعات سب کا مالک وہ خالق وہ ہی خدا ہوا۔ اور یہ سب اسی کی نعمتیں اور قدرت کی نشانیاں ہوئی (تنبیہ) یہ جملہ پہلے جملہ " یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّوْلُؤُ الخ"کے مقابل ہے، یعنی دریا کے نیچے سے وہ نعمتیں نکلتی ہیں اور اوپر یہ نعمتیں موجود ہیں۔
۲۷۔۔۔ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق زبان حال و قال سے اپنی حاجات اسی خدا سے طلب کرتی ہے۔ کسی کو ایک لمحہ کے لیے اس سے استغناء نہیں۔ اور وہ بھی سب کی حاجت روائی اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ ہر وقت اس کا الگ کام اور ہر روز اس کی نئی شان ہے۔ کسی کو مارنا، کسی کو جلانا، کسی کو بیمار کرنا، کسی کو تندرست کر دینا، کسی کو بڑھانا، کسی کو گھٹانا کسی کو دینا، کسی سے لینا اس کی شؤن میں داخل ہیں۔ وقس علیٰ ہذا۔
۲۹۔۔۔ یعنی دنیا کے یہ کام اور دھندے عنقریب ختم ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد ہم دوسرا دور شروع کریں گے۔ جب تم دونوں بھاری قافلوں (جن و انس) کا حساب کتاب ہو گا مجرموں کی پوری طرح خبر لی جائے گی۔ اور وفا داروں کو پور اصلہ دیا جائے گا۔
۳۳۔۔۔ یعنی اللہ کی حکومت سے کوئی چاہے کہ نکل بھاگے تو بدون قوت اور غلبہ کے کیسے بھاگ سکتا ہے کیا خدا سے زیادہ کوئی قوی اور زور آور ہے۔ پھر نکل کر جائے گا کہاں، دوسری قلمرو کون سی ہے جہاں پناہ لے گا۔ نیز دنیا کی معمولی حکومتیں بدون سند اور پروانہ راہداری کے اپنی قلمرو سے نکلنے نہیں دیتیں تو اللہ بدون سند کے کیوں نکلنے دے گا۔
۳۴۔۔۔ یعنی اس طرح کھول کھول کر سمجھانا اور تمام نشیب و فراز پر متنبہ کرنا کتنی بڑی نعمت ہے۔ کیا اس نعمت کی تم قدر نہیں کرو گے اور اللہ کی ایسی عظیم الشان قدرت کو جھٹلاؤ گے۔
۳۵۔۔۔ یعنی جس وقت مجرموں پر آگ کے صاف شعلے اور دھواں ملے ہوئے شرارے چھوڑے جائیں گے کوئی ان کو دفع نہ کر سکے گا۔ اور نہ وہ اس سزا کا کچھ بدلہ لے سکیں گے۔
۳۶۔۔۔ مجرموں کو سزا دینا بھی وفا داروں کے حق میں انعام ہے اور اس سزا کا بیان کرنا تاکہ لوگ سن کر اس جرم سے باز رہیں، یہ مستقل انعام ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ہر آیت میں نعمت جتائی کوئی اب نعمت ہے اور کسی کی خبر دینا نعمت ہے، کہ اس سے بچیں۔
۳۷۔۔۔ یعنی قیامت کے دن آسمان پھٹے گا اور رنگ میں لال تری کی طرح ہو جائے گا۔
۳۹۔۔۔ یعنی کسی آدمی یا جن سے اس کے گناہوں کے متعلق معلوم کرنے کی غرض سے سوال نہ کیا جائے گا کیونکہ خدا کو پہلے سے سب کچھ معلوم ہے۔ ہاں بطور الزام و توبیخ ضابطہ کا سوال کریں گے۔ کما قال "فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔" (حجر، رکوع۶) یا یہ مطلب ہو کہ قبروں سے اٹھتے وقت سوال نہ ہو گا بعد میں ہونا اس کے منافی نہیں۔
۴۱۔۔۔ ۱: یعنی چہروں کی سیاہی اور آنکھوں کی نیلگونی سے مجرم خود بخود پہچانے جائیں گے جیسے مومنین کی شناخت سجدہ اور وضو کے آثار و انوار سے ہو گی۔
۲: یعنی کسی کے بال اور کسی کی ٹانگ پکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ یا ہر ایک مجرم کی ہڈیاں پسلیاں توڑ کر پیشانی کو پاؤں سے ملا دیں گے اور زنجیر وغیرہ سے جکڑ کر دوزخ میں ڈالیں گے۔
۴۳۔۔۔ یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ یہ وہ ہی دوزخ ہے جس کا دنیا میں انکار کیا کرتے تھے۔
۴۴۔۔۔ یعنی کبھی آگ کا اور کبھی کھولتے پانی کا عذاب ہو گا۔ (اعاذنا اللہ منہما ومن سائر انواع العذاب)
۴۶۔۔۔ یعنی جس کو دنیا میں ڈر لگا رہا کہ ایک روز اپنے رب کے آگے کھڑا ہونا اور رتی رتی کا حساب دینا ہے۔ اور اسی ڈر کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی سے بچتا رہا اور پوری طرح تقویٰ کے راستوں پر چلا اس کے لیے وہاں دو عالیشان باغ ہیں جن کی صفات آگے بیان کی گئی ہیں۔
۴۸۔۔۔ یعنی مختلف قسم کے پھل ہوں گے اور درختوں کی شاخیں نہایت پر میوہ اور سایہ دار ہوں گی۔
۵۰۔۔۔ یعنی جو کسی وقت تھمتے نہیں۔ نہ خشک ہوتے ہیں۔
۵۴۔۔۔ ۱: جب ان کا استر دبیز ریشم کا ہو گا تو ابرے کو اسی سے قیاس کر لو۔ کیسا کچھ ہو گا۔
۲: جس کے چننے میں کلفت نہ ہو گی۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حالت میں بے تکلف متمتع ہو سکیں گے۔
۵۶۔۔۔ یعنی ان کی عصمت کو کسی نے بھی چھوا، نہ انہوں نے اپنے ازواج کے سوا کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔
۵۸۔۔۔ یعنی ایسی خوش رنگ اور بیش بہا۔
۶۰۔۔۔ یعنی نیک بندگی کا بدلہ نیک ثواب کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ان جنتیوں نے دنیا میں اللہ کی انتہائی عبادت کی تھی۔ گویا وہ اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ اللہ نے ان کو انتہائی بدلہ دیا۔ "فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌّ مَّااُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعُیُنٍ
۶۲۔۔۔ شاید پہلے دو باغ مقربین کے لیے تھے اور یہ دونوں اصحاب یمین کے لیے ہیں۔ واللہ اعلم۔
۶۴۔۔۔ سبزی جب زیادہ گہری ہوتی ہے تو سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔
۶۸۔۔۔ مگر یہاں کے انار اور کھجوروں پر قیاس نہ کیا جائے۔ ان کی کیفیت اللہ ہی جانے۔
۷۰۔۔۔ یعنی اچھے اخلاق کی خوبصورت اور خوب سیرت۔
۷۲۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت ذات کی خوبی گھر میں رُکے رہنے ہی سے ہے۔
۷۸۔۔۔ یعنی جس نے اپنے وفا داروں پر ایسے احسان و انعام فرمائے اور غور کرو تو تمام نعمتوں میں اصلی خوبی اسی کے نام پاک کی برکت سے ہے۔ اسی کا نام لینے سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں پھر سمجھ لو جس کے اسم میں اس قدر برکت ہے مسمی میں کیا کچھ ہو گی۔ "وَنَسْئَالُ الہُ الْکَرِیْمَ الْوَہَابَ ذَالْجَلَالِ وَاْلِاکْرَامِ اَنْ یَّجْعَلَنَا مِنْ اَہْلِ الْجَنَّتَیْنِ الْاَوْلَیَیْنِ۔" اٰمین۔ تم سورۃ الرحمن وللّٰہ الحمد والمنۃ۔