۱ سورۂ حدید مکّیہ ہے یا مدنیّہ، اس میں چار۴ رکوع، انتیس۲۹ آیتیں، پانچ سو چوالیس۵۴۴ کلمے، دو ہزار چار سو چھہتّر۲۴۷۶ حروف ہیں۔
۳ مخلوق کو پیدا کر کے، یا یہ معنیٰ ہیں کہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔
۵ قدیم ہر شے سے قبل، اوّل بے ابتداء کہ وہ تھا اور کچھ نہ تھا۔
۶ ہر شے کے ہلاک و فنا ہونے کے بعد رہنے والا، سب فنا ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ رہے گا اس کے لئے انتہا نہیں۔
۷ دلائل و براہین سے یا یہ معنیٰ کہ غالب ہر شے پر۔
۸ حواس اس کے ادراک سے عاجز، یا یہ معنیٰ کہ ہر شے کا جاننے والا۔
۹ ایّامِ دنیا سے، کہ پہلا ا ن کا یک شنبہ اور پچھلا جمعہ ہے۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ اگر چاہتا تو طرفۃ العین میں پیدا کر دیتا لیکن اس کی حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ چھ کو اصل بنائے اور ان پر مدار رکھے۔
۱۰ خواہ وہ دانہ ہو یا قطرہ یا خزانہ ہو یا مردہ۔
۱۱ خواہ وہ نبات ہو یا دھات یا اور کوئی چیز۔
۱۲ رحمت و عذاب اور فرشتے اور بارش۔
۱۴ اپنے علم و قدرت کے ساتھ عموماً اور فضل و رحمت کے ساتھ خصوصاً۔
۱۵ تو تمہیں تمہارے حسبِ اعمال جزا دے گا۔
۱۶ اس طرح کہ رات کو گھٹاتا ہے اور دن کی مقدار بڑھاتا ہے۔
۱۷ دن گھٹا کر اور رات کی مقدار بڑھا کر۔
۱۸ دل کے عقیدے اور قلبی اسرار سب کو جانتا ہے۔
۱۹ جو تم سے پہلے تھے اور تمہارا جانشین کرے گا تمہارے بعد والوں کو۔ معنیٰ یہ ہیں کہ جو مال تمہارے قبضہ میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اس نے تمہیں نفع اٹھانے کے لئے دے دیئے ہیں تم حقیقتہً ان کے مالک نہیں ہو بمنزلۂ نائب و وکیل کے ہو انہیں راہِ خدا میں خرچ کرو اور جس طرح نائب اور وکیل کو مالک کے حکم سے خرچ کرنے میں کوئی تأمّل نہیں ہوتا تو تمہیں بھی کوئی تأمّل و تردّد نہ ہو۔
۲۰ اور برہانیں اور حجّتیں پیش کرتے ہیں اور کتابِ الٰہی سناتے ہیں اب تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے۔
۲۲ جب اس نے تمہیں پشتِ آدم علیہ السلام سے نکالا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۲۳ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر۔
۲۶ تم ہلاک ہو جاؤ گے اور مال اسی کی مِلک میں رہ جائیں گے اور تمہیں خرچ کرنے کا ثواب بھی نہ ملے گا اور اگر تم خدا کی راہ میں خرچ کرو تو ثواب بھی پاؤ۔
۲۷ جب کہ مسلمان کم اور کمزور تھے اس وقت جنہوں نے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ مہاجرین و انصار میں سے سابقین اوّلین ہیں ان کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو بھی ان کے ایک مُد کے برابر نہ ہو، نہ نصف مُد کے۔ مُد ایک پیمانہ ہے جس سے جَو ناپے جاتے ہیں۔
شانِ نزول : کلبی نے کہا کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ پہلے شخص ہیں جو اسلام لائے اور پہلے وہ شخص جس نے راہِ خدا میں مال خرچ کیا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی حمایت کی۔
۲۸ یعنی پہلے خرچ کرنے والوں سے بھی اور فتح کے بعد خرچ کرنے والوں سے بھی۔
۲۹ البتہ درجات میں تفاوت ہے قبلِ فتح خرچ کرنے والوں کا درجہ اعلیٰ ہے۔
۳۰ یعنی خوش دلی کے ساتھ راہِ خدا میں خرچ کرے اس انفاق کو اس مناسبت سے قرض فرمایا گیا ہے کہ اس پر جنّت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
۳۲ یعنی ان کے ایمان و طاعت کا نور۔
۳۳ اور جنّت کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
۳۴ جہاں سے آئے تھے یعنی موقف کی طرف جہاں ہمیں نور دیا گیا ہے وہاں نور طلب کر و یا یہ معنیٰ ہیں کہ تم ہمارا نور نہیں پا سکتے نور کی طلب کے لئے پیچھے لوٹ جاؤ پھر وہ نور کی تلاش میں واپس ہوں گے اور کچھ نہ پائیں گے دوبارہ مومنین کی طرف پھریں گے۔
۳۵ یعنی مومنین اور منافقین کے۔
۳۶ بعض مفسّرین نے کہا کہ وہی اعراف ہے۔
۳۷ اس سے جنّتی جنّت میں داخل ہوں گے۔
۳۸ یعنی اس دیوار کے اندرونی جانب جنّت۔
۴۰ دنیا میں نمازیں پڑھتے روزہ رکھتے۔
۴۳ اور تم باطل امیدوں میں رہے کہ مسلمانوں پر حوادث آئیں گے وہ تباہ ہو جائیں گے۔
۴۵ یعنی شیطان نے دھوکا دیا کہ اللہ تعالیٰ بڑا حلیم ہے تم پر عذاب نہ کرے گا اور نہ مرنے کے بعد اٹھنا، نہ حساب تم اس کے اس فریب میں آ گئے۔
۴۶ جس کو دے کر تم اپنی جان عذاب سے چھڑا سکو۔ بعض مفسّرین نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ آج نہ تم سے ایمان قبول کیا جائے، نہ توبہ۔
۴۷ شانِ نزول : حضرت اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے تو مسلمانوں کو دیکھا کہ آپس میں ہنس رہے ہیں فرمایا تم ہنستے ہو ابھی تک تمہارے رب کی طرف سے امان نہیں آئی اور تمہارے ہنسنے پر یہ آیت نازل ہوئی، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس ہنسی کا کَفّارہ کیا ہے ؟ فرمایا اتنا ہی رونا۔ اور اترنے والے حق سے مراد قرآنِ مجید ہے۔
۴۸ یعنی یہود و نصاریٰ کے طریقے اختیار نہ کریں۔
۴۹ یعنی وہ زمانہ جو ان کے اور ان کے انبیاء کے درمیان تھا۔
۵۰ اور یادِ الٰہی کے لئے نرم نہ ہوئے دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور مواعظ سے انہوں نے اعراض کیا۔
۵۲ مینھ برسا کر سبز ہ اُگا کر بعد اس کے کہ خشک ہو گئی تھی ایسے ہی دلوں کو سخت ہو جانے کے بعد نرم کرتا ہے اور انہیں علم و حکمت سے زندگی عطا فرماتا ہے۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ یہ تمثیل ہے ذکر کے دلوں میں اثر کرنے کی جس طرح بارش سے زمین کو زندگی حاصل ہوتی ہے ایسے ہی ذکرِ الٰہی سے دل زندہ ہوتے ہیں۔
۵۳ یعنی خوش دلی اور نیّتِ صالحہ کے ساتھ مستحقّین کو صدقہ دیا اور راہِ خدا میں خرچ کیا۔
۵۷ جو حشر میں ان کے ساتھ ہو گا۔
۵۸ جس میں وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں۔
۵۹ اور ان چیزوں میں مشغول رہنا اور ان سے دل لگانا دنیا ہے لیکن طاعتیں اور عبادتیں اور جو چیزیں کہ طاعت پر مُعِین ہوں اور وہ امورِ آخرت سے ہیں۔ اب اس زندگانی دنیا کی ایک مثال ارشاد فرمائی جاتی ہے۔
۶۰ اس کی سبزی جاتی رہی، پیلا پڑ گیا کسی آفتِ سماوی یا ارضی سے۔
۶۱ ریزہ ریزہ، یہی حال دنیا کی زندگی کا ہے جس پر طالبِ دنیا بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی امیدیں رکھتا ہے وہ نہایت جلد گزر جاتی ہے۔
۶۲ اس کے لئے جو دنیا کا طالب ہو اور زندگی لہو و لعب میں گزارے اور وہ آخرت کی پرواہ نہ کرے ایسا حال کافر کا ہوتا ہے۔
۶۳ جس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دی۔
۶۴ یہ اس کے لئے ہے جو دنیا ہی کا ہو جائے اور اس پر بھروسہ کر لے اور آخرت کی فکر نہ کرے اور جو شخص دنیا میں آخرت کا طالب ہو اور اسبابِ دنیوی سے بھی آخرت ہی کے لئے علاقہ رکھے تو اس کے لئے دنیا کی کامیابی آخرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ذوالنّون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے گروہِ مرید ین دنیا طلب نہ کرو اور اگر طلب کرو تو اس سے محبّت نہ کرو توشہ یہاں سے لو آرام گاہ اور ہے۔
۶۵ رضائے الٰہی کے طالب بنو اس کی طاعت اختیار کرو اور اس کی فرمانبرداری بجا لا کر جنّت کی طرف بڑھو۔
۶۶ یعنی جنّت کا عرض ایسا ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے ورق ملا کر باہم ملا دیئے جائیں تو جتنے وہ ہوں اتنا جنّت کا عرض پھر طول کی کیا انتہا۔
۶۷ قحط کی، امساکِ باراں کی، عدم پیداوار کی، پھلوں کی کمی کی، کھیتیوں کے تباہ ہونے کی۔
۶۸ امراض کی اور اولاد کے غموں کی۔
۷۰ یعنی زمین کو یا جانوں کو یا مصیبت کو۔
۷۱ یعنی ان امور کا باوجود کثرت کے لوح میں ثبت فرمانا۔
۷۴ دنیا کا مال و و متاع۔ اور یہ سمجھ لو کہ جو اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا ہے ضرور ہونا ہے نہ غم کرنے سے کوئی ضائع شدہ چیز واپس مل سکتی ہیں، نہ فنا ہونے والی چیز اترانے کے لائق ہے تو چاہئے کہ خوشی کی جگہ شکر اور غم کی جگہ صبر اختیار کرو۔ غم سے مراد یہاں انسان کی وہ حالت ہے جس میں صبر اور رضا بقضائے الٰہی اور امیدِ ثواب باقی نہ رہے۔ اور خوشی سے وہ اترانا مراد ہے جس میں مست ہو کر آدمی شکر سے غافل ہو جائے۔ اور وہ غم و رنج جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہو اور اس کی رضا پر راضی ہو ایسے ہی وہ خوشی جس پر حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو ممنوع نہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے فرزندِ آدم کسی چیز کے فقدان پر کیوں غم کرتا ہے یہ اس کو تیرے پاس واپس نہ لائے گا اور کسی موجود چیز پر کیوں اتراتا ہے موت اس کو تیرے ہاتھ میں نہ چھوڑ ے گی۔
۷۵ اور راہِ خدا اور امورِ خیر میں خرچ نہ کریں اور حقوقِ مالیہ کی ادا سے قاصر رہیں۔
۷۶ اسکی تفسیر میں مفسّرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ یہود کے حال کا بیان ہے، اور بُخل سے مراد ان کا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ان اوصاف کو چھُپانا ہے جو کُتُبِ سابقہ میں مذکور تھے۔
۷۷ ایمان سے یا مال خرچ کرنے سے یا خدا اور رسول کی فرمانبرداری سے۔
۷۸ احکام و شرائع کی بیان کرنے والی۔
۷۹ ترازو سے مراد عدل ہے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے عدل کا حکم دیا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ترازو سے وزن کا آلہ ہی مراد ہے۔ مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پاس ترازو لائے اور فرمایا کہ اپنی قوم کو حکم دیجئے کہ اس سے وزن کریں۔
۸۰ اور کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے۔
۸۱ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ اتارنا یہاں پیدا کرنے کے معنیٰ میں ہے مراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے معادن سے نکالا اور انہیں اس کی صنعت کا علم دیا اور یہ بھی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار بابرکت چیزیں آسمان سے زمین کی طرف اتاریں(۱) لوہا(۲) آ گ(۳) پانی(۴) نمک۔
۸۲ اور نہایت قوّت کہ اس سے اسلحہ اور آلاتِ جنگ بنائے جاتے ہیں۔
۸۳ کہ صنعتوں اور حرفتوں میں وہ بہت کام آتا ہے، خلاصہ یہ کہ ہم نے رسولوں کو بھیجا اور ان کے ساتھ ان چیزوں کو نازل فرمایا کہ لوگ حق و عدل کا معاملہ کریں۔
۸۵ اس کو کسی کی مدد درکار نہیں دِین کی مدد کرنے کا جو حکم دیا گیا یہ انہیں لوگوں کے نفع کے لئے ہے۔
۸۶ یعنی توریت و انجیل و زبور اور قرآن۔
۸۷ یعنی ان کی ذرّیت میں جن میں نبی اور کتابیں بھیجیں۔
۸۸ یعنی نوح و ابراہیم علیہما السلام کے بعد تا زمانۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یکے بعد دیگرے۔
۸۹ کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبّت و شفقت رکھتے۔
۹۰ پہاڑوں اور غاروں اور تنہا مکانوں میں خلوت نشین ہونا اور صومعہ بنانا اور اہلِ دنیا سے مخالطت ترک کرنا اور عبادتوں میں اپنے اوپر زائد مشقّتیں بڑھا لینا، تارک ہو جانا، نکاح نہ کرنا، نہایت موٹے کپڑے پہننا، ادنیٰ غذا نہایت کم مقدار میں کھانا۔
۹۱ بلکہ اس کو ضائع کر دیا اور تثلیث و اتحاد میں مبتلا ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دِین سے کفر کر کے اپنے بادشاہوں کے دِین میں داخل ہوئے اور کچھ لوگ ان میں سے دِینِ مسیحی پر قائم اور ثابت بھی رہے اور جب زمانۂ پاک حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پایا تو حضور پر بھی ایمان لائے۔
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدعت یعنی دِین میں کسی بات کا نکالنا اگر وہ بات نیک ہو اور اس سے رضائے الٰہی مقصود ہو تو بہتر ہے، اس پر ثواب ملتا ہے، اور اس کو جاری رکھنا چاہئے ایسی بدعت کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں البتہ دِین میں بُری بات نکالنا بدعتِ سیّئہ کہلاتا ہے، وہ ممنوع اور ناجائز ہے اور بدعتِ سیّئہ حدیث شریف میں وہ بتائی گئی ہے جو خلافِ سنّت ہو اس کے نکالنے سے کوئی سنّت اٹھ جائے اس سے ہزار ہا مسائل کا فیصلہ ہو جاتا ہے جن میں آج کل لوگ اختلاف کرتے ہیں اور اپنی ہوائے نفسانی سے ایسے امورِ خیر کو بدعت بتا کر منع کرتے ہیں جن سے دِین کی تقویّت و تائید ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اخروی فوائد پہنچتے ہیں اور وہ طاعات و عبادات میں ذوق و شوق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ایسے امور کو بدعت بتانا قرآنِ مجید کی اس آیت کے صریح خلاف ہے۔
۹۳ جنہوں نے رہبانیّت کو ترک کیا اور دِینِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منحرف ہو گئے۔
۹۴ حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ پر علیہما السلام۔ یہ خطاب اہلِ کتاب کو ہی ان سے فرمایا جاتا ہے۔
۹۵ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔
۹۶ یعنی تمہیں دونا اجر دے گا کیونکہ تم پہلی کتاب اور پہلے نبی پر بھی ایمان لائے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور قرآنِ پاک پر بھی۔
۹۸ وہ اس میں سے کچھ نہیں پا سکتے نہ دونا اجر، نہ نور، نہ مغفرت کیونکہ وہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان نہ لائے تو ان کا پہلے انبیاء پر ایمان لانا بھی مفید نہ ہو گا۔ شانِ نزول : جب اوپر کی آیت نازل ہوئی اور اس میں مومنینِ اہلِ کتاب کو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اوپر ایمان لانے پر دونے اجر کا وعدہ دیا گیا تو کفّارِ اہلِ کتاب نے کہا اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائیں تو دونا اجر ملے اور اگر نہ لائیں تو ایک اجر جب بھی رہے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے اس خیال کا ابطال کر دیا گیا۔