۲۔۔۔ یعنی قیامت جب ہو پڑے گی اس وقت کھل جائے گا کہ یہ کوئی جھوٹی بات نہیں۔ نہ اسے کوئی ٹال سکے گا۔ نہ واپس کر سکے گا۔ اور "لَا یَبْعَثَ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ" وغیرہ کے جھوٹے دعوے سب ختم ہو جائیں۔ کوئی شخص جھوٹی تسلیوں سے اس دن کی ہولناک سختیوں کو گھٹانا چاہے یہ بھی نہ ہو گا۔
۳۔۔۔ یعنی ایک گروہ کو نیچے لے جاتی ہے اور ایک گروہ کو اوپر اٹھاتی ہے۔ بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں بہت معزز اور سربلند سمجھے جاتے تھے اسفل السافلین کی طرف دھکیل کر دوزخ میں پہنچا دے گی اور کتنے ہی متواضعین کو جو دنیا میں پست اور حقیر نظر آتے تھے، ایمان و عمل صالح کی بدولت جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز کرے گی۔
۶۔۔۔ یعنی زمین میں سخت زلزلہ آئے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑتے پھریں گے۔
۷۔۔۔ یعنی وقوعِ قیامت کے بعد کل آدمیوں کی تین قسمیں کر دی جائیں گی۔ دوزخی، عام جنتی، اور خواص مقربین جو جنت کے نہایت اعلیٰ درجات پر فائز ہوں گے۔ آگے تینوں کا مجملاً ذکر کرتے ہیں۔ پھر ان کے احوال کی تفصیل بیان ہو گی۔
۸۔۔۔ یعنی جو لوگ عرشِ عظیم کی داہنی طرف ہوں گے جن کو اخذ میثاق کے وقت آدم کے داہنے پہلو سے نکالا گیا تھا اور ان کا اعمال نامہ بھی داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے بھی ان کو داہنی طرف سے لیں گے۔ اس روز ان کی خوبی و برکت کا کیا کہنا، شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ہی کی نسبت دیکھا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام اپنی داہنی طرف نظر کر کے ہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں۔
۹۔۔۔ یہ لوگ آدم کے بائیں پہلو سے نکالے گئے، عرش کے بائیں جانب کھڑے کیے جائیں گے۔ اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے بائیں طرف سے ان کو پکڑیں گے، ان کی نحوست اور بدبختی کا کیا ٹھکانہ۔
۱۲۔۔۔ یعنی جو لوگ کمالات علمیہ و عملیہ اور مراتب تقویٰ میں دوڑ کر اصحاب یمین سے آگے نکل گئے۔ وہ حق تعالیٰ کی رحمتوں اور مراتب قرب و وجاہت میں بھی سب سے آگے ہیں۔ ("وَہُمُ الْاَنْبِیَآءُ وَالرُّسُلُ وَالصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّہَدَاءُ یَکُوْنُونَ بَیْنَ یَدَیرَبِّہِمْ عَزّوجل" کما قال ابن کثیر)
۱۴۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "پہلے کہا، پہلی امتوں کو، اور پچھلی یہ امت (محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم) یا پہلے اسی امت کے (مراد ہوں) یعنی اعلیٰ درجہ کے لوگ پہلے بہت ہو چکے ہیں۔ پیچھے کم ہوتے ہیں۔" (تنبیہ) اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر میں یہ دونوں احتمال بیان کیے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے دوسرے احتمال کو ترجیح دی اور روح المعانی میں طبرانی وغیرہ سے ایک حدیث ابوبکرہ کی بسند حسن نقل کی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت کے متعلق فرمایا "ہُمَا جَمِیْعًا مِنْ ہٰذِہِ الامۃ۔"واللہ اعلم۔ ابن کثیر نے ایک تیسرا مطلب آیت کا بیان کیا ہے۔ احقر کو وہ پسند ہے۔ یعنی ہر امت کے پہلے طبقہ میں نبی کی صحبت یا قرب عہد کی برکت سے اعلیٰ درجہ کے مقربین جس کثرت سے ہوئے ہیں، پچھلے طبقوں میں وہ بات نہیں رہی۔ کما قال صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ "خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُم" ہاں اگر ابوبکرہ کی حدیث صحیح ہو جیسا کہ روح المعانی میں ہے تو ظاہر ہے وہ ہی مطلب متعین ہو گا۔
۱۵۔۔۔ جو سونے کے تاروں سے بنے گئے ہیں۔
۱۶۔۔۔ یعنی نشست ایسی ہو گی کہ کسی ایک کی پیٹھ دوسرے کی طرف نہ رہے گی۔
۱۷۔۔۔ یعنی خدمت کے لیے لڑکے ہوں گے جو سدا ایک حالت پر رہیں گے۔
۱۹۔۔۔ یعنی نتھری اور صاف شراب جس کے قدرتی چشمے جاری ہوں گے اس کے پینے سے نہ سرگرانی ہو گی نہ بکواس لگے گی کیونکہ اس میں نشہ نہ ہو گا۔ خالص سرور اور لذت ہو گی۔
۲۱۔۔۔ یعنی جس وقت جو میوہ پسند ہو اور جس قسم کا گوشت مرغوب ہو بدون محنت و تعب کے پہنچے گا۔
۲۳۔۔۔ یعنی صاف موتی کی طرح جس پر گردو غبار کا ذرا بھی اثر نہ آیا ہو۔
۲۶۔۔۔ یعنی لغو اور واہیات باتیں وہاں نہیں ہوں گی نہ کوئی جھوٹ بولے گا نہ کسی پر جھوٹی تہمت رکھے گا۔ بس ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آئیں گی۔ یعنی جنتی ایک دوسرے کو اور فرشتے جنتیوں کو سلام کریں گے۔ اور رب کریم کا سلام پہنچے گا جو بہت ہی بڑے اعزاز و ا کرام کی صورت ہے اور سلام کی یہ کثرت اس کی طرف اشارہ ہے کہ اب یہاں پہنچ کر تم تمام آفات اور مصائب سے محفوظ اور صحیح و سالم رہو گے نہ کسی طرح کا آزار پہنچے گا نہ موت آئے گی نہ فنا۔
۲۸۔۔۔ جو قسم قسم کے مزیدار پھلوں سے لدے ہوں گے۔
۳۰۔۔۔ یعنی نہ دھوپ ہو گی نہ گرمی سردی لگے گی۔ نہ اندھیرا ہو گا۔ صبح کے بعد اور طلوع شمس سے پہلے جیسا درمیانی وقت ہوتا ہے ایسا معتدل سایہ سمجھو اور لمبا پھیلا ہوا اتنا کہ بہترین تیز رفتار گھوڑا سو برس تک متواتر چلتا رہے تو ختم نہ ہو۔
۳۳۔۔۔ بہت قسم کا میوہ، نہ پہلے اس میں سے کسی نے توڑا نہ دنیا کے موسمی میووں کی طرح آئندہ ختم ہو نہ اس کے لینے میں کسی قسم کی روک ٹوک پیش آئے۔
۳۴۔۔۔ یعنی بیحد دبیز اور اونچے ظاہر میں بھی اور رتبہ میں بھی۔
۳۸۔۔۔ یعنی حوریں اور دنیا کی عورتیں جو جنت میں ملیں گی وہاں ان کی پیدائش اور اٹھان خدا کی قدرت سے ایسی ہو گی کہ ہمیشہ خوبصورت جوان بنی رہیں گی۔ جن کی باتوں اور طرزو انداز پر بے ساختہ پیار آئے اور سب کو آپس میں ہم عمر رکھا جائے گا اور ان کے ازواج کے ساتھ بھی عمر کا تناسب برابر قائم رہے گا۔
۴۰۔۔۔ یعنی اصحاب یمین پہلوں میں بھی بکثرت ہوئے ہیں اور پچھلوں میں بھی ان کی بہت کثرت ہو گی۔
۴۴۔۔۔ یعنی دوزخ کے آگے سے کالا دھواں اٹھے گا۔ اس کے سائے میں رکھے جائیں گے۔ جس سے کوئی جسمانی یا روحانی آرام نہ ملے گا۔ نہ ٹھنڈک پہنچے گی۔ نہ وہ عزت کا سایہ ہو گا۔ ذلیل و خوار اس کی تپش میں بھنتے رہیں گے۔ یہ ان کی دنیاوی خوشحالی کا جواب ہوا جس کے غرور میں اللہ و رسول سے ضد باندھی تھی۔
۴۶۔۔۔ وہ بڑا گناہ کفرو شرک ہے اور تکذیب انبیاء یا جھوٹی قسمیں کھا کر یہ کہنا کہ مرنے کے بعد ہرگز کوئی زندگی نہیں۔ کما قال تعالیٰ "وَاَقْسَمُوا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لاَ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوتُ" (نحل، رکوع۵'آیت ۳۸)
۴۸۔۔۔ جو ہم سے بھی پہلے مر چکے۔ یعنی یہ بات کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔
۵۰۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جس کا وقت اللہ کے علم میں مقرر ہے۔
۵۳۔۔۔ یعنی جب بھوک سے مضطر ہوں گے تو یہ درخت کھانے کو ملے گا اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا۔
۵۵۔۔۔ یعنی گرمی میں تونسا ہوا اونٹ جیسے پیاس کی شدت سے ایک دم پانی چڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ ہی حال دوزخیوں کا ہو گا لیکن وہ گرم پانی جب منہ کے قریب پہنچائیں گے تو منہ کو بھون ڈالے گا، اور پیٹ میں پہنچے گا تو آنتیں کٹ کر باہر آپڑیں گی۔ (العیاذ باللہ)
۵۶۔۔۔ یعنی انصاف کا مقتضاء یہ ہی تھا کہ ان کی مہمانی اس شان سے کی جائے۔
۵۷۔۔۔ یعنی اس بات کو کیوں نہیں مانتے کہ پہلے بھی اس نے پیدا کیا اور وہ ہی دوبارہ پیدا کرے گا۔
۵۹۔۔۔ یعنی رحمِ مادر میں نطفہ سے انسان کون بناتا ہے۔؟ وہاں تو تمہارا کسی کا ظاہری تصرف بھی نہیں چلتا۔ پھر ہمارے سوا کون ہے جو پانی کے قطرہ پر ایسی خوبصورت تصویر کھینچتا اور اس میں جان ڈالتا ہے۔
۶۰۔۔۔ یعنی جلانا مارنا سب ہمارے قبضے میں ہے۔ جب وجود و عدم کی باگ ہمارے ہاتھ میں ہوئی تو مرنے کے بعد اٹھا دینا کیا مشکل ہو گا۔
۶۱۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔"یعنی تم کو اور جہان میں لے جائیں۔ تمہاری جگہ یہاں اور خلقت بسا دیں۔
۶۲۔۔۔ یعنی پہلی پیدائش کو یاد کر کے دوسری کو بھی سمجھ لو۔
۶۴۔۔۔ یعنی بظاہر بیج زمین میں تم ڈالتے ہو لیکن زمین کے اندر اس کی پرورش کرنا پھر باہر نکال کر ایک لہلہاتی کھیتی بنا دینا کس کا کام ہے اس کے متعلق تو ظاہری اور سطحی دعویٰ بھی تم نہیں کر سکتے کہ ہماری تیار کی ہوئی ہے۔
۶۷۔۔۔ یعنی کھیتی پیدا کرنے کے بعد اس کا محفوظ اور باقی رکھنا بھی ہمارا ہی کام ہے۔ ہم چاہیں تو کوئی آفت بھیج دیں جس سے ایک دم میں ساری کھیتی تہس نہس ہو کر رہ جائے پھر تم سر پکڑ کر روؤ اور آپس میں بیٹھ کر باتیں بنانے لگو کہ میاں ہمارا تو بڑا بھاری نقصان ہو گیا۔ بلکہ سچ پوچھو تو بالکل خالی ہاتھ ہو گئے۔
۶۹۔۔۔ یعنی بارش بھی ہمارے حکم سے آتی ہے اور زمین کے خزانوں میں وہ پانی ہم ہی جمع کرتے ہیں۔ تم کو کیا قدرت تھی کہ پانی بنا لیتے یا خوشامد اور زبردستی کر کے بادل سے چھین لیتے۔
۷۰۔۔۔ یعنی ہم چاہیں تو میٹھے پانی کو بدل کر کھاری کڑوا بنا دیں جو نہ پی سکو نہ کھیتی کے کام آئے۔ پھر احسان نہیں مانتے کہ ہم نے میٹھے پانی کے کتنے خزانے تمہارے ہاتھ میں دے رکھے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پانی پی کر فرماتے تھے۔ "ا۔ "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ سَقَانَاہُ عَذْبًا فُرَاتاً بِرَحْمَتِہٖ وَلَمْ یَجْعَلْہُ مِلْحًا اُجَاجًا بِذُنُوبِنَا۔" (ابن کثیر)
۷۲۔۔۔ عرب میں کئی درخت سبز ایسے ہیں جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے جیسے ہمارے ہاں بانس، پہلے سورہ "یس" میں اس کا بیان ہو چکا۔ یعنی ان درختوں میں آگ کس نے رکھی ہے۔ تم نے یا ہم نے۔
۷۳۔۔۔ ۱: یعنی یہ آگ دیکھ کر دوزخ کی آگ کو یاد کریں کہ یہ بھی اسی کا ایک حصہ اور ادنیٰ نمونہ ہے اور سوچنے والے کو یہ بات بھی یاد آ سکتی ہے کہ جو خدا سبز درخت سے آگ نکالنے پر قادر ہے وہ یقیناً مردہ کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہو گا۔
۲: جنگل والوں اور مسافروں کو آگ سے بہت کام پڑتا ہے۔ خصوصاً جاڑے کے موسم میں۔ اور یوں تو سب ہی کا کام اس سے چلتا ہے۔ (تنبیہ) بعض روایات کی بناء پر علماء نے مستحب سمجھا ہے کہ ان آیات میں ہر جملہ استفہامیہ کو تلاوت کرنے کے بعد کہے "بل انت یا رب
۷۴۔۔۔ جس نے ایسی مختلف اور کار آمد چیزیں پیدا کیں اور خالص اپنے فضل و احسان سے ہم کو منتفع کیا اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور منکرین کی گھڑی ہوئی خرافات سے اس کی اور اس کے نام مبارک کی پاکی بیان کرنا چاہیے۔ تعجب ہے کہ لوگ ایسی آیات باہرہ دیکھنے کے بعد بھی اس کی قدرت و وحدانیت کو کما حقہ نہیں سمجھتے۔
۷۵۔۔۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ قسم کھاتا ہوں آیتوں کے اترنے کی پیغمبروں کے دلوں میں (موضح) یا آیاتِ قرآن کے اترنے کی آسمان سے زمین پر، آہستہ آہستہ، تھوڑی تھوڑی۔
۷۹۔۔۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی فرشتے اس کتاب کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ وہ کتاب یہ ہی قرآن لکھا ہوا ہے فرشتوں کے ہاتھوں میں یا لوح محفوظ میں۔" اور بعض نے "لا یَمَسُّہُ" کی ضمیر قرآن کی طرف راجع کی ہے یعنی اس قرآن کو نہیں چھوتے مگر پاک لوگ، یعنی جو صاف دل اور پاک اخلاق رکھتے ہیں۔ وہ ہی اس کے علوم و حقائق تک ٹھیک رسائی پا سکتے ہیں۔ یا اس قرآن کو نہ چھوئیں مگر پاک لوگ، یعنی بدون وضو کے ہاتھ لگانا جائز نہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اس وقت "لایمسہ" کی نفی نہیں کے لیے ہو گی۔
۸۰۔۔۔ یعنی یہ کوئی جادو ٹوٹکا نہیں نہ کاہنوں کی زٹیل اور بے سروپا باتیں ہیں نہ شاعرانہ تُک بندیاں بلکہ بڑی مقدس و معزز کتاب ہے جو رب العالمین نے عالم کی ہدایت و تربیت کے لیے اتاری، جس خدا نے چاند سورج اور تمام ستاروں کا نہایت محکم اور عجیب و غریب نظام قائم کیا، یہ ستارے ایک اٹل قانون کے ماتحت اپنے روزانہ غروب سے اسی کی عظمت و وحدانیت اور قاہرانہ تصرف و اقتدار کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہیں (کما احتج بہ ابراہیم علیٰ قومہ) اور زبانِ حال سے شہادت دیتے ہیں کہ جس اعلیٰ و برتر ہستی اور سلطۃ غیبیہ کے ہاتھ میں ہماری باگ ہے وہ ہی اکیلا زمین، بادل، پانی، آگ، ہوا، مٹی اور کائنات کے ذرے ذرے کا مالک و خالق ہو گا۔ کیا ایسے روشن آسمانی نشانات کو دیکھ کر ان مضامین کی صداقت میں کوئی شبہ رہ سکتا ہے جو پہلے رکوع میں بیان ہوئے ہیں۔ اور کیا ایک عاقل اس عظیم الشان نظام فلکی پر نظر ڈال کر اتنا نہیں سمجھ سکتا کہ ایک دوسرا باطنی نظام شمسی بھی جو قرآنِ کریم اور اس کی آیات یا تمام کتب و صحف سماویہ سے عبارت ہے، اسی پروردگارِ عالم کا قائم کیا ہوا ہے جس نے اپنی قدرت و رحمت کاملہ سے یہ ظاہری نظام قائم فرمایا۔ وہ ہی پاک خدا ہے جس نے روحانی ستاروں کے غروب ہونے کے بعد آفتابِ قرآن کو چمکایا۔ اور اپنی مخلوق کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا۔ آج تک یہ آفتاب برابر چمک رہا ہے۔ کس کی مجال ہے جو اس کو بدل سکے یا غائب کر دے۔ اس کے انوار اور شعاعیں ان ہی دلوں میں پوری طرح منعکس ہوتی ہیں جو مانجھ کر پاک و صاف کر لیے جائیں۔
۸۲۔۔۔ یعنی کیا یہ ایسی دولت ہے جس سے منتفع ہونے میں تم سستی اور کاہلی کرو۔ اور اپنا حصہ اتنا ہی سمجھو کہ ان کو اور اس کے بتلائے ہوئے حقائق کو جھٹلاتے رہو، جیسے بارش کو دیکھ کر کہہ دیا کرتے ہو کہ فلاں ستارہ فلاں برج میں آگیا تھا اس سے بارش ہو گئی۔ گویا خدا سے کوئی مطلب ہی نہیں۔ اسی طرح اس بارانِ رحمت کی قدر نہ کرنا جو قرآن کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور یہ کہہ دینا کہ وہ اللہ کی اتاری ہوئی نہیں، سخت بدبختی اور حرماں نصیبی ہے۔ کیا ایک نعمت کی شکر گزاری یہ ہی ہے کہ اس کو جھٹلایا جائے۔
۸۷۔۔۔ یعنی ایسی بے فکری اور بے خوفی سے اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہو، گویا تم کسی دوسرے کے حکم اور اختیار میں نہیں، یا کبھی مرنا اور خدا کے ہاں جانا ہی نہیں۔ اچھا جس وقت تمہارے کسی عزیز و محبوب کی جان نکلنے والی ہو، سانس حلق میں اٹک جائے، موت کی سختیاں گزر رہی ہوں اور تم پاس بیٹھے اس کی بے بسی اور درماندگی کا تماشا دیکھتے ہو، اور دوسری طرف خدا یا اس کے فرشتے تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہیں جو تمہیں نظر نہیں آتے اگر تم کسی دوسرے کے قابو میں نہیں تو اس وقت کیوں اپنے پیارے کی جان کو اپنی طرف نہیں پھیر لیتے اور کیوں با دلِ نخواستہ اپنے سے جدا ہونے دیتے ہو دنیا کی طرف واپس لا کر اسے آنے والی سزا سے کیوں بچا نہیں لیتے۔ اگر اپنے دعووں میں سچے ہو تو ایسا کر دکھاؤ۔
۹۱۔۔۔ یعنی تم ایک منٹ کے لیے نہیں روک سکتے۔ اس کو اپنے ٹھکانے پر پہنچنا ضروری ہے۔ اگر وہ مردہ مقربین میں سے ہو گا تو اعلیٰ درجہ کی روحانی و جسمانی راحت و عیش کے سامانوں میں پہنچ جائے گا۔ اور "اصحاب یمین" میں سے ہو تب بھی کچھ کھٹکا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی خاطر جمع رکھ ان کی طرف سے۔" یا یہ مطلب ہے کہ اصحابِ یمین کی طرف سے اس کو سلام پہنچنے گا۔ یا اس کو کہا جائے گا کہ تیرے لیے آئندہ سلامتی ہی سلامتی ہے، اور تو "اصحابِ یمین" میں شامل ہے۔ بعض احادیث میں ہے کہ موت سے پہلے ہی مرنے والے کو یہ بشارتیں مل جاتی ہیں۔ اور اسی طرح مجرموں کو ان کی بدحالی کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔
۹۴۔۔۔ یعنی اس کا انجام یہ ہو گا کہ مرنے سے پہلے خبر سنا دی جائے گی۔
۹۵۔۔۔ یعنی تمہاری تکذیب سے کچھ نہیں ہوتا۔ جو کچھ اس صورت میں مومنین اور مجرمین کی خبر دی گئی ہے بالکل یقینی ہے، اسی طرح ہو کر رہے گا۔ خواہ مخواہ شبہے پیدا کر کے اپنے نفس کو دھوکا نہ دو۔ بلکہ آنے والے وقت کی تیاری کرو۔
۹۶۔۔۔ یعنی تسبیح و تحمید میں مشغول رہو کہ یہ ہی وہاں کی بڑی تیاری ہے اس نیک مشغلہ میں لگ کر مکذبین کی دل آزار بیہودگیوں سے بھی یکسوئی رہتی ہے اور ان کے باطل خیالات کا رد بھی ہوتا ہے۔ یہاں سورت کے خاتمہ پر جی چاہتا ہے کہ وہ حدیث نقل کر دی جائے جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم فرمایا ہے۔ "عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ۔ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ" تم سورۃ الواقعہ وللّٰہ الحمد والمنۃ۔